-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Thursday 19 May 2016

علماءِ حق، ورثۃ الانبیاءؑ، علماءِ اہلسنت والجماعت احناف کا شجرہ وسند

شجرہ ڈاؤنلود کرنے کے لئے یہاں کلک کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم
لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَاعْلَمْ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ} فَبَدَأَ بِالْعِلْمِ، وَأَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ- وَرَّثُوا الْعِلْمَ- مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِوَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ: {إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ} وَقَالَ: {وَمَا يَعْقِلُهَا إِلاَّ الْعَالِمُونَ}، {وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ}وَقَالَ: {هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ}وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ»۔رسول اﷲﷺ نے ارشادفرمایا: ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور (دوسری جگہ) فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟   (صحيح البخاری :كتاب العلم،بَابُ الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ، رقم الحديث ۶۷)
آج کل کے عام مسلمانوں کا دینی معاملات میں رائے دینا اور اپنی ناقص عقل کو استعمال کرتے ہوئے قرآن و سنت کی منمانی تشریح کرنا عام ہوگیا ہے۔ یہ وہ مہلک بیماری ہے جو انسان کے تمام نیک اعمال کی بربادی اور آخرت کے خسارے کی موجب ہے۔ چند سال پہلے تک تو معاملہ کچھ یوں تھا کہ کوئی صاحب کسی کتب خانے سے کوئی اردو تفسیر یا کتب حدیث کا اردو ترجمہ خرید لاتے اور اپنے فہم کے مطابق سمجھنا شروع کردیتے۔ اس وقت ایسے افراد کی تعداد بہت کم تھی، لیکن اب یہ تمام مواد اردو اور انگلش سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ نوجوان گوگل پر ہر مسئلہ سرچ کرتے ہیں اور جواب میں کوئی آیت مبارکہ یا حدیث شریف پاکر اس پر عمل شروع کردیتے ہیں اورخود کو قرآن و سنت کا پابند اور دوسروں کو مُشرک اور گمراہ سمجھنے لگتے ہیں۔ ساتھ ہی خوش ہوتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیت مبارکہ یا حدیث شریف پر عمل کرنے کا موقع ملا، لیکن اس میں برائی یہ ہے کہ اس آیت یا حدیث کو وہ اپنی ناقص عقل اور فہم کے مطابق سمجھتے ہیں۔ اس کے ظاہری معنیٰ و مطلب کو لے کر عمل شروع کردیتے ہیں۔ علمائے دین سے رابطہ کرنے کو ضروری ہی نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ علمائے دین کے پاس ہی ان آیات اور احادیث کا صحیح معنیٰ اور مفہوم موجود ہوتا ہے، کیوں کہ سلف صالحین نے اپنی کتابوں میں سب کچھ نہیں لکھ دیا۔ یہ کتابیں تو صرف ان مبارک کلمات کو محفوظ کرنے کے لیے لکھی گئیں۔ ان مبارک کلمات کی تشریح اور وضاحت تو چودہ سو سال سے علمائے امت کے سینوں میں ہے، جو وہ اُن سچی طلب والوں کو بتاتے ہیں جو اُن کے سامنے دو زانو بیٹھیں اور حصولِ علم کے آداب بجا لائیں۔
علمائے دین انبیائے کرام علیھم السلام کے وارث کس طرح ہیں؟
جس طرح کسی کے سید، صدیقی، فاروقی، عثمانی یا علوی ہونے کے لیے اس کا ایک شجرہ نسب محفوظ ہوتا ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ احتیاط کے ساتھ ہر عالم کے پاس اس کے حاصل کردہ تمام علوم کی سندیں محفوظ ہوتی ہیں، جو اس کے استاذ سے شروع ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس محفوظ علمی نسب کی وجہ سے ہی یہ علمائے دین انبیائے کرام علیھم السلام کے وارث کہلاتے ہیں اور ظاہر ہے میراث پر وارث کا جو حق ہوتا ہے وہ کسی منصف مزاج ذی شعور انسان سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس موروثی حق میں کسی دوسرے کو شرعاً و اخلاقاً یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ اس سے جھگڑا کرے اور اسے یہ کہے کہ تم کون ہوتے ہو اس پر اپنا حق جتلانے والے۔ان علمی اسانید کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی سلف صالحین نے بڑی محنت سے ایک علم وضع کیا ہے جسے ’’فہارس، اثبات اور مشیخات‘‘ کا علم کہتے ہیں۔ اس علم کے ذریعے چودہ سو سال سے امت کی تمام علمی سندیں محفوظ ہیں۔ ذیل میں ہم ایک مثال کے ذریعے ان علمی سندوں پر روشنی ڈال رہے ہیں، تاکہ ہم مسلمانوں کو معلوم ہو کہ کس طرح یہ دین کتابوں سے زیادہ سینہ در سینہ ہم تک پہنچا ہے! اور علمائے دین کے پاس کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر ہر علم کی سند محفوظ ہے۔
یہ سند علماءِ حق فقہاءِ احناف اور’’امام اعظم فی الفقہاء سیدناامام ابو حنیفہ تا بعی نعمان بن ثابت رحمہ اللہ (المتوفی سنة: ۱۵۰ھ)‘‘ کی سند ہے۔ اس سندکی ابتداءسیدنا ومولانا وقدوتنا ونبینا وحبیبنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ پر ہو رہی ہے اور انتہاء اس زمانے کی برکت، نمونۂ سلف، شیخ الاسلام حضرت مفتی طارق مسعودحفظہ اللہ پرہو رہی ہے۔
مشہور تابعی وکوفہ کے مفتی امام أبو عائشة مسروق بن الأجدع الوادعی (المتوفی سنة: ۶۲ھ) فرماتے ہیں: ’’میں صحابہؓ کی صحبت میں رہا۔ ان کے علوم کا مجموعہ چھ صحابہ تھے: حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت زیدبن ثابت، حضرت ابوالدرداء، اورحضرت ابی بن کعب رضی اﷲعنھم، اوران چھ کے جامع حضرت علیؓ اورحضرت ابن مسعودؓتھے‘‘۔
کوفہ میں علم دین کی اشاعت حضرت علقمہ، حضرت اسود، حضرت عمروبن شرجیل اورحضرت شریح رحمھم اﷲجیسے کبارتابعین سے ہوئی اوریہ تمام حضرت علی اورحضرت ابن مسعودرضی ا ﷲعنہم کے شاگردتھے۔ اس طبقہ کے بعدان کے تلامذہ ابراہیم نحعیؒ، امام شعبیؒ اورابن جبیرؒہوئے۔ ان کے بعدحمادبن ابی سلیمانؒ، سلیمان بن المعتمؒ، سلیمان الاعمشؒ اورمسعربن کدامؒ ہوئے۔ ان کے بعدشریک ؒ، محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰؒ، سفیان ثوریؒ اورامام ابوحنیفہؒ ہوئے۔ ان کے بعداصحاب ابی حنیفہؒ مثلاً حفص بن غیاثؒ، امام وکیعؒ، امام ابویوسفؒ، امام زفرؒ، حمادبن ابی حنیفہؒ، حسن بن زیادؒ اورامام محمد بن حسن شیبانیؒ علوم کے وارث ہوئےاوراسی روشنی میں فقہ حنفی کی تاسیس ہوئی۔
وارث الانبیاء  کرام علیھم السلامعلماءِحق اہلسنت والجماعت (احناف) کا شجرہ نسب
امام الانبیاءوخاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰﷺ
حضرت عبدالله بن مسعود رضی اﷲ عنہ(متوفی: ۳۲ھ)
حضرت علقمہ بن قیس الکوفی رحمہ اﷲ (متوفی:۶۲ھ)
حضرت الاسودبن عبد الرحمٰن رحمہ اﷲ(متوفی:۷۰ھ)
قاضی شریح رحمہ اللہ (متوفی:۷۷ھ)
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (متوفی:۹۶ھ)
ابو عمرو علامہ شعبی رحمہ اللہ (متوفی:۱۰۳ھ)
حمادبن ابی سلیمان الکوفیرحمہ اللہ (متوفی:۱۲۰ھ)
امام اعظم  فی الفقہاء  سیدنا امام ابوحنیفہ تا بعی نعمان بن ثابت رحمہ اللہ(متوفی: ۱۵۰ھ)
۱امام ابویوسف رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۲ھ)
۲امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۹ھ)
۳زفر بن ہذیل رحمہ اللہ  (متوفی:۱۵۸ھ)
۴مالک بن مغول رحمہ اللہ  (متوفی:۱۵۹ھ)
۵داؤد طائی رحمہ اللہ (متوفی:۱۶۰ھ)
۶مندل بن علی رحمہ اللہ  (متوفی:۱۶۸ھ)
۷نصر بن عبدالکریم رحمہ اللہ  (متوفی:۱۶۹ھ)
۸- عمرو بن میمون رحمہ اللہ  (متوفی:۱۷۱ھ)
۹-  حبان بن علی رحمہ اللہ  (متوفی:۱۷۲ھ)
۱۰ابو عصمہ رحمہ اللہ (متوفی:۱۷۳ھ)
۱۱- زہیر بن معاویہ رحمہ اللہ  (متوفی:۱۷۳ھ)
۱۲قاسم بن معن رحمہ اللہ (متوفی:۱۷۵ھ)
۱۳حماد بن ابی حنیفہ رحمہ اللہ  (متوفی:۱۷۶ھ)
۱۴ہیاج بن بطام رحمہ اللہ  (متوفی:۱۷۷ھ)
۱۵شریک بن عبداللہ رحمہ اللہ  (متوفی:۱۷۸ھ)
۱۶عافیہ بن یزید رحمہ اللہ  (متوفی:۱۸۱ھ)
۱۷- عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ  (متوفی:۱۸۱ھ)
۱۸نوح بن دراج رحمہ اللہ  (متوفی:۱۸۲ھ)
۱۹ہشیم بن بشیر سلمی رحمہ اللہ  (متوفی:۱۸۳ھ)
۲۰ابوسعید یحییٰ بن زکریا رحمہ اللہ  (متوفی:۱۸۴ھ)
۲۱فضیل بن عیاض رحمہ اللہ  (متوفی:۱۸۷ھ)
۲۲اسد بن عمرو رحمہ اللہ  (متوفی:۱۸۸ھ)
۲۳علی بن مسہر رحمہ اللہ  (متوفی:۱۸۹ھ)
۲۴یوسف بن خالد رحمہ اللہ  (متوفی:۱۸۹ھ)
۲۵عبداللہ بن ادریس رحمہ اللہ  (متوفی:۱۹۲ھ)
۲۶فضل بن موسیٰ رحمہ اللہ  (متوفی:۱۹۲ھ)
۲۷حفص بن غیاث رحمہ اللہ  (متوفی:۱۹۴ھ)
۲۸ہشام بن یوسف رحمہ اللہ (متوفی:۱۹۷ھ)
۲۹وکیع بن جراح رحمہ اللہ  (متوفی:۱۹۷ھ)
۳۰یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ  (متوفی:۱۹۸ھ)
۳۱شعیب بن اسحاق رحمہ اللہ  (متوفی:۱۹۸ھ)
۳۲ابوحفص بن عبدالرحمن رحمہ اللہ  (متوفی:۱۹۹ھ)
۳۳ابومطیع بلخی رحمہ اللہ  (متوفی:۱۹۹ھ)
۳۴خالد بن سلیمان رحمہ اللہ  (متوفی:۱۹۹ھ)
۳۵أبی بكر ابراہیم بن رستم المروزی رحمہ اﷲ (متوفی:۲۰۱ھ)
۳۶عبدالحمید رحمہ اللہ  (متوفی:۲۰۳ھ)
۳۷حسن بن زیاد رحمہ اللہ  (متوفی:۲۰۴ھ)
۳۸ابوعاصم النبیل رحمہ اللہ  (متوفی:۲۱۲ھ)
۳۹مکی بن ابراہیم رحمہ اللہ  (متوفی:۲۱۵ھ)
۴۰حماد بن دلیل رحمہ اللہ  (متوفی:۲۱۵ھ)
۴۱بشیربن ولید بن خالدبن ولیدالکندیرحمہ اﷲ(متوفی:۲۳۸ھ)
۴۲بکر بن علاقشیری رحمہ اللہ (متوفی:۳۱۴ھ)
۴۳امام ابوالحسن عبداللہ بن حسن کرخی رحمہ اللہ(متوفی:۲۶۰۔۳۴۰ھ)
۴۴- علی بن ابی جعفر احمد بن محمد بن سلامہ ابوالحسن الطحاوی رحمہ اللہ (متوفی:۳۵۱ ھ)
۴۵ابوجعفر محمدبن عبداللہ بلخی ھندوانی رحمہ اللہ (متوفی:۳۶۲ھ)
۴۶ابوبکر بن عبداللہ المعیطی رحمہ اللہ (متوفی:۳۶۷ھ)
۴۷ابوبکر رازی الجصاص رحمہ اللہ  (متوفی: ۳۷۰ھ)
۴۸امام الھدیٰ نصر بن محمدابواللیث،سمرقندی رحمہ اللہ (متوفی:۳۷۳ھ)
۴۹یوسف بن عمر بن عبدالبر رحمہ اللہ (متوفی:۳۸۰ھ)
۵۰ابو محمد عبداللہ بن اُبی زید قیروانی رحمہ اللہ (متوفی:۳۸۶ھ)
۵۱ابوبکر محمد بن عبداللہ أبھری رحمہ اللہ (متوفی:۳۹۵ھ)
۵۲ابوعبداللہ یوسف بن محمد جرجانی رحمہ اللہ (متوفی: ۳۹۸ھ)
۵۳ابو زید عبداللہ دبوسی،سمرقندی رحمہ اللہ (متوفی:۴۰۰ھ)
۵۴شمس الائمہ عبدالعزیز حلوانی رحمہ اللہ(متوفی:۴۱۸ھ)
۵۵قاضی عبدالوھاب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی:۴۲۲ھ)
۵۶ابوالحسن احمد قدوری رحمہ اللہ (متوفی: ۴۲۷ھ)
۵۷ابوبکر خواہر زادہ بخاری رحمہ اللہ (متوفی:۴۳۳ھ)
۵۸ابوعبداللہ حسین صیمری رحمہ اللہ (متوفی:۴۳۶ھ)
۵۹ابوالقاسم عبدالرحمن حضرمی رحمہ اللہ (متوفی:۴۴۰ھ)
۶۰ابوعبداللہ محمد بن علی دامغانی رحمہ اللہ (متوفی:۴۰۰ھ۔۴۷۸ھ)
۶۱صاحب المبسوط سرخسی شمس الائمہ محمد بن احمد رحمہ اللہ (متوفی:۴۸۳ھ)
۶۲ بزدوی علی بن محمد رحمہ اللہ  (متوفی:۴۸۳ھ)
۶۳ابوالولید سلیمان باجی رحمہ اللہ(متوفی:۴۹۴ھ)
۶۴زربخری شمس الائمہ بکر بن محمد رحمہ اللہ (متوفی:۴۲۷۔ ۵۱۲ھ)
۶۵ابوالولید محمدبن رشد قرطبی رحمہ اللہ (متوفی:۵۲۵ھ)
۶۶ابو عبداللہ محمد تمیمی رحمہ اللہ (متوفی:۵۲۶ھ)
۶۷ظہیر الدین عبدالرشید والوالجی رحمہ اللہ (متوفی:۵۴۰ھ)
۶۸ابوالفضل قاضی عیاضی رحمہ اللہ (متوفی:۵۴۱ھ)
۶۹طاہر بن احمد بخاری رحمہ اللہ (متوفی:۵۴۲ھ)
۷۰ابو اسحاق ابراہیم بن اسماعیل صفار رحمہ اللہ (متوفی:۵۷۴ھ)
۷۱کاسانی ملک العلماء ابوبکر ابن مسعود رحمہ اللہ(متوفی:۵۸۷ھ)
۷۲فخرالدین حسن اوز جندی قاضی خان رحمہ اللہ (متوفی:۵۹۲ھ)
۷۳علی ابن ابی بکر مرغینانی رحمہ اللہ صاحب ہدایہ (متوفی:۵۹۳ھ)
۷۴- امام حسام الدین علی بن احمد مکی رحمہ اللہ  (متوفی :۵۹۸ھ)
۷۵عبداللہ بن نجم سعدی رحمہ اللہ (متوفی:۶۱۰ھ)
۷۶- ابو البرکات عبداللہ بن احمدنسفی رحمہ اللہ (متوفی:۷۱۰ھ)
۷۷- ابومحمدعثمان فخرالدین زیلعی رحمہ اللہ (متوفی:۷۴۳ھ)
۷۸محمدبن عبد الواحد کمال الدین ابن ھمام رحمہ اللہ (متوفی:۷۶۱ھ)
۷۹محمدبن احمد بدرالدین عینی رحمہ اللہ (متوفی: ۸۵۵ھ)
۸۰حضرت خواجہ سالار انصاری رحمہ اللہ (متوفی: ۸۶۶ھ)
۸۱شمس الدین محمدبن امیرالحاج حلبی رحمہ اللہ (متوفی:۸۷۹ھ)
۸۲حافظ سیف الدین قطلوبغا رحمہ اللہ (متوفی:۷۹۸۔۸۸۱ھ)
۸۳- حضرت مولانا عبد الکریم قدسی رحمہ اللہ (متوفی:۹۰۹ھ)
۸۴ حضرت مولانا عبد العزیزصاحب رحمہ اللہ (متوفی:۹۱۶ھ)
۸۵حضرت مولانا عبد الرزاق رحمہ اللہ (متوفی :۹۲۴ھ)
۸۶زین العابدین ابن نجیم مصری رحمہ اللہ (متوفی:۹۶۹ھ)
۸۷حضرت شاہ عبد القدوس گنگوہی رحمہ اللہ (متوفی :۹۴۴ ھ   یا   ۹۴۵ھ)
۸۸حضرت شیخ رکن الدین گنگوہی رحمہ اللہ (متوفی :۹۸۳ھ)
۸۹حضرت شیخ مصطفیٰ رحمہ اللہ (متوفی :۱۰۰۰ھ)
۹۰عمر بن ابراہیم ابن نجیم، صاحب النہرالفائق رحمہ اللہ (متوفی:۱۰۰۵ھ)
۹۱مفتی وجیہ الدین گوپامؤی رحمہ اللہ (متوفی:۱۰۰۵ھ)
۹۲سراج الہند حضرت مولانا شاہ بدیع الدین رحمہ اللہ (متوفی :۱۰۴۲ھ)
۹۳مولانا محمد جمیل جونپوری رحمہ اللہ (متوفی:۱۰۵۵ھ)
۹۴حضرت صادق گنگوہی رحمہ اللہ (متوفی :۱۰۳۶ھ  یا  ۱۰۵۸ھ)
۹۵حضرت شاہ عبدالسبحان صبحی رحمہ اللہ (متوفی :۱۰۸۹ھ)
۹۶امام الہند، رئیس المحدثین شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۱۷۵ھ)
۹۷شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۳۹ھ)
۹۸-  حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۴۶ھ)
۹۹- محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۹۷ھ)
۱۰۰حضرت مولانا فیض الحسن صاحب رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۰۴ھ)
۱۰۱مولا رشید احمد گنگوھی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۲۲ھ)
۱۰۲-  شيخ الہند مولانا محمود الحسن الدّيوبندی رحمہ اللہ(متوفی :۱۳۳۹ھ)
۱۰۳حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ(متوفی :۱۳۵۲ھ)
۱۰۴-  مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۶۱ھ)
۱۰۵-  سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۸۰ھ)
۱۰۶- مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۹۴ھ)
۱۰۷- مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۹۵ھ)
۱۰۸-  مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۴۲۲ھ)
۱۰۹-  مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم (پیدائش:۱۳۶۱ھ)
۱۱۰-  مفتی طارق مسعود دامت برکاتہم (پیدائش:۱۳۹۴ھ) 
وارث الانبیاء کرام ؑعلماء ِحق اہلسنت والجماعت (احناف) سےصحیح بخاری کی سند
حضرت مفتی طارق مسعود صاحب، استاذ جامعۃ الرشید:
مفتی طارق مسعود صاحب (پیدائش:۱۳۹۴ھ)،استاذ جامعۃ الرشید، شاگرد حضرت مفتی رشید احمدلدھیانویؒ:
مفتی محمد تقی عثمانی (پیدائش:۱۳۶۱ھ)،نائب رئیس مجمع الفقہ الاسلامی جِدَّہ اور نائب رئیس جامعہ دار العلوم کراچی’’صحیح بخاری‘‘ اوّل سے آخرتک روایت کرتے ہیں:
فقیہ العصر، مربی المجاہدین مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ(متوفی :۱۴۲۲ھ)  سے، وہ روایت کرتے ہیں:
 شیخ العرب والعجم، امام الہند، مجاہدِ ملت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۷۷ھ)سے، وہ روایت کرتے ہیں:
مجاہدِ تحریکِ خلافت و ریشمی رومال، شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۳۹ھ) سے، وہ روایت کرتے ہیں:
قاسم العلوم و الخیرات، مجاہدِ جنگِ آزادی مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۹۷ھ) اور فقیہ العصر، مجاہدِ جنگ آزادی مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۲۲ھ) سے، وہ دونوں روایت کرتے ہیں:
محدث العصر شاہ عبد الغنی مجددی دہلوی ثم مدنی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۹۶ھ)سے، وہ روایت کرتے ہیں:
محدث العصر شاہ اسحاق دہلوی ثم مکی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۶۲ھ) اور اپنے والد شیخ ابو سعید عمری دہلوی سے، وہ دونوں روایت کرتے ہیں:
محدث العصر شاہ عبد العزیز دہلوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۳۹ھ) سے، وہ روایت کرتے ہیں:
امام الھند، رئیس المحدثین شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۱۷۵ھ)سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم کردی مدنی رحمہ اللہ سے۔ وہ روایت کرتے ہیں اپنے والد:
شیخ ابو العرفان ابراہیم بن حسن کردی مدنی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ احمد بن محمد قُشَاشی دِجانی ثم مدنی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو المواہب احمد بن عبد القدوس شَنَّاوی مصری ثم مدنی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ شمس الدین محمد بن احمد رَمْلی مصری رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ الاسلام زین الدین زکریا بن محمد انصاری قاہری مصری رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ الاسلام محمدبن احمد بدرالدین عینی رحمہ اللہ (متوفی: ۸۵۵ھ) (مؤلف عمدة القاری شرح بخاری) سے،وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابراہیم بن احمد تَنُوخی دِمَشقی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو العباس احمد بن ابی طالب حَجَّار صالحی دِمَشقی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
سراج الدین حسن بن مبارک زَبیدی بغدادی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو الوقت عبد الاوّل بن عیسی سِجْزی ھَرَوی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو الحسن عبد الرحمن بن مظفر داودی بُوشَنْجی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو محمد عبد اللہ بن احمد سَرَخْسی حَمَوی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو عبد اللہ محمد بن یوسف فِرَبْری رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
مؤلف ’’صحیح بخاری‘‘ امیر المؤمنین فی الحدیث ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری جعفی رحمہ اللہ سے۔
آگے امام بخاری کی ہر حدیث الگ الگ سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے، مثال کے طور پر ’’صحیح بخاری‘‘ کی پہلی حدیث:
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ "إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ"۔‏‏امام بخاری فرماتے ہیں: ہمیں بیان کیا حمیدی (عبد اللہ بن زبیر) نے، وہ فرماتے ہیں: ہمیں بیان کیا سفیان (بن عیینہ تابعی) نے، وہ فرماتے ہیں: ہمیں روایت کیا یحیی ٰ بن سعید انصاری (تابعی) نے، وہ فرماتے ہیں: مجھے بیان کیا محمد بن ابراہیم تمیمی (تابعی) نے، کہ انھوں نے علقمہ بن وقاص لیثی (تابعی) کو کہتے سنا کہ وہ فرما رہے تھے، میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ وہ فرما رہے تھے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے۔ پس جس کی ہجرت دنیا پانے کے لیے ہو یا  کسی عورت سے نکاح کے لیے، تو اس کی ہجرت اسی جانب ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی‘‘۔ (صحیح بخاری: جلد نمبر ۱، حدیث نمبر ۱)
اسی طرح امام بخاری کی باقی احادیث متصل سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہیں۔
یہ ایک مثال ہے جس سے ہر ذی شعور مسلمان بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ ’’مستند عالم‘‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے اور دین اسلام میں قرآن و سنت کی تشریح کی اتھارٹی کس وجہ سے علمائے دین کے پاس ہے اور علمائے دین انبیائے کرام علیھم السلام کے وارث کیوں ہیں۔
اللہ تعالا ہمیں علمائے دین کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر ہم کسی عالم کے پاس بیٹھ کر ایک حدیث ہی پڑھ لیں تو سوچیں کہ کس طرح اس ایک حدیث میں ہمارا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی معنیٰ میں جڑ جائے گا۔
تمام غیرمقلدین  حضرات کو نعمان اقبال کا چیلنج
غیر مقلدین حضرات جو آج دین کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں اور دن رات بخاری بخاری کی رٹ لگاتے رہتےہیں اور آئمہ اربعہ کی تقلید کو چھوڑ کر دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم صرف رسول اﷲﷺ کی اتباع کرتے ہیں اور کسی کی تقلید نہیں کرتے۔ ایسے تمام غیر مقلدین حضرات کو میں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپناشجرہ و سند رسول اﷲﷺ تک ثابت کرکے دکھائیں جس طرح میں نے اپناشجرہ و سند ثابت کرکے دکھایاہے۔کیونکہ رسول اﷲﷺ نے ارشادفرمایا: وَأَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ- وَرَّثُوا الْعِلْمَ۔ اگرآپ رسول اﷲ ﷺ کے وارث ہیں تو اپناشجرہ و سند نبی ﷺ تک پیش کرکے ثابت کریں کے آپ کادعویٰ سچا ہے۔ میرادعویٰ ہے کہ قیامت تک آپ یہ ثابت نہیں کرسکتے۔