-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Friday 26 January 2024

تقلید کے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ وتعریفات

بسم الله الرحمن الرحیم
اکثرغیرمقلدین حضرات بلاکسی مستند دلیل وتفصیل کے تقلید اور اہل تقلیدکی مذمت کرتے ہیں جس سے بعض لاعلم لوگ خصوصاً خودان کے اپنے ہم مسلک عوام یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ تقلید مطلقاً بہت بُری چیز ہےاورمقلدین مشرک، بدعتی یاکم ازکم غلطی پراورگنہگارہیں۔ اس تحریر کا مقصد ایسے تمام لوگوں کی غلط فہمیوں کو دورکرنا اورمستند دلائل کے ساتھ حق کو واضح کرنا ہےتاکہ معتدل لوگوں تک حق بات پہنچاکران کی رہنمائی کی جائے اورمذاہب اربعہ(حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) جن کو اﷲتبارک وتعالیٰ نےپچھلے ۱۴۰۰ سالوں سے حق پرغالب رکھاہے، باطل اورمتعصب لوگوں سےان کا دفاع کیاجاسکے۔
تقلید کی تعریف کے سلسلے میں غیرمقلدین حضرات کا نہایت ہی احمقانہ مطالبہ اور اس کا مدلل جواب
تقلید کی تعریف میں موجودہ دور کے نہایت ہی احمق اورجاہل غیرمقلدین عوام ایک نیاءمطالبہ پیش کرتی ہے کہ ’’تقلید کی تعریف امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲسے پیش کرو‘‘۔
تقلید کی تعریف امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲسے ثابت کرنے کامطالبہ بالکل ایساہے جیسے کوئی منکرینِ حدیث (نام نہاد اہل قرآن) کسی منکرینِ فقہ(نام نہاد اہلحدیث) سے مطالبہ کرے کہ ’’حدیث کی تعریف رسول اﷲﷺ سے پیش کرو‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں سب سے پہلے الزامی جواب دینگے تاکہ ناقص العقل اوراحمق لوگوں کا منہ بند ہوسکے، اس کے بعد تحقیقی جواب پیش کیاجائے گا، تاکہ سمجھدار اورصاحب فہم لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔
الزامی جواب:
غیرمقلدین حضرات صبح شام بس ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم صرف اﷲاوراس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتےاورکسی کی تقلید نہیں کرتے۔ غیرمقلدین حضرات کے اس دعوے اور اصول کے تحت ہم ان سے چندمطالبات کرتے ہیں کہ:
۱۔ کیاکوئی غیرمقلداتباع و اطاعت کی تعریف قرآن وحدیث سے پیش کرسکتاہے؟
۲۔ کیا کوئی غیرمقلدحدیث کی تعریف رسول اﷲﷺسے پیش کرسکتاہے؟
۳۔ کیا کوئی غیرمقلدصحیح وضعیف حدیث کی تعریف رسول اﷲﷺسے ثابت کرسکتاہے؟
کوئی غیرمقلد حدیث اورصحیح وضعیف حدیث کی تعریف رسول اﷲﷺسے تو کیاامام بخاریؒ اورامام مسلمؒ سے بھی ثابت نہیں کرسکتاجبکہ یہ سب کے سب امام بخاریؒ اورامام مسلمؒ کو علم حدیث میں امام مانتے ہیں توپھر ہم سےامام ابوحنیفہؒ کی بیان کردہ تقلید کی تعریف کا مطالبہ کیوں؟
اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ’’جیسی دلیل کا تقاضہ تم ہم سے کرتے ہو، ویسی ہی دلیل تم ہمیں پیش کردو‘‘۔اوراگرویسی دلیل تم پیش نہیں کرسکتے توپھرہم سے ایسی دلیل کا تقاضہ کیوں کرتے ہو؟
یہ توتھاالزامی جواب جو ان لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس نہ علم ہے اور نہ ہی عقل و شعور۔ اس کے بعد میں تحقیقی جواب پیش کرتاہوں تاکہ ہرعاقل وباشعورمسلمان جو تھوڑی بہت بھی سمجھ بوجھ رکھتاہے، وہ بآسانی میری اس بات کوسمجھ سکے۔
تحقیقی جواب:
دنیامیں ہرفن وشعبے کے ماہرین ہوتےہیں، جیساکہ علم طب (یعنی میڈیکل )کے ماہرین کوڈاکٹرکہاجاتاہے، علم طبیعات (یعنی فزکس)اورعلم کیمیا(یعنی کیمسٹری)کے ماہرین کوانجنیئراورسائنسدان کہاجاتاہے۔ اب اگرکوئی احمق شخص یہ مطالبہ کرے کہ کسی انجنیئروسائنسدان سے یااس کی کتاب سے طب کی تعریف بیان کرو، یاپھریہ کہے کہ کسی ڈاکٹر یااس کی کتاب سےطبیعات اورکیمیاکی تعریفات ثابت کروتوایساشخص دنیاکا احمق اوربے وقوف ترین شخص کہلائےگا۔ اس لئے کے طب کی تعریف ڈاکٹرہی بتاسکتاہے انجنیئراورسائنسدان نہیں کیونکہ وہ علم طب کے ماہرین نہیں ہیں، باکل ایسے ہی طبیعات اورکیمیاکی تعریفات انجنیئراورسائنسدان ہی بتاسکتے ہیں ڈاکٹرنہیں کیونکہ ڈاکٹراس شعبے کا ماہرنہیں ہے۔
بالکل ایسے ہی علم دین میں بھی مختلف شعبہ جات ہیں، جیساکہ علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم اسماءالرجال، علم صرف ونحو، علم لغت۔ اب اگرکوئی احمق شخص یہ کہے کہ تفسیرکی تعریف امام بخاریؒ سے ثابت کرو، یاحدیث کی تعریف امام ابن کثیرؒ سے ثابت کرو، یاعلم فقہ کی تعریف امام یحییٰ ابن معینؒ سے پیش کرو، یاپھرعلم صرف ونحوکی تعریف امام ابوحنیفہؒ سے ثابت کرو، توایسا شخص بھی دنیاکااحمق اوربے وقوف ترین شخص ہی کہلائےگا۔ کیونکہ امام بخاریؒ علم حدیث کے امام ہیں علم تفسیرکے نہیں، امام ابن کثیرؒ علم تفسیرکے امام ہیں علم حدیث کے نہیں، امام یحییٰ ابن معینؒ علم اسماءالرجال میں امام ہیں علم فقہ میں نہیں، اسی طرح مشہورقول کے مطابق معاذبن مسلم الہراویؒ علم صرف ونحوکے امام ہیں علم لغت کےنہیں، لہٰذااگرکسی شخص کوتقلید کی تعریف معلوم کرنی ہوتواسے لغت کےاماموں کی طرف متوجہ ہونا پڑےگا۔
عہد نبوتﷺ اورخلافت راشدہ میں قرآنی الفاظ کی تفسیر اورغریب الحدیث کی شرح اورتوضیح کی بہت ضرورت تھی، لہٰذا ان میں ایسے عربی لغت دان موجود تھےجن سے یہ ضرورت پوری ہوجاتی تھی مثلاً: خلفاءاربعہ، حضرت زید بن ثابت، حضرت اُبی بن کعب، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوالدرداء، اورنامور اسلامی شعراء مثلاً: حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ، کعب بن زہیروغیرھم رضی اللہ عنہم اجمعین۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲعنہ سےمروی ہے: ’’وأخرج أبو بكر بن الأنباري في كتاب الوقف عن طريق عِكْرِمة عن ابن عباس قال: إذا سألتم عن شيء من غريب القرآن فالتمسوه في الشعر، فإن الشعر ديوان العرب‘‘۔ ’’شعر عربوں کادیوان ہے۔ جب قرآن کےکسی لفظ کامفہوم ہمیں معلوم نہ ہوتاہم اشعار کی طرف رجوع کرتے، جب قرآن کی کوئی بات سمجھ نہ آئے توشعروں میں تلاش کیجئے، کیونکہ اشعار عربی زبان میں ہیں‘‘۔ (اعراب القرآن الکریم وبیانہ: ج۴، ص۲۵۰، سورۃ النحل [۴۷-۴۳])
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲعنہ لغت میں بہت مہارت رکھتےتھے۔ وہ عربی نوادرات ومفرادات اور امثال وغیرہ سےبخوبی واقف تھےاوراسی مہارت کی بنیاد پرو ہ کلمات کی لغوی تشرح کرتے، ایک مرتبہ نافع بن ازرق اورنجدہ بن عویمر نےحضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ سےتفسیری مسائل دریافت کرنےکےلئےیہ شرط لگائی کہ ہرکلمہ کامفہوم عربی اشعارکی مدد سے واضح کریں توآپ نے یہ شرط پوری کردی۔گویا ابن عباس رضی اﷲعنہ اپنے عہد کی چلتی پھرتی کتاب لغت تھے تاہم لغت نگاری کےبانی مبانی حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ ہی ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ کےبعد ابان بن تغلب نےعربی لغت نویسی کی طرف خصوصی توجہ کی اور پھر ابوعبدالرحمٰن البصری الفراہیدیؒ(المتوفی ۱۷۰ھ)نےفن لغت میں پہلی شہر ہ آفاق کتاب’’کتاب العین‘‘کےنام سے لکھی جوکہ ایسی مایہ ناز تصنیف ہےجسے اصطلاحاً ’’عربی ڈکشنری‘‘کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے اسلوب میں پہلےشخص تھےجس نےبغیر کسی کی تقلید کیئے اس فن کاآغاز کیا۔ اسی لئے انہیں عربی لغت کاپہلاامام کہاجاتاہے، آپ ابوعمروبن العلاء کےشاگرد اورمشہور نحوی سیبویہ کےاستاد تھے، انتہائی ذہین، فطین، عابد،مجاہد تھے۔ ان کے بعد خلف الاحمر(المتوفی ۱۸۰ھ)، الکسائی (المتوفی ۱۸۹ھ)، ابن درید (المتوفی ۳۲۱ھ) جیسے لوگ شامل اس فن میں شامل ہوئے۔
ابونصر اسماعیل بن حماد الجوہریؒ (المتوفی۴۰۰ھ) جوکہ ترکستان کے باشندے تھے۔ انہوں نے فن لغت میں ’’الصحاح فی اللغۃ‘‘ نامی کتاب لکھ کرایسا کارنامہ انجام دیاجسے علماء کرام نے بہت پسند کیا۔ چنانچہ ثعلبیؒ کہتے ہیں: ’’الصحا ح، ابن درید کی الجمہرۃ فی اللغۃ اورابن فارس کی المجمل سےزیادہ بہترہے‘‘۔
علامہ جلال الدین سیوطی ﷫ کہتےہیں: ’’اولین لغت نویس جس نے لغت کی کتاب میں صحت کا التزام کیاوہ الجوہری ہے۔صحاح کولغتت کتب میں وہی درجہ حاصل ہےجوصحیح بخاری کوکتب حدیث میں ہے‘‘۔
ابونصر اسماعیل بن حماد الجوہری ؒکی اس کتاب کوعلماء نےہرزمانہ میں پسند کیا کیونکہ موصوف نےاس کتاب کو جدید اورآسان اسلوب میں مرتب کیا، اس کےقبول عام کی سب سےبڑی دلیل یہ ہےکہ کتب لغت میں جتنا اس کےساتھ اعتناء کیاگیا، شاید اتنا کسی اور کےساتھ نہیں کیاگیا مثلاً محمدبن ابی بکر بن عبادالقادرالرازیؒ (المتوفی ۶۶۰ھ) نے مختارالصحاح کےنام سے اس کاخلاصہ تیار کیا۔
اس کے بعد علامہ مجدالدین ابوطاہر محمدبن یعقوب الفیروز آبادیؒ (المتوفی۸۱۶ھ) نے القاموس کے نام سے ایک اورعظیم الشان کتاب لکھی جس نےلغت نویسی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی، ا س کی مقبولیت کااندازہ اس بات سےلگایا جاسکتاہےکہ مشہور عالم مرتضیٰ حسین الزبیدیؒ نے’’تاج العروس من جواہرالقاموس‘‘کےنام سے اس کی شرح لکھ کرکتب لغت میں ایک غظیم اضافہ کیا، یہ بھی مکمل طورپرچھپ چکی ہے، اورالقاموس الجدیدکےنام سے اردو تراجم بھی کئے جاچکے ہیں۔
ذیل میں ہم تقلیدکے معنیٰ ومفہوم اورتعریف  کوثابت کرنے کے لئے ان ہی کتابوں سے دلائل اورحوالہ جات پیش کریں گے، جن کو علماءوصلحا میں مقبولیت اورمقام حاصل ہے اورائمہ کرام ہردورمیں ان ہی کتب لغت سے استفادہ حاصل کرتے رہے ہیں۔
تقلید کی لغوی تعریف
تقلید کے لفظ کا مادہ "قلادہ" ہے۔ جب انسان کے گلے میں ڈالا جائے تو "ہار" کہلاتا ہے اور جب جانور کے گلے میں ڈالا جائے تو "پٹہ" کہلاتا ہے۔
تقلید کا مادہ "قلادہ" ہے، باب تفعیل سے "قلد قلادۃ" کے معنیٰ ہار پہننے کے ہیں۔ حضرت امام محمدبن اسمٰعیل البخاریؒ (متوفی ۲۵۶ھ) نے صحیح بخاری میں القلائداوراستعارۃ القلائدکے مستقل ابواب قائم کیئے ہیں جن میں ہارپہنے اورضرورت کے وقت عورتوں کاایک دوسرے سے ہار مانگنے کاتذکرہ ہے؛ چنانچہ خود حدیث میں بھی "قلادہ" کا لفظ "ہار" کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
’’حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلاَدَةً، فَهَلَكَتْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَاسًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي طَلَبِهَا، فَأَدْرَكَتْهُمُ الصَّلاَةُ فَصَلَّوْا بِغَيْرِ وُضُوءٍ، فَلَمَّا أَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم شَكَوْا ذَلِكَ إِلَيْهِ، فَنَزَلَتْ آيَةُ التَّيَمُّمِ‏.‏ فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ قَطُّ، إِلاَّ جَعَلَ لَكِ مِنْهُ مَخْرَجًا، وَجُعِلَ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ بَرَكَةٌ‏‘‘۔ ’’مجھ سے عبید بن اسمعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہانہوں نے (اپنی بہن) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریۃ ًلے لیا تھا، راستے میں وہ گم ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے کچھ آدمیوں کو اسے تلاش کرنے کے لئے بھیجا۔ تلاش کرتے ہوئے نماز کا وقت ہو گیا (اور پانی نہیں تھا) اس لئے انہوں نے وضو کے بغیر نماز پڑھی۔ پھر جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس ہوئے تو آپ کے سامنے یہ شکوہ کیا۔ اس پر تیمم کی آیت نازل ہوئی۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے عائشہ ! اللہ تمہیں بہتر بدلہ دے، واللہ ! جب بھی آپ پر کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے تم سے اسے دور کیا اور مزید برآ ں یہ کہ مسلمانوں کے لئے برکت اور بھلائی ہوئی‘‘۔ (صحیح البخاری: كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب اِسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا، رقم الحدیث ۴۷۶۶، شامله، موقع الإسلام)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: "اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً"۔ ’’انہوں نے حضرت اسماءؓ سے ہار عاریۃً لیا تھا‘‘۔ (بخاری، كِتَاب انِّكَاحِ،بَاب اسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا،حدیث نمبر:۴۷۶۶)
دوسری حدیث میں امی عائشہ رضی اﷲعنہ فرماتی ہیں:  "اِنْسَلَتْ قِلَادَةً لِی مَن عنقی فوقعت الحدیث"۔ ’’میراہار گردن سے سرک کر نیچے گرپڑا‘‘۔ (مسند احمد،ج ۶، ص۲۷۲؛ فتح الباری  شرح صحيح البخاری: ج۲)
’’حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ شِنْظِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ كَمُقَلِّدِ الْخَنَازِيرِ الْجَوْهَرَ وَاللُّؤْلُؤَ وَالذَّهَبَ"‘‘۔ ’’حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے؛ اور نااہل (بےقدر) لوگوں کے سامنے علم پیش کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جوسؤر کے گلے میں جواہرات، موتی اورسونےکےہار ڈالے‘‘۔ (سنن ابن ماجه: ج۱، کتاب السنۃ، أَبْوَابُ فِی فَضَائِلِ أَصَحَابِ رَسُولِ اللَّهِ، رقم الحدیث۲۲۴)
مندرجہ بالا حدیث سے اس بات کی دلیل ملتی ہے کہ ’’مقلد‘‘ کے معنیٰ ہار پہننے والے کے ہیں اور ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتاہے کہ یہ ہار خنزیروں کےگلے میں ڈالنے لائق نہیں ہوتا کیونکہ خنزیروں کو اس کی قدروقیمت معلوم نہیں ہوتی۔ ہم تو الحمداﷲخنزیرنہیں ہیں کیونکہ ہم نے تو یہ ہار خوشی سے پہنا ہواہے، لیکن جولوگ اس ہار کے پہننے کا انکار کرتے ہیں، ان بے قدرلوگوں کواس کی قدرمعلوم نہیں۔
کوئی غیرمقلد اس حدیث پر یہ اعتراض کرسکتاہے کہ اس حدیث کاایک راوی ’’حفص بن سلیمان‘‘ ضعیف ہے، لہٰذا یہ حدیث حجت وقابل استدلال نہیں۔
اس اعتراض کے جواب میں اوّل تو یہ کہاجائے گاکہ یہ حدیث فضائل کے باب میں ہے صفات باری تعالیٰ، احکامات اور حلال وحرام کے باب میں نہیں۔ لہٰذا اصول حدیث کی روسے یہ حدیث قابل حجت اورقابل استدلال ہے۔ دوسرا یہ کہ جب تک کسی ضعیف حدیث کے مقابلے میں صحیح حدیث موجود نہ ہوتب تک رائے اور قیاس سے بہترضعیف حدیث پرعمل کرناہے۔ اپنے اس مؤقف کی تائید میں دلیل کے طورپرفلحال اصول حدیث کے اصول، محدثین کے اقوال اورعلماءِغیرمقلدین کا ضعیف حدیث کے بارے میں اصول پیش خدمت ہیں۔
۱۔ امام نوویؒ نے اصول حدیث و اصول روایات کی کتاب میں لکھا ہے: ’’ويجوز عند أهل الحديث وغيرهم التساهل في الأسانيد ورواية ما سوى الموضوع من الضعيف، والعمل به من غير بيان ضعفه في غير صفات الله تعالى والأحكام كالحلال والحرام‘‘۔ ’’اہل حدیث کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل (نرمی) برتنا اور موضوع کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں کو روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا ان کا ضعف بیان کیے بغیر جائز ہے؛ مگر اللہ کی صفات اور حلال و حرام جیسے احکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا جائز نہیں‘‘۔ (تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: أنواع الحديث؛ النوع الثانی والعشرون المقلوب؛ شروط العمل بالأحاديث الضعيفة: ج۱، ص۳۵۰، ۴۵۵)
۲۔ امام نوویؒ کی الاربعین اور اس کی شرح فتح المبین لابن حجر المکی الہیثمی کے الفاظ میں: ’’قد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث فی فضائل الاعمال، لانہ ان کان صحیحاً فی نفس الامر، فقد اعطی حقہ، والا لم یترتب علی العمل بہ مفسدة تحلیل ولاتحریم، ولاضیاع حق الغیر‘‘۔ ’’ یعنی فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے، کیونکہ اگر وہ واقعتاً صحیح تھی تو اس کا حق اس کو مل گیا، ورنہ اس پر عمل کرنے سے نہ تو حرام کو حلال کرنا لازم آیا اور نہ اس کے برعکس اور نہ ہی کسی غیر کا حق پامال کرنا‘‘۔ (الاجوبة الفاضلة: ص۴۳)
۳۔ حافظ ابن حجر ؒنے مقدمہ فتح الباری میں ’’محمد بن عبد الرحمن الطُفاوی‘‘ راوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہےکہ: ’’قال ابو زرعة منکر الحدیث، واورد لہ ابن عدی عدة احادیث، قلت: لہ فی البخاری ثلاثة احادیث، لیس فیہا شئ مما استکرہ ابن عدی۔۔۔ ثالثہا فی الرقاق کن فی الدنیا کأنک غریب وہذا تفرد بہ الطفاوی، وہو من غرائب الصحیح، وکان البخاری لم یشدد فیہ، لکونہ من احادیث الترغیب والترہیب‘‘۔ ’’یہ حدیث صحیح بخاری کی غریب حدیثوں میں سے ہے۔ یعنی کن فی الدنیا کأنک غریب (بخاری کتاب الرقاق) حدیث کی روایت میں محمد بن عبد الرحمن الطفاوی منفرد ہے، شاید کہ امام بخاریؒ نے اس کے ساتھ تساہل کا معاملہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ ترغیب وترہیب کی حدیثوں میں سے ہے‘‘۔ (مقدمہ فتح الباری:ص۶۱۵)
۴۔ امام جلال الدین سیوطیؒ اپنی کتاب "التعقبات علی الموضوعات" میں اورامام على بن محمد بن عراق الكنانیؒ "تنزیہ الشریعۃ" میں لکھتے ہیں: ’’وقال: حنش ضعيف عند أهل الحديث والعمل على هذا عند أهل العلم، فأشار بهذا إلى أن الحديث اعتضد بقول أهل العلم، وقد صرح غير واحد بأن دليل صحة الحديث قول أهل العلم به، وإن لم يكن له إسناد يعتمد على مثله‘‘۔ ’’اور (امام ترمذیؒ)  نے کہا: اہل حدیث کے نزدیک (یہ حدیث) ضعیف ہے لیکن عمل ہے اسی پر اہل علم کا "بس یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ بیشک (ضعیف) حدیث اہل علم کے قول اور تعامل کے ساتھ حدیث ضعیف، ضعف سے نکل کر صحیح اور قابل عمل ہوجاتی ہے؛ اگرچہ اس کی اسناد لائق اعتماد نہ ہو، بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے"‘‘۔ (تنزیہ الشریعۃللکنانی: ج۲، ص۱۰۴)
۵۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ بھی فضائل وغیرہ میں ضعیف احادیث پر عمل کے مسئلہ میں فرماتے ہیں: ’’قال شيخ الإسلام رحمه الله: قول أحمد بن حنبل: إذا جاء الحلال والحرام شددنا في الأسانيد، وإذا جاء الترغيب والترهيب تساهلنا في الأسانيد، وكذلك ما عليه العلماء من العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال‘‘۔ ’’شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، امام احمدؒ کا قول نقل کرتے فرماتے ہیں کہ: جب حلال و حرام کی بات آئےگی تو اسانید (سندوں) کی جانچ پرکھ میں سختی سے کام لیں گے، اور جب ترغیب (نیکی کا شوق دلانے) اور ترہیب (برائی کا خوف دلانے) کی بات آئےگی تو ہم اسانید میں تساہل (نرمی) برتینگے، اسی طرح فضائل اعمال میں جس ضعیف حدیث کے عمل کرنے پر علماء ہیں‘‘۔ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ: ج۱۸، ص۶۵)
۶۔ امام ابوحنیفہؒ کا ارشادہے کہ ’’الخبر الضعیف عن رسول اللہ ا اولیٰ من القیاس، ولایحل القیاس مع وجودہ‘‘۔ ’’یعنی باب میں اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو قیاس نہ کرکے اس سے استدلال کیا جائے گا‘‘۔ (المحلیٰ لابن حزم: ج ۳، ص۱۶۱)
۷۔ غیرمقلد عالم مولاناثناءاللہ امرتسریؒ سے سوال کیا گیا کہ: ’’ضعیف حدیث کا معنیٰ کیا ہے، ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟‘‘ جواب میں کہتے ہیں: ’’ضعیف کے معنیٰ ہیں جس میں صحیح کی شرائط نہ پائی جائیں، وہ کئی قسم کی ہوتی ہے اگر اس کے مقابل میں صحیح نہیں ہے تو اس پر عمل کرنا جائز ہے۔ جیسے نماز کے شروع میں سبحالک اللھم الخ پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے مگر عمل ساری امت کرتی ہے‘‘۔ (فتاویٰ ثنائیہ :ج، ص ۵۰)
۸۔ ایسے ہی غیرمقلدین کے شیخ الکل مولانانذیر حسین دہلویؒ اپنی کتاب فتاویٰ نذیریہ میں لکھتےہیں: ’’ضعیف حدیث قابل عمل ہوتی ہے اور یہ کہ ضعیف حدیث کو موضوع نہیں کہنا چاہیئے ‘‘۔ (فتاویٰ نذیریہ:  ج ۳، ص۵)
۹۔ اسی طرح غیرمقلدعالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں:  ’’احادیثِ ضعیفہ در فضائل اعمال معمول بہا است‘‘ ۔ ’’احادیث ضعیفہ فضائل اعمال میں قابل قبول ہیں‘‘۔ (مسک الختام شرح بلوغ المرام، ص ۵۷۲)
۱۰۔ غیرمقلد عالم مولوی عبداللہ روپڑی صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ شب برات کے روزے والی حدیث ضعیف ہے، کیا روزہ رکھنا درست ہے؟ عبداللہ روپڑی صاحب نے جواب میں لکھا: ’’شبرات کا روزہ رکھنا افضل ہے چنانچہ مشکوٰۃ وغیرہ میں جو حدیث موجود ہے اگرچہ حدیث ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل درست ہے‘‘۔ (فتاویٰ اہل حدیث روپڑی: ج ۲،ص ۱۳۷، ۳۱۸)
۱۱۔ غیرمقلدعالم ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں: ’’اس امت کے علماءوفقہاءکااس بات پراتفاق اور اجماع ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پرعمل کیاجائےگا‘‘۔ (مقالات راشدیہ: ج۲، ص۳۴۸)
۱۲۔ مزید دلائل اور حوالہ جات کے لئے غیرمقلدعالم ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی کی کتاب مقالات راشدہ جلد نمبر۲کے صفحہ نمبر۳۴۸ سے ۳۵۵ تک کامطالعہ فرمائیں۔
اس طرح فرقہ غیرمقلدین کے مترجم جناب وحیدالزمان صدیقی اپنی حدیث کی لغت کی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’اَیُّمَا اِمْرَأۃء تَقَلَّدَتْ قَلَادَۃً‘‘۔ ’’جوعورت سونے کاہارپہنے‘‘۔ (لغات الحدیث: ج۲، ص۳۶)
علم لغت کے مشہورشیخ الامام علامہ محمد بن أبی بكر بن عبد القادر الرازی (متوفی ۶۶۰ھ) لکھتے ہیں: ’’(الْقِلَادَةُ) الَّتِي فِي الْعُنُقِ وَ (قَلَّدَهُ فَتَقَلَّدَ) وَمِنْهُ (التَّقْلِيدُ) فِي الدِّينِ وَتَقْلِيدُ الْوُلَاةِ الْأَعْمَالَ‘‘۔ ’’(الْقِلَادَةُ) ہار۔ جوگلے میں پہناجاتاہے۔ (قَلَّدَهُ فَتَقَلَّدَ): اس نے اسے ہار پہنایاتو اس نے پہن لیا۔ اسی سے لفظ تَّقْلِيدُ مشتق ہے۔ یعنی التَّقْلِيدُ فِي الدِّينِ: دین میں کسی شخص کی پیروی‘‘۔ (مختارالصحاح: ص ۴۸۲عربی؛ص ۷۵۸ اردو)
مشہورلغوی امام علامہ قرشیؒ فرماتے ہیں: "تقلید درگردن افگندن حمیل وغیرآن کَسے"۔ ’’تقلید کے معنیٰ کسی کے گلے میں ہار وغیرہ ڈالناہے‘‘۔ (صراح: ص۱۴۳، طبع مجیدی کانپور)
غیرمقلدین کے ہاں ’’قلاوۃ‘‘ کےمعنیٰ صرف پٹا ہی ہوگا۔ معاذ اللہ  کیونکہ ان کے ہاں تقلید کا بس یہی ایک معنیٰ ہے۔
مندرجہ بالادلائل کے باوجود بھی اگرکوئی غیرمقلدحسب عادت اپنی ضد اورہٹ دھرمی پرقائم رہتے ہوئےاس بات پربضد ہوکہ قلادہ کے معنیٰ گلے میں پٹہ یارسی ڈالنے کے ہیں تو درج ذیل حدیث اس کا منہ بندکرنے کےلیے یقیناًکافی ہوگی جس میں رسول اﷲﷺبیان فرماتے ہیں کہ:
’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ وَمَنْدَلٌ عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي جَهْمٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وَهْبَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏: "مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الإِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِهِ"‘‘۔ ’’جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے ایک بالشت بھر نکل گیا تو اس نے گویا اسلام کی رسی کواپنے گلے سے اتار پھینکا‘‘۔ (الجامع الترمذی: ج۳، كتاب السنة، باب فِي قَتْلِ الْخَوَارِجِ، رقم الحدیث ۴۷۵۸؛ (مشکاۃ المصابیح: ج۳، كتاب الإمارة والقضاء، الفصل الثاني، رقم الحدیث ۳۶۹۴، حکم صحح البانیؒ)
اصولین کے نزدیک تقلید کی اصطلاحی تعریف
۱۔ امام علی بن محمد الجرجانیؒ(المتوفی ۸۱۶ھ) فرماتے ہیں:”التَّقْلِيد: إتباع الْإِنْسَان غَيره فِيمَا يَقُول بقول أَو بِفعل مُعْتَقدًا للْحَقِيقَة فِيهِ من غير نظر وَتَأمل فِي الدَّلِيل۔۔۔۔۔۔۔ثمَّ اعْلَم أَن التَّقْلِيد على ضَرْبَيْنِ صَحِيح وفاسد“۔ ’’تقلید کہتے ہیں کہ انسان کسی کو حق پر سمجھتے ہوئے دلیل میں غور و خوص کئے بغیر قولاً و فعلاً اس کی پیروی کرے“۔ ” جاننا چاہئے کہ تقلید کی دو قسمیں ہیں تقلید صحیح اور تقلید فاسد“۔ (کتاب التعريفات للجرجانی:ص۹۰)
۲۔ حضرت مولانا قاضی محمداعلیٰ تھانویؒ تقلید کی تعریف یوں کرتے ہیں: ’’التقليد اتّباع الإنسان غيره فيما يقول أو يفعل معتقدا للحقية من غير نظر إلى الدليل، كأنّ هذا المتّبع جعل قول الغير أو فعله قلادة في عنقه من غير مطالبة دليل‘‘۔ ’’تقلید (کے اصلاحی معنیٰ یہ ہیں کہ) کسی آدمی کا دوسرے کے قول یا فعل کی اتباع کرنا محض حسن عقیدت سے کہ جس  میں (مجتہد کی ) دلیل پر غور نہ کرے۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا بلا دلیل طلب کرنے کے“۔ (کشف الاصطلاحات الفنون والعلوم: ص ۵۰۰)
۳۔ علامہ ابن ملکؒ اور علامہ ابن العینیؒ فرماتے ہیں: ’’وهو عبارۃ عن اتباعه في قولهاو فعله منقدا للحقية تامل في الدليل‘‘۔ ”تقلید دوسرے کے قول یا فعل میں اتباع کا نام ہےیہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہ وہ حق ہے بغیراس کے کہ دلیل کی فکر میں پڑے(کہ اس کی دلیل کیاہے)“۔ (شرح منار مصری:ص ۲۵۲)
۴۔ ’’التقليد اتباع الغير علي ظن انه محق بلا نظر في الدليل‘‘۔ ”دلیل میں غور و خوص کئے بغیر کسی کی اتباع کرنا یہ گمان رکھتے ہوئے کہ وہ حق پر ہے“۔ (النامی شرح حسامی: ص ۱۸۰)
یہ عبارت تقلیداور اتّباع کے ایک ہونے پرصراحت سے دال ہےاور اس میں لفظ الدلیل پرلام عہد کے لئے ہے یعنی وہ خاص دلیل جس کو مجتہد نے پیش نظر رکھ کراجتہاد کیاہےاور ’’من غیرنظرالیٰ الدلیل‘‘ اور ’’من غیرتامل فی الدلیل‘‘ اور ’’من غیرمطالبۃ الدلیل‘‘ میں اسی خاص دلیل کی طرف اشارہ ہے اس دلیل سے وہ دلیل مراد نہیں جو مقلد اپنی طرف سے کبھی پیش کردیتا ہے۔
۵۔ حضرت مولانارشیداحمد گنگوہیؒ فرماتے ہیں: ’’اوراتباع وتقلیدکے معنیٰ واحد ہیں‘‘۔ (سبیل الرشاد: ص۳۲)
تقلید کی تعریف میں اہل لغت نے لفظ اتّباعِ غیربلادلیل  ہی بیان کیا ہے جیسا کہ تعریفات سے ظاہر ہے ، اگر تقلیداور اتباع میں فرق ہوتا تو اہل لغت تقلید کی تعریف اتباع سے کبھی نہ کرتے۔
عرف عام میں تقلید کو اتباع بولاجاتا ہے۔(غیرمقلدین کے گھر کی گواہی)
 غیرمقلدین حضرات کےشیخ الکل جناب مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلویؒ فرماتے ہیں کہ :’’معنیٰ تقلید کے اصطلاح میں اہل اصول کی یہ ہےکہ مان لینا اور عمل کرنا ساتھ قول بلا دلیل اس شخص کی بات جس کا قول حجت شرعی نہ ہو۔تو اس بنا پر اس اصطلاح کی رجوع کرنا عامی کا طرف مجتہد وں کی اور تقلید کرنی ان کی کسی مسئلہ میں تقلید نہ ہو گی ۔ (کیونکہ لاعلمی کے وقت ان کی طرف رجوع کرنا نصوص قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور وہ شخص اہل الذکر اور اہل علم کی بات ماننے کا شرعاً مکلف ہے)۔ بلکہ اس کو اتباع اور سوال کہیں گے اور معنیٰ تقلید کے عرف میں یہ ہیں کہ وقت لاعلمی کے کسی اہل علم کا قول مان لینا اور اس پر عمل کرنا اور اس معنیٰ عرفی سےمجتہدوں کے اتباع کو تقلید بولا جاتا ہے‘‘۔ (معیارالحق:ص۷۲)
آگے لکھتے ہیں: ’’امام الحرمین نے کہاہے کہ اسی قول مشہورپربڑےبڑےاصولی ہیں اورغزالی اورآمدی اورابن حاجب نے کہاکہ رجوع کرناآنحضرتﷺاوراجماع اورمفتی اورگواہوں کی طرف اگرتقلیدقراردیاجائے توکچھ ہرج نہیں۔ پس ثابت ہواکہ آنحضرتﷺکی پیروی کواورمجتہدین کی اتباع کوتقلید کہناجائزہے‘‘۔ (معیار الحق: ص ۷۳)
غیرمقلد عالم کی زبانی اس مفصل عبارت سے چند اہم نکات واضح ہوتے ہیں جن سے درج ذیل فوائد ثابت ہوتے ہیں:
۱۔ لاعلمی کے وقت کسی مسئلہ میں مجتہدین کی طرف رجوع کرنا درحقیقت تقلید نہیں بلکہ اتباع اور سوال ہے۔
۲۔ مجتہدین کی اتباع کو تقلید بھی کہاجاتا ہے، یعنی بالٓمال اتباع اور تقلید ایک ہی جیزہے، ان میں کوئی فرق نہیں۔
۳۔ لاعلم اور انجان آدمی کامفتی کے قول کی طرف رجوع کرناتقلید نہیں بلکہ یہ بحکم شرعی واجب ہے۔ لیکن بڑے بڑے اصولیوں کے قول کے مطابق اس کو تقلید کہنے میں بھی کوئی حرج اور مضائقہ نہیں ہے۔
۴۔ جس طرح مجتہدین کی اتباع کوتقلید کہنا جائز ہے اسی طرح آنحضرت ﷺ کی اتباع کو بھی تقلید کہنا جائز ہے اس تفصیل کو ملحوظ رکھنے کے بعد اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں مجتہدین کی اتباع اور تقلید کرتا ہوں یا یہ کہے کہ میں آنحضرت ﷺکا مقلد ہوں تو درست اور صحیح ہےاور اس پرکوئی ملامت اور لعن طعن نہیں ہوسکتی۔ نیز جو حضرات تقلید اور اتباع کو ایک ہی مفہوم میں لیتے ہیں ان پر بھی کوئی گرفت نہیں ہوسکتی۔
غیرمقلدین دعویٰ کرتے ہیں کہ تقلیدمحض بلادلیل قول قبول کرنے کا نام ہے اور اتباع علیٰ وجہ البصیرت قول قبول کرنے کا نام ہے۔
آئیں دیکھتے ہیں کہ اتّباع میں علیٰ وجہ البصیرت سے کیا مراد ہے؟ اگر مراد یہ ہے کہ اتّباع کرنے والاوہ مسئلہ اور اس کی دلیل دونوں کو علیٰ وجہ البصیرت سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو پھر اسے کسی عالم مفتی سے مسئلہ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ خود قرآن و حدیث سے براہِ راست مسائل اخذ کرلیا کرے۔ کیونکہ کسی مجتہد عالم کی اتّباع وہاں ہوتی ہے جہاں علم سے محرومی ہویا علم میں کمی ہو۔ علیٰ وجہ البصیرت علم کے ہوتے ہوئے بھی کسی دوسرے سے مسئلہ پوچھنا اور اس پر عمل کرنا کم عقلی اور بے وقوفی کی نشانی ہے۔
اس کے برعکس اگرعلیٰ وجہ البصیرت اتّباع کا مطلب یہ ہے کہ اتّباع کرنے والا اپنی صوابدید اور دانست کے مطابق پوری طرح مطمئن ہے کہ میں جس کی اتّباع کرتاہوں وہ اس قابل ہے کہ اس کی اتّباع کی جائے اور اس سلسلہ میں اسے کوئی ترددّ نہیں، بالکل یہی مطلب تقلید کاہے۔ کیونکہ تقلید کرنے والا جس کی تقلید کرتا ہے اس کو حق پر اور اہل حق علماء میں سمجھتا ہے۔ اور اس میں اسے کوئی ترددّ نہیں، لہٰذا اتّباع کی تعریف میں علیٰ وجہ البصیرت کے جملے کو تقلید کے خلاف سمجھنا غیرمعقول بلکہ کم عقلی والی بات ہے۔ کیونکہ اتّباع اور تقلید دونوں کے حقیقی معنیٰ ومفہوم ایک ہیں ۔
تقلید کیا ہے اور دینِ اسلام میں تقلید کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
تقلید کی تعریف: کسی بھی غیر نبی کی بات کو بلا دلیل تسلیم کرلینا اس حسنِ ظن وعقیدت سے کے یہ دلیل کے موافق بتادیگاتقلید کہلاتا ہے۔
تقلید کی تعریف سے یہ بات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ کسی بھی غیر بنی کی بات کوبلادلیل تسلیم کرلینا تقلید کہلاتا ہے اور غیر نبی میں تمام  آئمہ کرام، فقہاء کرام، مفسرین، محدثین، مجتہدین اور ہر عامی شخص شامل ہے۔اگر دلیل کے ساتھ کسی غیر نبی کی بات کو تسلیم کرلینا تقلید نہیں ہے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک عامی شخص میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ ایک عالم کی پیش کردہ دلیل کو سمجھ سکے اوراس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرسکے؟
خوب یاد رکهیں کہ تقلید "نعوذبالله" الله تعالیٰ کے حکم اور حضور ﷺ  کے سنت کے مقابل ومخالف چیز کا نام نہیں ہے ، جیسا کہ فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث نے عوام کو گمراه کرنے کے لئے مشہور کیا ہے ،بلکہ"تقلید" کی حقیقت صرف اور صرف یہ ہے کہ آئمہ مجتہدین نے قرآن مجید اور احادیث نبویہ ﷺ اور آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم  سے جو مسائل استنباط (نکالے) کئے  ہیں ان کو تسلیم کرلینا ہی "تقلید" ہے۔
علماء امت نے "تقلید" کی تعریف اس طرح کی ہے کہ فروعی مسائل فقہیہ میں غیر مجتہد (مُقلد) کا مجتہد کے قول کو تسلیم کرلینا اور اس سے دلیل کا مطالبہ نہ کرنا اس اعتماد پر کہ اس مجتہد کے پاس اس قول کی دلیل موجود ہے۔
حاصل یہ کہ ہمارے نزدیک ایک عامی آدمی کا اہل علم کی اتباع ورہنمائی میں دین پرعمل کرنا "تقلید"ہے، اور یہی حکم قرآن نے ہمیں دیا ہے۔
مجتہد کی تقلیدمیں حسنِ ظن و حسنِ عقیدت رکھنے کا کیامطلب ہے اور شریعت میں اس کی مثال کہاں ملتی ہے؟
’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قِيلَ لِعُمَرَ أَلاَ تَسْتَخْلِفُ قَالَ إِنْ أَسْتَخْلِفْ فَقَدِ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي أَبُو بَكْرٍ، وَإِنْ أَتْرُكْ فَقَدْ تَرَكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب زخمی ہوئے تو ان  سے کہا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ منتخب کرتا ہوں (تو اس کی بھی مثال ہے کہ) اس شخص نے اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑ تا ہوں تو (اس کی بھی مثال موجود ہے کہ) اس بزرگ نے (خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کے لیے) چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ (صحیح البخاری: كتاب الأحكام،باب الاِسْتِخْلاَفِ، ج۹، رقم الحدیث ۷۲۱۸؛ صحیح المسلم: كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي الْخِلاَفَةِ، ج۴، رقم الحدیث ۲۲۲۵)
حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ کے قول سے دونوں باتوں کی واضح گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ خلیفہ نامزد کرنے کے لئے چاہوں تو اس مسئلے میں ابوبکررضی اﷲعنہ کی اقتداء (تقلید) کروں یا پھر چاہوں تو رسول اﷲ ﷺکی اقتداء کروں۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اقتداء کا حکم تو قرآن وحدیث کی روشنی میں حجت ہے لیکن حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کےاس فعل کی اقتداءکس طرح حجت ہوئی، جبکہ رسول اﷲﷺسے تو خلیفہ نامزد کرنا ہی ثابت نہیں تھا۔ پھرحضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ نےحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کے اس فعل کو بنظراستحسان سمجھتے ہوئے اپنے دماغ میں کیسے جگہ دیدی؟ ائمہ اربعہ کی تقلید کے منکراگراُس زمانے میں موجود ہوتےتو کہتے کہ حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کی سنت کو حضورﷺکی سنت کے برابرلاکھڑاکیاجس میں شانِ نبوت کی توحین ہے (العیاذباﷲتعالیٰ)۔ حضرت عمررضی اﷲعنہ کاحضورﷺکے عمل کے بعدحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کے عمل کو بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلہ میں دونوں کی پیروی جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام نوویؒ شرح مسلم میں اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’فإن تركه فقد اقتدى بالنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في هذا وإلا فقد اقتدى بأبي بكر‘‘۔ ’’خلیفہ نے اگر خلافت کے لئے کسی کو نامزد نہ کیا تو آنحضرتﷺکی قتداءکی۔ اور اگر نامزد کردیا تو حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ کی اقتداء کرلی‘‘۔ (شرح صحیح المسلم النووی: كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب الاستخلاف وتركہ، ج۱۲، ص ۲۰۵)
جلیل القدرصحابی رسولﷺحضرت عبدا ﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ خوداپنے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ: ’’حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ خَطَبَنَا عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي مِنْ أَعْلَمِهِمْ بِكِتَابِ اللَّهِ وَمَا أَنَا بِخَيْرِهِمْ‏‘‘۔ ’’عبداللہ بن  مسعود رضی اللہ عنہما نے ہمیں خطبہ دیا اور کہا کہ اللہ کی قسم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن مجید کا جاننے والا ہوں حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں‘‘۔ (صحیح البخاری: كتاب فضائل القرآن،باب الْقُرَّاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صلى الله عليه وسلم، ج۶، رقم الحدیث ۵۰۰۰)
رسول اﷲﷺ سے قرآن کے علم کی اتنی بڑی سند ملنے کےباوجود بھی حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ سے اتنی عقیدت اورحسنِ ظن رکھتے تھے کہ ان کے ہرعمل کی پیروی کیاکرتے تھے۔ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ فرماتے ہیں:
’’"وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ لا يَقْنُتُ، وَقَالَ: وَلَوْ قَنَتَ عُمَرُ لَقَنَتَ عَبْدُ اللَّهِ"۔ "وَقَالَ أَيْضًا: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقُولُ: لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا وَسَلَكَ عُمَرُ وَادِيًا وَشِعْبًا لَسَلَكْت وَادِي عُمَرَ وَشِعْبَهُ"‘‘۔ ’’ اگرحضرت عمررضی اﷲعنہ قنوت (صبح کی نماز میں) پڑھتے تو عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ(یعنی میں)بھی پڑھتا‘‘۔ ’’اگرتمام لوگ ایک وادی اور گھاٹی میں چلنے لگیں۔ اور حضرت عمررضی اﷲعنہ کسی اور وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں حضرت عمررضی اﷲعنہ کی وادی اور گھاٹی میں ہی جاؤں گا‘‘۔ (اخرجہ ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۶، باب من کان یقنت فی الفجر، ص۲۰۹؛ اعلام الموقعین الامام ابن القیم الجوزی: ج۲، فصل [مکانۃعمربن خطاب العلمیۃ]،ص۳۶-۳۷)
حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ کے عمل کے صحیح ہونے کی ایسی کونسی دلیل تھی جس کی بنیاد پرحضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ جیسے فقیہہ ومجتہد صحابی رسولﷺان کے ہرعمل کی پیروی کرتے تھے؟ حالانکہ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ نے تو بچپن ہی سے نبی کریمﷺ کی صحبت اٹھائی اورقرآن وحدیث کو براہِ راست رسول اﷲﷺ سے سیکھاپھربھی آپ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے عمل کو حسنِ ظن وعقیدت کی وجہ سےبلادلیل تسلیم کرتے ہوئے ان کی تقلید کیا کرتے تھے۔ جبکہ موجودہ دور کے غیرمقلدین حضرات جنھیں نہ قرآن کی ناسخ ومنسوخ ومتشابہ آیات کا علم ہوتا ہے اورنہ ہی احادیث مبارکہ کے ثقہ اورضعف کی خبرہوتی ہے، پھربھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کسی کے مقلد نہیں۔
حضرت عبداﷲبن زبیررضی اﷲعنہ جلیل القدرصحابی رسول ﷺہیں، ان سے کسی نے دادا کی وراثت کے متعلق سوال کیاتوآپ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کی رائے بیان فرمادی کہ حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ دادا کوباپ کی طرح سمجھتے تھےاورپھر حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ کی فضیلت کاذکرکرنے لگے کہ جانتے ہوحضرت ابوبکررضی اﷲعنہ کیسے تھے؟
’’حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ كَتَبَ أَهْلُ الْكُوفَةِ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي الْجَدِّ‏۔ فَقَالَ أَمَّا الَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُهُ‏"۔‏ أَنْزَلَهُ أَبًا يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ‘‘۔ ’’ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو دادا ( کی میراث کے سلسلے میں ) سوال لکھا تو آپ نے انہیں جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اگر اس امت میں کسی کو میں اپنا جانی دوست بنا سکتا تو ابوبکر کو بناتا۔ (وہی) ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ فرماتے تھے کہ دادا باپ کی طرح ہے (یعنی جب میت کا باپ زندہ نہ ہو تو باپ کا حصہ دادا کی طرف لوٹ جائے گا۔ یعنی باپ کی جگہ دادا وارث ہو گا)‘‘۔ (صحیح بخاری، كتاب فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، باب قَوْلِ النَّبِیِّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً ‏"‏ قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ ، ج۵، رقم الحدیث۳۶۵۸)
اوریہی واقعہ بعینہ حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہ سے بھی صحیح بخاری میں مذکورہے: ’’حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَمَّا الَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏ "‏لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُهُ، وَلَكِنْ خُلَّةُ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ‏"‏‏۔ أَوْ قَالَ ‏"‏خَيْرٌ‏"۔‏ فَإِنَّهُ أَنْزَلَهُ أَبًا‏۔‏ أَوْ قَالَ قَضَاهُ أَبًا‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر میں اس امت کے کسی آدمی کو "خلیل" بناتا تو ان کو (ابوبکر رضی اللہ عنہ کو) کو خلیل بناتا ، لیکن اسلام کا تعلق ہی سب سے بہتر ہے تو اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دادا کو باپ کے درجہ میں رکھا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، كتاب الفرائض، باب مِيرَاثِ الْجَدِّ مَعَ الأَبِ وَالإِخْوَةِ، ج۸، رقم الحدیث۶۷۳۸)
حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کے قول میں ایسی کونسی دلیل تھی  جس کی بنیادپرحضرت عبداﷲبن زبیررضی اﷲعنہ اور حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہ جیسے فقیہہ مجتہد صحابی رسولﷺنے قرآن وحدیث کا حوالہ دینے کے بجائے حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کے قول سے مسئلہ اخذ کیا؟ یہی وہ حسنِ ظن وعقیدت ہے جس کی بنیاد پردوجلیل القدرفقیہہ ومجتہدصحابی رسولﷺ اپنے سے بڑے مجتہدصحابی رسولﷺ(ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے قول کودلیل کے طورپرپیش کرتے ہوئے ان کی تقلید کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دورکے علماءحضرات و مفتیان کرام خودقرآن و حدیث کا علم رکھنے کے باوجودبھی کسی مسئلہ کی تحقیق میں اپنی رائے پراعتمادکرنےکے بجائے کسی فقیہہ مجتہدامام کے قول سے استدلال کرتے ہوئے فتویٰ دیتے ہیں جس بنیادپرانہیں اس امام کا مقلد کہاجاتاہے۔
قارئین کرام! یہ توہم نے محض حضرات صحابہ کرامؓ کے چندحالات اختصاراً عرض کیئے ہیں اب ہم بعض ایسے واقعات جن میں غیرصحابی (یعنی تابعین وتبع تابعین)پرحسنِ ظنی اورعقیدت کااظہارکرتے ہوئے بڑےبڑےفقہاءومجتہدین نے ان کی تقلیدکااعتراف کیا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دورکے بڑے بڑے علماءومفتیانِ کرام بھی ائمہ اربعہ کے قول کو بنیادبناکرفتویٰ دیتے ہیں اوران کے مقلدکہلاتے ہیں۔
علامہ ابن سعد ؒ نقل کرتے ہیں کہ: ’’وقال أَبُو هلال الراسبي، عن خالد بْن رباح الهذلي: سئل أنس بْن مالك عن مسألة فقال: سلوا مولانا الْحَسَن، قَالُوا: يا أبا حمزة نسألك، تقول: سلو الْحَسَن مولانا قال: سلوا مولانا الْحَسَن، فإنه سمع وسمعنا، فحفظ ونسينا‘‘۔ ’’جب بھی کوئی آدمی حضرت انس بن مالک رضی اﷲعنہ کے پاس سوال لے کر جاتا تو آپ اس سائل کو ارشاد فرماتے: "سلوا مولانا الْحَسَن"۔ "کہ ہمارے رفیق حسن بصری ؒ سے جاکر پوچھو"۔ جب سائل یہ کہتا کہ ہم تو آپ کے پاس آئے ہیں ۔ تو حضرت انس رضی اﷲعنہ فرماتے اسی کے پاس جاؤ وہ تمہیں معقول جواب دے گا، ہم بوڑے ہوچکے ہیں۔ وہ جوان ہے، اور اس کا حافظہ بھی قوی ہے‘‘۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال: ج۶، ص۱۰۴؛ طبقات ابن سعد: ج۷، ص۱۲۸،قسم اول )
تعجب کی بات ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲعنہ جوکہ خودجلیل القدرصحابی رسولﷺہیں، سائل کو فتویٰ دینے کے بجائے تابعی حضرت حسن بصریؒ سے مسئلہ دریافت کرنے کوکہہ رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ تھی کہ حضرت انس رضی اﷲعنہ نے سائل کونہ خودجواب دیا اورنہ ہی اُسے اس بات کی تلقین کی کہ جاؤخودتحقیق کرکے قرآن وحدیث سے مسئلہ اخذ کرلوبلکہ حضرت حسن بصریؒ سے مسئلہ پوچھنے کی تلقین کی۔ اگرتقلیدحرام وشرک ہوتی تو حضرت انس رضی اﷲعنہ سائل کوکبھی حضرت حسن بصریؒ سےمسئلہ پوچھنے کونہ کہتے۔
امام ذہبی ؒ نقل کرتے ہیں کہ: حضرت ابو بکر الہذلی ؒ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت محمد بن سیرین ؒ نے فرمایا کہ : ’’الزم الشعبی فلقد رأیتہ یستفتٰی والصحابۃ متوافرون‘‘۔ ’’حضرت امام شعبی ؒ کا دامن ہی ہمیشہ تھامے رکھنا، کیونکہ میں نے ان سے ایسے وقت فتویٰ پوچھتے دیکھا جبکہ صحابہ کرامؓ بکثرت موجود تھے ‘‘۔ ( تذکرۃ الحفاظ: ج۱، ص ۸۱)
دیکھئےحضرت شعبی ؒ صحابی نہیں ہیں لیکن حضرت محمد بن سیرینؒ جیسے جلیل القدربزرگ کو ان کے متعلق یہ حسنِ ظنی ہے کہ چونکہ حضرات صحابہ کرام ؓکی موجوودگی میں وہ فتویٰ دیتے رہے ہیں، لہٰذا ان کا خطاء سے بعید ہونا زیادہ قریب ہے۔ اسی حسنِ ظنی کی وجہ سے موجودہ دورکے مفتیانِ کرام بھی ائمہ اربعہ کی تقلیدکرتے ہیں کیوں کہ ائمہ اربعہ کا خطاءسے بعید ہونا زیادہ قریب ہے بنسبت آج کے ائمہ ومفتیانِ کرام کے۔
مشہورغیرمقلدعالم نواب صدیق حسن خان صاحب حجۃاﷲالبالغۃ سے نقل کرتےہیں: ’’کان أبوحنیفة رضی الله عنه ألزمهم بمذهب إبراهیم و أقرانه لا یجاوزه الا ماشاءالله و کان عظیم الشان فی التخریج علی مذهبه و دقیق النظر فی وجوه التخریجات مقبلا علی الفروع أتم إقبال‘‘۔ ’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور ان کے ہم عصر علماء کے مذہب کے پابند تھے اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے مذہب سے باہر نہیں جاتے الا ماشاء اللہ، وہ ان کے مذہب کے مطابق مسائل کی تخریج کرتے، بڑی شان رکھتے اور وجوہِ تخریجات کے معلوم کرنے میں دقیق النظر تھے‘‘۔ (الجنہ: ص۶۸؛ حجۃ اﷲالبالغۃ: ج۱، ص۲۵۱؛ اوجزالمسالک الیٰ موطامالک: ج۱، ص۶۳)
حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’اسی طرح امام ابوحنیفہؒ سب سے زیادہ ابراہیم نخعیؒ اوران کے ہمعصروں کے مسلک پرقائم رہے، کبھی کبھاراس سے تجاوزکیااوراس مسلک کے اصولوں پرمسائل کی تخریج میں آپ کامقام بڑابلندتھا۔ اخذمسائل میں آپ بہت دِقّت نظرسے کام لیتے اورجزئیات پربھی پوری توجہ تھی اگرآپ کوہمارے اس قول کی صداقت مطلوب ہے توامام محمدؒ کی کتاب الآثار، عبدالرزاقؒ کی جامع مصنف، ابوبکرابن ابی شیبہؒ اورابراہیم نخعیؒ کے اقوال جمع کرلیجئے پھرامام ابوحنیفہؒ کے مسلک سے ان کامقابلہ کیجئےتومعلوم ہوگاکہ وہ بہت کم باتوں میں ابراہیم نخعیؒ کے راستے سے ہٹے ہیں اور فقہائے کوفہ کے مذہب سے باہر نہیں جاتے‘‘۔ (فقہی اختلافات کی اصلیت اردو ترجمہ الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف: ص۲۴-۲۳)
امام ابن القیم الجوزیؒ لکھتے ہیں: ’’قال الشافعی فی مواضع من الحجج قلتہ تقلید لعطاء‘‘۔ ’’حضرت امام شافعی نے بہت سے مقامات پرکہاہے کہ میں نے حضرت عطاء کی تقلید میں ایساکہاہے‘‘۔ (عصرہ ومنہجہ وآراؤہ فی الفقہ والعقائدوالتصوف: ص۱۰۷)
حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’على اختلافٍ في ذلك بنأءً على اختلافهم في مسألةٍ أخرى وهي أن الـمجتهد هل يجوز له تقليد الـمجتهد الآخر إذا كان أفضل منه واعلم؟ قولان الـمشهور لايجوز، والصواب الذي لا يجوز غيره عند استقراء صنيع الاوائل يجوز۔ قال الشافعي: «قول الأئمة أبي بكر وعمر وعثمان وقال في القديم: وعلى إذا صرنا إلى التقليد أحب إلينا»‘‘۔ ’’کیاکسی مجتہد کے لئے دوسرے مجتہدکی تقلیدجائزہےجب کہ وہ اُس سے افضل اوراَعلَم ہو؟ اس میں دوقول ہیں۔ ۱۔ مشہوریہ ہے کہ جائز نہیں۔ اور ۲۔ قول صواب ایساکہ جس کے خلاف جائزنہیں ابتدائی دورکے مجتہدین کے طریقِ کارپرتفصیلی نظرکے بعدیہ ہے کہ جائزہے۔ شافعیؒ نے فرمایاہے: ائمہ ابوبکرؓ، وعمرؓ، وعثمانؓ، اوران کے قدیم قول میں اورعلیؓ بھی مذکورہے، کے مل جانے کے بعدہم کوپسندہے کہ ہم تقلیداختیارکرلیں‘‘۔ (إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء: ج۳، ص۳۰۳)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بھی قول ہے: "قال الإِمام الشافعي: مالك حجة اللَّه على خلقه بعد التابعين"۔ ’’تابعین کے بعد امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بندوں کے لئے اللہ کی سب سے بڑی حجت ہیں‘‘۔ (تنوير الحوالك شرح على موطأ مالك: ج۱، ص۳؛ رجال صحیح البخاری: ص۶۹۳؛ الموطأ: ج۱، ص۷۳)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بھی فرمان ہےکہ: "قال الشافعي: من أراد أن يتبحر في الفقه، فهو عيال على أبي حنيفة"۔ ’’تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کےخوشہ چین (محتاج ) ہیں‘‘۔ "وقد أورد العلماء قول الشافعي فيه: من أراد الحديث فهو عيال على مالك"۔ ’’تمام لوگ علم حدیث میں امام مالک کے خوشہ چین (محتاج) ہیں‘‘۔  (تاریخ مدینۃ دمشق الامام ابن عساکر: ج۶۰، ص ۱۱۷؛ طبقات الفقہاءالامام ابی اسحاق الشیرازی شافعی: ص۸۶؛ البدایۃ والنہایۃ حافظ ابن کثیر: ج۱۰، ص ۱۷۴؛ الامام زیدالامام محمد ابوزھرہ: ص۱۶)
امام شافعیؒ جوکہ خودجلیل القدرمحدث بھی ہیں اورفقیہہ امام بھی، اس کے باوجودبھی وہ امام مالکؒ کواﷲکی سب سے بڑی حجت قراردے رہے ہیں اور ساتھ ہی سب لوگوں کوعلم حدیث میں امام مالکؒ اورعلم فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کا محتاج قراردے رہے ہیں۔
خطیب بغدادیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نقل کرتے ہیں کہ: ’’امام احمد بن حنبلؒ خود مجتہد ہیں۔ ایک مسئلہ کے جواب میں ایک سائل نے کہاکہ اس میں توکوئی حدیث موجود نہیں ہے۔ اس پر حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے جواباًارشاد فرمایاکہ اگرحدیث موجود نہیں تونہ سہی اس میں "ففیہ قول الشافعی وحجتہ، أثبت شئی فیہ" حضرت امام شافعیؒ کا قول موجودہےاورامام شافعی کاقول بذات خودحجت اوردلیل ہے‘‘۔(تاریخ بغداد:ج۲، ص۴۰۷؛ تہذیب الکمال فی اسماء الرجال: ج۲۴، ص۳۷۲)
امام ابوحنیفہؒ جیسے جلیل القدرمجتہدامام جن کوبڑےبڑےائمہ مجتہدین ومحدثین نےامام اعظم کہہ کرمخاطب کیاہے، وہ بھی ابراہیم نخعیؒ اوران کے ہم عصرعلماءکے مذہب کے پابندتھےاوران کے مذہب سے باہرنہیں جاتے تھے۔ امام شافعیؒ جیسے فقیہہ ومحدث بزرگ خودحضرت عطاءؒ کی تقلید کااقرارفرماتے ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ جوکہ خودجلیل القدرمجتہدومحدث ہیں، حدیث نہ ملنے پرامام شافعیؒ کے قول کوحجت اوردلیل مانتے ہوئےان کے قول سے استدلال کرتےہیں۔ توآخرایسی کیاوجہ تھی کہ اتنے بڑے بڑےائمہ مجتہدین بھی اپنے استادوں کےاقوال وافعال کوحجت مانتے ہوئے ان کی تقلیدکیاکرتے تھے؟
امام شعبیؒ، امام محمد بن سیرینؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، اورامام احمدبن حنبلؒ وغیرہ تمام مجتہدہیں مگرحسن ظنی کایہ عالم ہے کہ امام احمدبن حنبلؒ امام شافعیؒ کے قول کو ایک مستقل حجت سمجھتے ہیں۔ اورامام شافعیؒ نے تو صاف کہہ دیا کہ ’’میں نے حضرت عطاء کی تقلید میں ایساکہاہے‘‘۔
اسکا مطلب یہ تمام مجتہدین حضرات تقلیدکاارتکاب کرتےہیں تواس سے معلوم ہواکہ مجتہدکوبھی بعض مسائل میں اپنے بڑوں اورپچھلوں کی تقلیدمضرنہیں۔ توپھرغیرعالم اورغیرمجتہدکے لئے تقلیدمضرکیسے ہوسکتی ہے۔
اب ہم ایک اوردلیل مخالفین کے گھر سے بھی دیئے دیتے ہیں تاکہ انہیں سمجھنے میں کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔
مشہورغیرمقلد عالم نواب صدیق حسن خان صاحبؒ نے تویہاں تک معاملہ صاف کردیاکہ لکھتے ہیں: ’’فلا تجد احد امّن الا ئمۃ اِلّا و ھو مُقلد من ھو اعلم منہ فی بعض الاحکام‘‘۔ ’’تم حضرات ائمہ کرامؒ میں سےکسی ایک کوبھی نہیں پاسکتے کہ وہ بعض مسائل میں اپنے سےکسی بڑے عالم کی تقلیدنہ کرتاہو‘‘۔ (الجنۃ: ص۶۸)
حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’هذا ما وفقني ﷲ له من تدوين مذهب الخليفة الاواب الناطق بالصدق والصواب أمير الـمؤمنين عمر بن الخطاب رضیﷲ تعالى عنه وأرضاه والـمذاهب الأربعة منه بمنزلة الشروح من الـمتون والـمجتهدين الـمنتسبين من الـمجتهد الـمستقل والله هو الـمؤفق والـمعين‘‘۔ ’’امیرالمومنین عمربن الخطاب رضی اﷲعنہ وارضاءکے مذاہب کی تدوین کے بارے میں ہے اورچاروں مذہب (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) اس کے مقابلہ پرمتون کی شروح کے مرتبہ میں ہیں‘‘۔ (إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء: ج۳، ص۳۰۸)
قارئین کرام کوان حوالوں سے اچھی طرح معلوم ہوچکاہوگاکہ ان ائمہ مجتہدین وبزرگان دین نے جن میں جلیل القدرحضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اورائمہ مجتہدین بھی شامل ہیں، محض عقیدت اورحسن ظنی کی بناءپردوسروں پراعتماداوربھروسہ کرتےہوئےان کی تقلیدکی۔ اوریہی تقلیدکااصل معنیٰ ہےکہ کسی کی ذات اورہستی پرحسن ظنی کرتے ہوئے اسی کے قول کوتسلیم کرلیاجائےاوردلیل طلب نہ کی جائے۔ گونفس الامرمیں دلیل موجودبھی ہومگرظاہری طورپران کی شخصیت کے بغیرکوئی اوردلیل موجودنہ ہو۔
غیرمقلدین حضرات فرماتے ہیں کہ مقلد اہل علم نہیں ہوتا۔ اس پر میں صاحب موافقات علامہ شاطبیؒ کی ایک عبارت نقل کردیتاہوں اورآپ سے ہی جواب طلب کرتاہوں۔علامہ شاطبی ایک فتویٰ کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’انالااستحل -انشاءاللہ- فی دین اللہ وامانتہ ان اجد قولین فی المذہب فافتی باحدھما علی التخیر مع انی مقلد، بل اتحری ماھو المشہور والمعمول بہ فھوالذی اذکرہ للمستفتی، ولااتعرض لہ الی القول الاخر، فان اشکل علی المشہور ولم ارلاحد من الشیوخ فی احد القولین ترجیحاتوفقت‘‘۔’’میں اللہ کے دین میں اوراس کی امانت میں یہ حلال نہیں سمجھتا کہ کسی مسئلہ کے سلسلہ میں مذہب (مسلک مالکی)میں دوقول پاؤں اوراپنی مرضی سے کسی ایک پر فتوی دے دوں باوجود اس کے کہ میں مقلدہوں۔ بلکہ میں غوروفکر کرتاہوں کہ مشہور اورمعمول بہ کون سامسلک ہے اوراسی کو میں فتویٰ پوچھنے والے کو بتاتاہوں اوردوسرے قول سے تعرض نہیں کرتا اگرمشہور قول میں کسی وجہ سے کوئی اشکال پیش آئے اورمشائخ میں سے کسی نے دوقول میں سے کسی ایک کو ترجیح نہ دی ہوتو میں توقف کرتاہوں‘‘۔ (فتاویٰ الامام الشاطبی: ص۹۴)
کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف ماننا اور کسی راوی کوثقہ یا مجہول یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے؟
تقلید کی تعریف: کسی بھی غیر نبی کی بات کو بلا دلیل تسلیم کرلینا اس حسنِ ظن وعقیدت پرکے یہ دلیل کے موافق بتادیگاتقلید کہلاتا ہے۔
تقلید کی تعریف کے مطابق راوی کی روایت کو قبول کرنا تقلید فی الروایت ہے اور مجتہد کی درایت کو قبول کرنا تقلید الدرایت ہے۔ کسی محدث کی رائے سے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے اور کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو ثقہ یا مجہول یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے۔ کسی امتی کے بنائے ہوئے اصول حدیث، اصول تفسیر، اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید ہے۔
میرے غیرمقلددوستوں !آپ کے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے کہ محدثین کی کسی راوی یا کسی حدیث کے بارے میں کہی ہوئی بات درست ہے؟ کیا وہ انسان نہیں تھے؟ کیا ان سے غلطی نہیں ہو سکتی؟پھر آپ ان کی کہی ہوئی بات کو بلادلیل کیسے تسلیم کرلیتےہیں؟اس کا مطلب آپ بھی مقلد ہوئے۔
تقلید کا اصل مفہوم یہی ہے کہ کسی کا قول محض اس حسن ظن وعقیدت پر قبول کرلینا کہ چونکہ بتانے والاصاحب علم بھی ہے اورصاحب فہم بھی اس لئے وہ جو بتارہا ہے وہ یقیناًحق ہوگالہٰذا دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔ یہ وہ اصل تعریف ہے جس کو سامنے رکھاجائےتو پتہ چلے گا کہ شرعی علوم میں تقلید کے بغیر گزارا ہی نہیں ہے۔ گو کہ یہ معروف اصطلاحی تقلید نہیں لیکن عملاً تو تقلید ہی ہے۔ مثال کے طورپر:
۱۔ عربی لغت جاننے کے لئے ائمہ صرف ونحو کی تقلید کی جاتی ہے۔
۲۔ راویوں کےثقہ وضعف کوجاننے کے لئے ائمہ جرح وتعدیل اور اسما الرجال اوران کے وضع کردہ اصولوں کی تقلید کی جاتی ہے۔
۳۔ راویوں کی پیدائش، رہائش، معاملات ا ورموت کے حالات جاننے کے لئےمورخین کی تقلید کی جاتی ہے۔
۴۔ حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے میں ائمہ محدثین کی تقلید کی جاتی ہے۔
۵۔ تلاوت قرآن میں بھی ہر مسلمان تقلید ہی کرتا ہے کیونکہ قرآن مجید سات مختلف قرأتوں میں نازل ہواہے اوررسول اﷲﷺ کےمبارک زمانے میں تمام قرأتوں کے ساتھ تلاوتِ کلام پڑھنے کی اجازت تھی۔ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نےان تمام قرأتوں کو ختم کرکےمسلمانوں کوایک قرأت پرجمع کردیا۔ توآخر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کے صحیح ہونے کی ایسی کونسی دلیل تھی کہ کسی ایک صحابی رسولﷺ نے بھی ان کے اس حکم سے اختلاف نہیں کیا؟ تمام صحابہ کرامؓ کے پاس حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اس عمل کی دلیل نہ تو قرآن سے تھی اور نہ نبی ﷺ کے فرمان سے، محض اس حسن ظن وحسن عقیدت کے بناءپرخلیفہ وقت کے عمل کو بلادلیل تسلیم کرلیاگیااورآنے والے مسلمانوں کے لئے مجتہد حاکم کی تقلید کی مثال قائم کردی۔ اسی طرح حجاج بن یوسف نے اپنے دورِخلافت میں قرآن کریم میں اعراب لگائےتاکہ وہ لوگ جواعراب سے واقف ہیں نہ اوقاف کے دلائل سے واقف ہیں، قرآن مجید کی تلاوت صحیح طریقے سے کرسکیں۔ لہٰذاپوری امت مسلمہ پچھلے ۱۴۰۰ سالوں سےاس حسن ظن پر وہ قرآن میں لگے اعراب کوقبول کرتے چلی آرہی ہے کہ لگانے والے نے بادلیل ہی لگائے ہونگے، یہی وجہ ہے کہ آج تک اس مسئلے میں کسی شخص نے دلیل کا تقاضہ نہیں کیا۔
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَقْرَأَنِيهَا، وَكِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَمْهَلْتُهُ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ فَجِئْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا، فَقَالَ لِي ‏"أَرْسِلْهُ‏"۔ ثُمَّ قَالَ لَهُ ‏"‏اقْرَأْ‏"‏‏۔‏ فَقَرَأَ‏۔‏ قَالَ ‏"‏هَكَذَا أُنْزِلَتْ‏"‏‏۔ ثُمَّ قَالَ لِي ‏"‏اقْرَأْ‏"۔‏ فَقَرَأْتُ فَقَالَ ‏"‏هَكَذَا أُنْزِلَتْ۔‏ إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مِنْهُ مَا تَيَسَّرَ‏"‘‘۔ ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان ایک دفعہ اس قرآت سے پڑھتے سنا جو اس کے خلاف تھی جو میں پڑھتا تھا۔ حالانکہ میری قرآت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائی تھی۔ قریب تھا کہ میں فوراً ہی ان پر کچھ کر بیٹھوں، لیکن میں نے انہیں مہلت دی کہ وہ (نماز سے) فارغ ہو لیں۔ اس کے بعد میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو گھسیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا۔ میں نے آپ سے کہا کہ میں نے انہیں اس قرآت کے خلاف پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے سکھائی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے انہیں چھوڑ دے۔ پھر ان سے فرمایا کہ اچھا اب تم قرآت سناؤ۔ انہوں نے وہی اپنی قرآت سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تم بھی پڑھو، میں نے بھی پڑھ کر سنایا۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی۔ قرآن سات قرأتوں میں نازل ہوا ہے۔ تم کو جس میں آسانی ہو اسی طرح سے پڑھ لیا کرو‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۳، كتاب الخصومات، باب كَلاَمِ الْخُصُومِ بَعْضِهِمْ فِي بَعْضٍ، رقم الحدیث ۲۴۱۹)
اسلام میں عملی مسائل کا اصل دارومدار تعامل امت پر ہے۔ جس حدیث پر امت بلانکیر عمل کرتی چلی آرہی ہو اس کی سند پر بحث کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح جس حدیث پر پوری امت نے عمل ترک کردیا ہو اس کی سند خواہ کتنی ہی صحیح ہو وہ معلول قرار پاتی ہے۔ جیسےابن ماجہ ابو امامہ باہلی رضی الله  تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: "ان الماء طھور لاینجسہ شئی الا ماغلب علی ریحہ او طعمہ او لونہ"۔ ’’بےشك پانی پاك ہے اسے کوئی چیز نجس نہیں بناتی مگر وہ چیز جو پانی کی بُو، ذائقہ اور رنگ پر غالب ہوجائے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: باب الماء الذی لاینجس؛ سنن الدار قطنی: باب الماء المتغیر؛ شرح معانی الآثار: باب الماء یقع فیہ النجاسۃ) یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کو جمہورعلما ءومحدثین نے  قبول کیا ہے اور اس پر امت میں ہمیشہ سے عمل رہا ہے۔ اسی لئےمحدثین کا اصول ہے کہ جس حدیث کو امت میں تلقی بالقبول حاصل ہوتو وہ حدیث صحیح ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو امت کے علماء اور صلحاء نے قبول کرلیا اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ان کو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ جیسے قرآن کا ایک مصحف میں جمع کرنے کی کوئی دلیل نہیں البتہ صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے اور امت نے اس کو قبول کرلیا۔ اسی طرح تلقی بالقبول کی مثال صحیح بخاری کی مقبولیت ہے جس کی صحت کی بنیاد پر اس کو "اصح الکتاب بعد الکتاب ﷲ" (قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب) کہا جاتا ہے۔ یہاں بھی قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں پھر بھی تمام مکاتب فکر کے لوگ صحیح بخاری کو قرآن کے بعد کا درجہ دیتےہیں۔
اسی طرح ہمارے علوم کا مدار پچھلوں کی ثابت شدہ تحقیق پر ہوتا ہے۔ اس میں بتانے والے کی علمیت پر حسن ظن قائم ہوتا ہےکہ وہ صحیح بتائے گا۔ جس طرح محدثین خاص طور پر امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ اور صحاح ستہ کے مؤلفین کی تحقیق پر اعتماد اس حسن ظن پر قائم ہے کہ انہوں حدیث کی صحت کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس کی بنیاد کسی دلیل پر ہے۔ بالکل اسی طرح مجتہدین کے متعلق بھی ہم یہی حسنِ ظن رکھتےہیں کہ انہوں کسی مسئلے میں جو قول وفتویٰ صادرفرمایا ہے اس کی بنیاد قرآن کی آیت یاحدیث پرہی ہوگی۔
کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت خود ایک بہت بڑا کام ہے جو ہر کس و ناکس کے بس کی چیز نہیں۔ عام طور پر علمائے کرام بھی کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ تقلیدًا ہے نہ کہ تحقیقًا۔ علم کی دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ پچھلوں کی ثابت شدہ تحقیق کو مان کر چلنا پڑتا ہے۔ ورنہ علوم کی ترقی رک جائے گی اورہرشخص خود کو علمی ودینی معاملات میں عقلِ کُل ثابت کرتے ہوئے پچھلوں کی تحقیق کو ناقص قرار دیتے ہوئے ان پرکیچڑ اچھالتارہے گا، جیساکہ موجودہ دورکے غیرمقلدعلماء وجہلاءامام ابوحنیفہؒ اور امام محمد بن حسن شیبانیؒ پرکیچڑاچھالتے رہتےہیں۔
تقلید کا انکار کرکے علماءِغیرمقلدین نے عام اورلاعلم مسلمانوں کو ایک ایسی گمراہی کے دلدل میں دھکیل دیا ہےجہاں ایک عامی شخص کا سب سے پہلے فقہاءاورائمہ مجتہدین پرسے اعتماد ختم ہوتاہےاورپھر آہستہ آہستہ ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین پرسے بھی اعتماد ختم ہوجاتاہے،کیونکہ تقلید کسی کے علم اورتقویٰ پراعتمادکی بنیاد پرہی کی جاتی ہے، لہٰذا جب لوگوں کا خیروالقرون  کے زمانے کےتابعین وتبع تابعین (یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد ابن حنبلؒ) پر سے اعتماد ختم ہوگیا توپھر ان کے بعد کے ائمہ محدثین (یعنی امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام ترمذیؒ، امام ابوداؤدؒوغیرہ) پراعتماد کیسے قائم رہ سکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقلید کا انکارکرتے ہوئے منکرینِ فقہ نے ’’اہل حدیث‘‘ کے نام کا دِلکش لیبل لگاکرسب سے پہلےائمہ مجتہدین و فقہاءکی تقلید کاانکارکیا، پھر ان ہی کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے منکرینِ حدیث نے ’’اہل قرآن‘‘ کے نام کا دِلکش لیبل لگاکر ائمہ جرح وتعدیل اورمحدثین کی تقلید کابھی انکار کرڈالا۔ اس طرح عام ولاعلم مسلمانوں کو گمراہی کے ایسے دلدل میں دھکیل دیاگیاجہاں سے تقلید واعتماد کیئے بغیرنکلناممکن نہیں۔ کیونکہ جب ایک لاعلم اورجاہل شخص تقلید کی قید سے آزاد ہوتا ہے توپھراس کی بریکیں فیل ہوجاتی ہیں، پھروہ نہ کسی مجتہدکافتویٰ قبول کرتاہے، نہ کسی مفسرکی تفسیر، نہ کسی امام کی جرح قبول کرتاہےاورنہ ہی کسی محدث کی توثیق۔ ایساشخص وہی کچھ قبول کرتاہےجو اس کا نفس اورشیطان اس کے دماغ میں ڈالتاہے۔ پھر وہ اپنے  ناقص علم وعقل سےقرآن و حدیث کی ایسی تشریح کرتاہےجواس سے پہلے کسی مجتہد، مفسر، محدث امام نے نہیں کی ہوتی۔ اس طرح خودبھی گمراہ ہوتا ہے اوراپنے جیسے دوسرے جہلاء کوبھی گمراہ کرتاہے۔
قرآن مجید میں اﷲتبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: ’’وَاَنزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ‘‘۔ ’’ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کی تشریح فرمائیں‘‘۔ {سورۃ النحل: ۴۴}
مندرجہ بالاآیت سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب تبییں اور تشریح کاہے، آیت مبارکہ میں ذکر سے مراد قرآن، بیان سے مرادفقہ وحدیث، تفکر سے مراد اجتہاد و استنباط ہے۔
جس طرح قرآن مجید کی تشریح کا حق اﷲرب العزت نے اپنے پیغمبررسول اﷲﷺکو عطا فرمایا تھا، بالکل اسی طرح اﷲکے رسولﷺنے اپنے فرمان کی تشریح کا حق اپنے ورثاءکو عطافرمایاہے۔
’’بَابُ الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ‘‘۔ ’’اس بیان میں کہ علم (کا درجہ) قول و عمل سے پہلے ہے‘‘۔
’’وَأَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ- وَرَّثُوا الْعِلْمَ - لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَا يَعْقِلُهَا إِلاَّ الْعَالِمُونَ}، {وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ} وَقَالَ: {هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ} وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ‏"مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ‏"۔ وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ لَوْ وَضَعْتُمُ الصَّمْصَامَةَ عَلَى هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى قَفَاهُ- ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تُجِيزُوا عَلَيَّ لأَنْفَذْتُهَا۔ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {كُونُوا رَبَّانِيِّينَ} حُكَمَاءَ فُقَهَاءَ۔ وَيُقَالُ الرَّبَّانِيُّ الَّذِي يُرَبِّي النَّاسَ بِصِغَارِ الْعِلْمِ قَبْلَ كِبَارِهِ‘‘۔
’’(حدیث میں ہے) کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور (دوسری جگہ) فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ (میری بات) غائب کو پہنچا دے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ آیت ‏"كونوا ربانيين‏"سے مراد حکماء، فقہاء، علماء ہیں۔ اور ‏"ربانی‏" اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی (علمی) تربیت کرے‘‘۔ (صحيح البخاری :كتاب العلم:بَابُ الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ: رقم الحديث:۶۷) 
’’حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ "إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا، يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالاً فَسُئِلُوا، فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا"‏‏‘‘۔’’حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، اوران سے (دینی مسائل) پوچھےجائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۱، کتاب العلم، باب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ، رقم الحدیث ۱۰۰)
مندرجہ بالا احادیث سے علماء و فقہاء کی اہمیت اور ان کے مقام کی افضلیت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے، اور یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ غیر مقلدین حضرات کا علماء کی تقلید سے انکار کرتے ہوئے ہر جاہل شخص کے ہاتھوں میں قرآن و حدیث تھما کر تحقیق کا اہل قراردینا ایک بہت بڑی حماقت اور جہالت ہے۔کیونکہ عالم اور جاہل کبھی برابرنہیں ہوسکتےاور علم کی باتین عالموں کے سواکوئی نہیں سمجھ سکتا۔
دوسری حدیث سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ جب پختہ کارعلماءنہیں رہیں گے تو لوگ جاہلوں کوسرداربناکران کی تقلید کرتے ہوئے ان سے فتوے لیں گےاورگمراہ ہونگے۔ جیساکہ آج کل زبیرعلی زئی، پروفیسرغامدی اورانجنیئرعلی مرزاکی تقلید کی جارہی ہےلیکن اس پرلیبل قرآن و حدیث کالگایاجاتاہے۔
’’حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ قَالَ ذَکَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَقَالَ ذَاکَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَکَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُهُ أَبْنَائَنَا وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَائَهُمْ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ زِيَادُ إِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ أَوَلَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَی يَقْرَئُونَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ لَا يَعْمَلُونَ بِشَيْئٍ مِمَّا فِيهِمَا‘‘۔ ’’حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولﷺنے کسی بات کا ذکر کر کے فرمایا یہ اس وقت ہوگا جب علم اٹھ جائے گا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم علم کیسے اٹھ جائے گا حالانکہ ہم خود قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اور ہمارے بیٹوں کو (اسی طرح نسل در نسل) قیامت تک پڑھاتے رہیں گے فرمایا زیاد تیری ماں تجھ پر روئے (یعنی تم نادان نکلے) میں تو تمہیں مدینہ کے سمجھ دار لوگوں میں شمار کرتا تھا کیا یہ یہود و نصاری تورات اور انجیل نہیں پڑھتے لیکن اس کی کسی بات پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ج۳، ابواب الفتن، باب قرآن اورعلم کے اٹھ جانے کابیان، رقم الحدیث۴۰۴۸)
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ محض قرآن مجیدپڑھ لینے سے یا اس کے معنیٰ کا علم رکھنے سے دین کی سمجھ عطا نہیں ہوجاتی بلکہ دین کی سمجھ تفقہ وبصیرت اور مہارت سے حاصل ہوتی ہے جوہرکسیکے بس کاکام نہیں، جیساکہ رسول اﷲﷺکے ارشادات سے پتہ چلتاہے۔
سیدنا حضرت معاویہ﷜سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "مَن يُرِدِ اللهُ بِه خَيرًا يُفَقِّهْهُ في الدِّيْنِ"۔ ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں، اسے دین (کتاب وسنت) کی سمجھ بوجھ عطا کر دیتے ہیں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۱، کتاب العلم، باب مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، رقم الحدیث ۷۱)
سیدنا حضرت ابو ہریرہ﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: "فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الإِسْلاَمِ إِذَا فَقِهُوا ’’پھر جاہلیت میں جو لوگ شریف اور اچھے عادات و اخلاق کے تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف اور اچھے سمجھے جائیں گے جب کہ وہ دین کی سمجھ بھی حاصل کریں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۴، کتاب أحادیث الأنبیاء، بَابُ: {أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ} إِلَى قَوْلِهِ: {وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ}، رقم الحدیث۳۳۷۴)
نبی کریمﷺ نے سیدنا حضرت ابن عباس﷜ کو دُعا دیتے ہوئے فرمایا: "اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔  ’’اے اللہ! اسے دین کی فقاہت عطا کر دیں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۱، کتاب الوضوء، باب وَضْعِ الْمَاءِ عِنْدَ الْخَلاَءِ، رقم الحدیث ۱۴۳)
آخرمیں ایک اور چھوٹی سی مثال پیش کیئے دیتا ہوں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوجائے۔ فرض کریں کہ موجودہ دور کا کوئی محدث صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے صرف بالاتفاق صحیح احادیث کا انتخاب کرتاہے اوران تمام احادیث کو چھوڑدیتا ہے جس پرامت کے کسی بھی طبقے یا محدث نے کسی بھی قسم کا شبہ یا اعتراض قائم کیاہواور حدیث کی ایک نئی کتاب تشکیل دیتاہے اورکہتاہے کہ میری یہ کتاب "اصح الکتاب بعد الکتاب ﷲ" (قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے) توکیا کوئی مسلمان اس کی اس بات کوقبول کریگا؟ ہرگزنہیں۔ حالانکہ اس نے بھی تو ان ہی کتابوں سے احادیث جمع کی ہیں جن کو ہم قرآن کے بعد کا درجہ دیتے ہیں پھر بھی کوئی مسلمان اس کی بات قبول نہیں کریگا۔ بالکل اسی طرح سے ائمہ اربعہ کے جواقوال وفتاوجات جن پرامت پچھلے ۱۴۰۰ سالوں سے عمل پیراہے، ان کے خلاف موجودہ دور کا کوئی عالم کوئی نیافتویٰ پیش کریگاتو امت اس کے فتوے کو قبول نہیں کریگی۔ کیونکہ جس طرح علم حدیث کے معاملے میں امت ۱۴۰۰ سالوں سے ائمہ محدثین پراعتمادکرتی آئی ہے بالکل اسی طرح سے علم فقہ کے معاملے میں بھی امت کا۱۴۰۰ سالوں سے ائمہ اربعہ پراعتمادرہاہے۔
غیرمقلدین حضرات تقلید کی تعریف میں کتاب  موسوعہ فقہیہ کے حوالہ سے ادھوری بات نقل کرکے عام اور لاعلم مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ موسوعہ فقہیہ کےصفحہ نمبر۲۶۴اور ۲۶۵میں اتباع کے متعلقہ الفاظ (تقلیداوراقتداء) کی دضاحتیں بھی موجود ہیں اور عامی آدمی پرمجتہد کی تقلید کالازم ہونا بھی نقل کیا گیاہے۔
غیرمقلدین حضرات تقلید کی تعریف کے سلسلے میں مسلم الثبوت وغیرہ کتب کے حوالہ سے تقلید کی تعریف ”التقليد اخذ قول الغير من غير حجة“  سے دلیل پکڑتے ہیں۔
غیرمقلدین  حضرات مسلم الثبوت کی پوری عبارت نقل نہیں کرتے ورنہ کسی صاحب فہم کو شبہ باقی نہ رہے غالباً اسی میں وہ اپنے لئے خیر سمجھتے ہیں۔ مسلم الثبوت کی مکمل عبارت درج ذیل ہے:
’’فصل- التقليد: العلمل بقول الغير من  غير حجة  کأخذ العامی والمجتهد من مثله، فالرجوع الي النبي علیه الصلوٰة والسلام اولٰی الاجماع ليس منه وکذا العامي الٰي المفتي  والقاضي الٰی العدول لايجاب النص ذالك عليها‘‘۔ ’’تقلید  غیر کے قول پر بغیر حجت کے عمل کرنے کا نام ہے جیسا کہ عامی اور مجتہد کا اپنے جیسے عامی اور مجتہد کے قول کو لینا پس آنحضرتﷺ  اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے اور اسی طرح عامی کا مفتی اور قاضی کا عادلوں کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ ان پر ایسا کرنے کو نص واجب قرار دیتی ہے “۔
تقلید  کی اس تعریف کے بعد آخر میں یہ بات لکھی ہےکہ’’لكن العرف علٰي أن العامي مقلد للمجتهد قال الامام الحرمین وعليه معظم الأصولين۔ الصحیح لصحۃ ایمان المقلد عند الأئمۃ اربعۃ وکثیر من المتکمین خلافاً للأشعری“۔ ”مگر عرف اسی پر ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے (امام الحرمینؒ) فرماتے ہیں کہ اسی پر اکثر اصولین ہیں۔ ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمدبن حنبل) کے نزدیک مقلد کا ایمان صحیح ہوتاہےاوراکثرمتکلمین کے نزدیک سوائے اشعری کے‘‘۔ (شرح مسلم الثبوت:ج۲، ص۴۳۲)
غیرمقلدین حضرات کےشیخ الکل جناب مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ مسلم الثبوت کی مکمل عبارت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امام الحرمین نے کہاہےکہ اسی قول مشہورپربڑےبڑےاصولی ہیں اورغزالی اورآمدی اورابن حاجب نے کہاکہ رجوع کرناآنحضرتﷺاوراجماع اورمفتی اورگواہوں کی طرف اگرتقلیدقراردیاجائے توکچھ ہرج نہیں۔ پس ثابت ہواکہ آنحضرتﷺکی پیروی کواورمجتہدین کی اتباع کوتقلید کہناجائزہے‘‘۔ (معیار الحق: ص۷۳)
لیکن عام ارباب اصول کے عرف میں مجتہدکے قول کوماننے والا مقلد کہلاتاہےحالانکہ مجتہد کاقول اس کے لئے حجت ہےیہ من غیرحجۃکی مداورزدمیں نہیں ہے اور علماءِ اصول کی اکثریت اسی پرہے، لہٰذا مجتہدکی تقلیدپر من غیرحجۃ کی تعریف کوفٹ کرنااورمجتہدکے قول کوغیرحجت قراردیناارباب اصول کی واضح عبارات سے غفلت پرمبنی ہے کیونکہ عامی جب خودعلم نہیں رکھتا توعلم والوں کی طرف مُراجعت کے بغیراس کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں اورایسا کرنے کوبھی نص واجب قراردیتی ہے۔ جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے کہ: ’’فَاسْاَلُـوٓا اَهْلَ الـذِّكْرِ اِنْ كُنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘۔’پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر تم کو علم نہیں‘‘۔ [سورۃ النحل: ٤٣]
ثانیاً یہ کہ ہم نے باحوالہ تقلید کی تعریف میں’’من غير مطالبة دليل‘‘ اور ’’من غير تامّل فی الدليل‘‘ اور ’’بلا نظر فی الدليل‘‘ کے الفاظ بھی نقل کیئے ہیں جس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ مجتہد کے پاس دلیل موجودہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقلد دلیل کاتقاضہ نہیں کرتا اوراس خاص دلیل کافکرمند نہیں ہوتا جوکہ مجتہد نے قائم کی ہے۔ کیونکہ الدلیل میں الف لام عہد کے لئے ہے۔ غرض یہ کہ تقلید کی تعریف صرف یہی نہیں جو مسلم الثبوت کے حوالے سے نقل کی گئی ہے بلکہ وہ بھی ہے جوہم نےباحوالہ نقل کی ہیں۔
غیرمقلدین کے نزدیک تقلید کی تعریف
غیرمقلدین کے نزدیک تقلید کی بس یہی تعریف ہےکہ کسی کی بے دلیل بات کو ماننا یا پھر کسی کی بات کو ماننا جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو۔
 یہی تعریف ان کے شیخ الحدیث اور ان کی ”تقلید“ میں ان کا ایک عام اَن پڑھ جاہل شخص کرتا پھرتا ہے۔
اتباع، اقتداء، اطاعت، پیروی اور تقلیدایک ہی  معنیٰ میں آتے ہیں، جس طرح اتباع و اطاعت کے دونوں معنیٰ ہیں اسی طرح  اہل لغت نے تقلید کے بھی دونوں معنیٰ کیئے ہیں۔ بے دلیل کسی کی پیروی کو بھی تقلید کہتے ہیں اور با دلیل بات کو بلا مطالبہ دلیل مانے کو بھی تقلید کہتے ہیں۔
کون سی تقلید صحیح (محمود) ہے اور کون سی صحیح نہیں (مذموم ) ہے اس کا  فرق تب معلوم ہوتا ہے جب دیکھا جائے کہ جس کی اتباع کی جارہی ہے وہ کیا ہے۔ کافر ہے تو مذموم اور اس کی تقلید حرام، مومن ہے، مجتہد ہے، فقیہ ہے، تو محمود اور اس کی تقلید لازم کیونکہ فروعی غیر منصوص مسائل میں اجتہاد ایک ضرورت ہے ۔جب اجتہاد ضرورت ہے  تو جو اجتہاد نہیں جانتا تو اسکے لئے مجتہد کی پیروی کرنا ضروری ہو گا اور اس کے سوا ء ایک عامی شخص کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ ہم دونوں باتوں کو اپنی اپنی جگہ صحیح مانتے ہیں جبکہ غیرمقلدین اہل لغت و اصولین سے اپنی خواہش کے مطابق صرف ایک بات کا انتخاب کرتے ہیں دوسری کو پرے پھینک دیتے ہیں۔
غیرمقلدین کاتقلید کی تعریفات میں اپنی خواہش کے مطابق ایک تعریف کو لینا اور دوسری کو پھینک دینا اصولین، اہل لغت وغیرہ کے ساتھ خیانت نہیں  تو اور کیا ہے؟