-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Wednesday, 11 May 2016

مسئلہ تراویح - ایک نئی، مدلل اور جامع تحقیق: آٹھ رکعات تراویح کی حقیقت دلائل کی روشنی میں

بسم الله الرحمن الرحیم

آٹھ (۸) رکعات تراویح  کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی
عہدِ فاروقی سے لیکر بارہویں صدی کے اواخر یعنی ۱۲۸۴ھ؁ تک نمازِ تراویح کے بیس رکعات یا بیس سے زیادہ کے سب قائل تھے۔ چونکہ یہ ایک اجماعی مسئلہ سمجھا جاتا تھااس لئے اس کے خلاف لب کشائی کسی کوبھی گوارانہ تھی۔ جب ۱۲۸۴ھ؁ ۱۸۶۸ء؁میں ہندوستان کے مشہورشہراکبرآباد میں کسی غیرمقلد مولوی صاحب نے یہ فتویٰ دیاکہ تراویح آٹھ (۸) رکعات ہیں تواس فتویٰ کے خلاف پورے برصغیر میں طوفان برپا ہوگیااوراسی سن میں مطبع لطافت آگرہ سے ایک رسالہ بنام استفتاءالتراویح کے نام سے طبع ہواجس میں اس علاقہ کے تقریباً ۱۸ علماءکرام کے پُرزورفتوےٰ اس میں طبع ہوئے اورعوام الناس کواس فتنےسے آگاہ کیاگیا۔ خطۂِ پنجاب میں سب سے پہلے جن صاحب نے تراویح کے آٹھ رکعات ہونے کا فتویٰ دیا وہ مشہور غیرمقلد مفتی محمد حسین بٹالوی گورداس پوری ہیں۔ اورخیرسے گورداس پور کاضلع فتنوں کے لئے ایسا ذرخیزرہاہے کہ کسی دوسرے ضلع کویہ شرف نصیب نہ ہوسکا۔ مرزاغلام احمد قادیانی، مسٹرغلام احمد پرویزی، مولوی سردار لائلپوری اور سید ابوالا علیٰ مودودی اس ضلع سے ہی نمودار ہوئے ہیں۔ غیرمقلدین حضرات کے روح رواں مفتی محمد حسین بٹالوی صاحب کے اس فتوےٰ کاجواب اگرکوئی حنفی یامقلدعالم دیتاتوباوجود معقول اوردرست ہونے کے کہنے والے اس کوتعصب کی پیداوار کہہ دیتے لیکن اﷲربّ العزت نے یہ کام ایک غیرمقلد عالم سے ہی لے لیاجن کا نام مولانا غلام رسول صاحب قلعہ میہاں سنگھ ضلع گوجرانوالہ ہے، جن کوغیرمقلدین حضرات کے شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ سے شرف تلمذحاصل تھا۔ چنانچہ ان کی کتاب الحیات بعدالممات کے صفحہ نمبر۶۹۰میں ان کے تلامذہ میں مولانا غلام رسول صاحب کاذکرہے۔اورتاریخ اہلحدیث کے صفحہ نمبر۴۲۳ میں شیخ الکل کے تلامذہ میں ان کا نام اس عنوان ’’مولوی غلام رسول صاحب قلعہ میاں سنگھ ضلع گوجرانوالہ‘‘ سے مذکور ہے۔ انہوں نے انتہائی مدلل طریقہ سے خالص علمی رنگت میں مفتی محمد حسین بٹالوی کے فتوےٰ کا جواب دیااور اس میں پوری دلسوزی اورہمدردی کا اظہار فرمایااور بٹالوی صاحب کے بے جاغلواورتعصب کوطشت ازبام کیا۔ چنانچہ مولانا غلام رسول صاحب نے فارسی زبان میں رسالہ التراویح کے نام سے ایک رسالہ تحریرفرمایاجس میں ایک مقام پربٹالوی صاحب کے غلوکاتذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرات صحابہ کرامؓ، ائمہ اربعہ اورمسلمانوں کی عظیم جماعت کاعمل یہ ہے کہ وہ حضرت عمرفاروقؓ کے زمانہ سے لے کراس وقت تک مشرق ومغرب میں تئیس (۲۳) رکعت ہی پڑھتے رہے بخلاف اس غالی مفتی کے کہ وہ اس کوبدعت اورمحالف سنت کہتاہےاورافراط کی راہ پرچلتاہے‘‘۔ (رسالہ تراویح ازحضرت مولاناغلام رسول قلعہ میاں سنگھ، ضلع گوجرانوالہ[اردو]: ص۶)
غیرمقلد عالم جناب مولانا غلام رسول صاحب کی اس تحریر سے یہ بات سورج کی روشنی کی طرح واضح ہوگئی کہ حضرت عمرؓ کے دورسے لے کر۱۲۹۰ھ؁ ؁ ۱۸۷۴ء؁تک جب مولانا غلام رسول صاحب نے یہ کتاب لکھی، خود مولانا موصوف کے علم میں بھی کوئی بیس رکعات تراویح کے خلاف نہ تھااورپوری امت مسلمہ اس کو سنت سمجھ کر ادا کرتی رہی تھی۔ مولانا غلام رسول صاحب ایک اورمقام پراس غالی مفتی پرتنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اوریہ مفتی (محمد حسین بٹالوی) سینہ زوری کے ساتھ سنت کی پیروی کرنے والوں کے عمل کوبدعت کہتاہے۔ (معاذاﷲتعالیٰ) اورحضرت عمربن خطابؓ کے زمانہ سے لے کراس وقت تک حضرات صحابہ کرامؓ، تابعین، ائمہ مجتہدینؒ کی عظیم جماعت اورمشرق ومغرب کے علماءکے عمل کومخالف سنت قراردیتاہے۔ (العیاذباﷲتعالیٰ)‘‘۔ (رسالہ تراویح ازحضرت مولاناغلام رسول قلعہ میاں سنگھ، ضلع گوجرانوالہ[اردو]: ص۱۰-۱۱)
جوغیرمقلدین حضرات ۲۰ رکعات تراویح پرہونے والے امت مسلمہ کے ۱۳۰۰ سو سالہ اجماع کا انکارکرتے ہیں ان تمام حضرات کے لئے شعرعرض ہے:
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینہ کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 
مولانا غلام رسول صاحب کارسالۂ تراویح جوجناب قاضی امام الدین صاحب اورقاضی ضیاءالدین صاحب کی کوشش سے ۱۲۹۱ھ؁ ۱۸۷۵ء؁میں مطبع محمدی لاہورمیں طبع ہواتھاوہ فارسی زبان میں ہےکیونکہ اس وقت مسلمانوں کی اکثریت فارسی کوبآسانی سمجھ سکتی تھی جس طرح کہ آج عموماًاردوزبان سمجھی جاتی ہے۔ اہل علم کے لئے تو ضروری نہیں تھاکہ اس کا اردو ترجمہ کیاجاتالیکن عامۃالمسلمین کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے شیخ الحدیث امام اہلسنت حضرت مولانامحمد سرفرازخان صفدرؒنے اس رسالے کا اردوترجمہ کیاہے جوکہ پی ڈی ایف میں اسی تحریر کے ساتھ یہاں دیئے گئے لنک میں موجود ہے۔
سعودی عرب میں جب غیرمقلدیت کا فتنہ پھیلااورمکہ مدینہ کی مساجد میں لوگ آٹھ رکعات تراویح پڑھ کرجانے لگے، اس وقت سعودی عرب کے ایک نامور عالم، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ یونیورسٹی کے سابق قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (المتوفی ۱۹۹۹ء)نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب ’’التراویحُ أکْثَرُمِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی‘‘لکھی۔ اس کتاب کے مقدمہ میں کتاب کے لکھنے کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’مسجد نبوی میں نماز تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہےاور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے،لہٰذا میں یہ کتاب اس لئےلکھ رہا ہوں، تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے‘‘
اس کتاب میں ۱۴۰۰سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم لکھتے ہیں: ’’اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ آٹھ (۸)سے زائد تراویح جائز نہیں ہےاور اس نے حضرت عائشہ  کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو؟‘‘
مندرجہ بالادلائل اورائمہ کرام کے اقوال سے یہ بات سورج کی روشنی کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ عہدِ فاروقی سے لیکر بارہویں صدی کے اواخر تک پوری امت مسلمہ نمازِ تراویح کے بیس رکعات یا اس سے زائدہونے کی قائل تھی۔ مسلمانوں کی تقریباً (۱۳۰۰)تیرہ سوسالہ تاریخ میں دنیامیں کہیں بھی اور کسی بھی مسجد میں آٹھ رکعات تراویح نہیں ہوتی تھی۔ قرقہ غیر مقلدین (نام نہادااہلحدیث) کے وجود میں آنے سے پہلے مسلمانوں میں کوئی ایک شخص یا کوئی ایک مسجد بھی ایسی نہیں تھی جہاں ۸ آٹھ رکعات تراویح پڑھی یاپڑھائی جاتی ہو۔ اس کا مطلب پوری امت مسلمہ کا (۱۳۰۰) تیرہ سوسالوں تک بیس رکعات یا اس سے زائدتراویح پراتفاق واجماع رہا ہے۔ اس طویل اجماع کے خلاف اگر غیرمقلدین حضرات (۸) آٹھ رکعات تراویح کے مدعی ہیں تو صحیح سند سے اور ٹھوس حوالوں سے ثابت کرکے دکھائیں کہ ۱۲۸۴ھ؁سے پہلے دنیامیں کہیں کسی مسجد میں آٹھ رکعات تراویح کی جماعت ہوتی تھی۔
جولوگ صرف آٹھ رکعات تراویح پراکتفا کرتے اور سنت پرعمل کا دعویٰ کرتے ہیں وہ درحقیقت سواداعظم سے شذوذ اختیار کرتے ہیں اور ساری امت پر بدعت کا الزام لگاکر خود اپنے پر ظلم کرتے ہیں۔
رسول اﷲﷺکا مشہورفرمانِ عالیشان ہے کہ: ’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مَرْزُوقٍ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّ يَدَ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ»‘‘۔ ’’میری امت کبهی گمراہی پرجمع نہیں ہوگی پس تمہارے لئے جماعت ہے کیونکہ اﷲکاہاتھ جماعت پرہے‘‘۔ (المعجم الكبير للطبرانی: ج۱۲، ص۴۴۷، رقم الحدیث ۱۳۶۲۳)
’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ وَمَنْدَلٌ عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي جَهْمٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وَهْبَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏: "‏مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الإِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِهِ"‘‘۔ ’’ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے جماعت  سے ایک بالشت بھی علیحدگی اختیار کی تو اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا‘‘۔ (صحیح سنن ابی داؤد: کتاب السنۃ، باب فِي قَتْلِ الْخَوَارِجِج، ج۳، ص۱۶۷، رقم الحدیث ۴۷۵۸)
رسول اﷲﷺکے فرمان کے مطابق یہ ممکن ہی نہیں کہ ۱۲ہویں صدی ہجری کے آخرتک پوری امت مسلمہ ۲۰ رکعات تراویح جیسے بدعت عمل پرجمع تھی۔ اگر فرقہ غیرمقلدین کے اس بہتانِ عظیم کوسچ مان لیا جائے تو پھر رسول اﷲﷺ کی صحیح حدیث کومعاذاﷲ جھوٹا قرارد یناپڑے گااور اس طرح دین اسلام کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ لہٰذا ہمارا یہ ایمان ہے کہ امت مسلمہ کبھی بھی گمراہیت پر جمع نہیں ہوئی اور تراویح ۲۰ رکعات ہی سنت ہے۔
اس کے برعکس فرقہ غیرمقلدین نے ۲۰ رکعات تراویح کی مخالفت میں امت مسلمہ کے تقریباً(۱۳۰۰)تیرہ سوسالہ اجماع کی مخالفت کرتے ہوئے مومنین (مسلمانوں) کی راہ سے علیحدگی اختیارکی، اور مومنین کی راہ کو چھوڑنے والوں کے لئے اﷲتبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الْـهُدٰى وَيَتَّبِــعْ غَيْـرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُـوَلِّـهٖ مَا تَوَلّـٰى وَنُصْلِـهٖ جَهَنَّـمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيْـرًا‘‘۔ ’’ اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے‘‘۔ [سورۃ النساء: ۱۱۵]
آٹھ رکعات تراویح کی حقیقت دلائل کی روشنی میں
فرقہ غیرمقلدیں کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی کی آٹھ رکعت تراویح پردلیل نمبر  ۱
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا کَيْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَی إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي‘‘۔ ’’ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا‘‘۔ (صحيح البخاری: ج۳، كتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، رقم الحدیث۲۰۱۳) (صحيح المسلم: ج۱، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صَلاَةِ اللَّيْلِ وَعَدَدِ رَكَعَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اللَّيْلِ وَأَنَّ الْوِتْرَ رَكْعَةٌ وَأَنَّ الرَّكْعَةَ صَلاَةٌ صَحِيحَةٌ، رقم الحدیث۷۳۸)
دلیل نمبر ۱ کے جوابات
۱۔ مندرجہ بالا حدیث کے الفاظ پڑھ کر یہ بات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ امی عائشہ رضی اﷲعنہااس حدیث میں نبی کریم ﷺ کی تہجد کی نماز کا ذکر فرمارہی ہیں ناکہ تراویح کی نماز کاکیونکہ حدیث میں رمضان اورغیررمضان دونوں (یعنی ۱۲مہینوں) کا ذکر ہےاورساتھ ہی حدیث کے واضح الفاظ بتارہے ہیں کہ آپ ﷺ چار رکعت نماز ایک سلام کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، جبکہ تراویح کی نماز دورکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔
غیرمقلدین حضرات اگراس حدیث پرعمل کرناچاہتے ہیں تو انہیں چاہیئےکہ اس حدیث کے تمام اجزاء پر عمل کریں اور حدیث میں بیان کردہ پوری کیفیت کے ساتھ نماز ِتراویح ادا کریں یا کم از کم اس کے مسنون ہونے کو بیان کیا جائے؛مگر افسوس کہ اس حدیث سے صرف آٹھ رکعات کا لفظ تو لےلیاجاتاہے مگرآٹھ رکعات نماز کی کیفیت کو چھوڑ دیاجاتاہے۔ کیونکہ حدیث میں لمبی لمبی چار چار رکعتیں پڑھنے کاذکر ہے پھراس کے بعدتین رکعت وتر کا بھی ذکر ہے، جبکہ غیرمقلدین حضرات عام دنوں میں وتر کے لیے تین کے لفظ کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رکعت وتر کو اپنی سہولت کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ امی عائشہ رضی اﷲعنہاکی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات پڑھنے کے بعد سوجاتے اور کچھ دیرآرام فرمانے کے بعدتین رکعت وتر پڑھتے تھےجبکہ فرقہ غیرمقلدین کے لوگ حدیث کے اس جزءپربھی عمل نہیں کرتے اورپوری گیارہ رکعات میں کہیں بھی نہیں سوتے۔ حالانکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ماہِ رمضان میں تمام حضرات نماز ِعشاء کے ساتھ تراویح پڑھنے کے فوراً بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھتے تھے۔ بخاری کی اس حدیث سے صرف آٹھ کے لفظ کو لے کر باقی تمام امور کو چھوڑ نا، یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل کرنا نہیں ہوا بلکہ اپنے اسلاف (یعنی مفتی محمد حسین بٹالوی) کے حدیث فہمی پر قناعت کرنا ہے، اور یہی اندھی تقلید ہے۔
۲۔ غیر مقلدین حضرات یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نمازیں ہیں۔ ذیل میں درج صحیحِ بخاری کی احادیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ کی تہجدکی نماز کا دائمی معمول گیارہ رکعات پر مبنی نہیں تھا بلکہ آپ ﷺنے نمازِ تہجد میں پانچ، سات، نو ، گیارہ اور تیرہ یہاں تک کہ سترہ رکعات بھی پڑھی ہیں۔ غیرمقلدین حضرات کے نزدیک اگر تراویح اور تہجد ایک ہی نمازیں ہیں تو پھر ان کی نمازِ تراویح صرف آٹھ رکعات تک ہی محدودکیوں ہے؟ پھر تو انہیں سات، نو اور تیرہ رکعات تراویح کو بھی سنت کہتے ہوئے اس پر عمل کرنا چاہیئے۔
’’حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ عَنْ صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِاللَّيْلِ‏.‏ فَقَالَتْ سَبْعٌ وَتِسْعٌ وَإِحْدَى عَشْرَةَ سِوَى رَكْعَتَىِ الْفَجْرِ‘‘۔ ’’مسروق بن اجدع فرماتے ہیں میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات، نو اور گیارہ تک رکعتیں پڑھتے تھے۔ فجر کی سنت اس کے سوا ہوتی‘‘۔ (صحيح البخاری: ج۲، كِتَاب التھجد، باب كَيْفَ كَانَ صَلاَةُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، رقم الحدیث ۱۱۳۹)
’’حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَانَ صَلاَةُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً‏.‏ يَعْنِي بِاللَّيْلِ‘‘۔ ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز تیرہ رکعت ہوتی تھی‘‘۔ (صحيح البخاری: ج۲، كِتَاب التھجد، باب كَيْفَ كَانَ صَلاَةُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، رقم الحدیث ۱۱۳۸)
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ، وَهْىَ خَالَتُهُ، فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ وِسَادَةٍ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ، فَاسْتَيْقَظَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ، فَتَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَصَنَعْتُ مِثْلَهُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ بِأُذُنِي يَفْتِلُهَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ، خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے (آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) میں تکیہ کے عرض میں لیٹ گیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی‘‘۔ (صحيح البخاری: ج۲، كِتَاب الوتر، باب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ، رقم الحدیث ۹۹۲)
’’وأما ما رواه الزهري عن عروة عنها كما سيأتي في باب ما يقرأ في ركعتي الفجر بلفظ كان يصلي بالليل ثلاث عشرة ركعة ثم يصلي إذا سمع النداء بالصبح ركعتين خفيفتين فظاهره يخالف ما تقدم فيحتمل أن تكون أضافت إلى صلاة الليل سنة العشاء لكونه كان يصليها في بيته أو ما كان يفتتح به صلاة الليل فقد ثبت عند مسلم من طريق سعد بن هشام عنها أنه كان يفتتحها بركعتين خفيفتين وهذا أرجح في نظري‘‘۔ ’’اور امام زہریؒ کےبواسطہ سید عروہ ؒ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھا کرتے، اور پھر جب اذان سنتے تو دو رکعت سنت کی پڑھتے‘‘۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری لابن حجر العسقلانی: ج۳، كِتَابُ التھجد، باب كَيْفَ كَانَ صَلاَةُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، ص۵۳۳)
قارئین کرام ذراغورفرمائیں کہ گیارہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں ہے اور سات، نواورتیرہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں ہی ہے اور دونوں احادیث حضرت عائشہ رضی اﷲعنہاسے ہی مروی ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گیارہ رکعات والی حدیث میں سے لفظ آٹھ کو تو لے لیا اور سات، نواورتیرہ رکعات والی حدیث کو بالکل ہی چھوڑدیا، حالانکہ تیرہ رکعات والی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ’’کَانَ‘‘کالفظ ہے جو عربی زبان میں ماضی استمرار کے لیے استعمال ہوتاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیرہ رکعات پڑھنے کا معمول تھا۔ نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح کو ایک کہنے والے حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں بخاری کی تینوں احادیث میں تطبیق دینے سےقاصر ہیں۔ جب ان سےپوچھا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲعنہاکی آٹھ رکعات والی حدیث میں تو چار چار رکعت پڑھنے کا تذکرہ ہےجبکہ آپ کاعمل دو دو رکعت پڑھنے کا ہے تو جواب میں دوسری حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، جوحضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲعنہ سے مروی ہےاوربخاری میں کتاب الوترمیں موجودہے، جس میں نمازِ تہجد کے دو دو رکعت پڑھنے کا تذکرہ ملتاہے۔ بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ وتر کے علاوہ دو دو رکعت کرکے تہجد کی کل بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ آٹھ رکعات تراویح کا موقف رکھنے والے غیرمقلدین حضرات کے نزدیک اگرتراویح اور تہجد ایک ہی نماز یں ہیں تو ان احادیث میں تطبیق کی کوئی صورت بتائیں، ورنہ حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کی پہلی حدیث سے آٹھ کا لفظ لینےاور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲعنہ کی حدیث سے دو دو رکعت پڑھنے کو لینےسے نہ تو حضرت عائشہ رضی اﷲعنہاکی حدیث پر عمل ہوا اور نہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲعنہ کی حدیث پرعمل ہوا، بلکہ اپنے اسلاف(یعنی مفتی محمد حسین بٹالوی)  کی اندھی تقلید ہوئی۔ حالانکہ یہ تینوں احادیث صحیح بخاری ہی ہیں موجودہیں۔ معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد کو ایک قرار دینا ہی غلط ہے، کیونکہ اس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں دیا جاسکتا ہے۔ چاروں ائمہ میں سے کوئی بھی دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے کا قائل نہیں ہے۔ امام بخاریؒ بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھا کرتے تھے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ(المتوفى: ۸۵۲ھ)  لکھتےہیں: ’’وَقَالَ الْحَاكِم أَبُو عبد الله الْحَافِظ أَخْبرنِي مُحَمَّد بن خَالِد حَدثنَا مقسم بن سعد قَالَ كَانَ مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ يجْتَمع إِلَيْهِ أَصْحَابه فيصلى بهم وَيقْرَأ فِي كل رَكْعَة عشْرين آيَة وَكَذَلِكَ إِلَى أَن يخْتم الْقُرْآن وَكَانَ يقْرَأ فِي السحر مَا بَين النّصْف إِلَى الثُّلُث من الْقُرْآن فيختم عِنْد السحر فِي كل ثَلَاث لَيَال وَكَانَ يخْتم بِالنَّهَارِ فِي كل يَوْم ختمة وَيكون خَتمه عِنْد الْإِفْطَار كل لَيْلَة‘‘۔ ’’امام حاکم ابو عبدالله نے بسند روایت کیا ہے مقسم بن سعید سے کہ محمّد بن اسماعیل بخاری جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے، وہ نمازِتراویح پڑھاتے اور ہر رکعت میں بیس (٢٠) آیات  پڑھتے،یہاں تک کہ قرآن ختم کرتے پھر سحر کو (نمازتہجد میں) نصف سے لیکر تہائی قرآن تک پڑھتےتھے‘‘۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری لابن حجر العسقلانی: مقدمہ، ص۵۰۵)
۳۔ ذیل میں موجودصحیح بخاری کی حدیث سے نبیﷺپرتہجدکی نمازکی فرضیت کاپتہ چلتاہے اورصحیح مسلم اورابوداؤدکی احادیث سے آپﷺپر تہجد کی فرضیت کی منسوخی کا پتہ چلتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تہجد اور تراویح دونوں ایک ہی نمازیں ہیں تو پھر نبیﷺ نے صرف تین دن تراویح پڑھانے کے بعد اس کی فرضیت کے ڈر سے اسے ترک کیوں کردیا؟ جبکہ تہجد کی فرضیت  کا حکم تو اﷲ پاک نے پہلے ہی آپ ﷺپرسےاٹھالیا تھا لہٰذا دوبارہ فرض ہوجانے کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتاتو پھرآپﷺنے اس کی فرضیت کے ڈرکا اظہارفرماتے ہوئے نمازِتراویح پڑھاناترک کیوں فرمایا؟
اﷲتعالیٰ نے (سورۃ بنی اسرائیل میں) فرمایا: ’’وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ}‘‘۔ ’’اوررات کے ایک حصے میں تہجدپڑھ یہ تیرے لئے زیادہ حکم ہے‘‘۔ (صحيح البخاری: ج۲، كِتَاب التھجد، باب التَّهَجُّدِ بِاللَّيْلِ، ص۱۵۴)
’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ ابْنِ شَبُّوَيْهِ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ فِي الْمُزَّمِّلِ: قُمِ اللَّيْلَ إِلا قَلِيلا نِصْفَهُ سورة المزمل آيةنَسَخَتْهَا الْآيَةُ الَّتِي فِيهَا عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْءَانِ سورة المزمل آية  وَنَاشِئَةُ اللَّيْلِ: أَوَّلُهُ، وَكَانَتْ صَلَاتُهُمْ لِأَوَّلِ اللَّيْلِ، يَقُولُ: هُوَ أَجْدَرُ أَنْ تُحْصُوا مَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ، وَذَلِكَ أَنَّ الْإِنْسَانَ إِذَا نَامَ لَمْ يَدْرِ مَتَى يَسْتَيْقِظُ، وَقَوْلُهُ: وَأَقْوَمُ قِيلا سورة المزمل آية  هُوَ أَجْدَرُ أَنْ يَفْقَهَ فِي الْقُرْآنِ، وَقَوْلُهُ: إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلا سورة المزمل آية، يَقُولُ: فَرَاغًا طَوِيلًا‘‘۔ ’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں سورۃ مزمل کی آیت »قم الليل إلا قليلا، نصفه « "رات کو کھڑے رہو مگر تھوڑی رات یعنی آدھی رات کو" دوسری آیت »علم أن لن تحصوه فتاب عليكم فاقرءوا ما تيسر من القرآن«"اسے معلوم ہے کہ تم اس کو پورا نہ کر سکو گے لہٰذا اس نے تم پر مہربانی کی، لہٰذا اب تم جتنی آسانی سے ممکن ہو (نماز میں) قرآن پڑھا کرو"نے منسوخ کر دیا ہے، »ناشئة الليل«کے معنیٰ شروع رات کے ہیں، چنانچہ صحابہ کی نماز شروع رات میں ہوتی تھی، اس لیے کہ رات میں جو قیام اللہ نے تم پر فرض کیا تھا اس کی ادائیگی اس وقت آسان اور مناسب ہے کیونکہ انسان سو جائے تو اسے نہیں معلوم کہ وہ کب جاگے گا اور »أقوم قيلا«سے مراد یہ ہے رات کا وقت قرآن سمجھنے کے لیے بہت اچھا وقت ہے اور اس کے قول »إن لك في النهار سبحا طويلا«کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے کام کاج کے واسطے دن کو بہت فرصت ہوتی ہے (لہٰذا رات کا وقت عبادت میں صرف کیا کرو)‘‘۔ (سنن ابیداؤد: ج۲، کتاب التطوع، باب نَسْخِ قِيَامِ اللَّيْلِ وَالتَّيْسِيرِ فِيهِ، رقم الحدیث۱۳۰۴)
’’قَالَ قُلْتُ‏:‏ حَدِّثِينِي عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ قَالَتْ‏:‏ أَلَسْتَ تَقْرَأُ«يَاأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ»قَالَ قُلْتُ‏:‏ بَلَى۔ قَالَتْ‏:‏ فَإِنَّ أَوَّلَ هَذِهِ السُّورَةِ نَزَلَتْ، فَقَامَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَحُبِسَ خَاتِمَتُهَا فِي السَّمَاءِ اثْنَىْ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ نَزَلَ آخِرُهَا فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ۔‏ قَالَ قُلْتُ‏:‏ حَدِّثِينِي عَنْ وِتْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم۔‏ قَالَتْ‏:‏ كَانَ يُوتِرُ بِثَمَانِ رَكَعَاتٍ لاَ يَجْلِسُ إِلاَّ فِي الثَّامِنَةِ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَةً أُخْرَى، لاَ يَجْلِسُ إِلاَّ فِي الثَّامِنَةِ وَالتَّاسِعَةِ، وَلاَ يُسَلِّمُ إِلاَّ فِي التَّاسِعَةِ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَىَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعِ رَكَعَاتٍ لَمْ يَجْلِسْ إِلاَّ فِي السَّادِسَةِ وَالسَّابِعَةِ، وَلَمْ يُسَلِّمْ إِلاَّ فِي السَّابِعَةِ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتِلْكَ هِيَ تِسْعُ رَكَعَاتٍ يَا بُنَىَّ، وَلَمْ يَقُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةً يُتِمُّهَا إِلَى الصَّبَاحِ، وَلَمْ يَقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي لَيْلَةٍ قَطُّ، وَلَمْ يَصُمْ شَهْرًا يُتِمُّهُ غَيْرَ رَمَضَانَ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلاَةً دَاوَمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا غَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ مِنَ اللَّيْلِ بِنَوْمٍ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَىْ عَشْرَةَ رَكْعَةً۔‏ قَالَ‏:‏ فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ۔‏ فَقَالَ‏:‏ هَذَا وَاللَّهِ هُوَ الْحَدِيثُ، وَلَوْ كُنْتُ أُكَلِّمُهَا لأَتَيْتُهَا حَتَّى أُشَافِهَهَا بِهِ مُشَافَهَةً۔‏ قَالَ قُلْتُ‏:‏ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ لاَ تُكَلِّمُهَا مَا حَدَّثْتُكَ‘‘۔ ’’سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سےعرض کیا: آپﷺ کی رات کی نماز (تہجد)کے بارے میں کچھ بیان کیجئیے، انہوں نے فرمایا: کیا تم سورۃ «يَاأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ»نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا: جب اس سورۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نماز کے لیے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان کے پیروں میں ورم آ گیا اور سورۃ کی آخری آیات آسمان میں بارہ ماہ تک رکی رہیں پھر نازل ہوئیں تو رات کی نماز نفل ہو گئی جب کہ وہ پہلے فرض تھی، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بیان کیجئیے، انہوں نے کہا: آپ آٹھ رکعتیں پڑھتے اور آٹھویں رکعت کے بعد پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھتے، اس طرح آپ آٹھویں اور نویں رکعت ہی میں بیٹھتے اور آپ نویں رکعت کے بعد ہی سلام پھیرتے اس کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے، اس طرح یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئیں، میرے بیٹے! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن رسیدہ ہو گئے اور بدن پر گوشت چڑھ گیا تو سات رکعتوں سے وتر کرنے لگے، اب صرف چھٹی اور ساتویں رکعت کے بعد بیٹھتے اور ساتویں میں سلام پھیرتے پھر بیٹھ کر دو رکعتیں ادا کرتے، اس طرح یہ کل نو رکعتیں ہوتیں، میرے بیٹے! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی رات کو (لگاتار)صبح تک قیام نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی ایک رات میں قرآن ختم کیا، اور نہ ہی رمضان کے علاوہ کبھی مہینہ بھر مکمل روزے رکھے، اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نماز پڑھتے تو اس پر مداومت فرماتے، اور جب رات کو آنکھوں میں نیند غالب آ جاتی تو دن میں بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ سعد بن ہشام کہتے ہیں: میں ابن عباس کے پاس آیا اور ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! حدیث یہی ہے، اگر میں ان سے بات کرتا تو میں ان کے پاس جا کر خود ان کے ہی منہ سے بالمشافہہ یہ حدیث سنتا، میں نے ان سے کہا: اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ ان سے بات نہیں کرتے ہیں تو میں آپ سے یہ حدیث بیان ہی نہیں کرتا‘‘۔ (صحیح المسلم: ج۲، كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا، باب جامع صلاة الليل ومن نام عنه او مرض، رقم الحدیث ۱۷۳۹؛ سنن ابی داؤد: ج۲، کتاب التطوع، باب فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ، رقم الحدیث۱۳۴۲)
مندرجہ بالااحادیث سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں، ایک یہ کہ تہجد کی مشروعیت قرآن کریم سے ہے، دوسری یہ کہ تہجد کی مشروعیت مکہ مکرمہ میں ہوئی، کیونکہ سورۃ مزمل قبل ہجرت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے اور اسی سے تہجد کی مشروعیت ثابت ہے، تیسری یہ کہ تہجد ایک سال تک فرض رہی، بعد میں سورۃمزمل کے آخری حصہ کے نازل ہو نے کے ساتھ فر ضیت منسوخ ہو گئی اور تہجد نفل بن گئی، جب کہ تراویح کی نماز آپ ﷺ نے مدینہ میں پڑھائی اورتراویح کبھی بھی آپﷺ پرفر ض نہیں ہوئی۔
احادیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تہجد رسول اﷲﷺ پر فر ض تھی، پھرامت کے حق میں تہجد کی فر ضیت منسو خ ہو گئی مگر تراویح آپ ﷺ پرکبھی فرض نہیں تھی۔
۴۔ اسی طرح مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ تہجد نفل نمازہونے کی وجہ سے سنت غیر مؤکدہ ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اوپرگزرچکاہےکہ تہجد پہلے فرض تھی پھربعد میں اس کی فرضیت مسنوخ ہو گئی، جبکہ تراویح سنت مؤکدہ ہے، کیونکہ رسول اﷲﷺ نے خودہی رمضان المبارک کے روزوں کوفرض اورتراویح کو سنت قراردیاہےاوراسے پڑھنے کی تاکیدفرمائی ہے، جیساکہ حدیث میں آتاہےکہ:
’’وَحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ فَيَقُولُ ‏ "مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ‏"‏۔‏ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ كَانَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلاَفَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ رمضان میں تراویح پڑھنے کی ترغیب دیتے بغیراس کے کہ یاروں کوتاکید سے حکم کریں اورفرماتے جورمضان میں ایمان کے درس اورثواب حاصل کرنے کے لئے نماز پڑھے تواس کے اگلے گناہ بخشے جائیں گے۔ پھررسول اﷲﷺنے انتقال فرمایا۔ پھرابوبکررضی اﷲعنہ کی خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا (یعنی جس کاجی چاہتارات کونماز پڑھتا)‘‘۔ (صحيح المسلم: ج۱، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَهُوَ التَّرَاوِيحُ، رقم الحدیث۱۷۸۰)
’’أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شَيْبَانَ، قَالَ: - قُلْتُ لِأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدِّثْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ أَبِيكَ، سَمِعَهُ أَبُوكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْسَ بَيْنَ أَبِيكَ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ قَالَ: نَعَمْ - حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "‏إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَرَضَ صِيَامَ رَمَضَانَ عَلَيْكُمْ وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ‏"‘‘۔ ’’حضرت عبدالرحمٰن نضر بن شیبان کہتے ہیں میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ مجھ سے ماہ رمضان کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کریں جو آپ نے اپنے والد(عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ)سے سنی ہو، اور اسے آپ کے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا ہو، آپ کے والد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ کوئی اور حائل نہ ہو۔ انہوں نے کہا: اچھا سنو! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے ہیں، اور میں نے تمہارے لیے اس میں قیام (تراویح) کرنے کو سنت قرار دیا ہے اس میں جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے روزہ رکھے گا اور (عبادت پر)کمربستہ ہو گا تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل جائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو‘‘۔ (سنن نسائی: ج۲، کتاب الصیام، باب ذِكْرِ اخْتِلاَفِ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ وَالنَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ فِيهِ، رقم الحدیث۲۲۱۲)
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ "مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"۔‏ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلاَفَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں (بیدار رہ کر) نماز تراویح پڑھی، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور لوگوں کا یہی حال رہا (الگ الگ اکیلے اور جماعتوں سے تراویح پڑھتے تھے) اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اور عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں بھی ایسا ہی رہا‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۳، كتاب صلاة التراويح، باب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، رقم الحدیث ۲۰۰۹)
اسی طرح حضرت عمررضی اﷲعنہما نے نبیﷺ کی اس سنت کو اپنے دورخلافت میں دوبارہ زندہ کیا اور باقاعدہ ایک امام (ابی بن کعب رضی اﷲعنہ)کے پیچھے لوگوں کو جمع کرکےپورےرمضان تراویح کی نماز کااحتمام کرایا۔ لہٰذا تراویح حضرت عمررضی اﷲعنہ کی سنت بھی قرارپائی۔
۱)۔ حجۃالاسلام امام ابوحامدمحمدالغزالیؒ (المتوفی: ۵۰۵ھ) فرماتے ہیں: ’’تراویح کی نماز میں بیس رکعتیں ہیں۔ ان کی کیفیت مشہورہے۔ یہ نمازسنت مؤکدہ ہے‘‘۔ (احیاء علوم الدین[اردو]:  ج۱، ص۳۶۸)
۲)۔ شیخ علامہ امام فخرالدین حسن بن منصور اوزجندیؒ (المتوفی:۵۹۲ھ)  لکھتے ہیں: ’’التراويح سنة مؤكدة للرجال والنساء‘‘۔ ’’نماز ترایح مردوں اورعورتوں کے لئےسنت مؤکدہ ہے‘‘۔ (فتاویٰ قاضیخان: ج۱،باب التراویح، ص۲۰۴)
۳)۔ فقہ حنبلی کے مشہورامام علامہ موفق الدین ابن قدامہؒ (المتوفی: ۶۲۰ھ) لکھتےہیں: ’’مَسْأَلَةٌ: قَالَ (وَقِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ عِشْرُونَ رَكْعَةً)۔ (يَعْنِي) (صَلَاةَ التَّرَاوِيحِ) وَهِيَ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ‘‘۔ ’’قیام شھررمضان یعنی نمازِتراویح سنت مؤکدہ ہے‘‘۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۳، ص۶۰۱)
۴)۔ امام أبو الحسن تقی الدين علی بن عبد الكافی السبكی شافعیؒ(المتوفی:۷۵۶ھ)  لکھتے ہیں: ’’ولم یصرح المصنف بأصل استحباب التراویح وھی: سنۃ باجماع العلماء‘‘۔ ’’تراویح کے سنت ہونے پرعلماء کااجماع ہے‘‘۔ (الإبهاج فی شرح المنهاج: باب التراویح، ص۶۹۵)
۵)۔ شیخ الامام فریدالدین الاندرپتی دہلوی ہندیؒ(المتوفی: ۷۸۶ھ)  لکھتے ہیں: ’’التَّرَاوِيحُ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ‘‘۔ ’’تراویح سنت مؤکدہ ہے‘‘۔ (فتاویٰ تاتار خانیہ :ج۲، ص۳۱۶)
۶)۔ زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصریؒ(المتوفی: ۹۷۰ھ) لکھتے ہیں: ’’التَّرَاوِيحُ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ‘‘۔ ’’تراویح سنت مؤکدہ ہے‘‘۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوری: ج۲، ص۷۱)
۷)۔ منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى (المتوفی:۱۰۵۱ھ)  لکھتے ہیں: ’’(ثم تراويح) لأنها تسن لها الجماعة، (ثم وتر)؛ لأنه تسن له الجماعة بعد التراويح، وهو سنة مؤكدة ‘‘۔ ’’تراویح سنت مؤکدہ ہے‘‘۔ (الروض المربع شرح زاد المستقنع: ص۱۱۲)
۸)۔ شیخ حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی المصریؒ (المتوفی: ۱۰۶۹ھ)  لکھتے ہیں: ’’وروى أسد بن عمرو عن أبي يوسف قال سألت أبا حنيفة عن التراويح وما فعله عمر رضي الله عنه فقال: التراويح سنة مؤكدة ولم يتخرصه عمر من تلقاء نفسه ولم يكن فيه مبتدعا ولم يأمر به إلا عن أصل لديه وعهد من رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي سنة عين مؤكدة "على الرجال والنساء" ثبتت سنيتها بفعل النبي صلى الله عليه وسلم وقوله قال: "عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين من بعدي" وقد واظب عليها عمر وعثمان وعلي رضي الله عنهم‘‘۔ ’’امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہے کہ نماز ترایح سنت مؤکدہ ہے یہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اپنی طرف سے مقرر نہیں کی، کیوں کے حضرت عمر ؓ بدعت کے ایجاد کرنے والے نہیں تھے۔ تراویح کی اصل یقیناًاِن کے پاس رسول خداﷺ سے ثابت تھی اوریہ عین سنت مؤکدہ ہےمردوں اورعورتوں پراوراس کا سنت ہونا نبی کریمﷺکے فعل سے بھی ثابت ہےاورآپﷺکے اس قول سے بھی "تم میری سنت اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو" اورحضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اورحضرت علیؓ تراویح کی نمازکی پابندی کی‘‘۔ (مراقی الفلاح شرح متن نور الإيضاح: باب التراویح، ص۱۵۹)
۹)۔ احمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاویؒ (المتوفی: ۱۲۳۱ھ)  لکھتے ہیں: ’’فقال: التَّرَاوِيحَ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ‘‘۔ ’’تراویح سنت موکدہ ہے‘‘۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإيضاح: باب التراویح، ص۴۱۱)
۱۰)۔ علامہ ابن عابدین الشامیؒ(المتوفی: ۱۲۵۲ھ)  لکھتے ہیں: ’’فقال: التَّرَاوِيحَ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ‘‘۔ ’’تراویح سنت موکدہ ہے‘‘۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين: ج۲، کتاب الصلاۃ، باب الوتروالنوافل، ص۴۹۳)
۱۱)۔ مولاناقطب الدین خان محدث دہلویؒ(المتوفی: ۱۲۸۹ھ) لکھتےہیں: ’’رمضان میں نمازِ تراویح مردوعورت دونوں کے لئے سنت مؤکدہ ہے‘‘۔ (مظاہرحق: ج۱، ص۸۱۴)
۱۲)۔ اللجنۃ الدامۃ للافتاوالارشادسعودی عرب کے مفتیان کرام شیخ عبدالعزیزبن بازؒ، شیخ محمد بن صالح العثيمين اورشیخ عبداﷲبن عبدالرحمٰن الجبرین کااجتماعی فتویٰ ہے کہ: ’’نمازِتراویح سنت مؤکدہ ہے‘‘۔ (فتاویٰ اسلامیہ: ج۲، ص۲۱۲)
یہ بات عقل سے بھی بالاترہے کہ ایک نماز سنت غیر مؤکدہ ہےاوردوسری سنت مؤکدہ ہے۔ یہ دونوں ایک نمازیں کیسے ہو سکتی ہیں؟ اسی طرح تہجد کا صحیح وافضل طریقہ یہ ہے کہ رات کے آخری حصےمیں اٹھ کرتنہائی میں انفرادی نمازاداکی جائے، جبکہ تراویح کاصحیح طریقہ یہ ہے کہ بعدنمازِ عشاءباجماعت پڑھی جائے۔
۵۔ اگر غیرمقلدین کی پیش کردہ حدیث نبیﷺ کی تراویح کی نماز ہوتی تو امی عائشہ رضی اﷲعنہ یہ کبھی نہ فرماتیں کہ ’’نبیﷺ نے صرف ایک بارنماز تراویح پڑھی اور یہ رمضان میں ہواتھا‘‘کیونکہ تہجد کی نماز نبی ﷺسے تمام عمر پڑھناثابت ہے جبکہ تراویح کی نماز آپﷺسے صرف تین دن پڑھناثابت ہے۔
امی عائشہ رضی اﷲعنہا فرماتی ہیں کہ:’’حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَلَّى وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ‘‘۔ ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز (تراویح) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۳، كتاب الصوم، باب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، رقم الحدیث ۲۲۸)
تراویح اورتہجد کے الگ نمازیں ہونے کی دلیل علماءِغیرمقلدین کی زبانی
۱۔ غیرمقلد عالم علامہ وحید الزمان صدیقی اپنی کتاب تیسیر الباری شرح بخاری میں تہجد اورتراویح کے الگ الگ نمازہونے کا خودثبوت پیش کرتے ہوئےلکھتے ہیں: ’’امام حاکم ابو عبدالله نے بسند روایت کیا ہے مقسم بن سعید سے کہ محمّد بن اسماعیل بخاری جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے، وہ نمازِتراویح پڑھاتے اور ہر رکعت میں بیس (٢٠) آیات  پڑھتے، یہاں تک کے کہ قرآن ختم کرتے پھر سحر کو (نمازتہجد میں) نصف سے لیکر تہائی قرآن تک پڑھتےتھے‘‘۔ (تیسیر الباری شرح بخاری: ج۱، مقدمہ، ص۱۱)
۲۔ فتاوٰی علمائے اہلحدیث میں تراویح اور تہجد کے دونوں کےپڑھے جانے پرایک سوال اوراس کا جواب علماءِ غیرمقلدین کی زبانی ملاحضہ فرمائیں: ’’سوال: جوشخص زمضان المبارک میں عشاءکے وقت نماز تراویح پڑھ لے وہ پھرآخررات میں تہجدپڑھ سکتاہے؟ یانہیں؟
جواب: پڑھ سکتاہے، تہجدکاوقت ہی صبح سے پہلے کاہے، اوّل شب میں تہجدنہیں ہوتی‘‘۔ (فتاوٰی علمائے اہلحدیث: ج۱، رکعات التراویح، ص۳۳۱؛ فتاویٰ ثنائیہ: ج۱، ص۴۳۱)
۳۔ فرقہ غیرمقلدی کی کتاب تاریخ اہلحدیث میں علماءِغیرمقلدین تراویح اورتہجد کی نمازکے الگ الگ ہونے کا واضح اقرارکرتے ہوئے اس اشکال کے جواب میں لکھتےہیں: ’’یہی تراویح جواوّل وقت پڑھی جاتی ہیں تہجد کی نمازہے اورکوئی نہیں۔ تواس کاجواب یہ ہے اس دعویٰ پربھی کوئی دلیل نہیں بلکہ اس کے خلاف دلیل موجود ہےکیونکہ تہجدکے معنیٰ ہیں نیندسے اٹھ کرنمازکاپڑھنا۔ قاموس میں ہے تھجداستیتظ حضرت عائشہ وعن ابیھاکی حدیث سے جوذیل میں درج ہے یہ امرثابت نہیں ہوتاکہ اول شب کی نمازاورآخرشب کی نمازایک ہی ہےبلکہ اس سے اگرکچھ ثابت ہوتاہے تویہ کہ آنحضرت ﷺگیارہ رکعتیں پڑھتےتھے‘‘۔ (تاریخ اہلحدیث: ج۱، ص۴۵۱)
جوغیرمقلدین حضرات تراویح اورتہجد کے ایک نمازہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان تمام حضرات کے لئے شعرعرض ہے:
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینہ کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 
الحمدﷲفرقہ غیرمقلدین کے جید علماء کی زبانی یہ بات ثابت ہوگئی کہ تراویح اور تہجددونوں الگ الگ نمازیں ہیں جبکہ اگراس بات کوبھی تسلیم کرلیا جائے کہ تہجد اور تراویح ایک دوسرے کے قائم مقام ہیں تو بھی انہیں ایک ہی نماز قرارنہیں دیاجاسکتا، جیساکہ جمعہ ظہرکا قائم مقام ہے مگردونوں الگ الگ نمازیں ہیں بالکل اسی طرح تراویح تہجد کا قائم مقام ہونے کے باوجود بھی الگ الگ نمازیں ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ نمازِ تراویح عشاء کے فوراً بعد پڑھی جاتی ہے جبکہ تہجد کی نمازرات کے آخری حصہ میں (یعنی رمضان میں سحری کے اوقات)میں پڑھی جاتی ہےلہٰذا اگر غیر مقلدین حضرات تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز سمجھتے ہیں اوراس حدیث سے استدلال کرنا چاہتے ہیں تو پھر حدیث کے پورے متن پر عمل کریں اور نمازِ تراویح کو نمازِ عشاء کے فوراً بعد پڑھنے کے بجائے رات کے آخری حصہ میں پڑھاکریں ورنہ حدیث سے صرف اپنے مطلب کی بات سے استدلال کرنا ان کی علمی خیانت ہے۔
اگر چند لمحوں کے لئے یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نمازیں ہیں تواس پرمزیداشکالات جنم لیتے ہیں مثلاً:
۱)۔ پھر محدثین نے احادیث کی کتابوں میں قیام رمضان (تراویح)اورقیام الیل (تہجد)کے الگ الگ ابواب کیوں ترتیب دیئے؟
۲)۔ پھر کسی محدث نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اس پرعمل کیوں نہیں کیا؟
۳)۔ یہ حدیث صرف پندرھویں ۱۵صدی ہجری کے غیر مقلدین حضرات کوہی سمجھ آئی؟ ان سے پہلے معاذاﷲ دینِ اسلام میں سارے بیوقوف پیدا ہوئے جنہیں یہ حدیث سمجھ نہ آئی اوروہ سب کے سب ۸ رکعات کے بجائے بیس رکعات ہی پڑھتے رہے؟
(١)۔ شیخ السلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’ومن ظن ان قیام رمضان فیہ عدد معین موقت عن النبی صلم لا یزید ولا ینقص فقداخطا‘‘۔ ’’جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ آنحضرتﷺ سے تراویح کے باب میں کوئی عدد معین ثابت ہے جو کم و بیش نہیں ہو سکتا وہ غلطی پر ہے‘‘۔ (مرقات علی المشکٰوۃ: ج١، ص ١١٥؛ الانتقاد الرجیح: ص٦٣)
(٢)۔ فرقہ غیر مقلدین کےبانی قاضی شوکانی نے بھی تراویح کے عددمعین کے متعلق لکھا ہے: ’’بِالتَّرَاوِيحِ عَلَى عَدَدٍ مُعَيَّنٍ، وَتَخْصِيصُهَا بِقِرَاءَةٍ مَخْصُوصَةٍ لَمْ يَرِدْ بِهِ سُنَّةٌ‘‘۔ ’’تراویح کو کسی خاص عدد میں منحصر کردینااوراس میں خاص مقدار قرأت کامقررکرناایسی بات ہے جوسنت نبوی سے ثابت نہیں‘‘۔ (نیل الاوطار: ج٢، ص۵۰۱)
 (۳)۔ فرقہ غیرمقلدین کے عالم نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ولم یأت تعین العدد فی الروایات الصحیحۃ المرفوعۃ ولکن یعلم من حدیث کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وألہ وأصحابہ وسلم یجتھد فی رمضان مالا یجتھد فی غیرہ، رواہ مسلم، أن عددھا کان کثیراً‘‘۔ ’’اور عدد کی تعین صحیح مرفوع روایتوں میں نہیں آئی لیکن صحیح مسلم کی ایک حدیث سے کہ آنحضرتﷺ  رمضان میں جتنی محنت اور کوشش کرتے تھے اتنی غیر رمضان میں نہیں کرتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی تراویح کا عدد زیادہ تھا (یعنی تہجد کی نماز سے زیادہ تھا)‘‘۔ (الانتقاد الرجیح فی شرح الاعتقاد الصحیح: ص ۱۸۵ )
(۴)۔ نواب صدیق حسن خان صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’بیس رکعت تراویح پڑھنے والا بھی سنت پر عامل ہے‘‘۔ (ہدایۃ السائل: ص ١٣٨)
(۵)۔ فرقہ غیرمقلدین کے مترجم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے ہیں: ’’ولا یتعین لصلوۃ لیالی رمضان یعنی التراویح عدد معین‘‘۔ ’’یعنی تراویح کا کوئی عدد متعین نہیں‘‘۔ (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۱، ص۱۲۶)
اس کے علاوہ امام سبکیؒ اورامام جلال الدین سیوطیؒ نے بھی یہی فرمایاہےکہ رسول پاکﷺ  سے کوئی عدد معین ثابت نہیں ہے۔ اکابرین غیرمقلدین کے اقوال سے معلوم ہوا کہ فرقہ غیرمقلدین کا یہ دعویٰ کہ آٹھ رکعت سنت نبوی سے ثابت ہے قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے مذہب سے بھی بے خبری کی دلیل ہے۔ اور ساتھ ہی یہاں ان کایہ دعویٰ بھی کھوکھلا ثابت ہوگیاکہ بخاری ومسلم شریف میں امی عائشہ رضی اﷲعنہاسے جو روایات مروی ہیں جن میں عدد معین ثابت ہے کہ آپﷺ رمضان اورغیررمضان میں ۱۱رکعات سے زیادہ نہیں پڑھاکرتےتھے، یہ احادیث نمازِتہجد کے بارے میں ہیں نمازِ تراویح کے بارے میں نہیں۔
فرقہ غیرمقلدیں کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی کی آٹھ رکعت تراویح پردلیل نمبر  ۲
’’وَحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلاَةِ الْعِشَاءِ - وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ - إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلاَةِ الْفَجْرِ وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ وَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلإِقَامَةِ۔‏ وَحَدَّثَنِيهِ حَرْمَلَةُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، بِهَذَا الإِسْنَادِ۔‏ وَسَاقَ حَرْمَلَةُ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ وَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ۔‏ وَلَمْ يَذْكُرِ الإِقَامَةَ۔‏ وَسَائِرُ الْحَدِيثِ بِمِثْلِ حَدِيثِ عَمْرٍو سَوَاءً‘‘۔ ’’ام المؤمنین سیدہ  عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ حرملہ نے مجھے یہ حدیث بیان کی(کہا)ہمیں ابن وہب نے خبر دی، انھوں نے کہا، مجھے یونس نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ خبر دی۔ اگر حرملہ نے سابقہ حدیث کی مانند حدیث بیان کی البتہ اس میں"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صبح کے روشن ہوجانے اور موذن آپ کے پاس آتا"کے الفاظ ذکر نہیں کیے اور "اقامت" کا ذکر کیا۔باقی حدیث بالکل عمرو کی حدیث کی طر ح ہے‘‘۔ (صحيح المسلم: ج۱، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صَلاَةِ اللَّيْلِ وَعَدَدِ رَكَعَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اللَّيْلِ وَأَنَّ الْوِتْرَ رَكْعَةٌ وَأَنَّ الرَّكْعَةَ صَلاَةٌ صَحِيحَةٌ، رقم الحدیث۷۳۶)
دلیل نمبر ۲ کے جوابات
غیرمقلدین حضرات صحیح مسلم کی مندرجہ بالا روایت سے بھی یہی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ تراویح اورتہجد ایک ہی نمازیں ہیں۔ فرقہ غیرمقلدین کے اس کھوکھلے دعوےٰ کامدلل اورتفصیلی رد ہم پہلے ہی پیش کرچکے ہیں۔ یہاں ہم مزید چند اشکالات وسوالات پیش کردیتے ہیں جس کے بعد فرقہ غیرمقلدین کےاس باطل اورکھوکھلےدعویٰ کی حیثیت ایک منطقی خیالات کی سی رہ جائے گی۔
۱۔ تہجداورتراویح کابنیادی فرق
مندرجہ بالا حدیث کے الفاظ پڑھ کر اس بات کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ امی عائشہ رضی اﷲعنہا نبی کریم ﷺ کی تہجد کی نماز کاعام معمول بیان فرمارہی ہیں ناکہ تراویح کی نماز کاکیونکہ آپﷺتہجد کی نمازرمضان وغیر رمضان یعنی پوراسال پڑھاکرتےتھے، جب کہ تراویح فقط رمضان میں پڑھی جاتی ہے، ایک نماز جوپورے سال پڑھی جاتی ہواور دوسری نماز جوصرف ایک ماہ پڑھی جاتی ہویہ دونوں نمازیں ایک کیسےہوسکتی ہیں؟ جیسے نماز اشراق پورے سال کی نماز ہے جبکہ نماز ِعید سال میں صرف دو مرتبہ پڑھی جاتی ہے، اسی طرح نماز ِظہر روزانہ پڑھی جاتی ہے جبکہ نمازِ جمعہ ہفتہ میں صرف ایک دن پڑھی جاتی ہے تو یہ دونوں نمازیں ایک کیسے ہوسکتی ہیں؟ بالکل اسی طرح تہجد پوراسال پڑھی جاتی ہے جبکہ تراویح صرف ایک ماہ یعنی صرف رمضان المبارک میں پڑھی جاتی ہےلہذا یہ دونوں نمازیں بھی ایک کیسے ہوسکتی ہیں؟
۲۔ تراویح آپﷺنے صرف رمضان میں پڑھی
اگر تراویح اورتہجدایک ہی نماز یں ہیں تو پھرامی عائشہ رضی اﷲعنہ نے یہ کیوں فرمایاکہ ’’نبیﷺ نے صرف ایک بارنماز تراویح پڑھی اور یہ رمضان میں ہواتھا‘‘؟ جبکہ تہجد کی نماز نبی ﷺسے تمام عمر پڑھناثابت ہے اورتراویح کی نماز آپﷺسے صرف تین دن پڑھناثابت ہے۔
امی عائشہ رضی اﷲعنہا فرماتی ہیں کہ:’’حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَلَّى وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ‘‘۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز (تراویح) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۳، كتاب صلاة التراويح، باب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، رقم الحدیث ۲۰۱۱)
۳۔ تہجد کی رکعتوں کی تعداد
نبی کریم ﷺ کی تہجدکی نماز کا دائمی معمول گیارہ رکعات پر مبنی نہیں تھا بلکہ آپ ﷺنے نمازِ تہجد میں پانچ، سات، نو، گیارہ اور تیرہ یہاں تک کہ سترہ رکعات بھی پڑھی ہیں۔ غیرمقلدین حضرات کے نزدیک اگر تراویح اور تہجد ایک ہی نمازیں ہیں تو پھر ان کی نمازِ تراویح صرف آٹھ رکعات تک ہی محدودکیوں ہے؟ پھر تو انہیں سات، نو اور تیرہ رکعات تراویح کو بھی سنت کہتے ہوئے اس پر عمل کرنا چاہیئے۔
۴۔ تہجد کی کی فرضیت کی منسوخی
نبیﷺ پر تہجد کی نماز فرض تھی پھر بعد میں اﷲتعالیٰ نے سوۃالمزمل میں اس کی فرضیت منسوخ فرمادی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تہجد اور تراویح دونوں ایک ہی نمازیں ہیں تو پھر نبیﷺ نے صرف تین دن تراویح پڑھانے کے بعد اس کی فرضیت کے ڈر سے اسے ترک کیوں کردیا۔ جبکہ تہجد کی فرضیت  کا حکم تو اﷲ پاک نے پہلے ہی آپ ﷺپرسےاٹھالیا تھا لہٰذا پھردوبارہ فرض ہوجانے کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتاتو پھرآپﷺنے اس کی فرضیت کے ڈرکا اظہارکیوں فرمایا؟
۵۔ تہجد سنت غیرمؤکدہ جبکہ تراویح سنت مؤکدہ ہے
تہجد نفل نمازہونے کی وجہ سے سنت غیر مؤکدہ ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اوپرگزرچکاہےکہ تہجدآپﷺ پرپہلے فرض تھی پھر اﷲتعالیٰ نے اس میں تخفیف فرماکراسے نفل قراردیدیا، جبکہ تراویح سنت مؤکدہ ہے، کیونکہ رسول اﷲﷺ نے خودہی رمضان المبارک کے روزوں کوفرض اورتراویح کو سنت قراردیاہےاوراسے پڑھنے کی تاکیدبھی فرمائی ہے، تو پھریہ کیسے ممکن ہے کہ ایک نمازسنت مؤکدہ اوردوسری سنت غیرمؤکدہ ہونے کے باوجود بھی ایک ہی نمازیں کہلائیں، یہ بات بھی عقل سےبھی بالاتر ہے۔
۶۔ تراویح اورتہجد کے الگ نمازیں ہونے کی دلیل علماءِغیرمقلدین کی زبانی
۱۔ غیرمقلد عالم علامہ وحید الزمان صدیقی اپنی کتاب تیسیر الباری شرح بخاری میں تہجد اورتراویح کے الگ الگ نمازہونے کا خودثبوت پیش کرتے ہوئےلکھتے ہیں: ’’امام حاکم ابو عبدالله نے بسند روایت کیا ہے مقسم بن سعید سے کہ محمّد بن اسماعیل بخاری جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے، وہ نمازِتراویح پڑھاتے اور ہر رکعت میں بیس (٢٠) آیات  پڑھتے، یہاں تک کے کہ قرآن ختم کرتے پھر سحر کو (نمازتہجد میں) نصف سے لیکر تہائی قرآن تک پڑھتےتھے‘‘۔ (تیسیر الباری شرح بخاری: ج۱، مقدمہ، ص۱۱)
۲۔ فتاوٰی علمائے اہلحدیث میں تراویح اور تہجد کے دونوں کےپڑھے جانے پرایک سوال اوراس کا جواب علماءِ غیرمقلدین کی زبانی ملاحضہ فرمائیں: ’’سوال: جوشخص زمضان المبارک میں عشاءکے وقت نماز تراویح پڑھ لے وہ پھرآخررات میں تہجدپڑھ سکتاہے؟ یانہیں؟
جواب: پڑھ سکتاہے، تہجدکاوقت ہی صبح سے پہلے کاہے، اوّل شب میں تہجدنہیں ہوتی‘‘۔ (فتاوٰی علمائے اہلحدیث: ج۱، رکعات التراویح، ص۳۳۱؛ فتاویٰ ثنائیہ: ج۱، ص۴۳۱)
۳۔ فرقہ غیرمقلدی کی کتاب تاریخ اہلحدیث میں علماءِغیرمقلدین تراویح اورتہجد کی نمازکے الگ الگ ہونے کا واضح اقرارکرتے ہوئے اس اشکال کے جواب میں لکھتےہیں: ’’یہی تراویح جواوّل وقت پڑھی جاتی ہیں تہجد کی نمازہے اورکوئی نہیں۔ تواس کاجواب یہ ہے اس دعویٰ پربھی کوئی دلیل نہیں بلکہ اس کے خلاف دلیل موجود ہےکیونکہ تہجدکے معنیٰ ہیں نیندسے اٹھ کرنمازکاپڑھنا۔ قاموس میں ہے تھجداستیتظ حضرت عائشہ وعن ابیھاکی حدیث سے جوذیل میں درج ہے یہ امرثابت نہیں ہوتاکہ اول شب کی نمازاورآخرشب کی نمازایک ہی ہےبلکہ اس سے اگرکچھ ثابت ہوتاہے تویہ کہ آنحضرت ﷺگیارہ رکعتیں پڑھتےتھے‘‘۔ (تاریخ اہلحدیث: ج۱، ص۴۵۱)
جوغیرمقلدین حضرات تراویح اورتہجد کے ایک نمازہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان تمام حضرات کے لئے شعرعرض ہے:
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینہ کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 
۷۔ تہجدمیں نیند کا وقفہ
اسی طرح صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی پیش کردہ حدیث عائشہ رضی اﷲعنہا میں "أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ" کے الفاظ ہیں جس سے پتہ چلتا ہےکہ نبی پاک ﷺ تہجد اور وتروں کے درمیان سوجایاکرتےتھے، مگرآپ ﷺکاتراویح اور وتروں کے درمیان سونا ثابت نہیں ہےجیساکہ امی عائشہ رضی اﷲعنہا فرماتی ہیں: "إذا دَخَلَ رمضانَ شَدَّ مِئْزَوَہ ثم لم یَأتِ فِراشَہ حتی یَنْسَلِخَ"یعنی جب ماہ رمضان شروع ہو جاتا تو آپ ﷺپورارمضان بستر پرقدم نہ رکھتے(صحیح ابن خزیمہ: رقم الحدیث ۲۰۷۰)، لہٰذا ان دونوں نمازوں کو ایک قراردینا کم علمی اورکم فہمی کی دلیل ہے۔
۸۔ حدیث میں مَنْ قَامَ کے الفاظ
تراویح والی احادیث ’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ‘‘ کو کسی محدث نے تہجد کے باب میں ذکرنہیں کیا، اگر تراویح اورتہجد ایک نماز یں ہوتی تو فضیلت تراویح کی احادیث کو تہجد کے باب میں بھی ذکر کیا جاتا،تومعلوم ہوا کہ دونوں نمازیں الگ ہیں۔
۹۔ تہجدکاباجماعت اداکرنااوراس کی ترغیب ثابت نہیں
اسی طرح تہجدبا جماعت پڑھنے یاپڑھانے کی تر غیب وتعریف آپ ﷺسے ثابت نہیں، لیکن تراویح کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی ترغیب وتعریف آپﷺکے قول وفعل دونوں سے ثابت ہے۔ جیساکہ حدیث میں آتاہے:
’’وَحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ فَيَقُولُ "مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"۔‏ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ كَانَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلاَفَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ رمضان میں تراویح پڑھنے کی ترغیب دیتے بغیراس کے کہ یاروں کوتاکید سے حکم کریں اورفرماتے جورمضان میں ایمان کے درس اورثواب حاصل کرنے کے لئے نماز پڑھے تواس کے اگلے گناہ بخشے جائیں گے۔ پھررسول اﷲﷺنے انتقال فرمایا۔ پھرابوبکررضی اﷲعنہ کی خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا (یعنی جس کاجی چاہتارات کونماز پڑھتا)‘‘۔ (صحيح المسلم: ج۱، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَهُوَ التَّرَاوِيحُ، رقم الحدیث۷۵۹)
 امام أبو عبد الله محمد بن نصر بن الحجاج المَرْوَزِي ؒ(المتوفی: ۲۹۴ھ) روایت نقل کرتے ہیں کہ: ’’حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِذَا نَاسٌ فِي رَمَضَانَ يُصَلُّونَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: «مَا هَؤُلَاءِ؟» قِيلَ: "هَؤُلَاءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي بِهِمْ، فَهُمْ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَصَابُوا أَوْ نِعْمَ مَا صَنَعُوا»‘‘۔ ’’حضرت ابو ھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (حجرہ) سے نکلے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ ماہ رمضان میں کچھ لوگ مسجد کے ایک گو شے میں نماز پڑھ رہے ہیں، آپ ﷺ نے پو چھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ عرض کیا گیا: یہ ایسے لوگ ہیں کہ قرآن ان کو یاد نہیں اور ابی ابن کعبؓ ان کو نماز پڑھا رہے ہیں اور وہ لوگ ابی ابن کعبؓ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فر مایا: انہوں نے درست کیا، یا یوں فرمایا کہ انہوں نے اچھا کام کیا‘‘۔ (قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر: بَابُ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةً لَيْلًا تَطَوُّعًا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، ص۲۱۷)
۱۰۔تہجد میں جماعت کااہتمام ثابت نہیں
نماز تہجد میں جماعت کثیر کو شامل کر نے کا اہتمام آپ ﷺ سے ثابت نہیں، لیکن نماز تراویح کو جماعت کثیرہ کے ساتھ ادا کرنے کا اہتمام آپ ﷺ سے ثابت ہے، اس سلسلے میں دو حدیثیں ملاحظہ کیجئے:
’’حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ، ثنا عَمِّي، ثنا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ أَوْزَاعًا يَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الشَيْءُ مِنَ الْقُرْآنِ فَيَكُونُ مَعَهُ النَّفْرُ الْخَمْسَةُ أَوِ السِّتَّةُ وَأَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ وَأَكْثَرُ، يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، قَالَتْ: فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنْ ذَاكَ أَنْ أَنْصِبَ لَهُ حَصِيرًا عَلَى بَابِ حُجْرَتِي، فَفَعَلْتُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ فَاجْتَمَعَ إِلَيْهِ مَنْ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا طَوِيلًا ثُمَّ انْصَرَفَ فَدَخَلَ وَتَرَكْتُ الْحَصِيرَ عَلَى حَالِهِ‘‘۔ ’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ لوگ رمضان شریف کی ایک رات مسجد نبوی میں متفرق جماعتیں بنا کر نماز پڑھ رہے تھے، جن لوگوں کو قرآن کاکچھ حصہ یاد تھا وہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، کسی کے ساتھ پانچ آدمی ہیں کسی کے ساتھ چھ ہیں اور کسی کے پیچھے اس سے کم اور کسی کے پیچھے اس سے زیادہ اور وہ ان قرآن خواں لوگوں کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں، حضرت عائشہؓ فر ماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مجھ کو حکم دیا کہ میں حجرے کے دروازے پر چٹائی لٹکادوں، چنانچہ میں نےچٹائی لٹکادی، پس رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز کے بعد حجرہ سے تشریف لائے، اس وقت مسجد میں جتنے لوگ موجود تھے سب آپ ﷺ کے پاس اکھٹےہوگئے، آپ ﷺ نے ان کو رات کے وقت دیر تک نماز پڑھائی‘‘۔ (قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر: بَابُ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةً لَيْلًا تَطَوُّعًا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، ص۲۱۵)
’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْنَا لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ فَقَالَ ‏ "إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ‏"۔‏ ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلاَثٌ مِنَ الشَّهْرِ وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الْفَلاَحَ۔‏ قُلْتُ لَهُ وَمَا الْفَلاَحُ قَالَ السُّحُورُ‘‘۔ ’’حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں ہم نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے، آپ نے ہمیں تراویح کی نماز نہ پڑھائی حتیٰ کہ سات روزے رہ گئے۔تئیسویں شب تہائی رات گزرنے تک آپ نے ہم کو قیام کرایا۔ چوبیسویں رات آپ نے پھر نہ پڑھائے تاہم پچیسویں شب رات کا ایک حصہ گزرنے تک آپ نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا۔ ہم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ یارسول اﷲ، کاش! آپ باقی رہ جانے والی ان راتوں میں بھی ہمیں نوافل پڑھاتے۔ فرمایا: جو امام کے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ کھڑا رہا، اسے ایک رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔ چھبیسویں رات آپ نے نماز تراویح نہ پڑھائی، البتہ ستائیسویں کو اس کا اہتمام فرمایا۔ آپ نے اہل خانہ اور ازواج مطہرات کو بھی بلا لیا اور ہم کواتنی لمبی نماز پڑھائی کہ فلاح کے رہ جانے کا خدشہ ہونے لگا۔ راوی حضرت جبیر بن نفیر نے حضرت ابوذرسے پوچھا کہ فلاح کیاہے؟ بتایا، سحری۔ آخری دو تین راتوں میں آپ نے تراویح نہ پڑھائی‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲، كتاب الصوم، باب مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، رقم الحدیث ۸۰۶)
۱۱۔محدثین نے تراویح اورتہجد کے الگ الگ ابواب قائم کیئے
ائمہ محدثین نےتہجد اور تراویح کے الگ الگ ابواب قائم کئے ہیں جو ان کے الگ الگ نماز یں ہونے کی دلیل ہے۔ اگر یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہوتیں تو پھر محدثین کو ان کے الگ الگ ابواب قائم کرنے کی کیاضرورت تھی؟
۱۲۔ تراویح رمضان کاچاند نظرآنے پرشروع کی جاتی ہے اور شوال کاچاند نظرآتے ہی ترک کردی جاتی ہے
جیساکہ ہم سب بلکہ غیرمقلدین حضرات بھی اس بات پرمتفق ہیں کہ تراویح کی نماز رمضان المبارک کاچاند نظرآتے ہی پڑھنی شروع کردی جاتی اورجیسے ہی شوال کاچاند نظرآتاہے تراویح پڑھنی ترک کردی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اگرتراویح کی دو رکعتیں بھی باقی رہ گئی ہوں اورچاند نظرآجانے کی خبرموصول ہوجائے توبقہ دورکعتیں ادانہیں کی جاتیں اوراسی وقت تراویح پڑھناترک کردیاجاتاہے۔ جس کی دلیل درج ذیل مرسل حدیث سے ملتی ہے:
’’حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّهُمْ شَكُّوا فِي هِلاَلِ رَمَضَانَ مَرَّةً فَأَرَادُوا أَنْ لاَ يَقُومُوا وَلاَ يَصُومُوا فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ مِنَ الْحَرَّةِ فَشَهِدَ أَنَّهُ رَأَى الْهِلاَلَ فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ "أَتَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ‏"۔‏ قَالَ نَعَمْ ۔‏ وَشَهِدَ أَنَّهُ رَأَى الْهِلاَلَ فَأَمَرَ بِلاَلاً فَنَادَى فِي النَّاسِ أَنْ يَقُومُوا وَأَنْ يَصُومُوا‘‘۔ ’’عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک بار لوگوں کو رمضان کے چاند (کی روئیت) سے متعلق شک ہوا اور انہوں نے یہ ارادہ کر لیا کہ نہ تو تراویح پڑھیں گے اور نہ روزے رکھیں گے، اتنے میں مقام حرہ سے ایک اعرابی آ گیا اور اس نے چاند دیکھنے کی گواہی دی چنانچہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا، آپ نے اس سے سوال کیا: "کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہیں؟" اس نے کہا: ہاں، اور چاند دیکھنے کی گواہی بھی دی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں منادی کر دیں کہ لوگ تراویح پڑھیں اور روزہ رکھیں‘‘۔ (السنن ابوداؤد: ج۳، کتاب صیام، باب فِي شَهَادَةِ الْوَاحِدِ عَلَى رُؤْيَةِ هِلاَلِ رَمَضَانَ، رقم الحدیث ۲۳۴۱)
معلوم ہوا کہ نماز تراویح ماہِ رمضان کاچاند نظر آنے کے ساتھ مشروط ہے، جبکہ تہجد کی نمازکارمضان کے چاند سےکوئی تعلق نہیں، کیونکہ تہجد پوراسال پڑھی جاتی ہے۔
مندرجہ بالاجامع ومدلل دلائل کے بعدبھی اگرفرقہ غیرمقلدین کے لوگ اس بات پربضد ہیں کہ تراویح اورتہجد ایک ہی نمازین ہیں توپھرتمام غیرمقلدین حضرات سے گزارش ہے کہ آپ نمازِ تراویح صرف رمضان میں نہیں بلکہ پوراسال پڑھاکریں اوراپنی مسجدوں میں ہرروزعشاء کی نمازکے بعدباقاعدہ تراویح کی جماعت کا احتمام کیا کریں ورنہ آپ کا تراویح اورتہجد کے ایک ہونے کادعویٰ کرناخود آپ کے قول وفعل میں تضاد کی واضح دلیل ہے۔
فرقہ غیرمقلدیں کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی کی آٹھ رکعت تراویح پردلیل نمبر  ۳
’’نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ»‘‘۔ ’’حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات تراویح اوروترپڑھائی پھراگلی بارہم مسجدمیں جمع ہوئے اوریہ امیدکی کہ اللہ کے نبیﷺ ہمارے پاس(امامت کے لئے)آئیں گے یہاں تک کہ صبح ہوگئی، پھراللہ کے نبیﷺہمارے پاس آئے توہم نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ہمیں امیدتھی کہ آپﷺ ہمارے پاس آئیں گے اورامامت کرائیں گے، توآپﷺنے فرمایا: مجھے خدشہ ہوا کہ وترتم پرفرض نہ کردی جائے‘‘۔ (صحیح ابن خزیمة: ج۲، ص۱۳۸، رقم الحدیث ۱۰۷۰)
دلیل نمبر ۳کےجوابات
مذکورہ احادیث کتب میں یہ روایت دو سندوں سے مروی ہے۔ پہلی سند کے راوی یہ ہیں:
۱۔ ’’نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نامَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نايَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ۔اسحاق – ابوالربیع - یعقوب قمی - عیسیٰ بن جاریۃ - جابر بن عبداللہ‘‘۔
۲۔ ’’حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ۔ محمد بن حمید الرازی - یعقوب قمی - عیسیٰ بن جاریۃ - جابر بن عبداللہ‘‘۔
ائمہ محدثین نے اس حدیث کے دوراوی عیسیٰ ابن جاریہ اور یعقوب بن عبداللہ القمی (جوکہ دونوں سندوں میں موجودہیں)پر سخت جروح کی ہیں لہٰذا یہ حدیث عیسیٰ ابن جاریہ اور یعقوب بن عبداللہ القمی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔
عیسیٰ ابن جاریہ پرمحدثین کرام کی جروح:
عیسیٰ ابن جاریہ اور یعقوب بن عبداللہ القمی پر سب سے خاص اورمفسر جرح ائمہ جرح وتعدیل کے سب سے بڑے امام یحیٰ بن معین رحمہ اللہ نے کی ہے۔ امام یحیٰ بن معین رحمہ اللہ کے بارے میں غیرمقلدین کے شیخ زبیرعلی لکھتے ہیں: ’’اس روایت پرامام ابن معین کی جرح خاص اورمفسرہے۔ ابن معین کانقادِ حدیث میں جومقام ہے وہ حدیث کے ابتدائی طالب علم پربھی پوشیدہ نہیں ہے‘‘۔ (نورالعینین فی مسئلہ رفع الیدین: ص۱۶۸)
غیرمقلدین کے شیخ زبیرعلی زئی صاحب نے خود اس بات کااعتراف کررکھا ہےکہ ابن معینؒ کی جرح خاص اورمفسرہے، لہٰذاغیرمقلدین حضرات کوعیسیٰ ابن جاریہ اور یعقوب بن عبداللہ القمی پر ابن معینؒ کی خاص اورمفسر جرح کوہرحال میں قبول کرناچاہیئے ورنہ قارئین کرام یہ سمجھنے پرحق بجانب ہونگے کہ شیخ زبیرعلی زئی صاحب جھوٹے اور کذاب تھے۔
۱۔ امام الجرح والتعدیل یحیٰ بن معین رحمہ اللہ (المتوفی: ۲۳۳ھ) فرماتے ہیں: ’’لیس بذاک لا أعلم أحداً روی عنہ غیر یعقوب۔ عندہ مناکیر‘‘۔ ’’یہ شخص قوی نہیں نیز اس کے پاس منکر روایات پائی جاتی ہیں‘‘۔ (تهذيب الكمال للمزی: ج۲۲، ص۵۸۹؛ تھذیب التھذیب لابن حجر:ج۲، ص۳۵۶؛ میزان الاعتدال فی نقدالرجال: ج۴، ص۳۷۴)
۲۔ ابن معین رحمہ اللہ مزیدفرماتےہیں:’’روى عنه يعقوب القمي لا نعلم أحدا روى عنه غيره وحديثه ليس بذاك‘‘۔ ’’ان سے یعقوب القمی نے روایت کیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ان کے علاوہ بھی کسی نے ان سے روایت کیا ہے اور ان کی حدیث اعلی درجے کی حدیث نہیں ہے‘‘۔ (تاريخ ابن معين، رواية الدوری: ج۴، ص۳۶۵)
۳۔ نیزامام ابن معین رحمہ اللہ نےیہ بھی کہاکہ:’’ليس بشيء‘‘۔ ’’اس کا کوئی مقام نہیں‘‘۔ (سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص۳۰۲)
۴۔ امام احمد رحمہ اللہ (المتوفی: ۲۴۱ھ) فرماتے ہیں:’’الإمام احمد  من النقاد لفظ المنكر‘‘۔ ’’امام احمد وناقدین نے لفظ منکرکااستعمال کیا ہے‘‘۔ (النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر: ج۲، ص۶۷۴)
۵۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ(المتوفی: ۲۷۵ھ) فرماتے ہیں: ’’منکرالحدیث‘‘۔ ’’یعنی اس کی حدیث میں نکارت پائی جاتی ہے‘‘۔ ( تهذيب الكمال للمزی: ج۲۲، ص۵۸۹؛ تھذیب التھذیب لابن حجر:ج۲، ص۳۵۶)
۶۔ امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی: ۳۰۳ھ) فرماتے ہیں: ’’عيسى بن جارية يروي عنه يعقوب القمي منكر‘‘۔ ’’عیسیٰ بن جاریہ، ان سے یعقوب القمی روایت کرتے ہیں یہ منکر ہے‘‘۔ امام نسائی رحمہ اللہ مزید فرماتےہیں: ’’منکر الحدیث، وجاء عنہ: متروک‘‘۔ ’’ اس کی حدیث میں نکارت پائی جاتی ہے۔ اس کی روایات کو محدثین نے ترک کر دیاہے‘‘۔ (میزان الاعتدال فی نقدالرجال: ج۴، ص۳۷۵-۳۷۴؛ الضعفاء والمتروكون للنسائی: ص۱۷۶، رقم ۴۴۴)
۷۔ امام زكريا بن یحییٰ الساجى رحمہ اللہ(المتوفی: ۳۰۷ھ)  نےبھی اسےضعفاء میں شمار کیا۔  (تھذیب التھذیب لابن حجر:ج۲، ص۳۵۶)
۸۔ امام ابوعبید الأجری رحمہ اللہ (المتوفی: ۳۶۰ھ) امام ابوداؤد رحمہ اللہ(المتوفی: ۲۷۵ھ) سے بیان کرتے ہیں: ’’منکرالحدیث‘‘۔ ’’یعنی اس کی حدیث میں نکارت پائی جاتی ہے‘‘۔ (تھذیب التھذیب لابن حجر:ج۲، ص۳۵۶)
۹۔ امام ابو جعفر محمد بن عمرو بن موسیٰ العقیلی رحمہ اللہ(المتوفی: ۳۲۲ھ) نےبھی اسےاپنی کتاب الضعفاء الکبیرمیں منکرشمار کیاہے۔ (کتاب الضعفاء الکبیر: ج۳، ص۳۸۳؛ تھذیب التھذیب لابن حجر:ج۲، ص۳۵۶)
۱۰۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی: ۳۶۵ھ) فرماتے ہیں: ’’أحادیثہ کلها غير محفوظة‘‘۔ ’’اس کی تمام احادیث غیرمحفوظ ہیں‘‘۔ (تھذیب التھذیب لابن حجر:ج۲، ص۳۵۶؛ الكامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: ج۶، ص۴۳۸)
۱۱۔  ابن خزیمہ کے حاشیہ پر اس کے بارے میں لکھا ہے: ’’عیسیٰ بن جاریہ فیہ لین‘‘۔ ’’عیسیٰ بن جاریہ میں کمزوری ہے‘‘۔ (صحیح ابن خزیمۃ: ج۱، ص۵۳۱)
۱۲۔ علامہ نورالدین ابن ابی بکرالھیثمی(المتوفی: ۸۰۷ھ)کہتے ہیں: ’’وَفِيهِ عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ضَعَّفَهُ ابْنُ مَعِينٍ وَأَبُو دَاوُدَ‘‘۔ ’’ابن معین اورابوداؤدنے اسے ضعیف کہاہے‘‘۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ج۲، ص۷۲)
۱۳۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ(المتوفی: ۸۵۲ھ) فرماتے ہیں: ’’فيه لين‘‘۔ ’’ان میں کمزوری ہے‘‘۔ (تقريب التهذيب لابن حجر: ج۲، ص۷۶۶، رقم ۵۳۲۳)
یعقوب بن عبداللہ القمی پرمحدثین کرام کی جروح:
۱۔ ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’روى عنه يعقوب القمي لا نعلم أحدا روى عنه غيره وحديثه ليس بذاك‘‘۔ ’’ان سے یعقوب القمی نے روایت کیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ان کے علاوہ بھی کسی نے ان سے روایت کیا ہے اور ان کی حدیث اعلی درجے کی حدیث نہیں ہے‘‘۔ (تاريخ ابن معين، رواية الدوری: ج۴، ص۳۶۵)
۲۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’عيسى بن جارية يروي عنه يعقوب القمي منكر‘‘۔ ’’عیسیٰ بن جاریہ، ان سے یعقوب القمی روایت کرتے ہیں یہ منکر ہے‘‘۔ (الضعفاء والمتروكون للنسائی: ص۱۷۶، رقم ۴۴۴)
۳۔ امام دار قطنی رحمہ اللہ(المتوفی: ۳۸۵ھ)فرماتے ہیں: ’’ویعقوب و أبوسیف ضعيفان‘‘۔ ’’یعقوب اورابوسیف ضعیف ہیں‘‘۔ (علل الدارقطنی: ج۱۳، ص۱۱۶)
۴۔ امام دار قطنی نے یہ بھی فرمایا:’’ویعقوب القمی لیس بالقوی‘‘۔ ’’اوریعقوب القمی  قوی نہیں ہے‘‘۔  (علل الدارقطنی: ج۳، ص۹۲؛ میزان الاعتدال فی نقدالرجال: ج۵، ص۱۷۸)
معززقارئین کرام! عیسیٰ ابن جاریہ اور یعقوب لقمی دونوں پر مشہور آئمہ جرح وتعدیل کی طرف سے مذکورہ ۱۷سترہ کلمات جرح منقول ہیں اور ان میں سے اکثر (عندہ مناکیر، منکر الحدیث اور متروک وغیرہ) کے الفاظ کے ساتھ ہیں جو خود علمائے غیرمقلدین کے نزدیک بھی مفسر اور نہایت سخت جرحیں ہونی چاہیے۔ ان میں سے اگر کسی ایک محدث کی جرح بھی عیسیٰ بن جاریہ یا یعقوب لقمی پر عائد ہوتی تو یہ اس روایت کے ضعیف اور ناقابل استدلال ہونے کیلئے کافی تھی کیونکہ اس روایت کانہ صرف ضعیف ہونا ثابت ہوتا ہے بلکہ اس روایت سے پوری امت مسلمہ کےتقریباً (۱۳۰۰) تیرہ سوسالہ اجماع کی بھی مخالفت ہوتی ہے۔ چہ جائیکہ عیسیٰ ابن جاریہ تمام جرحوں کے ساتھ مجروح ہے۔ لیکن غیرمقلدین کی ہٹ دھرمی ملاحظہ فرمائیں کہ ان کو عیسیٰ بن جاریہ پر کی گئی جرحوں کی سنگینی ہی نظر نہیں آتی اوراس کے باوجود اس کو ثقہ ٹھہرانے اور اس کی مذکورہ روایت کو قابل استدلال بنانے میں ست تا پاؤں غرق ہیں۔ یہ ہے فرقہ غیرمقلدین (نام نہاداہلحدیثوں)کی حقیقت کہ دوسروں پر ضعیف احادیث پر عمل کا الزام لگاتے ہیں اورخودبڑی ڈھٹائی سے نہ صرف ضعیف روایات پرعمل کرتے ہیں بلکہ ضعیف راویوں کو ثقہ ثابت کرنے کی بھرپورکوششیں بھی کرتے ہیں۔
فرقہ غیرمقلدیں کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی کی آٹھ رکعت تراویح پردلیل نمبر  ۴
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟»، قَالَنِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا‘‘۔ ’’جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ رات (یعنی رمضان کی رات) مجھ سے ایک چیز سرزد ہوئی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا وہ کیا چیز ہے؟ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے گھر میں خواتین نے مجھ سے کہاکہ ہم قران نہیں پڑھ سکتیں لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ آپ کی اقتداء میں نماز پڑھیں، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے انہیں آٹھ رکعات جماعت سے پڑھائی پھر وتر پڑھایا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرکوئی نکیر نہ کی گویا اسے منظور فرمایا‘‘۔ (مسند أبی يعلىٰ الموصلی: ج۳، ص۳۳۶)
دلیل نمبر ۴کےجوابات
سب سے پہلے تو اس حدیث میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ملتاکہ یہ کونسی نماز تھی تہجد یا تراویح؟ دوسرایہ کہ تراویح کی نماز مسجد میں باجماعت اداکی جاتی ہےجبکہ اس راویت میں گھرمیں صرف خواتین کوپڑھانے کاذکرہے۔ دوسرایہ کہ اس حدیث کی سند میں بھی وہی عیسیٰ ابن جاریہ اور یعقوب القمی راوی موجود ہیں، جن پرمحدثین نے سخت جرح کررکھی ہیں اوران کےسخت مجرو ح اور ضعیف  ہونے کو ہم دلیل نمبر۳ کے جوابات میں مدلل اورتفصیلاً بیان کرچکےہیں لہٰذا یہ روایت سخت ضعیف  ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں۔ اس حدیث کےضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر مزید اشکالات وسوالات بھی پیداہوتےہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
یہ روایت تین کتا بو ں میں رقم ہےمسند احمد، مسندابی یعلیٰ اورقیام اللیل للمزوری۔ مسند احمد میں توسرے  سے "‏رمضا ن"‏ کا لفظ ہی موجودنہیں ہے، مسند ابی یعلی میں"‏یعنی رمضا ن میں"‏کا لفظ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فہم راوی ہے نہ کہ روایت، قیا م اللیل للمروزی میں"‏فی رمضا ن"‏ کا لفظ ہے جو یقیناً کسی تحتانی راوی کا ادراج ہے۔ جب اس روایت میں "فی رمضا ن"‏کا لفظ ہی مدر ج نہیں ہے تو اسے تراویح سے کیا تعلق رہا؟
مسند ابی یعلی اور قیام اللیل للمروزی سے ظا ہر ہو تا ہے کہ یہ واقعہ خود حضرت ابی بن کعب کا ہے جبکہ مسند احمد کی روایت میں الفاظ  ہیں’’عن جا بر عن ابی بن کعب قال جا ء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ و سلم۔۔۔ الخ‘‘۔ ’’حضرت جابر حضرت ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی ﷺکے پاس آیا‘‘ جس سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ واقعہ کسی اور کا ہے، حضرت ابی بن کعب کا نہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ آٹھ رکعت پڑ ھنےوالا یہ کہتا ہے: "‏إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ "‏۔ ’’رات مجھ سے یہ کام سرزد ہو گیا‘‘یعنی میں نے آج رات ایسا عمل کیاجیسااس سے پہلے نہیں کیا۔معلوم ہو اکہ اس نے اسی رات آٹھ پڑھیں تھیں اس سے پہلے معمول آٹھ کا نہیں تھا، اس لئے تو اس نے کہا کہ میں نے یہ انو کھا کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺخا موش رہے کہ جب یہ خود اس کام کو انو کھا سمجھ رہا ہے تو خوا ہ مخواہ  اس کی تر دید کیو ں کی جا ئے۔
بہرحال عیسیٰ ابن جاریہ اور یعقوب لقمی دونوں ضعیف راوی ہیں لہٰذا امت مسلمہ کے۱۳۰۰تیرہ سوسالہ اجماع سے اختلاف کرتے ہوئے ایسے ضعیف راویوں کی روایت سے استدلال کرناسخت گمراہی اورجہالت ہے۔
فرقہ غیرمقلدیں کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی کی آٹھ رکعت تراویح پردلیل نمبر  ۵
’’عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ: وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ، حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ‘‘۔ ’’حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا، سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امام سوسو آیتیں ایک رکعت میں پڑھتا تھا یہاں تک کہ ہم طویل قیام کی وجہ لکڑی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہوتے تھے اورفجرکے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے‘‘۔ (مؤطا امام مالک :ج۱، ص۱۱۴، ح۲۴۸؛ السنن الکبری للبیہقی:ج۲، ص۴۹۵)
دلیل نمبر ۵کےجوابات
فرقہ غیرمقلدین کے شیخ زبیرعلی زئی صاحب اس حدیث کے بارے شاہ ولی اﷲؒ کےقول کودلیل کے طورپرپیش کرتے ہوئےلکھتےہیں کہ: ’’شاہ ولی اﷲالدہلوی نے "اہل الحدیث" سے نقل کیا ہے کہ مؤطا کی تمام احادیث صحیح ہیں‘‘۔ (تعدادرکعات قیام رمضان کاتحقیقی جائزہ: ص۲۲)
ہم تمام غیرمقلدین حضرات سے گزارش کرتے ہیں کہ اگرآپ کے نزدیک شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ کا یہ قول دلیل اورحجت ہے توپھران کے اس قول کے مطابق مؤطا کی دوسری روایت جوکہ یزید بن رومان سے مروی ہے، جس پرپوری امت مسلمہ نے عمل کیاہےکہ ’’حضرت عمرؓ کے مبارک دور میں صحابہؓ وغیرہ (تابعین) بیس ۲۰ رکعت پڑھتے تھے‘‘ اسے بھی صحیح کہہ کرقبول فرمائیں، کیونکہ یہ روایت بھی مؤطا میں ہی موجودہے۔ اورساتھ ہی شاہ ولی اﷲؒ کے درج ذیل قول کوبھی قبول فرمائیں جوحجۃ اﷲالبالغہ میں ہی موجود ہے۔
شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ(المتوفی: ۱۱۷۶ھ)  لکھتے ہیں: ’’وزادت الصَّحَابَة وَمن بعدهمْ فِي قيام رَمَضَان ثَلَاثَة أَشْيَاء: الِاجْتِمَاع لَهُ فِي مَسَاجِدهمْ، وَذَلِكَ لِأَنَّهُ يُفِيد التَّيْسِير على خاصتهم وعامتهم، وأداؤه فِي أول اللَّيْل مَعَ القَوْل بِأَن صَلَاة أخر اللَّيْل مَشْهُودَة، وَهِي أفضل كَمَا نبه عمر رَضِي عَنهُ لهَذَا التَّيْسِير الَّذِي أَشَرنَا إِلَيْهِ، وعدده عشرُون رَكْعَة‘‘۔ ’’اورصحابہ کرام اوران کےبعدوالوں نے قیام رمضان میں تین چیزوں کااضافہ کیا۔ پہلی یہ کہ قیام کے واسطے ان کا اپنی اپنی مسجدوں میں جمع ہونا، اس لیے کہ یہ جمع ہونا ہرخاص اورعام پرآسانی کافائدہ دیتاہے۔ اوردوسری بات یہ کہ قیام رمضان کورات کے ابتدائی حصے میں اداکرناباوجود اس کے کہ یہ قول ہے کہ رات کےآخری حصے کی نماز مشہوراورافضل ہے۔ جیساکہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے اس آسانی کی تنبیہ فرمائی جس کی طرف ہم نے اشارہ کیاہے۔ اورتیسرااصافہ یہ ہےکہ اس کی تعدادبیس رکعات مقررکرنا‘‘۔ (حجة الله البالغة: ج۲، ص۲۹)
اسی حدیث کے فوراً بعد امام مالکؒ ایک دوسری حدیث لے کرآئیں ہیں کہ جس سےثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ۲۰ رکعات تراویح کا حکم دیا تھا: ’’وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، أَنَّهُ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلاَثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’امام مالک نے یزید بن رومان کے طریق سے سائب بن یزیدؓ سے روایت کی ہے کہ عہد فاروقی میں بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں‘‘۔ (مؤطا امام مالک: ج۲، کتاب الصلوٰۃ، باب ماجاء فی قیام رمضان، ص۳۷۷، رقم الحدیث۳۸۰؛ السنن الکبری للبیہقی:ج۲، ص۴۹۶)
غیرمقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی لکھتے ہیں: ’’یعنی بیس رکعتیں تراویح کی اورتین رکعتیں وترکی بیہقی نے اس روایت اورپہلی روایت میں جمع کیاہےاس طورسے  کہ پہلے وہ لوگ گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے پھربیس رکعتیں پڑھنے لگےاورتین رکعتیں وترکی، اس لئے کہ پہلی رکعتیں بہت لمبی لمبی پڑھتے تھے پھرلوگ ضعیف ہوگئے توزیادہ کردیارکعتوں کوتاکہ بالکل فضیلت ہاتھ سےجانے نہ پائے‘‘۔ آگئے لکھتے ہیں: ’’اوربیس رکعتیں حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانہ سے منقول ہیں توآٹھ رکعتیں سنت نبویﷺاورسنت خلفاءدونوں ہیں اوربیس رکعتیں سنت ہیں خلفاءِ راشدین کی اورآنحضرتﷺنے فرمایا: "تَمَسَّكُوْا بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ"‘‘۔ (مؤطا امام مالک مترجم وحیدالزمان: کتاب الصلوٰۃ فی رمضان، ص۹۶)
امام شوکانی اپنی کتاب نیل الاوطارمیں مؤطاامام مالک سے روایت نقل کرتے ہیں کہ: ’’وَفِي الْمُوَطَّأِ مِنْ طَرِيقِ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهَا عِشْرُونَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’امام مالک نے یزید بن خصیفہ کے طریق سے سائب بن یزید سے روایت کی ہے کہ عہد فاروقی میں بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں‘‘۔ (موطا امام مالک بحوالہ نیل الاوطار: ج۲، ص۵۰۰)
حضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ سے مروی تمام احادیث کا تحقیقی جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتاہے کہ حضرت سائب بن یزیدؓسے تراویح کی رکعات کی تعداد بیان کرنے والے ان کے تین شاگرد ہیں: ۱۔ حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب، ۲۔ یزیدبن خصیفہ اور، ۳۔ محمد بن یوسف۔ ان تینوں شاگردوں میں سے دو شاگر(حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب اوریزیدبن خصیفہ )۲۰ رکعات بیان کرتے ہیں جبکہ محمد بن یوسف۱۱ رکعات بیان کرتے ہیں؛ روایات حسب ذیل ہیں:
۱۔ ’’وَقَالَ ابْن عبد الْبر: وروى الْحَارِث بن عبد الرَّحْمَن بن أبي ذُبَاب عَن السَّائِب بن يزِيد، قَالَ: كَانَ الْقيام على عهد عمر بِثَلَاث وَعشْرين رَكْعَة۔ قَالَ ابْن عبد الْبر: هَذَا مَحْمُول على أَن الثَّلَاث للوتر‘‘۔ ’’علامہ ابن عبدالبرمالکیؒ فرماتے ہیں کہ حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب نے حضرت سائب بن یزیدسےروایت کی ہے کہ: حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانہ میں ۲۳رکعتیں پڑھی جاتی تھیں، ابن عبدالبرؒکہتے ہیں کہ: ان میں بیس تراویح کی اورتین رکعتیں وترکی ہوتی تھیں‘‘۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۷)
۲۔ حضرت سائب بن یزیدؓکے دوسرے شاگردیزید بن خصیفہ جن کے بارے میں حافظ ابن حجر ؒتقریب التہذیب میں ثقہ لکھتے ہیں ان کے تین شاگردہیں: ۱۔ ابن ابی ذئب، ۲۔ محمد بن جعفراور ۳۔ امام مالک، اوریہ تینوں بالاتفاق بیس رکعات تراویح ہی بیان کرتےہیں:
۱)۔ ابن ابی ذئب کی روایت امام بیہقیؒ سنن الکبریٰ میں درج ذیل سند سے نقل کرتےہیں: ’’وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ فَنْجَوَيْهِ الدَّيْنَوَرِيُّ بِالدَّامَغَانِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ السُّنِّيُّ، أنبأ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، أنبأ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: "كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً" قَالَ: "وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمَئِينِ، وَكَانُوا يَتَوَكَّئُونَ عَلَى عِصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ"‘‘۔ ’’یزید بن خصیفہ کے طریق سے سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ميں لوگ ماه رمضان ميں بيس ركعت پڑھا کرتے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ مئین سورتیں پڑھتے اور حضرت عثمانؓ کے عہد میں شدت قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے‘‘۔ (السنن الکبری للبیہقی:ج۲، ص۶۹۹، رقم الحدیث ۴۶۱۷)
مندرجہ بالا سند کو امام نوویؒ، امام عراقیؒ اور حافظ سیوطیؒ نے صحیح کہاہے۔ (آثار السنن: ص۴۷۳، تحفۃ الاحوذی: ج۲، ص۷۵)
۲)۔ محمد بن جعفرکی روایت امام بیہقی کی دوسری کتاب معرفۃ السنن والآثارمیں اس سندسے مروی ہےکہ: ’’رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي "الْمَعْرِفَةِ" أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ ثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ ثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ، انْتَهَى۔ قَالَ النَّوَوِيُّ فِي "الْخُلَاصَةِ": إسْنَادُهُ صَحِيحٌ‘‘۔ ’’محمد بن جعفریزیدبن خصیفہ سے اوروہ سائب بن یزید رضی اﷲعنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ہم لوگ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانہ میں بیس رکعات اوروترپڑھاکرتے تھے۔ اس کی سند کوامام نووی نے صحیح قراردیاہے‘‘۔ (معرفة السنن والآثار للبیہقی: ج۴، بَابُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ، وَقِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، الْوِتْرُ تَطَوَّعٌ، وَكَذَلِكَ رَكْعَتَا الْفَجْرِ، ص۴۲، رقم الحدیث ۵۴۰۹؛ نصب الراية: ج۲، ص۱۵۴)
اس سند کو امام نوویؒ نے خلاصہ میں، علامہ تاج الدین سبکیؒ نے شرح منہاد میں اور علامہ ملاعلی قاریؒ نے شرح مؤطا میں صحیح کہاہے۔
۳)۔ یزید بن خصیفہ سے امام مالک کے طریق سے یہ روایت حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے فتح الباری میں اورامام شوکانی نے نیل الاوطارمیں نقل کی ہے: ’’وَرَوَى مَالِكٌ مِنْ طَرِيقِ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’امام مالک نے یزید بن خصیفہ کے طریق سے سائب بن یزید سے روایت کی ہے کہ عہد فاروقی میں بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں‘‘۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری: ج۴، كِتَابُ صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَان، ص۲۵۳؛ موطا امام مالک بحوالہ نیل الاوطار: ج۲، ص۵۰۰)
’’امام مالک عن یزید بن خصیفہ عن السائب بن یزید‘‘ کی سند بعینہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہےجو اس روایت کے صحیح ہونے پرسونے کی مہرہے: ’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍـ رَجُلاً مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَـ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ‏ "‏مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لاَ يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلاَ ضَرْعًا، نَقَصَ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ‏"۔‏ قُلْتُ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ إِي وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ‘‘۔ ’’ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے، ان سے سائب بن یزید نے بیان کیا کہ سفیان بن زہیر نے ازدشنوہ قبیلے کے ایک بزرگ سے سنا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ جس نے کتا پالا، جو نہ کھیتی کے لیے ہے اور نہ مویشی کے لیے، تو اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں! اس مسجد کے رب کی قسم! (میں نے ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے)‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، كتاب المزارعة، بَابُ اقْتِنَاءِ الْكَلْبِ لِلْحَرْثِ، رقم الحدیث ۲۳۲۳)
۳۔ حضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ کے تیسرے شاگرد محمد بن یوسف جو اکیلے ۱۱ رکعات بیان کرتے ہیں ان کے بھی تین شاگردہیں ۱۔ امام مالک، ۲۔ ابن اسحاق اور، ۳۔ داؤد بن قیس۔ ان تینوں کے درمیان تعداد بیان کرنے میں اختلاف ہواہے، چنانچہ:
۱)۔ امام مالک ؒ اپنے شیخ محمد بن یوسف سےاکیلے  ۱۱گیارہ رکعات بیان کرتے ہیں جبکہ امام مالکؒ کااپنا عمل بھی اس حدیث پرنہ تھا۔ معلوم ہوا کہ امام ملکؒ نے اس حدیث کواپنی کتاب میں رقم ضرورکیاہے لیکن وہ خود بھی اس کو صحیح تسلیم نہیں کرتے۔ کیونکہ اگرامام ملکؒ کے نزدیک یہ روایت صحیح ہوتی تووہ اس پرعمل ضرورکرتے۔
۲)۔ ابن اسحاق ان سے ۱۳تیرہ رکعات بیان کرتے ہیں: ’’وَأَخْرَجَ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ جَدِّهِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي زَمَنَ عُمَرَ فِي رَمَضَانَ ثَلَاث عشرَة‘‘۔ ’’ابن اسحاق حضرت سائب بن یزید رضی اﷲعنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ہم لوگ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانہ میں تیرہ رکعات نمازپڑھاکرتے تھے‘‘۔ (فتح الباري شرح صحيح البخاری: ج۴، كِتَابُ صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَان، ص۲۵۴)
۳)۔ داؤد بن قیس ان سے اکیس۲۱ رکعات بیان کرتے ہیں: ’’عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، وَغَيْرِهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، "أَنَّ عُمَرَ: جَمَعَ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَعَلَى تَمِيمٍ الدَّارِيِّ عَلَى إِحْدَى وَعِشْرِينَ رَكْعَةُ يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ وَيَنْصَرِفُونَ عِنْدَ فُرُوعِ الْفَجْرِ"‘‘۔ ’’داؤدبن قیس حضرت سائب بن یزیدؓ سےبیان کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے لوگوں کورمضان کے مہینے میں حضرت ابی بن کعب اورحضرت تمیم داری رضی اﷲعنہم اجمعین کی اقتداءمیں جمع کرلیا، یہ حضرات اکیس رکعات اداکیاکرتے تھے اوراس میں سوآیات کی تلاوت کرتے تھے اوریہ اس وقت نمازختم کرتے تھے جب صبح صادق کاوقت قریب آچکاہوتاتھا‘‘۔ (مصنف عبد الرزاق: ج۴، بَابُ قِيَامِ رَمَضَانَ، ص۲۶۰، رقم الحدیث۷۷۳۰)
مندرجہ بالاتحقیق اورروایات کے تفصیلی جائزے سے معلوم ہواکہ حضرت سائب بن یزید رضی اﷲعنہ کے دوشاگرحارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب اوریزیدبن خصیفہ، اوریزیدبن خصیفہ کے تینوں شاگردمتفق اللفظ ہیں کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے بیس رکعات کاحکم دیاتھا، جبکہ حضرت سائب بن یزیدؓ کے تیسرے شاگرمحمد بن یوسف کی روایت مضطرب ہے، کیونکہ ان کے بعض شاگردگیارہ رکعات بیان کرتے ہیں، بعض تیرہ رکعات اور بعض اکیس رکعات بیان کرتے ہیں۔ لہٰذا اصول حدیث کے قاعدے سے محمد بن یوسف کی روایت شدیدمضطرب ہے اوراضطراب فی المتن روایت حجت نہیں۔ امام جلال الدین سیوطیؒ (المتوفی: ۹۱۱ھ) فرماتے ہیں: ’’وَالِاضْطِرَابُ يُوجِبُ ضَعْفَ الْحَدِيثِ‘‘۔ ’’اضطراب روایت کو ضعیف بنا دیتا ہے‘‘۔ (تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: ص۴۲۷)
لہٰذا یہ روایت شدیدضعیف قرارپائی اورحضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ کی صحیح حدیث وہی ہےجوحارث بن عبدالرحمٰن، یزیدبن خصیفہ اوران کے تینوں شاگردبیان کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نےبیس رکعات تراویح کاحکم دیاتھا۔ اوراگرمحمد بن یوسف کی مضطرب اورمشکوک روایت کوکسی درجے میں قابل لحاظ سمجھاجائے تودونوں روایات کے درمیان تطبیق کی وہی صورت متعین ہوسکتی ہے جوامام بیہقیؒ نے سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ سے مروی تمام طرق کوبیان کرنے کے بعد ذکرکی ہےکہ گیارہ پرچندروزعمل رہا، پھربیس پرعمل کااستقرارہوا، چنانچہ امام بیہقیؒ دونوں روایتوں کوذکرکرنے کے بعدفرماتے ہیں: ’’وَيُمْكِنُ الْجَمْعُ بَيْنَ الرِّوَايَتَيْنِ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا يَقُومُونَ بِإِحْدَى عَشْرَةَ، ثُمَّ كَانُوا يَقُومُونَ بِعِشْرِينَ وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ‘‘۔ ’’دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہےکہ پہلےوہ لوگ گیارہ رکعات پڑھتے تھے، اس کے بعدانہوں نے بیس رکعات تراویح اورتین وترپڑھناشروع کردیا‘‘۔ (السنن الکبری للبیہقی:ج۲، ص۶۹۹)
امام بیہقیؒ کایہ ارشاد کہ عہدفاروقیؓ میں صحابہ کرامؓ کاآخری عمل جس پرامت مسلمہ کا اجماع ہوا، بیس رکعات تراویح تھا۔
فرقہ غیرمقلدیں کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی کی آٹھ رکعت تراویح پردلیل نمبر  ۶
’’وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ فِي سُنَنِهِ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي محمد بن يوسف: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً نَقْرَأُ فِيهَا بِالْمِئِينَ‘‘۔ ’’حضرت سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے‘‘۔ (سنن سعید بن منصور بحوالہ الحاوی للفتاوی: ج۱، ص۳۳۷؛ وحاشیہ آثار السنن: ص ۲۵۰)
دلیل نمبر ۶کےجوابات
مندرجہ بالاحدیث بھی محمد بن یوسف کے طریق سےحضرت سائب بن یزیدؓسےہی مروی ہے اوراس کے تمام راوی بھی وہی ہیں جو دلیل نمبر ۵کی حدیث کے ہیں صرف کتاب کا فرق ہے، لہٰذا یہ دونوں ایک ہی حدیث ہےجنہیں غیرمقلدین حضرات نے الگ دلیل بنا کر پیش کردیاتاکہ دلائل کی تعداد میں اضافہ کرکے عام اورلاعلم مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں، اس لئےیہ بھی وہی حدیث ہے جس کا جواب دلیل نمبر ۵کے جواب میں دیاجاچکا ہے۔ لہٰذایہ روایت بھی مضطرب المتن ہے اور اجماع امت کے خلاف بھی اس لئے اس حدیث سے استدلال کرنادرست نہیں۔
اس کے ساتھ ہی ہم قارئین کرام کے سامنے اس بات کی بھی مکمل تحقیق پیش کیئےدیتے ہیں کہ غیرمقلدین حضرات امام جلال الدین سیوطیؒ کی جس کتاب کے حوالےسے یہ حدیث نقل کرتے ہیں اسی کتاب میں امام جلال الدین سیوطیؒ یہ حدیث نقل کرنے سے پہلے لکھاہے: ’’وَفِي سُنَنِ الْبَيْهَقِيِّ وَغَيْرِهِ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ الصَّحَابِيِّ قَالَ: كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’سنن بیہقی وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ صحابی رسول حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ميں لوگ ماه رمضان ميں بيس ركعت پڑھا کرتے تھے‘‘۔ (الحاوی للفتاوی: ج۱، ص۳۳۶)
’’وَفِي الْمُوَطَّأِ وَابْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيِّ عَنْ عمر أَنَّهُ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَكَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’اورمؤطا، ابن ابی شیبہ اوربیہقی میں ہے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے لوگوں کورمضان کے مہینے میں حضرت ابی بن کعب رضی اﷲعنہ کی اقتداءمیں جمع کیا، اوریہ لوگوں کوبیس رکعات نمازپڑھایاکرتے تھے‘‘۔ (الحاوی للفتاوی: ج۱، ص۳۳۶)
اس کے بعد امام جلال الدین سیوطیؒ سنن سعید بن منصورکی  گیارہ رکعات والی روایت اوربیس رکعات والی روایات کےبارے میں امام بسکیؒ کے حوالے سےائمہ کرام کے مذاہب اورآراءبیان کرتے ہوئے حتمی فیصلہ بیان کرتے ہیں: ’’وَقَالَ السبكي فِي شَرْحِ الْمِنْهَاجِ: اعْلَمْ أَنَّهُ لَمْ يُنْقَلْ كَمْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيَالِيَ، هَلْ هُوَ عِشْرُونَ أَوْ أَقَلُّ، قَالَ: وَمَذْهَبُنَا أَنَّ التَّرَاوِيحَ عِشْرُونَ رَكْعَةً؛ لِمَا رَوَى الْبَيْهَقِيُّ وَغَيْرُهُ بِالْإِسْنَادِ الصَّحِيحِ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ الصَّحَابِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ عَلَى عَهْدِ عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوَتْرِ، هَكَذَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ وَاسْتَدَلَّ بِهِ، وَرَأَيْتُ إِسْنَادَهُ فِي الْبَيْهَقِيِّ، لَكِنْ فِي الْمُوَطَّأِ وَفِي مُصَنَّفِ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ بِسَنَدٍ فِي غَايَةِ الصِّحَّةِ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ: إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً۔ وَقَالَ الجوري مِنْ أَصْحَابِنَا: عَنْ مالك أَنَّهُ قَالَ: الَّذِي جَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَحَبُّ إِلَيَّ، وَهُوَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَهِيَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ لَهُ: إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوَتْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ وَثَلَاثَ عَشْرَةَ قَرِيبٌ، قَالَ: وَلَا أَدْرِي مِنْ أَيْنَ أُحْدِثَ هَذَا الرُّكُوعُ الْكَثِيرُ؟ وَقَالَ الجوري: إِنَّ عَدَدَ الرَّكَعَاتِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لَا حَدَّ لَهُ عِنْدَ الشَّافِعِيِّ، لِأَنَّهُ نَافِلَةٌ، وَرَأَيْتُ فِي كِتَابِ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ آثَارًا فِي صَلَاةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَسِتٍّ وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً، لَكِنَّهَا بَعْدَ زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَمَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ إِلَى رِوَايَةِ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ بِالْوَتْرِ، وَأَنَّ رِوَايَةَ مالك فِي إِحْدَى عَشْرَةَ وَهْمٌ، وَقَالَ: إِنَّ غَيْرَ مالك يُخَالِفُهُ وَيَقُولُ: إِحْدَى وَعِشْرِينَ‘‘۔ ’’امام سبکی شرح منہاج میں کہتے ہیں کہ: جان لوبے شک نبی کریمﷺسے منقول نہیں ہے کہ آپﷺنے ان راتوں میں کتنی رکعتیں پڑھیں، آیاوہ بیس رکعات پڑھی یا اس سے کم تھیں۔ چنانچہ ہمارامذہب یہ ہےکہ تراویح بیس رکعات ہےاس دلیل کی بنیاد پرکہ جوکہ بیہقی وغیرہ نے صحیح اسنادسے روایت کی ہیں کہ صحابی رسول حضرت سائب بن یزیدفرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح اوروتر پڑھتے تھےاورمصنف نے بھی اسی کوذکرکیاہےاوراسی سے استدلال کیاہےاورمیں نے اس کی سند بیہقی میں دیکھی ہےلیکن مؤطا میں اورمصنف سعید بن منصور میں ایک روایت ہے جوصحیح سند کے ساتھ ہے، اوروہ روایت بھی سائب بن یزیدؓ سے ہےجس کا حاصل گیارہ رکعات ہے۔ الجوری جوہمارے اصحاب میں سے ہیں وہ امام مالک کاقول نقل کرتے ہیں کہ: حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے جس پرلوگوں کو جمع کیا تھاوہی میرے نزدیک زیادہ محبوب ہےاوروہ گیارہ رکعات ہےاوروہی نبی کریمﷺکی نمازبھی ہے۔ کیاوہ وترسمیت گیارہ رکعات ہے؟ اصل میں یہ(وترسمیت) تیرہ رکعات ہیں۔ امام سبکی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتاکہ رکعتوں کااضافہ کہاں سے ہواہے۔ چنانچہ الجوری کہتے ہیں کہ امام شافعی کے نزدیک اس کی رکعتوں کی کوئی حد نہیں ہے کیونکہ یہ نفل نماز ہے۔ امام سبکی کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن منصورکی کتاب میں ایسے آثار بھی دیکھے کہ جن میں وہ بیس رکعات ہیں اورچھتیس رکعات بھی روایت کرتے ہیں لیکن وہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانے کے بعد کے ہیں۔ اور ابن عبدالبروترسمیت تئیس رکعات کی طرف مائل ہوئے ہیں اورجہاں تک بات ہے امالک کی گیارہ رکعات والی روایت کی تو وہ وہم ہے۔ اورمصنف فرماتے ہیں کہ گیارہ رکعات والے قول کی امام مالک کے علاوہ ہرکسی نے مخالفت کی ہےاورسب نے اکیس رکعات کوقبول کیا ہے‘‘۔ (الحاوی للفتاوی: ج۱، ص۳۳۷)
مندرجہ بالاتفصیل اورائمہ کرام کے اقول سے یہ بات سورج کی روشنی کی طرح واضح ہوگئی کہ گیارہ رکعات والی روایت سےسوائے امام مالکؒ کے تمام ائمہ کرام نے اختلاف کیاہےاورامام مالکؒ کا اس روایت کوزیادہ محبوب قراردینے کے باوجودبھی ان کا اپناعمل اورفتویٰ گیارہ رکعات پرنہیں بلکہ چھتیس رکعات پرہے۔ ثابت ہوگیا کہ امام مالکؒ بھی گیارہ رکعات کے قائل نہ تھےلہٰذا فرقہ غیرمقلدین کااس روایت سے استدلال باطل اور اجماع امت کے خلاف ہے۔
فرقہ غیرمقلدیں کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی کی آٹھ رکعت تراویح پردلیل نمبر  ۷
’’ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: ثنا بَقِيُّ بْنُ مَخْلَدٍ، رَحِمَهُ اللَّهُ، قَالَ: ثنا أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، أَنَّ السَّائِبَ أَخْبَرَهُ: «أَنَّ عُمَرَ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيٍّ وَتَمِيمٍ فَكَانَا يُصَلِّيَانِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَقْرَآنِ بِالْمِئِينَ» يَعْنِي فِي رَمَضَانَ‘‘۔ ’’حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:بے شک عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی بن کعب اور تمیم الداری رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر جمع کیا، پس وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے، یعنی رمضان میں‘‘۔ (مصنف ابن أبی شيبة: ج۲، ص۱۶۲، رقم الحدیث ۷۶۷۱)
دلیل نمبر ۷کےجوابات
مندرجہ بالاحدیث بھی محمد بن یوسف کے طریق سےحضرت سائب بن یزیدؓسےہی مروی ہے اوراس کے تمام راوی بھی وہی ہیں جو دلیل نمبر۵اور۶کی حدیث کے ہیں صرف کتاب کا فرق ہے، لہٰذا یہ تینوں ایک ہی حدیث ہےجنہیں غیرمقلدین حضرات نے الگ دلیل بنا کر پیش کردیاتاکہ دلائل کی تعداد میں اضافہ کرکے عام اورلاعلم مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں، اس لئےیہ بھی وہی حدیث ہے جس کا جواب دلیل نمبر ۵اور۶کے جواب میں دیاجاچکا ہے۔ لہٰذایہ روایت بھی مضطرب المتن ہے اور اجماع امت کے خلاف بھی اس لئے اس حدیث سے استدلال کرنادرست نہیں۔
امام ابن عبدالبرمالکیؒ فرماتے ہیں: ’’وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: رَوَى غَيْرُ مَالِكٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ وَعِشْرُونَ وَهُوَ الصَّحِيحُ وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ فِيهِ إِحْدَى عَشْرَةَ إِلَّا مَالِكًا، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ أَوَّلًا ثُمَّ خَفَّفَ عَنْهُمْ طُولَ الْقِيَامِ وَنَقَلَهُمْ إِلَى إِحْدَى وَعِشْرِينَ إِلَّا أَنَّ الْأَغْلَبَ عِنْدِي أَنَّ قَوْلَهَ: إِحْدَى عَشْرَةَ وَهْمٌ انْتَهَى۔ وَلَا وَهْمَ مَعَ أَنَّ الْجَمْعَ بِالِاحْتِمَالِ الَّذِي ذَكَرَهُ قَرِيبٌ وَبِهِ جَمَعَ الْبَيْهَقِيُّ أَيْضًا‘‘۔ ’’امام مالک کے علاوہ تمام ائمہ کرام نے اس حدیث میں بیس رکعات کوروایت کیاہےاوریہی بات صحیح ہے،  اورامام مالک کے علاوہ میں کسی کونہیں جانتاکہ جس نے اس معاملے میں گیارہ کوبیان کیاہو، البتہ یہ احتمال ہوتاہے کہ یہ حکم (گیارہ کا) ابتدامیں تھاپھر اس کے طویل قیام میں کمی کرکے (تعدادکااضافہ) بیس کردیاگیاہو۔ البتہ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ گیارہ کاقول وہم معلوم ہوتا ہےلہٰذا میراغالب گمان یہی ہے کہ گیارہ کاقول وہم ہے‘‘۔ امام زرقانیؒ آگے اپنی بات بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں: ’’اس بات کووہم قراردینا مناسب نہیں ہے، لہٰذا احتمال والی بات کو لے لینازیادہ ٹھیک ہےاورامام بیہقی نے بھی اس کواسی طرح جمع کیاہے‘‘۔ (شرح الزرقانی على موطأ الإمام مالك: ج۱، ص۳۴۱)
امام بیہقیؒ گیارہ اوربیس رکعات والی روایات کوذکرکرنے کے بعدفرماتے ہیں: ’’وَيُمْكِنُ الْجَمْعُ بَيْنَ الرِّوَايَتَيْنِ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا يَقُومُونَ بِإِحْدَى عَشْرَةَ، ثُمَّ كَانُوا يَقُومُونَ بِعِشْرِينَ وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ‘‘۔ ’’دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہےکہ پہلےوہ لوگ گیارہ رکعات پڑھتے تھے، اس کے بعدانہوں نے بیس رکعات تراویح اورتین وترپڑھناشروع کردیا‘‘۔ (السنن الکبری للبیہقی:ج۲، ص۶۹۹)
حضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ کے شاگرد یزیدابن خصیفہ رحمہ اﷲکی بیان کردہ ۲۰ رکعات اورمحمدابن یوسف رحمہ اﷲ کی بیان کردہ۸رکعات تراویح کی احادیث کاموازنہ
امام أبوبکرالنیسابوریؒ(المتوفی: ۳۲۴ھ) نقل کرتے ہیں: ’’حدثنا يوسف بن سعيد، ثنا حجاج، عن ابن جريج، حدثني إسماعيل بن أمية أن محمد بن يوسف ابن أخت السائب بن يزيد أخبره، أن السائب بن يزيد أخبره قال: جمع عمر بن الخطاب الناس على أبي بن كعب، وتميم الداري، فكانا يقومان بمائة في ركعة فما ينصرف حتى نرى أو نشك في فروع الفجر قال فكنا نقوم بأحد عشر قلت أو واحد وعشرين، قال: لقد سمع ذلك من ابن السائب بن يزيد۔ابن خصيفة، فسألت يزيد بن خصيفة، فقال: حسنتُ أن السائب قال أحدى وعشرين۔ قال محمد: أو قلت لإحدى وعشرين۔ قال محمد: أو قلت لإحدى وعشرين‘‘۔ ’’محمد بن حضرت سائب بن یزید رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن الخطاب رضی اﷲعنہ نے لوگوں کوحضرت ابی بن کعب اورحضرت تمیم داری رضی اﷲعنہماکے ساتھ تراویح پڑھنے کے لئے جمع کیا، تویہ دونوں ایک رکعت میں سوآیات پڑھاتےتھےپھرجب ہم نماز سے فارغ ہوتے تھے توہم کولگتاکہ فجرہوچکی ہے، سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ کہتے ہیں کہ ہم گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ محمد بن یوسف نے جب یہ روایت اپنے شاگرداسماعیل بن امیہ کے سامنے بیان کی تواسماعیل بن امیہ نے پوچھا: گیارہ رکعات یااکیس رکعات؟ محمد بن یوسف نے کہا: اس طرح کی بات یزید بن خصیفہ نے سائب بن یزید رضی اﷲعنہ سے سنی ہے۔ اسماعیل بن امیہ کہتے ہیں کہ: پھرمیں نے یزیدبن خصیفہ سے اس بارے میں سوال کیاتوانہوں نے کہا: مجھے لگتاہے کہ سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ نے اکیس کہاتھا۔ پھرمحمد بن یوسف نے کہا: بلکہ میں(بھی) ۲۱ اکیس رکعات کہتاہوں‘‘۔ (فوائدأبی بکرالنیسابوری: ص۱۴،رقم الحدیث ۱۶؛ اس حدیث کونقل کرنے کے بعد امام أبوبکرالنیسابوریؒ فرماتے ہیں’’هذا حديث حسن‘‘)
فرقہ غیرمقلدین کے چندعلماءنے مندرجہ بالا حدیث سے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ حضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ سے مروی یزید بن خصیفہؒ کی بیان کردہ بیس رکعت تراویح والی حدیث محمدبن یوسفؒ کی بیان کردہ آٹھ رکعت تراویح والی حدیث کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے۔ آئیں میں آپ کے سامنے مندرجہ بالا حدیث کی اصل حقیقت پیش کرتاہوں جسے فرقہ غیرمقلدین کے علماءچھپاتے ہیں اورعام عوام کوگمراہ کرتےہیں۔
قارئین کرام کے لئے سب سے اہم نکتہ کی بات یہ ہے کہ فرقہ غیرمقلدین کے علماءمندرجہ بالا روایت کو حضرت یزید بن خصیفہؒ کے صرف اس جملے’’فسألت يزيد بن خصيفة، فقال: حسنتُ أن السائب قال أحدى وعشرين‘‘تک بیان کرتے ہیں جیساکہ آپ غیرمقلد عالم ابو الفوزان كفايت اللہ السنابلی صاحب کی کتاب مسنون رکعات تراویح اورعلامہ ناصرالدین البانی کی کتاب صلاۃ التراویح کے اسکین صفحات میں دیکھ سکتے ہیں اور اس سے آگے کے الفاظ حذف کردیتے ہیں تاکہ عوام الناس کو حقیقت سے محروم رکھ کربآسانی دھوکا دیاجاسکے۔ حالانکہ اس روایت کے آخرمیں لکھاہے:
’’قال محمد: أو قلت لإحدى وعشرين‘‘۔ ’’پھرمحمد بن یوسف نے کہا: بلکہ میں(بھی) ۲۱ اکیس رکعات کہتاہوں‘‘۔ (فوائدأبی بکرالنیسابوری: ص۱۴،رقم الحدیث ۱۶)
غیرمقلدین حضرات نے یہاں اعتراض کیاہے کہ ہم نے اس جملے کاترجمہ ٹھیک نہیں کیا۔ ان کی تسلی کے لئے ہم فرقہ غیرمقلدین کے پیش کردہ معنیٰ سے ہی اس جملے کا ترجمہ کرتےہیں تاکہ کسی قسم کااشکال باقی نہ رہے۔
فرقہ غیرمقلدین کے لوگ کہتےہیں ’’أو‘‘کےمعنیٰ: یا، کیا، خواہ، یہاں تک، مگر، اگرچہ، جبکہ۔
اور’’قلت‘‘ کے معنیٰ: میں نے کہا۔
اس کے بعدفرقہ غیرمقلدین مترجم اس جملے کاترجمہ کچھ اس طرح کرتے ہیں: ’’کہامحمد بن یوسف نے: کیامیں نے کہا۲۱ اکیس رکعات‘‘۔
میں تمام قارئین کرام سے گزارش کرتاہوں کہ وہ خود اس بات کافیصلہ کرکے بتائیں کہ کیایہ ترجمہ اردوگرامراورپڑھنےکے لحاظ سے درست ہے؟ فرقہ غیرمقلدین کا کیاہواترجمہ نہ توگرامرکے لحاظ سے درست ہے اورنہ ہی پڑھنے کے لحاظ سے بلکہ اس ترجمہ سے تویہ تک نہیں سمجھ آرہاہےکہ محمد بن یوسفؒ کی اس بات میں مطلب کیابنتاہے۔
ہم کہتے ہیں کہ’’أو‘‘اور’’قلت‘‘ کےجتنے بھی معنیٰ فرقہ غیرمقلدین نےبیان کیئےہیں ان تمام کوایک ایک کرکے اس جملے میں استعمال کرکےدیکھ لیتےہیں تاکہ فرقہ غیرمقلدین کے متبعین کی مکمل طورپرتسلی ہوجائے۔
۱۔ ’’کہامحمد بن یوسف نے: یامیں نے کہا۲۱ اکیس رکعات‘‘۔
۲۔ ’’کہامحمد بن یوسف نے: خواہ میں نے کہا۲۱ اکیس رکعات‘‘۔
۳۔ ’’کہامحمد بن یوسف نے: یہاں تک میں نے کہا۲۱ اکیس رکعات‘‘۔
۴۔ ’’کہامحمد بن یوسف نے: مگر میں نے کہا۲۱ اکیس رکعات‘‘۔
۵۔ ’’کہامحمد بن یوسف نے: اگرچہ میں نے کہا۲۱ اکیس رکعات‘‘۔
۶۔ ’’کہامحمد بن یوسف نے: جبکہ میں نے کہا۲۱ اکیس رکعات‘‘۔
مندرجہ بالاتمام جملوں سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت محمدبن یوسفؒ نے اپنے آٹھ رکعت والے مؤقف سے رجوع کرلیاتھا۔
اس روایت سے درج ذیل اشکال اوران کے جوابات کی بھی وضاحت ہوتی ہےکہ:
۱۔ آخرمحمد بن یوسفؒ کے شاگرداسماعیل بن امیہؒ نےاپنے استاد سے یہ سوال ہی کیوں کیاکہ’’ گیارہ رکعات یااکیس رکعات؟‘‘۔ اس کا مطلب اسماعیل بن امیہؒ کو اپنے استاد محمد بن یوسفؒ کے گیارہ رکعات بیان کرنے پراطمینان نہ تھا، کیونکہ محمد بن یوسفؒ کے علاوہ کسی نے بھی آٹھ رکعات بیان نہیں کی اورساتھ ہی اسماعیل بن امیہؒ کے سامنے اہل مکہ، اہل مدینہ اوراہل کوفہ کے تمام صحابہ کرامؓ وتابعینؒ کا عمل موجودتھاجوسب کے سب ۲۰ رکعات یا اس سے زیادہ پڑھنے کے قائل تھے، کسی ایک صحابی رسول ؓیاتابعیؒ سے آٹھ رکعت پڑھناثابت نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے استادسے یہ سوال کرڈالا۔
۲۔ محمد بن یوسفؒ نے یہ کہہ کرکہ ’’اس طرح کی بات (یعنی اکیس رکعات)یزید بن خصیفہ نے سائب بن یزید رضی اﷲعنہ سے سنی ہے‘‘خودہی اس بات کااعتراف بھی کرلیااورتصدیق بھی فرمادی کہ حضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ نے یزید بن خصیفہؒ سے اکیس رکعات بیان کی ہے، لہٰذا اکیس رکعات والی روایت بالکل صحیح ہے۔
۳۔ تیسری بات یہ کہ اسماعیل بن امیہؒ کواپنے استاد کے آٹھ رکعت بیان کرنے پرذرابھی اعتماد نہ تھا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے یزید بن خصیفہؒ سے آٹھ رکعت والی خبرکی تصدیق کروائی جس پریزیدبن خصیفہؒ نے دوٹوک الفاظ میں تصدیق کردی کہ’’مجھے لگتاہے کہ سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ نے اکیس کہاتھا‘‘۔
۴۔ پھرجب اسماعیل بن امیہؒ نے محمد بن یوسفؒ سے یزیدبن خصیفہؒ کے بارے میں بتایاکہ وہ اکیس رکعات بتاتے ہیں تومحمد بن یوسف نے اکیس رکعات کی طرف رجوع کیااورفرمایاکہ ’’میں(بھی) ۲۱ اکیس رکعات کہتاہوں‘‘ جیساکہ روایت کے آخرمیں ہےجسے فرقہ غیرمقلدین کے علماءبیان نہیں کرتے۔
۵۔ ان تمام باتوں کا حاصل یہی ہے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے آٹھ نہیں بلکہ بیس رکعات تراویح کا حکم دیاتھااورمحمد بن یوسفؒ سے اس معاملے میں سہو(غلطی) ہوئی ہے، جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کسی ایک صحابیؓ، تابعیؒ وتبع تابعیؒ بلکہ کسی ایک امام مجتہدؒیامحدث ؒسے آٹھ رکعت پڑھناثابت نہیں ہے۔
جیساکہ غیرمقلدعالم زبیرعلی زئی صاحب خوداس بات کا اقرارکرتے ہیں کہ: ’’یہ بات اظہرمن الشّمس ہےکہ ثقہ راویوں کوبھی (بعض اوقات) خطا لگ جاتی ہےلہٰذا ایسا راوی اگرموثق عبدالجمہورہوتواس کی ثابت شدہ خطاکوچھوڑدیاجاتاہےاورباقی روایتوں میں وہ حسن الحدیث، صحیح الحدیث ہوتاہے۔ نیزدیکھئے قواعدفی علوم الحدیث(ص۲۷۵)‘‘۔ (نماز میں ہاتھ باندھنے کاحکم اورمقام: ص۳۱)
لہٰذا جب فرقہ غیرمقلدین کے نزدیک بھی یہ طے شدہ اصول ہے کہ ثقہ راوی سے بھی غلطی ہوسکتی ہے توپھرمحمدبن یوسفؒ سے تراویح کی تعداد بیان کرنے میں غلطی کیوں نہیں ہوسکتی؟
محمدبن یوسفؒ کاآٹھ رکعت تراویح سےرجوع اوربیس رکعات تراویح بیان کرنے کی واضح دلیل: ’’منها ما رواه عبد الرزاق في مصنفه ج۴ ص۳۶۰، عن داود بن قيس وغيره عن محمد بن يوسف عن السائب بن يزيد أن عمر جمع الناس في رمضان على أبي ابن كعب. على تميم الداري على إحدى وعشرين ركعة. وهذا الإسناد رجاله ثقات رجال الصحيح‘‘۔ ’’داؤدبن قیس حضرت سائب بن یزید ؓسےبیان کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے لوگوں کورمضان کے مہینے میں حضرت ابی بن کعب اورحضرت تمیم داری رضی اﷲعنہم اجمعین کی اقتداءمیں جمع کرلیا، یہ حضرات اکیس رکعات اداکیاکرتے تھے‘‘۔ (مصنف عبد الرزاق: ج۴، بَابُ قِيَامِ رَمَضَانَ، ص۲۶۰، رقم الحدیث۷۷۳۰؛ تنبيه القارىء على تقوية ما ضعفه الألبانى: ص۴۲؛ بحث فی عدد ركعات قيام الليل: ص۳۹)
سعودی عرب کے شیخ ومحدث اورمشہورعالم الحافظ عبد الله بن محمد بن أحمد بن محمد الدويش السبيعیؒ (المتوفی: ۱۴۰۹ھ، ۱۹۸۹ء؁) اپنی کتاب تنبيه القارىء على تقوية ما ضعفه الألبانى میں اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وهذا الإسناد رجاله ثقات رجال الصحيح‘‘۔ ’’اس سند کے تمام راوی ثقہ صحیح ہیں‘‘۔ (تنبيه القارىء على تقوية ما ضعفه الألبانى: ص۴۲)
فضيلة الشيخ أبى عبد الله مصطفى بن العدوی بھی اپنی کتاب بحث فی عدد ركعات قيام الليل میں اس حدیث کےبارے میں فرماتے ہیں: ’’إسناد صحيح‘‘۔ ’’یہ سندصحیح ہے‘‘۔ (بحث فی عدد ركعات قيام الليل: ص۳۹)
فرقہ غیرمقلدیں کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی کی آٹھ رکعت تراویح پردلیل نمبر  ۸
۱۔ فرقہ غیرمقلدین کےشیخ زبیرعلی زئی صاحب لکھتےہیں کہ: ’’نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیس رکعات تراویح قطعاً ثابت نہیں ہے۔ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں کہ: اور بیس رکعات والی جو روایت ہے، وہ ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے‘‘۔ (العرف الشذی شرح سنن الترمذی: ج۲، ص۲۰۹-۲۰۸)
۲۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کے نزدیک بھی آٹھ رکعت تراویح ہی سنت ہے اور بیس تراویح کی روایت ضعیف ہے۔
۳۔ علامہ طحطاوی حنفی اورمحمد احسن نانوتوی کہتے ہیں: ’’بے شک نبی ﷺنے بیس رکعات نہیں پڑھی بلکہ آٹھ پڑھی ہیں‘‘۔ (حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار: ج ۱، ص۲۹۵؛ حاشیہ کنزالدقائق: ص۳۲، حاشیہ ۴)
۴۔ خلیل احمدسہارنپوری دیوبندی نے کہا: ’’اورسنت مؤکدہ ہوناتراویح کاآٹھ رکعت تو باتفاق ہے‘‘۔ (براہین قاطعہ: ص۱۹۵)
۵۔ عبدالشکورلکھنوی نےکہا: ’’اگرچہ نبیﷺسےآٹھ رکعت تراویح مسنون ہےاورایک ضعیف روایت میں ابن عباسؓ سے بیس رکعت بھی۔۔۔‘‘۔ (علم فقہ: ص۱۹۸)
۶۔ علامہ ملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں: ’’دراصل تراویح جورسول اﷲﷺنے پڑھی، وہ وترسمیت گیارہ رکعات ہی ثابت ہیں‘‘۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)
۷۔ علامہ عینی حنفیؒ فرماتے ہیں: ’’تراویح کی مستحب تعداد میں علماء کااختلاف ہے۔ وہ بہت اقول رکھتے ہیں اورکہاجاتاہے کہ تراویح گیارہ رکعتیں ہیں‘‘۔(عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۶)
دلیل نمبر ۸کےجوابات
اگر نبی کریم ﷺ سے بیس رکعات تراویح ثابت نہیں ہے تو آٹھ رکعا ت بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ نبیﷺ نے تراویح کی نماز صرف ۳ تین دن پڑھائی تھی اور ان تین دنوں میں آپﷺنےکتنی رکعات پڑھائی تھیں یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
غیرمقلدین حضرات نےآٹھ رکعات تراویح پراپنے باطل استدلال کو ثابت کرنے کے لئے صرف ۷احادیث دلیل کے طورپرپیش کیں جن میں سے پہلی اوردوسری حدیث تو تہجد کی نماز کےبارے میں ہیں جن سے تراویح کاثابت ہونا ممکن نہیں، تیسری اورچوتھی حدیث میں دو انتہائی ضعیف راویوں کی وجہ سے ان روایات سے استدلال باطل اور مردودثابت ہوا۔ اسی طرح پانچویں، چھٹی اورساتویں روایات کوالگ دلیل بناکر پیش کرنابھی سرے سے باطل اور مردود ہے کیونکہ محض کتاب کے مختلف ہونے جانےسےیہ کیسےلازم ہوگیاکہ احادیث بھی مختلف ہیں، لہٰذا غیرمقلدین حضرات کے پاس اپنے باطل اوربے بنیاد دعوےٰ کوثابت کرنے کے لئے صرف پانچ احادیث ودلائل تھے، اسی لئے انھوں نے قرآن وحدیث چھوڑکرحنفیوں کی تقلیدمیں حنفی اکابرین کے اقوال کودلیل نمبر۸ میں دلیل بناکر پیش کردیا لیکن بڑے ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہاں بھی فرقہ غیرمقلدین کےثپوتوں نے اپنی علمی خیانت کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئےعلامہ انور شاہ کشمیریؒ کے قول میں سے صرف ایک جملہ نقل کیااورباقی عبارات کوحذف کردیاکیونکہ اگر پوری عبارت نقل کرتے تو عام اورلاعلم مسلمانوں کو بیوقوف کیسے بناپاتے۔ آئیں میں آپ کے سامنے علامہ انورشاہ کشمیریؒ کی پوری عبارت پیش کرکے فرقہ غیرمقلدین کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی  کی دھوکے بازی اوراصلیت بیان کرتاہوں۔
۱۔ شیخ الہند علامہ انورشاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں: ’’أي التراويح، لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة في التراويح، وإليه جمهور الصحابة رضوان الله عنهم، وقال مالك بن أنس: بستة وثلاثين ركعة فإن تعامل أهل المدينة أنهم كانوا يركعون أربع ركعات انفراداً في الترويحة، وأما أهل مكة فكانوا يطوفون بالبيت في الترويحات‘‘۔ ’’ائمہ اربعہ (یعنی چاروں اماموں)میں سے کوئی بهی بیس رکعات سے کم تراویح کا قائل نہیں ہے اور جمہور صحابه کرام کا عمل بهی اسی پر ہے۔ امام مالکؒ بیس سے بھی زیادہ چھتیس رکعات کے قائل ہیں۔ امام مالک کے مسلک کے بموجب جماعت کے ساتھ تراویح کی بیس رکعتیں ہی پڑھی جائیں گی مگراہل مدینہ کاتعامل اورعام طریقہ یہ تھاکہ وی ترویحہ میں یعنی چار رکعت پڑھ کرامام صاحب بیٹھتے تھے تو اس وقفہ میں چاررکعت اورپڑھ لیاکرتے تھے۔ جوحضرات مکہ معظمہ میں حرم شریف میں تراویح پڑھتے تھے، وہ اس ترویحہ کے وقفہ میں خانہ کعبہ کا طواف کرلیا کرتے تھے۔ اہل مدینہ خانہ کعبہ کاطواف نہیں کرسکتے تھے تووہ اس کا تدارک اس طرح کرتے تھے کہ چار ترویحوں میں سولہ رکعتیں پڑھ لیاکرتے تھے‘‘۔ آگے فرماتے ہیں: ’’أقول: إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث: «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ» فيكون فعل الفاروق الأعظم أيضاً سنة‘‘۔ ’’میں کہتا ہوں کہ خلفائے راشدین کی سنت بھی شریعت ہی کی سنت شمار ہوگی کیونکہ اصول حدیث میں ہے کہ سنت سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء کا طریقہ ہے اورصحیح حدیث میں آنحضرت ﷺکا ارشاد وارد ہے کہ «تم  میری سنت اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو» تو اس کی رو سے فاروق اعظم کا فعل بھی سنت ہوگا اوران سب کے بعد کیا بیس رکعت کا اتصال صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم تک ضروری ہے یا پھر فعل عمررضی اللہ عنہ کافی ہے اور اسےصاحب شریعت تک پہنچانےکا مطالبہ نہیں کیا جائے گا اسی بیس رکعات تراویح پر ہی عمل برقرار رہا ہے‘‘۔ شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں: ’’ففي التاتار خانية: سأل أبو يوسف أبا حنيفة: أن إعلان عمر بعشرين ركعة هل كان له عهد منه؟ قال أبو حنيفة ما كان عمر مبتدعاً، أي لعله يكون له عهد فدل على أن عشرين ركعة لا بد من أن يكون لها أصل منه وإن لم يبلغنا بالإسناد القوي، وعندي أنه يمكن أن يكون عمر نقل عشراً إلى عشرين بتخفيف القراءة وتضعيف الركعات‘‘۔ ’’تاتارخانیہ میں ہے کہ امام ابویوسف نے امام صاحب سے پوچھا کہ حضرت عمر کا بیس رکعت تراویح کا فیصلہ پیغمبر سے کسی خاص وصیت یا حکم (عہد) کے سبب تھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ عمر بدعتی نہیں تھا یعنی امام صاحب کا مطلب یہ تھا کہ ہو سکتا ہے پیغمبر کی طرف سے ان کو یہ حکم تھا پس بیس رکعت کی ضرور کوئی اصل پیغمبر سے موجود ہے اگر چہ ہمیں صحیح اسناد سے نہیں پہنچ سکا ہے‘‘۔ (العرف الشذی شرح سنن الترمذی: ج۲، ص۲۰۸-۲۰۹)
علامہ انور شاہ کشمیریؒ ایک مقام پریہ بھی فرماتےہیں کہ: ’’میں یہ نہیں کہتا کہ بیس رکعت تراویح سنت نہیں۔ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ نبیﷺ کا اپنا عمل بیس رکعات تراویح کا کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا آٹھ رکعت سے زیادہ آپﷺ نے کتنی رکعات پڑھیں یہ مسطور ہے۔ ممکن ہے کہ آپ ﷺ نےبیس ہی رکعات پڑھی ہوں جو مشہور ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ تہجد میں جتنی پڑھی ہیں اتنی ہی پڑھی ہوں۔ ہاں بنیﷺکی اپنی نماز جوصحیح سند سے ملتی ہے وہ تیرہ رکعات ہیں جو عام تہجد کا معمول تھا۔ ہاں اس پر محدثین کا اتفاق ہے کہ حضرت عمرؓ سےبیس رکعات تراویح کا حکم ثابت ہے‘‘۔آگےفرماتے ہیں کہ: ’’آئمہ اربعہ نےبیس رکعات تراویح پر عمل کرکے حضرت عمررضی اﷲعنہ کی تقلید کی ہے۔آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک نے بھی بیس رکعت سے کم کا قول نہیں کیا اور یہی جمہورصحابہؓ کا مذہب ہے۔ امام مالکؒ کا مذہب ہے کہ تراویح کی چھتیس رکعتیں ہیں اس لئے کہ اہل مدینہ چھتیس رکعات پڑھاکرتے تھے‘‘۔
علامہ انورشاہ کشمیریؒ کی عبارت کی طرح فرقہ غیر مقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی  صاحب نےشاہ عبدالحق محدث دہلویؒ کیبھی ادھوری بات پیش کی ہےکیونکہ زبیرعلی زئی  صاحب نےاس عبارت سے پچھلی اور اگلی عبارت چھوڑ دی جس سے شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ کا پوراموقف واضح ہوتا ہے۔
۲۔ شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ کا جو حوالہ غیر مقلد کےشیخ نے پیش کیا ہےاسی حوالہ سے اوپر شاہ صاحب اپنا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ: ’’ہمارے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں کیونکہ بیہقی نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے عہدمیں بیس رکعت پڑھا کرتے تھے اورعثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی اتنی ہی پڑھتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے رمضان میں بیس رکعت پڑھیں اور اس کے بعد تین وتر پڑھے لیکن محدث کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے اور صحیح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضرتﷺ نے گیارہ رکعت پڑھیں‘‘۔ (ما ثبت من السنة فی ايام السنة: ص۲۱۷)
اس کے علاوہ شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ اشِعّۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں: ’’یہ گفتگواوراختلاف اس وجہ سے بھی ہے کہ حضورﷺنے یہ نماز ہمیشہ نہیں پڑھی۔ چندرات اسے پڑھا۔۔۔ صحیح یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جو گیاوہ رکعت پڑھی وہ آپ کی تہجد تھی ( یعنی تین وتر، آٹھ رکعت تہجد)، اور ابن ابی شیبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت لائے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بیس رکعت (تراویح) پڑھی‘‘۔ (اشِعّۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ: ج۲ ، باب قیام شھر رمضان، ص۵۵۱)
لہٰذاشاہ صاحب نےاس بات کی وضاحت فرمادی کہ حضورﷺنے یہ نماز ہمیشہ نہیں پڑھی چندرات اسے پڑھا، جبکہ تہجد کی نمازآپﷺسے پوراسا ل اورپوری زندگی پڑھناثابت ہے۔ اس کامطلب وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو تہجد مانتے ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بیس تراویح کی روایت کو تراویح مانتے ہیں جیسا کہ خود انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے نزدیک تراویح بیس رکعت ہے۔
اسی طرح فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی  صاحب نےامام الطحطاویؒ اورمحمد احسن نانوتویؒ سےبھی ادھوری بات نقل کرکے حسب عادت کذب اوردجل فریب کامظاہرہ کیاہے۔ حالانکہ امام الطحطاویؒ نے توبیس رکعات تراویح پرصحابہ کرامؓ کااجماع نقل کیاہے۔
۳۔ احمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاویؒ (المتوفی: ۱۲۳۱ھ)  لکھتے ہیں: ’’"وهي عشرون ركعة" بإجماع الصحابة رضي الله عنهم"بعشر تسليمات" كما هو المتوارث‘‘۔ ’’تراویح اجماع صحابہؓ کے بموجب اس کی بیس ۲۰ رکعتیں ہیں دس سلاموں سے، جیساکہ زمانہ سلف سے سلسلہ واربرابرچلاآرہاہے‘‘۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإيضاح: باب التراویح، ص۴۱۴)
۴-۵۔ بالکل ایسے ہی فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب نےمولاناخلیل احمدسہارنپوریؒ اورعبدالشکورلکھنویؒ کی بالکل ادھوری عبارات نقل کرکے حسب عادت کذب اوردجل فریب کامظاہرہ کیاہے۔ حالانکہ مولاناخلیل احمدسہارنپوریؒ اورعبدالشکورلکھنویؒ کی عبارات سے صرف اتنی ہی بات اخذکی جاسکتی ہے کہ رسول اﷲﷺسے صحیح سند سے آٹھ رکعت پڑھنا ہی ثابت ہے اوربیس رکعات والی روایت جوحضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے وہ ضعیف ہے، تو اس میں ایسی کیا خاص بات ہے جسے غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی  صاحب نے دلیل بناکرپیش کردیا۔ یہ بات تو تمام ائمہ احناف کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺجو تین دن تراویح کی نمازپڑھی اورصحابہ کرامؓ کوپڑھائی، اس تین دنوں میں آپﷺنے کتنی رکعت پڑھی یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں البتہ ابن عباس رضی اﷲعنہ سے بیس رکعت کی ضعیف روایت ملتی ہے۔ لگتا ہے بے چارے فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب کے پاس دلائل کی کمی کی وجہ سے انہوں نے ایسی مبہم اورادھوری عبارات کودلیل بناکرپیش کردیاتاکہ غیرمقلدین عوام کوکچھ تسلی مل سکے۔ بہرحال یہ توفرقہ غیرمقلدین کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب  کی پرانی عادت ہے کہ دجل وفریب سےکام لیتےہوئےعام اورلاعلم عوام کوگمراہ کرکےدین برحق سے ہٹایاجائے۔
۶۔  فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب نے حسب عادت و فطرت ملاعلی قاریؒ کا موقف پیش کرنے میں بھی سخت خیانت اوردھوکے بازی سے کام لیا ہےکیونکہ ملا علی القاریؒ اپنی دوسری کتاب شرح النقايةمیں لکھتے ہیں کہ: ’’وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ بإسْنَادُهُ صَحِيحٌ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ۔ وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً۔ وکأن مبنی علی مارواہ ابن أبی شَیْبَۃ فی مصنفہ والطَّبَرانی من حدیث ابن عباس: أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان یصلّی فی رمضان عشرین رکعۃ سوی الوتر‘‘۔ ’’بیہقی نے المعرفہ میں صحیح سندسےحضرت سائب بن یزید سے روایت کیاہےکہ حضرت عمرؓ کے مبارک دور میں ہم بیس ۲۰ رکعت تراویح اوروترپڑھتے تھے۔ اوریزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمربن خطاب کے زمانے میں تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔ گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر مبنی ہے جسےامام ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے‘‘۔ (فتح باب العناية بشرح النقاية: ج۱، ص۳۴۱)
ملا علی القاریؒ یہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’فصار إجماعاً۔ لماروی البیھقی بإسناد صحیح: أنھم کانوا یقیمون علی عھد عمر بعشرین رکعۃ، وعلی عھد عثمان وعلی رضی اللہ عنہم‘‘۔ ’’پس(بیس رکعت) پر اجماع ہوگیا کیونکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے سند صحیح کے ساتھ روایت کی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے، ایسے ہی خلافت عثمان اورخلافت علی رضی اللہ عنہما میں بھی‘‘۔ (فتح باب العناية بشرح النقاية: ج۱، ص۳۴۲)
ملا علی قاریؒ بیس رکعات تراویح پرصحابہ کرامؓ کااجماع نقل کرتے ہوئےلکھتے ہیں: ’’لَكِنْ أَجْمَعَ الصَّحَابَةُ عَلَى أَنَّ التَّرَاوِيحَ عِشْرُونَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’تمام صحابہ کرام رضی اﷲعنہم نے بیس رکعت تراویح ہونے پراجماع کیاہے‘‘۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: ج۳، ص۳۴۶)
ملا علی قاری رحمہ اللہ نے واضح طور پر بیس رکعات تراویح  کی روایات نقل کرکے ان کی توثیق کی ہےاورساتھ ہی بیس رکعات تراویح پرصحابہ کرامؓ کااجماع بھی نقل کیاہے جو ان کے موقف کی واضح دلیل ہیں۔ ان واضح تصریحات کی موجودگی میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی کی جانب آٹھ رکعت کا قول منسوب کرناغیرمقلدین کے شیوخ کے جھوٹے اورکذاب ہونے کی دلیل ہے۔
۷۔ غیر مقلدین حضرات علامہ عینی حنفی ؒکے قول  سے بھی صرف ایک جملہ میں اپنے مطلب کی بات نقل کرکے عام مسلمانوں کو بیوقوف بنارہے ہیں ۔ آئیں میں آپ کےسامنے علامہ بدرالدین عینیؒ کابیس رکعات تراویح کے سلسلے میں پورامؤقف بیان کرتاہوں۔
’’روى عبد الرَّزَّاق فِي (المُصَنّف) عَن دَاوُد بن قيس وَغَيره عَن مُحَمَّد بن يُوسُف (عَن السَّائِب بن يزِيد: أَن عمر بن الْخطاب، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، جمع النَّاس فِي رَمَضَان على أبي بن كَعْب، وعَلى تَمِيم الدَّارِيّ على إِحْدَى وَعشْرين رَكْعَة يقومُونَ بالمئين وينصرفون فِي بزوغ الْفجْر، قلت: قَالَ ابْن عبد الْبر: هُوَ مَحْمُول على أَن الْوَاحِدَة للوتر۔ وَقَالَ ابْن عبد الْبر: وروى الْحَارِث بن عبد الرَّحْمَن بن أبي ذُبَاب عَن السَّائِب بن يزِيد، قَالَ: كَانَ الْقيام على عهد عمر بِثَلَاث وَعشْرين رَكْعَة۔ قَالَ ابْن عبد الْبر: هَذَا مَحْمُول على أَن الثَّلَاث للوتر۔ وَقَالَ شَيخنَا: وَمَا حمله عَلَيْهِ فِي الْحَدِيثين صَحِيح، بِدَلِيل مَا روى مُحَمَّد بن نصر من رِوَايَة يزِيد بن خصيفَة عَن السَّائِب بن يزِيد أَنهم كَانُوا يقومُونَ فِي رَمَضَان بِعشْرين رَكْعَة فِي زمَان عمر بن الْخطاب، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ۔ وَأما أثر عَليّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، فَذكره وَكِيع عَن حسن بن صَالح عَن عَمْرو بن قيس عَن أبي الْحَسْنَاء عَن عَليّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، أَنه أَمر رجلا يُصَلِّي بهم رَمَضَان عشْرين رَكْعَة۔ وَأما غَيرهمَا من الصَّحَابَة فَروِيَ ذَلِك عَن عبد الله بن مَسْعُود، رَوَاهُ مُحَمَّد بن نصر الْمروزِي قَالَ: أخبرنَا يحيى بن يحيى أخبرنَا حَفْص بن غياث عَن الْأَعْمَش عَن زيد بن وهب، قَالَ: (كَانَ عبد الله بن مَسْعُود يُصَلِّي لنا فِي شهر رَمَضَان) فَيَنْصَرِف وَعَلِيهِ ليل، قَالَ الْأَعْمَش: كَانَ يُصَلِّي عشْرين رَكْعَة ويوتر بِثَلَاث۔ (وَأما الْقَائِلُونَ بِهِ من التَّابِعين: فشتير بن شكل، وَابْن أبي مليكَة والْحَارث الْهَمدَانِي وَعَطَاء بن أبي رَبَاح، وَأَبُو البحتري وَسَعِيد بن أبي الْحسن الْبَصْرِيّ أَخُو الْحسن وَعبد الرَّحْمَن ابْن أبي بكر وَعمْرَان الْعَبْدي۔ وَقَالَ ابْن عبد الْبر: وَهُوَ قَول جُمْهُور الْعلمَاء، وَبِه قَالَ الْكُوفِيُّونَ وَالشَّافِعِيّ وَأكْثر الْفُقَهَاء، وَهُوَ الصَّحِيح عَن أبي بن كَعْب من غير خلاف من الصَّحَابَة‘‘۔ ’’ میں (علامہ بدرالدین عینیؒ) کہتاہوں! امام عبدالرزاق مصنف میں داؤدبن قیس وغیرہ سےوہ محمد بن یوسف سے اوروہ حضرت سائب بن یزید ؓسےروایت کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے لوگوں کورمضان کے مہینے میں حضرت ابی بن کعب اورحضرت تمیم داری رضی اﷲعنہم اجمعین کی اقتداءمیں جمع کرلیا، یہ حضرات اکیس رکعات اداکیاکرتے تھے اوراس میں سوآیات کی تلاوت کرتے تھے اوریہ اس وقت نمازختم کرتے تھے جب صبح صادق کاوقت قریب آچکاہوتاتھا۔ علامہ بدرالدین عینیؒ کہتے ہیں کہ ابن عبدالبرفرماتے ہیں کہ: ان میں بیس تراویح کی اورایک رکعت وترکی ہوتی تھی۔ اورابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ: حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب نے حضرت سائب بن یزیدسےروایت کی ہے کہ: حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانہ میں ۲۳رکعتیں پڑھی جاتی تھیں، ابن عبدالبرؒکہتے ہیں کہ: ان میں بیس تراویح کی اورتین رکعتیں وترکی ہوتی تھیں۔ اورہمارےشیخ فرماتے ہیں کہ: حدیثوں میں جوکچھ بیان ہوا ہے وہ صحیح ہےاس کی دلیل محمد بن نصر کی روایت ہے کہ یزیدبن خصیفہ حضرت سائب بن یزید رضی اﷲعنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ہم لوگ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانہ میں بیس رکعات اوروترپڑھاکرتے تھے۔ اورحضرت علی رضی اﷲعنہ کا اثرہے جیسے ذکرکیاوکیع نے حسن بن صالح سے، انہوں نے عمروبن قیس سے انہوں نےحضرت ابو الحسناءسے روایت کیاہے کہ حضرت علی رضی اﷲعنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ اوران دونوں کے علاوہ دوسرے صحابہؓ میں سے یہی بات حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ سے مروی ہے، وہ اس طرح کہ محمد بن نصرالمروزی نے روایت کیاہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے خبردی، وہ حفص بن غیاث سے، وہ الاعمش سے، وہ زید بن وھب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ ہمیں رمضان کے مہینے میں رات کونماز پڑھاکرچلے جایاکرتےتھے۔ حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود  کا معمول بھی بیس رکعت تروایح اور تین رکعت وتر پڑھان تھا۔ اورتابعین میں سے بیس رکعات تراویح پڑھنے والوں میں فشتیربن شکل، ابن ابی ملیکہ، حارث الھمدانی، عطاءبن ابی رباح، ابوالبختری، سعیدبن ابی الحسن البصری جوالحسن کے بھائی ہیں، عبدالرحمٰن ابن ابی بکراورعمران العبدی ہیں۔ اور ابن عبدالبرفرماتے ہیں کہ: یہ جمہورعلماءکاقول ہے، اوراہل کوفہ، شافعی حضرات اوراکثرفقہاء کرام نے اسی کواختیارکیاہے، اوریہی صحیح ہےحضرت ابی بن کعب رضی ا ﷲعنہ سےجس پرکسی صحابیؓ نے اختلاف نہیں کیا‘‘۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۶)
غیر مقلدین حضرات صبح سے شام تک یہی دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ہم صرف قرآن و حدیث کو مانتے ہیں اور کسی کی تقلید نہیں کرتے اور جب ان سے کسی موضوع پر دلیل کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو حنفی علماء کے مقلد بننے میں بھی دیر نہیں کرتے۔ غیر مقلدین حضرات کو ۸آٹھ رکعات تراویح  ثابت کرنے کے لئے قرآن وحدیث سے دلیل نہ ملی تو انھوں نے حنفی علماء کے اقوال پیش کرنا شروع کردیئے۔ اب تک تو یہ لوگ دعویٰ کرتے  رہے ہیں کہ ہم صرف قرآن و حدیث کو مانتے ہیں اور کسی کی تقلید نہیں کرتے۔تو  کہاں گئے وہ قرآن و حدیث پر عمل کے دعوے؟
فرقہ غیرمقلدیں کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی کی آٹھ رکعت تراویح پردلیل نمبر  ۹
فرقہ غیرمقلدین کے شیخ زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں: ’’امیرالمومنین سیدنا عمربن الخطاب رضی اﷲعنہ سے باسندصحیح متصل بیس رکعات تراویح قطعاً ثابت نہیں ہیں۔ یحییٰ بن سعید الانصاری اوریزید بن رومان کی روایتیں منقطع ہیں (اس بات کااعتراف حنفی تقلید علماء نے بھی کیاہے) اورباقی جوکچھ بھی ہے وہ نہ تو خلیفہ کا حکم ہے اورنہ خلیفہ کاعمل اورنہ خلیفہ کے سامنے لوگوں کا عمل، ضعیف ومنقطع روایات کووہی شخص پیش کرتا ہے جوخود ضعیف اورمنقطع ہوتاہے‘‘۔
دلیل نمبر ۹کےجوابات
فرقہ غیرمقلدین کے شیوخ کے پاس آٹھ رکعت تراویح پردلیل کا اس قدر فقدان نظرآتاہے کہ بے چاروں نے اپنے جھوٹے، بے بنیاد اور کھوکھلے دعووں کو بھی دلیل بناکرپیش کردیا۔ فرقہ غیرمقلدین کے شیوخ نے دلیل نمبر۹ میں جوجھوٹ بولے ہیں اوردعوے کیئے ہیں ان کامدلل رد تو ہم اوپروضاحت کے ساتھ پیش کرچکے ہیں، یہاں مختصراً چیدہ چیدہ چند دلائل پیش کیئے دیتے ہیں تاکہ فرقہ غیرمقلدین کے اس دجل وفریب کوبھی عوام الناس کے سامنے واضح کرسکتیں۔
فرقہ غیرمقلدین کے شیوخ نے بیس رکعات تراویح پرجن روایات کوضعیف ومنقطع اوریہ کہہ کرکہ ’’ضعیف ومنقطع روایات کووہی شخص پیش کرتا ہے جوخود ضعیف اورمنقطع ہوتاہے‘‘، بڑے بڑے جلیل قدر ائمہ محدثین پرضعیف اورمنقطع ہونے کاالزام لگایااور انہیں طعنہ دیا ہےکیونکہ بیس رکعات تراویح والی یحییٰ بن سعید الانصاری اوریزید بن رومان کی احادیث کو درج ذیل ائمہ کرام نے صحیح کہہ کراستدلال کیاہے۔
۱۔ امام أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاسانیؒ لکھتے ہیں: ’’وَالصَّحِيحُ قَوْلُ الْعَامَّةِ لِمَا رُوِيَ أَنَّ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - جَمَعَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي شَهْرِ رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَصَلَّى بِهِمْ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’صحیح عام علماءہی کاقول ہے، اس لئے کہ یہ روایت کی گئی ہے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے اصحاب رسول اﷲﷺکورمضان المبارک میں حضرت ابی بن کعب رضی اﷲعنہ کی امامت میں جمع کیا، انہوں نے ان کوہررات بیس رکعات پڑھائیں اوراس پرکسی نے انکارنہیں کیا‘‘۔ (بدائع الصنائع: ج۱، ص۲۸۸)
 ۲۔ امام ابن رشد قرطبی المالکیؒ فرماتے ہیں: ’’فَاخْتَارَ مَالِكٌ فِي أَحَدِ قَوْلَيْهِ، وَأَبُو حَنِيفَةَ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَداود: الْقِيَامَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ، وَذَكَرَ ابْنُ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ كَانَ يَسْتَحْسِنُ سِتًّا وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ ثَلَاثٌ‘‘۔ ’’امام مالک کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام داؤد ظاہری کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس رکعات تراویح سنت ہے‘‘۔ (بداية المجتهد ونهاية المقتصد: ج۱، ص۲۱۰)
۳۔ فقہ حنبلی کے مشہورامام علامہ موفق الدین ابن قدامہؒ لکھتےہیں: ’’وَالْمُخْتَارُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، رَحِمَهُ اللَّهُ، فِيهَا عِشْرُونَ رَكْعَةً۔ وَبِهَذَا قَالَ الثَّوْرِيُّ، وَأَبُو حَنِيفَةَ، وَالشَّافِعِيُّ۔ أَنَّ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَقَدْ رَوَى الْحَسَنُ أَنَّ عُمَرَ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَرَوَاهُ السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، وَرُوِيَ عَنْهُ مِنْ طُرُقٍ۔ وَرَوَى مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً۔ وَعَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور سفیان ثوری، ابوحنیفہ اورشافعی بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب عمر فاروق نے صحابہٴ کرام کو ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے، نیز امام احمد ابن حنبل کا استدلال مالک کے طریق پرہے کہ یزید بن رومان سے روایت کیاہےکہ لوگ حضرت عمربن الخطابؓ کے زمانے میں رمضان میں تئیس رکعتوں کے ساتھ قیام کرتے تھے۔ اور حضرت علی رضی اﷲعنہ نے ایک شخص کوحکم دیاتھا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات پڑھائے‘‘۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۳، ص۶۰۴)
۴۔ فقہ حنبلی کے دوسرےامام شمس الدین عبدالرحمٰن  ابن قدامہ المقدسیؒ لکھتےہیں: ’’ولنا أن عمر رضي الله عنه لما جمع الناس على أبي بن كعب كان يصلي بهم عشرون ركعة۔ وروى السائب بن يزيد نحوه، وروى مالك عن يزيد بن رومان قال: كان الناس يقومون في زمن عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعة، وعن أبي عبد الرحمن السلمي عن علي رضي الله عنه أنه أمر رجلا يصلي بهم في رمضان عشرين ركعة، وهذا كالإجماع‘‘۔ ’’اور ہماری دلیل یہ ہے کہ جب عمر رضی اﷲعنہ نے صحابہٴ کرامؓ کو ابی بن کعب کی امامت پرجمع کیا تھاتو وہ ان کوبیس رکعتیں پڑھاتے تھے، اورسائب بن یزید نے اس طرح کا واقعہ بیان کیاہے۔ اورمالک نے یزید بن رومان سے روایت کیاہےکہ لوگ حضرت عمربن الخطابؓ کے زمانے میں رمضان میں تئیس رکعتوں کے ساتھ قیام کرتے تھے۔ اور ابوعبدالرحمٰن السلمی سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اﷲعنہ نے ایک شخص کوحکم دیاتھا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات پڑھائےاور یہ حکم بمنزلہ اجماع کے ہے‘‘۔ (المغنی الشرح الکبیر: ج۱، ص۷۴۸، برحاشیہ المغنی)
۵۔ شیخ الاسلام امام تقی الدین ابن تیمیہ الحرانیؒ فرماتےہیں: ’’فَإِنَّهُ قَدْ ثَبَتَ أَنَّ أبي بْنَ كَعْبٍ كَانَ يَقُومُ بِالنَّاسِ عِشْرِينَ رَكْعَةً فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَيُوتِرُ بِثَلَاثِ. فَرَأَى كَثِيرٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ أَنَّ ذَلِكَ هُوَ السُّنَّةُ؛ لِأَنَّهُ أَقَامَهُ بَيْن الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَلَمْ يُنْكِرْهُ مُنْكِرٌ‘‘۔ ’’یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نےلوگوں (صحابہ)کو قیام رمضان (نماز تراویح)میں بیس رکعات پڑھاتے اورتین رکعات وتر پڑھاتے تھے، اکثرت علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ بیس رکعات ہی سنت ہیں کیوں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اور انصار صحابہ کرام کے درمیان بیس رکعات تراویح پڑھائی اور ان میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا‘‘۔ (مجموعہ فتویٰ لابن تیمیہ: ج۲۳، تَنَازُعُ الْعُلَمَاءِ فِي مِقْدَارِ الْقِيَامِ فِي رَمَضَانَ، ص۱۱۲)
۶۔ امام تاج الدین سبکیؒ فرماتے ہیں : ’’وَقَالَ السبكي فِي شَرْحِ الْمِنْهَاجِ: اعْلَمْ أَنَّهُ لَمْ يُنْقَلْ كَمْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيَالِيَ، هَلْ هُوَ عِشْرُونَ أَوْ أَقَلُّ، قَالَ: وَمَذْهَبُنَا أَنَّ التَّرَاوِيحَ عِشْرُونَ رَكْعَةً؛ لِمَا رَوَى الْبَيْهَقِيُّ وَغَيْرُهُ بِالْإِسْنَادِ الصَّحِيحِ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ الصَّحَابِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ عَلَى عَهْدِ عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوَتْرِ، هَكَذَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ وَاسْتَدَلَّ بِهِ‘‘۔ ’’امام سبکی شرح منہاج میں کہتے ہیں کہ: جان لوبے شک نبی کریمﷺسے منقول نہیں ہے کہ آپﷺنے ان راتوں میں کتنی رکعتیں پڑھیں، آیاوہ بیس رکعات پڑھی یا اس سے کم تھیں۔ چنانچہ ہمارامذہب یہ ہےکہ تراویح بیس رکعات ہےاس دلیل کی بنیاد پرکہ جوکہ بیہقی وغیرہ نے صحیح اسنادسے روایت کی ہیں کہ صحابی رسول حضرت سائب بن یزیدفرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح اوروتر پڑھتے تھےاورمصنف نے بھی اسی کوذکرکیاہےاوراسی سے استدلال کیاہے‘‘۔ (الحاوی للفتاوی: ج۱، ص۳۳۷)
۷۔ امام جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں: ’’وَفِي سُنَنِ الْبَيْهَقِيِّ وَغَيْرِهِ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ الصَّحَابِيِّ قَالَ: كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’سنن بیہقی وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ صحابی رسول حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ميں لوگ ماه رمضان ميں بيس ركعت پڑھا کرتے تھے‘‘۔ (الحاوی للفتاوی: ج۱، ص۳۳۶)
۸۔ شیخ الامام علامہ بدرالدین عینی حنفیؒ لکھتے ہیں: ’’وَقَالَ ابْن عبد الْبر: وَهُوَ قَول جُمْهُور الْعلمَاء، وَبِه قَالَ الْكُوفِيُّونَ وَالشَّافِعِيّ وَأكْثر الْفُقَهَاء، وَهُوَ الصَّحِيح عَن أبي بن كَعْب من غير خلاف من الصَّحَابَة‘‘۔ ’’علامہ ابن عبدالبرمالکیؒ فرماتے ہیں: بیس رکعات تراویح جمہورعلماءکاقول ہےاوریہی قول اہل کوفہ، امام شافعی اوراکثرفقہاءکرام کاہےاورحضرت ابی ابن کعب سے بھی یہی قول صحت سے مروی ہے، صحابہ میں سےکسی نے بھی اختلاف نہیں کیا‘‘۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۷)
۹۔ كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسی المعروف ابن الهمام حنفیؒ لکھتے ہیں: ’’لِلصَّحِيحِ! نَعَمْ ثَبَتَتْ الْعِشْرُونَ مِنْ زَمَنِ عُمَرَ فِي الْمُوَطَّإِعَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ "كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً"۔ وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ، قَالَ النَّوَوِيُّ فِي الْخُلَاصَةِ إسْنَادُهُ صَحِيحٌ‘‘۔ ’’سند صحیح سے ثابت ہوچکاہے کہ حضرت عمرؓ کے مبارک دور میں صحابہؓ وغیرہ (تابعین) بیس ۲۰ رکعت پڑھتے تھے جو یزید بن رومان سے مؤطا امام مالک میں مروی ہےاوربیہقی نے حضرت سائب بن یزید سے روایت کیاہےکہ حضرت عمرؓ کے مبارک دور میں ہم بیس ۲۰ رکعت اوروترپڑھتے تھے جس کی سند صحیح ہونے کی تحقیق امام نووی نے خلاصہ میں کی ہے‘‘۔ (فتح القدير للكمال ابن الهمام: ج۱، ص۴۸۵)
۱۰۔ علامہ ابراہیم بن محمد بن ابراہیم حلبیؒ لکھتے ہیں کہ: ’’مارواۃٔ البیھقیؒ باسناد صحیح عن السائب ابن یزید قال کانو یقومون علی عھد عمررضی ﷲ عنہ بعشرین رکعۃً وعثمان رضی ﷲ عنہ وعلی رضی ﷲ عنہ مثلہ وھذا، کالاجماع‘‘۔ ’’امام بیہقیؒ نے بسند صحیح روایت کیاکہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے دور میں ۲۰ رکعت پڑھتے تھے، نیزحضرت عثمان وعلی رضی اﷲعنہم اجمعین کے دورمیں۔ اورمؤطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے دورمیں لوگ رمضان میں وترسمیت تئیس ۲۳ رکعت پڑھاکرتےتھے اور کتاب المغنی میں حضرت علی رضی اﷲعنہ کے متعلق روایت ہے کہ آپ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ رمضان میں لوگوں کوبیس ۲۰ رکعتیں پڑھائیں، یہ مثل اجماع کے ہے‘‘۔ (کبیری: صلوٰۃ تراویح تحت قولہ والصحیح انھم یصلون فرادی، ص۳۸۸)
۱۱۔ زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصریؒ لکھتے ہیں: ’’وَهُوَ قَوْلُ الْجُمْهُورِ لِمَا فِي الْمُوَطَّإِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَعَلَيْهِ عَمِلَ النَّاسُ شَرْقًا وَغَرْبًا‘‘۔ ’’تراویح بیس رکعات ہیں یہ اس کی مقدار (یعنی تعداد رکعات) کا بیان ہے اور یہ جمہور کا قول ہے کیونکہ موطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمربن خطاب کے زمانے میں تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے اور اس پر لوگوں کا مشرق سے لے کر مغرب تک (یعنی پوری اسلامی دنیا کا) عمل ہے‘‘۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوری: ج۲، ص۷۱-۷۲)
۱۲۔ ملا علی القاریؒ لکھتے ہیں کہ: ’’فصار إجماعاً۔ لماروی البیھقی بإسناد صحیح: أنھم کانوا یقیمون علی عھد عمر بعشرین رکعۃ، وعلی عھد عثمان وعلی رضی اللہ عنہم‘‘۔ ’’پس(بیس رکعت) پر اجماع ہوگیا کیونکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے سند صحیح کے ساتھ روایت کی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے، ایسے ہی خلافت عثمان اورخلافت علی رضی اللہ عنہما میں بھی‘‘۔ (فتح باب العناية بشرح النقاية: ج۱، ص۳۴۲)
۱۳۔ مشہورغیرمقلد عالم نواب صديق حسن خان القِنَّوجی لکھتے ہیں: ’’وفی سنن البیھقی باسناد صحیح کما قال ابن عراقی فی شرح التقریب عن السائب بن یزید رضی ﷲ عنہ قال: کانو ایقومون علی عھد عمر بن الخطاب فی شہر بعشرین رکعۃً وفی الموطا عن یزید بن رومان قال: کان الناس یقومون فی زمن عمر رضی ﷲ عنہ بثلاث وعشرین، کانوا یقومون بإحدی عشرۃ ثم قاموا بعشرین وأوتروا بثلاث۔ وقد عدوا ماوقع فی زمن عمررضی ﷲعنہ کالاجماع‘‘۔ ’’سنن بیہقی میں صحیح سندسےروایت ہےجیساکہ امام ابن عراقی شرح تقریب میں فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اﷲعنہ کے زمانہ میں اپنے شہرمیں ۲۰ رکعت پڑھتے تھے، اورمؤطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے دورمیں لوگ رمضان میں وترسمیت تئیس ۲۳ رکعت پڑھاکرتےتھے‘‘۔ (عون الباری لحل أدلة البخاری: ج۳، کتاب صلاۃالتراویح، ص۸۶۱)
ائمہ محدثین کے پیش کردہ اقوال سے ثابت ہوگیاکہ یحییٰ بن سعید الانصاری اوریزید بن رومان سے مروی روایات بالکل صحیح سند کے ساتھ سنن بیہقی، مؤطا امام ملک اورمصنف ابن ابی شیبہ میں درج ہیں جن کو تقریباًتمام ائمہ محدثین کی تائید حاصل ہے اورجن پرپوری امت مسلمہ کا۱۴۰۰ سالوں سے عمل ہے۔ اورجو زبیرعلی زئی صاحب ان روایات کو ضعیف ومنقطع کہتے ہیں ان کا اپناوجوداورساتھ میں ان کے فرقے کاوجودہی ضعیف ومنقطع ہے کیونکہ تیرہویں صدی ہجری سے پہلے نہ ان کے فرقے کاکوئی وجودتھا اورنہ ہی آٹھ رکعت تراویح پڑھنے والوں کاکوئی وجودتھا۔
میرا فرقہ غیر مقلدین کے تمام لوگوں کو چیلنج ہے کہ وہ کوئی ایک صحیح حدیث، یاکسی ایک صحابی  ؓکا قول یا پھر ان کا عمل ، یا پھر کسی بھی ایک تابعی، تبع تابعی یا محدث کا قول و عمل پیش کردیں جن سے ۸ آٹھ رکعات تراویح پڑھنا ثابت ہو۔ یا  ۱۲۸۶ھ؁سے پہلےاسلامی تاریخ میں کسی ایک مسجد کا نام بتا دیں جہاں آٹھ رکعات تراویح پڑھائی جاتی ہو۔ میرادعویٰ ہے کہ قیامت کی صبح تک یہ ثابت نہیں کرپائیں گے۔
فرقہ غیرمقلدیں کےنام نہاد شیخ زبیرعلی زئی کی آٹھ رکعت تراویح پردلیل نمبر  ۱۰
فرقہ غیرمقلدین کے شیخ زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں: ’’کسی ایک صحابی سے باسند صحیح بیس رکعات تراویح قطعاً ثابت نہیں‘‘۔
فرقہ غیرمقلدین کے اس کھوکھلے اوربے بنیاد دعوےٰ کاجواب ہم بیس رکعات تراویح کے دلائل کے بیان میں دینگےکہ کن صحابہؓ اورکن تابعین وتبع تابعین سے بیس رکعات تراویح ثابت ہے۔ انشاءاﷲ
اس کے بعدجناب زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں: ’’ابوبکرالعربی (المتوفی: ۵۴۳ھ) نے کیاخوب فرمایا ہے: اورصحیح یہ ہےکہ گیارہ رکعات پڑھنی چائیں (یہی) نبیﷺکی نمازاورقیام ہے، اوراس کے علاوہ جواعداد ہیں توان کی کوئی اصل نہیں ہے‘‘۔ (عارضة الأحوذی بشرح صحيح الترمذی: ج۴، ص۱۶)
دلیل نمبر ۱۰کےجوابات
قارئین کرام ذراغورفرمائیں کہ فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب کے پاس آٹھ رکعت تراویح پردلیل کا اس قدر فقدان ہےکہ بے چارےتابعین اور تبع تابعین کے افعال واقوال کے مقابلے میں چھٹی صدی ہجری کے امام ابوبکرالعراقیؒ کاقول کو دلیل بناکرپیش کررہےہیں۔
تعجب کی بات ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب بیس رکعات تراویح پرفشتیربن شکلؒ، ابن ابی ملیکہؒ، حارث الھمدانیؒ، عطاءبن ابی رباحؒ، ابوالبختریؒ، سعیدبن ابی الحسن البصری ؒجوالحسن کے بھائی ہیں، عبدالرحمٰن ابن ابی بکرؒاورعمران العبدی ؒجیسے جلیل القدرتابعین کی بیان کردہ روایات کو منقطع کہہ کرضعیف قراردیدتے ہیں، حالانکہ ان تمام ثقہ تابعین کازمانہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانے سےصرف چندسالوں کے فاصلے پرہےاوراس زمانے میں صحابہ کرامؓ بکثرت موجودتھے، اس کے باوجودبھی تابعین کی بیان کردہ روایات زبیرعلی زئی صاحب کے نزدیک منقطع ہیں اور ابوبکرالعراقیؒ جن کازمانہ صحابہ کرامؓ اورتابعینؒ کےزمانے کے ۵۰۰ پانچ سوسال بعد کاہے، ان کاقول زئی صاحب کے نزدیک صحیح ہوگیا۔ حالانکہ تابعین وتبع تابعین کی گواہی کے معتبرہونے کی شہادت تو خودآنحضرت ﷺنے دی ہے۔
’’حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ"‏۔ لَمْ يَذْكُرْ هَنَّادٌ الْقَرْنَ فِي حَدِيثِهِ وَقَالَ قُتَيْبَةُ ‏"‏ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ‏"‘‘۔ ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے بہترین لوگ میرے قرن کے لوگ (یعنی صحابہؓ) ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں (یعنی تابعیؒ ) اور پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں(یعنی تبع تابعینؒ) ۔ اور پھر ان قرنوں کے بعد ان لوگوں کا زمانہ آئے گا جن کی گواہی قسم سے پہلے ہوگی اور قسم گواہی سے پہلے‘‘۔(صحیح المسلم: ج۶، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم، باب فَضْلِ الصَّحَابَةِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، رقم الحدیث ۶۱۵۰)
اس کے بعد ہم آپ کے سامنے امام ابوبکرالعربیؒ کامکمل مؤقف پیش کرتے ہیں جوکہ اسی کتاب کے اسی صفحے پردرج ہے جسے موصوف زبیرعلی زئی صاحب نے عوام الناس سے مخفی رکھتے ہوئے صرف آدھی بات بیان کی تاکہ ان کااوران کے فرقے کابھیانک اورمکروہ چہرہ عوام کے سامنے عیاں نہ ہوپائے۔
امام ابن العربی (المتوفی: ۵۴۳ھ) فرماتےہیں: ’’کہ تراویح کی رکعات کی مقدارمیں کوئی متعین حد نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺکی جونمازتھی اس میں بھی کوئی متعین حد نہیں۔ اس کےبعدکامعاملہ یہ ہے کہ امام مالک نے روایت کیاہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اﷲعنہ گیارہ رکعات پڑھاتےتھے، اورلوگوں نے اس معاملے میں ان کی مخالفت کی ہےاورکہاہےکہ وہ اکیس رکعات پڑھاتے تھے، اورامام مالک سے ایک اورروایت یہ ہے کہ لوگ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانے میں تئیس رکعات پڑھاکرتے تھے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے سینتالیس رکعات روایت کی ہیں اورفرمایاہےکہ یہ معاملہ پراناتھا‘‘۔ (عارضة الأحوذی بشرح صحيح الترمذی: ج۴، ص۱۶)
یہ توتھاآٹھ رکعات تراویح پرفرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیوخ کی طرف سے پیش کیئے جانے والے دلائل کاعلمی محاسبہ اورتحقیقی رد۔ اب ہم قارئین کے سامنے بیس رکعات تراویح پراہلسنت والجماعت کی طرف سے پیش کیئے جانے والے دلائل نقل کرتےہیں جن پرپوری امت مسلمہ کا۱۴۰۰ سالہ اتفاق اورعمل ہے۔