-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Friday, 11 January 2019

مسئلہ تراویح - ایک نئی، مدلل اور جامع تحقیق: امام مالکؒ اوراہل مدینہ کاچھتیس رکعات تراویح پڑھنے کی اصل وجہ کیاتھی؟

بسم الله الرحمن الرحیم

امام مالکؒ اوراہل مدینہ کاچھتیس رکعات تراویح پڑھنے کی اصل وجہ کیاتھی؟
۱۔ امام موفق الدین ابن قدامہؒ (المتوفی: ۶۲۰ھ) فرماتے ہیں: ’’قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إنَّمَا فَعَلَ هَذَا أَهْلُ الْمَدِينَةِ لِأَنَّهُمْ أَرَادُوا مُسَاوَاةَ أَهْلِ مَكَّةَ، فَإِنَّ أَهْلَ مَكَّةَ يَطُوفُونَ سَبْعًا بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ، فَجَعَلَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مَكَانَ كُلِّ سَبْعٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَمَا كَانَ عَلَيْهِ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَوْلَى وَأَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ‘‘۔ ’’بعض اہل علم کابیان ہے کہ اہل مدینہ نے یہ عمل (یعنی سولہ رکعات اضافی پڑھنے کا) اس لئے کیاکہ انہوں نے اہل مکہ کی برابری کرنی چاہی، کیونکہ اہل مکہ ہرترویحہ کے درمیان (۷)سات چکر(یعنی طواف کعبہ) لگایاکرتے تھے، پس اہل مدینہ ہرچکرکی جگہ چاررکعت نفل پڑھ لیاکرتے تھے‘‘۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۲، ص۶۰۴)
۲۔ شارح مسلم امام أبو زكريا محيی الدين يحيى بن شرف النوویؒ(المتوفی: ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں: ’’وَأَمَّا مَا ذَكَرُوهُ مِنْ فِعْلِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ أَصْحَابُنَا سَبَبُهُ أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ كَانُوا يَطُوفُونَ بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ طَوَافًا وَيُصَلُّونَ رَكْعَتَيْنِ وَلَا يَطُوفُونَ بَعْدَ التَّرْوِيحَةِ الْخَامِسَةِ فَأَرَادَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مُسَاوَاتَهُمْ فَجَعَلُوا مَكَانَ كُلِّ طَوَافٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَزَادُوا سِتَّ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَأَوْتَرُوا بِثَلَاثٍ فَصَارَ الْمَجْمُوعُ تِسْعًا وَثَلَاثِينَ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ‘‘۔ ’’امام مالکؒ اوردیگراہل مدینہ کاچھتیس رکعات پڑھنے کاسبب یہ ہے کہ اہل مکہ ہردوترویحوں (یعنی چاررکعت)کے درمیان کعبۃ اﷲ کاطواف کرتے تھے جبکہ پانچویں ترویحہ کے بعدطواف نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا اہل مدینہ نے ان کے ساتھ برابری کےلئے ہرطواف کی جگہ چاررکعت (نفل) زیادہ پڑھنامقررکرلیااورسولہ رکعات کااضافہ کرلیااورتین رکعت وترپڑھتے تھے‘‘۔ (کتاب المجموع شرح المهذب للشیرازی للنووی: ج۳، ص۵۲۷)
۳۔ شیخ الامام علامہ بدرالدین عینیؒ(المتوفی: ۸۵۵ھ) فرماتے ہیں: ’’وَالْجَوَاب عَمَّا قَالَه مَالك أَن أهل مَكَّة كَانُوا يطوفون بَين كل ترويحتين وَيصلونَ رَكْعَتي الطّواف وَلَا يطوفون بعد الترويحة الْخَامِسَة فَأَرَادَ أهل الْمَدِينَة مساواتهم فَجعلُوا مَكَان كل طواف أَربع رَكْعَات فزادوا سِتّ عشرَة رَكْعَة وَمَا كَانَ عَلَيْهِ أَصْحَاب رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - أَحَق وَأولى أَن يتبع‘‘۔ ’’امام مالکؒ اوردیگراہل مدینہ کاچھتیس رکعات پڑھنے کاجواب یہ ہے کہ اہل مکہ ہرترویحہ کے درمیان وقفہ میں طواف کرتے تھے اورطواف کی دورکعت نفل بھی پڑھتے تھےلیکن پانچویں ترویحہ کے درمیان طواف نہیں کرتےتھے۔ پس اہل مدینہ ان کی برابری کے خیال سے ہرطواف کی جگہ چاررکعت نفل اداکیاکرتےتھے۔ اس طرح انہوں نے سولہ رکعات کااضافہ کرلیا‘‘۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۸؛ البناية شرح الهداية: ج۲، ص۵۵۱)
۴۔ امام جلال الدين السيوطیؒ(المتوفی: ۹۱۱ھ) بھی بالکل یہی بات بیان فرماتے ہیں: ’’أَنَّهَا تُسْتَحَبُّ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ سِتًّا وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً تَشْبِيهًا بِأَهْلِ مَكَّةَ، حَيْثُ كَانُوا يَطُوفُونَ بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ طَوَافًا وَيُصَلُّونَ رَكْعَتَيْهِ وَلَا يَطُوفُونَ بَعْدَ الْخَامِسَةِ، فَأَرَادَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مُسَاوَاتَهُمْ فَجَعَلُوا مَكَانَ كُلِّ طَوَافٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَلَوْ ثَبَتَ عَدَدُهَا بِالنَّصِّ لَمْ تَجُزِ الزِّيَادَةُ عَلَيْهِ، وَلَأَهْلُ الْمَدِينَةِ وَالصَّدْرُ الْأَوَّلُ كَانُوا أَوْرَعَ مِنْ ذَلِكَ‘‘۔ ’’اہل مدینہ چھتیس رکعات اس لئے پڑھاکرتےتھے کہ اہل مکہ کی مشابہت ہوجائے کیونکہ اہل مکہ ہردوترویحہ کے درمیان وقفہ میں طواف کرتے تھے اورطواف کی دورکعت نفل بھی پڑھتے تھےلیکن پانچویں ترویحہ کے درمیان طواف نہیں کرتےتھےتواہل مدینہ ان کی برابری کے خیال سے ہرطواف کی جگہ چاررکعت نفل اداکیاکرتےتھے۔ اس طرح انہوں نے سولہ رکعات کااضافہ کیا‘‘۔ (المصابيح فی صلاة التراويح: ص۳۲)
۵۔ امام أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلانی ؒ(المتوفی: ۹۲۳ھ) فرماتے ہیں: ’’إن عليه العمل بالمدينة وقد قال المالكية كانت ثلاثًا وعشرين ثم جعلت تسعًا وثلاثين أي بالشفع والوتر فيهما۔۔۔ وإنما فعل أهل المدينة هذا لأنهم أرادوا مساواة أهل مكة فإنهم كانوا يطوفون سبعًا بين كل ترويحتين فجعل أهل المدينة مكان كل سبع أربع ركعات‘‘۔ ’’اہل مکہ کہتے ہیں کہ تراویح وترکے ساتھ تئیس رکعات ہی تھیں، پھرسولہ رکعات (بطورنفل بڑھاکر) انتالیس رکعات (یعنی چھتیس رکعات تراویح اورتین رکعت وتر)کردی گئی‘‘۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام القسطلانیؒ فرماتے ہیں: ’’مکہ کے لوگ دو ترویحوں کے درمیان خانہ کعبہ کاطواف کیاکرتےتھےتواہل مدینہ نے ثواب میں ان کی برابری کرنے کے خیال سے ہرطواف کےبدلے میں چاررکعت نفل کااضافہ کرلیا۔ چنانچہ اہل مکہ طواف کرتے تھےتواہل مدینہ نے سولہ رکعات اضافی ادا کرلیاکرتےتھے‘‘۔ (إرشاد الساری لشرح صحيح البخاری: ج۳، ص۴۲۶)
۶۔ شیخ الہند مولانا انورشاہ کشمیریؒ (المتوفی: ۱۳۵۲ھ) فرماتے ہیں: ’’أي التراويح، لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة في التراويح، وإليه جمهور الصحابة رضوان الله عنهم، وقال مالك بن أنس: بستة وثلاثين ركعة فإن تعامل أهل المدينة أنهم كانوا يركعون أربع ركعات انفراداً في الترويحة، وأما أهل مكة فكانوا يطوفون بالبيت في الترويحات‘‘۔ ’’ائمہ اربعہ (یعنی چاروں اماموں)میں سے کوئی بهی بیس رکعات سے کم تراویح کا قائل نہیں ہے اور جمہور صحابه کرام کا عمل بهی اسی پر ہے۔ امام مالکؒ بیس سے بھی زیادہ چھتیس رکعات کے قائل ہیں۔ امام مالک کے مسلک کے بموجب جماعت کے ساتھ تراویح کی بیس رکعتیں ہی پڑھی جائیں گی مگراہل مدینہ کاتعامل اورعام طریقہ یہ تھاکہ وہ ترویحہ میں یعنی چار رکعت پڑھ کرامام صاحب بیٹھتے تھے تو اس وقفہ میں چاررکعت اورپڑھ لیاکرتے تھے۔ جوحضرات مکہ معظمہ میں حرم شریف میں تراویح پڑھتے تھے، وہ اس ترویحہ کے وقفہ میں خانہ کعبہ کا طواف کرلیا کرتے تھے۔ اہل مدینہ خانہ کعبہ کاطواف نہیں کرسکتے تھے تووہ اس کا تدارک اس طرح کرتے تھے کہ چار ترویحوں میں سولہ رکعتیں پڑھ لیاکرتے تھے‘‘۔ (العرف الشذی شرح سنن الترمذی: ج۲، ص۲۰۸)
مندرجہ بالا ائمہ کرام کے اقوال سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اہل مدینہ بھی جماعت سے بیس رکعات تراویح ہی پڑھاکرتے تھےاورسولہ رکعات الگ سے انفرادی طورپرنفل نمازکی نیت سے پڑھاکرتےتھےجس کی وجہ اہل مکہ سے ثواب میں برابری کاجذبہ تھا۔ چنانچہ اہل مدینہ کے عمل کی وجہ سے امام مالکؒ کی طرف چھتیس رکعات تراویح کاقول منسوب ہوگیا۔ لہٰذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ ائمہ ثلاثہ (یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ اورامام احمدبن حنبلؒ) کی طرح امام مالکؒ کےنزدیک بھی تراویح کی صحیح تعدادبیس رکعات ہی ہیں اوربقہ سولہ رکعات کادرجہ نوافل کاہے۔