-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Friday 11 January 2019

مسئلہ تراویح - ایک نئی، مدلل اور جامع تحقیق: بیس رکعات تراویح کے برحق ہونے کے مستند دلائل

بسم الله الرحمن الرحیم

اب ہم قارئین کے سامنے بیس رکعات تراویح پراہلسنت والجماعت کی طرف سے پیش کیئے جانے والے دلائل نقل کرتےہیں جن پرپوری امت مسلمہ کا۱۴۰۰ سالہ اتفاق اورعمل ہے۔
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر ۱
یزید بن خصیفہ سے امام مالک کے طریق سے یہ روایت حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے فتح الباری میں اورامام شوکانی نے نیل الاوطارمیں نقل کی ہے: ’’وَرَوَى مَالِكٌ مِنْ طَرِيقِ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’امام مالک نے یزید بن خصیفہ کے طریق سے سائب بن یزید سے روایت کی ہے کہ عہد فاروقی میں بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں‘‘۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری: ج۴، كِتَابُ صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَان، ص۲۵۳؛ موطا امام مالک بحوالہ نیل الاوطار: ج۲، ص۵۰۰)
حضرت یزید بن خصیفہؒ جلیل القدرثقہ تابعی ہیں جن کے بارے میں ائمہ محدثین فرماتےہیں:
۱۔ امام ابوبکرالأثرمؒ امام احمد بن حنبلؒ سے یزید بن خصیفہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں: ’’ثقۃ ثقۃ‘‘۔ (الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: ج۹، ص۲۷۴)
۲۔ ’’قال أَبُو بكر الأثرم: عَن أحمد بْن حنبل، وأبو حاتم، والنَّسَائي: ثقة‘‘۔ ’’امام ابوبکرالأثرمؒ امام احمد بن حنبلؒ، امام ابوحاتمؒ اورامام نسائیؒ سے بیان کرتے ہیں: ثقہ‘‘۔ (تہذیب الکمال للمزوری: ج۳۲، ص۱۷۳)
۳۔ ’’وَقَال أحمد بْن سعد بْن أَبي مريم، عَن يحيى بْن مَعِين: ثقة حجة‘‘۔ ’’احمدبن سعد بن ابی مریم ؒکہتے ہیں کہ امام یحییٰ ابن معینؒ فرماتےہیں: ’’ثقۃ حجۃ‘‘۔ (الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: ج۹، ص۲۷۴؛ تہذیب الکمال للمزوری: ج۳۲، ص۱۷۳)
۴۔ ’’وَقَال مُحَمَّد بْن سعد: كَانَ عابدا، ناسكا، كثير الحديث‘‘۔ ’’محمد بن سعد فرماتے ہیں: وہ (یزید بن خصیفہ) بہت عبادت گزاراورکثیرالحدیث تھے‘‘۔ (تہذیب الکمال للمزوری: ج۳۲، ص۱۷۳)
’’امام مالک عن یزید بن خصیفہ عن السائب بن یزید‘‘ کی مندرجہ بالاسند بعینہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہےجو اس روایت کے صحیح ہونے پرسونے کی مہرہے: ’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍ ـ رَجُلاً مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ ـ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ‏ "‏مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لاَ يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلاَ ضَرْعًا، نَقَصَ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ‏"۔‏ قُلْتُ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ إِي وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ‘‘۔ ’’ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے، ان سے سائب بن یزید نے بیان کیا کہ سفیان بن زہیر نے ازدشنوہ قبیلے کے ایک بزرگ سے سنا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ جس نے کتا پالا، جو نہ کھیتی کے لیے ہے اور نہ مویشی کے لیے، تو اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں! اس مسجد کے رب کی قسم! (میں نے ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے)‘‘۔ (صحیح بخاری: كتاب المزارعة، بَابُ اقْتِنَاءِ الْكَلْبِ لِلْحَرْثِ، رقم الحدیث ۲۳۲۳)
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر ۲
امام بیہقیؒ سنن الکبریٰ میں ابن ابی ذئب کے طریق سے نقل کرتےہیں: ’’وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ فَنْجَوَيْهِ الدَّيْنَوَرِيُّ بِالدَّامَغَانِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ السُّنِّيُّ، أنبأ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، أنبأ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: " كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً" قَالَ: "وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمَئِينِ، وَكَانُوا يَتَوَكَّئُونَ عَلَى عِصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ"‘‘۔ ’’یزید بن خصیفہ حضرت سائب بن یزید سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ميں لوگ ماه رمضان ميں بيس ركعت پڑھا کرتے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ مئین سورتیں پڑھتے اور حضرت عثمانؓ کے عہد میں شدت قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے‘‘۔ (السنن الکبری للبیہقی:ج۲، ص۶۹۹، رقم الحدیث ۴۶۱۷)
مندرجہ بالا سند کو امام نوویؒ، امام عراقیؒ اور حافظ سیوطیؒ نے صحیح کہاہے۔ (نصب الرایۃ: ج۲، ص ۱۵۴؛ آثار السنن: ص۴۷۳؛ تحفۃ الاحوذی: ج۲، ص۷۵)
مندرجہ بالاروایت پر غیرمقلدزبیرعلی زئی صاحب اعتراض کرتے ہوئے کہتےہیں کہ: ’’یہ روایت شاذ ہے‘‘۔
الجواب: مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہناپڑرہا ہے کہ یاتو زبیر علی زئی صاحب کی علمی صلاحیت میں کوئی نقص ہے یا پھر انھوں نے دینی معاملات میں اپنی علمی خیانتوں سے عام اور لاعلم عوام کو گمراہ کرنے کی قسم کھارکھی ہے۔آئیں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ شاذحدیث کیا ہوتی ہے اور زئی صاحب کے اس الزام کی اصل حقیقت کیا ہے۔
لغوی اعتبار سے "شاذ"، شذ کا اسم مفعول ہے جو کہ انفرادیت کو ظاہر کرتا ہے۔ شاذ کا معنیٰ ہے اکثریت کے مقابلے پر اکیلا   (Exceptional) ہونا۔ اصطلاحی مفہوم میں شاذ ایسی قابل قبول روایت کو کہتے ہیں جو کہ کسی دوسری اپنے سے زیادہ مضبوط روایت کے خلاف ہو۔ شاذ روایت قابل قبول ہوا کرتی ہے کیونکہ اس کے تمام راوی اچھے کردار کے اور احادیث کو محفوظ کرنے والے ہوتے ہیں۔ دوسری روایت اس کی نسبت قابل ترجیح اس وجہ سے ہوتی ہے کہ اس کے راوی زیادہ ثقہ ہوں یا اسے متعدد اسناد سے روایت کیا گیا ہو یا کسی اور وجہ سے ترجیح دی گئی ہو۔ جس حدیث کو ترجیح دی جائے وہ محفوظ کہلاتی ہے۔
اس حدیث پر حافظ زبیر علی زئی صاحب نے جس حدیث کو محفوظ کہہ کر ترجیح دی ہے وہ حدیث مضطرب ہے جس کےبارے میں ہم نہایت تفصیل کے ساتھ اوپربیان کرچکے ہیں۔ یہاں صرف اتنا بتادینا کافی ہوگاکہ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے فتح الباری میں ان اسناد کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ:’’ان اسناد میں اتنا زیادہ اضطراب ہے کہ سائب بن یزیدؓ کی اس حدیث سے آٹھ رکعات تراویح کا استدلال کرنا درست نہیں ہے‘‘۔
اسکےبرعکس ہمارے پاس بیس رکعات تراویح کی بالکل صحیح سند سے حضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ ہی کےواسطہ سے (۴)چارمختلف اسنادومتن کے ساتھ احادیث موجودہیں اورساتھ ہی ان احادیث پرپوری امت مسلمہ کا ۱۴۰۰چودہ سوسالہ عمل بھی، لہٰذا اس حدیث کے شاذ ہونے کا تو سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔
ہاں البتہ حضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ کی محمد بن یوسف سے مروی آٹھ رکعات تراویح والی حدیث کا شاذہونا یقینی طورپرثابت ہے کیونکہ محمدبن یوسف کے علاوہ کسی نے بھی آٹھ رکعات تراویح بیان نہیں کی بلکہ ان کے اپنے شاگروں نے بھی تیرہ اوراکیس رکعات کی تعداد بیان کرتے ہوئے آٹھ رکعات کی مخالفت کی ہے لہٰذا اس معاملے میں محمد بن یوسف کااکیلا (Exceptional) ہونا ثابت ہوتاہےجوکہ آٹھ رکعات بیان کرتے ہیں۔
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر۳
امام بیہقیؒ اپنی دوسری کتاب معرفۃ السنن والآثارمیں محمد بن جعفرکی سندسےروایت کرتےہیں کہ: ’’رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي "الْمَعْرِفَةِ" أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ ثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ ثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ، انْتَهَى۔ قَالَ النَّوَوِيُّ فِي "الْخُلَاصَةِ": إسْنَادُهُ صَحِيحٌ‘‘۔ ’’محمد بن جعفریزیدبن خصیفہ سے اوروہ سائب بن یزید رضی اﷲعنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ہم لوگ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانہ میں بیس رکعات اوروترپڑھاکرتے تھے۔ اس کی سند کوامام نووی نے صحیح قراردیاہے‘‘۔ (معرفة السنن والآثار للبیہقی: ج۴، بَابُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ، وَقِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، الْوِتْرُ تَطَوَّعٌ، وَكَذَلِكَ رَكْعَتَا الْفَجْرِ، ص۴۲، رقم الحدیث ۵۴۰۹؛ نصب الراية: ج۲، ص۱۵۴)
اس سند کو امام نوویؒ نے خلاصہ میں، علامہ تاج الدین سبکیؒ نے شرح منہاد میں اور علامہ ملاعلی قاریؒ نے شرح مؤطا میں صحیح کہاہے۔  (نصب الرایۃ: ج۲، ص ۱۵۴)
شیخ الامام علامہ بدرالدین عینیؒ عمدۃ القاری میں حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب کے طریق سے روایت نقل کرتےہیں کہ’’وَقَالَ ابْن عبد الْبر: وروى الْحَارِث بن عبد الرَّحْمَن بن أبي ذُبَاب عَن السَّائِب بن يزِيد، قَالَ: كَانَ الْقيام على عهد عمر بِثَلَاث وَعشْرين رَكْعَة. قَالَ ابْن عبد الْبر: هَذَا مَحْمُول على أَن الثَّلَاث للوتر‘‘۔ ’’علامہ ابن عبدالبرمالکیؒ فرماتے ہیں کہ حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب نے حضرت سائب بن یزیدسےروایت کی ہے کہ: حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانہ میں ۲۳رکعتیں پڑھی جاتی تھیں، ابن عبدالبرؒکہتے ہیں کہ: ان میں بیس تراویح کی اورتین رکعتیں وترکی ہوتی تھیں‘‘۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۷)
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر۴
 ’’وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً«‘‘۔ ’’حضرت یزید بن رومانؒ فرماتے ہیں کہ لوگ (صحابہٴ کرام) حضرت عمر بن الخطاب رضی اﷲعنہ کے دور خلافت میں تئیس رکعت (یعنی بیس رکعت تراویح اورتین وتر) اداکرتےتھے‘‘۔ (مؤطا امام مالک: ج۲، کتاب الصلوٰۃ، باب ماجاء فی قیام رمضان، ص۳۷۷، رقم الحدیث۳۸۰؛ السنن الکبری للبیہقی:ج۲، ص۴۹۶)
مندرجہ بالا روایت کے بارے میں فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں : ’’اس روایت کے بارے میں عینی حنفی کہتے ہیں : یہ منقطع سند سےہے‘‘۔ (تعدادرکعات قیام رمضان: ص۷۷)
فرقہ غیرمقلدین کے شیخ زبیرعلی زئی صاحب نے مؤطا کی احادیث کے بارے شاہ ولی اﷲؒ کےقول کودلیل کے طورپرخودپیش کیاہے کہ: ’’شاہ ولی اﷲالدہلوی نے "اہل الحدیث" سے نقل کیا ہے کہ مؤطا کی تمام احادیث صحیح ہیں‘‘۔ (تعدادرکعات قیام رمضان کاتحقیقی جائزہ: ص۲۲)
لہٰذا زبیرعلی زئی صاحب کے اپنے اصول کے تحت مؤطا کی یزید بن رومان والی روایت بھی صحیح قرارپائی۔
زبیرعلی زئی صاحب نے یہاں بھی حسب عادت دجل وفریب کا مظاہرہ کرتے ہوئے علامہ عینی حنفیؒ کی مکمل عبارت سے صرف ایک لفظ پکڑمکمل عبارت کو خذف کردیاتاکہ عوام کی انکھوں میں دھول جھونک سکیں۔ آئیں میں آپ کو علامہ بدرالدین عینی ؒ کابیس رکعات تراویح کے سلسلے میں پورامؤقف بیان کرتاہوں۔
’’مالک فی المؤطا باسناد منقطع (فان قلت) روى عبد الرَّزَّاق فِي (المُصَنّف) عَن دَاوُد بن قيس وَغَيره عَن مُحَمَّد بن يُوسُف (عَن السَّائِب بن يزِيد: أَن عمر بن الْخطاب، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، جمع النَّاس فِي رَمَضَان على أبي بن كَعْب، وعَلى تَمِيم الدَّارِيّ على إِحْدَى وَعشْرين رَكْعَة يقومُونَ بالمئين وينصرفون فِي بزوغ الْفجْر، قلت: قَالَ ابْن عبد الْبر: هُوَ مَحْمُول على أَن الْوَاحِدَة للوتر۔ وَقَالَ ابْن عبد الْبر: وروى الْحَارِث بن عبد الرَّحْمَن بن أبي ذُبَاب عَن السَّائِب بن يزِيد، قَالَ: كَانَ الْقيام على عهد عمر بِثَلَاث وَعشْرين رَكْعَة. قَالَ ابْن عبد الْبر: هَذَا مَحْمُول على أَن الثَّلَاث للوتر۔ وَقَالَ شَيخنَا: وَمَا حمله عَلَيْهِ فِي الْحَدِيثين صَحِيح، بِدَلِيل مَا روى مُحَمَّد بن نصر من رِوَايَة يزِيد بن خصيفَة عَن السَّائِب بن يزِيد أَنهم كَانُوا يقومُونَ فِي رَمَضَان بِعشْرين رَكْعَة فِي زمَان عمر بن الْخطاب، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ۔ وَأما أثر عَليّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، فَذكره وَكِيع عَن حسن بن صَالح عَن عَمْرو بن قيس عَن أبي الْحَسْنَاء عَن عَليّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، أَنه أَمر رجلا يُصَلِّي بهم رَمَضَان عشْرين رَكْعَة۔ وَأما غَيرهمَا من الصَّحَابَة فَروِيَ ذَلِك عَن عبد الله بن مَسْعُود، رَوَاهُ مُحَمَّد بن نصر الْمروزِي قَالَ: أخبرنَا يحيى بن يحيى أخبرنَا حَفْص بن غياث عَن الْأَعْمَش عَن زيد بن وهب، قَالَ: (كَانَ عبد الله بن مَسْعُود يُصَلِّي لنا فِي شهر رَمَضَان) فَيَنْصَرِف وَعَلِيهِ ليل، قَالَ الْأَعْمَش: كَانَ يُصَلِّي عشْرين رَكْعَة ويوتر بِثَلَاث۔ (وَأما الْقَائِلُونَ بِهِ من التَّابِعين: فشتير بن شكل، وَابْن أبي مليكَة والْحَارث الْهَمدَانِي وَعَطَاء بن أبي رَبَاح، وَأَبُو البحتري وَسَعِيد بن أبي الْحسن الْبَصْرِيّ أَخُو الْحسن وَعبد الرَّحْمَن ابْن أبي بكر وَعمْرَان الْعَبْدي۔ وَقَالَ ابْن عبد الْبر: وَهُوَ قَول جُمْهُور الْعلمَاء، وَبِه قَالَ الْكُوفِيُّونَ وَالشَّافِعِيّ وَأكْثر الْفُقَهَاء، وَهُوَ الصَّحِيح عَن أبي بن كَعْب من غير خلاف من الصَّحَابَة‘‘۔ ’’روایت موطا مالک میں منقطع سند سے ہے۔ میں (علامہ بدرالدین عینیؒ) کہتاہوں! امام عبدالرزاق مصنف میں داؤدبن قیس وغیرہ سےوہ محمد بن یوسف سے اوروہ حضرت سائب بن یزید ؓسےروایت کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے لوگوں کورمضان کے مہینے میں حضرت ابی بن کعب اورحضرت تمیم داری رضی اﷲعنہم اجمعین کی اقتداءمیں جمع کرلیا، یہ حضرات اکیس رکعات اداکیاکرتے تھے اوراس میں سوآیات کی تلاوت کرتے تھے اوریہ اس وقت نمازختم کرتے تھے جب صبح صادق کاوقت قریب آچکاہوتاتھا۔ علامہ بدرالدین عینیؒ کہتے ہیں کہ ابن عبدالبرفرماتے ہیں کہ: ان میں بیس تراویح کی اورایک رکعت وترکی ہوتی تھی۔ اورابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ: حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب نے حضرت سائب بن یزیدسےروایت کی ہے کہ: حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانہ میں ۲۳رکعتیں پڑھی جاتی تھیں، ابن عبدالبرؒکہتے ہیں کہ: ان میں بیس تراویح کی اورتین رکعتیں وترکی ہوتی تھیں۔ اورہمارےشیخ فرماتے ہیں کہ: حدیثوں میں جوکچھ بیان ہوا ہے وہ صحیح ہےاس کی دلیل محمد بن نصر کی روایت ہے کہ یزیدبن خصیفہ حضرت سائب بن یزید رضی اﷲعنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ہم لوگ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانہ میں بیس رکعات اوروترپڑھاکرتے تھے۔ اورحضرت علی رضی اﷲعنہ کا اثرہے جیسے ذکرکیاوکیع نے حسن بن صالح سے، انہوں نے عمروبن قیس سے انہوں نےحضرت ابو الحسناءسے روایت کیاہے کہ حضرت علی رضی اﷲعنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ اوران دونوں کے علاوہ دوسرے صحابہؓ میں سے یہی بات حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ سے مروی ہے، وہ اس طرح کہ محمد بن نصرالمروزی نے روایت کیاہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے خبردی، وہ حفص بن غیاث سے، وہ الاعمش سے، وہ زید بن وھب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ ہمیں رمضان کے مہینے میں رات کونماز پڑھاکرچلے جایاکرتےتھے۔ حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود  کا معمول بھی بیس رکعت تروایح اور تین رکعت وتر پڑھان تھا۔ اورتابعین میں سے بیس رکعات تراویح پڑھنے والوں میں فشتیربن شکل، ابن ابی ملیکہ، حارث الھمدانی، عطاءبن ابی رباح، ابوالبختری، سعیدبن ابی الحسن البصری جوالحسن کے بھائی ہیں، عبدالرحمٰن ابن ابی بکراورعمران العبدی ہیں۔ اور ابن عبدالبرفرماتے ہیں کہ: یہ جمہورعلماءکاقول ہے، اوراہل کوفہ، شافعی حضرات اوراکثرفقہاء کرام نے اسی کواختیارکیاہے، اوریہی صحیح ہےحضرت ابی بن کعب رضی ا ﷲعنہ سےجس پرکسی صحابیؓ نے اختلاف نہیں کیا‘‘۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۶)
حضرت یزیدبن رومان کی روایت کو صحیح قراردینے والے محدثین
۱۔ فقہ مالکی کے مشہورامام علامہ ابن عبدالبرالاندلسیؒ (المتوفی: ۴۶۳ھ) حضرت یزیدبن رومانؒ کی روایت نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں: ’’وَهَذَا كُلُّهُ يَشْهَدُ بِأَنَّ الرِّوَايَةَ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً وَهْمٌ وَغَلَطٌ وَأَنَّ الصَّحِيحَ ثَلَاثٌ وَعِشْرُونَ وَإِحْدَى وَعِشْرُونَ رَكْعَةً وَاللَّهُ أَعْلَمُ‘‘۔ ’’میراغالب گمان یہی ہے کہ گیارہ کاقول وہم اورغلط ہےاورصحیح تئیس اوراکیس رکعات ہیں‘‘۔ (كتاب الاستذكار الجامع لمذاهب فقهاء الأمصار وعلماء الأقطار فيما تضمنه الموطأ من معانی الرأی والآثار وشرح ذلك كله بالإيجاز والإختصار: ج۵، ص۱۵۶)
۲۔ فقہ حنبلی کے مشہورامام علامہ موفق الدین ابن قدامہؒ: ’’وَالْمُخْتَارُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، رَحِمَهُ اللَّهُ، فِيهَا عِشْرُونَ رَكْعَةً۔ وَرَوَى مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے، نیز امام احمد ابن حنبل کا استدلال یزید بن رومان وعلی کی روایات سے ہے‘‘۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۳، ص۶۰۴)
۳۔ فقہ حنبلی کے دوسرےامام شمس الدین عبدالرحمٰن  ابن قدامہ المقدسیؒ: ’’وعددها عشرون ركعة، وروى مالك عن يزيد بن رومان قال: كان الناس يقومون في زمن عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعة‘‘۔ ’’اورتراویح کی رکعتوں کی تعداد بیس ہے، اور ہماری دلیل یہ ہے کہ جب عمر رضی اﷲعنہ نے صحابہٴ کرامؓ کو ابی بن کعب کی امامت پرجمع کیا تھاتو وہ ان کوبیس رکعتیں پڑھاتے تھے، اورسائب بن یزید نے اس طرح کا واقعہ بیان کیاہے۔ اورمالک نے یزید بن رومان سے روایت کیاہےکہ لوگ حضرت عمربن الخطابؓ کے زمانے میں رمضان میں تئیس رکعتوں کے ساتھ قیام کرتے تھے‘‘۔ (المغنی الشرح الکبیر: ج۱، ص۷۴۸، برحاشیہ المغنی)
۴۔ كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسی المعروف ابن الهمام فرماتےہیں: ’’لِلصَّحِيحِ! نَعَمْ ثَبَتَتْ الْعِشْرُونَ مِنْ زَمَنِ عُمَرَ فِي الْمُوَطَّإِعَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ "كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً"۔ وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ، قَالَ النَّوَوِيُّ فِي الْخُلَاصَةِ إسْنَادُهُ صَحِيحٌ۔ وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِأَنَّهُ وَقَعَ أَوَّلًا ثُمَّ اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ عَلَى الْعِشْرِينَ فَإِنَّهُ الْمُتَوَارِثُ‘‘۔ ’’سند صحیح سے ثابت ہوچکاہے کہ حضرت عمرؓ کے مبارک دور میں صحابہؓ وغیرہ (تابعین) بیس ۲۰ رکعت پڑھتے تھے جو یزید بن رومان سے مؤطا امام مالک میں مروی ہےاوربیہقی نے حضرت سائب بن یزید سے روایت کیاہےکہ حضرت عمرؓ کے مبارک دور میں ہم بیس ۲۰ رکعت اوروترپڑھتے تھے جس کی سند صحیح ہونے کی تحقیق امام نووی نے خلاصہ میں کی ہے۔ بالآخر بیس رکعت پراتفاق ہوااوریہی متوارث ہے‘‘۔ (فتح القدير للكمال ابن الهمام: ج۱، ص۴۸۵)
۵۔ علامہ ابراہیم بن محمد بن ابراہیم حلبیؒ لکھتے ہیں کہ: ’’علم من ھذہ المسئلۃ ان التراویح عندنا عشرون رکعۃً بعشر تسلیمات وھو مذھب الجمھور وعند مالک ستۃ وثلثون رکعۃ احتجاجاً بعمل اھل المدینۃ وللجمھور مارواۃٔ البیھقیؒ باسناد صحیح عن السائب ابن یزید قال کانو یقومون علی عھد عمررضی ﷲ عنہ بعشرین رکعۃً وعثمان رضی ﷲ عنہ وعلی رضی ﷲ عنہ مثلہ وھذا، کالاجماع‘‘۔ ’’معلوم ہوا کہ بےشک ہمارے نزدیک تراویح بیس رکعت ہے، دس تسلیمات سے اوریہی جمہورکامذہب ہےاورامام مالکؒ کے نزدیک چھتیس رکعت ہے۔ وہ اہل مدینہ کے تعامل سے استدلال کرتے ہیں اورجمہور کی دلیل وہ روایت ہے جس کوامام بیہقیؒ نے بسند صحیح روایت کیاکہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے دور میں ۲۰ رکعت پڑھتے تھے، نیزحضرت عثمان وعلی رضی اﷲعنہم اجمعین کے دورمیں۔ اورمؤطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے دورمیں لوگ رمضان میں وترسمیت تئیس ۲۳ رکعت پڑھاکرتےتھے‘‘۔ (کبیری: صلوٰۃ تراویح تحت قولہ والصحیح انھم یصلون فرادی، ص۳۸۸)
۶۔ زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصریؒ لکھتے ہیں: ’’وَهُوَ قَوْلُ الْجُمْهُورِ لِمَا فِي الْمُوَطَّإِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَعَلَيْهِ عَمِلَ النَّاسُ شَرْقًا وَغَرْبًا‘‘۔ ’’تراویح بیس رکعات ہیں یہ اس کی مقدار (یعنی تعداد رکعات) کا بیان ہے اور یہ جمہور کا قول ہے کیونکہ موطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمربن خطاب کے زمانے میں تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے اور اس پر لوگوں کا مشرق سے لے کر مغرب تک (یعنی پوری اسلامی دنیا کا) عمل ہے‘‘۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوری: ج۲، ص۷۱-۷۲)
۷۔ ملاعلی قاریؒ شرح النقايةمیں لکھتے ہیں کہ: ’’وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ بإسْنَادُهُ صَحِيحٌ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ۔ وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً۔ وکأن مبنی علی مارواہ ابن أبی شَیْبَۃ فی مصنفہ والطَّبَرانی من حدیث ابن عباس: أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان یصلّی فی رمضان عشرین رکعۃ سوی الوتر‘‘۔ ’’بیہقی نے المعرفہ میں صحیح سندسےحضرت سائب بن یزید سے روایت کیاہےکہ حضرت عمرؓ کے مبارک دور میں ہم بیس ۲۰ رکعت تراویح اوروترپڑھتے تھے۔ اوریزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمربن خطاب کے زمانے میں تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔ گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر مبنی ہے جسےامام ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے‘‘۔ (فتح باب العناية بشرح النقاية: ج۱، ص۳۴۱)
۸۔ مشہورغیرمقلد عالم نواب صديق حسن خان القِنَّوجی لکھتے ہیں: ’’وفی سنن البیھقی باسناد صحیح کما قال ابن عراقی فی شرح التقریب عن السائب بن یزید رضی ﷲ عنہ قال: کانو ایقومون علی عھد عمر بن الخطاب فی شہر بعشرین رکعۃً وفی الموطا عن یزید بن رومان قال: کان الناس یقومون فی زمن عمر رضی ﷲ عنہ بثلاث وعشرین، کانوا یقومون بإحدی عشرۃ ثم قاموا بعشرین وأوتروا بثلاث۔ وقد عدوا ماوقع فی زمن عمررضی ﷲعنہ کالاجماع‘‘۔ ’’سنن بیہقی میں صحیح سندسےروایت ہےجیساکہ امام ابن عراقی شرح تقریب میں فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اﷲعنہ کے زمانہ میں اپنے شہرمیں ۲۰ رکعت پڑھتے تھے، اورمؤطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے دورمیں لوگ رمضان میں وترسمیت تئیس ۲۳ رکعت پڑھاکرتےتھے۔ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے دورسے جوطریقہ بیس رکعات کا ہوااس کوعلماءنے اجماع کے مثل شمارکیا‘‘۔ (عون الباری لحل أدلة البخاری: ج۳، کتاب صلاۃالتراویح، ص۸۶۱)
۹۔ علامہ محمد بن علی النيمویؒ نے بھی حضرت یزید بن رومانؒ کی روایت کو مرسل قوی قراردیاہے۔
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر۵
مشہور مفسر ابو القاسم البغویؒ کے اجدادامام احمد بن منیع بن عبد الرحمن الاصم ابو جعفر البغوی البغدادیؒ (المتوفی: ۲۴۲ھ) جو الحافظ البغویؒ کے نام سے شہرت رکھتے ہیں اوران پانچ یا چھ اشخاص میں شامل ہیں جن کی وفات کے بعدامام بخاریؒ نے روایت لیں۔ امام احمد بن منیعؒ اپنی کتاب مسنداحمد بن منیع میں حدیث نقل کرتے ہیں کہ: ’’وَعَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: "أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَمَرَ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ۔ فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ يصومون النهار ولا يحسنون أن يقرءوا، فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ۔ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هَذَا شَيْءٌ لَمْ يَكُنْ۔ فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنَّهُ أَحْسَنُ۔ فَصَلَّى بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً"‘‘۔ ’’حضرت ابی بن کعب رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲعنہ نے انہیں حکم دیا کہ رمضان کی راتوں میں نماز ِ(تراویح)پڑھائیں۔ حضرت عمر رضی اﷲعنہ نےفرمایا کہ لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور (رات) قراء ت (قرآن) اچھی نہیں کرتے۔ اگر آپ رات کو انہیں (نماز میں) قرآن سنائیں تو بہت اچھا ہوگا۔ حضرت ابی بن کعب رضی اﷲعنہ نے فرمایا: "اے امیرالمومنین! یہ تلاوت کاطریقہ پہلے نہیں تھا"۔ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے فرمایا: "میں جانتاہوں لیکن یہ طریقہ تلاوت اچھا ہے"۔توحضرت ابی بن کعب رضی اﷲعنہ نےلوگوں کو ۲۰ بیس رکعات نماز(تراویح) پڑھائی‘‘۔ (مسند احمد بن منیع بحوالہ إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة: ج۲، ص۳۸۴، رقم الحدیث ۱/۱۷۲۶)
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
مندرجہ بالاحدیث پر غیر مقلدزبیرعلی زئی صاحب یہ اعتراض کرتےہیں کہ اس کےراوی ابوجعفر الرازی کی ربیع بن انس سے روایت میں اضطراب ہوتاہے۔ (کتاب الثقات لابن حبان: ج۴، ص٢٢٨)
غیر مقلدین حضرات کی اندھی تقلید پر مجھے ہنسی آتی ہےکہ ان کے عالم اپنی  کتابوں میں جو کچھ بھی لکھ دیتے ہیں ان کے لئے وہی دلیل اورپتھرپرلکیربن جاتاہے، بھلے انھوں نے کتنی ہی غلط اورجھوٹی بات ہی کیوں نہ لکھی ہو۔ یہاں بھی زبیر علی زئی صاحب نے اپنی علمی خیانت کا کھلامظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی مستند دلیل کے صحیح حدیث کو ضعیف کہہ دیا۔
الجواب: کسی حدیث کے متن میں اضطراب اس بنا پر ہوتا ہے کہ ایک ہی موضوع کی دوروایات جن کے  راوی تقریباً ایک جیسے ہی ہوں، ان کے متن متضاد ہوں جیساکہ محمد بن یوسف کی حضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ کی بیان کردہ آٹھ رکعات تراویح کی حدیث میں ان کے اپنے ہی تینوں شاگردوں کے درمیان تعداد بیان کرنے میں اختلاف ہواہے۔ اب زبیرعلی زئی صاحب نے نہ تو اضطراب کی دوسری حدیث پیش کی اور ناہی سبب بیان کیالہٰذا ان کی یہ جرح بےسند اور مبہم ہےاور بے سند ومبہم بات حجت نہیں ہوتی۔
یہ روایت سند کے ساتھ بھی موجودہے۔ جناب کی تسلی کےلئے سندپیش خدمت ہے:
امام ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسؒی(المتوفی: ۶۴۳ھ) نقل کرتے ہیں: أخبرنَا أَبُو عبد الله مَحْمُود بن أَحْمد بن عبد الرَّحْمَن الثَّقَفِيُّ بِأَصْبَهَانَ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي الرَّجَاءِ الصَّيْرَفِي أخْبرهُم قِرَاءَة عَلَيْهِ أَنا عبد الْوَاحِد بن أَحْمد الْبَقَّال أَنا عبيد الله بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ أَنا جَدِّي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جَمِيلٍ أَنا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ أَنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى نَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَيًّا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ يَصُومُونَ النَّهَار وَلَا يحسنون أَن (يقرؤا) فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا (شَيْءٌ) لَمْ يَكُنْ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنَّهُ أَحْسَنُ فَصَلَّى بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَة۔ (إِسْنَاده حسن)‘‘۔ (الأحاديث المختارةالمستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاری ومسلم فی صحيحيهما: ج۳، ص۳۶۷، رقم الحدیث ۱۱۶۱)
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر۶
امام بخاریؒ کے استاذعلی بن الجَعْد بن عبيد البغدادیؒ (المتوفی: ۲۳۰ھ) اپنی کتاب مسند ابن الجعدمیں نقل کرتے ہیں: ’’حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ»‘‘۔ ’’حضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے زمانے میں رمضان شریف کےمہینہ میں بیس رکعات (تروایح ) پابندی سے پڑھتےاورقرآن مجید کی دوسوآیات پڑھتے تھے‘‘۔ (مسند ابن الجعد: ج۱، ص۱۰۱۰/۴۱۳، رقم الحدیث ۲۹۲۶/۲۸۲۵)
مندرجہ بالاروایت سنداًومتناًبالکل صحیح ہے۔
اس روایت کے بارے میں زبیرعلی زئی صاحب نےایسے احمقانہ اعتراضات کیئے ہیں اوران اعتراضات کا رد بھی خود ہی نقل کرتے ہوئےموصوف لکھتے ہیں: ’’علی بن الجعد (ثقہ علی الراجح) پربذات خود جرح ہے‘‘۔غیرمقلدین کے شیخ زبیرعلی زئی صاحب کی علمی اور عقلی صلاحیت کا اندازہ ان کے اس اعتراض سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ موصوف پہلے خود ہی علی بن الجعدکا ثقہ علی الراجح ہونا تسلیم کرتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ ان پرجرح ہے۔ کوئی ان غیرمقلدین کے شیخ سے پوچھے کہ اگرعلی بن الجعدپرجرح موجود ہے تو پھر وہ ثقہ علی الراجح کیسے ہوئے؟
اس کے بعدموصوف لکھتے ہیں: ’’علی بن الجعد مذکورسیدناعثمان ؓپرسخت تنقید کرتاوہ کہتاتھا۔ مجھے یہ برانہیں لگتاکہ اﷲتعالیٰ معاویہ ؓ کوعذاب دے‘‘۔ اس کے فوراً بعدخود ہی تسلیم کرتے ہیں کہ: ’’صحیح بخاری میں اس کی چودہ احادیث ہیں جوکہ متابعات میں ہیں‘‘۔
کوئی ان بے عقلوں سے پوچھے کہ اگرعلی بن الجعد کے دل میں حضرت عثمان اورحضرت معاویہ رضی اﷲعنہما کے لئے اتنابغض تھا توپھر امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں ان سے چودہ روایات کیسے لے لیں؟
پھر آخرمیں زئی صاحب اس روایت کودبے لفظوں میں صحیح تسلیم کرتے ہوئے اپنی جھینپ مٹاتے ہوئےلکھتے ہیں: ’’یہ نامعلوم لوگ اگراپنے گھروں میں نفل سمجھ کر بیس رکعات پڑھتے تھے تو سیدناعمرؓسے اس کا کیاتعلق ہے؟‘‘۔
کوئی ان احمقوں کو سمجھائے کہ یہ نامعلوم لوگ آپ جیسے ۱۵ویں صدی کے عام لوگ نہیں تھے بلکہ صحابہؓ وتابعینؒ تھے جن کے بارے میں خود صحابی رسول حضرت سائب بن یزیدرضی اﷲعنہ بیان فرمارہے ہیں کہ وہ سب رمضان شریف میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے۔
یہاں زئی صاحب نے ایک اورجھوٹ یہ بولاہےکہ وہ لوگ اپنے گھروں میں نفل سمجھ کربیس رکعات پڑھتے تھے۔ توان کے اس جھوٹ پرہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ زبیرعلی زئی صاحب اس بات کی دلیل پیش کریں کہ وہ لوگ (یعنی صحابہؓ وتابعینؒ)اپنے گھروں میں بیس رکعات تراویح پڑھاکرتے تھے۔ اس کے برعکس حدیث میں توگھروں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ توپھر زبیرعلی زئی صاحب کو کیااس بات کاالہام ہواتھا؟
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر۷
امام عبدالرزاقؒ(المتوفی: ۲۱۱ھ) فرماتے ہیں: ’’عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، وَغَيْرِهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، "أَنَّ عُمَرَ: جَمَعَ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَعَلَى تَمِيمٍ الدَّارِيِّ عَلَى إِحْدَى وَعِشْرِينَ رَكْعَةُ يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ وَيَنْصَرِفُونَ عِنْدَ فُرُوعِ الْفَجْرِ"‘‘۔ ’’داؤدبن قیس حضرت سائب بن یزید ؓسےبیان کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے لوگوں کورمضان کے مہینے میں حضرت ابی بن کعب اورحضرت تمیم داری رضی اﷲعنہم اجمعین کی اقتداءمیں جمع کرلیا، یہ حضرات اکیس رکعات اداکیاکرتے تھے‘‘۔ (مصنف عبد الرزاق: ج۴، بَابُ قِيَامِ رَمَضَانَ، ص۲۶۰، رقم الحدیث۷۷۳۰؛ تنبيه القارىء على تقوية ما ضعفه الألبانى: ص۴۲؛ بحث فی عدد ركعات قيام الليل: ص۳۹)
سعودی عرب کے شیخ ومحدث اورمشہورعالم الحافظ عبد الله بن محمد بن أحمد بن محمد الدويش السبيعیؒ (المتوفی: ۱۴۰۹ھ، ۱۹۸۹ء؁) اپنی کتاب تنبيه القارىء على تقوية ما ضعفه الألبانى میں اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وهذا الإسناد رجاله ثقات رجال الصحيح‘‘۔ ’’اس سند کے تمام راوی ثقہ صحیح ہیں‘‘۔ (تنبيه القارىء على تقوية ما ضعفه الألبانى: ص۴۲)
فضيلة الشيخ أبى عبد الله مصطفى بن العدوی بھی اپنی کتاب بحث فی عدد ركعات قيام الليل میں اس حدیث کےبارے میں فرماتے ہیں: ’’إسناد صحيح‘‘۔ ’’یہ سندصحیح ہے‘‘۔ (بحث فی عدد ركعات قيام الليل: ص۳۹)
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر۸
’’حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَىِّ بْنِ كَعْبٍ فَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَلاَ يَقْنُتُ بِهِمْ إِلاَّ فِي النِّصْفِ الْبَاقِي فَإِذَا كَانَتِ الْعَشْرُ الأَوَاخِرُ تَخَلَّفَ فَصَلَّى فِي بَيْتِهِ فَكَانُوا يَقُولُونَ أَبَقَ أُبَىٌّ‘‘۔ ’’حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر جمع کر دیا، وہ لوگوں کو بیس رکعات نماز ( تراویح ) پڑھایا کرتے تھے اور انہیں قنوت نصف اخیر ہی میں پڑھاتے تھے اور جب آخری عشرہ ہوتا تو مسجد نہیں آتے اپنے گھر ہی میں نماز پڑھا کرتے، لوگ کہتے کہ ابی بھاگ گئے‘‘۔ (ابو داوٴد: ج۱، كتاب الوتر، باب الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ، رقم الحدیث ۱۴۲۹)
مندرجہ بالا روایت بالکل صحیح ہے اوراس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
مندرجہ بالاروایت کےبارے میں فرقہ غیرمقلدین کے عالم جناب زبیرعلی زئی صاحب لکھتےہیں: ’’اس ضعیف روایت میں "عشرین رکعۃ" کا لفظ غلط اور"عشرین لیلۃ" کا لفظ موجود ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی سند منقطع (ضعیف) ہے کیونکہ (بصری) نے عمر رضی الله عنہ کو نہیں پایا تھا‘‘۔ (دیکھئے شرح سنن ابی داود للعینی: ٥/٣٤٣، الحدیث : ٧٦ ص ٤٦)
حافظ زبیر علی زئی صاحب نےتعصب اورفرقہ واریت کی بنیاد پر دینی معاملات میں اپنی علمی خیانتوں کا جو مظاہرہ کیاہےاس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ الحمدﷲ ہم نے زبیرعلی زئی صاحب کی علمی خیانتوں کو ماضی میں بھی دلائل کے ساتھ ثابت کیاہے اورانشاءاﷲیہاں بھی ثابت کریں گے۔
فرقہ غیرمقلدین کےجاہل شیوخ حضرت حسن بصریؒ کی اس روایت پریہ جھوٹ بھی بولتے ہیں کہ اس روایت میں’’عشرین رکعۃ‘‘کے الفاظ شیخ الہندحضرت محمود الحسن دیوبندیؒ کی تحریف ہے، یعنی انہوں نے’’عشرین لیلۃ‘‘ بیس راتیں کےبجا ئے ’’عشرین رکعۃ‘‘ بیس رکعتیں کردیا۔ اوربعض غیرمقلدین نے یوں بھی لکھاہےکہ: ’’یہ بات سفید جھوٹ ہے‘‘ ۔
الجواب نمبر۱: حضرت مولاناصفدرامین اوکاڑوی رحمہ اللہ ایک غیر مقلد عالم سلطان محمود جلالپوری کےاسی اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’ابو داؤدکے دو نسخے ہیں، بعض نسخو ں میں ’’عشرین رکعۃ‘‘ لکھاہےاور بعض میں’’عشرین لیلۃ‘‘ لکھاہے۔ جس طرح قرآن پاک کی دو قرأتیں ہو ں تو دونوں کوماننا چا ہیے، اسی طرح ہم دونو ں نسخو ں کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن حیلہ بہا نے سےانکا ر حد یث کے عا دی سلطان محمود جلا لپوری نے اس حدیث کا انکار کر دیااور الٹا الزام علماءِ دیوبند پر لگا دیا‘‘۔ (تجلیا ت صفدر: ج۳، ص۳۱۶)
فرقہ غیرمقلدین کے اس جھوٹے الزام کی واضح دلیل یہ ہے کہ جلیل القدر محدثین ومحققین نے بھی اس روا یت کو’’عشرین رکعۃ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ہی نقل کیا ہے، مثلاً:
۱۔ فقہ شافعی کے مشہورامام أبو الحسن علی بن محمد بن محمد بن حبيب البصری البغدادی بالماوردیؒ (المتوفی: ۴۵۰ھ) نے اپنی مشہورکتاب الحاوی الكبيرمیں’’عشرین رکعۃ‘‘ ہی نقل کیا ہے۔ (الحاوی الكبير فی فقه مذهب الإمام الشافعی وهو شرح مختصر المزنی:  ج۲، ص۲۹۱)
۲۔ امام ذھبیؒ نےابوداؤد کے حوالے سے ’’عشرین رکعۃ‘‘  ہی نقل کیاہے۔ (سیر اعلام النبلاء:  ج۱، ص۴۰۰، ۴۰۱)
۳۔ امام ابن کثیرؒنے بھی ابوداؤد کے حوالے سے’’عشرین رکعۃ‘‘  ہی نقل کیاہے۔(جامع المسانید والسنن: ج۱، ص۸۶)
۴۔ الشیخ محمد علی الصابونی بھی ’’عشرین رکعۃ‘‘  کے الفاظ ہی نقل کرتےہیں۔ (الهدی النبوی الصحيح فی صلاة التراويح: ص۵۶)
الجواب نمبر۲: امام ابو سعید الحسن بن ابی الحسن یشار البصری رحمہ اللہ ۲۱ یا ۲۲ ہجری کو حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ کے دورخلافت میں پیدا ہوئے اور ۱۱۰ھ میں وفات پائی۔ حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے اپنے ہاتھ سے آپ کے منہ میں لعاب ڈالااور نام بھی انہوں نے ہی رکھا۔ آپ کے عادل وثقہ، فقیہ وفاضل ہونے پر سب کااتفاق ہے۔ آپ نے خود صحابہ کرام ؓ کو بیس رکعات تراویح پڑھتے دیکھا اور حدیث بیان فرمائی جو اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عمرؓنے ۲۰ رکعات کا ہی حکم دیاتھا۔ اب اگرخیرالقرون کے زمانے کے جلیل القدرتابعی حضرت حسن بصریؒ پراعتماد نہ کیاجائےتو کیا اس زمانےکے زبیر علی زئی پر کیا جائےجن کے ثقہ ہونے پران کے اپنے فرقے کے لوگوں کا اتفاق نہیں ہے؟
حسان بن ابی سنان البصریؒ سے روایت ہے کہ میں نے حسن (بصریؒ) کو فرماتے ہوئے سنا: ’’أدرکت سبعین بدریا، و صلیت خلفہم وأخذت بحجزهم‘‘۔ ’’میں نے ستر (۷۰) بدری صحابہ کو پایا، ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں اور ان کا دامن تھاما‘‘۔ (حلیۃ الاولیاء: ج۶، ص۱۹۶، و سندہ حسن)
تعجب کی بات ہے کہ ابوداؤد کے نسخہ میں تحریف کا علم امام أبو الحسن الماوردیؒ، امام ذھبیؒ اورامام ابن کثیرؒ جیسے جلیل القدرمحدثین ومحققین کو نہ ہوالیکن موجودہ دورکے غیرمقلدین کوہوگیا۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ فرقہ غیرمقلدین نے دین کے علم کوکھیل تماشہ بنارکھاہے کہ اپنے گمراہ فرقے کوحق پرثابت کرنے کے لیے جب دل چاہاجھوٹ بول دیااورعلماءِ احناف پرتہمت لگادی۔
مندرجہ بالاحوالہ جات لاعلم ومعتصب لوگو ں کو چپ کرا نے کے لیے کا فی ہیں کیونکہ ان روایت پرامت مسلمہ کا۱۴۰۰ سالہ اتفاق ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے زمانے میں پڑھی جا نے والی بیس رکعات تراویح کی سات روایات اوپرگزر چکی ہیں  جن میں’’عشرین رکعۃ‘‘  کےالفاظ نقل ہیں، جوکہ زبر دست تا ئید ہے کہ ’’عشرین رکعۃ‘‘ والا نسخہ ابی داؤد بھی صحیح وثا بت ہے۔ لہٰذایہ بات دلائل سے ثابت ہوگئی کہ حضرت حسن بصریؒ والی ’’عشرین رکعۃ‘‘والی روایت بالکل درست ہے۔
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر۹
’’رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ زَیْدُ بْنُ عَلِیِّ الْہَاشْمِیُّ فِیْ مُسْنَدِہٖ کَمَا حَدَّثَنِیْ زَیْدُ بْنُ عَلِیٍّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنْ عَلِیٍّ اَنَّہٗ اَمَرَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الْقِیَامِ فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ اَنْ یُّصَلِیَّ بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً یُّسَلِّمُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَیُرَاوِحَ مَابَیْنَ کُلِّ اَرْبَعِ رَکْعَاتٍ‘‘۔ ’’حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو حکم دیا جو لوگوں کو رمضان شریف کے مہینہ میں نماز (تراویح) پڑھاتے تھے کہ وہ ان کو بیس رکعات نماز (تراویح) پڑھائیں! ہر دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیرے اور ہر چار رکعتوں کے درمیان آرام کے لیے کچھ دیر وقفہ کرے‘‘۔ (مسندألامام زید: باب القیام فی شھررمضان، ص۱۳۹)
اس روایت کے تمام راوی اہل بیت میں سے ہیں اور تمام کے تمام ثقہ ہیں۔
اعتراض نمبر۱: مندرجہ بالاروایت کے بارے میں غیرمقلدعالم زبیرعلی زئی صاحب لکھتےہیں: ’’امام زیدی بن علی رحمہ الله کی طرف منسوب "مسند زید" اہل سنت کی کتاب نہیں، بلکہ شیعوں کی کتاب ہے اور آل دیوبند اس کتاب سے حجت پکڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ دیوبندیہ اور زیدی شیعہ میں گہرا یارانہ ہے‘‘۔
اعتراض نمبر۲: ’’دوسرے یہ کہ "مسند زید" کا بنیادی راوی ابو خالد عمر و بن خالد الواسطی کذاب (بہت جھوٹا) راوی ہے۔ اس کے بارے میں امام یحییٰ بن معین، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابوز ر عہ الرازی، امام وکیع بن الحرا ح  نے فرمایا "کذاب" (بہت جھوٹا) تھا‘‘۔
حافظ زبیر علی زئی صاحب کے اصول و ضوابط کے کیا کہنے، موصوف جس بات پر حنفیوں کوپابند کر رہے ہیں کاش کہ خود بھی ان اصولوں کے پابند ہوتے۔
الجواب نمبر۱: حافظ صاحب نے آل دیوبند کو شیعوں کی کتاب سے دلیل پکڑنے پر تو فوراً  تعنہ دیدیاجبکہ خود ۸ رکعات تراویح پر دیوبندی اکابرین (علامہ انور شاہ کشمیری ؒ، شیخ محدث دہلویؒ،علامہ عینیؒ،اور ملاعلی قاریؒ)کے اقوال سے دلیل پکڑتےہیں تو کیا آل دیوبند اور آل حدیث میں گہرایارانہ ہوگیا؟ صحیحِ بخاری کے کئی راوی شیعہ تھےتو کیا امام بخاری ؒکا بھی شیعوں سے یارانہ تھا؟
الجواب نمبر۲: اس حدیث کے تمام راوی اہل بیت میں سے ہیں اورثقہ ہیں۔ دوسرے یہ کہ ابو خالد عمر و بن خالد الواسطی اس کتاب"مسند زید" کا راوی ہے اس حدیث کا نہیں لہٰذا اس راوی کواس حدیث پرپیش کرناایک علمی خیانت ہے۔
ہمارے مخالفین یعنی شیعوں کی اپنی کتاب سے۲۰ رکعات تراویح کا ثبوت ملنا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہےکہ بیس رکعات ہی سنت اورصحابہ کرامؓ سے ثابت ہے۔ اورمخالفین کے گھرسے دلیل پیش کرنا تومیرے پیارے نبی ﷺکی سنت ہے، لہٰذا ہم نے اپنےپیارےنبیﷺکی سنت پرعمل کرتے ہوئے اپنے مؤقف کے حق میں دلیل پیش کی ہے۔
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر۱۰
’’حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْحَسْنَاءِ، «أَنَّ عَلِيًّا أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً»‘‘۔ ’’حضرت ابو الحسناء بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو رمضان میں پانچ ترویحوں میں بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج۲، باب كَمْ يُصَلِّی فِی رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ، ص۳۵۴، حدیث نمبر۷۷۶۴؛ السنن الکبری ٰللبیھقی: ج۲، ص۴۹۷، حدیث نمبر۴۳۹۷)
مندرجہ بالاروایت پر زبیرعلی زئی صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں : ’’اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے:
۱۔ ابو الحسناء مجہول ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: ٨٣٣٧)
۲۔ سیدنا علی رضی الله عنہ سے ابو الحسناء کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں‘‘۔
زبیر علی زئی صاحب نےتعصب اور فرقہ واریت کی بنیاد پر دینی معاملات میں اپنی علمی خیانتوں کا جو مظاہرہ کیاہےاس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
الجواب نمبر۱: اوّل یہ کہ دلائل کےساتھ ہم اوپربیان کرچکےہیں کہ احناف، مالکیہ اورحنابلہ کے نزدیک خیر القرو ن کی تدلیس اور ارسال جرح ہی نہیں اور شوافع کے ہا ں متا بعت سے یہ جرح ختم ہو جاتی ہے، کیو نکہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت ترا ویح روایت کر نے میں ابو الحسناء اکیلے نہیں بلکہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور امام ابو عبد الرحمٰن سلمی ؒبھی یہی روایت کرتے  ہیں، لہٰذا ابوالحسناء پرتدلیس یاارسال کا اعتراض کرناہی اوّل درجے کی جہالت وحماقت ہے۔
ثانیاًیہ کہ ابوالحسناء سے دوراوی یہ روایت نقل کر رہے ہیں:
۱۔ عمرو بن قیس۔ (مصنف ابن  ابی شیبہ: ج۲، كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ، ص۲۸۵)
۲۔ ابو سعید البقال۔ (السنن الکبر یٰ للبیہقی: ج۲، ص۴۹۷)
اور یہ دونوں با لترتیب ثقہ اور صدوق ہیں۔ (تقریب التہذیب: ص۴۵۶، ص۲۹۹)
اورحافظ ابن حجر ؒاصول حدیث کاایک قائد بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں: ’’من روی عنہ اکثر من واحد ولم یوثق الیہ الاشارۃ بلفظ  مستو ر او مجہول الحال‘‘۔ ’’جس راوی سے ایک سے زائد راوی روا یت کریں اور اس کی تو ثیق  کی گئی ہو تو اس کی طرف لفظ مستو ریا مجہول الحال سے اشار ہ کیا جا تا ہے‘‘۔ (تقریب التہذیب: ص۱۱۱)
یہاں ابو الحسناء سے بھی دوراوی یہ روایت  نقل کر رہے ہیں۔ لہٰذا اصولی طور پر یہ مجہو ل نہیں بلکہ مستور راوی بنتا ہے۔غیر مقلدین کا اسے مجہول کہنا محل تعجب ہے۔
الحاصل ابو الحسناء مستور راوی ٹھہرتا ہے اور محدثین کے ہا ں  قاعدہ ہے کہ مستور کی متا بعت کوئی دوسرا راوی کرے جو مرتبہ میں اس سے بہتر یا برابر ہو تو اس کی روایت حسن ہو جا تی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒلکھتے ہیں: ’’ومتى تُوبعَ السيءُ الحفظ بمُعْتَبَرٍ: كأَنْ يكونَ فَوْقَهُ، أو مِثلَهُ، لا دونه، وكذا المختلِط الذي لم يتميز، والمستور، والإسناد المرسل، وكذا المدلَّس إذا لم يُعْرف المحذوف منه صار حديثُهم حسناً، لا لذاته، بل وصْفُهُ بذلك باعتبارِ المجموع ‘‘۔ ’’جب سئی الحفظ راوی کی متا بعت کسی معتبر راوی سے ہوجائے جو مرتبہ میں اس سے بہتر یا برابر ہو کم نہ ہو، اسی طرح مختلط  راوی جس کی روا یت میں تمییز نہ ہو  سکے اور اسی طرح مستور،مرسل اور مدلس  کوئی تا ئید کر دے تو ان سب کی روا یات حسن ہو جائیں گی اپنی ذا ت کی وجہ سے نہیں بلکہ مجمو عی حیثیت کے اعتبا ر سے‘‘۔ (نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر:ص۲۳۴)
ابو الحسناء کی متا بعت  ابو عبد الرحمٰن نے کی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی: ج۲،ص۴۹۶)
اور یہ ابو الحسنا ء سے بڑھ کر ثقہ راوی ہے۔ اس لئے ابو الحسناء کی یہ روایت  جمہور کے نزدیک بھی مقبول ہے۔ لہٰذا یہ روایت صحیح و قابل احتجاج ہے اور زبیرعلی زئی صاحب کااعتراض باطل و مردود ہے۔
الجواب نمبر۲: جس طرحWorld Trade Centreپرحملےکی خبرپوری دنیا  جانتی ہے کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے،اس کے لئے نہ کسی سےملاقات کا ہونا ضروری ہے اور نہ ہی جائے وقوعہ پر موجود ہونا شرط ہے۔ بالکل اسی طرح ۲۰ رکعات تراویح پراہل مکہ، اہل مدینہ، اہل کوفہ اوراہل بصرہ کا اجماع اور ۱۲۰۰سالوں تک امتِ مسلمہ کا بلاتفاق اس پر عمل اس بات کی دلیل ہےکہ حضرت ابوالحسناء نے خود صحابہ کرام ؓاور تابعین کو بیس رکعات تراویح پڑھتے دیکھا اور حدیث بیان فرمائی کہ حضرت علیؓ نے ۲۰ رکعات کا ہی حکم دیاتھا۔ اب ۱۲۰۰ سالوں تک  امتِ مسلمہ کے ۲۰رکعات تراویح پر متفق ہونے پراعتماد کیاجائےیااس زمانےکے زبیر علی زئی اور ان کے غیرمقلد ٹولےپر؟ فیصلہ آپ پر ہے۔
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر۱۱
’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ: «كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ»‘‘۔ ’’امام عبدالعزیزبن رفیعؒ فرماتے ہیں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں رمضان کے مہینے میں لوگوں کوبیس رکعات نماز (تروایح) اور تین (رکعات) وتر پڑھاتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابي شیبۃ: ج۲، كَمْ يُصَلِّی فِی رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ، ص۳۵۴، حدیث نمبر۷۷۶۷؛ الترغیب والترھیب للاصبہانی: ج۲، ص۳۶۸)
زبیرعلی زئی صاحب مندرجہ بالاروایت کے بارے میں بھی وہی اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ روایت منقطع ہے۔ عبدالعزیز رفیع نے ابی بن کعب رضی الله عنہ کو نہیں پایا تھا‘‘۔ (تعداد رکعات قیام رمضان: ص ٦٦، بحوالہ آثار السنن)
زبیر علی زئی صاحب کی علمی بصیرت پر مجھے رشک آتا ہے کہ موصوف اپنے مسلک کی پرچارمیں احادیث کو ضعیف قرار دینے پر کسطرح  بضد ہیں۔
الجواب:امام عبدالعزیزبن رفیع ؒ  جلیل القدرتابعی ہیں اور عادل وثقہ راویوں میں سےہیں۔ انھوں نے خود صحابہ کرام ؓاور تابعین  کو بیس رکعات تراویح پڑھتے دیکھا اور حدیث بیان فرمائی جو اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ مدینہ منورہ میں صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کو ۲۰ رکعات تراویح ہی پڑھایا کرتے تھے۔اب خیرالقرون کے زمانے کے جلیل القدر تابعی امام عبدالعزیزبن رفیعؒ پراعتماد نہ کیاجائےتو کیا آج کے اِس پُرفتن دورکےزبیر علی زئی صاحب پر کیا جائے؟ جن پران کے اپنے فرقے لوگوں کااعتماد نہیں۔
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر۱۲
حضرت شتیر بن شکلؒ ،حضرت علیؓ کے شاگرد تھے کوفہ میں رہائش پذیر تھے۔
’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: ثنا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ: «أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ»‘‘۔ ’’حضرت شتیر بن  شکل لوگوں کورمضان میں بیس رکعت تراویح اورتین رکعت وتر پڑھاتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابي شیبۃ: ج۲، باب كَمْ يُصَلِّی فِی رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ، ص۳۵۴، حدیث نمبر۷۷۶۳)
اس روایت کےبارےمیں زبیرعلی زئی صاحب  فرماتےہیں :’’اس روایت کی سند ابو اسحاق سبیعی مدلس اور سفیان ثوری مدلس کے عن عن کی وجہ سے ضعیف ہے‘‘۔
حافظ زبیر علی زئی صاحب کی علمی بصیرت ،دوہرے معیارات اور علمی خیانتوں میں ایک اور بدترین اضافہ پیشِ خدمت ہے۔
الجواب نمبر۱: ’’امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ(متوفی۱۶۱ھ)خیر القرون کے محدث ہیں اور احناف کےنزدیک خیر القرون کی تدلیس صحتِ حدیث کے منافی نہیں۔ (قواعد فی علوم الحدیث للعثمانی:ص۱۵۹)
الجواب نمبر۲: ’’تدلیس کے اعتبار سے محدثین نے رواۃ حدیث کے مختلف طبقات بنائے ہیں،بعض طبقات کی روایات کو صحت حدیث کے منافی جبکہ دوسرے بعض کی روایات کو مقبول قرار دیاہے۔ امام سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ کو محدثین کی ایک جماعت جن میں امام ابوسعیدالعلائی، علامہ ابن حجرعسقلانی، محدث ابن العجمی شامل ہیں، نےطبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے۔ (جامع التحصیل فی احکام المراسیل: ص۱۱۳؛ طبقات المدلسین: ص۶۴؛ التعلق الامین علی کتاب التبیین لاسماء المدلسین: ص۹۲؛ تسمیۃ مشایخ وذکرالمدلسین: ص۱۲۳؛ کتاب المدلسین الامام الحافظ ابی زرعۃاحمدبن عبدالرحیم بن العرابی: ص۶)
امام مسلمؒ نے خود اپنی صحیح میں سفیان ثوریؒ کی عن والی روایات شامل کی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام سفیان ثوریؒ کی تدلیس صحت کے منافی نہیں۔
نیزعصر حاضر میں الدکتور العواد الخلف اور سید عبدالماجد الغوری نے بھی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو مرتبہ/طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے۔ (روایات المدلسین للعواد الخلف: ص۱۷۰؛ التدلیس والمدلسون للغوری: ص۱۰۴؛ التدلیس والمدلسون:شیخ حماد انصاری)
خود زبیر علی زئی صاحب کے”شیخ “ بدیع الدین شاہ راشدی نے بھی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو اول درجے کے مدلسین میں شمار کیا ہے۔ بدیع الدین شاہ راشدی صاحب لکھتے ہیں: ’’یہ کہ سفیان ثوری اول درجے کے مدلسین میں سے ہیں اور بقاعدہ محدثین ان کی تدلیس مقبول ہوگی اگرچہ سماع کی تصریح نہ کریں‘‘۔ (اہل حدیث کے امتیازی مسائل:ص۳۴)
’’محترم محبّ اﷲ شاہ راشدی صاحب نے اپنی کتاب مقالات راشدیہ میں زبیرعلی زئی صاحب کے رد میں ایک طویل اور مدلل تحریر لکھی ہے جس میں زبیرعلی زئی صاحب کی طرف سے امام سفیان ثوریؒ کی تدلیس پرکئے تمام اعتراضات کے منہ توڑ جوابات دیئےہیں ‘‘۔ (مقالات راشدیہ: ج۱، ص۳۰۵-۳۳۲)
اور محدثین نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ طبقہ ثانیہ کے مدلس کی روایت مقبول ہے، اس کی تدلیس صحت حدیث کے منافی نہیں۔ (التدلیس والمدلسون للغوری: ص۱۰۴؛ جامع التحصیل فی احکام المراسیل: ص۱۱۳؛  روایات المدلسین للعواد الخلف :ص۳۲)
امام بخاریؒ سفیان ثوریؒ کے بارے میں فرماتےہیں: ’’ولا اعرف لسفیان الثوری عن حبیب بن ابی ثابت ولاعن سلمۃ بن کھیل ولا عن منصوروذکرمشایخ کثیرۃ، ولاأعرف لسفیان عن ھؤلاءتدلیساً ما أقل تدلیسہ‘‘۔ ’’سفیان ثوری کی کتنی کم تدلیس تھی‘‘۔ (علل الترمذی:ج۲، ص۹۶۶؛ التمھیدلابن عبدالبر:ج۱، ص۳۵؛ جامع التحصیل للعلائی: ص۱۳۰؛ النکت لابن حجر: ج۲،ص۶۳۱)
حافظ صلاح الدین ؒ، امام سبط ابن العجمی ؒ،امام ابوزرعۃالعراقیؒ اور حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے سفیان ثوریؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قراردیاہے۔
حافظ علائیؒ سفیان ثوری ؒ کی تدلیس کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ محدثین کرام کے نزدیک جس راوی کی تدلیس اس کی دیگر روایات کے مقابلے میں کم ہوگی اس کی تدلیس قابلِ قبول ہوگی‘‘۔ (جامع تحصیل:ص۱۱۳)
لہٰذا محدثین کے اصول کے مطابق سفیان ثوریؒ کی تدلیس قابل قبول ہے۔
الجواب نمبر۳: معزز قارئینِ کرام !میں آپ کےسامنےزبیر علی زئی صاحب کے کذب اور دجل و فریب کاایک واضح ثبوت پیش کرتاہوں۔زبیر علی زئی صاحب کی علمی صلاحیتوں اور خیانتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف نے پہلی مرتبہ نورالعینین شائع کی تو سفیان ثوری ؒکو حافظ العلائی ؒکے جامع تحصیل کے حوالے سےطبقہ ثالثہ کا مدلس کہا، پھر(۱۴۰۵ھ/۱۹۸۹ء) میں عبدالرشید الانصاری صاحب کے ساتھ جرابوں پر مسح کے موضوع پر ایک تحریری مناظرے میں سفیان  ثوریؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قراردیا۔پھر نورالعینین صہ ۱۲۷ میں اپریل ۲۰۰۲ ءکے ایڈیشن میں دوبارہ طبقہ ثالثہ کا مدلس قرار دیدیاکیونکہ اس صفحہ پر احناف کےحق میں ترکِ رفع الیدین کی دلیل پرسفیان ثوریؒ کی تدلیس تھی۔پھر جنوری۲۰۰۴ ءمیں دوبارہ انھیں طبقہ ثانیہ میں لکھا۔
سفیان ثوریؒ کی تدلیس پرزبیرعلی زئی صاحب کی طرف سے کیئے جانے والے تمام اعتراضات واوھام کے مدلل اورجامع جوابات حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ کی ترکِ رفع یدین والی حدیث کی مکمل تحقیق پریہاں ملاحضہ فرمائیں۔
اہلسنت والجماعت (احناف)  کابیس رکعات تراویح پردلیل نمبر۱۳
’’زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي بِنَا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَيَنْصَرِفُ وَعَلَيْهِ لَيْلٌ قَالَ الْأَعْمَشُ: "كَانَ يُصَلِّي عِشْرِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ"‘‘۔ ’’حضرت زید بن وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رمضان شریف میں ہمیں نماز (تراویح) پڑھاتے اور گھرکو لوٹ جاتے تو رات ابھی باقی ہوتی تھی آپ رضی اللہ عنہ بیس رکعات (تراویح) اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے‘‘۔ (قیام رمضان للمزوری: ص ۲۲۱)
مندرجہ بالاحدیث کے بارےمیں زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں:’’یہ روایت بے سند ہے اور بے سند روایت مردود ہوتی ہے‘‘۔ (نیز دیکھئے تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ: ص ٨١)
کاش کہ زبیرعلی زئی صاحب عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری کامطالعہ ٹھیک طرح سے کرتے اورصرف اپنے مطلب کی عبارات پڑھنے کے بجائے تحقیق وانصاف سے کام لیتے تویقیناً اس روایت کوبےسندومردودکہنے کی حماقت نہ کرتے۔
الجواب: معززقارئینِ کرام مندرجہ بالاحدیث کی سند ملاحضہ فرمائیں جو عمدۃ القاری شرح بخاری للعلامۃالعینی میں موجود ہے۔
’’رَوَاهُ مُحَمَّد بن نصر الْمروزِي قَالَ: أخبرنَا يحيى بن يحيى أخبرنَا حَفْص بن غياث عَن الْأَعْمَش عَن زيد بن وهب، قَالَ: (كَانَ عبد الله بن مَسْعُود يُصَلِّي لنا فِي شهر رَمَضَان) فَيَنْصَرِف وَعَلِيهِ ليل، قَالَ الْأَعْمَش: كَانَ يُصَلِّي عشْرين رَكْعَة ويوتر بِثَلَاث‘‘۔ (عمدة القاری شرح صحيح البخاری: ج۱۱، بابُ فَضْلِ مَنْ قامَ رَمَضَانَ، ص۱۸۰)
یہ سند بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ مندرجہ بالا روایت کے راویوں کی توثیق ملاحضہ فرمائیں۔
۱۔ امام یحییٰ بن یحییٰؒ: ’’ابو زکریا یحییٰ بن یحییٰ بن بكر بن عبد الرحمٰن التمیمیؒ۔ آپ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن الترمذی اور سنن النسائی کے راویوں میں سے ہیں۔ آپ ثقہ، ثبت اور امام ہیں‘‘۔ (تقریب التہذیب: ص۷۶۶۸)
۲۔ حفص بن غیاثؒ: ’’ابو عمرحفص بن غیاث النخعی القاضی۔ آپ صحاح ستہ کے مرکزی راوی ہیں۔ ثقہ اور فقیہ ہیں‘‘۔ (تقریب التہذیب:  ص۱۴۳۰)
۳۔ امام الاعمشؒ: ’’سلیمان بن مہران الاعمش۔ آپ صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور بالاتفاق ثقہ ہیں‘‘۔ (تقریب التہذیب:ص۲۶۱۵؛ الجرح و التعدیل: ج۹، ص۴۱۳)
۴۔ زید بن وھبؒ: ’’ابو سلیمان زيد بن وهب الجہنی۔ آپ صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں‘‘۔ (تقریب التہذیب:  ص۲۱۵۹)
۵۔ عبد اللہ بن مسعودرضی اﷲعنہ: ’’آپ مشہور صحابی اور صحابہ میں بڑے علمی حیثیت کے مالک تھے‘‘۔ (تقریب التہذیب:  ص۳۶۱۳)