-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Monday, 18 July 2016

مسئلہ رفع الیدین

بسم الله الرحمن الرحیم
اس تحریر کی ابتداء میں ہی میں یہ بات واضح کرنا چاہوں گا کہ میری اس تحریر کا مقصد اُن معتدل  لوگوں کی مخالفت کرنا ہرگز نہیں ہے جو رفع الیدین کرتے ہوئے اپنی نمازوں کو بھی سنت کے مطابق صحیح سمجھتے ہیں اور ترکِ رفع الیدین سے نماز پڑھنے والوں کی نمازوں کو بھی سنت کے مطابق اورصحیح قرار دیتے ہیں، بلکہ میری تحریر کا مقصد ان لوگوں کی مخالفت ورد کرناہےجورفع الیدین کرنے والی احادیث کی بنیاد پرصرف اپنی نمازوں کوصحیح اور سنت کے مطابق اور دوسروں کی نمازوں کو باطل اور ناقص قرار دیتے ہیں۔
آج کے اِس پُرفتن دور میں جہاں نوجوان مسجد میں آنا گوارہ نہیں کرتے وہاں کسی نوجوان کا مسجد میں آکرنماز اداکرناہی غنیمت ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے کئی باطل فرقے اپنے ناپاک مقاصد میں سرگرم عمل ہیں جن کا کام امت مسلمہ کو گمراہ کرنا اور ان میں فساد برپا کرنا ہے۔ایسے ہی باطل فرقوں کے لوگ عام اور لاعلم مسلمانوں کے سامنے بخاری و مسلم کی چند احادیث پیش کرکے ان کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتے ہیں کہ اگر وہ نماز میں رفع الیدین نہیں کریں گے تو ان کی نماز نہیں ہوگی۔ آج کا نوجوان جب لاعلمی کے ساتھ ایسے فنتے اور لامتناہی بحث میں مبتلاہوتاہے جس کے نتیجہ پرآج تک کوئی نہیں پہنچ سکاتو یا تو وہ نماز پڑھنے سے ہی چلاجاتا ہے یاپھراگربچ بھی گیا تو ایسے باطل فرقوں کی باتوں میں آکران ہی کی سوچ کا حامی ہوجاتا ہے اور ان کے ناپاک مقاصد میں ان کے ساتھ شریک ہوجاتا ہے۔
اپنی ناقص عقل و محدود علم کی بنیاد پر میں اس نتیجہ تک پہنچا ہوں کہ اﷲتبارک و تعالیٰ کو اپنے محبوب نبی حضرت محمدمصطفیٰﷺکی ہر ادا (سنت)پیاری تھی لہٰذا خالق کائنات نے اپنے رسولﷺکی ہرادا (سنت)کو قیامت تک کے لئے مسلمانوں کے عمل میں رفع الیدین کرنے اور نہ کرنے کی شکل میں زندہ ومحفوظ کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ابتداءِ اسلام سے لیکرآج تک مسلمان ان دونوں سنتوں کے ساتھ نمازیں ادا کررہے ہیں اور انشاءاﷲ کرتے رہیں گے۔
موجودہ دور کے مسلمانوں کو چاہیے کہ کسی ایک سنت پر عمل کرتے ہوئے دوسرے پراعتراض نہ کریں۔ کیونکہ اﷲتبارک و تعالیٰ نے رفع الیدین کرنے یا نہ کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں دیا لیکن فرقہ واریت سے بچنے کا حکم ضروردیا ہے۔
’’وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا‘‘۔  "اور تم سب آپس میں اللہ کی رسی سےچمٹ جاؤ اور تفرقے میں نہ پڑو"۔ (سورۃ آلِ عمران:۱۰۳)
احادیثِ مبارکہ کے مطالعےسےہمیں نماز  میں رفع الیدین کرنے کے دلائل بھی ملتے  ہیں اور نہ کرنے کے بھی،  اس لئے کرنے والے کی نماز بھی درست ہے اور نہ کرنے والے کی بھی  بشرطیہ کہ نمازی اس مسئلے میں کسی مجتہدامام  کی پیروی کرے،  خود سے اس بات کا فیصلہ نہ کرے (کہ کرنا سنت عمل ہے اور نہ کرنے سے نماز نہیں ہوتی یا نہ کرنا سنت عمل ہے اور کرنے والے کی نمازنہیں ہوتی) ۔اس مسلئے میں اگر مقتدی کسی معین مجتہدامام جیسا کہ امام شافعیؒ یا امام احمد ابن حنبل ؒ کی پیروی کرتے ہوئےرفع الیدین کرتا ہے تو اس کی نماز درست ہوگی اور اگر کوئی امام ابوحنیفہ ؒیا امام مالکؒ  کی پیروی کرتے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتا تو اس کی نماز بھی درست ہوگی(انشاءاﷲ)۔ کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ:
۱۔ ’’جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے‘‘۔ (الصحيح البخاری، کتاب الاعتصام، باب أَجْرِ الْحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ، رقم الحدیث۷۳۵۲)
۲۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جس شخص نے (کسی کو) بغیر علم کے فتویٰ دیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا‘‘۔)رواۃ ابی داؤد، جلد نمبر ۳، صفحہ نمبر ۸۵۴،  رقم الحدیث ۳۶۵۷)
پہلی حدیث کے مطابق اگر امام شافعی ؒ،  امام احمد بن حنبلؒ،  امام ابو حنیفہ ؒ یا امام مالکؒ میں سے کسی ایک سے بھی اجتہاد کرنے میں غلطی ہوگئی تو بھی ان کو ایک اجر ملے گا لہٰذا ان کی پیروی کرنے والے کوبھی ایک اجر ملےگا کیونکہ مجتہد اجتہاد کرتا ہی عامی مسلمانوں کے لئے ہے۔ جبکہ دوسری حدیث کے مطابق بغیر علم کے فتویٰ دینے والا گناہ گار ہوگا لہٰذا بغیر علم کے اجتہاد کرنےوالا بھی بطریق اولیٰ گناہ گار ہوگاکیونکہ فتویٰ دینا اجتہاد کرنے سے کم درجے کا عمل ہے۔ اس لئے بغیر علم کے فتویٰ دینے والااور اجتہاد کرنے والا دونوں گناہ گار ہوئے اور جانتے بوجھتے کسی غیرعالم (جاہل) کے فتویٰ اور اجتہاد پر عمل کرنے والا بھی گناہ گار ہوگا۔اگر احادیثِ مبارکہ سے واضح ہوجانے کے بعد بهی کوئی شخص یا فرقہ تعصب ِمسلکی کی وجہ سے ان احادیث  پر عمل نہیں کرتا تو وه جاہل ہے۔  انشاءالله قرآن و حدیث کی روشنی میں میں ثابت کروں گا کہ جس طرح احادیثِ مبارکہ کہ مطالعے سے نماز میں رفع الیدین کرنے کے دلائل ملتے ہیں بالکل اسی طرح نہ کرنے کے بھی دلائل صحیح اسناد کے ساتھ ملتے ہیں اورامت مسلمہ کی ایک  بڑی جماعت صحابہ کرامؓ کے مبارک زمانے سے اس پر ۱۴۰۰ سالوں سے متفق اور عمل پیراہے۔
رفع الیدین کی نماز میں حیثیت اور اس کےکرنے  پر آئمہ مجتہدین و محدثین کا موقف
نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹهانا) بالاتفاق مستحب ہے ، الإمام النووي رحمه الله یہی فرماتے ہیں:’’قال الإمام النووي في شرح صحيح مسلم: أجمعت الأمة على استحباب رفع اليدين عند تكبيرة الإحرام‘‘۔
لیکن نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین کے حکم میں اختلاف ہے اس بارے میں دو قول ہیں۔
۱۔ نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین واجب ہے، امام الأوزاعیؒ اور امام الحميدی ؒیعنی شيخ البخاریؒ اور امام داود الظاهری ؒاوران کے بعض أصحاب اوربقول امام حاکم ؒامام ابن خزيمة ؒاور أحمد بن سيار بن أيوب شوافعؒ میں سے اور امام ابن حزم ؒکا مذهب یہی ہے۔ امام الحمیدیؒ اور امام اوزاعیؒ کی طرف منسوب ہے کہ وہ رفع الیدین عندالرکوع اور عندرفع الراس مِن الرکوع کو واجب کہتے ہیں مگر یہ بعض غیرمقلدین کا مغالطہ ہے۔ ان دونوں حضرات سے رفع یدین کے وجوب کا جو قول منسوب ہے وہ افتتاح صلوٰۃ یعنی تکبیرتحریمہ کے وقت والے رفع یدین کا ہےنہ کہ رفع الیدین عندالرکوع اور عندرفع الراس مِن الرکوع کا۔
۲۔ نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین سنت ہے، امام اعظم أبو حنيفةؒ اوران کے أصحاب اورامام مالكؒ، اورامام الشافعیؒ، اورامام أحمد بن حنبلؒ اورامام أبو عبيدؒ، اورامام أبی ثورؒ، اورامام إسحاقؒ، وابن المنذرؒ، وغيرهم کثیر کا یہی مذهب ہے۔(تفصیل دیکهیئے: شرح صحيح مسلم للنووی، فتح الباری، نيل الأوطار، بداية المجتهد،  الاستذكار والتمهيد)
علامہ ابن رشدالمالکیؒ (متوفی ۵۹۰ھ) فرماتے ہیں:’’وَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ إِلَى رَفْعِهَا عِنْدَ السُّجُودِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ‘‘۔ ’’بعض اہل حدیث علماء نے سجدہ کرتے وقت اور سجدہ سے اٹھتے وقت بھی رفع الیدین کی حمایت کی ہے‘‘۔ (بداية المجتہد ونہاية المقتصد: ج۱، الفصل الثانی، المسألۃالأولیٰ[رفع الیدین]، ص۳۲۶)
رفع الیدین عندالرکوع وعندرفع الراس مِن الرکوع کے بارےمیں مذاهب اربعہ کی تصریحات
۱۔ حنفیہ کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مکروہ یعنی خلاف اولیٰ ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے۔
’’(قوله إلا في سبع ) أشار إلى أنه لا يرفع عند تكبيرات الانتقالات، خلافا للشافعي وأحمد، فيكره عندنا ولا يفسد الصلاة‘‘۔صاحبِ درمختارنے اپنے قول ’’قوله إلا في سبع‘‘ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ تکبیراتِ انتقالیہ کے وقت ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے، اس مسئلہ میں امام شافعی ؒ اور امام احمدؒ کا اختلاف ہے، پش ہاتھ اٹھانا ہمارے نزدیک مکروہ ہے، اور نماز فاسد نہیں ہوتی۔(شامی: جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر۳۷۴؛ رد المحتار على الدر المختار: كتاب الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها)
۲۔ مالکیہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مکروه وخلاف اولیٰ ہے، مذهب مالکیہ کی مستند کتاب المدونة الكبرى میں ہے۔
’’فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الرُّكُوعِ وَالْإِحْرَامِ قَالَ: وَقَالَ مَالِكٌ: لَا أَعْرِفُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي شَيْءٍ مِنْ تَكْبِيرِ الصَّلَاةِ لَا فِي خَفْضٍ وَلَا فِي رَفْعٍ إلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ شَيْئًا خَفِيفًا وَالْمَرْأَةُ فِي ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ، قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ: وَكَانَ رَفْعُ الْيَدَيْنِ عِنْدَ مَالِكٍ ضَعِيفًا إلَّا فِي تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ‘‘۔ امام مالك رحمه الله فرماتے ہیں کہ ’’میں نمازکی تکبیرات میں کسی جگہ رفع اليدين نہیں جانتا نہ رکوع میں جاتے وقت اور نہ رکوع سے اٹھتے وقت مگر صرف نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت‘‘ ، امام مالک کے صاحب وشاگرد ابن القاسم فرماتے ہیں کہ ’’امام مالك رحمه الله فرماتے ہیں رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگرصرف تکبیرتحریمہ میں ‘‘۔(المدونة الكبرى للإمام مالك: ج۱، ص ۱۶۵ – دار الفكر بيروت)
امام مالك رحمه الله کے الفاظ پر ذرا غور کریں ’’لا أعرف‘‘ یعنی میں نہیں جانتا تکبیر تحریمہ کے علاوه رفع یدین کرنا۔ یاد رہے کہ کتاب المُدَونة الكبرى فقہ مالكي کی اصل وبنیاد ہے دیگرتمام کتابوں پرمقدم ہے اور مُوطأ الإمام مالك کے بعد اس کا دوسرا نمبرہے اوراکثر علماء المالكية کی جانب سے اس کتاب المدونة کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور فتاویٰ کے باب میں بهی علماء المالكية کا اسی پراعتماد ہے اور روایت و درجہ کے اعتبارسے سب سے أصدق وأعلىٰ کتاب ہے۔
ابن عبدالبر رحمة الله عليه کی کتاب التمہید میں ہے کہ: ’’واختلف العلماء فی رفع الیدین فی الصلاة فروی ابن القاسم وغیرہ عن مالک أنہ کان یریٰ رفع الیدین فی الصلاة ضعیفًا الا في تکبیرة الاحرام وحدہا، وتعلق بہٰذہ الروایة عن مالک أکثر المالکیین‘‘۔  اور نماز میں رفع یدین کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ ابن القاسم وغیرہ نے امام مالک رحمة الله عليه سے روایت کیاہے کہ امام مالک رحمة الله عليه نماز میں رفع یدین کو ضعیف سمجھتے تھے مگر صرف تکبیر احرام میں، اور امام مالک رحمة الله عليه کی اس روایت پر اکثر مالکیین کا اعتماد ہے۔ (التمہید: ج۹، ص۲۱۲)
علامہ ابن رشدالمالکیؒ (متوفی ۵۹۰ھ) فرماتے ہیں: ’’وَأَمَّا اخْتِلَافُهُمْ فِي الْمَوَاضِعِ الَّتِي تُرْفَعُ فِيهَا فَذَهَبَ أَهْلُ الْكُوفَةِ أَبُو حَنِيفَةَ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَسَائِرُ فُقَهَائِهِمْ إِلَى أَنَّهُ لَا يَرْفَعُ الْمُصَلِّي يَدَيْهِ إِلَّا عِنْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ فَقَطْ، وَهِيَ رِوَايَةُ ابْنِ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ۔۔۔ وَالسَّبَبُ فِي هَذَا الِاخْتِلَافِ كُلِّهِ اخْتِلَافُ الْآثَارِ الْوَارِدَةِ فِي ذَلِكَ، وَمُخَالَفَةُ الْعَمَلِ بِالْمَدِينَةِ لِبَعْضِهَا، وَذَلِكَ أَنَّ فِي ذَلِكَ أَحَادِيثَ: أَحَدُهَا: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَحَدِيثُ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ «أَنَّهُ كَانَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ الْإِحْرَامِ مَرَّةً وَاحِدَةً لَا يَزِيدُ عَلَيْهَا»۔۔۔ فَمِنْهُمْ مَنِ اقْتَصَرَ بِهِ عَلَى الْإِحْرَامِ فَقَطْ تَرْجِيحًا لِحَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَحَدِيثِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَهُوَ مَذْهَبُ مَالِكٍ لِمُوَافَقَةِ الْعَمَلِ بِهِ‘‘۔ ’’مقامات رفع یدین کے سلسلہ میں اختلافات پرامام ابوحنیفہؒ، سفیان ثوریؒ، اور سارے فقہائے کوفہ کی رائے ہے کہ نمازی صرف تکبیرتحریمہ کے وقت رفع یدین کرے گا۔ امام مالک سے ابن القاسم نے یہی روایت نقل کی ہے۔۔۔ اس اختلاف کا سبب اس سلسلہ میں وارد احادیث کا اختلاف اور بعض احادیث سے اہل مدینہ کے عمل کا تعارض ہے۔ اس سلسلہ میں جو احادیث واردہیں ان میں ایک عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہکی حدیث ہےاوربراءبن عازبرضی اﷲعنہکی حدیث ہےکہ «اﷲکے رسولﷺتکبیرتحریمہ کے وقت ایک باررفع یدین کرتے تھےاس پراضافہ نہیں کرتے تھے»۔۔۔ پس اہل علم نے حدیث ابن مسعودرضی اﷲعنہ اور حدیث براءبن عازب رضی اﷲعنہ کو ترجیح دیتے ہوئےصرف رفع یدین بوقت تحریمہ پر اکتفاء کیاہےاور اہل مدینہ کے عمل کے ساتھ موافقت کی وجہ سے امام مالکؒ کا مذہب بھی یہی ہے‘۔ (بداية المجتہد ونہاية المقتصد: ج۱، الفصل الثانی، المسألۃالأولیٰ[رفع الیدین]، ص۳۲۶ ،۳۲۸)
حافظ ابن حجر رحمة الله عليه نے تعجیل المنفعة،صفحہ نمبر۹ پر امام حسینی پر رد کرتے ہوئے ذکر کیاہےکہ: ’’پھر امام مالک رحمة الله عليه سے عدم رفع کو نقل کرنے میں ابن عون متفرد نہیں ہیں، بلکہ ان کی متابعت ابن وہب اور ابن القاسم رحمة الله عليه نے کی ہے جیساکہ گزرچکا‘‘۔
امام نووی رحمة الله عليه نے شرح مسلم کے اندر ذکر کیاہےکہ:’’قال أبوحنیفة وأصحابہ وجماعةٌ من أہل الکوفة: لا یستحب الرفع في غیر تکبیرة الافتتاح، وہو أشہر الروایات عن مالک‘‘۔ ’’امام ابوحنیفہرحمة الله عليه اوران کے اصحاب اور اہل کوفہ کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ میں رفع یدین مستحب نہیں ہے اوریہی امام مالک رحمة الله عليه سے مشہور روایت ہے‘‘۔ (حاشیہ صحیح مسلم شریف: ج۱، ص۱۶۸)
 الجواہر النقی مع سنن بیہقی (ج۲، ص۷۶) میں امام قرطبی رحمة الله عليه کی شرح مسلم سے نقل کیاگیا ہے کہ ترک رفع امام مالک رحمة الله عليه کا مشہور مذہب ہے، قواعد ابن رشد میں بھی اسی کو امام مالک رحمة الله عليه کا مذہب قرار دیا ہے۔
’’المالكية قالوا: رفع اليدين حذو المنكبين عند تكبيرة الاحرام مندوب، وفيما عدا ذلك مكروه الخ الفقه على المذاهب الاربعة ' لعبد الرحمن الجزيري‘‘۔ ’’علامہ عبد الرحمن الجزيری نے بهی یہی تصریح کی ہے کہ مالکیہ کے نزدیک رفع یدین دونوں کندہوں تک تکبیرتحریمہ کے وقت مستحب ہے اس کے علاوه مکروه ہے‘‘۔ (الجزءالاول، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين)
امام مالکؒ عندالرکوع و عندرفع الراس مِن الرکوع ترکِ رفع الیدین کے قائل ہیں اگرچہ امام مالکؒ سے ایک روایت رفع الیدین عندالرکوع و عندرفع الراس مِن الرکوع کی منقول ہےلیکن خود امام شافعیؒ فرماتےہیں کہ امام مالکؒ کا مسلک ترکِ رفع کا تھا۔ بہرحال مالکیہ کے نزدیک ترکِ رفع کا قول مفتیٰ بہٰ ہےجیساکہ ان کے شاگردابن القاسمؒ اور ابن رشدالمالکیؒ و ابن عبدالبرؒنے اس کی تصریح کی ہے۔
خلفاءِراشدینؓ، عشرہ مبشرہ، حضرت عبداﷲبن مسعودؓ، ابراہیم نخعیؒ، سفیان ثوریؒ، عبدالرحمٰن ابن لیلیٰؒ، عاصم بن کلیبؒ اور اکثرفقہاء کرامؒ کے نزدیک تکبیرتحریمہ کے علاوہ باقی کہیں رفع یدین جائزنہیں ہے۔
۳۔ شافعيه کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین سنت مؤکدہ ہے ، امام شافعی كى كتاب الأم میں یہی تصریح موجود ہے اوردیگرعلماء شافعیه کا بهی یہی مذهب ہے۔
قال سألت الشافعي: أين ترفع الأيدي في الصلاة؟ قال: يرفع المصلي يديه في أول ركعة ثلاث مرات، وفيما سواها من ’’الصلاة مرتين مرتين يرفع يديه حين يفتتح الصلاة مع تكبيرة الافتتاح حذو منكبيه ويفعل ذلك عند تكبيرة الركوع وعند قوله " سمع الله لمن حمده " حين يرفع رأسه من الركوع ولا تكبيرة للافتتاح إلا في الأول وفي كل ركعة تكبير ركوع، وقول سمع الله لمن حمده عند رفع رأسه من الركوع فيرفع يديه في هذين الموضعين في كل صلاة الخ‘‘۔ (كتاب الأم: باب رفع اليدين في الصلاة)
’’(قال الشافعي) وبهذا نقول فنأمر كل مصل إماما، أو مأموما، أو منفردا؛ رجلا، أو امرأة؛ أن يرفع يديه إذا افتتح الصلاة؛ وإذا كبر للركوع؛ وإذا رفع رأسه من الركوع ويكون رفعه في كل واحدة من هذه الثلاث حذو منكبيه؛ ويثبت يديه مرفوعتين حتى يفرغ من التكبير كله ويكون مع افتتاح التكبير، ورد يديه عن الرفع مع انقضائه‘‘۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں: ’’یہی ہمارا مذہب ہےچنانچہ ہم ہر نمازی کو حکم دیتے ہیں، خواہ امام ہو یا مقتدی، یا منفرد مرد ہو یا عورت، کہ وہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے جب نماز شروع کرے، جب رکوع کے لئے تکبیر کہے، اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھائے۔ (كتاب الأم:  باب رفع اليدين في التكبير فی الصلاة)
امام شافعیؒ نے صراحت فرمائی ہے کہ مذکورہ بالا تین جگہوں کے علاوہ نماز میں کسی اور جگہ رفع یدین نہیں ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ: ’’اور ہم نمازی کو رفع یدین کا حکم کسی تکبیر کے وقت نہیں دیتے ہیں ، رکوع سجدہ والی نماز میں مگر ان تین جگہوں میں‘‘۔
مگر شوافع کے نزدیک مذکورہ بالا تین جگہوں کے علاوہ ایک اور جگہ بھی رفع یدین مستحب ہے، اور وہ ہے تیسری رکعت کے شروع میں۔
 امام نوویؒ شرح مہذب میں لکھتے ہیں کہ ’’ مذکورہ بالا تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ دو رکعت کے بعد جب تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو، اُس وقت رفع یدین کو مستحب ماننا ضروری ہے‘‘۔ (المجموع: جلد نمبر ۳، صفحہ نمبر۴۴۸)
۴۔ حنابلہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین سنت ہے۔
’’مسألة: قال: (ويرفع يديه كرفعه الأول) يعني يرفعهما إلى حذو منكبيه، أو إلى فروع أذنيه، كفعله عند تكبيرة الإحرام، ويكون ابتداء رفعه عند ابتداء تكبيره، وانتهاؤه عند انتهائه‘‘۔ (كتاب المُغني لإبن قدامة الحنبلي: كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة)
علامہ جزیریؒ کتاب الفقہ میں لکھتے ہیں کہ:’’حنابلہ کہتے ہیں کہ مرد کے لئےبھی اور  عورت کے لئے بھی دونوں مونڈھوں تک ہاتھ اٹھانا مسنون ہے، تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت ‘‘۔ (الفقہ: جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر ۲۵۰)
ابتدائی دور کے دو جلیل القدر امام یعنی امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ جن دونوں کا دور رسول اﷲﷺ سے سب سے قریب کا ہے وہ صرف تکبیر تحریمہ کےرفع یدین کو سنت مانتے ہیں جبکہ رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت  رفع یدین کرنے کو مکروہ کہتے ہیں جبکہ بعد کے دو امام یعنی امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ جن کا دور امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ  سےکافی بعد کا ہے تکبیر تحریمہ کے ساتھ ساتھ  رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت  رفع یدین کرنے کوبھی سنت کہہ کر اس پر عمل کرنے کے قائل ہیں۔
رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرنے اور نہ کرنے سے متعلق سلف صالحین وائمہ محدیث کے مابین اختلاف ہے اور دوراول یعنی صحابہ وتابعین وتبع تابعین رضی الله عنهم سےاس میں اختلاف چلا آرہا ہے اوراس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ رفع یدین کے بارے مختلف روایات وارد ہوئی ہیں لہٰذا جس مجتہد نے اپنے دلائل کی روشنی میں جس صورت کوزیاده بہتر وراجح سمجها اس کو اختیارکیا اورکسی بهی مجتہد نے دوسرے مجتہد کے عمل واجتہاد کو باطل وغلط نہیں کہا اور یہی حال ان مجتہدین کرام کا دیگراختلافی مسائل میں بهی ہے کہ باوجود اختلاف کے ایک دوسرے کے ساتھ محبت وعقیدت واحترام کا رشتہ رکهتے تهے جیسا کہ گذشتہ سطور میں گذر چکا کہ امام شافعی رحمه الله امام مالک رحمه الله کے شاگرد ہیں لیکن بہت سارے اجتہادی مسائل میں ان سے اختلاف رکهتے ہیں حتیٰ کہ رفع یدین کے مسئلہ میں بهی دونوں استاذ وشاگرد کا اجتہاد مختلف ہے امام شافعی رحمه الله رفع یدین کے قائل ہیں اورامام مالک رحمه الله رفع یدین کے قائل نہیں ہیں وغیرذالک اور دوراول سے لے کر آخرتک یہی حالت رہی،حتیٰ کہ ہمارے اس آخر زمانہ میں ہندوستان کے اندر کچھ نفوس پرمشتمل ایک جماعت نمودار ہوئی جس نے بڑے زور وشور سے ان اختلافی مسائل کو لے کرعوام الناس کو ان ائمہ مجتہدین خصوصاً امام اعظم ابوحنیفہؒ وعلماء احناف کے منهج وطریق سے ہٹانے کا بهرپور سلسلہ شروع کیا اورمختلف حیلوں بہانوں سے عوام کو یہ باور کرایا اورآج تک کرارہے ہیں کہ احناف کی فقہ اوران کا عمل حدیث رسولﷺ کے بالکل مخالف ہے ان کا مشہورطریقہ واردات اس بارے میں یہ ہوتا ہے کہ مثلاً ایک اختلافی مسئلہ میں وه روایت عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کے ساتھ احناف بوجوه استدلال نہیں کرتے اوراس مسئلہ میں احناف کی مستدل روایات کو جہالت یا ضد وتعصب کی وجہ سے پیش نہیں کرتے مثلاً رفع یدین کا مسئلہ لے لیں ایک عام آدمی کے سامنے حدیث پڑهتے ہیں کہ دیکهو حدیث میں ہے کہ حضور صلی الله وسلم رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرتے تهے اور حنفی اس حدیث پرعمل نہیں کرتے لہٰذا ان کو چهوڑ دو اور اہل حدیث جماعت میں شامل ہوجاؤجن کا مقصد صرف اور صرف حدیث رسولﷺ پرعمل کرنا ہے لہٰذا عموماً ایک عام ناواقف شخص جسے نہ قرآن و حدیث کے ناسخ و منسوخ کا پتہ ہے اور نہ ہی صحیح و ضعیف  احادیث کے فرق کی کچھ خبر ہے، وہ اسی وسوسہ کو قبول کرکے ٹهوکر کها لیتا ہے،جیسا کہ معلوم ہے کہ مسئلہ رفع یدین سے متعلق علماء کرام کی مفصل ومختصر بہت ساری کتب موجود ہیں جن میں اس مسئلہ پر سیرحاصل بحث وکلام موجود ہے لہٰذا میں اس مختصر مقالہ میں صرف ائمہ اربعہ کی آراء اور ائمہ احناف کے کچھ دلائل ذکرکروں گا تاکہ ایک عام آدمی کو معلوم ہوجائے کہ حنفی تکبیرتحریمہ کےعلاوه رفع یدین کیوں نہیں کرتے اور ان کے پاس رفع یدین کے منسوخ ہونے کے کیا دلائل ہیں۔
رفع یدین کرنے کی سب سے قوی روایت
رفع یدین کرنے کی روایات متعدد ہیں، مگر قائلینِ رفع کے نزدیک سب سے قوی ترین روایت حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی ہے۔جس کے الفاظ بخاری شریف میں یہ ہیں:
’’عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ رَأیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ  اِذَا قَامَ فِی الصَّلاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی تَکُوْنَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ وَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ حِیْنَ یُکَبِّرُ لِلرَّکُوْعِ وَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ وَ یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ وَ لاَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السُّجُوْدِ‘‘۔ ’’عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں:  میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کودیکھا کہ وہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور سجدہ میں آپ ایسا نہیں کرتے تھے‘‘۔ (صحیح البخاری: کتاب الصلاۃ، باب رفع الیدین، جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر ۱۰۲)
یہ حدیث رفع یدین کے سلسلہ میں سب حدیثوں سے قوی حدیث سمجھی گئی ہےاور اس کی سند سلسلۃ الذہب ہے مگر اس کے باوجودحنفیہ ترکِ رفع یدین کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں کہ خود حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ کی روایات باہم اتنی متعارض ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا مشکل ہے۔ حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ کی روایات میں کل سات قسم کا اضطراب ہے۔
۱۔ مدونۃ الکبریٰ میں اسی روایت کو نقل کیا گیا ہے جس میں صرف عندالافتتاح کے رفع یدین کا ذکرہےاور مدونۃ میں صرف اسی کے اثبات کے لئے اسے نقل کیاگیاہے۔ امام طحاویؒ نے بھی شرح المعانی الآثارمیں حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ سے صرف تکبیرتحریمہ کے وقت کے رفع یدین کی روایت نقل کی ہےجس سے صاف یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ کے پاس اس معاملہ میں کوئی مرفوع حدیث ضرورہوگی۔ اسی طرح کی ایک اورروایت بیہقی بحوالہ نصب الرایہ میں بھی آئی ہےکہ رسول اﷲﷺتکبیرافتتاح کے بعد رفع یدین کااعادہ نہیں فرماتے تھے۔
۲۔ امام مالکؒ سے اس روایت کو امام شافعیؒ، عبداﷲبن مسلمہ القعبنیؒ اور یحییٰ سیوطیؒ نے نقل کیا ہےاس میں صرف دو مرتبہ رفع یدین کا ذکر ملتا ہے۔ ایک تکبیرتحریمہ کے وقت اور دوسرا رکوع سے اٹھتےوقت، مگررکوع میں جاتے وقت رفع یدین کا ذکرنہیں ہے۔
۳۔ صحیح بخاری میں حضرت نافع کے طریق سے اس روایت میں چار جگہ رفع یدین کا ذکرملتا ہے۔ عندالافتتاح، عندالرکوع، عندرفع من الرکوع اور چوتھےاذاقامہ من الرکعتین یعنی پہلے قعدے سے قیام کے لئے کھڑے ہوتےوقت۔
۴۔ صحاح ستہ کی کتابوں میں ابن وھب عن القاسم عن مالک کی سند سےتین مواقع پر رفع یدین نقل ہوا ہے۔ عندالافتتاح، عندالرکوع اور بعدالرکوع۔
۵۔ امام بخاریؒ نے اس روایت کو جزءرفع الیدین میں نقل کیاہےجس میں سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کا ذکرملتاہے۔ (بحوالہ معارف السنن: ج۲، ص۴۷۴)
۶۔ امام طحاویؒ مشکل الآثارمیں حضرت ابن عمر رضی اﷲعنہ کی حدیث مرفوع اس طرح نقل کرتے ہیں کہ اس میں مذکورہ مقامات کے علاوہ عندکل خفض ورفع وبین السجدتین میں بھی رفع یدین کاذکرموجودہے۔
۷۔ مندرجہ بالامقامات کے علاوہ حضرت ابن عمر رضی اﷲعنہ سے ہراونچ نیچ میں رفع یدین کا ذکربھی ملتا ہےجس کی روایت امام بخاریؒ نے جزءرفع الیدین میں نقل کی ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اﷲعنہ کی روایات کے علاوہ سنن النسائی میں حضرت مالک بن حویرث رضی اﷲعنہ سے، ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲعنہ سے اور ابوداؤدمیں حضرت وائل بن حجر رضی اﷲعنہ کی روایات میں بھی سجدوں کےرفع یدین کاذکرصحیح سند سے ملتاہے۔
اس کے علاوہ ابن ماجہ میں حضرت عمیربن قتادہ رضی اﷲعنہ اور حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ سے ہرتکبیرکے وقت رفع یدین کا ذکربھی ملتاہے۔
ترکِ رفع یدین کی سب سے قوی روایت
رفع یدین نہ کرنے کے بارے میں صحیح و صریح روایات پانچ ہیں، ان میں سے ایک درج ذیل یہ ہے۔
’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ۔‏ قَالَ وَفِي الْبَابِ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالتَّابِعِينَ۔‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ‘‘۔ ’’حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمانےفرمایا: کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیسےنمازپڑھتےتھے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھی اورتکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا۔ اس باب میں براءبن عازب رضی اﷲعنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ فرماتے ہیں حدیث ابن مسعودؓ حسن صحیح ہےاور یہی قول ہے بہت سارےصحابہؓ و تابعینؒ میں اہل علم کا سفیان ثوریؒ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے‘‘۔(جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱،ص ۱۸۵؛ سنن النسائی: ج۱، ص۱۵۸؛ سنن ابی داؤد:ج۱،ص۱۱۶؛ مشکاۃالمصابیح علامہ ناصرالدین البانیؒ: ج۱، باب صفة الصلاة ، الأصل، رقم الحدیث ۸۰۹)
اس حدیث کو امام ترمذی ؒ نے حسن کہا ہے، اور ابنِ حزم ظاہریؒ (غیرمقلد عالم) نےاپنی مشہور کتاب ’’المحلی‘‘ میں صحیح کہا ہے۔مشہور غیرمقلد محدث علامہ ناصرالدین البانی ؒ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔کچھ حضرات نے اس حدیث پر کلام کیا ہے مگر علامہ احمد محمد شاکر ؒ نے اس کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: ’’یہ حدیث صحیح ہے، ابنِ حزمؒ اور دیگر حفاظ حدیث نے اس کو صحیح کہا ہے، اور لوگوں نے اس کی تعلیل میں جو کچھ کہا ہے وہ علت (خرابی)نہیں ہے‘‘۔(جامع ترمذی: جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر ۴۱)
رفع یدین کا مسئلہ چونکہ معر کۃالآراء ہے اس لئے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کی حدیث کی طرح مندرجہ بالاحضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی حدیث پر بھی کچھ لوگوں نے کلام کیا ہے، مگر ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے جو علامہ ابنِ ہمامؒ(حنفی) نے ہدایہ کی شرح میں تحریر فرمائی ہے: ’’ساری بحث کے بعد تحقیقی بات یہ ہے کہ دونوں روایتیں حضوراکرمﷺ سے ثابت ہیں یعنی رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھانا اور نہ اٹھانا، لہٰذا تعارض کی وجہ سے ترجیح کی ضرورت پیش آئے گی‘‘۔
امام العصرعلامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں: ’’دونوں باتوں پر متواتر عمل ہورہا ہے۔صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے سے، اور اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ دونوں میں سے افضل کیا ہے؟‘‘۔
روایات کس طرف زیادہ ہیں اور عمل کس طرف زیادہ ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ رفع یدین کی روایات ترکِ رفع سے زیادہ ہیں، قائلین کہتے ہیں کہ ۵۰ پچاس صحابہ کرامؓ سے رفع یدین کرنے کی روایات مروی ہیں، مگر یہ بات صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں ان صحابہ کرامؓ کو بھی شمار کرلیا گیاہے جن سے صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین مروی ہے، صحیح تعداد امام شوکانیؒ کی تصریح کے مطابق ۲۰ بیس ہے۔ اور اس میں بھی نقد کی گنجائش ہے۔ امام العصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی تحقیق کے مطابق بحث و تمحیص کے بعد پندرہ صحابہ یا اس سے بھی کم رہ جاتے ہیں۔ اور ترکِ رفع یدین کی تصریح روایات پانچ ہیں۔
مگر عمل کی صورت اس سے بالکل مختلف ہے، مدینہ منورہ جو مہبطِ وحی ہے، اور کوفہ جو عساکر اسلام کی چھاؤنی ہے، اور جس میں ۵۰۰ پانچ سو صحابہ کرامؓ کا فروکش ہونا ثابت ہے، ان دو شہروں کے بارے میں موافق و مخالف سب تسلیم کرتے ہیں کہ کوفہ میں تو کوئی بھی رفع یدین نہیں کرتا تھا، اور مدینہ منورہ میں اکثریت رفع یدین نہیں کرتی تھی، چنانچہ امام مالکؒ جو حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ کی روایت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، مجبور ہوئے کہ تعامل مدینہ کے پیش نظرترکِ رفع یدین کو اختیار کریں۔اور باقی بلادِ اسلامیہ میں رفع یدین کرنے والے بھی تھے اور نہ کرنے والے بھی۔
اور یہ سورتِ حال اس لئے تھی کہ جو عمل جس قدر زیادہ رائج ہوتا ہے اس کے بارے میں روایات کم ہوجاتی ہیں، کیونکہ تعامل خود بہت بڑی دلیل ہے، اس کی موجودگی میں روایت کی چنداں ضرورت نہیں رہتی، اسلئے وہ بات بغیر کسی لیت لعل کے تسلیم کرلینی چاہیئے جو علامہ ابنِ ہمامؒ کے حوالہ سے پہلے گذرچکی ہےکہ حضوراکرم ﷺ سے رفع بھی ثابت ہے اور عدم رفع بھی۔
اختلاف  کا سبب
علامہ ابن رشد المالکی نے یہی تصریح کی ہے اور فرمایا کہ رفع یدین میں اختلاف کا سبب دراصل اس باب میں وارد شده مختلف روایات کی وجہ سے ہے یعنی چونکہ روایات مختلف ہیں لہٰذا ائمہ مجتہدین کا عمل بهی ہوگا۔ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز غلط ہے توایسے لوگ جاہل وکاذب ہیں۔ 
اختلاف  کی پہلی وجہ
مجتہدین و محدثین کرام نے جب مختلف روایات اور قرونِ اولیٰ کے لوگوں کےعمل پر غور کیا تو دو نقطۂ نظر سامنے آئے۔
پہلا نقطۂ نظر
کچھ حضرات نے یہ سمجھا کہ رفع یدین تکبیر فعلی ہے یعنی تعظیم عملی ہے، اور نماز کے لئے زینت ہے، امام شافعیؒ سے ایک موقع پر پوچھا گیا کہ رکوع میں جاتے ہوئے رفع یدین کرنے کی کیا وجہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ’’اس کی وہی حکمت ہے جو تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کی ہے، یعنی اﷲتعالیٰ کی تعظیم کرنا، اور یہ ایک معمول بہا سنت ہےجس میں صواب کی امید ہے، اور جیسے صفا و مروہ پر اور دوسرے موقعوں پر رفع یدین کیا جاتا ہے‘‘۔ (نیل الفرقدین: ص۴)
حضرت سعید بن جبیرؒنے رفع یدین کی حکمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’رفع یدین کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ آدمی اپنی نماز کو مزین کرتا ہے‘‘۔(نیل الفرقدین: ص۵)
جن حضرات کا یہ نقطۂ نظر بنا انھوں نے رفع یدین کی روایات کو ترجیح دی، اور ان کو معمول بہابنایا۔
دوسرا  نقطۂ نظر
دوسرا نقطۂ نظر یہ ہےکہ رفع یدین کا مقصد تَحَرُّم ہے جیسے سلام کے وقت دائیں بائیں منہ پھیرنے کا مقصد تَحلُّل ہے، چنانچہ نماز کے شروع میں تَحَرُّم قولی یعنی تکبیرتحریمہ اور تَحَرُّم فعلی یعنی رفع یدین کو جمع کیا گیا ہے، تاکہ قول وعمل میں مطابقت ہوجائے، اس موقع کے علاوہ نماز کے درمیان تَحَرُّم فعلی کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں، بلکہ وہ محض ایک حرکت ہےاور حرکت نماز کے منافی ہے۔مسلم شریف میں ہے کہ حضوراکرم ﷺ مسجد میں تشریف لائے، آپ ﷺ نے دیکھا کہ لوگ نماز پڑھتے ہیں اور السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہتے وقت دونوں جانب ہاتھ سے اشارہ کرتے ہیں، اس پر آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ: ’’کیا بات ہے کہ آپ لوگ ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہیں جیسے کہ وہ بدکے ہوئے گھوڑوں کی دمیں ہوں؟ آپ لوگوں کے لئے یہ کافی ہے کہ ہاتھ رانوں پر رکھے ہوئے دائیں بائیں اپنے بھائیوں کو سلام کریں‘‘۔ (صحیح مسلم، جلد نمبر ۲، کتاب الصلاۃ، باب عَنِ الإِشَارَةِ بِالْيَدِ وَرَفْعِهَا عِنْدَ السَّلاَمِ وَإِتْمَامِ الصُّفُوفِ الأُوَلِ وَالتَّرَاصِّ فِيهَا وَالأَمْرِ بِالاِجْتِمَاعِ، رقم الحدیث ۹۷۰)
علاوہ  ازیں ترمذی شریف کی روایت  میں نماز کی حقیقت یہ بیان کی گئی ہے:
’’نماز دو دو، دو دو رکعتیں ہیں یعنی ہر رکعت پر قعدہ ہے، اور فروتنی ہے، اور گڑگڑانا ہے، اور مسکین بننا ہے، اور آپ اپنے دونوں ہاتھ اپنے پروردگار کے سامنے اس طرح اٹھائیں کہ ہتھیلیاں چہرے کی طرف ہوں اور آپ کہیں اے میرے رب! اے میرے رب! اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ ایسا اور ایسا ہے (یعنی ناپسندیدہ بندہ ہے اور اس کی نماز ناقص ہے)‘‘۔ (جامع ترمذی: جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر ۵۱)
اس روایت میں نماز کی جو حقیقت بیان کی گئی ہےوہ اس بابت کی مُقتَضِی ہے کہ نماز میں زیادہ سے زیادہ سکون ہونا چاہیئے، اور نماز میں بار بار ہاتھ اٹھاناظاہر ہے کہ اس مقصد کو فوت کرتا ہے۔جن حضرات کا یہ نقطۂ نظر بنا انھوں نے ترکِ رفع یدین کی روایات کو ترجیح دی۔
اختلاف  کی دوسری وجہ
اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مجتہدین کے درمیان اس بات میں اختلاف ہوا ہے کہ حضوراکرمﷺ کا پہلا عمل کونسا تھا اور آخری عمل کونسا؟یعنی رفع اصل ہے یا ترکِ رفع اصل ہے؟کچھ حضرات کا خیال یہ ہے کہ پہلے رفع صرف تکبیر تحریمہ کے وقت تھا، پھر تدریجاًدوسری جگہوں میں بھی بڑھایا گیا۔ اس کے بالمقابل دوسرا نقطۂ نظر اس سے بالکل مختلف ہے کہ پہلے نماز میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کیا جاتا تھا، پھر تدریجاًاس کو ختم کیا گیا۔اور صرف تکبیر تحریمہ کے وقت باقی رہا ، لہٰذا حضور اکرمﷺ کا آخری عمل ترکِ رفع ہے۔
اوریہی دوسرا نقطۂ نظر قرینِ صواب ہےکیونکہ احناف کے پاس اس کی معقول توجیہ بھی موجود ہےوہ یہ کہ نماز کے احکامات کا احادیث سے اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ نماز کے احکام تدریجاًحرکت سے سکون کی طرف منتقل ہوتے رہے ہیں۔ ابتداءِ اسلام میں نماز میں بات چیت کرنا جائزتھالیکن بعد میں اسے منسوخ کرکے بات چیت کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ پہلے عمل کثیر سے نماز فاسد نہیں ہوتی تھی لیکن بعد میں اسے مفسدصلوٰۃقرار دے دیا گیا۔ پہلے نماز میں التفات کی گنجائش تھی لیکن بعد میں وہ بھی منسوخ ہوگیا۔ اسی طرح شروع میں کثرت رفع یدین کی بھی اجازت تھی کہ ہر خفض ورفع اور ہر انتقال کے وقت مشروع تھاپھر اس میں کمی کی گئی اور صرف پانچ مواقع پرجائزرکھاگیا۔ پھر بعد میں مزید کمی کی گئی اور چار جگہ مشروع رہ گیا۔ پھر اسی طرح اس میں مسلسل کمی کی جاتی گئی یہاں تک کہ وہ صرف تکبیرتحریمہ تک ہی باقی رہ گیا۔
احادیث کا اگر جائزہ لیاجائے تو درج ذیل مواقع پر رفع یدین کرنے کا ذکر ملتا ہےاور ان ہی مواقع پر ترکِ رفع کا بھی ذکر ملتا ہے۔
۱۔ سلام پھیرتے وقت۔ (صحیح مسلم، کمافی روایۃحضرت جابر بن سمرۃؓ)
۲۔ سجدے میں جاتے وقت۔ (سنن نسائی، کمافی روایۃحضرت مالک بن حویرثؓ)
۳۔ سجدے سے سراٹھاتے وقت (یعنی دو سجدوں کے درمیان)۔ (سنن نسائی، کمافی روایۃحضرت مالک بن حویرثؓ)
۴۔ دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے وقت (یعنی دوسری اورچوتھی رکعت کے شروع میں)۔ (سنن نسائی،کمافی روایۃحضرت عبداﷲ بن عباسؓ) (سنن ابی داؤد، کمافی روایۃ حضرت وائل بن حُجرؓ)
۵۔ ہرتکبیراورہراونچ نیچ پر۔ (سنن ابی داؤد، کمافی روایۃ حضرت وائل بن حُجرؓ) (سنن ابن ماجہ، کمافی روایۃحضرت عبداﷲ بن عباسؓ، حدیث عُمَیربن بن قتادہؓ حبیب و لفظہ یَرفَعُ یدیہ مع کل تکبیر)
۶۔ تیسری رکعت کے شروع میں۔ (صحیح بخاری، کمافی روایۃحضرت عبداﷲ بن عمرؓ)
۷۔ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت ۔ (صحیح بخاری، کمافی روایۃحضرت عبداﷲ بن عمرؓ)
۸۔ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت۔ (جامع ترمذی،کمافی روایۃ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ(صحیح البخاری، کمافی روایۃ حضرت ابو حمید ساعدیؓ)
رفع یدین کے یہ تمام مواقع احادیث کی کتابوں میں مروی ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج موجودہ دور کے غیرمقلدین حضرات صرف تین موقعوں پر رفع یدین کو فرض قرار دیتے ہیں حالانکہ بقول غیرمقلدین حضرات کے رفع یدین نماز کی زینت ہے اورباعثِ اجروصواب ہےتو پھر یہ حضرات صرف تین مقامات پر یہ زینت و صواب حاصل کیوں کرتے ہیں بقیہ مقامات پر کیوں نہیں لہٰذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ یقیناً باقی جگہوں پر یہ حضرات بھی رفع یدین کو منسوخ ہی مانتے ہونگے، تب ہی تو ان جگہوں پر یہ بھی رفع یدین کرنا پسند نہیں کرتے۔لہٰذا فی الجملہ نسخ تو ان حضرات نے بھی تسلیم کرلیایعنی مذکورہ بالا سات جگہوں میں سے پانچ جگہوں میں قائلینِ رفع بھی نسخ تسلیم کرتے ہیں، اور آٹھویں  جگہ یعنی تکبیر تحریمہ کے بارے میں تو سب کا اتفاق ہے کہ نسخ نہیں ہوا ہے۔
اب اختلاف صرف یہ ہے کہ رکوع میں جاتے، رکوع سے اٹھتےاور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے  وقت  رفع یدین معمول بہا ہےیا منسوخ؟
مذکورہ بالا تمام مباحثے کی روشنی میں معقول نقطۂ نظر صرف دو ہی ہوسکتے ہیں، یا توصرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین مانا جائے، باقی روایات کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ سب روایات صحیح ہیں مگر منسوخ ہوگئی ہیں، یا پھر رفع یدین کرنے کی تمام روایات کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے ہرتکبیراورہر اونچ نیچ میں رفع یدین کیا جائے۔ رفع یدین کی صرف چند ایک روایات کو لےکر درمیان میں (یعنی رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے اور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے ہوئے) رفع یدین کرنااور باقی تمام روایات کو چھوڑکر دیگر مقامات پر رفع یدین ترک کردینا کوئی معقول نقطۂ نظر نہیں ہے۔
امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ نے یہ سمجھا کہ رفع یدین تدریجاً ختم کیاگیا ہے، اور آخر میں صرف ایک جگہ یعنی تکبیر اولیٰ کے وقت رہ گیا ہے، اور ان کا یہ سمجھنا زیادہ مدلل اور قابل قبول ہے کیونکہ مذاہب ِ اربعہ کے دوسرے دو بڑے امام یعنی امام شافعیؒ اور امام احمدؒ بھی فی الجملہ نسخ تسلیم کرتے ہیں۔اور ان کے ساتھ غیرمقلدین حضرات بھی اسی کے قائل ہیں۔
لیکن امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور موجودہ دور کے غیرمقلدین حضرات کا نقطۂ نظر قابل قبول نہیں ہے کیونکہ وہ ایک طرف نسخ بھی تسلیم کرتے ہیں، اور دوسری طرف آخری روایات بھی نہیں لیتے، بلکہ درمیانی مرحلہ کی ایک روایت لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی یہ بات کسی طرح معقول نہیں ہوسکتی۔
اب میں انشاءاﷲصحیح احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات ثابت کرونگا کہ رفع یدین ابتداءِ اسلام میں نماز کی ہر اونچ نیچ اور سلام پھیرتے وقت کیا جاتا تھااور اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جب تک چاہا یہ  عمل نمازمیں کیا جاتا رہا، پھر یہ عمل منسوخ ہوگیا اور آہستہ آہستہ نماز میں اپنے ہر مقام سے ترک کردیا گیا۔
رفع یدین کی منسوخیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے ناسخ اور منسوخ کو سمجھنا پڑے گا کہ ناسخ و منسوخ کیا ہے، اور قرآن و حدیث میں یہ کس طرح سے بیان ہوا ہے۔
ناسخ اور منسوخ کی لغوی تعریف
لغوی اعتبار سے نسخ کے دو معنیٰ  ہیں۔ ایک تو "ازالہ" ہے یعنی کسی چیز کو زائل کرنا جیسے سورج نے سائے کو زائل کر دیا۔ دوسرا معنیٰ ہے کسی چیز کو نقل کرنا جیسا کہ اگر کسی کتاب میں سے کوئی بات نقل کی جائے تو کہا جائے گا کہ میں نے کتاب کو نسخ کر دیا ہے۔ ناسخ، منسوخ کو زائل کر دیتا ہے یا پھر اسے منتقل کر دیتا ہے۔
ناسخ اور منسوخ کی اصطلاحی تعریف
اصطلاحی مفہوم میں شریعت کے ایک حکم کی جگہ دوسرا حکم جاری کرنے کا نام 'نسخ' ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
مَا نَنسَخْ مِنْ ءَايَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍۢ مِّنْهَآ أَوْ مِثْلِهَآ ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ۔ }سورۃ البقرہ ۱۰۴{
ترجمہ: جس آیت کو ہم منسوخ کردیں، یا بھلا دیں  تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اسکے جیسی ،کیاتجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں نسخ کے معنی ٰبدل کے ہیں، مجاہدؒ فرماتے ہیں مٹانے کے معنی ٰہیں جو (کبھی) لکھنے میں باقی رہتا ہے اور حکم بدل جاتا ہے، حضرت ابن مسعودؓ کے شاگرد اور ابو العالیہؒ اور محمد بن کعب قرظیؒ سے بھی اسی طرح مروی ہے، ضحاکؒ فرماتے ہیں بھلا دینے کے معنیٰ ہیں، عطا ؒفرماتے ہیں چھوڑ دینے کے معنی ٰہیں ، سدیؒ کہتے ہیں اٹھا لینے کے معنیٰ ہیں، جیسے آیت’’ الشیخ والشیختہ اذا زنیا فارجمو ھما البتتہ‘‘ یعنی زانی مرد و عورت کو سنگسار کر دیا کرو اور جیسے آیت’’لو کان لابن ادم و ادیان من ذھب لابتغی لھما ثالثا‘‘ یعنی ابن آدم کو اگر دو جنگل سونے کے مل جائیں جب بھی وہ تیسرے کی جستجو میں رہے گا۔ امام ابن جریرؒ فرماتے ہیں کہ احکام میں تبدیلی ہم کر دیا کرتے ہیں حلال کو حرام، حرام کو حلال، جائز کو ناجائز، ناجائز کو جائز وغیرہ امر و نہی، روک اور رخصت، جائز اور ممنوع کاموں میں نسخ ہوتا ہے ہاں جو خبریں دی گئی ہیں واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں رد و بدل و ناسخ و منسوخ نہیں ہوتا۔
نسخ کے لفظی معنیٰ نقل کرنے کے بھی ہیں جیسے کتاب کے ایک نسخے سے دوسرا نقل کر لینا۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ ایک حکم کے بدلے دوسرا حکم ہوتا ہے اس لئے نسخ کہتے ہیں خواہ وہ حکم کا بدل جانا ہو خواہ الفاظ کا۔ علماء اصول کی عبارتیں اس مسئلہ میں گو مختلف ہیں مگر معنیٰ کے لحاظ سے سب قریب قریب ایک ہی ہیں۔ نسخ کے معنیٰ کسی حکم شرعی کا پچھلی دلیل کی رو سے ہٹ جانا ہے کبھی ہلکی چیز کے بدلے بھاری اور کبھی بھاری کے بدلہ ہلکی اور کبھی کوئی بدل ہی نہیں ہوتا ہے۔ نسخ کے احکام اس کی قسمیں اس کی شرطیں وغیرہ ہیں اس کے لئے اس فن کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے تفصیلات کی بسط کی جگہ نہیں طبرانی میں ایک روایت ہے کہ ’’دو شخصوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سورت یاد کی تھی اسے وہ پڑھتے رہے ایک مرتبہ رات کی نماز میں ہر چند اسے پڑھنا چاہا لیکن یاد نے ساتھ نہ دیا گھبرا کر خدمت نبوی ﷺمیں حاضر ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا یہ منسوخ ہو گئی اور بھلا دی گئی دلوں میں سےنکال لی گئی تم غم نہ کرو بےفکر ہو جاؤ‘‘۔(تفسیرابن کثیرؒ)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ بْنُ الشِّخِّيرِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْسَخُ حَدِيثُهُ بَعْضُهُ بَعْضًا، كَمَا يَنْسَخُ الْقُرْآنُ بَعْضُهُ بَعْضًا"۔
’’سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  ہماری (بعض) احادیث بعض (احادیث) کو اس طرح منسوخ کرتی ہیں جیسا کہ منسوخ کرتا ہے قرآن کا بعض حصہ بعض کو‘‘۔[صحيح مسلم: كِتَاب الْحَيْضِ، بَاب إِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ، رقم الحديث۵۲۵]
حدیث میں ہے کہ’’
إنما الماء من الماء“  (صحیح بخاری) یعنی غسل انزال سے واجب ہوگا۔
 (دلیلِ حدیث سے) باجماع امت منسوخ ہے۔محض جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے انزال ہو یا نہ ہو۔
 دليل:’’ لما في الصحیحین من حدیث أبي ھریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : إذا جلس بین شعبھا الأربع ثم جھدھا فقد وجب الغسل أنزل أو لم ینزل وأما قولہ علیہ الصّلاة والسلام إنما الماء من الماء فمنسوخ بالإجماع وفي حاشیة مسلم: ۱۱/۲۹۶ (۸/۸۱/۳۴۳) وقد عقب الإمام مسلم علی ھذا الحدیث فروی بإسنادہ عن ابن الشخیر قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینسخ حدیثہ بعضہ بعضاً کما ینسخ القرآن بعضہ بعضاً ۔ (شامی: ج۱ ،ص۲۹۹،ط۔ زکریادیوبند، کتاب الطھارة)
اور امام نووی لکھتے ہیں’’ اعلم أنالأمة مجتمعة الآن علی وجوب الغسل بالجماع وإن لم یکن معہ إنزال ‘‘ (مسلم شریف: ج۱، ص۱۵۵)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: "یہ حکم، غسل انزال کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ابتدائے اسلام میں آسانی کی وجہ سے تھا، پھر اسے منع فرما دیا گیا،  (یعنی یہ حکم منسوخ قرار دے دیا گیا)"۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، دارمی)[مشکوۃ شریف:جلد اول،رقم الحدیث ۴۲۱ (۳۶۸۲۰) - پاکی کا بیان :غسل کا بیان]
اصولِ حدیث:  ناسخ ومنسوخ احادیث کی پہچان کا طریقہ
ذكر مسلم رحمه الله تعالى - في هذا الباب الأحاديث الواردة بالوضوء مما مست النار ، ثم عقبها بالأحاديث الواردة بترك الوضوء مما مست النار ، فكأنه يشير إلى أن الوضوء منسوخ ، وهذه عادة مسلم وغيره من أئمة الحديث يذكرون الأحاديث التي يرونها منسوخة ، ثم يعقبونها بالناسخ۔[شرح مسلم للنووي: كتاب الحيض، باب الوضوء مما مست ۲/۱۷۹]
ترجمہ: امام مسلم ؒ  اس باب میں پہلے ان احادیث کو لائے  ہیں جن میں آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنے کا حکم ہے، پھر ان احادیث کو لائے  ہیں جن میں آگ پر پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو کرنے کے ترک (چھوڑدینے، وضو نہ کرنے) کا ذکر ہے، یہ عادت ہے امام مسلم اور ان کے علاوہ ائمہِ حدیث (حدیث کے اماموں) کی کہ پہلے وہ ان احادیث کو لاتے ہیں، جن کو وہ منسوخ سمجھتے ہیں پھر ان کو (لاتے ہیں) جو ناسخ ہوتی ہیں۔ [شرح مسلم للنووی : ص ١٥٦]
جن کتب میں صرف ایک قسم کی احادیث ہیں (مَثَلاً: صحيح بخاری) ان سے کسی کا ناسخ و منسوخ ہونا معلوم نہیں ہوگا، اس لئے ان کتب کو دیکھنا پڑے گا جن میں دونوں (منسوخ و ناسخ) قسم کی احادیث مروی ہوں۔ (مَثَلاً:  موطا امام محمد، مصنف ابن ابی شیبہ، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن طحاوی وغیرہ) جن میں پہلے رفع یدین کرنے کی روایات لائی گئی ہیں پھر ترکِ رفع یدین کی روایات لائی گئی ہیں۔
مندرجہ بالا بیان کردہ قرآن کی آیت اور احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بعض آیاتِ قرآنی نے بعض آیات کو منسوخ کردیا ، اسی طرح کتب احادیث میں موجود ایسی بہت سی احادیث ہیں جنھیں دوسری احادیث نے منسوخ کردیا۔یہاں یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ احادیث مبارکہ میں اگرکسی عمل کے کرنے کا حکم آیا ہے اور کسی دوسری حدیث سے اس عمل کے نہ کرنے کی دلیل ملتی ہے تو اس کا مطلب بعد والے حکم نے پہلے دیئے گئے حکم کو منسوخ کردیا، کیونکہ جب تک کوئی عمل کیا نہ جائےتب تک اس کے کرنے سے روکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔رفع یدین کرنے اور نہ کرنے کے معاملے میں بھی ہمیں اسی قسم کی احادیث ملتی ہیں جن میں بعض احادیث سے اس کے کرنے کی دلیل ملتی ہے اور بعض سے اس کے نہ کرنے کی بھی دلیل ملتی ہے اور اس کے کرنے سے منع کرنے کی بھی۔  اب میں آپ کے سامنےاحادیث مبارکہ کی روشنی میں رفع الیدین کے نسخ کے دلائل پیش کرتا ہوں جن کی بناء پر احناف رفع الیدین کو مکروہ عمل کہتے ہیں۔
۱۔ قرآن مجیدسے رفع الیدین کی منسوخیت کی پہلی دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ‘‘۔ (سورۃ المؤمنون:۱،۲)
ترجمہ:تحقیق وہ ایمان والے کامیاب ہوگئے،جو اپنی نمازوں کو خشوع وخضوع سے ادا کرتے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت امام حسن بصریؒ تابعی بیان کرتے ہیں: ’’خاشعون الذین لایرفعون ایدیھم فی الصلوٰۃ الا فی التکبیرۃ الاولیٰ‘‘ ۔(تفسیر سمر قندی :ج۲،ص۴۰۸)
ترجمہ:خشوع وخضوع کرنے والے وہ لوگ ہیں جو نماز کی ابتداء میں صرف ایک بار رفع یدین کرتے ہیں۔
یعنی بار بار رفع یدین کرنا نماز میں خشوع وخضوع کے منافی ہے، اس لیئے صرف ایک بار شروع میں ہی رفع یدین کرنا چاہیئے۔ اس کے بعد رکوع وسجود کے وقت رفع یدین کرنا درست نہیں سوائے تکبیر اولیٰ کے۔
اسی آیت کے بیان میں امام بیہقی علیہ الرحمۃ نماز میں خشوع و خضوع کا باب رقم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جماع ابواب الخشوع فی الصلوٰۃ والاقبال علیما: قال اللہ جل ثناؤہ،قد افلح المؤمنون الذین ھم فی صلوٰتھم خاشعون…عن جابر بن سمرۃ…قال دخل علینا رسول اللہا ونحن رافعی ایدینا فی الصلوٰۃ فقال مالی اراکم رافعی ایدیکم کانھا اذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلوٰۃ‘‘۔ (السنن الکبریٰ: ج۲، جماع ابواب الخشوع فی الصلوٰۃ والاقبال علیما،ص۲۸۰،۲۷۹)
ترجمہ:’’نماز میں خشوع وخضوع کرنے کا بیان۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: تحقیق وہ ایماندار فلاح پاگئے جو اپنی نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جناب رسول اﷲﷺ ہماری طرف تشریف لائے۔ (ہم نماز پڑھ رہے تھے) فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں شمس قبیلے کے شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز میں سکون سے رہا کرو ‘‘۔
سورۃ المؤمنون کی تفسیر پر جلیل القدر تابعی حضرت حسن بصریؒ کا بیان اور امام بیہقی ؒ کااسی آیت  کی وضاحت میں حضرت جابر بن سمرۃؓ کی حدیث بیان کرنا رفع الیدین کی منسوخیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
غیرمقلدین حضرات حضرت جابر بن سمرۃ رضی اﷲ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث پراحناف  (دیوبند)کے جید علماءشیخ الہند جناب انور شاہ کشمیریؒ کی کتاب نیل الفرقدین، حضرت محمود الحسن دیوبندیؒ  کی کتاب تقاریر شیخ الہنداور حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی کتاب درس ترمذی کےحوالےپیش کرتے ہوئے یہ بات نقل کرتے ہیں کہ  ’’حضرت جابربن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث رفع عندالسلام ہی سے متعلق  ہے‘‘۔ غیرمقلدین حضرات کی یہ بات بالکل غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت جابربن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے اس باب میں دو احادیث رقم ہیں، ایک حدیث میں سلام کے رفع یدین کا ذکر ہے جبکہ دوسری حدیث میں سلام کا کوئی ذکر نہیں، لہٰذاشیخ الہندجناب انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت محمود الحسن دیوبندیؒ اور حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے اقوال اس حدیث کے بارے میں ہیں جس میں سلام کا ذکر ہے، دوسری حدیث کے بارے میں نہیں جس کو امام بیہقیؒ نے سورۃ المؤمنوں  کی تفسیر میں بیان کیا ہے۔ دونوں احادیث کی سنداور متن ملاحضہ فرمائیں۔
۱۔  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلاَةِ‏"۔‏ قَالَ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَرَآنَا حَلَقًا فَقَالَ‏"‏ مَا لِي أَرَاكُمْ عِزِينَ‏"‏۔‏ قَالَ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ ‏"أَلاَ تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلاَئِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا‏"‏۔‏ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلاَئِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا قَالَ ‏"يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ‏"۔’’حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جناب رسول اﷲﷺ ہماری طرف تشریف لائے۔ (ہم نماز پڑھ رہے تھے) فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں شمس قبیلے کے شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز میں سکون سے رہا کرو‘‘۔  (صحیح مسلم، جلد نمبر ۲، کتاب الصلاۃ، باب الأَمْرِ بَالسُّكُونِ فِي الصَّلاَةِ، رقم الحدیث ۹۶۸)
۲۔  وَحَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ فُرَاتٍ، يَعْنِي الْقَزَّازَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَكُنَّا إِذَا سَلَّمْنَا قُلْنَا بِأَيْدِينَا السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ فَنَظَرَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏ "مَا شَأْنُكُمْ تُشِيرُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ إِذَا سَلَّمَ أَحَدُكُمْ فَلْيَلْتَفِتْ إِلَى صَاحِبِهِ وَلاَ يُومِئْ بِيَدِهِ‏"۔’’حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اﷲﷺ کے ساتھ جب ہم نمازپڑھتےتونماز کے ختم پر دائیں بائیں السلام علیکم ورحمۃ اﷲکہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ یہ ملاحضہ فرماکر جناب رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا تم لوگ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم و رحمۃ اﷲ کہا کرو‘‘۔(صحیح مسلم، جلد نمبر ۲، کتاب الصلاۃ، باب عَنِ الإِشَارَةِ بِالْيَدِ وَرَفْعِهَا عِنْدَ السَّلاَمِ وَإِتْمَامِ الصُّفُوفِ الأُوَلِ وَالتَّرَاصِّ فِيهَا وَالأَمْرِ بِالاِجْتِمَاعِ، رقم الحدیث ۹۷۰)
چونکہ دونوں احادیث میں ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ‘‘کا فقرہ آگیا ہے جس کی وجہ سے حضرات کا ذہن اس طرف منتقل ہوگیا ہے کہ یہ دونوں احادیث ایک ہی واقع سے متعلق ہیں، لیکن جو شخص ان دو حدیثوں کے سیاق و سباق پرغورکرے گا تو اسے یقیناً یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی کہ یہ دونوں احادیث الگ الگ واقعہ سے متعلق ہیں اور ان دونوں کا مضمون ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ دونوں احادیث کی سند اور متن میں زمین و آسمان کا فرق ہے، لہٰذا ان دونوں احادیث کوایک کہنا اور دونوں احادیث سے ایک ہی مسئلہ اخذ کرنا عقل سے بالاتر ہے۔ دونوں احادیث میں فرق ملاحضہ فرمائیں:
۱۔ پہلی حدیث میں ہے کہ ہم اپنی نماز میں مشغول تھے کہ رسول اﷲﷺ تشریف لائے اور دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اﷲﷺ کے ساتھ جب ہم نمازپڑھتے۔
۲۔ پہلی حدیث میں ہے کہ رسول اﷲﷺنے صحابہ کرامؓ کو نماز میں رفع یدین کرتے دیکھااور اس پر نکیرفرمائی اور دوسری حدیث میں ہے کہ صحابہ کرامؓ سلام پھیرتے وقت دائیں بائیں ہاتھ اٹھاکراشارہ کرتے تھے جس پر رسول اﷲﷺ نے نکیرفرمائی۔
۳۔ پہلی حدیث میں آپﷺ نے نماز میں سکون اختیار کرنے کا حکم فرمایااور دوسری حدیث میں آپﷺ نے دائیں بائیں ہاتھ اٹھاکر اشارہ کرنے سے منع فرمایا۔
۴۔ دونوں احادیث الگ الگ سندوں سے مذکورہیں۔ اس لئے دونوں حدیثوں کو جن کا الگ الگ مخرج ہے۔ الگ الگ واقعہ ہے۔ الگ الگ حکم ہے، ایک ہی واقعہ سے متعلق کہہ کر دل کو تسلی دینا کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔
مزید اس حدیث مبارکہ پر جو یہ اشکال کیا جاتاہے کہ اس حدیث کے بارے میں محدثین کی رائے یہ ہے کہ یہ حدیث تشہد کے بارے ہے۔یہ اشکال بالکل غلط ہے،کیونکہ کسی محدث کا کسی حدیث کو کسی باب کے تحت نقل کرنا، یہ محدث کی اپنی ذاتی رائے اور تحقیق ہے۔جس سے اختلاف کیا جاسکتاہے۔اس کا یہ معنیٰ نہیں ہوتا کہ اس حدیث کا وہی مطلب نکلتاہے جووہ محدث بیان کررہا ہے،بعض مرتبہ ایک محدث کسی روایت کو ایک باب کے تحت نقل کرتا ہے اور دوسرا محدث اسی حدیث کوکسی دوسرے عنوان کے تحت لکھتا ہے یہ بات علم حدیث کے ایک عام طالب علم سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ یہی بات حدیث مذکورہ کے متعلق بھی ہے۔ کیونکہ اس حدیث (جابر بن سمرۃ رضی اﷲ عنہ والی روایت) کو اگر بعض محدثین نے تشہد وغیرہ کے باب میں نقل کیا ہے توکیا ہوا کئی دوسرے محدثین نے اسے خشوع وخضوع، نمازمیں سکون اور حرکت نہ کرنے کے عنوان کے تحت بھی نقل کیا ہےاور اسے رفع یدین نہ کرنے کی بھی دلیل بنایا ہے۔مثلاً:
۱۔ امام بخاری ؒومسلم ؒکے استاذامام ابن ابی شیبہؒ نے اسے ’’من کرہ رفع الیدین فی الدعا‘‘کے تحت لکھا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ: ج۲،ص۳۷۰، طبع ملتان)
۲۔ امام سراجؒ نے اسے ’’باب فی السکون فی الصلوٰۃ‘‘ میں نقل کیا ہے۔(مسند سراج :ص ۲۴۳،۲۴۲)
۳۔ امام بیہقیؒ نے اسے ’’جماع ابواب الخشوع فی الصلوٰۃ والاقبال علیہما‘‘ کے تحت ’’باب الخشوع فی الصلوٰۃ‘‘ میں درج کیا ہے۔ (سنن کبریٰ :ج۲،ص۲۷۹)
۴۔ امام ابوعوانہؒ نے اسے’’بیان النھی عن الاختصار فی الصلوٰۃ وایجاب الانتصاب والسکون فی الصلوٰۃ الا لصاحب العذر‘‘کے تحت لکھا ہے۔(مسند ابی عوانہ:ج۲،ص۸۵)
۵۔ غیرمقلد عالم امام شوکانیؒ نے اسے رفع یدین نہ کرنے کی روایات میں نقل کیا ہے۔ (نیل الاوطار :ج۲، ص۱۸۴،باب رفع الیدین وبیان صفتہ ومواضعہ)
۶۔ امام بخاریؒ کی طرف منسوب کتاب’’جزء رفع الیدین‘‘سے ثابت ہے کہ اسے ’’رفع یدین‘‘ نہ کرنے کی دلیل اس دور میں بھی بنایا گیا تھا۔ (ملاحظہ ہو: ص۳۲،طبع گرجاکھی کتب خانہ گوجرانوالہ)
۷۔ ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی اس روایت کو رفع یدین نہ کرنے کی روایات میں ذکر کرکے اس چیز کو تسلیم کیا ہے کہ ان کے زمانے یا اس سے بھی قبل کے لوگوں نے اس روایت سے رفع یدین نہ کرنا مراد لیا ہے۔(تلخیص الحبیر: ج۱،ص۲۲۱)
۸۔ علامہ نوویؒ کے عمل سے بھی یہ بات ظاہر ہے۔(ملاحظہ ہو: المجمو ع شرح المہذب ،ج۳،ص؛ السندھی علی النسائی ج۱،ص۱۷۶)
۹۔ امام ابن حبان ؒنے اس حدیث کو ’’ذکر مایستحب للمصلی رفع الیدین عند قیامہ من الرکعتین من صلوٰ تہ‘‘میں درج کیا ہے۔ (صحیح ابن حبان :ج۴ ،ص۱۷۸)
اگر بالفرض دونوں مواقعوں کی احادیث  کو ایک تسلیم کرلیا جائے تب بھی سلام کے وقت کے رفع یدین پر دیگر مواقع  کے رفع یدین کو قیاس کیا جاسکتا ہے، کیونکہ جب سلام کے وقت رفع یدین نماز کے مُنافی ہے اور سکون کو ختم کرنے والا ہے تو دوسرےمواقع میں رفع دیدین کا حال بھی یہی ہوگا، لہٰذاسب کا ایک ہی حکم ہوگا، اس لئے یہ روایت علاوہ دیگرقرائن کے نسخ کی واضح دلیل ہے۔
غیرمقلدین حضرات کے اشکالات کے جوابات
پہلااشکال: غیرمقلدین حضرات حضرت جابر بن سمرۃ رضی اﷲ عنہ کی حدیث سے رفع یدین کی منسوخیت کے ثبوت پر یہ اشکال پیش کرتے ہیں کہ، ’’اس حدیث کے حکم سے تو دیگرمقامات کےرفع یدین سمیت تکبیر اولیٰ کا رفع یدین بھی منسوخ ہوجاتا ہےکیونکہ رسول اﷲﷺ نے نماز میں سکون سے رہنے کا حکم دیا ہےاور رفع یدین کرنے سے منع فرمایا ہے، تو پھر حنفی حضرات تکبیر اولیٰ کا رفع یدین کیوں کرتے ہیں‘‘؟
جواب: تمام غیرمقلدین حضرات سے گزارش ہے کہ وہ حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیں۔رسول اﷲﷺ نے حکم فرمایاکہ’’نماز میں سکون سے رہا کرو‘‘یعنی نماز کے اندرسکون سے رہنے کا حکم ہے جبکہ جس وقت نمازی تکبیر اولیٰ کہتے ہوئے رفع یدین کر رہا ہوتا ہے اس وقت وہ نماز میں داخل ہی نہیں ہوا ہوتا۔  جب تک کہ نمازی اﷲاکبر کا حرف ’ر‘ زبان سے ادا نہیں کرلیتا، تب تک وہ نماز میں داخل نہیں ہوتااور تب تک اس پر دیگرحلال اشیاءحرام نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ تکبیراولیٰ کا رفع یدین اس حکم میں داخل نہیں کیونکہ وہ نماز کے اندر والے رفع یدین میں نہیں بلکہ نماز کے باہر والے رفع یدین میں آتا ہے۔اس کی دلیل ہمیں ذیل میں پیش  کردہ حدیث سے ملتی ہے۔
’’حدثنا عثمان بن ابی شیبة ثنا وکیع عن سفیان عن ابی عقیل عن علی قال قال رسول ﷲﷺۖ مفتاح الصلوة اطہور و تحریمھا التکبیرو تحلیلھا التسلیم‘‘۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے رو ا یت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرما یا: ’’نماز کی کلید صرف وضو ہے اور اس کا تحریمہ صرف اللہ اکبر کہنا ہے اور نماز سے صرف السلام علیکم و رحمۃ اللہ ہی سے نکلا جاسکتا ہے‘‘۔(ابوداؤد: جلد ١، صفحہ٢٧٩، حدیث٦١٤، باب فی تحریم الصلوة و تحلیلھا) (ابن ماجہ: جلد ١، صفحہ ١٨١، باب فی مفتاح الصلوة الطھور) (صحیح الترمذی: جلد ١، صفحہ١٨٠، باب ماجاء فی تحریم الصلا ة وتحلیلھا)
دوسرااشکال: غیرمقلدین حضرات حضرت جابر بن سمرۃ رضی اﷲ عنہ کی حدیث سے رفع یدین کی منسوخیت کے ثبوت پر یہ اشکال بھی کرتے ہیں،’’کہ اس حدیث کے حکم سے تو نمازِعیدین میں کہی جانےوالی (۶) زائد تکبیرات کے رفع یدین اور نمازِوترمیں دعاءِ قنوت سے پہلےکیا جانے والا رفع یدین بھی منسوخ ہوجاتا ہے تو پھر حنفی حضرات ان نمازوں میں رفع یدین کیوں کرتے ہیں؟‘‘۔
جواب: میری اس بات سے تو تمام غیرمقلدین حضرات بھی اتفاق کریں گے کہ حضرت جابررضی اﷲ عنہ کی یہ حدیث نمازِ پنجگانہ کے بارے میں ہے کسی خاص نماز (یعنی نمازِعیدین یانمازِوتر) کے بارے میں نہیں۔یہی وجہ ہے کہ تمام محدثین نے اس حدیث کو باب الصلاۃ میں رقم کیا ہے باب الصلاۃ العیدین یا باب الصلاۃ الوتر میں نہیں۔لہٰذا یہ بات واضح ہوگئی کہ رسول اکرمﷺ نے یہ حکم نمازِ پیجگانہ (یعنی پانچ فرض نمازوں کےساتھ پڑھی جانی والی نمازوں) کے بارے میں ہےکسی خاص نماز (یعنی نمازِعیدین یا نمازِ وتر) کے بارے میں نہیں۔
دوسری بات یہ کہ احناف نمازمیں جن مواقعوں (یعنی رکوع میں جاتےوقت، رکوع سے اٹھتےوقت، سجدے میں جاتےاوراٹھتے وقت، دونوں سجدوں کے درمیان، دوسری رکعت کے شروع میں، تیسری رکعت کے شروع میں اور سلام پھیرتے وقت) کے رفع یدین کو منسوخ مانتے ہیں ان تمام مواقعوں پر رسول اﷲﷺ سے رفع یدین کرنا بھی ثابت ہےاورنہ کرنابھی ثابت ہےجبکہ اس کے برعکس نمازِ عیدین اور نمازِ وتر میں جن مواقعوں پر احناف رفع یدین کرتے ہیں ان مواقعوں پر رسول اﷲﷺ سے رفع یدین کرنے کی دلیل تو ملتی ہے لیکن نہ کرنے کی نہیں ملتی۔ اسی لئے ہم (احناف) ان مواقعوں پر رفع یدین کرتے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ نمازِ عیدین میںنہ اذان دی جاتی ہے اور نہ اقامت (تکبیر)کہی جاتی ہےاوراس کے پڑھنے کا طریقہ بھی عام نمازوں سے مختلف ہے لہٰذا اس کو نمازِ پنجگانہ سے مشابہت دینااوراس کے حکم کا اطلاق کرناعقل سے بالاترہے۔
چوتھی بات یہ کہ ہم (احناف) نمازِ عیدین اور نمازِوتر میں جن مقامات پر رفع یدین کرنے کے قائل ہیں وہ نمازِ پنجگانہ میں کیئےجانے والے رفع یدین کے مقامات سے بالکل الگ ہیں ۔ لہٰذااگر ہم نمازِ عیدین اور نمازِوتر میں ان مقامات پر رفع یدین کے قائل ہوتے جن مقامات پرمنسوخ سمجھتے ہیں تو اعتراض کی صورت بنتی تھی لیکن جب ہم ان نمازوں میں بھی ان مقامات پر رفع یدین کے قائل نہیں تو پھر اعتراض کس بات کا؟
غیرمقلدین حضرات کے اس اشکال پر ہمارا بھی حق بنتاہے کہ ہم بھی کچھ اشکال پیش کریں۔ غیرمقلدین حضرات جو وترکی تیسری رکعت میں بعدازرکوع رفع یدین کرنےکے بجائے عام دعاکی طرح ہاتھ اٹھاکردعائے قنوت پڑھتے ہیں، کیا اس عمل کے بارے میں زبیرعلی زئی صاحب یا کسی غیرمقلد کے پاس کوئی ایک صحیح صریح مرفوع حدیث ہے؟ اگرہے تو ذراپیش فرمائیں ورنہ اس قسم کے سطحی اعتراضات سے گریز فرمائیں۔
دعاء ِقنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، فتاویٰ علمائے حدیث
دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے چنانچہ اسود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دعائے قنوت میں سینہ تک اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تھے اور ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میں ہمارے ساتھ دعاء قنوت پڑھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں بازو ظاہر ہو جاتے اور خلاص سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس کو دیکھا کہ نماز فجر کی دعاء قنوت میں اپنے بازو آسمان کی طرف لمبے کرتے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ماہِ رمضان میں دعاء قنوت کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے اور ابو قلابہ اور مکحول بھی رمضان شریف کے قنوت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اورابراہیم سے قنوت وتر سے مروی ہے کہ وہ قرأۃ سے فارغ ہوکر تکبیر کہتے اور ہاتھ اٹھاتے پھر دعائے قنوت پڑھتے پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرتے اور روایت ہے وکیع سے وہ روایت کرتا ہے محل سے وہ ابراہیم سے کہ ابراہیم نے محل کو کہا کہ قنوت وتر میں یوں کہا کرو اور وکیع نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے قریب تک اٹھا کربتلایا اور کہا کہ پھر چھوڑ دیوے ہاتھ اپنے عمر بن عبدالعزیز نے نماز صبح میں دعاء قنوت کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور سفیان سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو دوست رکھتے تھے کہ وتر کی تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھ کر پھر تکبیر کہے اوردونوں ہاتھ اٹھاوے پھر دعائے قنوت پڑھے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ قنوت میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھاوے کہا ہاں مجھے یہ پسند آتا ہے۔ ابوداؤد نے کہا کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اسی طرح شیخ احمد بن علی المقریزے کی کتاب مختصر قیام اللیل میں ہے اور ابو مسعود اور ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی ان قاریوں کے بارے میں جو معونہ کے کنوئیں میں مارے گئے قنوت وتر میں دونوں ہاتھوں کااٹھانا مروی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تحقیق میں نے رسول اللہﷺ کو ان لوگوں پر جنہوں نے قاریوں کو قتل کیا تھا ہاتھ اٹھا کر بد دعاء کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسے ہی بیہقی کی کتاب مسمیٰ معرفت میں ہے۔ حررہ عبدالجبار العزنوی عفی عنہ (فتاویٰ غزنویہ: ص ۵۱)(فتاویٰ علمائے حدیث : جلد ۴ ،ص ۲۸۳)
۲۔ سلام پھیرتے وقت رفع الیدین کی منسوخیت کی دوسری دلیل
وَحَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ فُرَاتٍ، يَعْنِي الْقَزَّازَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَكُنَّا إِذَا سَلَّمْنَا قُلْنَا بِأَيْدِينَا السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ فَنَظَرَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏ "مَا شَأْنُكُمْ تُشِيرُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ إِذَا سَلَّمَ أَحَدُكُمْ فَلْيَلْتَفِتْ إِلَى صَاحِبِهِ وَلاَ يُومِئْ بِيَدِهِ‏"۔’’حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اﷲﷺ کے ساتھ جب ہم نمازپڑھتےتونماز کے ختم پر دائیں بائیں السلام علیکم ورحمۃ اﷲکہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ یہ ملاحضہ فرماکر جناب رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا تم لوگ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم و رحمۃ اﷲ کہا کرو‘‘۔(صحیح مسلم، جلد نمبر ۲، کتاب الصلاۃ، باب عَنِ الإِشَارَةِ بِالْيَدِ وَرَفْعِهَا عِنْدَ السَّلاَمِ وَإِتْمَامِ الصُّفُوفِ الأُوَلِ وَالتَّرَاصِّ فِيهَا وَالأَمْرِ بِالاِجْتِمَاعِ، رقم الحدیث ۹۷۰)
احادیث مبارکہ کا جائزہ لینے سے یہ بات صراحۃً معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کےابتدائی دورمیں نماز میں بہت سی چیزیں جائز تھیں جو بعد میں ختم کردی گئیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲعنہ سے نماز میں تطبیق کا عمل (یعنی رکوع میں دونوں رانوں کے درمیان ہاتھ جوڑ کررکھنا)ثابت ہےجس کوتمام صحابہؓ سمیت  پوری امت نے اجماعی طور پر منسوخ تسلیم کیا۔ اسی طرح ابو داؤد میں حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے جس میں نماز میں تین تغیرات کا ذکر ملتا ہے، ان میں سےایک یہ ہے کہ پہلےمسبوق (یعنی مقتدی فرض نماز میں شامل ہونے)  جب آتاتھا تو کسی نمازی سے پوچھ لیتا تھا کہ کتنی رکعتیں ہوئی ہیں،پھر وہ فوت شدہ رکعتوں کو پڑ کر جماعت میں شامل ہوجاتاتھا۔اسی طرح پہلے نماز میں سلام کا جواب دینا جائز تھا، پھر جب آیت ’’قُوْ مُوْﷲِقٰنِتِیْن‘‘ نازل ہوئی  تو نماز میں بولنے کی ممانعت فرمادی گئی۔ اسی طرح پہلے دورانِ نماز سلام کا اشارہ سے جواب دینا جائز تھا، مسجد ضرارکے قصے میں حضوراکرم ﷺ قُبا کی مسجد میں تشریف لے گئےتو اہل قُبا میں سے جو بھی آتا آں حضرت ﷺکو سلام کرتا تھا اور آپ ﷺ نماز پڑھتے ہوئے اشارہ سےان کو جواب دیتے تھے۔
اوپر صحیح مسلم کے حوالے سے جو حدیث ذکر کی گئی ہے، اس سےبھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین نہیں کیا جاتا تھا بلکہ سلام پھیرتے وقت بھی رفع یدین کیا جاتا تھا، جس پر رسول اﷲﷺ نے نکیر فرمائی اور نماز میں پُر سکون رہنے کا حکم دیا۔
غیرمقلدین حضرات کے اشکالات کے جوابات
بعض غیرمقلدین حضرات مندرجہ بالا حدیث پر یہ اشکال پیش کرتے ہیں کہ، ’’صحابہ کرامؓ نماز میں سلام پھیرتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیاکرتے تھے رفع یدین نہیں جو کہ خطا پر مبنی تھا جس پر رسول اﷲﷺ نے صحابہ کرامؓ کوایسا کرنے سے منع فرمایا‘‘۔
جواب: غور طلب بات یہ ہے کہ اگر صحابہ کرامؓ سلام پھیرتے ہوئے ہاتھ سے صرف اشارہ کیا کرتے تھےرفع یدین نہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسا اشارہ تھا جس کو نبی کریم ﷺ نے شریر گھوڑوں کی ہلتی ہوئی دُموں سے تشبیح دیا؟لگتا ہے غیرمقلدین حضرات نے کبھی گھوڑے کی ہلتی ہوئی دُم نہیں دیکھی اس لئے انھیں گھوڑے کی ہلتی ہوئی دُم کی باقائدہ منظر کشی کرکے سمجھانا پڑے گا کہ جب گھوڑا دُم ہلاتا ہے تو اپنے دائیں اور بائیں جانب دُم کو گھڑی کے پینڈولم کی طرح ہلاتا ہے۔اب آپ خود یہ تجربہ کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو باری باری اس انداز میں اٹھائیں کہ جیسے گھوڑے کی دُم ہلتی ہے یا گھڑی کا پینڈولم ہلتا ہے تو آپ کو اس بات کا بآسانی مشاہدہ ہوجائے گا کہ ایسا کرنا عین رفع یدین کرنے کے مشابہ ہے۔عربی میں ’رفع ‘کا مطلب اٹھانا اور ’ید‘ کا مطلب ہاتھ کے ہیں اور ’یدین‘ جمع کا صیغہ ہے یعنی کہ دونوں ہاتھ۔اب اگر کوئی ہاتھ اٹھاکر اشارہ کرے تو بھی رفع یدین کا ہی مطلب نکلتا ہے۔
دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے اس عمل کو خطا (غلطی) کہنا بہت بڑی حماقت ہے کیونکہ صحابہ کرامؓ جو عمل نبی ﷺ کو نماز میں کرتے دیکھتے تھےویسے ہی خود بھی کیا کرتے تھے اور حدیث کے الفاظ بتارہے ہیں کہ صحابہ کرامؓ رسول اﷲﷺ کے ساتھ جب نمازپڑھتےتونماز کے ختم پر دائیں بائیں السلام علیکم ورحمۃ اﷲکہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھےپھر یہ کیسے ممکن ہے کہ صحابہ کرامؓ کی پوری جماعت خودسےنماز میں کوئی ایسا عمل شروع کردے جسے  آپ ﷺ نے کبھی نہ کیا ہو۔
۳۔سجدے میں جاتے وقت رفع الیدین کی منسوخیت کی تیسری دلیل
سب سے پہلے میں وہ منسوخ احادیث پیش کرونگا جن سے سجدےمیں جاتےوقت رفع یدین کرنے کی دلیل ملتی ہے پھر اس کے نسخ کی احادیث پیش کرونگا جس سے اس موقع پر رفع یدین نہ کرنے کی دلیل ملتی ہے۔
۱۔ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رَفَعَ يَدَيْهِ فِي صَلاَتِهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَإِذَا سَجَدَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ۔ ’’حضرت مالک بن حویرث رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے دیکھارسول اﷲﷺکو ہاتھ اٹھاتے ہوئےنماز میں (یعنی نمازشروع کرتے وقت)اور جب رکوع کیا اور جب رکوع سے سراٹھایااور جب سجدہ کیا اور جب سجدےسے سراٹھایا کانوں کی لو تک‘‘۔(سنن نسائی: جلد نمبر۲،کتاب الافتتاح، باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ لِلسُّجُودِ، رقم الحدیث ۱۰۸۵)
۲۔ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ـ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الصَّلاَةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلاَةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ۔ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں: میں نے رسول اﷲﷺ کو نماز میں کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتےدیکھا، جب نماز شروع کرتے، جب رکوع کرتےاور جب سجدہ کرتے‘‘۔ (سنن ابنِ ماجہ: جلد نمبر۱، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها  ، رقم الحدیث ۸۶۰)
۳۔ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي هُبَيْرَةَ، عَنْ مَيْمُونٍ الْمَكِّيِّ، أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَصَلَّى بِهِمْ يُشِيرُ بِكَفَّيْهِ حِينَ يَقُومُ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ وَحِينَ يَنْهَضُ لِلْقِيَامِ فَيَقُومُ فَيُشِيرُ بِيَدَيْهِ فَانْطَلَقْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ إِنِّي رَأَيْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ صَلَّى صَلاَةً لَمْ أَرَ أَحَدًا يُصَلِّيهَا فَوَصَفْتُ لَهُ هَذِهِ الإِشَارَةَ فَقَالَ إِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَاقْتَدِ بِصَلاَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ۔ ’’قتیبہ بن سعیداپنی سند سے میمون مکی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبداﷲبن زبیررضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے تھے (یعنی رفع یدین کرتے تھے)۔جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے، جب سجدہ کرتےاور جب قیام کے لئے اُٹھتے اور قیام کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرتےتھے۔ چنانچہ میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ میں نے ابن زبیرؓ کو اس اس طرح نمازپڑھتے دیکھا کہ ان کی طرح کسی اور کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا اور انہیں اشاروں (رفع یدین) کی تفصیل بتائی تو حضرت ابن عباسؓ نے جواباً کہا: اگر تم رسول اﷲﷺکی نماز دیکھنا پسند کرتے ہوتوحضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کی نماز کی اقتداء کرو‘‘۔ (صحیح سنن أبی داؤد: علامہ ناصرالدین البانی، جلد نمبر۱، كتاب الصلاة ، باب افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ، رقم الحدیث ۷۳۹)
۴۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّهُ "رَأَى نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي صَلَاتِهِ، إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ رُكُوعِهِ وَإِذَا سَجَدَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ سُجُودِهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهَا فُرُوعَ أُذُنَيْ"۔ ’’حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں رکوع سے سر اٹھاتے وقت، سجدہ کرتے وقت اور سجدے سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنے ہاتھوں کو کانوں کی لو کے برابرکرلیتے تھے‘‘۔  (مسند أحمد بن حنبل، مُسْنَدُ الْمَكِّيِّينَ، حَدِيثُ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، رقم الحدیث ۱۵۶۸۵)
۵۔ حَدَّثَنَاالثَقَفِیُّ، عَنْ حُمَیْدِ، عَنْ أَنَسِ، أَنَّ النَّبِیَّﷺ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فَیْ الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ۔ ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں رفع الیدین کرتے تھے‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ: الجزء الأول، کتاب الصلاۃ،باب مَنْ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اذَا افْتَتَحَ الصَّلاَۃَ، صفحہ نمبر۵۸، رقم الحدیث۲۴۵۲)
مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو البانی رحمہ اللہ نےبھی "ارواء الغلیل (۲/۶۸)" میں صحیح کہا ہے۔
 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سجدوں میں رفع الیدین کرنے سے متعلق صحیح ترین روایت سنن نسائی کی ہے"۔ اس کے بعد سنن نسائی کی روایت نقل کی۔ اس حدیث کو البانی ؒنے "صحیح نسائی" میں بھی نقل کیا ہے۔
مندرجہ بالااحادیث میں سجدےمیں جاتے ہوئے رفع یدین کرنااورذیل میں پیش کردہ صحیحِ بخاری کی احادیث میں عین اس موقع پر(یعنی سجدے میں جاتےہوئے) رفع یدین نہ کرنااس بات پر دلالت کرتا ہےکہ پہلے سجدے میں جاتے ہوئے رفع یدین کیا جاتا تھا اور بعد میں اس موقع پر رفع یدین کرناترک کردیا گیا۔ ذیل میں رقم احادیث میں سجدہ میں جاتے ہوئے رفع یدین کی لفظ ’’لا‘‘سے نفی ومنع اور نسخ و ترک ثابت ہے جوکہ رفع یدین کی منسوخیت کی تیسری واضح دلیل ہے۔
۱۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا وَقَالَ ‏ "‏سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ‏"‏‏۔‏ وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ۔ ’’ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، انہوں نے امام مالک سے ، انہوں نے ابن شہاب زہری سے ، انہوں نے سالم بن عبداللہ سے ، انہوں نے اپنے باپ ( عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے ، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے ( رفع یدین کرتے ) اور رکوع سے سرمبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے ۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔(صحیح البخاری: جلد نمبر ۱،كتاب الأذان،   باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي التَّكْبِيرَةِ الأُولَى مَعَ الاِفْتِتَاحِ سَوَاءً، رقم الحدیث ۷۳۵)
۲۔  حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رضى الله عنهما ـ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ فِي الصَّلاَةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حَتَّى يَجْعَلَهُمَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَهُ، وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ‏۔‏ فَعَلَ مِثْلَهُ وَقَالَ "رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ‏"‏‏۔‏ وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ وَلاَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ۔ ’’ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی ، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر تحریمہ سے شروع کرتے اور تکبیر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھا کر لے جاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تب بھی اسی طرح کرتے اور جب «سمع الله لمن حمده» کہتے تب بھی اسی طرح کرتے اور «ربنا ولك الحمد» کہتے ۔ سجدہ کرتے وقت یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت اس طرح رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔ (صحیح البخاری: جلد نمبر ۱،كتاب الأذان،  باب إِلَى أَيْنَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، رقم الحدیث ۷۳۸)
۳۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَامَ فِي الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يُكَبِّرُ لِلرُّكُوعِ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَيَقُولُ "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ‏"‏‏۔‏ وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ۔ ’’ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ، کہا کہ ہم کو یونس بن یزید ایلی نے زہری سے خبر دی ، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی ، انہوں نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھ اس وقت مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھے اور اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے لیے تکبیر کہتے اس وقت بھی ( رفع یدین ) کرتے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے «سمع الله لمن حمده»۔ البتہ سجدہ میں آپ رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔(صحیح البخاری: جلد نمبر ۱،كتاب الأذان، باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ، رقم الحدیث ۷۳۶)
۴۔سجدے سےسراٹھاتےوقت (یعنی دوسجدوں کے درمیان) رفع الیدین کی منسوخیت کی چوتھی دلیل
سب سے پہلے میں وہ منسوخ احادیث پیش کرونگا جن سے سجدوں کے درمیان رفع یدین کرنے کی دلیل ملتی ہے پھر اس کے نسخ کی احادیث پیش کرونگا جس سے سجدوں کے درمیان رفع یدین نہ کرنے کی دلیل ملتی ہے۔
۱۔ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ كُنْتُ غُلاَمًا لاَ أَعْقِلُ صَلاَةَ أَبِي قَالَ فَحَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ أَبِي وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَكَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ - قَالَ - ثُمَّ الْتَحَفَ ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ وَأَدْخَلَ يَدَيْهِ فِي ثَوْبِهِ قَالَ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ سَجَدَ وَوَضَعَ وَجْهَهُ بَيْنَ كَفَّيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ أَيْضًا رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ۔‏ قَالَ مُحَمَّدٌ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلْحَسَنِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ فَقَالَ هِيَ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَعَلَهُ مَنْ فَعَلَهُ وَتَرَكَهُ مَنْ تَرَكَهُ۔ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هَمَّامٌ عَنِ ابْنِ جُحَادَةَ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ مَعَ الرَّفْعِ مِنَ السُّجُودِ۔ ’’جناب عبد الجبار بن وائل بن حجررضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نو عمر لڑکا تھا، اپنے والد کی نماز کو نہ سمجھتا تھا، تو مجھے وائل بن علقمہ نے میرے والد وائل بن حجررضی اﷲ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اﷲﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو آپﷺ جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔۔۔ بتایا کہ۔۔۔ پھرآپ نے اپنا کپڑالپیٹ لیا، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑااور اپنے ہاتھوں کو اپنے کپڑوں میں کرلیا۔۔۔ کہا کہ۔۔۔ جب رکوع کرنا چاہتےتو اپنے دونوں ہاتھوں کو (کپڑے سے باہر) نکالتےپھر انھیں اوپر اٹھا تے۔ اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھانا چاہتےتو اپنے دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے۔ پھر آپ نے سجدہ کیا اور اپنے چہرے مبارک کو اپنی ہتھیلیوں کے درمیان میں رکھا۔اور جب سجدوں سے سراٹھاتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، حتیٰ کہ آپ ﷺ اپنی نماز سے فارغ ہوگئے۔
محمد (بن حجادہ  ) نے کہا کہ میں نے یہ حدیث حسن بن ابی الحسن(بصری) سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: یہی ہے رسول اﷲﷺ کی نماز، جس نے اسے اختیار کیا، اختیار کیااور جس نے اسے چھوڑدیا، چھوڑدیا‘‘۔(صحیح سنن أبی داؤد: علامہ ناصرالدین البانی ، جلد نمبر۱، كتاب الصلاة ، باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلاَةِ، رقم الحدیث ۷۲۳)
۲۔ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، - الْمَعْنَى - قَالاَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ كَثِيرٍ، - يَعْنِي السَّعْدِيَّ - قَالَ صَلَّى إِلَى جَنْبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ فَكَانَ إِذَا سَجَدَ السَّجْدَةَ الأُولَى فَرَفَعَ رَأْسَهُ مِنْهَا رَفَعَ يَدَيْهِ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ فَقُلْتُ لِوُهَيْبِ بْنِ خَالِدٍ فَقَالَ لَهُ وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ تَصْنَعُ شَيْئًا لَمْ أَرَ أَحَدًا يَصْنَعُهُ فَقَالَ ابْنُ طَاوُسٍ رَأَيْتُ أَبِي يَصْنَعُهُ وَقَالَ أَبِي رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَصْنَعُهُ وَلاَ أَعْلَمُ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَصْنَعُهُ۔ ’’جناب نضر بن کثیریعنی سعدی نے بیان کیا کہ جناب عبداﷲبن طاؤس(تابعی) نے مسجد خیف میں میرے پہلو میں نماز پڑھی۔ وہ جب پہلا سجدہ کرلیتے اور اس سے اپناسر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرےکے سامنے اُٹھاتے۔ مجھے ان کا یہ عمل منکر (عجیب اور غلط ) محسوس ہوا تو میں نے وہیب بن خالدکو ان کا یہ عمل بتایا۔ جناب وہیب نے ان سے کہا کہ آپ ایسا کرتے ہیں جو میں نے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ تو عبداﷲ بن طاؤس نے کہا: میں نے اپنے والد کو یہ کرتے دیکھااورمیرے والد نے کہا کہ میں نے حضرت عبداﷲبن عباسؓ کو یہ کرتے دیکھا اور میں نہیں جانتا مگر انہوں نے کہاکہ میں نے نبی ﷺکو دیکھا کہ وہ یہ کرتے تھے‘‘۔ (صحیح سنن أبی داؤد: علامہ ناصرالدین البانی ، جلد نمبر۱، كتاب الصلاة ، باب افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ، رقم الحدیث ۷۴۰)
۳۔  أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ كُلَّهُ يَعْنِي رَفْعَ يَدَيْهِ۔ ’’حضرت مالک بن حویرث رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، رسول اﷲﷺجب نمازشروع کرتے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب سجدےسے سراٹھاتےتب بھی ایسا ہی کرتےیعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے‘‘۔(سنن نسائی: جلد نمبر۲،کتاب الافتتاح، باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرَّفْعِ مِنَ السَّجْدَةِ الأُولَى ، رقم الحدیث ۱۱۴۶)
۴۔   حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّهُ "رَأَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ"۔ ’’حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں رکوع سے سر اٹھاتے وقت، سجدہ کرتے وقت اور سجدے سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنے ہاتھوں کو کانوں کی لو کے برابرکرلیتے تھے‘‘۔   (مسند أحمد بن حنبل، مُسْنَدُ الْمَكِّيِّينَ، حَدِيثُ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، رقم الحدیث ۱۵۶۸۹)
۵۔ قال ابن أبي شيبة في المصنف: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسٍ؛ أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ۔ ’’حضرت انس بن مالک رضی اﷲعنہ دوسجدوں کے درمیان رفع یدین کرتےتھے‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ: الجزء الأول، کتاب الصلاۃ،باب فی رفع اليدين بين السجدتين، صفحہ نمبر۱۱۶، رقم الحدیث۲۸۱۵)
۶۔  قال ابن أبي شيبة في المصنف: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الأَولَى۔  ’’حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ جب پہلےسجدے سے سراٹھاتے تورفع یدین کرتےتھے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: الجزء الأول، کتاب الصلاۃ،باب فی رفع اليدين بين السجدتين، صفحہ نمبر۱۱۶، رقم الحدیث۲۸۱۶)
۷۔  قال ابن أبي شيبة في المصنف: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: رَأَيْتُ نَافِعًا وَطَاوُوسا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ۔ ’’حضرت نافعؒ اور طاؤسؒ دوسجدوں کے درمیان رفع یدین کرتےتھے‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ: الجزء الأول، کتاب الصلاۃ،باب فی رفع اليدين بين السجدتين، صفحہ نمبر۱۱۶۔۱۱۷، رقم الحدیث۲۸۱۷)
۸۔  قال ابن أبي شيبة في المصنف: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، وَابْنِ سِيرِينَ؛ أَنَّهُمَا كَانَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ۔ ’’ابن سیرینؒ دوسجدوں کے درمیان رفع یدین کرتےتھے‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ: الجزء الأول، کتاب الصلاۃ،باب فی رفع اليدين بين السجدتين، صفحہ نمبر۱۱۷، رقم الحدیث۲۸۱۸)
مندرجہ بالااحادیث میں دوسجدوں کے درمیان رفع یدین کرنااورذیل میں پیش کردہ صحیحِ مسلم کی احادیث میں عین اس موقع پر(یعنی سجدوں سے سراٹھاتے ہوئے) رفع یدین نہ کرنااس بات پر دلالت کرتا ہےکہ پہلے سجدوں کےدرمیان بھی رفع یدین کیا جاتا تھا اور بعد میں اس موقع پر رفع یدین کرناترک کردیا گیا۔ ذیل میں رقم احادیث میں دوسجدوں کے درمیان رفع یدین کی لفظ ’’لا‘‘سے نفی ومنع اور نسخ و ترک ثابت ہے جوکہ رفع یدین کی منسوخیت کی چوتھی واضح دلیل ہے۔
۱۔ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَمْرٌو النَّاقِدُ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَابْنُ نُمَيْرٍ كُلُّهُمْ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، - وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، - عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ مَنْكِبَيْهِ وَقَبْلَ أَنْ يَرْكَعَ وَإِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ وَلاَ يَرْفَعُهُمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ۔ ’’حضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرمﷺجب نماز پڑھتےتواپنے مونڈھوں تک اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتےاور اسی طرح رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سےسراٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتےتھےاورسجدوں کے درمیان میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے‘‘۔(صحیح مسلم، جلد نمبر ۲، کتاب الصلاۃ، باب اسْتِحْبَابِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الْمَنْكِبَيْنِ مَعَ تَكْبِيرَةِ الإِحْرَامِ وَالرُّكُوعِ وَفِي الرَّفْعِ مِنَ الرُّكُوعِ وَأَنَّهُ لاَ يَفْعَلُهُ إِذَا رَفَعَ مِنَ السُّجُودِ، رقم الحدیث ۸۶۱)
۲۔ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَامَ لِلصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَإِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَلاَ يَفْعَلُهُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ۔ ’’حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرمﷺجب نمازکے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنےدونوں مونڈھوں تک اٹھاکےاﷲاکبرکہتےاور جب رکوع کا ارادہ فرماتےتب بھی ایسا ہی کرتےاور جب سجدہ سے سر اٹھاتےتوایسا نہ کرتےیعنی رفع یدین سجدوں کے درمیان نہ کرتے ‘‘۔(صحیح مسلم، جلد نمبر ۲، کتاب الصلاۃ، باب اسْتِحْبَابِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الْمَنْكِبَيْنِ مَعَ تَكْبِيرَةِ الإِحْرَامِ وَالرُّكُوعِ وَفِي الرَّفْعِ مِنَ الرُّكُوعِ وَأَنَّهُ لاَ يَفْعَلُهُ إِذَا رَفَعَ مِنَ السُّجُودِ، رقم الحدیث ۸۶۲)
۳۔ حَدَّثَنَاأَبُو بَكْرِقَالَ: حَدَّثَنَاابْنِ عُيَيْنَةَ،عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ۔ ’’رسول اﷲﷺدوسجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتےتھے‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ: الجزء الأول، کتاب الصلاۃ،باب فی رفع اليدين بين السجدتين، صفحہ نمبر۱۱۶، رقم الحدیث۲۸۱۴)
۵۔ سجدوں سے کھڑے ہوتے وقت (یعنی دوسری اورچوتھی رکعت کے شروع میں) رفع الیدین کی منسوخیت کی پانچویں دلیل
سب سے پہلے میں وہ منسوخ احادیث پیش کرونگا جن سےسجدوں سے کھڑے ہوتے ہوئے (یعنی دوسری اورچوتھی رکعت کے شروع میں) رفع یدین کرنے کی دلیل ملتی ہے پھر اس کے نسخ کی احادیث پیش کرونگا جس سے سجدوں سے کھڑے ہوتے وقت رفع یدین نہ کرنے کی دلیل ملتی ہے۔
۱۔ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي هُبَيْرَةَ، عَنْ مَيْمُونٍ الْمَكِّيِّ، أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَصَلَّى بِهِمْ يُشِيرُ بِكَفَّيْهِ حِينَ يَقُومُ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ وَحِينَ يَنْهَضُ لِلْقِيَامِ فَيَقُومُ فَيُشِيرُ بِيَدَيْهِ فَانْطَلَقْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ إِنِّي رَأَيْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ صَلَّى صَلاَةً لَمْ أَرَ أَحَدًا يُصَلِّيهَا فَوَصَفْتُ لَهُ هَذِهِ الإِشَارَةَ فَقَالَ إِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَاقْتَدِ بِصَلاَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ۔ ’’قتیبہ بن سعیداپنی سند سے میمون مکی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبداﷲبن زبیررضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے تھے (یعنی رفع یدین کرتے تھے)۔جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے، جب سجدہ کرتےاور جب قیام کے لئے اُٹھتے اور قیام کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرتےتھے۔ چنانچہ میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ میں نے ابن زبیرؓ کو اس اس طرح نمازپڑھتے دیکھا کہ ان کی طرح کسی اور کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا اور انہیں اشاروں (رفع یدین) کی تفصیل بتائی تو حضرت ابن عباسؓ نے جواباً کہا: اگر تم رسول اﷲﷺکی نماز دیکھنا پسند کرتے ہوتوحضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کی نماز کی اقتداء کرو‘‘۔ (صحیح سنن أبی داؤد: علامہ ناصرالدین البانی، جلد نمبر۱، كتاب الصلاة، باب افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ، رقم الحدیث ۷۳۹)
۲۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بِن صَالِحْ حَدَّثَنَا الِلَیْث اَخْبَرْنِی نَافَعْ اَن عَبْدُاللَّهِ بِن عُمر کَانَ اِذَااَستَقبَل الصَّلاَةَ رَفَع يَدَيْهِ قَالَ وَ اِذَا رَکَعَ و اِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَ اِذَاقَامَ مِنَ الْسِجْدَتَیْن کَبْر۔ ’’نافع روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عمررضی اﷲعنہ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتےاور کہاکہ جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتےاور جب دو سجدوں سے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتےاور رفع یدین کرتے (دوسری اور چوتھی رکعت کے شروع میں)‘‘۔(جزِرفع الیدین للبخاری:ص۲۷۲)
مندرجہ بالا احادیث میں سجدوں سے کھڑے ہوتے ہوئےرفع یدین کرنااورذیل میں پیش کردہ احادیث میں عین اس موقع پر(یعنی سجدوں سے کھڑے ہوتے ہوئے) رفع یدین نہ کرنااس بات پر دلالت کرتا ہےکہ پہلے سجدوں سے کھڑے ہوتے ہوئےبھی رفع یدین کیا جاتا تھا اور بعد میں اس موقع پر رفع یدین کرناترک کردیا گیا۔ ذیل میں رقم احادیث میں سجدوں سے کھڑے ہوتے ہوئےرفع یدین کی لفظ ’’لا‘‘سے نفی ومنع اور نسخ و ترک ثابت ہے جوکہ رفع یدین کی منسوخیت کی پانچویں واضح دلیل ہے۔
۱۔ أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو بَكْرٍ الدَاوُدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا رِزْقُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ’’إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ نَحْوَ صَدْرِهِ، وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَلَا يَرْفَعُهُ بَعْدَ ذَلِكَ‘‘۔ ’’حضرت ابن عمر رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سراٹھاتےتو رفع یدین کرتےتھے۔ اور اس کے بعد(پوری نمازمیں)رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔(ناسخ ومنسوخ من الحديث لابن شاهين، بَابٌ فِی رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِی الصَّلَاةِ، صفحہ نمبر ۱۵۳)
۲۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَهُمَا كَذَلِكَ فَيَرْكَعُ ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ صُلْبَهُ رَفَعَهُمَا حَتَّى تَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَلاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي السُّجُودِ وَيَرْفَعُهُمَا فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلاَتُهُ۔ ’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲعنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے حتیٰ کہ وہ کندھوں کے برابر آجاتے۔ پھر [اﷲاکبر] کہتے اور انہیں ویسے ہی اُٹھاتےاور رکوع کرتے پھر جب اپنی کمر اُٹھانا چاہتےتو اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے، حتیٰ کہ آپ ﷺ کے کندھوں کے برابر آجاتےپھر کہتے: [سَمِعَ اﷲُ لِمَن حَمِدَہ] اور سجدوں میں اپنے ہاتھ نہ اُٹھاتے اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں اپنے ہاتھ اُٹھاتے، حتیٰ کہ آپﷺ کی نماز پوری ہوجاتی‘‘۔ (صحیح سنن أبی داؤد: علامہ ناصرالدین البانی، جلد نمبر۱، كتاب الصلاة، باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِی الصَّلاَةِ، رقم الحدیث ۷۲۲)
۳۔ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضى الله عنه - عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ وَلاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَىْءٍ مِنْ صَلاَتِهِ وَهُوَ قَاعِدٌ وَإِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ كَذَلِكَ وَكَبَّرَ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ فِي حَدِيثِ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ حِينَ وَصَفَ صَلاَةَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ۔ ’’سیدنا علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اﷲﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ جب فرض نماز کے لئے کھڑے ہوتےتو[اﷲاکبر]کہتے اوراپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے۔ اور جب اپنی قراءت پوری کرلیتےاور رکوع کرنا چاہتےتو اسی طرح ہاتھ اٹھاتےاور جب رکوع سے اُٹھتے تو اسی طرح کرتے۔ اور نماز میں بیٹھے ہوئے ہونے کی حالت میں آپﷺرفع الیدین نہ کرتے تھےاور جب دو رکعتیں پڑھ کر اُٹھتے تو اپنے ہاتھ اُٹھاتےاور [اﷲاکبر] کہتے‘‘۔ (سنن أبی داؤد: تحقیق و تخریج زبیرعلی زئی، جلد نمبر۱، كتاب الصلاة، باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِی الصَّلاَةِ، رقم الحدیث ۷۴۴)
غیرمقلدین حضرات کے اشکالات کے جوابات
موجودہ دور کے تقریباً تمام غیرمقلدین حضرات اس پُرفتن دور کےاپنے ایک عالم زبیر علی زئی صاحب کی اندھی تقلید کرتے ہوئےاپنے ہی جید عالم و محدث علامہ ناصرالدین البانیؒ کی تحقیق اورفتویٰ علماءِ اہلحدیث تک کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئےسجدوں کی رفع یدین کی تمام احادیث پرضعیف ہونے کا الزام لگاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ حضرت مالک بن الحویرث رضی اﷲ عنہ کی سنن نسائی کی حدیث میں راوی (شعبہ)کے نام کی غلطی کی وجہ سے یہ حدیث تدلیس سعید کی بناپرضعیف ہے۔اور اپنے اس اعتراض پر گواہی بھی ان لوگوں سے پیش کرتے ہیں جن کو یہ مقلد ومشرک کہہ کران پرگمراہ ہونے کا فتویٰ لگاتے ہیں۔اگر موصوف کے نزدیک علامہ انورشاہ کشمیریؒ کی تحقیق اتنی ہی معتبر ہے تو ان کی باقی تحقیقی اقوال کو بھی قبول کرلیں ورنہ صرف اپنے مطلب کی بات سے استدلال کرناعام اور لاعلم مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہے۔
حضرت مالک بن حویرثؓ کی سجدوں میں رفع الیدین والی سب سے قوی حدیث کو غیرمقلدین حضرات زبیر علی زئی صاحب کی تعصبانہ واحمقانہ تحقیق پر صرف (شعبہ)کے نام کی غلطی کو جواز بناکر رد کردیتےہیں،  حالانکہ جو اعتراض یہ کرتےہیں ان کے پاس نہ تو اس کی کو ئی مستند دلیل ہے اور ناہی آج تک کسی محدث نے اس اعتراض کو پیش کیا جس سے اس کے صحیح ہونے کی دلیل ملتی ہو۔ اب یا تو زبیر علی زئی صاحب علم غیب جانتے ہیں جو ان کو ۱۲۰۰ سال پہلے ہونے والی اس غلطی کا علم ہوگیا یا پھریہ انکا وہم اور دھوکہ بازی ہےجس سے یہ اپنےاندھے مقلدین کو بیوقوف بنارہے ہیں۔ اب میں آپ کو زئی صاحب کی اس دھوکہ بازی کی دلیل پیش کرتا ہوں جس سے یہ واضح ہوجائے گا یہ کاتب کی غلطی نہیں بلکہ زئی صاحب کاجھوٹ ہے۔ اگر چند لمحوں کے لئےان کی اس دلیل کو قبول کر لیا جائے تو بھی سوال پیدا ہوتاہے کہ جس کتاب کا حوالہ زبیرعلی زئی صاحب نے پیش کیا ہے(جس میں سعید کا نام درج ہے ) وہ صحیح ہے؟ اور یہ اشکال بھی ہوتا ہے کہ یہ بات آپ کےزبیر علی زئی صاحب کی سمجھ میں تو آئی مگر آپ کے فرقے کے کسی دوسرے عالم کی سمجھ میں نہیں آئی اور نہ ہی پچھلے ۱۲۰۰ سالوں میں کسی محدث کی سمجھ میں آئی کہ وہ سجدوں کی رفع یدین کی اس صحیح حدیث پر سعید سے شعبہ نام کی تبدیلی کا اعتراض اٹھاتا۔ سجدوں کی رفع الیدین کی اس حدیث کو اہلحدیث علماءاور آج کے سعودی عرب کےعلماء بھی صحیح کہتے ہیں لہٰذااس بنا پر غیرمقلدین حضرات نے اپنے فتویٰ علماء اہلحدیث کے فتویٰ کو بھی رد کردیااورآل سعود کے فتووں کو بھی وہ بھی صرف زبیر علی زئی صاحب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے۔
سجدوں کی رفع یدین کی احادیث کے صحیح ہونے کےتحقیقی اور الزامی دلائل پیش کرنے سے پہلے میں تمام غیرمقلدین حضرات سے صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ صحیح بخاری کی ان احادیث کو تو آپ خود  نماز میں رفع الیدین کی دلیل بناکر پیش کرتے ہیں۔ تو برائےمہربانی مجھے اس بات کا جواب دیدیں کہ رفع یدین کی تقریباً جتنی بھی احادیث ہیں ان میں ہر حدیث کے آخرمیں لکھا ہے کہ’’سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘،’’دوسجدوں کے درمیان آپ رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘،  ’’سجدہ کرتے وقت یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت اس طرح رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘، ’’البتہ سجدہ میں آپ رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔اگرسجدوں میں رفع الیدین کی تمام احادیث ضعیف ہیں تو پھر کیا وجہ تھی کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث میں سجدوں کی رفع الیدین کے نہ کرنے کا ذکرکیاگیا؟
جب کوئی عمل متواتر کیا جاتا ہوتبھی اس کی منسوخی پر اس کے کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ اور ناسخ ومنسوخ کے اصول تحت جب تک کسی عمل کا ناسخ نہیں ہوتا تب تک اس کی منسوخی کا جواز نہیں ہوسکتا۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہےکہ بقول تمام غیرمقلدین حضرات اور ان کے زبیرعلی زئی صاحب کے جب سجدوں کی رفع یدین کی تمام احادیث ضعیف ہیں توپھر بخاری ومسلم کی احادیث میں سجدوں کےرفع الیدین کرنےسے عین ان ہی مواقعوں پرمنع کیوں کیا گیاہےجن مواقعوں پر سجدوں کے رفع الیدین کرنے کی احادیث ملتی ہیں؟ بخاری ومسلم کی احادیث میں سجدوں کےرفع الیدین سے منع کیا جانا اس بات کی سب سےبڑی دلیل ہے کہ سجدوں کےرفع یدین کی تمام احادیث بالکل صحیح ہیں اور یہ عمل بعد میں منسوخ ہوا ہے۔
سجدوں میں جاتے وقت رفع یدین کرنا
علامہ ابن رشدالمالکیؒ (متوفی ۵۹۰ھ) اثبات رفع یدین پرتیسری حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’وَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ إِلَى رَفْعِهَا عِنْدَ السُّجُودِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ۔۔۔ وَالْحَدِيثُ الثَّالِثُ حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَفِيهِ زِيَادَةٌ عَلَى مَا فِي حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ «أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ السُّجُودِ»‘‘۔ ’’بعض اہل حدیث علماء نے سجدہ کرتے وقت اور سجدہ سے اٹھتے وقت بھی رفع الیدین کی حمایت کی ہے۔۔۔ تیسری حدیث وائل بن حجررضی اﷲعنہ کی روایت ہے۔ اس میں حضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ کی حدیث پریہ اضافہ موجود ہے کہ«آپ سجدوں میں بھی رفع یدین کرتے»‘‘۔ (بداية المجتہد ونہاية المقتصد: ج۱، الفصل الثانی، المسألۃالأولیٰ[رفع الیدین]، ص۳۲۶، ۳۲۷)
غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند محقق محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے‘‘۔
’’یہ رفع یدین ۱۰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور حسن بصریؒ، طاؤسؒ، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافعؒ، سالم بن نافعؒ، قاسم بن محمدؒ، عبداللہ بن دینارؒ اور عطاء ؒاس کو جائز سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی ایک قول یہی ہے‘‘۔(نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی: صفحہ۱۳۱)
جب سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلدحضرات ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے؟ یہ وہی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ ہیں جن سے غیر مقلدین حضرات رکوع میں جاتے، رکوع سے اٹھتے اور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے ہوئے رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں۔
سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کےرفع یدین کو بھی صحیح کہتے ہیں اور فرماتے ہیں: ’’امام احمد رحمہ اللہ اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں بلکہ وہ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں، چنانچہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن الاثیر امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی نمازی اوپر یا نیچے ہو دونوں صورتوں میں رفع یدین ہے نیز اثرم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ کو دیکھا وہ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے‘‘۔
’’یہ رفع یدین انس، ابن عمر رضی اللہ عنہم ، نافعؒ، طاؤسؒ، حسن بصریؒ، ابن سیرین ؒاور ایوب سختیانی ؒسے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے‘‘۔(نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی: صفحہ ۱۴۲)
یہاں علامہ البانی ؒ نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کا رفع یدین بھی صحیح سند سے ثابت کیاہے، توپھرغیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟
سجدوں کے رفع یدین کی احادیث کے متعلق علماءِ غیرمقلدین کےفتاوٰے
۱۔ حدیث ہٰذا صحیح ہے۔متروک العمل نہیں ہے۔
۲۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ان دونوں احادیث میں سے کسی حدیث پر کوئی جرح نہیں ہے۔
۳۔یہ رفع یدین  منسوخ نہیں۔
۴۔ اس رفع یدین کے عامل صحابہ کرامؓ میں سےابن عمر رضی اللہ عنہ اور تابعین سےطاؤسؒ اور نافعؒ اور عطاء ؒ ہیں۔ (فتاوٰےعلماءِحدیث، صفحہ نمبر: ۳۰۴۔۳۰۶)



اگر حدیث ہٰذا صحیح ہے، متروک العمل نہیں ، اور نہ ہی منسوخ ہےتو پھر غیرمقلدین حضرات ان احادیث پر عمل کرکے سجدوں کی رفع یدین کی سنت کیوں ادا نہیں کرتے اور اس کا صواب کیوں حاصل نہیں کرتے؟
ابن عمررضی اﷲ عنہ سے جو بعض روایات منقول ہے کہ وہ خود اور رسول اﷲﷺبوقت سجدہ رفع یدین نہیں کرتے تھے تو اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ کبھی کبھاربعض مرتبہ سجدہ کے وقت ابن عمر رضی اﷲ عنہ رفع یدین نہیں بھی کرتے تھے کیونکہ سجدہ کے وقت والارفع یدین واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ بھی نہیں صرف مستحب وغیرہ مؤکدہ سنت ہےجس کا کبھی کبھاربلکہ بسا اوقات چھوڑ دیناجائز ہے۔ (رسول اکرمﷺ کا صحیح طریقۂ نماز: صفحہ نمبر۳۶۱)
اگر سجدہ کے وقت والارفع یدین نہ واجب ہے نہ سنت مؤکدہ ،صرف مستحب ہے جس کا بسا اوقات چھوڑ دیناجائز ہے تو پھر باقی مقامات والا رفع یدین کیسے واجب ہوگیا جس کے ترک کرنے سے نماز نہیں ہوتی؟
۶۔ ہرتکبیر اور ہر اونچ نیچ کےرفع الیدین کی منسوخیت کی چھٹی دلیل
سب سے پہلے میں وہ منسوخ احادیث پیش کرونگا جن سےہرتکبیر اور ہر اونچ نیچ میں رفع یدین کرنے کی دلیل ملتی ہے پھر اس کے نسخ کی احادیث پیش کرونگا جس سے ہر تکبیرواونچ نیچ پررفع یدین نہ کرنے کی دلیل ملتی ہے۔
۱۔ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا رِفْدَةُ بْنُ قُضَاعَةَ الْغَسَّانِيُّ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عُمَيْرِ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ـ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ فِي الصَّلاَةِ الْمَكْتُوبَةِ۔ ’’حضرت عمیربن قتادہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اﷲﷺ فرض نماز میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے‘‘ ۔ (صحیح سنن ابنِ ماجہ: جلد نمبر۱، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، رقم الحدیث ۸۶۱) 
 ۲۔ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ رِيَاحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ـ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ ۔ ’’حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اﷲﷺ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے تھے‘‘ ۔ (صحیح سنن ابنِ ماجہ: جلد نمبر۱، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، رقم الحدیث ۸۶۵)
۳۔ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، - يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ - حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ، حَدَّثَنِي أَهْلُ، بَيْتِي عَنْ أَبِي أَنَّهُ، حَدَّثَهُمْ أَنَّهُ، رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ التَّكْبِيرَةِ۔ ’’جناب عبدالجبار بن وائل نے کہاکہ مجھ سے میرے اہل خانہ نے میرے والد (وائل بن حُجررضی اﷲ عنہ )سے روایت کیا، میرے والد نے ان سے بیان کیا کہ اس نے رسول اﷲﷺکو دیکھا تھا کہ وہ تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے تھے‘‘۔ (صحیح سنن أبی داؤد: علامہ ناصرالدین البانی، جلد نمبر۱، كتاب الصلاة، باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِی الصَّلاَةِ، رقم الحدیث ۷۲۵)
۴۔ حَدَّثَنِی الحُمَیْدِی، اَنبَانَاالوَلید بِن مُسلِم، قَالَ سَمعَت زَیْد بِن وَاقَدْ یَحدِث، عَن نَافَعْ، اَن عَبْدُاللَّهِ بِن عُمَررَضِیﷲعَنھُمَا کَا اِذَارأَیِ رَجُلاً لا یَرفَعْ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَمَاہ بَالحَصِی۔ ’’نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ جب کسی کو ہر اونچ نیچ میں رفع یدین کرتےنہ دیکھتے تو اس کو کنکریاں مارتے‘‘۔ (جزِرفع الیدین للبخاری:ص۲۷۲)
مندرجہ بالا احادیث میں ہرتکبیر و اونچ نیچ میں رفع یدین کرنااورذیل میں پیش کردہ حدیث میں صرف رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کرنا اور پھر پوری نماز میں رفع یدین نہ کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہےکہ پہلے ہرتکبیر و اونچ نیچ میں رفع یدین کیا جاتا تھا اور بعد میں ایسا کرناترک کردیا گیا۔ ذیل میں رقم حدیث میں ہراونچ نیچ اور تکبیر کے رفع یدین کی لفظ ’’لا‘‘سے نفی ومنع اور نسخ و ترک ثابت ہے جوکہ رفع یدین کی منسوخیت کی چھٹی واضح دلیل ہے۔
۱۔ أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو بَكْرٍ الدَاوُدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا رِزْقُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ’’إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ نَحْوَ صَدْرِهِ، وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَلَا يَرْفَعُهُ بَعْدَ ذَلِكَ‘‘۔ ’’حضرت ابن عمر رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سراٹھاتےتو رفع یدین کرتےتھے۔ اور اس کے بعد(پوری نمازمیں)رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔(ناسخ ومنسوخ من الحديث لابن شاهين، بَابٌ فِی رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِی الصَّلَاةِ، صفحہ نمبر ۱۵۳)
۲۔ ’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ۔‏ قَالَ وَفِي الْبَابِ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالتَّابِعِينَ۔‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ‘‘۔ ’’حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمانےفرمایا: کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیسےنمازپڑھتےتھے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھی اورتکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا۔ اس باب میں براءبن عازب رضی اﷲعنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ فرماتے ہیں حدیث ابن مسعودؓ حسن صحیح ہےاور یہی قول ہے بہت سارےصحابہؓ و تابعینؒ میں اہل علم کا سفیان ثوریؒ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے‘‘۔(جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱،ص ۱۸۵؛ سنن النسائی: ج۱، ص۱۵۸؛ سنن ابی داؤد:ج۱،ص۱۱۶)
حافظ زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نورالعینین فی مسئلہ رفع الیدین میں حافظ ابن حزمؒ کے قول سے رفع الیدین کی اہمیت ثابت کرنے کے لئے لکھتے ہیں:
 ’’حافظ ابن حزم ؒ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲعنہ کی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: اگر یہ حدیث نہ ہوتی تو ہر جھکنے، بلند ہونے، تکبیر اور تحمیدکے وقت رفع الیدین فرض ہوتا۔ (المحلیٰ: ج ۴، ص۸۸)
لہٰذا قارئین فیصلہ کریں کہ ابن حزمؒ کے نزدیک رفع الیدین کا کیا مقام ٹھہرتا ہے‘‘۔ (نورالعینین فی مسئلہ رفع الیدین: ص۱۴۲)
کہا جاتا ہے کہ کبھی کبھار اﷲ پاک باطل کی زبان سے بھی کلمہ حق اداکروادیتے ہیں جیساکہ شیطان سے آیت الکرسی بیان کروائی۔ بالکل اسی طرح زبیر علی زئی صاحب حافظ ابن حزمؒ سے رفع الیدین کی اہمیت کو ثابت کرتےہوئے حق بات کہہ گئے کہ ’’اگرحدیث ابن مسعودؓ نہ ہوتی تو ہرتکبیروتحمیداور ہراونچ نیچ کا رفع یدین فرض ہوتا‘‘ یعنی ابن حزمؒ بھی ابن مسعود ؓ کی حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہیں ،اسی لئے انہوں نےحدیث ابن مسعودؓ سے رفع الیدین کی منسوخی کوقبول کرتے ہوئےاس کی فرضیت کا انکارکردیا۔ یہی بات سمجھنے کی ہے کہ اگررفع یدین منسوخ نہ ہوتا تو ہرتکبیروتحمیداور ہراونچ نیچ میں رفع یدین فرض ہوتاکیونکہ احادیث صحیحہ سے ہمیں صرف رکوع میں جاتے، رکوع سے اٹھتے اور تیسری رکعت کے شروع میں ہی نہیں بلکہ ہر تکبیر و اونچ نیچ پررفع یدین کرنے کی روایات ملتی ہیں۔
۷۔ تیسری رکعت کے شروع میں رفع الیدین کی منسوخیت کی ساتویں دلیل
سب سے پہلے میں وہ منسوخ حدیث پیش کرونگا جس سےتیسری رکعت کے شروع میں رفع یدین کرنے کی دلیل ملتی ہے پھر اس کے نسخ کی حدیث پیش کرونگا جس سے اس موقع پررفع یدین نہ کرنے کی دلیل ملتی ہے۔
حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ‏.‏ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ‏.‏ وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ وَرَوَاهُ ابْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَيُّوبَ وَمُوسَى بْنِ عُقْبَةَ مُخْتَصَرًا۔ ’’نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب «سمع الله لمن حمده» کہتے تب بھی ( رفع یدین کرتے ) دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا   (کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے)‘‘۔ (صحیح البخاری: جلد نمبر ۱،كتاب الأذان، باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ، رقم الحدیث ۷۳۹)
مندرجہ بالا حدیث میں رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے وقت رفع یدین کرنااورذیل میں پیش کردہ حدیث میں صرف رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کرنا اوراس کے بعدپوری نماز میں رفع یدین نہ کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہےکہ پہلےتیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے وقت بھی رفع یدین کیا جاتا تھا اور بعد میں ایسا کرناترک کردیا گیا۔ ذیل میں رقم حدیث میں تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے وقت رفع یدین کی لفظ ’’لا‘‘سے نفی ومنع اور نسخ و ترک ثابت ہے جوکہ رفع یدین کی منسوخیت کی ساتویں واضح دلیل ہے۔
 أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو بَكْرٍ الدَاوُدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا رِزْقُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ’’إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ نَحْوَ صَدْرِهِ، وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَلَا يَرْفَعُهُ بَعْدَ ذَلِكَ‘‘۔ ’’حضرت ابن عمر رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سراٹھاتےتو رفع یدین کرتےتھے۔ اور اس کے بعد(پوری نمازمیں)رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔(ناسخ ومنسوخ من الحديث لابن شاهين، بَابٌ فِی رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِی الصَّلَاةِ، صفحہ نمبر ۱۵۳)
۸۔ رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کی منسوخیت کی آٹھویں دلیل
سب سے پہلے میں وہ منسوخ حدیث پیش کرونگا جس سے رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنے کی دلیل ملتی ہے پھر اس کے نسخ کی حدیث پیش کرونگا جس سے اس موقع پررفع یدین نہ کرنے کی دلیل ملتی ہے۔
۱۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا وَقَالَ ‏ "‏سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ‏"‏‏۔‏ وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ۔ ’’ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک سے، انہوں نے ابن شہاب زہری سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ سے، انہوں نے اپنے باپ (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے ( رفع یدین کرتے ) اور رکوع سے سرمبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔(صحیح البخاری: جلد نمبر ۱،كتاب الأذان،   باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي التَّكْبِيرَةِ الأُولَى مَعَ الاِفْتِتَاحِ سَوَاءً، رقم الحدیث ۷۰۲)
۲۔  حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رضى الله عنهما ـ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ فِي الصَّلاَةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حَتَّى يَجْعَلَهُمَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَهُ، وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ‏۔‏ فَعَلَ مِثْلَهُ وَقَالَ "رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ‏"‏‏۔‏ وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ وَلاَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ۔ ’’ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر تحریمہ سے شروع کرتے اور تکبیر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھا کر لے جاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تب بھی اسی طرح کرتے اور جب «سمع الله لمن حمده» کہتے تب بھی اسی طرح کرتے اور «ربنا ولك الحمد» کہتے۔ سجدہ کرتے وقت یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت اس طرح رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔ (صحیح البخاری: جلد نمبر ۱،كتاب الأذان،  باب إِلَى أَيْنَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، رقم الحدیث ۷۰۵)
۳۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَامَ فِي الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يُكَبِّرُ لِلرُّكُوعِ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَيَقُولُ "‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ‏"‏‏۔‏ وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ۔ ’’ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم کو یونس بن یزید ایلی نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی، انہوں نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھ اس وقت مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھے اور اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے لیے تکبیر کہتے اس وقت بھی ( رفع یدین ) کرتے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے «سمع الله لمن حمده»۔ البتہ سجدہ میں آپ رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔(صحیح البخاری: جلد نمبر ۱،كتاب الأذان، باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ، رقم الحدیث ۷۰۳)
مندرجہ بالا احادیث میں رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کرنااورذیل میں پیش کردہ احادیث میں صرف تکبیراولیٰ کا رفع یدین کرنا اور اس کے بعد پوری نماز میں رفع یدین نہ کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہےکہ پہلے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سےاٹھتے وقت بھی رفع یدین کیا جاتا تھا اور بعد میں ایسا کرناترک کردیا گیا۔ ذیل میں رقم احادیث میں رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کی لفظ ’’لا‘‘سے نفی ومنع اور نسخ و ترک ثابت ہے جوکہ رفع یدین کی منسوخیت کی آٹھویں اورسب سے بڑی دلیل ہے۔
۱۔ ’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ۔‏ قَالَ وَفِي الْبَابِ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالتَّابِعِينَ۔‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ‘‘۔ ’’حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمانےفرمایا: کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیسےنمازپڑھتےتھے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھی اورتکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا۔ اس باب میں براءبن عازب رضی اﷲعنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ فرماتے ہیں حدیث ابن مسعودؓ حسن صحیح ہےاور یہی قول ہے بہت سارےصحابہؓ و تابعینؒ میں اہل علم کا سفیان ثوریؒ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے‘‘۔(جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱،ص ۱۸۵؛ سنن النسائی: ج۱، ص۱۵۸؛ سنن ابی داؤد:ج۱،ص۱۱۶)
۲۔ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قِطَافٍ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ،’’أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُودُ‘‘۔ ’’امام ابوبکر بن ابی شیبہؒ روایت کرتے ہیں کہ ان سے وکیع بن الجراح نے اور ان سے ابوبکر بن عبداللہ بن قطاف النہشلی نے اور ان سے عاصم بن کلیب نے اور ان سے ان کے والد (کلیب بن شہاب)  روایت کرتے ہیں کہ بےشک حضرت علی کرم اللہ وجہہ نماز کی پہلی تکبیر کے ساتھ رفع یدین کیا کرتے تھے اس کے بعد (پھر) رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔ (الكتاب المصنف فی الأحاديث والآثار المؤلف: أبو بكر بن أبی شيبة، عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان بن خواستی العبسی[المتوفى: ۲۳۵ھ]، باب مَنْ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِی أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَا يَعُودُ، كِتَابُ الصَّلَوات، جلدنمبر۲، صفحہ نمبر۵۹، رقم الحدیث۲۴۶۰) (المعانی الآثارللطحاوی: ج۱، ص۲۲۵) (نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۶)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ترکِ رفع یدین کی حدیث پرزبیرعلی زئی صاحب اوردیگرغیرمقلدین حضرات کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ اور ان کے مدلل جوابات اس لنک پر ملاحضہ فرمائیں۔
۳۔’’حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَصْحَابُ عَلِيٍّ، لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، قَالَ وَكِيعٌ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ‘‘۔ ’’امام بخاریؒ کے استاذامام ابوبکربن ابی شیبہؒ(۲۳۵ھ) حضرت ابواسحاق السبیعی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ اور حضرت علی رضی اﷲعنہ  کے ساتھی نماز میں صرف پہلی تکبیرکے وقت رفع الیدین کرتے تھےاور وکیع کی روایت میں ہے کہ پھردوبارہ رفع الیدین نہ کرتے تھے‘‘۔ (رواۃ ابن أبی شیبۃ فی المصنف وسندصحیح علی شرط الشیخین:ج۲، ص۶۰) (المعانی الآثارللطحاوی: ج۱، ص۲۲۵)
۴۔ ’’حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحِمَّانِيُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَيَّاش، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، قَالَ: رَأَيْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، ثُمَّ لاَ يَعُود۔ قَالَ: وَرَأَيْت إبْرَاهِيم، وَالشَّعْبِيَّ يَفْعَلاَنِ ذَلِكَ۔ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَهَذَا عُمَرُ رضي الله عنه لَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ أَيْضًا إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الآُولَى فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ لِأَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَيَّاشٍ، وَإِنْ كَانَ هَذَا الْحَدِيثُ إنَّمَا دَارَ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ ثِقَةٌ حُجَّةٌ، قَدْ ذَكَرَ ذَلِكَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ‘‘۔ ’’حضرت ابراہیم نے اسود سے نقل کی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ وہ پہلی تکبیرمیں صرف ہاتھ اٹھاتے پھر دوبارہ ہاتھ نہ اٹھاتے اور میں نے ابراہیم نخعیؒ اور شعبی ؒ کو اسی طرح کرتے دیکھا۔ امام طحاویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عمررضی اﷲعنہ جو اس روایت کے مطابق صرف پہلی تکبیرمیں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یہ روایت صحیح ہے۔ کیونکہ اس کا دارمدار حسن بن عیاش راوی پر ہے۔ اور وہ قابل اعتماد وپختہ راوی ہے۔ جیساکہ یحییٰ بن معینؒ وغیرہ نے بیان کیا ہے‘‘۔ (المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۸؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۵، رقم ۱۷۲۴)
حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی ترکِ رفع یدین کی حدیث پرزبیرعلی زئی صاحب اوردیگرغیرمقلدین حضرات کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ اور ان کے مدلل جوابات اس لنک پر ملاحضہ فرمائیں۔
۵۔ ”روى ابن أبي شيبة من طريق أبي بَكْرِ بْن عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَا يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ۔ ’’ابوبکربن عیاشؒ نے حصین سے انہوں نےمجاہد سےروایت نقل کی ہے کہ میں نے ابن عمررضی اﷲعنہ کودیکھا جب نمازشروع کرتے توصرف پہلی تکبیرمیں ہاتھ اٹھاتے تھے‘‘۔ (رواۃ ابن أبی شیبۃ فی المصنف وسندصحیح علی شرط الشیخین: ج۲، ص۶۱؛  والبيهقی فی المعرفة:ج۲، ص۴۲۸)
۶۔ ”حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ۔ ’’حضرت اسودؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کےساتھ نماز پڑھی تو انہوں نے نماز میں کسی جگہ بھی رفع یدین نہیں کیا سوائے ابتداءنمازکے‘‘۔ (رواۃ ابن أبی شیبۃ فی المصنف وسندصحیح علی شرط الشیخین: ج۲، ص۶۱)
۷۔ ”روى أبو جعفر الطحاوي عن ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاش، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الآُولَى مِنْ الصَّلاَةِ۔ ’’ابوبکربن عیاشؒ نے حصین سے انہوں نےمجاہد سےروایت نقل کی ہے کہ میں نے ابن عمررضی اﷲعنہ کے پیچھے نماز ادا کی وہ صرف تکبیرافتتاح میں ہاتھ اٹھاتے تھے‘‘۔ (المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۵)
حضرت عبداﷲ بن عمررضی اللہ عنہ کی ترکِ رفع یدین کی حدیث پرزبیرعلی زئی صاحب اوردیگرغیرمقلدین حضرات کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ اور ان کے مدلل جوابات اس لنک پر ملاحضہ فرمائیں۔
۸۔ ”حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ إبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ لاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ الصَّلاَةِ إلَّا فِي الِافْتِتَاحِ۔ ’’حضرت ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نماز کے کسی بھی جزءمیں رفع الیدین نہیں کرتے تھے سوائے ابتداءِنماز کے‘‘۔(شرح المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۷، رقم الحدیث ۱۳۶۳؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۶، رقم ۱۷۳۰)
جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ سے ترکِ رفع یدین کی احادیث پرزبیرعلی زئی صاحب اوردیگرغیرمقلدین حضرات کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ اور ان کے مدلل جوابات اس لنک پر ملاحضہ فرمائیں۔
۹۔ ”حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَا يَسْتَفْتِحُ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا۔ ’’حضرت ابراہیم نخعی ؒ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (رواۃ ابن أبی شیبۃ فی المصنف وسندصحیح علی شرط الشیخین: ج۲، ص۵۹)
۱۰۔ ’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْمُغِيرَةِ قَالَ: قُلْت لِإِبْرَاهِيمَ (حَدِيثُ وَائِلٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ إذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ؟) فَقَالَ إنْ كَانَ وَائِلٌ رَآهُ مَرَّةً يَفْعَلُ ذَلِكَ، فَقَدْ رَآهُ عَبْدُ اللَّهِ خَمْسِينَ مَرَّةً، لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ۔ ’’سفیان مغیرہ سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی سے کہاکہ وائل بن حجرکی روایت میں ہےکہ میں نے جناب رسول اﷲﷺ کو نماز شروع کرتےاوررکوع میں جاتےاوررکوع سےسراٹھاتےہوئےرفع یدین کرتےدیکھاتوابرہیم نے جواب دیا، اگروائلؓ نے آپﷺ کو ایک مرتبہ ہاتھ اٹھاتے دیکھا ہے تو ابن مسعودؓ نے جناب رسول اﷲﷺ کو پچاسوں مرتبہ ہاتھ نہ اٹھاتے دیکھا‘‘۔ (شرح المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۴، رقم الحدیث ۱۳۵۱)
۱۱۔ ’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: دَخَلْت مَسْجِدَ حَضْرَمَوْتَ، فَإِذَا عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ، وَبَعْدَهُ۔ فَذَكَرْت ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ فَغَضِبَ وَقَالَ رَآهُ هُوَ وَلَمْ يَرَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ رضي الله عنه وَلاَ أَصْحَابُهُ۔ ’’عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ میں’’حضر موت‘‘ کی مسجد میں گیا، وہاں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت علقمہ اپنے والد گرامی کے حوالے سے یہ حدیث سنا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے قبل ،اور بعد از رکوع رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ تو یہ حدیث سن کر میں ابراہیم النخعی کے پاس آیا اور یہ حدیث سنا کر اس کے متعلق ان سے پوچھا۔ تو وہ یہ حدیث سن کر غصہ میں آگئے۔ اور کہنے لگے کہ: وائل بن حجر ؓ نےرسول اﷲﷺ کو دیکھ لیا اورعبد اللہ بن مسعود ؓ اوران کے ساتھی نہ دیکھ سکے۔ (شرح المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۴، رقم الحدیث ۱۳۵۲)
۱۲۔ ’’حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ،‏ وَحَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، وَيَزِيدَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرْنَا صَلاَةَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَأَيْتُهُ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلاَ قَابِضِهِمَا، وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ الْقِبْلَةَ، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْيُمْنَى، وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ‘‘۔ ’’ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے خالد سے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، اور ان سے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب  رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو ( زمین پر ) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے۔ پاؤں کی انگلیوں کے منہ قبلہ کی طرف رکھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے بائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر مقعد پر بیٹھتے‘‘۔ (صحیح البخاری: کتاب الأذان، باب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ، جلد نمبر ۱، رقم الحدیث ۸۲۸)
حضرت ابو حمیدساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترک رفع الیدین کی صحیح بخاری کی حدیث پر زبیر علی زئی صاحب اور ان کے متبعین کی طرف سےپیش کیئے جانے والےاشکالات کا تحقیقی جائزہ اور ان کے مدلل جوابات اس لنک پر ملاحضہ فرمائیں۔
جلیل القدر تابعین اور ائمہ دین کا ترکِ رفع یدین پر عمل
۱۔ ”حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا۔ ’’امام شعبی رحمة اﷲ علیہ سے مروی ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہی رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲، ص۶۰)
۲۔ ”حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ، وَعَلْقَمَةَ، أَنَّهُمَا كَانَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إِذَا افْتَتَحَا ثُمَّ لَا يَعُودَانِ۔ ’’حضرت جابرؒسے مروی ہے کہ حضرت اسود یزید رحمة اﷲ علیہ اور حضرت علقمہ رحمة اﷲ علیہ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲، ص۶۱)
۳۔’’وَلَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: ثِنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ: مَا رَأَيْت فَقِيهًا قَطُّ يَفْعَلُهُ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي غَيْرِ التَّكْبِيرَةِ الآُولَى‘‘۔ ’’ابن ابی داؤدؒ نے احمد بن یونسؒ سے انہوں نے امام ابوبکربن عیاش رحمة اﷲ علیہ سےنقل کیاکہ میں نے کسی عالم فقیہ کو کبھی تکبیرافتتاح کے علاوہ رفع یدین کرتے نہیں پایا‘‘۔ (المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۸)
۴۔’’حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: كَانَ قَيْسٌ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَا يَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا۔ ’’اسماعیل یحییٰ بن سعید رحمة اﷲ علیہ سے بیان کرتے ہیں کہ قیس رحمة اﷲ علیہ جب نماز میں داخل ہوتےتوسب سےپہلے رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲ ،ص۶۰)
۵۔’’قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: وَرَأَيْتُ الشَّعْبِيَّ، وَإِبْرَاهِيمَ، وَأَبَا إِسْحَاقَ، لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا حِينَ يَفْتَتِحُونَ الصَّلَاةَ‘‘۔ ’’حضرت عبدالملک بن ابجرؒ فرماتے ہیں:میں نے امام شعبی رحمة اﷲ علیہ،امام ابواسحاق رحمة اﷲ علیہ اورامام ابراہیم نخعی رحمة اﷲ علیہ کو دیکھا یہ تینوں صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے‘‘۔(ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲، ص۶۱)
۶۔’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، وَمُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لَا تَرْفَعْ يَدَيْكَ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلَاةِ إِلَّا فِي الِافْتِتَاحَةِ الْأُولَى ‘‘۔ ’’حضرت حصینؒ اور حضرت مغیرہؒ فرماتے ہیں: ’’امام ابراہیم نخعی رحمة اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ صرف نمازکے شروع میں رفع یدین کرے اس کے علاوہ پوری نماز میں دوبارہ رفع یدین نہ کرے‘‘۔(ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲، ص۶۰)
۷۔’’حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، وَمُغِيرَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: إِذَا كبَّرْتَ فِي فَاتِحَةِ الصَّلَاةِ فَارْفَعْ يَدَيْكَ، ثُمَّ لَا تَرْفَعْهُمَا فِيمَا بَقِيَ‘‘۔ ’’حضرت حصینؒ اور حضرت مغیرہؒ فرماتے ہیں: ’’امام ابراہیم نخعی رحمة اﷲ علیہ نے فرمایانمازی صرف نمازکے شروع میں رفع یدین کرے اس کے بعد پوری نماز میں دوبارہ رفع یدین نہ کرے‘‘۔(ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲، ص۶۰)
۸۔’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ خَيْثَمَةَ، وَإِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَا لَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إِلَّا فِي بَدْءِ الصَّلَاةِ۔ ’’ حضرت ابراہیم نخعی رحمة اﷲ علیہ ابتداءنماز کے علاوہ  رفع یدین نہیں کرتے تھے ‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲، ص۶۰)
۹۔حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْحَنَّاطُ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عِيسَى بْنِ أَبِي حَيَّةَ قَالَا: نا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي إِسْرَائِيلَ، نا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَّا عِنْدَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ۔ قَالَ إِسْحَاقُ: بِهِ نَأْخُذُ فِي الصَّلَاةِ كُلِّهَا‘‘۔ ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ،حضرت ابوبکررضی اﷲ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کے ساتھ نماز پڑھی۔ ان سب نے رفع یدین نہیں کیا مگر پہلی تکبیر کے وقت نماز کے شروع میں۔ محدث اسحٰق بن ابی اسرائیل ؒ کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو اپناتے ہیں پوری نماز میں‘‘۔ (سنن دار قطنی: ج۱، ص۵۲، رقم الحدیث ۱۱۳۳؛ سنن الکبریٰ للبیہقی: ج۲، ص۷۹)
امام طحاویؒ کا عقلی استدلال اور منصفانہ نظریہ
آخرمیں امام طحاویؒ کی پیش کردہ عقلی دلیل اور منصفانہ نظروفکرپیش کرکے میں اپنی اس تحریرکا اختتام کرونگا
’’قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَمَا أَرَدْت بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ تَضْعِيفَ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَمَا هَكَذَا مَذْهَبِي، وَلَكِنِّي أَرَدْت بَيَانَ ظُلْمِ الْخَصْمِ لَنَا۔ وَأَمَّا وَجْهُ هَذَا الْبَابِ مِنْ طَرِيقِ النَّظَرِ، فَإِنَّهُمْ قَدْ أَجْمَعُوا أَنَّ التَّكْبِيرَةَ الآُولَى، مَعَهَا رَفْعٌ، وَالتَّكْبِيرَةُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ لاَ رَفْعَ مَعَهَا۔ وَاخْتَلَفُوا فِي تَكْبِيرَةِ النُّهُوضِ، وَتَكْبِيرَةِ الرُّكُوعِ فَقَالَ قَوْمٌ حُكْمُهَا حُكْمُ تَكْبِيرَةِ الِافْتِتَاحِ، وَفِيهِمَا الرَّفْعُ كَمَا فِيهَا الرَّفْعُ۔ وَقَالَ آخَرُونَ حُكْمُهَا حُكْمُ التَّكْبِيرَةِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَلاَ رَفْعَ فِيهِمَا، كَمَا لاَ رَفْعَ فِيهَا۔ وَقَدْ رَأَيْنَا تَكْبِيرَةَ الِافْتِتَاحِ مِنْ صُلْبِ الصَّلاَةِ لاَ تُجْزِئُ الصَّلاَةُ إلَّا بِإِصَابَتِهَا، وَرَأَيْنَا التَّكْبِيرَةَ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، لَيْسَتْ كَذَلِكَ، لِأَنَّهُ لَوْ تَرَكَهَا تَارِكٌ، لَمْ تَفْسُدْ عَلَيْهِ صَلاَتُهُ۔ وَرَأَيْنَا تَكْبِيرَةَ الرُّكُوعِ، وَتَكْبِيرَةَ النُّهُوضِ، لَيْسَتَا مِنْ صُلْبِ الصَّلاَةِ لِأَنَّهُ لَوْ تَرَكَهَا تَارِكٌ لَمْ تَفْسُدْ عَلَيْهِ صَلاَتُهُ، وَهُمَا مِنْ سُنَنِهَا۔ فَلَمَّا كَانَتْ مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ، كَمَا أَنَّ الْكَبِيرَةَ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ، كَانَتَا كَهِيَ، فِي أَنْ لاَ رَفْعَ فِيهِمَا، كَمَا لاَ رَفْعَ فِيهَا۔ فَهَذَا هُوَ النَّظَرُ فِي هَذَا الْبَابِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَأَبِي يُوسُفَ، وَمُحَمَّدٍ، رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى‘‘۔ ’’امام طحاویؒ فرماتے ہیں کہ اس سے کسی عالم راوی کی کمزوری ظاہر کرنا مقصود نہیں اور نہ ہی یہ میراطریقہ ہےلیکن میرامقصودصرف مخالف فریق کی زیادتی واضح کرنا ہے۔ اب بطور نظروفکرکے اس بات پرغورکریں کہ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ تکبیرافتتاح (تکبیرتحریمہ) میں رفع یدین ہے۔ اور دونوں سجدوں کے درمیان والی تکبیرمیں رفع یدین نہیں۔ اٹھنے اور رکوع کی تکبیر میں اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کا حکم تکبیرافتتاح والاہے۔ جیسے اس میں ہاتھ اٹھاتے ہیں اسی طرح ان میں بھی ہاتھ اٹھائیں گے۔ جبکہ دوسرے کہتے ہیں کہ ان کا حکم دونوں سجدوں کے مابین تکبیروالاہے۔ جیسا کہ اس میں رفع یدین نہیں ان دونوں میں بھی رفع یدین نہیں ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تکبیرافتتاح تو نماز کا اصل حصہ ہے کہ اس کے بغیرنماز ہی نہیں ہوتی۔ اور دونوں سجدوں کے مابین تکبیروہ یہ حکم نہیں رکھتی کیونکہ بالفرض اگراس کو کوئی ترک کردے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی اور وہ دونوں نماز کے سنن میں سے ہیں۔ پس جب وہ نماز کی سنت میں سے ہیں جیساکہ اٹھنے کی تکبیرنماز کے ارکان میں سے نہیں۔ اس لئے کہ بالفرض اگراس کو چھوڑدے تو اس کی نماز نہ ٹوٹے گی۔ یہ دونوں تکبیرات نماز کی سنتوں میں سے ہیں۔ تو نماز کی سنت کا جو حکم ہے جیساکہ دونوں سجدوں کے درمیان والی تکبیر، تو وہی حکم ان کا ہےتو ان دونوں(اٹھنے اور رکوع) میں بھی رفع یدین نہیں، جیساکہ اس (سجدوں) میں رفع یدین نہیں۔ اس باب میں نظروفکر کا یہی تقاضاہے۔ ہمارے امام ابوحنیفہ، ابو یوسف اور محمد رحمھم اﷲتعالیٰ کا یہی معمول ہے‘‘۔(شرح المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۸)
نظرامام طحاویؒ کی تشریح
نظر و فکر سے اس مسئلے کو جانچ لیا جائے کہ تکبیرافتتاح میں رفع یدین سب کے ہاں متفق علیہ ہےاور دونوں سجدوں کے مابین تکبیرپرکیا جانے والا رفع یدین نہیں ہے۔ اب صرف رکوع کی تکبیرات اور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہونے والی تکبیرکا رفع یدین رہ گئے، اسی کے متعلق اختلاف ہواہے۔ ایک جماعت نے کہا اس کا حکم تکبیرافتتاح والاہےاس لئے ان دونوں مواقعوں پر بھی رفع یدین کیا جائے گاجیساکہ تکبیرافتتاح میں کیا جاتا ہے۔ دوسری جماعت نے کہا کہ اس کا حکم سجدوں کے رفع یدین کا ہے جیساکہ اس میں تکبیر تو ہے لیکن رفع یدین نہیں ہے اس لئے ان دونوں مواقعوں پربھی رفع یدین نہیں کیا جائے گا۔ دونوں جماعتوں کےنظریات کو مدنظررکھتے ہوئے ہم نے تکبیرات میں غور کیاکہ کس جماعت کا استدلال قوی اورمضبوط ہےاور دلائل کے ساتھ مشابہت ومناسبت رکھتاہےتو ہمیں معلوم ہوا کہ تکبیرافتتاحی تو نماز کا ایسا جز ہے کہ جس کے بغیرنماز شروع ہی نہیں ہوتی جبکہ تکبیرات بین السجدتین اس طرح نہیں کیونکہ وہ سنت ہے اگراس کو ترک کردیا جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اب تکبیرات رکوع اور تیسری رکعت پراٹھنے کی تکبیربھی بالکل اسی طرح سنت ہیں جس طرح تکبیرات بین السجدتین سنت ہیں اوریہ تمام نماز کا ایسا جز نہیں ہیں جس کے بغیرنمان نہ ہوگی۔ لہٰذااگر اس کو چھوڑدیا جائے تو نماز ہرگز فاسد نہ ہوگی کیونکہ یہ تمام تکبیرات مسنون ہیں اور جب ان دونوں کی حیثیت وہی ہے جو تکبیرات بین السجدتین کی ہے تو یہ دونوں اسی کی مثل ہوں گی۔ لہٰذا رکوع اور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہونے پربھی صرف تکبیرکہی جائے گی، رفع یدین نہیں ہوگاجیساکہ تکبیرات بین السجدتین میں رفع یدین نہیں ہے۔یہ تقاضائے نظرکے اعتبار سے ہےاور ہمارے مجتہدین امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمدرحمھم اﷲتعالیٰ کا مسلک یہی ہے۔
اﷲتعالیٰ سے دعاہے کہ اﷲپاک میری اس تحریرکے زریعے امت مسلمہ کی رہنمائی اوراصلاح فرمائےاوردنیابھرکے مسلمانوں کو فروعی مسائل میں اختلافات اور فرقہ واریت سے بچنے کی توفیق عطافرمائےاور میری اس تحریر کو میرے اور میرے والدین کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے۔ (آمین)