-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Friday 11 January 2019

اصول حدیث میں مرسل روایات کا حکم

اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم
لغت کے لحاظ سےمرسل کی تعریف:
ارسل، یرسل، ارسالاً (یعنی کھلاچھوڑدینا)سے اسم مفعول مرسل آتا ہے، گویاکہ مرسل حدیث کے روایت کرنے والے نے اسنادکو کھلاچھوڑدیا، اورا سے کسی معین راوی کے ساتھ مقیدہی نہیں کیا۔
اصطلاح کے لحاظ سےمرسل کی تعریف:
اصطلاح حدیث میں مرسل وہ حدیث ہے جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپرکا راوی ساقط ہو۔ صور ت اس کی یہ ہے کہ تابعی، خواہ وہ نابالغ ہو یا بالغ یہ کہےکہ: ’’حضورﷺنے کہایا آپ کے سامنے یہ ہوا‘‘ محدثین کے نزدیک مرسل کی یہی صورت ہے۔
مرسل حدیث کی تین اقسام ہیں:
۱۔ مراسیلِ صحابہؓ۔
 ۲۔ مراسیلِ تابعین۔ ؒ
 ۳۔ اوران کے بعد آنے والوں کی مراسیل۔
۱۔ صحابی کی مرسل روایت: یہ کہ صحابی کہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے یوں فرمایا حالانکہ انھوں نے یہ بات نبی کریمﷺ سے سنی نہ ہو۔
صحابی کا نبی کریمﷺ سے اس بات کو نہ سننے کا پتہ اس بات سے چل جاتا ہے کہ وہ صحابی دیر سے مشرف بااسلام ہوئےتھےاور جس معاملے کے بارے میں وہ خبر دے رہےہیں وہ پہلے کی ہواور وہ اپنے اسلام لانے سے قبل نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر بھی نہیں ہوئےتھے، یا پھر صحابی چھوٹی عمر کے ہوں اور اپنی ولادت سے بھی پہلے کے واقعات کی خبر دےرہے ہوں۔ تو اس بارے میں یہ بات تو واضح ہے کہ انھوں نے یہ حدیث نبی کریمﷺ کی زبانی نہیں سنی بلکہ کسی اور واسطہ سے سنی تھی، اور غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ واسطہ کسی دوسرےصحابی کابھی ہوسکتاہےجو ان سے عمر میں بڑےتھےیا اسلام لانے میں مقدم تھے۔ جیسا کہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی سن سات ہجری سے پہلے کے واقعات کے بارے میں احادیث ہیں کیونکہ وہ سات ہجری میں مسلمان ہوئے تھے۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان جیسے چھوٹے صحابہ کرامؓ کی شروع اسلام کے بارے میں روایات ہیں حالانکہ یہ تو پیدا ہی بعد میں ہوئے تھے۔ تو اس طرح کی مرسل روایات مقبول ہوں گی کیونکہ صحابہ سارے کے سارے عدول ہیں۔ لہٰذا ان روایات کا وہی حکم ہے جو مسند روایات کا ہے۔
۲۔ تابعی کی مرسل روایت: اور جب کوئی تابعی مرسل روایت بیان کرتا ہے اور اسے براہ ِراست رسول اللہﷺ سے منسوب کردیتا ہے تو یقیناً وہ اپنے اور رسول اللہﷺ کے درمیان کوئی واسطہ گراتا ہے۔ اور یہ واسطہ صحابی کا بھی ہوسکتا ہے اور تابعی یا اس سے بھی کم درجے کے راوی کا۔
اگر وہ گمشدہ واسطہ صحابی کا ہے تو صحابہؓ کا عادل ہونا تو سب جانتے ہیں اگرچہ صحابی کا نام معلوم نہ بھی ہو، اور اگر وہ واسطہ کسی تابعی کا ہے تو اس پر تو کوئی حکم لگ ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ مجہول ہے اور کسی انسان پر حکم لگانا اس کی پہچان کی فرع ہے۔ یعنی پہچان ہوگی تو حکم لگے گا۔
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی مراسیل کو جمہور نے اس سے مستثنی کیا ہے کیونکہ ان کی مراسیل کی جب بھی جانچ پڑتال کی گئی تو اس میں گمشدہ واسطہ صحابی ہی پایا گیا، تو گویا کہ ان کی مراسیل مسند کی طرح ہیں کیونکہ صحابہ سارے کے سارے عادل ہیں۔
۳۔ غیر صحابی اور غیر تابعی کی مرسل روایت: یہ وہ روایت ہے جسکی سند کے درمیان میں کوئی شخص اس شخص سےروایت کرتا ہے جس سے اس کی ملاقات ہی نہیں ہوئی تو اس طرح وہ اپنے اور اس شخص کے درمیان ایک واسطہ کو گراتا ہے جس سے وہ روایت کرتا ہے۔
امام ابو عبد اللہ حاکم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: ’’فَإِنَّ مَشَايِخَ الْحَدِيثِ لَمْ يَخْتَلِفُوا فِي أَنَّ الْحَدِيثَ الْمُرْسَلَ هُوَ الَّذِي يَرْوِيهِ الْمُحَدِّثُ بِأَسَانِيدَ مُتَّصِلَةً إِلَى التَّابِعِيِّ فَيَقُولُ التَّابِعِيُّ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘۔ ’’مشایخِ حدیث "مرسل حدیث "کی تعریف پر متفق ہیں کہ: جس روایت کو محدِّث تابعی تک متصل سند کیساتھ بیان کرےاور تابعی یہ کہے کہ: "رسول اللہﷺنے فرمایا"‘‘۔ (معرفة علوم الحديث:ص۱۶۷)
ابن عبد البر رحمہ اﷲفرماتےہیں:’’[محدثین کرام نے] اس لفظ[مرسل] کو بالاجماع ایسی حدیث پر بولا ہے جسے کبار تابعین میں سے کوئی نبی ﷺسے بیان کرے، مثال کے طور پر عبید اللہ بن عدی بن خیار، یا ابو امامہ سہل بن حنیف، یا عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ یا ان جیسا کوئی تابعی یہ کہے کہ : "رسول اللہ ﷺنے فرمایا"۔ اسی طرح ان سے نچلے درجہ کا کوئی تابعی کہے، مثال کے طور پر: سعید بن مسیب، سالم بن عبد اللہ، ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن، القاسم بن محمد، یا ان جیسا کوئی اور تابعی کہے۔ ایسے ہی علقمہ بن قیس، مسروق بن اجدع، حسن بصری، ابن سیرین، عامر شعبی، سعید بن جبیر، اور ان جیسے دیگر تابعین جنکی صحابہ کرام ؓسے ملاقات، اور مجلس ثابت ہوچکی ہے وہ [نبی ﷺسے] بیان کریں، تو یہ حدیث اہل علم کے ہاں "مرسل" ہے۔ اور بعض اہل علم کے ہاں اسی مرسل کے حکم میں ان لوگوں کی روایت ہے جو ان سے بھی نچلے طبقہ کے ہیں مثلاً: ابن شہاب، قتادہ، ابو حازم، یحییٰ بن سعید وغیرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کریں، اسے بھی کبار تابعین کی مرسل کی طرح "مرسل " ہی کہتے ہیں‘‘۔ (التمهيد: ج۱، ص۱۹-۲۰)
مرسل احادیث کے حجت ہونے کی دلیل:
صحابہ کرامؓ کی مرسل بالاتفاق حجت ہے اورتابعین کی مرسل احناف، مالکیہ اورحنابلہ کے نزدیک حجت ہے۔ امام شافعیؒ کےہاں مرسل معتضدحجت ہے۔  فرقہ غیرمقلدین کاعجیب حال ہے کہ تابعین کی مراسیل کوحجت نہیں مانتے لیکن تعلیقات بخاری (بخاری کی مراسیل) کوحجت مانتے ہیں۔ اسی طرح اس کی دلیل ہمارے پاس اجماعِ صحابہؓ ہےکیونکہ صحابہؓ اورتابعینؒ کااس پراجماع ہے۔ صحابہ کرامؓ نے حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہ کی احادیث کوقبول کیاحالانکہ انہوں نے رسول اﷲﷺسے براہِ راست صرف چاراحادیث سنی ہیں، باقی تمام مرسل ہیں اورحضرت براءبن عازب رضی اﷲعنہ توصاف ارشاد فرماتے تھے کہ ہم جوحدیثیں آپ لوگوں سے بیان کرتے ہیں وہ ساری ہم نے نبی پاکﷺسے نہیں سنیں بلکہ اورلوگوں سے سن کرحضورﷺسےروایت کردیتے ہیں۔ یہی حال تابعین کاتھاوہ بہت ارسال کرتےتھے۔ حضرت ابراہیم نخعیؒ نے امام اعمشؒ کوعبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ سے ایک حدیث سنائی۔ امام اعمشؒ نے عرض کیاکہ اسکی سند بیان کرو۔ امام نخعیؒ نے فرمایاکہ اگرمیں کسی کانام لےکرسندبیان کروں تواس کامطلب یہ ہے کہ میں نے یہ حدیث عبداﷲبن مسعودؓ سے صرف اسی واسطہ سے سنی ہے اوراگردرمیان کاراوی بیان نہ کروتواسکا مطلب ہے کہ میں نے ایک جماعت کے واسطہ سےیہ حدیث عبداﷲبن مسعودؓسے سنی ہے۔ اوراجماع کی نقلی دلیل کے علاوہ عقلی دلیل یہ ہےکہ جب ایک تابعی نےایک بات پورے یقین کے ساتھ نبی پاکﷺکی طرف منسوب کردی، تواس کامطلب یہ ہےکہ اس کویقین یاظنِ غالب حاصل ہےکہ یہ حضورﷺسےثابت ہےاوراگراس نےمحض ایک جھوٹ حضورپاکﷺکی طرف منسوب کردیاتوایسے شخص کی دیگرمسنداحادیث بھی حجت نہ رہیں گی کیونکہ جونبی پاکﷺ پرجھوٹ بول سکتاہےوہ اپنے استاد پربھی بطریق اولیٰ جھوٹ بول سکتاہے۔ اس لئے جب تابعی نے آپﷺکی طرف نسبت کردی تواُس کوثابت ماناجائے گا۔ (مقدمہ اعلاءالسنن قواعدفی علوم الحدیث: ص۳۹؛ احیاءالسنن: ج۱، ص۴۵-۴۶)
مرسل حدیث سے احتجاج اور رد میں علماءِدین کے مختلف مذاہب اور اقوال
’’فأما القابلون له المحتجون به فهم مالك وأبو حنيفة وجمهور أصحابهما وأكثر المعتزلة وهو أحد الروايتين عن أحمد بن حنبل رحمه الله وهؤلاء لهم في قبوله أقوال‘‘۔
’’وثانيها: قبول مراسيل التابعين واتباعهم مطلقا إلا أن يكون المرسل عرف بلإرسال عن غير الثقات فإنه لا يقبل مرسله وأما بعد العصر الثالث فإن كان المرسل من أئمة النقل قبل مرسله وإلا فلا وهو قول عيسى بن إبان واختيار أبي بكر الرازي والبزدوي وأكثر المتأخرين من الحنفية وقال القاضي عبد الوهاب المالكي هذا هو الظاهر من المذهب عندي‘‘۔
’’وثالثهما: اختصاص القبول بالتابعين فيما أرسلوه على اختلاف طبقاتهم وهذا هو الذي يقول به مالك وجمهور أصحابه وأحمد بن حنبل وكل من يقبل المرسل من أهل الحديث ثم من ألحق بالمرسل ما سقط في أثناء إسناده رجل واحد غير الصحابي يقبله أيضا كما يقبل المرسل وهو مقتضى مذهب المالكية في احتجاجهم ببلاغات الموطأ ومنقطعاته وهو الذي أضافه أبو الفرج القاضي إلى مالك ونصره
ورابعها: اختصاص القبول بمراسيل كبار التابعين دون صغارهم الذين تقل روايتهم عن الصحابة كما حكاه ابن عبد البر فيما تقدم‘‘۔
’’ثم اختلف هؤلاء القائلون له في طبقته فمنهم من بالغ فيه حتى قال هو أعلى من المسند وأرجح منه لأن من أسند الحديث فقد أحالك على إسناده والنظر في أحوال رواته والبحث عنهم ومن أرسل منهم حديثا مع علمه ودينه وإمامته وثقته فقد قطع لك على صحته وكفاك النظر فيه وهذا قول كثير من الحنفية وبعض المالكية فيما حكى ابن عبد البر عنهم‘‘۔
’’وقال آخرون: لا فرق بين المرسل والمسند بل هما سواء في وجوب الحجة والاستعمال وهو قول محمد بن جرير الطبري وأبي الفرج المالكي وأبي بكر الأبهري أحد أئمة المالكية أيضا وعند هؤلاء أنه متى تعارض مدلول حديثين واحدهما مرسل والآخر مسند فلا ترجيح بالإسناد على الإرسال بل بأمر آخر وهو غلو قريب من الذي قبله‘‘۔
’’وقال أكثر المالكية والمحققون من الحنفية كأبي جعفر الطحاوي وأبي بكر الرازي بتقديم المسند على المرسل عند التعارض وإن المرسل وإن كان يحتج به ويوجب العمل ولكنه دون المسند‘‘۔
’’قال ابن عبد البر وشبهوا ذلك بالشهود يكون بعضهم أفضل حالا من بعض وأقعد وأتم معرفة وإن كان الكل عدو لا جائزين الشهادة قال أنه لا يرسل إلا عن ثقة مشهور أو من هو من الصحابة رضي الله عنهم وهو الغالب وحسبك أن ابن عمر رضي الله عنهما كان يسأله عن قضايا أبيه مع طول صحبته له وملازمته إياه وابن المسيب لم يسمع منه‘‘۔
’’بقي النظر في أن ذلك هل هو مختص بابن المسيب أم يتعدى إلى من كان مثله والذي يظهر ولا بد أن من كان مثل ابن المسبي وعرف من عادته أنه لا يرسل إلا عن عدل مشهور فمراسليه يحتج بها وإن لم يعتضد كما تقدم من قول الإمام أبي نصر بن الصباغ وهذا هو اختيار المحققين كما تقدم ولا شك أن القول بقصر هذا الحكم على ابن المسيب ظاهرية محضة لا وجه له‘‘۔
’’وقد تحصل من جميع ما تقدم نقله في الحديث المرسل مذاهب متعددة أحدها رده مطلقا حتى مراسيل الصحابة وهذا قول الأستاذ أبي اسحاق‘‘۔
’’وثانيها: قبول مراسيل الصحابة ورد ما عداها مطلقا‘‘۔
’’وثالثها: قبول مراسيل كبار التابعين مطلقا ورد ما عداها‘‘۔
’’ورابعها: قبول مراسيل التابعين كلهم على اختلاف طبقاتهم دون من بعدهم‘‘۔
’’وخامسها: قبول مراسيل التابعين وأتباعهم دون من بعدهم وهذا اختيار أكثر الحنفية‘‘۔
’’وسادسها: قبول المرسل مطلقا وإن كان من أهل هذه الأعصار وهو توسع بعيد جدا غير مرض‘‘۔
’’وسابعها: إن كان المرسل عرف من عادته أنه لا يرسل إلا عن ثقة مشهور قبل وإلا فلا وهو المختار كما سنقرره إن شاء الله تعالى‘‘۔(جامع التحصیل فی احکام المراسیل: الباب الثانی فی ذكر مذاهب العلماء فی قبول الحديث المرسل والاحتجاج به أو رده، ص۳۳، ۳۴، ۴۸)
مرسل حدیث کے حجت ہونے کی تائید میں علماء دین کے مختلف مذاہب اور اقوال
۱۔ امام ابن الجوزیؒ اپنی کتاب التحقیق میں اور محدث خطیب بغدادیؒ اپنی تالیف الجامع فی اداب الراوی والسامع میں امام احمد بن حنبلؒ سے نقل کرتے ہیں: ’’رِبَمَا کَانَ المُرْسَلُ أَقْوَى مِنَ الْمُسْنَدِ‘‘۔ ’’بسااوقات حدیث مرسل مسند سےقوی ترہوتی ہے‘‘۔ ’’وَرُبَّمَا كَانَ الْمُنْقَطِعُ أَقْوَى إِسْنَادًا وَأَكْبَرُ‘‘۔ ’’بسااوقات منقطع اسنادقوی ترہوتی ہیں‘‘۔ (شرح نقایہ: ج۱،  ص۲،۱،طبع ہند) (الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع للخطيب البغدادی: ج۲، باب وَأَمَّا الْأَحَادِيثُ الْمُرْسَلَاتُ عَنِ النَّبِيّﷺ، ص۲۸۰)
۲۔ ’’(وَاحْتَجَّ) الْإِمَامُ (مَالِكٌ) هُوَ ابْنُ أَنَسٍ فِي الْمَشْهُورِ عَنْهُ وَ (كَذَا) الْإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ (النُّعْمَانُ) بْنُ ثَابِتٍ (وَتَابِعُوهُمَا) الْمُقَلِّدُونَ لَهُمَا، وَالْمُرَادُ الْجُمْهُورُ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ، بَلْ وَجَمَاعَةٌ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ، وَالْإِمَامُ أَحْمَدُ فِي رِوَايَةٍ حَكَاهَا النَّوَوِيُّ وَابْنُ الْقَيِّمِ وَابْنُ كَثِيرٍ وَغَيْرُهُمْ۔ وَحَكَاهُ النَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ عَنْ كَثِيرِينَ مِنَ الْفُقَهَاءِ أَوْ أَكْثَرِهِمْ‘‘۔’’(حجت ہے) امام (مالکؒ )ابن انس سےمشہورہےاور(ان کے ساتھ ساتھ) امام ابوحنیفہؒ (نعمان) بن ثابت(اوران کے پیروکاروں)مقلدین سے، یعنی دونوں فریقوں کے جمہورناظرین اور جماعت محدثین سےاورامام احمدؒ کی ایک روایت سےجسے حکایت کیا ہے امام نوویؒ نے، ابن القیمؒ ، ابن کثیرؒوغیرہ سے۔ اور اس بات کو حکایت کیاہے شرح المہذب میں امام نوویؒ نے اکثرفقہاءسے‘‘۔ (فتح المغیث بشرح الفیۃالحدیثص۲۴۶)
۳۔ امام ابوداؤدؒ اپنے رسالہ میں فرماتے ہیں کہ: ’’وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ فِي رِسَالَتِهِ: وَأَمَّا الْمَرَاسِيلُ فَقَدْ كَانَ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ يَحْتَجُّونَ بِهَا فِيمَا مَضَى، مِثْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكٍ، وَالْأَوْزَاعِيّ حَتَّى جَاءَ الشَّافِعِيؒ فَتكلم فِي ذَلِك، وَتَابعه علىہ أَحْمد بن حَنْبَل وَغَيره‘‘۔ ’’مراسیل روایات سےگذشتہ زمانوں میں اکثر علماءدلیل لیاکرتے تھے۔ مثلاً(امام سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ )جب امام شافعیؒ آئے توانہوں نےاس میں کلام کیا اوراسی طرح احمدبن حنبلؒ وغیرہ کے بعدوالوں سے‘‘۔ (فتح المغیث بشرح الفیۃالحدیثص۲۴۶)
۴۔ ’’الْمَرَاسِيلُ حُجَّۃَ مُطْلِقاً، فَقَدْ نُقِلَ عَنْ مَالِكٌ، وَأَبِی حَنِيفَةَ، وَأَحْمَدُ فِي رِوَايَةٍ حَكَاهَا النَّوَوِيُّ، وَابْنُ الْقَيِّمِ، وَابْنُ كَثِيرٍ وَغَيْرُهُمْ۔ وَحَكَاهُ النَّوَوِيُّ أیضاً فِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ عَنْ كَثِيرِينَ مِنَ الْفُقَهَاءِ أَوْ أَكْثَرِهِمْ‘‘۔’’مرسل مطلقاًحجت ہے۔ یہ بات منقول ہے امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام احمدؒ کی ایک روایت سےجسے حکایت کیا ہے امام نوویؒ نے، ابن القیمؒ ، ابن کثیرؒوغیرہ سے۔ اور اس کے علاوہ حکایت کیاہے شرح المہذب میں امام نوویؒ نے اکثرفقہاءسے‘‘۔(المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۲۷)
۵۔ حافظ ابن رجب حنبلیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’وَاحْتَجَّ بالْمَرَاسِيلُ أَبُوحَنِيفَةَ وَأصْحَاْبَہ، وَمَالِكٍ وَأصْحَاْبَہ، وَکَذَا الشَّافِعِي وَأَحْمَدُ وَأصْحَاْبَہما‘‘۔’’مرسل روایات سے دلیل پکڑتے ہیں امام ابوحنیفہؒ اوران کے اصحاب، امام مالکؒ اوران کے اصحاب، امام شافعیؒ اورامام احمدؒ اور ان کے اصحاب بھی‘‘۔(المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۳۹)
۶۔ حافظ ذہبیؒ نے امام اوزاعیؒ کے متعلق لکھا کہ: ’’قُلْتُ: يُرِيْدُ: أَنَّ الأَوْزَاعِيَّ حَدِيْثُه ضَعِيْفٌ مِنْ كَوْنِهِ يَحتَجُّ بِالمَقَاطِيْعِ، وَبِمَرَاسِيْلِ أَهْلِ الشَّامِ‘‘۔ ’’وہ مقطوعات اور اہل شام کے مراسیل سے استدلال کرتے تھے‘‘۔ (سیر اعلام النبلاء : ج۷، ص۱۱۴)
۷۔ حسن بصریؒ سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں: ”اذا اجتمع اربعة من الصحابة علی حدیث ارسلتہ“۔ ’’جب صحابہ میں چار لوگ کسی حدیث پر جمع ہوجائیں تو اسے مرسل رکھتاہوں‘‘۔ (مالک حیاتہ وعصرہ وآراء ہ وفقہہ، ص۲۹۶، ابوزہرہ، قاہرہ)
۸۔ حسن بصریؒ ہی سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب میں تم سے کہوں کہ مجھ سے بیان کیا فلاں نے تو وہ حدیث ہے اور کچھ نہیں اور جب میں کہوں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو میں نے اسے ۷۰ یا اس سے زیادہ لوگوں سے سنا ہے۔(ایضاً)
۹۔ ’’وَقاَأما الْمَرَاسِيل فقد كَانَ يحْتَج بهَا الْعلمَاء فِيمَا مضى مثل سُفْيَان الثَّوْريّ وَمَالك بن أنس وَالْأَوْزَاعِيّ حَتَّى جَاءَ الشَّافِعِي فَتكلم فِيهَا وَتَابعه على ذَلِك أَحْمد بن حَنْبَل وَغَيره رضوَان الله عَلَيْهِم ‘‘۔ ’’مراسیل روایات سےگذشتہ زمانوں میں علماءاحتجاج کیا کرتے تھے۔ مثلاً(امام سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ )جب امام شافعیؒ آئے توانھوں نےمرسل کی حجیّت میں کلام کیا اوراسی طرح احمدبن حنبلؒ وغیرہ کے بعدوالوں سے‘‘۔ (المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۲۵)
۱۰۔ تمام تابعین کرامؒ بھی اس کی حجیت کے قائل ہیں چنانچہ علامہ ابن جریر ؒ فرماتے ہیں : ’’وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَأَجْمَعَ التَّابِعُونَ بِأَسْرِهِمْ عَلَى قَبُولِ الْمُرْسَلِ، وَلَمْ يَأْتِ عَنْهُمْ إِنْكَارُهُ، وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ إِلَى رَأْسِ الْمِائَتَيْنِ۔ قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: كَأَنَّهُ يَعْنِي أَنَّ الشَّافِعِيَّ أَوَّلُ مَنْ رَدَّهُ‘‘۔ ’’تابعین سب کے سب اس امر پر متفق تھے کہ مرسل قابل احتجاج ہے ۔ تابعین سے لے کر دوسری صدی کے آخر تک ائمہ میں سےکسی شخص نے مرسل کے قبول کرنے کا انکار نہیں کیا ۔ امام ابن عبدالبرؒفرماتے ہیں کہ گویاامام شافعیؒ ہی وہ پہلےبزرگ ہیں جنہوں نے مرسل کے ساتھ احتجاج کا انکار کیاہے‘‘۔(تدریب الراوی: ص۲۲۳؛ منیۃالالمعی: ص۲۷؛ توجیہہ النظر: ص۲۴۵؛ ومقدمہ فتح الملھم: ص۳۴)
۱۱۔ ’’ومذهب مالك وأبى حنيفة وأحمد وأكثر الفقهاء أنه يحتج به ومذهب الشافعى أنه اذا انضم إلى المرسل ما يعضده احتج به وذلك بأن يروى أيضا مسندا أو مرسلا من جهة أخرى أو يعمل به بعض الصحابة أو أكثر العلماء‘‘۔ ’’امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام احمدؒ اور اکثرفقہاءکامذہب ہے کہ مرسل قابل احتجاج ہے اورامام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگرمرسل کے ساتھ کوئی تقویت کی چیزمل جائے تو وہ حجت ہوگا، مثلاًیہ کہ وہ مسنداًبھی مروی ہویادوسرےطریق سے وہ مرسل روایت کیا گیاہویا بعض حضرات صحابہ کرامؓ یا اکثرعلماءنے اس پرعمل کیاہو‘‘۔ (مقدمہ نووی برشرح مسلم: ج۱، ص۲۹)
۱۲۔ حافظ بلقینی ؒنے فرمایا:”ان التابعین أجمعوا بأمرہم علی قبول المراسیلِ ولم یأت عنہم انکارہ ولا عن أحد من الأئمة بعدہم الی رأس المئین۔۔۔ حكى بعضُهم الإجماعَ على قبول ِ مراسيل الصحابة“۔ ’’تمام تابعین متفقہ طور پر مرسل روایات کو قبول کرتے تھے؛ بلکہ تابعین کے بعد بھی دوسری صدی ہجری تک ائمہ میں سے کسی کی طرف سے مراسیل قبول کرنے سے انکار ثابت نہیں۔۔۔ تمام صحابہؓ کا مرسل روایات کو قبول پراجماع ہے‘‘۔ (محاسن الاصطلاح وتضمین کتاب ابن صلاح:ص۲۱۱، سراج الدین بلقینی، دارالکتب)
۱۳۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ مراسیل سےاحتجاج اورعدم احتجاج کےبارےمیں بحث کرتےہوئےلکھتےہیںواماالمراسیل قدتنازع الناس فی قبولھاوردّھاواصحّ الاقوال ان منھاالمقبول والمردودمنھاالموقوف فمن علم من حالہ افہ لایرسل الاعن ثقہ قبل مرسلہ ومن عرف انہ یرسل عن الثقۃوغیرالثقۃ کان ارسالہ روایۃ عن من لایعرف حالہ فھذاموقوف وماکان من المراسیل مخالفاً لمارواہ الثقات کان مردوداً واذاکان المرسل من وجھین کل من الراویین اخذالعلم عن شیوخ اٰخرفھٰذا یدل علیٰ صدقہ فان مثل ذٰلک لایتصورفی العادۃ تماثل الخطأفیہ وتعمدالکذب“۔ ’’بہرحال مراسیل کے قبول اورردکرنے میں لوگوں نے اختلاف کیاہےاور صحیح ترقول یہ ہے کہ مراسیل میں مقبول ومردوداور موقوف سبھی اقسام ہیں سوجس کے حال سے یہ معلوم ہواکہ وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہے تواس کامرسل قبول کیاجائے گااور جو ثقہ اور غیرثقہ سب سے ارسال کرتا ہےاور جس سے اس نے حدیث مرسل روایت کی ہے اس کا علم نہیں تو ایسی مرسل حدیث موقوف ہوگی اور جو مراسیل ثقات کی روایت کے خلاف ہوں تو وہ مردود ہوں گے اور جب مرسل دو طریقوں سے مروی ہو ایک مرسل الگ شیوخ سے اور دوسراالگ سےتو یہ اس کے صدق پر دلالت کرتا ہے کیونکہ عادتاً اس میں خطاء اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کا تصورنہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (منہاج السنۃ: ج۴،  ص۱۱۷)
۱۴۔ موجودہ دور کے محقق علامہ زاہد الکوثریؒ(متوفی۱۳۷۲ھ) لکھتے ہیں: ’’والاحتجاج بالمرسل کان سنۃ متوارثۃ جرت علیہ الامۃ فی القرون الفاضلۃ حتیٰ قال ابن جریرؒردالمرسل مطلقاًبدعۃ حدثت فی رأس المأتین۔ کماذکرہ الباجیؒ فی اصولہ وابن عبدالبرؒ فی التمھیدوابن رجبؒ فی شرح علل الترمذی“۔ ’’مرسل کے ساتھ احتجاج کرناایک ایسا متوارث طریق تھا جس پر قرون فاضلہ میں امت عمل پیرارہی ہے۔ امام ابن جریرؒنےتویہاں تک کہاہے کہ مطلقاًمرسل کو رد کرنا بدعت ہے جو دوسری صدی کے آخرمیں ایجاد ہوئی جیساکہ علامہ باجیؒ نے اپنے اصول میں اور ابن عبدالبرؒنے تمہیدمیں اور ابن رجب ؒنے شرح علل ترمذی میں ذکرکیاہے‘‘۔ (تانیب الخطیب: ص۱۵۲، طبع مصر)
۱۵۔ مشہورغیرمقلدعالم نواب صدیق حسن خان صاحبؒ اور علامہ جزائریؒ لکھتے ہیں: ’’واماالمراسیل فقدکان یحتج بھاالعلماءفیما مضیٰ مثل سفیان الثوریؒ ومالک بن أنسؒ والاوزاعیؒ حتیٰ جاءالشافعیؒ فتکلم فیھا‘‘۔ ’’مراسیل کے ساتھ گذشتہ زمانوں میں علماءاحتجاج کیا کرتے تھے۔ مثلاً(امام سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ )جب امام شافعیؒ آئے توانھوں نےمرسل کی حجیّت میں کلام کیا‘‘۔ (الحطۃفی ذکرانصحاح السنۃ: ص۱۰۶؛ وتوجیہ النظر: ص۲۴۵)
۱۶۔ حضرت امام شافعیؒ نے مراسیل کی بحث اپنی کتاب الرسالۃ فی اصول فقہ صفحہ نمبر۶۳طبع بولاق میں کی ہے۔ چنانچہ امام شافعیؒ کا مشہورقول یہ بتایا گیاہے کہ: ’’قال الشافعیؒ: وارسال ابن المسیب عندنا حسن‘‘۔ ’’امام شافعیؒ فرماتے ہیں: ابن المسیب کا ارسال حسن درجے کاہے‘‘۔(المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۳۳)
۱۷۔’’اشْتُهِرَ عَنِ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ لَا يَحْتَجُّ بِالْمُرْسَلِ، إِلَّا مَرَاسِيلَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ‘‘۔ ’’امام شافعیؒ کامشہور قول یہ بتایاگیا ہےکہ ان کے نزدیک سعیدبن المسیب کی مراسیل کے علاوہ مرسل حجت نہیں‘‘۔ (تدریب الراوی: ص۲۲۴)
۱۸۔ ’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مُرْسَلاتُ مُجَاهِدٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُرْسَلاتِ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ بِكَثِيرٍ، كَانَ عَطَائٌ يَأْخُذُ عَنْ كُلِّ ضَرْبٍ‘‘۔ ’’علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں: میرے نزدیک مجاہد کی مراسیل؛ عطاء بن ابی رباح کی مراسیل سے زیادہ پسندیدہ ہیں، عطا سب سے روایت کرتے تھے‘‘۔ (سنن الترمذی بتحقیق الألبانی: کتاب العلل، باب مرسل حدیث کاحکم، ص۸۹۴)
۱۹۔ ’’قَالَ عِلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى: مُرْسَلاتُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُرْسَلاتِ عَطَائٍ‘‘۔ ’’علی بن المدینی کہتے ہیں: میرے نزدیک سعید بن جبیر کی مراسیل عطاء کی مراسیل سے زیادہ پسندیدہ ہیں‘‘۔ (سنن الترمذی بتحقیق الألبانی: کتاب العلل، باب مرسل حدیث کاحکم، ص۸۹۴)
۲۰۔ ’’قُلْتُ لِيَحْيَى: مُرْسَلاتُ مُجَاهِدٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَمْ مُرْسَلاتُ طَاوُسٍ؟ قَالَ: مَا أَقْرَبَهُمَا‘‘۔ ’’علی بن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن سعید القطان سے پوچھا: مجاہد کی مراسیل آپ کے نزدیک زیادہ اچھی ہیں یا طاؤس کی؟ کہا: دونوں قریب قریب ہیں‘‘۔ (سنن الترمذی بتحقیق الألبانی: کتاب العلل، باب مرسل حدیث کاحکم، ص۸۹۴)
۲۱۔ ’’قُلْتُ لِيَحْيَى: فَمُرْسَلاتُ مَالِكٍ؟ قَالَ: هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ، ثُمَّ قَالَ يَحْيَى: لَيْسَ فِي الْقَوْمِ أَحَدٌ أَصَحُّ حَدِيثًا مِنْ مَالِكٍ‘‘۔ ’’علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن سعید القطان سے پوچھا: آپ مالک کی مراسیل کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کہا: یہ مجھے زیادہ پسند ہیں، پھر یحییٰ بن سعیدالقطان نے کہا: رواۃ حدیث میں مالک سے زیادہ کسی کی حدیث صحیح نہیں ہے‘‘۔ (سنن الترمذی بتحقیق الألبانی: کتاب العلل، باب مرسل حدیث کاحکم، ص۸۹۴)
۲۲۔ ’’حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَنْبَرِيُّ، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ يَقُولُ: مَا قَالَ الْحَسَنُ فِي حَدِيثِهِ: "قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِلا وَجَدْنَا لَهُ أَصْلا إِلا حَدِيثًا أَوْ حَدِيثَيْنِ‘‘۔ ’’سوار بن عبداللہ عنبری کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ القطان کو کہتے سنا: حسن بصری اپنی روایت میں جب «قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم»کہتے ہیں تو ایک یا دو حدیث کے علاوہ مجھے ان کی ساری احادیث کی اصل مل گئی‘‘۔ (سنن الترمذی بتحقیق الألبانی: کتاب العلل، باب مرسل حدیث کاحکم، ص۸۹۴)
۲۳۔ ’’وَقَدْ احْتَجَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْمُرْسَلِ أَيْضًا‘‘۔ ’’بعض اہل علم نے مرسل کو حجت مانا ہے‘‘۔ (سنن الترمذی بتحقیق الألبانی: کتاب العلل، باب مرسل حدیث کاحکم، ص۸۹۵)
مندرجہ بالا تفصیلی دلائل اور ائمہ کرامؒ کے اقوال سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مرسل حدیث صحیح اور قابل استدلال ہے۔ قرون اولیٰ میں دوسری صدی کے آخر تک تابعینؒ اورآئمہؒ دین میں سے کوئی بھی مرسل حدیث سے احتجاج کا منکر نہیں تھا۔ یہاں تک کہ دوسری صدی کے آخرمیں آنے والے امام شافعیؒ جنہوں نےمرسل روایات کی حجیّت میں سب سےپہلےکلام کیا، ان کے نزدیک بھی سعیدبن المسیب کی مرسل روایات صحیح اور قابل استدلال ہیں جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مرسل روایات کےقابل حجت اور قابل استدلال ہونےکےتو امام شافعیؒ بھی قائل تھے۔ لہٰذا جب امام شافعیؒ کے نزدیک سعیدبن المسیب کی مراسیل صحیح اور قابل استدلال ہوسکتی ہیں تو پھر امام ابوحنیفہؒ اور احناف کے نزدیک حضرت ابراہیم نخعیؒ و دیگر محدثین کی مراسیل قابل حجت اور قابل استدلال کیوں نہیں ہوسکتیں؟
الحمدﷲدلائل سے یہ بات ثابت ہوگئی قرون اولیٰ میں دوسری صدی کے آخر تک تمام صحابہؓ وتابعینؒ اور آئمہؒ دین کا اس پر اجماع تھا کہ مرسل حدیث قابل قبول اورقابل استدلال ہے۔ مرسل حدیث کے حجت ہونے یانہ ہونے کاجھگڑادوسری صدی کے بعدسے چلا آرہاہےمگردوسری صدی تک مرسل روایات کو ساری امت حجت مانتی تھی۔ لہٰذا غیرمقلدین حضرات کامحض مرسل مرسل کی رٹ لگاکراپنی جان چھڑانا آسان نہیں ہے۔ حق بات یہ ہے کہ مرسل جبکہ اس کی سندصحیح ہواورکبار تابعی سے مروی ہواور کسی دوسری روایت سے اس کی تائید ہوتی ہو تو وہ بالکل صحیح اورقابل احتجاج ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ غیرمقلدین حضرات کے نزدیک خیرالقرون میں ہونے والااجماع تو حجت نہیں لیکن دوسری صدی کے بعد کے محدثین کا نظریہ قابل قبول ہے۔ جبکہ غیرمقلد عالم حافظ محمدصاحب گوندلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’اور امت کی اکثریت کا لحاظ قرنِ اوّل میں لیاجائے گا‘‘۔ (خیرالکلام فی وجوب الفاتحہ خلف الامام: ص۵۳۱)
بقول غیرمقلدین حضرات تقلیدِشخصی تو چوتھی صد ی کے بعد کی بدعت ہےمگرمطلقاًمرسل کو رد کرنا تو دوسری صدی کے بعد کی بدعت نکلی۔ غیرمقلدین حضرات کا عجیب وطیرہ ہے کہ ان کے نزدیک خیرالقرون کے جلیل القدر تابعین اورائمہ دین(حسن بصریؒ، سفیان بن عیینہؒ، امام اوزاعیؒ، امام سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدابن حنبلؒ)کی بات حجت نہیں لیکن بعد کےامام شافعیؒ ودیگرمحدثین کی بات حجت ہے۔
اصولی طورپرہونا یہ چاہیئےکہ مرسل روایات کی قبولیت اور رد میں ائمہؒ دین کے بنائے ہوئے اصولوں کی پیروی کرنی ہی ہے تو پھراس دور کے ائمہ دین کی پیروی کی جائے جن کے بارے میں رسول اﷲﷺنےبہترین لوگ ہونے کی گواہی دی ہے ناکہ اس دور کےائمہؒ دین کی پیروی کی جائے جن کے بارے میں رسول اﷲﷺ نے فرمایاہے کہ ان کی گواہی قسم سے پہلے ہوگی اور قسم گواہی سے پہلے۔ اس لئےغیرمقلدین حضرات سے درخواست ہے کہ مرسل روایات کی قبولیت و رد میں اگر تقلید کرنی ہی ہے توامام شافعیؒ اور ان کے بعدکے ائمہؒ دین کے بجائےزمانۂِ خیرالقرون کے جلیل القدرتابعینؒ وائمہ مجتہدین ؒکی کریں۔
حضرت ابراہیم نخعیؒ کی مرسل روایات کے حجت ہونے کی تائید میں علماء دین کےاقوال
۱۔’’عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ أَنَّهُ قَالَ: مَرَاسِيلُ إبْرَاهِيمَ صَحِيحَةٌ إلَّا حَدِيثَ: تَاجِرِ البحرين، وحديث القهقه، انْتَهَى۔ وَأَمَّا مَرَاسِيلُ النَّخَعِيِّ، فَقَالَ ابْنُ مَعِينٍ: مَرَاسِيلُ إِبْرَاهِيمَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مَرَاسِيلِ الشَّعْبِيِّ‘‘۔ ’’امام یحیٰ بن معینؒ فرماتے ہیں کہ: مراسیل ابراہیم صحیح ہیں سوائے تاجرالبحرین اور قہقہہ والی حدیث کے۔ اور ابراہیم نخعی کی مراسیل کے بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ: شعبی کی مراسیل سے زیادہ پسند مجھے ابراہیم کی مراسیل ہیں‘‘۔ (المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۴۴) (نصب الرایۃ: ج۱، ص۵۲، رقم ۲۴۷)

۲۔’’وَأَمَّا مَرَاسِيلُ النَّخَعِيِّ، فَقَالَ ابْنُ مَعِينٍ: مَرَاسِيلُ إِبْرَاهِيمَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مَرَاسِيلِ الشَّعْبِيِّ‘‘۔ ’’ ابن معینؒ فرماتے ہیں کہ: شعبی کی مراسیل سے زیادہ پسند مجھے ابراہیم کی مراسیل ہیں‘‘۔ (المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۳۶) (تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: ص۲۳۱) (سیر اعلام النبلاء: ج۴، ص۵۲۲)

۳۔’’وَقَالَ الْأَعْمَشُ: قُلْتُ لِإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ: أَسْنِدْ لِي، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ، عَنْ رَجُلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فَهُوَ الَّذِي سَمِعْتُ، وَإِذَا قُلْتُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَهُوَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ‘‘۔ ’’اعمشؒ فرماتے ہیں کہ:  ابراہیم نخعی نے بتلایاکہ عبداﷲسے میراارسال کرناوہ معینہ آدمی سے روایت ذکرکرنے سے زیادہ مضبوط ہے، یہ روایت اسی طرح کی مرسل ہے اور یہ اس متصل سے اعلیٰ ہے جو ایک معینہ آدمی سے نقل کی جائے اور عبداﷲکی طرف نسبت کی جائے‘‘۔ (تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: ص۲۳۱) (سیر اعلام النبلاء: ج۴، ص۵۲۷)
۴۔ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَإِنْ قَالُوا مَا ذَكَرْتُمُوهُ عَنْ إبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ غَيْرُ مُتَّصِلٍ۔ قِيلَ لَهُمْ كَانَ إبْرَاهِيمُ، إذَا أَرْسَلَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، لَمْ يُرْسِلْهُ إلَّا بَعْدَ صِحَّتِهِ عِنْدَهُ، وَتَوَاتُرِ الرِّوَايَةِ عَنْ عَبْدِ اللَّه، قَدْ قَالَ لَهُ الأَعْمَشُ: إذَا حَدَّثْتنِي فَأَسْنِدْ۔ فَقَالَ: إذَا قُلْت لَك قَالَ "عَبْدُ اللَّهِ" فَلَمْ أَقُلْ ذَلِكَ حَتَّى حَدَّثَنِيهِ جَمَاعَةٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَإِذَا قُلْت "حَدَّثَنِي فُلاَنٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ" فَهُوَ الَّذِي حَدَّثَنِي‘‘۔ ’’امام ابوجعفرطحاویؒ فرماتے ہیں: اگروہ کہیں کہ جو تم نے ابراہیم سے حضرت عبداﷲرضی اﷲعنہ سے نقل کیا وہ متصل نہیں، تو ان کویہ جواب دیا جائے گا کہ ابراہیم جب عبداﷲرضی اﷲعنہ سے ارسال کرتے ہیں تووہ روایت ان کے نزدیک تواتروصحت سے پہنچی ہوئی ہوتی ہے۔ اعمش نے ان کوکہامجھے روایت بیان کرتے ہوئے سند بیان کیا کروتو انہوں (ابراہیم نخعیؒ) نے فرمایا: جب میں تم سے کہوں کہ عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ نے فرمایا تو سمجھ لوکہ میں یہ بات اسی وقت کہتا ہوں جب وہ بات ایک جماعت مجھ سےبیان کرتی ہے۔ اور جب میں کہوں: "حدثنی فلان عن عبدﷲ" تو مجھے فقط اسی شخص نے بیان کی ہوتی ہے‘‘۔(المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۶-۲۲۷؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۵-۴۰۶، رقم ۱۷۲۴، ۱۷۳۰)
۵۔ ’’وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: مُرْسَلَاتُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَصَحُّ الْمُرْسَلَاتِ، وَمُرْسَلَاتُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ لَا بَأْسَ بِهَا، وَلَيْسَ فِي الْمُرْسَلَاتِ أَضْعَفُ مِنْ مُرْسَلَاتِ الْحَسَنِ، وَعَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، فَإِنَّهُمَا كَانَا يَأْخُذَانِ، عَنْ كُلِّ وَاحِدٍ، وَمَرَاسِيلُ الْحَسَنِ تَقَدَّمَ الْقَوْلُ فِيهَا عَنْ أَحْمَدَ‘‘۔ ’’ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ: صحیح ترین مرسلات سعید بن المسیب کی ہیں اور ابراہیم نخعی کی مرسلات میں کوئی حرج نہیں ہے، اور سب سے ضعیف ترین مرسلات حسن اور عطاء کی ہیں اسلئے کہ وہ ہرکسی سے حدیث لے لیتے ہیں‘‘۔ (تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: ص۲۳۰)
۶۔ ’’قال ابن عبد البر في التمهيد: مراسيل سعيد بن المسيب، ومحمد بن سيرين، وإبراهيم النخعي، عندهم صحاح۔ وقالوا: مراسيل عطاء والحسن لا يحتج بهما، لأنهما يأخذان عن كل أحد۔ وكذلك مراسيل أبي العالية وأبي قلابة‘‘۔ ابن عبدالبرؒالتمہیدمیں فرماتے ہیں: ’’سعید بن المسیب، محمد ابن سیرین اور ابراہیم نخعی کی مراسیل انکے نزدیک صحیح ہیں اور فرماتے ہیں کہ عطاء اور حسن کی مراسیل حجت نہیں ہیں۔ اس لئے کہ وہ دونوں ہرایک سے حدیث لے لیتےہیں اور یہی حال ابو قلابہ اور ابو عالیہ کاہے‘‘۔ (التمهيد: ج۱، ص۳۰، مقدمة كتاب المراسيل:۴۶)
مرسل روایات کے حجت ہونے پرامام شافعی رحمہ اﷲکامؤقف
۱۔ ’’ومذهب الشافعى أنه اذا انضم إلى المرسل ما يعضده احتج به، وذلك بأن يروى أيضا مسندا، أو مرسلا من جهة أخرى، أو يعمل به بعض الصحابة، أو أكثر العلماء‘‘۔ ’’اورامام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگرمرسل کے ساتھ کوئی تقویت کی چیزمل جائے تو وہ حجت ہوگا، مثلاًیہ کہ وہ مسنداًبھی مروی ہویادوسرےطریق سے وہ مرسل روایت کیا گیاہویا بعض حضرات صحابہ کرامؓ یا اکثرعلماءنے اس پرعمل کیاہو‘‘۔ (مقدمہ نووی برشرح مسلم: ج۱، ص۲۹)
۲۔ حضرت امام شافعیؒ نے مراسیل کی بحث اپنی کتاب الرسالۃ فی اصول فقہ صفحہ نمبر۶۳طبع بولاق میں کی ہے۔ چنانچہ امام شافعیؒ کا مشہورقول یہ بتایا گیاہے کہ: ’’قال الشافعیؒ: وارسال ابن المسیب عندنا حسن‘‘۔ ’’امام شافعیؒ فرماتے ہیں: ابن المسیب کا ارسال حسن درجے کاہے‘‘۔(المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۳۳)
۳۔’’اشْتُهِرَ عَنِ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ لَا يَحْتَجُّ بِالْمُرْسَلِ، إِلَّا مَرَاسِيلَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ‘‘۔ ’’امام شافعیؒ کامشہور قول یہ بتایاگیا ہےکہ ان کے نزدیک سعیدبن المسیب کی مراسیل کے علاوہ مرسل حجت نہیں‘‘۔(تدریب الراوی: ص۲۲۴)
۴۔ جہاں تک موطا میں درج مرسل روایات اوراس کی صحت کی بات ہے ، خود امام شافعیؒ سے منقول ہےکہ: ”وقال شافعی: مافی الارض کتاب [فی العلم] اکثرصوابامن موطامالک“۔ ’’زمین پر[علم کے لحاظ سے]صحیح ترین کتاب موطا مالک ہے‘‘۔ ( تذکرة الحفاظ: ج۱، ص۲۰۸، ابوعبداللہ شمس الدین الذہبیؒ)
۵۔ امام زرقانی ؒلکھتے ہیں:”ما من مرسل فی الموطا الاّ ولہ عاضد أو عواضد فالصواب اطلاق الموطا صحیح لا یستثنیٰ منہ شيء وقد صنف ابن عبد البر کتابا فی وصل ما فی الموطا من المرسل والمنقطع والمعضل قال وجمیع ما فیہ من قولہ بلغنی ومن قولہ عن الثقة عندہ مما لم یسندہ أحد وستون کلہا مسند من غیر طریق مالک الاّ أربعة“۔ ’’موطا میں کوئی روایت مرسل نہیں؛ مگر اس کی تائیں کرنے والے اور معاون حدیث موجود ہے؛ لہٰذا بلا استثناء موطا پر صحیح کا اطلاق درست ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے ایک کتاب تصنیف کی جس میں موطا کی تمام مرسل، منقطع اور معضل روایات کی سندیں بیان کی ہیں اور فرمایا کہ موطا میں امام مالک نے جس قدر بلغنی‘‘اور”عن الثقة‘‘کہہ کر روایات بیان کی ہیں اور ان کی سندیں نہیں بیان کیں وہ کل ۶۱ ہیں، جن میں سوائے چار کے تمام روایات امام مالک کے علاوہ دوسرے طرق سے مسند ہیں‘‘۔ (مصفی: ج۱، ص۷)
۶۔ امام نووی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: ’’ثم الحسن کالصحیح فی الاحتجاج بہ وان کان دونہ فی القوۃ‘‘۔ ’’حسن حدیث دلیل حاصل کرنے میں صحیح کی طرح ہے، اگرچہ قوت میں اس سے کم ہے‘‘۔ اور اس عبارت کی شرح امام سیوطیؒ اس طرح کرتے ہیں کہ: ’’ولا بدع فی الاحتجاج بحدیث لہ طریقان لو انفرد کل منھما لم یکن حجۃ کما فی المرسل، اذا ورد من وجہ آخر سندا او وافقہ مرسل آخر بشرطہ‘‘۔ ’’یعنی حدیث حسن بھی حدیث صحیح کی طرح قابل استدلال ہیں۔ اگر کسی حدیث کے دوطرق ہیں تو اس سے استدلال کرنے میں کوئی قباحت نہیں حالانکہ ہر ایک طریق قابل احتجاج نہیں، جس طرح مرسل حدیث ضعیف ہے لیکن یہ حدیث اگر کسی دوسرے طریق سے مسنداً یا مرسلاً مروی ہو تو وہ قابل احتجاج ہو جاتی ہے‘‘۔ (التقریب مع التدریب: ص۱۲۵)
۷۔ ’’الشَّافِعِيُّ فِي الرِّسَالَةِ: وَزَادَ فِي الِاعْتِضَادِ أَنْ يُوَافِقَ قَوْلَ صَحَابِيٍّ، أَوْ يُفْتِيَ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ بِمُقْتَضَاهُ، فَإِنْ فُقِدَ شَرْطٌ مِمَّا ذُكِرَ لَمْ يُقْبَلْ مُرْسَلُهُ‘‘۔ ’’امام شافعیؒ نے اعتصادکے لئے یہ شرط زائدبیان کی ہے کہ وہ کسی صحابی کے قول کے موافق ہویااکثرعلماءنے اس کی مقتضیٰ پرفتویٰ دیا ہو‘‘۔ (تدریب الراوی:ص۱۲۵)
مندرجہ بالا تحقیق سےمعلوم ہوا کہ مرسل روایات کے حجت ہونے کےتو امام شافعیؒ بھی قائل ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک سعیدبن المسیب کا ارسال حسن درجے کاہے۔ امام شافعیؒ بھی کبارِ تابعین ؒکی مراسلات کو قبول کرتے تھے، بشرطیہ کہ ان کی تائید دوسری حدیث وسند سے ہوجاتی۔ امام شافعیؒ کے نزدیک مرسل روایات کی قبولیت کی چند شرائط ہیں جن کا اختصارکے ساتھ امام نوویؒ نے تذکرہ فرمایا ہے:
یعنی یہ امام شافعیؒ اور دیگراہل علم کی رائے ہے۔ ان شرائط میں تین تو مرسل راوی کے بارےمیں ہیں اور ایک حدیث مرسل کے بارے میں ہے۔
۱۔ مرسل راوی کبار تابعین میں سے ہو۔
۲۔ جس سے اس نے ارسال کیااس کا نام لے تو اسے ثقہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
۳۔ جب اس کے ساتھ روایت میں دوسرےحفاظ شریک ہوجائیں تو اس سے اختلاف نہ کریں۔
۴۔ ان تین شرائط کے ساتھ ذیل کی شرائط میں سے ایک شرط بھی شامل ہو۔
۱)۔ یہ حدیث سند کے ساتھ کسی دوسرے طریقہ سے بھی مروی ہو۔
۲)۔ یہی روایت کسی دوسرے طریقہ سے بطورمرسل مروی ہواس کا ارسال ان لوگوں نے کیا ہوجنہوں نے اس کا علم ایسے لوگوں سے حاصل کیا ہو جن سے پہلے مرسل نے حاصل نہ کیا ہو۔
۳)۔ یہ حدیث کسی صحابی کے قول سے مطابقت رکھتی ہو۔
۴)۔ یا اکثر اہل علم اس کے مقتضاکے مطابق فتویٰ دیتے ہوں۔
اگریہ شرائط پوری ہوجائیں گی تو ان سے ظاہرہوجائے گا کہ یہ مرسل اور اس کی تائید کرنے والی دوسری مرسل کا مخرج صحیح ہے۔ نیزیہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ یہ دونوں صحیح ہیں اور اگران دونوں کے ساتھ صحیح جو ایک طریق سے مروی ہومتعارض ہوجائے اور ان کی تطبیق مشکل ہوجائے تو ہم ان دونوں کوتعددطرق کی بناپرصحیح پر ترجیح دیں گے۔