-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Friday 11 January 2019

مسئلہ تراویح - ایک نئی، مدلل اور جامع تحقیق: تراویح کے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ

بسم الله الرحمن الرحیم
ہماری اس تحریر کا مقصد آٹھ رکعات تراویح پڑھنے والوں کو ملامت کرنا ہرگزنہیں اور نہ ہی آٹھ رکعات تراویح پڑھنے والوں کی نفی کرنا مقصودہے، کیونکہ آج کےاس پُر فتن دور میں جہاں ایک مسلمان مسجد میں آنا گوارہ نہیں کرتا وہاں کوئی مسجد میں آکربیس کے بجائے آٹھ رکعات تراویح ہی پڑھ لے تو بھی غنیمت ہے۔ ہماری اس تحریرکامقصد صرف اُن لوگوں کی نفی کرنا ہے جو آٹھ رکعات تراویح کو سنت اور بیس رکعات تراویح کو بدعت کہہ کر ۱۴ سو سالوں سے چلے آنے والے اس سنت عمل کو گمراہی قرار دیتے ہوئے آئمہ اربعہؒ سمیت باقی تمام آئمہ کرامؒ سے عام اورلاعلم مسلمانوں کو بدگمان کرتے ہیں اورانہیں گمراہ کرتےہوئےآئمہ اربعہؒ کے مسلک سے ہٹانے کی ناکام کوشش کرتےہیں۔
سب سے پہلے ہم قارئین کرام کے سامنے تراویح کے لفظ کااصل معنیٰ ومفہوم پیش کریں گے تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
تراویح کے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ
’’التَرَاوِیْحُ ۔ ترویحہ کی جمع ہے جس کے معنیٰ مطلقا ًبیٹھنے کے ہیں۔ پھر اس بیٹھنے پراطلاق ہونے لگاجورمضان کی راتوں میں ہرچار رکعت نمازکے بعد آرام حاصل کرنےکے لیے بیٹھتے ہیں۔ پھرہرچاررکعت ہی کوترویحہ کہنے لگے اورتراویح کااطلاق پوری بیس رکعات نمازپربھی ہوتاہےجن کورمضان میں پڑھتے ہیں‘‘۔ (مصباح اللغات: حرف’روح‘، ص۳۱۱)
اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ عربی گرامر دنیا کی تمام گرامر سے الگ ہےاور اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی زبان نہیں کر سکتی۔ دنیا کی ہر زبان میں واحدجمع کے صرف دو ہی صیغے ہوتے ہیں ایک واحد اور دوسرا جمع یا یہ کہیں کہ واحد کی ضد پہ جمع آتا ہے۔ لیکن عربی وہ واحد زبان ہے جس میں واحدجمع کے لئے تین صیغے استعمال ہوتےہیں، ایک کے لئے واحد اور دو کے لئے تثنیہ کااور دو سے زیادہ کے لئے جمع کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔
لفظ تراویح اصل میں لفظ ’’ترویحہ‘‘سے نکلا ہے جس کے معنیٰ آرام کرنے یادوگھڑی سانس لےلینےکےہیں اوریہ لفظ واحدہے، اس کاتثنیہ ہے ’’ترویحانِ‘‘ "جیسےسورۃ رحمٰن میں  ’’ربکما تکذبانِ‘‘ دو گرہوں یعنی جن اور انس کے لئے استعمال کیا گیا ہے"، اسی طرح ترویحہ کی جمع تراویح ہے۔
اب تراویح کو تراویح ہم اسی صورت میں کہ سکتے ہیں جب ہم۱۲رکعات یا اس سے زیادہ پڑھیں، اگر۸ رکعات پڑھی تو وہ عربی گرامر کے لحاظ سےتراویح نہیں بلکہ ترویحان کہلائے گا جیساکہ علامہ جمال الدين ابن منظورؒنے لسان العرب میں، حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نےفتح الباری میں اورغیرمقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی نےتیسیر الباری میں بیان کیاہے۔
۱۔ لغت کے مشہورامام علامہ جمال الدين ابن منظور الأنصاری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: ۷۱۱ھ) اپنی عظیم شان کتاب لسان العرب میں تحریر فرماتے ہیں: ’’وَفِي حَدِيثِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ: إِنَّ الْجَمَلَ الْأَحْمَرَ لَيُرِيحُ فِيهِ مِنَ الْحَرِّ، الْإِرَاحَةُ هَاهُنَا: الْمَوْتُ وَالْهَلَاكُ، وَيُرْوَى بِالنُّونِ، وَقَدْ تَقَدَّمَ۔ وَالتَّرْوِيحَةُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ: سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِاسْتِرَاحَةِ الْقَوْمِ بَعْدَ كُلِّ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ، وَفِي الْحَدِيثِ: صَلَاةُ التَّرَاوِيحِ؛ لِأَنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَرِيحُونَ بَيْنَ كُلِّ تَسْلِيمَتَيْنِ۔ وَالتَّرَاوِيحُ: جَمْعُ تَرْوِيحَةٍ، وَهِيَ الْمَرَّةُ الْوَاحِدَةُ مِنَ الرَّاحَةِ، تَفْعِيلَةٌ مِنْهَا، مِثْلُ تَسْلِيمَةٍ مِنَ السَّلَامِ‘‘۔ ’’تراویح، ترویحۃ کی جمع ہے، اورایک مرتبہ آرام کرنے کا نام ہے، مادہ راحت سے بر وزن تفعیلہ جیسےمادہ سلام سے وزن تسلیمہ، اور ماہ رمضان کی نماز تراویح کو بھی اسی لئے تراویح کہتے ہیں کہ لوگ ہر چار رکعت کے بعد آرام کرتے ہیں‘‘۔ (لسان العرب لابن منظور: ج۲، حرف’ج‘الراء، باب روح، ص ۴۶۱-۴۶۲)
۲۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ(المتوفى: ۸۵۲ھ)  کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں: ’’كَذَا فِي رِوَايَةِ الْمُسْتَمْلِي وَحْدَهُ وَسَقَطَ هُوَ وَالْبَسْمَلَةُ مِنْ رِوَايَةِ غَيْرِهِ وَالتَّرَاوِيحُ جَمْعُ تَرْوِيحَةٍ وَهِيَ الْمَرَّةُ الْوَاحِدَةُ مِنَ الرَّاحَةِ كَتَسْلِيمَةٍ مِنَ السَّلَامِ سُمِّيَتِ الصَّلَاةُ فِي الْجَمَاعَةِ فِي لَيَالِي رَمَضَانَ التَّرَاوِيحَ لِأَنَّهُمْ أَوَّلَ مَا اجْتَمَعُوا عَلَيْهَا كَانُوا يَسْتَرِيحُونَ بَيْنَ كُلِّ تَسْلِيمَتَيْنِ وَقَدْ عَقَدَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ بَابَيْنِ لِمَنِ اسْتَحَبَّ التَّطَوُّعَ لِنَفْسِهِ بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ وَلِمَنْ كَرِهَ ذَلِكَ وَحَكَى فِيهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ عَنِ اللَّيْثِ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَرِيحُونَ قَدْرَ مَا يُصَلِّي الرَّجُلُ كَذَا كَذَا رَكْعَة‘‘۔ ’’خلاصہ مطلب یہ ہے کہ تراویح ترویحۃ کی جمع ہے جو راحت سے مشتق ہے جیسے تسلیمۃ سلام سے مشتق ہے۔ رمضان کی راتوں میں جماعت سے نفل نماز پڑھنے کو تراویح کہا گیا، اس لیے کہ وہ شروع میں ہردورکعتوں کے درمیان تھوڑا سا آرام کیا کرتے تھے۔ علامہ محمدبن نصر نے قیام اللیل میں دوباب منعقد کئے ہیں۔ ایک ان کے متعلق جو اس راحت کو مستحب گردانتے ہیں۔ اورایک ان کے متعلق جو اس راحت کو اچھا نہیں جانتے۔ اور اس بارے میں یحییٰ بن بکیر نے لیث سے نقل کیا ہے کہ وہ اتنی اتنی رکعات کی ادائیگی کے بعد تھوڑی دیرآرام کیا کرتے تھے۔ اسی لیے اسے نمازتراویح سے موسوم کیا گیا‘‘۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری لابن حجر العسقلانی: ج۵، كِتَابُ صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، ص۴۴۳)
۳۔ احمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاویؒ (المتوفی: ۱۲۳۱ھ)  لکھتے ہیں: ’’الترويحة الجلسة في الأصل ثم سميت بها الأربع ركعات التي آخرها الترويحة۔ روى قوله: "الترويحة الجلسة" فهي المرة الواحدة من الراحة‘‘۔ ’’اصل لغت میں ترویحہ بیٹھنے کے معنیٰ میں آتاہے یعنی ہردورکعت کے بعد بیٹھنا۔ ترویحہ ایک مرتبہ بیٹھ کرراحت حاصل کرنا ہے‘‘۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإيضاح: باب التراویح، ص۴۱۰)
۴۔ علامہ ابن عابدین الشامیؒ(المتوفی: ۱۲۵۲ھ)  لکھتے ہیں: ’’وَالتَّرَاوِيحُ جَمْعُ تَرْوِيحَةٍ! سميت الأربع بہا للاستراحۃ بعدھا‘‘۔ ’’تراویح ترویحہ کی جمع ہے۔ یعنی ہردورکعت کے بعد بیٹھ کرراحت حاصل کرنا‘‘۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين: ج۲، کتاب الصلاۃ، باب الوتروالنوافل، ص۴۹۳)
۵۔ مشہورغیرمقلد عالم نواب صديق حسن خان القِنَّوجی(المتوفی: ۱۳۰۷ھ)لکھتے ہیں: ’’فی لیالی رمضان، جمع ترویحہ، وھی المرۃ الواحدۃ من الراحۃ، کتسلیمۃ من السلام، وھی فی الأصل اسم للجلسۃ، وسمیت الصلاۃ فی الجماعۃ فی لیالی رمضان التراویح لأتہم کانو أول ما اجتمعوا علیہا یستریحون بین کل تسلیمتین‘‘۔ ’’صلوۃ التراویح: یہ ترویحہ کی جمع ہےاوراس کے معنیٰ ہیں کہ ایک مرتبہ راحت حاصل کرناجیساکہ سلام سے تسلیمہ ہے۔ اوراصل لغت میں ترویحہ بیٹھنے کے معنیٰ میں آتاہے۔ اوررمضان کی راتوں میں جو نماز جماعت سے پڑھی جاتی ہےاس کوتراویح کہاجاتاہے۔ اس لئے کہ لوگ ہردوسلاموں کے بعد راحت حاصل کرتے تھے اس وقت جب وہ پہلی باراس نماز پرجمع ہوئے تھے‘‘۔ (عون الباری لحل أدلة البخاری: ج۳، کتاب صلاۃالتراویح، ص۸۵۸)
۶۔ فرقہ غیرمقلدین کے عالم جناب وحیدالزمان صدیقی لکھتے ہیں: ’’تراویح اس کا نام اس لئے ہواکہ ترویح کہتے ہیں آرام کرنےکوصحابہ اس نمازمیں ہردوگانہ کے بعدتھوڑی دیرآرام سے بیٹھتے راحت لیتے‘‘۔ (تیسیر الباری شرح بخاری: ج۱، کتاب الصوم، ص۱۴۶)
تراویح باعتباراصطلاح: علم لغت کے دو ماہر اور خریت فن کے بیانات سے معنئ لغوی کے ساتھ ساتھ اصطلاحی معنی ٰبھی واضح و روشن ہو جاتے ہیں اگر چہ نماز تراویح کیا ہے؟ اور نماز تراویح کس کو کہتے ہیں؟ اسکی تلاش میں زیادہ سر گرداں ہونے کی ضرورت نہیں ہے اسلئے کہ ماہ مبارک رمضان میں اہلسنت والجماعت کی مساجد میں یہ فعل عملاً دیکھا جاسکتا ہے یعنی مذہب اہلسنت والجماعت کے نزدیک ماہ مبارک رمضان میں نماز مغرب و عشاء کے بعد نافلہ نمازوں کو باجماعت انجام دینا تراویح کہلاتاہے۔
۱۔ ’’وَأنبأ أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، أنبأ أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، أنبأ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أنبأ أَبُو الْخَصِيبِ قَالَ: "كَانَ يَؤُمُّنَا سُوَيْدُ بْنُ غَفَلَةَ فِي رَمَضَانَ فَيُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً"‘‘۔ ’’حضرت ابو خصیب نے بیان کیا کہ ہمیں حضرت سوید بن غفلہ ماہ رمضان میں نماز تراویح پانچ ترویحوں (بیس رکعت میں) پڑھاتے تھے‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي: ج۲، ص۶۹۹، رقم الحدیث ۴۶۱۹)
۲۔ ’’أنبأ أَبُو عَبْدِ اللهِ بْنُ فَنْجَوَيْهِ الدَّيْنَوَرِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ عِيسَى السُّنِّيُّ، أنبأ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَزَّازُ، ثنا سَعْدَانُ بْنُ يَزِيدَ، ثنا الْحَكَمُ بْنُ مَرْوَانَ السُّلَمِيُّ، أنبأ الْحَسَنِ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْبَقَّالِ، عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ "أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ، بِالنَّاسِ خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً"‘‘۔ ’’حضرت ابو الحسناء بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو رمضان میں پانچ ترویحوں میں بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي: ج۲، ص۶۹۹، رقم الحدیث۴۶۲۱؛ مصنف ابن ابي شیبۃ: ج۲، ص۳۵۵، رقم الحدیث ۷۶۸۱)
۳۔ ’’حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خَلَفٍ، عَنْ رَبِيعٍ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ خَيْرًا، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ: «أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ فِي رَمَضَانَ، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ»۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔ إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ‘‘۔ ’’حضرت ابوالبختری سے روایت ہے کہ وہ رمضان المبارک میں پانچ ترویح (یعنی بیس رکعتیں) اور تین وتر پڑھا کرتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابي شیبۃ: ج۲، ص۶۶۸، رقم الحدیث ۷۷۶۸)
۴۔ ’’حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ، «أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِيعَةَ كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ»۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔ إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ‘‘۔ ’’حضرت سعید بن عبید سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ربیعہ انہیں رمضان المبارک میں پانچ ترویح (یعنی بیس رکعت) نماز تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابي شیبۃ: ج۲، ص۶۶۸، رقم الحدیث ۷۷۷۲)
۵۔ ’’عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ: «كَانَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ يَؤُمُّنَا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، فَكَانَ يَقْرَأُ بِالْقَرَاءَتَيْنِ جَمِيعًا، يَقْرَأُ لَيْلَةً بِقِرَاءَةِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَكَانَ يُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ، فَإِذَا كَانَ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ صَلَّى سِتَّ تَرْوِيحَاتٍ»‘‘۔ ’’حضرت اسماعیل بن عبدالملک بیان کرتے ہیں: حضرت سعیدبن جبیررمضان کے مہینے میں ہماری امامت کیاکرتے تھےتووہ دونوں کی طرح تلاوت کرکے ہمیں سنایاکرتےتھے۔ ایک رات میں حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ کی قرأت کے مطابق تلاوت کرتے تھے تووہ اس میں پانچ ترویحہ پڑھاتے تھےاورجب آخری عشرہ آجاتاتھاتووہ چھ ترویحہ اداکرتےتھے‘‘۔ (مصنف عبد الرزاق: ج۳، بَابُ قِيَامِ رَمَضَانَ، ص ۲۷۲، رقم الحدیث۷۷۴۹)
۶۔ ’’عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَقَتَادَةَ، قَالَا: «إِذَا كَانَ الرَّجُلُ يُصَلِّي بَيْنَ التَّرْوِيحَتَيْنِ فِي رَمَضَانَ، فَكَبَّرَ الْإِمَامُ قَبْلَ أَنْ يَرْكَعَ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ صَلَاتَهُ، بِصَلَاةِ الْإِمَامِ، وَلَا يَرْكَعُ»‘‘۔ ’’حضرت حسن بصری اورقتادہ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص رمضان کے مہینےمیں دوترویحوں کے درمیان نمازاداکرتاہےاورپھراُس کے رکوع میں جانے سے پہلے امام تکبیرکہہ دیتاہے تواس میں کوئی حرج نہیں ہےکہ وہ شخص رکوع میں نہ جائے اورامام کی نمازکی اقتداءمیں اپنی اس نمازکوشامل کرلے‘‘۔ (مصنف عبد الرزاق: ج۳، بَابُ قِيَامِ رَمَضَانَ، ص ۲۷۲، رقم الحدیث۷۷۵۰)
الحمدﷲدلائل کے ساتھ ساتھ عربی گرامرسے بھی یہ بات ثابت ہے کہ تراویح بارہ رکعات سے زیادہ تو ہوسکتی ہے پر کم نہیں ہوسکتی، لہٰذا آٹھ رکعات تراویح کا دعویٰ توعربی گرامر کے حساب سے بھی درست نہیں۔