-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Tuesday 22 November 2016

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترک رفع الیدین کی حدیث پر زبیر علی زئی صاحب کےاعتراضات کا تحقیقی جائزہ

اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم
۱۔ ”روى أبو جعفر الطحاوي عن ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاش، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الآُولَى مِنْ الصَّلاَةِ۔ ’’ابوبکربن عیاشؒ نے حصین سے انہوں نےمجاہد سےروایت نقل کی ہے کہ میں نے ابن عمررضی اﷲعنہ کے پیچھے نماز ادا کی وہ صرف تکبیرافتتاح میں ہاتھ اٹھاتے تھے‘‘۔ (المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۵؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۳۹۶،  رقم ۱۶۹۹)
۲۔ ”روى ابن أبي شيبة من طريق أبي بَكْرِ بْن عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَا يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ۔ ’’ابوبکربن عیاشؒ نے حصین سے انہوں نےمجاہد سےروایت نقل کی ہے کہ میں نے ابن عمررضی اﷲعنہ کودیکھا جب نمازشروع کرتے توصرف پہلی تکبیرمیں ہاتھ اٹھاتے تھے‘‘۔ (رواۃ ابن أبی شیبۃ فی المصنف وسندصحیح علی شرط الشیخین: ج۲، ص۶۱؛  والبيهقی فی المعرفة:ج۲، ص۴۲۸)
اس حدیث کے تمام راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم کےرجالوں میں سے ہیں۔ یہ سند بالکل صحیح ہےجس پر آج تک کسی بڑے سے بڑے محدث نے بھی کلام نہیں کیااورگزشتہ تیرہ سو (۱۳۰۰)سالوں میں آج تک کسی نے اس حدیث کےکسی ایک راوی کو بھی ضعیف نہیں کہا۔
امام أبوجعفرالطحاویؒ ابن عمررضی اﷲعنہ سےمروی رفع الیدین کے اثبات اورترک کی روایات کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’فَهَذَا ابْنُ عُمَرَ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ يَرْفَعُ، ثُمَّ قَدْ تَرَكَ هُوَ الرَّفْعَ بَعْدَ النَّبِيِّ فَلاَ يَكُونُ ذَلِكَ إلَّا وَقَدْ ثَبَتَ عِنْدَهُ نَسْخُ مَا قَدْ رَأَى النَّبِيُّ فِعْلَهُ وَقَامَتْ الْحُجَّةُ عَلَيْهِ بِذَلِكَ۔ فَإِنْ قَالَ: قَائِلٌ "هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ" قِيلَ لَهُ "وَمَا دَلَّك عَلَى ذَلِكَ؟ فَلَنْ تَجِدَ إلَى ذَلِكَ سَبِيلًا"۔ فَإِنْ قَالَ: فَإِنْ طَاوُسًا قَدْ ذَكَرَ أَنَّهُ رَأَى ابْنَ عُمَرَ يَفْعَلُ مَا يُوَافِقُ مَا رُوِيَ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ، مِنْ ذَلِكَ۔ قِيلَ لَهُمْ: فَقَدْ ذَكَرَ ذَلِكَ طَاوُسٌ، وَقَدْ خَالَفَهُ مُجَاهِدٌ۔ فَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ عُمَرَ فَعَلَ مَا رَآهُ طَاوُسٌ مَا يَفْعَلُهُ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ، ثُمَّ قَامَتْ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ فَتَرَكَهُ وَفَعَلَ مَا ذَكَرَهُ عَنْهُ مُجَاهِدٌ۔ هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يُحْمَلَ مَا رُوِيَ عَنْهُمْ، وَيُنْفَى عَنْهُ الْوَهْم، حَتَّى يَتَحَقَّقَ ذَلِكَ، وَإِلَّا سَقَطَ أَكْثَرُ الرِّوَايَاتِ‘‘۔ ’’ابن عمررضی اﷲعنہ جنہوں نے جناب رسول اﷲﷺ کو رفع الیدین کرتے دیکھاپھرانھوں نے ہاتھوں کااٹھاناآپﷺکے بعدچھوڑدیا۔ اور اس کے خلاف عمل کیایہ اس صورت میں درست ہے جبکہ ان کے ہاں اس کا نسخ ثابت ہوچکاہو، جس کو انہوں نے جناب نبی کریم ﷺسے دیکھاتھا۔ اور ان کے ہاں اس کےنسخ کی دلیل ثابت نہ ہوگئی ہے۔ اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ روایت سرے سے منکرہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، آپ کوکس نے بتلایا؟ آپ کے لئے اس کے منکرقرار دینے کی کوئی صورت نہیں۔ اگرکوئی یہ کہےکہ طاؤس نےابن عمررضی اﷲعنہ کووہ فعل کرتے دیکھاجواس روایت کے موافق ہے جو انہوں نے جناب نبی اکرمﷺسے روایت کی، تو جواب میں یہ کہاجائے گاکہ طاؤس نے یہ بات ذکرکی ہے مگرمجاہدنے ان کی مخالفت کی ہے۔ تو اب یہ کہنا درست ہواکہ طاؤس نے ابن عمررضی اﷲعنہ کے اس وقت کے عمل کو دیکھاجب ان کے سامنے نسخ کے دلائل نہ آئےتھے، پھرجب ان کے ہاں نسخ کے دلائل قائم ہوگئے تو انہوں نے رفع الیدین کوترک کردیااور وہی کیاجو ان سےمجاہدنے دیکھا۔ اسی طرح مناسب یہ ہے کہ جوان سےمروی ہے وہ اس پرمحمول کیاجائےاوروہم کی نفی کی جائےتاکہ یہ بات ثابت ہوجائے ورنہ اکثرروایات کو ساقط الاعتبارقرار دیناپڑےگا‘‘۔ (شرح المعانی الآثار للطحاوی[اردو]: ج۱، ص۶۴۱-۶۴۲)
حافظ ابن حجرعسقلانیؒ فتح الباری میں ابن عمررضی اﷲعنہ سےرفع الیدین کرنے اورنہ کرنے کی دواحادیث نقل کرنے کے بعد فرماتےہیں: ’’مُجَاهِدٍ أَنه صلى خلف بن عُمَرَ فَلَمْ يَرَهُ يَفْعَلُ ذَلِكَ۔۔۔ مَعَ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الرِّوَايَتَيْنِ مُمْكِنٌ وَهُوَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَرَاهُ وَاجِبًا فَفَعَلَهُ تَارَةً وَتَرَكَهُ أُخْرَى‘‘۔ ’’دونوں روایات کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ کے نزدیک رفع الیدین کرناضروری نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ نے پہلےرفع الیدین کیااورآخرمیں ترک کردیا‘‘۔ (فتح الباری لابن حجرالعسقلانی: ج۲، کتاب الاذان، قَوْلُهُ بَابُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ، ص۶۲۵)
اسی طرح علامہ ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں: ’’ابن عمررضی اﷲعنہ سے صحیح طورپررفع الیدین کرنے کے خلاف ثابت ہوچکاہے تواب یہ اس بات پرمحمول ہوگاکہ پہلی حدیث (رفع الیدین کرنےوالی) منسوخ ہے‘‘۔ (الموضوعات الكبرى ملا على القارى: ص۱۷۵)
غیرمقلدعالم حافظ زبیر علی زئی صاحب کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ اور ان کا رد
اعتراض نمبر۱: زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۸پر اپناپہلا اعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’امام یحییٰ بن معین رحمہ اﷲنے فرمایا: ابوبکرکی حصین سے روایت اس کا وہم ہے، اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے‘‘۔ ’’اس روایت کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ نےفرمایا: اسے ابوبکربن عیاش نے حصین عن ابن عمرکی سندسے روایت کیاہےاوریہ باطل ہے‘‘۔(جزءِرفع الیدین للبخاری:ص۱۲؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۳۹۶، رقم ۱۶۹۹)
جواب نمبر۱: زبیر علی زئی صاحب کاامام یحییٰ بن معینؒ اورامام احمد بن حنبلؒ کی مبہم جرحیں پیش کرنا باطل و مرودودہے کیونکہ مبہم الفاظ کی جرح و تعدیل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ اصول حدیث کی رو سےمحض حدیث کے ضعیف ہونے کا دعویٰ کردینے سے حدیث موضوع یا باطل نہیں ہوجاتی جب تک کہ وجوہِ طعن ثابت نہ ہو۔ اگر اس طرح سے کسی بھی محدث کی مبہم جرح کو قبول کرلیا جائے تو پھرکتب احادیث میں سےکوئی بھی حدیث اور کوئی بھی کتاب نہ بچ پائے گی، کیونکہ ہر حدیث پر یا احادیث کی کتابوں پرکسی نہ کسی  محدث کی جرح کے الفاظ ملتے ہیں۔
امام طحاویؒ امام یحییٰ بن معینؒ اورامام احمد بن حنبلؒ کی مبہم جرحوں کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’فَهَذَا ابْنُ عُمَرَ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ يَرْفَعُ، ثُمَّ قَدْ تَرَكَ هُوَ الرَّفْعَ بَعْدَ النَّبِيِّ فَلاَ يَكُونُ ذَلِكَ إلَّا وَقَدْ ثَبَتَ عِنْدَهُ نَسْخُ مَا قَدْ رَأَى النَّبِيُّ فِعْلَهُ وَقَامَتْ الْحُجَّةُ عَلَيْهِ بِذَلِكَ۔ فَإِنْ قَالَ: قَائِلٌ "هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ" قِيلَ لَهُ "وَمَا دَلَّك عَلَى ذَلِكَ؟ فَلَنْ تَجِدَ إلَى ذَلِكَ سَبِيلًا"۔ فَإِنْ قَالَ: فَإِنْ طَاوُسًا قَدْ ذَكَرَ أَنَّهُ رَأَى ابْنَ عُمَرَ يَفْعَلُ مَا يُوَافِقُ مَا رُوِيَ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ، مِنْ ذَلِكَ۔ قِيلَ لَهُمْ: فَقَدْ ذَكَرَ ذَلِكَ طَاوُسٌ، وَقَدْ خَالَفَهُ مُجَاهِدٌ۔ فَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ عُمَرَ فَعَلَ مَا رَآهُ طَاوُسٌ مَا يَفْعَلُهُ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ، ثُمَّ قَامَتْ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ فَتَرَكَهُ وَفَعَلَ مَا ذَكَرَهُ عَنْهُ مُجَاهِدٌ۔ هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يُحْمَلَ مَا رُوِيَ عَنْهُمْ، وَيُنْفَى عَنْهُ الْوَهْم، حَتَّى يَتَحَقَّقَ ذَلِكَ، وَإِلَّا سَقَطَ أَكْثَرُ الرِّوَايَاتِ‘‘۔ ’’ابن عمررضی اﷲعنہ جنہوں نے جناب رسول اﷲﷺ کو رفع الیدین کرتے دیکھاپھرانھوں نے ہاتھوں کااٹھاناآپﷺکے بعدچھوڑدیا۔ اور اس کے خلاف عمل کیایہ اس صورت میں درست ہے جبکہ ان کے ہاں اس کا نسخ ثابت ہوچکاہو، جس کو انہوں نے جناب نبی کریم ﷺسے دیکھاتھا۔ اور ان کے ہاں اس کےنسخ کی دلیل ثابت نہ ہوگئی ہے۔ اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ روایت سرے سے منکرہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، آپ کوکس نے بتلایا؟ آپ کے لئے اس کے منکرقرار دینے کی کوئی صورت نہیں۔ اگرکوئی یہ کہےکہ طاؤس نےابن عمررضی اﷲعنہ کووہ فعل کرتے دیکھاجواس روایت کے موافق ہے جو انہوں نے جناب نبی اکرمﷺسے روایت کی، تو جواب میں یہ کہاجائے گاکہ طاؤس نے یہ بات ذکرکی ہے مگرمجاہدنے ان کی مخالفت کی ہے۔ تو اب یہ کہنا درست ہواکہ طاؤس نے ابن عمررضی اﷲعنہ کے اس وقت کے عمل کو دیکھاجب ان کے سامنے نسخ کے دلائل نہ آئےتھے، پھرجب ان کے ہاں نسخ کے دلائل قائم ہوگئے تو انہوں نے رفع الیدین کوترک کردیااور وہی کیاجو ان سےمجاہدنے دیکھا۔ اسی طرح مناسب یہ ہے کہ جوان سےمروی ہے وہ اس پرمحمول کیاجائے اوروہم کی نفی کی جائےتاکہ یہ بات ثابت ہوجائے ورنہ اکثرروایات کو ساقط الاعتبارقراردیناپڑےگا‘‘۔(شرح المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۵)
شیخ ملا محمد عابد سندھی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’محض حدیث کے موضوع اور باطل ہونے کا دعویٰ کردینے سے حدیث موضوع اور باطل نہیں ہوسکتی تاآنکہ وجوہ طعن ثابت نہ ہوں،اور ابن عمررضى الله تعالى عنه کی اس حدیث کے رجال رجال الصحیح ہیں لہٰذا اب ضعف نہیں رہا مگر یہ کہ امام مالک رحمة الله عليه سے لینے والے راوی مطعون ہوں لیکن اصل طعن نہ ہونا ہے چنانچہ یہ حدیث میرے نزدیک یقینی طور پر صحیح ہے، اور ابن عمررضى الله تعالى عنه نے جس وقت رفع کو دیکھا تو رفع کو بیان کیا اور جس وقت عدم رفع کو دیکھا تو اس حالت کی خبر دی، لیکن ان کی حدیث میں ان دو عملوں میں سے متعین طورپر کسی ایک پر ہمیشگی اور دوام کا پتہ نہیں چلتا، اور جہاں تک حدیث شریف میں لفظ (کَانَ) ہے تو وہ دوام اور ہمیشگی پر ہروقت دلالت نہیں کرتا کیونکہ آپ صلى الله عليه وسلم کے بارے میں وارد ہے کہ: (کان یَقف عند الصخرات السُّود بعرفة) ’’آپ صلى الله عليه وسلم عرفہ میں کالے پتھروں کے پاس ٹھہرتے تھے‘‘، حالانکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ہجرت کے بعد ایک ہی حج (حجة الوداع) کیاہے، لہٰذا اس حدیث کے تضعیف کی کوئی سبیل نہیں ہے چہ جائیکہ اس کو موضوع کہا جائے‘‘۔ (الامام ابن ماجہ وکتابہ السنن معہ حاشیہ، ص:۲۵۲)
جواب نمبر۱: اگرزبیرعلی زئی صاحب کے نزدیک کسی محدث کی مبہم جرح پرکسی بھی ثقہ راویوں کی بیان کردہ صحیح حدیث کو موضوع اور باطل قرار دیاجاسکتا ہے تو پھر موصوف کو چاہیئے کہ رفع الیدین کرنے والی جتنی بھی صحیح احادیث ہیں انہیں بھی موضوع اور باطل تسلیم کرلیں کیونکہ امام مالک سے رفع الیدین کرنے والی احادیث کے بارے میں منقول ہے کہ ’’وَكَانَ رَفْعُ الْيَدَيْنِ عِنْدَ مَالِكٍ ضَعِيفًا إلَّا فِي تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ‘‘۔ ’’امام مالك رحمه الله فرماتے ہیں رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگرصرف تکبیرتحریمہ میں‘‘۔ (المدونة الكبرى للإمام مالك: ج۱، ص ۱۶۵ – دار الفكر بيروت)
یہاں اگر کوئی حنفی یہ کہے کہ کیونکہ امام مالکؒ جیسےجلیل القدرمحدث نے فرمایا ہے کہ رفع الیدین کرناضعیف ہے سوائے تکبیرتحریمہ کےلہٰذارکوع میں جاتے، رکوع سے اٹھتے اور تیسری رکعت کے شروع میں رفع الیدین کرنے والی تمام احادیث امام مالکؒ کے قول کے مطابق ضعیف ہیں تو کیا زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین امام مالکؒ کی اس جرح کو قبول کریں گے؟ حالانکہ امام مالکؒ (متوفی ۱۷۹ھ) تبع تابعین میں سے ہیں اورآپ کازمانہ امام یحییٰ بن معینؒ (متوفی۲۳۰ھ) اورامام احمد بن حنبلؒ (متوفی ۲۴۱ھ)کے زمانے کے مقابلے میں نبی کریمﷺ سے زیادہ قریب کا ہے اور درج ذیل حدیث کے مطابق امام مالکؒ کی گواہی امام یحییٰ بن معینؒ اورامام احمد بن حنبلؒ کی گواہی کے مقابلے میں زیادہ معتبر ہے پھربھی زبیرعلی زئی صاحب امام مالکؒ کی جرح کو قبول نہیں کرتے، تو پھر امام یحییٰ بن معینؒ اورامام احمد بن حنبلؒ کی مبہم جرحوں کو ہم کس طرح سے قبول کرلیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ"‏۔ لَمْ يَذْكُرْ هَنَّادٌ الْقَرْنَ فِي حَدِيثِهِ وَقَالَ قُتَيْبَةُ ‏"‏ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ‏"۔ ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے بہترین لوگ میرے قرن کے لوگ (یعنی صحابہؓ) ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں (یعنی تابعیؒ ) اور پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں(یعنی تبع تابعینؒ) ۔ اور پھر ان قرنوں کے بعد ان لوگوں کا زمانہ آئے گا جن کی گواہی قسم سے پہلے ہوگی اور قسم گواہی سے پہلے‘‘۔(صحیح المسلم: ج۶، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم، باب فَضْلِ الصَّحَابَةِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، رقم الحدیث ۶۱۵۰)
اگرکسی حدیث کادارمدار حدیث کی سند و متن کے بجائے آئمہ محدثین کے اقوال پرہے تو پھرصرف احناف پرائمہ مجتہدین کی تقلید کا الزام کیوں؟ جب ایک حنفی صحیح سندومتن کی حدیث کو امام ابوحنیفہؒ کےقول پرضعیف یا منسوخ تسلیم کرتے ہوئے ترک کردیتا ہے تو اس پرفوراً قرآن وحدیث کی مخالفت کا الزام لگاکرمقلدومشرک ہونے کا فتویٰ دےدیاجاتاہے لیکن جب یہی کام کوئی غیرمقلدکرتا ہے تو اسےقرآن و حدیث پرعمل کرنےوالااہلحدیث کہہ کرمخاطب کیا جاتاہے، بھلایہ کہاں کا انصاف ہے؟
زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین کاامام یحییٰ بن معینؒ اورامام احمد بن حنبلؒ کےبلادلیل اقوال پرایک صحیح حدیث کو ضعیف کہناان کی اندھی تقلیدکرناہے، لہٰذا جب آپ کسی امام کے بلادلیل قول پرایک صحیح حدیث کو ضعیف کہہ کررد کرسکتے ہیں تو پھر ہمارا بھی پوراحق ہے کہ ہم امام ابراہیم نخعیؒ، امام ابو حنیفہؒ اورامام مالکؒ جیسے جلیل القدرتابعین وتبع تابعین پراعتماد کرتے ہوئے رفع الیدین کرنےوالی تمام احادیث کو منسوخ قراردے سکتے ہیں۔
اعتراض نمبر۲: زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۹پر اپنادوسرااعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ابوبکربن عیاش آخری عمر میں اختلاط کا شکارہوگئے تھے‘‘۔ ’’حافظ ابن حبان نے بھی کتاب الثقات میں اس کی تصریح کی ہے کہ ابن عیاش جب بڑی عمر کے ہوئے توان کا حافظہ خراب ہوگیا تھا۔ جب وہ روایت کرتے توان کو وہم ہوجاتا تھا۔ صحیح بات یہ ہے کہ جس بات میں انھیں وہم ہواہے اسے چھوڑدیا جائے اور غیروہم والی روایت میں اس سے حجت پکڑی جائے‘‘۔(التہذیب:ج۱۲، ص۳۹؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۹)
جواب نمبر۲-۱: زبیر علی زئی صاحب کے اس بے ربط اعتراض سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موصوف علم غیب جانتے ہیں کہ انہیں تقریباًچودہ سو(۱۴۰۰) سال قبل وفات پانے والے ابوبکربن عیاشؒ کے حالات کا علم ہوگیاکہ انہوں نے یہ حدیث اپنی آخری عمرمیں اختلاط کے مرض میں مبتلاہونے کے بعد بیان کی۔ہمارازبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین سے مطالبہ ہے کہ اپنےاس دعویٰ کی صحیح سندسےکوئی ایک مستنددلیل پیش کردیں جس سے یہ ثابت ہوکہ ابوبکربن عیاشؒ نے یہ حدیث آخری عمرمیں اختلاط کے مرض میں مبتلاہونے کے بعد بیان کی تھی ورنہ اپنے اس بے ربط اعتراض سے رجوع کرلیں۔
حقیقت یہ ہےکہ اس روایت کی سند صحیح علی شرط الشیخین ہے۔ لہٰذا زبیرعلی زئی صاحب کا اسے ضعیف اورباطل قراردینابالکل غلط ہے۔ رہا سوال یہ کہ بعض محدثین نےاس روایت کو ابوبکر بن عیاش کے اختلاط کی وجہ سے وہم قراردیاہے، تو عرض ہے کہ امام نوویؒ نے مختلط روات کے متعلق قاعدہ بیان کرتے ہوے فرمایا ہے کہ صحیحین میں مختلط روات کی جو روایات لی گئی ہیں وہ قبل الاختلاط اخذ پر محمول ہیں۔ (تہذیب الاسماء للنووی :ج ۶، ص ۴۰)
جبکہ زیربحث روایت عن ابن ابی شیبہ ابی بکر بن عیاش کے طریق سے بھی مروی ہے اور یہی طریق صحیح بخاری (ج ۶، ص۷۴) میں موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ روایت قبل الاختلاط مروی ہے۔ لہٰذا وہم والا اعتراض بھی باطل قرارپایا۔
دوسری بات یہ کہ ابوبکربن عیاشؒ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے رجالوں میں سے ہیں اور ان سے مروی بہت سی احادیث بخاری ومسلم میں درج ہیں لہٰذا اس بات کا فیصلہ آپ کیسے کرسکتے ہیں کہ کس روایت میں انہیں وہم ہوا ہے اور کونسی روایات غیروہم والی ہیں۔ابوبکربن عیاشؒ سےترک رفع الیدین پرصرف ایک ابن عمررضی اﷲعنہ سےحدیث مروی نہیں ہے بلکہ ان کے والد عمربن خطاب رضی اﷲعنہ سے بھی بالکل اسی متن کے ساتھ حدیث مروی ہےاور ساتھ میں ابوبکربن عیاشؒ کا اپناقول بھی موجود ہے جس میں فرماتے ہیں کہ: ’’وَلَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: ثِنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ: مَا رَأَيْت فَقِيهًا قَطُّ يَفْعَلُهُ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي غَيْرِ التَّكْبِيرَةِ الآُولَى‘‘۔ ’’ابن ابی داؤدؒ نے احمد بن یونسؒ سے انہوں نے امام ابوبکربن عیاش ؒ سےنقل کیاکہ میں نے کسی عالم فقیہ کو کبھی تکبیرافتتاح کے علاوہ رفع یدین کرتے نہیں پایا‘‘۔ (المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۹)
اب بھلا کوئی ثقہ راوی حافظہ کی خرابی کے بعدمختلف اسناد ومتن اورصحابہ کرامؓ وفقہاءکرامؒ کے حوالوں کے ساتھ ایک ہی بات بیان کرےاورامام بخاریؒ کے استاذابوبکرابن ابی شیبہؒ جیسے جلیل القدرمحدث بناکسی اعتراض کے اس حدیث کوبسند صحیح اپنی کتاب میں رقم کرلیں، اور امت مسلمہ کی سب سے بڑی تعداد اس پرعامل ہوجائے، ایسا ممکن نہیں۔ پھر بھی اگر کوئی اس بات پر بضد ہے تو اس سے درخواست ہے کہ صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی جنتی بھی احادیث ابوبکربن عیاش سے مروی ہیں ان تمام احادیث کے صحیح ہونے کا انکار کرتےہوئےصحیح بخاری وصحیح مسلم کو اصح الکتب کہناچھوڑدیں کیونکہ جس راوی کو اس حدیث پر وہم ہوسکتا ہے اسے بقہ تمام احادیث پر بھی وہم ہوسکتاہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے کہ انہیں کس حدیث پر وہم ہوا ہے اور کس پر نہیں۔ لہٰذا ان کی ایک روایت کا انکارکرنا اور بقہ تمام روایات کو قبول کرناعقل سے بالاترہے۔
جواب نمبر۲-۲:غیرمقلد عالم زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۲۰پرحضرت عطاء بن ابی رباحؒ سے رفع الیدین پرمروی ایک حدیث سےاستدلال کرتے ہیں جس کے ایک راوی ابو النعمان محمد بن الفضل عارم(۲۱۳ھ) پربھی یہی الزام ہے کہ وہ اپنی آخری عمرمیں تغیرکا شکار ہوگئے تھے۔ انہیں اختلاط ہوا، حتیٰ کہ ان کی عقل زائل ہوگئی۔ (کتاب المختلطین: ص ۱۱۶-۱۱۷؛ تقریب التہذیب: رقم ۶۲۲۶؛ ہدی الساری: ص۴۴۱؛ الجرح والتعدیل : ج۸، ص۵۹)
تعجب کی بات ہے کہ رفع الیدین کرنے کی حدیث کے راوی ابو النعمان محمد بن الفضل عارم پربھی اختلاط کے مرض کا وہی الزام ہے جو ابوبکربن عیاش پرہے۔مگرزبیرعلی زئی صاحب کتنی ڈھٹائی کے ساتھ حافظ ذہبیؒ کے قول سےاستدلال کرتے ہوئے رفع الیدین کی اس حدیث کی تائیدمیں فرماتے ہیں کہ’’وہ موت سے پہلے تغیر(ضعف حافظہ واختلاط) کا شکار ہوئے اور اس حالت تغیرمیں انھوں نے کوئی حدیث بیان نہیں کی‘‘۔ درج ذیل دلائل کی روشنی میں زبیرعلی زئی صاحب کادعویٰ ۱۰۰فیصد غلط اور جھوٹ پرمبنی ہے۔
امام بخاری ؒفرماتے ہیں:’’محمد بن الفضل ابو النعمان السدوسی البصری یقال لہ عارم تغیر بآخرہ‘‘۔ ’’ ابو النعمان محمد بن الفضل عارم اپنی آخری عمرمیں تغیرکا شکار ہوگئے تھے‘‘۔ (تاریخ الکبیرللبخاری: ج۱،ص۲۰۸،رقم الترجمۃ ۶۵۴)
اس راوی ابو النعمان محمد بن الفضل عارم پر امام بخاری رحمہ اللہ سمیت دیگر بہت سے محدثین نے بھی یہی جرح کی ہے جن کی فہرست درج ذیل ہے۔
۱۔ امام ابو داودؒ (متوفی۲۷۵ھ)۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلی :ج۴، ص۱۲۱-۱۲۲)
۲۔امام ابوحاتم الرازیؒ(متوفی۲۷۷ھ)۔ (الجرح والتعدیل للرازی: ج۸، ص۶۹-۷۰؛ سیراعلام النبلا ء للذھبی: ج۷، ص۴۶۴)
۳۔امام موسی بن حمادؒ۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلی :ج۴، ص۱۲۲؛ الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب :ص۱۳۶)
۴۔ امام ابراھیم الحربیؒ(متوفی۲۸۵ھ)۔ (الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب :ص۱۳۶؛الکواکب النیرات لا بن الکیال: ص۹۹)
۵۔امام عقیلی ؒ(متوفی۳۲۲ھ)۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلی :ج۴، ص۱۲۲)
۶۔ امام ابن ابی حاتم الرازیؒ (متوفی۳۲۷ھ)۔ (الجرح والتعدیل للرازی: ج۸، ص۶۹)
۷۔ امام امیۃ الا ھوازیؒ۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلی :ج۴، ص۱۲۳)
۸۔امام ابن حبانؒ(متوفی۳۵۴ھ)۔ (تہذیب التہذیب لابن حجر: ج۵،ص۲۵۸؛ سیر اعلام النبلاء للذھبی: ج۷، ص۴۶۵؛ الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی :ج۲،ص۹۱-۹۲)
۹۔ امام ابو الولید البا جیؒ (متوفی۴۷۴ھ)۔ (التعدیل والتجریح للباجی :ج۲،ص۶۷۵-۶۷۶)
۱۰۔امام ابن الجوزیؒ (متوفی۵۹۸ھ)۔ (الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی :ج۲،ص۹۱-۹۲)
۱۱۔ امام ابن الصلاح ؒ(متوفی۶۴۲ھ)۔ (مقدمۃ ابن الصلاح :ص۳۶۸)
۱۲۔امام نووی ؒ(متوفی۶۷۶ھ)۔ (تقریب مع التدریب: ج۲،ص۳۲۳،۳۲۹)
۱۳۔امام ابو الحجاج المزی ؒ(متوفی۷۴۲ھ)۔ (تہذیب الکمال للمزی :ج۹،ص۲۷۲-۲۷۳)
۱۴۔امام ذھبی ؒ(متوفی۷۴۸ھ)۔ (العبر للذھبی :ج۱،ص۱۹۵؛تذکرۃ الحفاظ للذھبی :ج۱،ص۳۰۱)
۱۵۔امام ابن کثیر الدمشقیؒ (متوفی۷۷۴ھ)۔ (اختصار علوم الحدیث: ص۲۳۹)
۱۶۔امام عراقی ؒ(متوفی۸۰۴ھ)۔ (فتح المغیث للعراقی :ص۴۵۴، ۴۵۹،۴۶۰)
۱۷۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ(متوفی۸۵۲ھ)۔ (تقریب لابن حجر :ج۲،ص۵۴۷؛ تہذیب لا بن حجر: ج۵،ص۲۵۸)
۱۸۔امام جلال الدین سیوطیؒ(متوفی۹۱۱ھ)۔ (تدریب الراوی للسیوطی: ج۲،ص۳۲۳، ۳۲۹)
۱۹۔امام احمد بن عبداللہ الخزرجی ؒ(متوفی۹۲۳ھ)۔ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال للخزرجی :ص۳۵۶)
۲۰۔ امام محمد بن احمد الکیالؒ(متوفی۹۲۶ھ)۔ (الکواکب النیرات فی معرفۃ من اختلط من الرواۃ الثقات لابن الکیال: ص۹۷-۹۸)
۲۱۔ امام ابن العماد الحنبلیؒ (متوفی۱۰۸۹ھ)۔ (شذرات الذھب لابن العماد :ج۲،ص۱۵۹)
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ:’’اختلط فی آخر عمرہ حتی کان لا یدری مایحدث بہ فوقع فی حدیثہ المناکیر الکثیرۃ فیجب التنکب عن حدیثہ فیما رواہ المتأخرون فان لم یعلم ھذا من ھذا ترک الکل ولا یحتج بشئ منہا‘‘۔(تہذیب التہذیب لابن حجر :ج۵، ص۲۵۸)
مشہورمحدث علامہ نیموی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’فیہ النعمان محمد بن فضل السدوسی و ھو ثقۃ تغیر بالآخرۃ رواہ عنہ ابو اسماعیل السلمی و ھو لیس من اصحابہ القدماء‘‘۔ (التعلیق الحسن: ص۱۱۴)
مندرجہ بالاقاعدے سے معلوم ہوا کہ ابو النعمان محمد بن الفضل عارم کےجو شاگرد قدماء [اول عمر کے شاگردوں] میں سے نہ ہو بلکہ متاخرین شاگردوں میں سے ہو تو اس سے مروی روایت متروک قرار پائے گی۔زبیرعلی زئی صاحب کی بیان کردہ روایت میں ابو النعمان محمد بن الفضل عارم سے روایت کرنے والے محمد بن اسماعیل السلمی قدماء شاگردوں میں سے نہیں ہیں بلکہ متاخرین شاگردوں میں سے ہیں۔
قال الإمام الدارمي رحمه الله :حدثنا أبو النعمان، ثنا سعيد بن زيد، ثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال: (قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطاً شَدِيداً، فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ: انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لاَ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْف۔ قَالَ: فَفَعَلُوا، فَمُطِرْنَا مَطَراً حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ، حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّىَ عَامَ الْفَتْقِ)۔ ’’اوس بن عبد اللہ فرماتے ہیں، اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے یہ حالت بیان کی، انہوں نے فرمایا: جاؤ قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر کی طرف سے تھوڑا سا کھول دو، اس طرح کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی چھت نہ ہو، کہتے ہیں: لوگوں نے ایسا ہی کیا، تو اللہ تعالی نے اتنی بارش نازل فرمائی کہ ہر طرف ہریالی پھیل گئی، اونٹ اس قدر سیر ہوگئے کہ چربی کی وجہ سے ان کے جسمانی اعضاء الگ الگ نظر آنے لگے، اس مناسبت سے اس سال کو ’ عام الفتق ‘ کا نام دیا گیا ‘‘۔(سنن الدارمی: ج۱، ص۵۶، رقم الحدیث۹۲)
رسول اﷲﷺ کی قبرانورسےفیض حاصل کرنے پرپیش کی جانے والی مندرجہ بالاحدیث پرغیرمقلدین حضرات یہی اعتراض پیش کرتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں ابو النعمان محمد بن الفضل عارم راوی موجود ہے جواپنی آخری عمرمیں تغیرکا شکار ہوگئے تھے۔ انہیں اختلاط ہوا، حتیٰ کہ ان کی عقل زائل ہوگئی۔
مشہورغیرمقلدمحدث علامہ ناصرالدین البانیؒ فرماتے ہیں:
’’ أن أبا النعمان هذا هو محمد بن الفضل يعرف بعارم وهو وإن كان ثقة فقد اختلط في آخر عمره۔ وقد أورده الحافظ برهان الدين الحلبي في "الاغتباط بمن رمي بالاختلاط" تبعا لابن الصلاح حيث أورده في ( المختلطين ) من كتابه "المقدمة" وقال: "والحكم فيهم أنه يقبل حديث من أخذ عنهم قبل الاختلاط، ولا يقبل من أخذ عنهم بعد الاختلاط، أو أشكل أمره فلم يدر هل أخذ عنه قبل الاختلاط أو بعده"
قلت (الألباني): وهذا الأثر لا يُدرى هل سمعه الدارمي منه قبل الاختلاط أو بعده، فهو إذن غير مقبول، فلا يحتج به‘‘۔ ’’یہی وجہ ہے کہ راوی ابو نعمان جس کا نام محمد بن الفضل ہے، اگرچہ ثقہ راوی ہے مگر آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوا تھا یعنی ضعف حافظہ کے سبب آخری عمر میں صحیح و ضعیف کو ملا کر بیان کرتا تھا، علم حدیث میں ایسے مختلط راوی کا حکم یہ ہے کہ جو روایات اختلاط سے قبل کی ہوں وہ مقبول ہوتی ہیں جو اختلاط کے بعد ہوں وہ ناقابل قبول جبکہ جن روایات کے بارے میں علم نہ ہو کہ اختلاط سے قبل کی ہیں یا بعد کی وہ بھی مشکوک ہونے کی بنا پر مقبول نہیں ہوتی، اور مذکورہ روایت بھی انہی میں سے ہے اس کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ اختلاط سے پہلے کی ہے یا بعد کی‘‘۔ (التوسل أنواعہ واحکامہ للعلامۃالمحدث محمد ناصرالدین الالبانی: ص۱۲۷)

مندرجہ بالا تحقیق سے زبیرعلی زئی صاحب کے مزید کئی جھوٹ اور ناقص تحقیقات کا پردہ فاش ہوا جودرجہ ذیل ہیں:
۱۔ زبیرعلی زئی صاحب کا رفع الیدین پرپیش کی جانے والی حدیث کے راوی ابو النعمان محمد بن الفضل عارم کے بارے میں یہ کہنا کہ انھوں نے اختلاط کے مرض میں مبتلاہونے کے بعد کوئی حدیث بیان نہیں کی ، ان کا سب سے بڑاجھوٹ ہے جس کی دلیل جمہورمحدثین کی جرح اورغیرمقلدمحدث علامہ ناصرالدین البانیؒ کا اس راوی کے بارے میں بیان ہے۔
۲۔ حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ سے مروی ترک رفع الیدین کی زیربحث حدیث کے راوی ابوبکربن عیاش پرزبیرعلی زئی صاحب نے جو اختلاط کے مرض کا الزام عائد کیا ہے وہی الزام حضرت عطاء بن ابی رباحؒ سے مروی رفع الیدین کی حدیث کے راوی ابو النعمان محمد بن الفضل عارم پربھی ہے، لہٰذا زبیرعلی زئی صاحب کاابوبکرعیاش کی حدیث کو ضعیف کہنا اور ابو النعمان محمد بن الفضل عارم کی حدیث سے استدلال کرناان کی ناقص و متعصب تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
۳۔ اگرزبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین کے نزدیک راوی ابو النعمان محمد بن الفضل عارم کی بیان کردہ تمام احادیث صحیح ہیں تو پھران تمام حضرات سے گزارش ہے کہ سنن دارمی کی حضرت عائشہ رضی اﷲعنہ سے مروی حدیث کو بھی صحیح تسلیم کرتے ہوئےرسول اﷲﷺ کی قبرانورسے فیض حاصل کرنے کو جائزقراردیدیں۔
اعتراض نمبر۳: زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۹پر اپناتیسرااعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’امام بخاریؒ نے تفصیل سے بتایا ہے کہ قدیم زمانے میں ابوبکربن عیاش اس روایت کو عن حصین عن ابراہیم عن ابن مسعودؓمرسل(منقطع) موقوف بیان کرتے تھےاور یہ بات محفوظ ہے۔ پہلی بات(یہ متنازعہ حدیث) خطاءفاحش ہے کیونکہ اس نے اس میں ابن عمرکے اصحاب کی مخالفت کی ہے‘‘۔(نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۹)
جواب نمبر۳: زبیر علی زئی صاحب نے امام بخاریؒ کا وہ قول تو بیان کردیا جس سے ان کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے لیکن امام بخاریؒ کا وہ قول بیان نہیں کیا جس سے اس حدیث کے صحیح ہونے کی واضح دلیل ملتی ہےکیونکہ موصوف جانتے تھے کہ اگرانہوں نے امام بخاریؒ کا مکمل مؤقف بیان کردیا تو امام بخاریؒ کی جرح مضطرب ثابت ہوجائے گی۔ لہٰذا موصوف نے صرف اپنے مطلب کی بات بیان کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اس حدیث پرامام بخاریؒ کا مکمل مؤقف جاننے کے لئے امام بخاریؒ کادوسراقول رقم کیئے دیتے ہیں تاکہ قارئین کو حق بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
’’قَالَ الْبُخَارِيُّ: "وَيُرْوَى عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ لَمْ يَرَ ابْنَ عُمَرَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى۔ وَرَوَى عَنْهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنَّهُ لَمْ يَحْفَظْ مِنِ ابْنِ عُمَرَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ ابْنُ عُمَرَ سَهَا كَبَعْضِ مَا يَسْهُو الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ فِي الشَّيْءِ بَعْدَ الشَّيْءِ كَمَا أَنَّ عُمَرَ نَسِيَ الْقِرَاءَةَ فِي الصَّلَاةِ، وَكَمَا أَنَّ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُبَّمَا يَسْهُونَ فِي الصَّلَاةِ فَيُسَلِّمُونَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ، وَالثَّلَاثِ أَلَا تَرَى أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَرْمِي مَنْ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ بِالْحَصَى فَكَيْفَ يَتْرُكُ ابْنُ عُمَرَ شَيْئًا يَأْمُرُ بِهِ غَيْرَهُ، وَقَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَهُ؟‘‘۔ ’’بخاریؒ نے کہا: اور ابوبکرعیاش عن حصین عن مجاہد(کی سند) سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن عمررضی اﷲعنہ کو سوائے پہلی تکبیرکے رفع یدین کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اور ان (ابن عمر)سے اہل علم نے (اثبات رفع یدین کی) روایت کی ہے۔ بے شک اس(راوی ابوبکرعیاش) نے (اس سندکے ساتھ ابن عمرسے) یادنہیں رکھا۔ الایہ کہ (بشرط صحت وبفرض محال کہاجائےگاکہ) ابن عمربھول گئےجیساکہ بعض آدمی نمازمیں، ایک کے بعددوسری چیزکوبھول جاتا ہے۔ جس طرح کہ عمررضی اﷲعنہ نماز میں قرأت بھول گئےتھے اور جس طرح کہ محمدﷺکے صحابہ کرامؓ بعض اوقات نماز میں بھول جاتے تھےتو دو یا تین رکعتوں پرسلام پھیردیتے تھے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ابن عمررضی اﷲعنہ رفع یدین نہ کرنے والے کو کنکریوں سے مارتے تھے؟ تو ابن عمرؓاس چیزکوکس طرح ترک کرسکتے تھے جس کا حکم وہ دوسروں کو دیتے تھےاورجو فعل انہوں نے رسول اﷲﷺکوکرتے ہوئے دیکھاتھا‘‘۔ (جزءِ رفع الیدین للبخاری: ص۴۵-۴۶)
امام بخاریؒ کی مکمل جرح کے الفاظ سے یہ ثابت ہوگیا کہ امام بخاریؒ کواس حدیث کی سند اور متن پرکوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ انہوں نے یہ کہہ کرراوی ابوبکربن عیاش پرلگے اس (اختلاط کے) الزام کی بھی تردید فرمادی کہ’’ابن عمررضی اﷲعنہ نماز میں رفع یدین کرنابھول گئےجیساکہ بعض آدمی نمازمیں، ایک کے بعددوسری چیزکوبھول جاتا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ نے اختلاط کے الزام کے باوجودخوداپنی صحیح میں ابوبکربن عیاش سے احتجاج کیاہے۔
امام بخاریؒ کاہراشکال ان کے دوسرے اشکال کی نفی کرتا نظرآتا ہے جس سے ظاہرہوتا ہے کہ امام بخاریؒ کو خوداپنی جرح پر اطمینان نہیں تھا۔ امام بخاریؒ نے سب سے پہلے تو یہ اشکال کیا کہ ’’بے شک اس(راوی ابوبکرعیاش) نے (اس سندکے ساتھ ابن عمرسے) یادنہیں رکھا‘‘۔ پھر فرماتے ہیں کہ’’ابن عمررضی اﷲعنہ نماز میں رفع یدین کرنابھول گئےجیساکہ بعض آدمی نمازمیں، ایک کے بعددوسری چیزکوبھول جاتا ہے‘‘۔ پھر خود ہی اس بات پر تعجب کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ’’کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ابن عمررضی اﷲعنہ رفع یدین نہ کرنے والے کو کنکریوں سے مارتے تھے؟ تو ابن عمرؓاس چیزکوکس طرح ترک کرسکتے تھے جس کا حکم وہ دوسروں کو دیتے تھے‘‘۔
امام بخاریؒ کے پیش کردہ اشکالات پرسب سے بڑااشکال تو یہ ہوتا ہے کہ ابن عمررضی اﷲعنہ جو رسول اﷲﷺکی سنت کے سب سے زیادہ حریص اور پابند تھے، اوررفع یدین نہ کرنے والوں کو کنکریوں سے مارتے تھے، تعجب کی بات ہے کہ انہیں تکبیراولیٰ کا رفع یدین تو یاد رہا لیکن اس کے بعدکاکوئی ایک رفع یدین بھی یاد نہیں رہا۔
امام بخاریؒ کاحضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ جیسے جلیل القدراور فقیہہ صحابی کے بارے میں ایسا کہنا قائلین رفع کے لئے تو مناسب اور تسلی بخش ہوگا لیکن ہم احناف کے لئے تو ایسا سوچنا بھی ممکن نہیں۔ لہٰذا ہم یہاں یہ کہنے پر حق بجانب ہونگے کہ ابن عمررضی اﷲعنہ نے جب رسولﷺکورفع یدین کرتے دیکھاتورفع یدین کیا لیکن جب ان کے نزدیک اس کے نسخ کے دلائل واضح ہوگئے تو صرف تکبیراولیٰ کے رفع یدین کو باقی رکھااور اس کے بعد والے رفع یدین کو ترک کردیا۔
امام طحاویؒ نے بھی امام بخاریؒ کی جرح کایہی جواب دیاہے:
’’فَهَذَا ابْنُ عُمَرَ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ يَرْفَعُ، ثُمَّ قَدْ تَرَكَ هُوَ الرَّفْعَ بَعْدَ النَّبِيِّ فَلاَ يَكُونُ ذَلِكَ إلَّا وَقَدْ ثَبَتَ عِنْدَهُ نَسْخُ مَا قَدْ رَأَى النَّبِيُّ فِعْلَهُ وَقَامَتْ الْحُجَّةُ عَلَيْهِ بِذَلِكَ۔ فَإِنْ قَالَ: قَائِلٌ "هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ" قِيلَ لَهُ "وَمَا دَلَّك عَلَى ذَلِكَ؟ فَلَنْ تَجِدَ إلَى ذَلِكَ سَبِيلًا"۔ فَإِنْ قَالَ: فَإِنْ طَاوُسًا قَدْ ذَكَرَ أَنَّهُ رَأَى ابْنَ عُمَرَ يَفْعَلُ مَا يُوَافِقُ مَا رُوِيَ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ، مِنْ ذَلِكَ۔ قِيلَ لَهُمْ: فَقَدْ ذَكَرَ ذَلِكَ طَاوُسٌ، وَقَدْ خَالَفَهُ مُجَاهِدٌ۔ فَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ عُمَرَ فَعَلَ مَا رَآهُ طَاوُسٌ مَا يَفْعَلُهُ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ، ثُمَّ قَامَتْ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ فَتَرَكَهُ وَفَعَلَ مَا ذَكَرَهُ عَنْهُ مُجَاهِدٌ۔ هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يُحْمَلَ مَا رُوِيَ عَنْهُمْ، وَيُنْفَى عَنْهُ الْوَهْم، حَتَّى يَتَحَقَّقَ ذَلِكَ، وَإِلَّا سَقَطَ أَكْثَرُ الرِّوَايَاتِ‘‘۔ ’’ابن عمررضی اﷲعنہ جنہوں نے جناب رسول اﷲﷺ کو رفع الیدین کرتے دیکھاپھرانھوں نے ہاتھوں کااٹھاناآپﷺکے بعدچھوڑدیا۔ اور اس کے خلاف عمل کیایہ اس صورت میں درست ہے جبکہ ان کے ہاں اس کا نسخ ثابت ہوچکاہو، جس کو انہوں نے جناب نبی کریم ﷺسے دیکھاتھا۔ اور ان کے ہاں اس کےنسخ کی دلیل ثابت نہ ہوگئی ہے۔ اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ روایت سرے سے منکرہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، آپ کوکس نے بتلایا؟ آپ کے لئے اس کے منکرقرار دینے کی کوئی صورت نہیں۔ اگرکوئی یہ کہےکہ طاؤس نےابن عمررضی اﷲعنہ کووہ فعل کرتے دیکھاجواس روایت کے موافق ہے جو انہوں نے جناب نبی اکرمﷺسے روایت کی، تو جواب میں یہ کہاجائے گاکہ طاؤس نے یہ بات ذکرکی ہے مگرمجاہدنے ان کی مخالفت کی ہے۔ تو اب یہ کہنا درست ہواکہ طاؤس نے ابن عمررضی اﷲعنہ کے اس وقت کے عمل کو دیکھاجب ان کے سامنے نسخ کے دلائل نہ آئےتھے، پھرجب ان کے ہاں نسخ کے دلائل قائم ہوگئے تو انہوں نے رفع الیدین کوترک کردیااور وہی کیاجو ان سےمجاہدنے دیکھا۔ اسی طرح مناسب یہ ہے کہ جوان سےمروی ہے وہ اس پرمحمول کیاجائے اوروہم کی نفی کی جائےتاکہ یہ بات ثابت ہوجائے ورنہ اکثرروایات کو ساقط الاعتبارقراردیناپڑےگا‘‘۔(شرح المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۵)