-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Saturday 27 January 2024

تقلید کی تائید میں مشہور  علماء، فقہاء اور محدثین کے اقوال

بسم الله الرحمن الرحیم

تقلید کی تائید میں اسلامی تاریخ کے ۱۴۰۰ سالہ دورمیں ہر صدی کے مشہور  علماء، فقہاء اور محدثین کے اقوال

پہلی، دوسری اور تیسری صدی ہجری

۱۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ (المتوفی۱۵۰ھ)، امام محمد بن الحسن شیبانیؒ (المتوفی ۱۸۹ھ)، قاضی ابو یوسفؒ (المتوفی ۱۸۲ھ)، امام أبی بكر ابراہیم بن رستم المروزیؒ (المتوفی ۲۰۱ھ)، بشیربن ولید بن خالدبن ولیدالکندیؒ(المتوفی ۲۳۸ھ) :

فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب الهداية مع شرح الكفاية میں لکھا ہے: ’’واذا کان المفتي علي ھذه الصفة  فعلي العامي تقليده وان کان المفتي اخطأ في ذلك ولا معتبر بغيره ھكذا "روی" الحسن عن ابي حنيفة وابن رستم عن محمد و بشیر بن الولید عن ابي یوسف رحمھم ﷲ تعالیٰ‘‘۔ ’’عامی شخص پر مفتی کی تقلید واجب ہے اگرچہ مفتی سے خطا ہو جائے اسے ایک اجر ملے گا۔ یہ قول ہے امام ابو حنیفہؒ، ابن رستمؒ، محمد بن الحسن شیبانیؒ، بشیر بن ولیدؒ، اور قاضی ابو یوسفؒ کاہے‘‘۔ (الهداية مع شرح الكفاية: ج۱، كتاب الصوم، ص ۵۹۸)

امام ابویوسف رحمہ اللہ(المتوفی ۱۸۲ھ)فرماتے ہیں:  ’’علی العامی الاقتداء بالفقہاء لعدم الاھتداء فی حقہ الی معرفۃ الاحادیث‘‘۔ ’’عام آدمی پر فقہاء کی اقتداء )تقلید (واجب ہے اس لیے کہ وہ احادیث کی چھان پھٹک کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ (الهداية شرح بدایۃ المبتدی: ج۱، جزء۲، كتاب الصوم، باب مایوجب القضاءوالکفارۃ، ص ۲۸۲)

دوسری صدی ہجری

۲۔ امام محمد بن ادریس الشافعیؒ  (المتوفی۲۰۴ھ)اپنی شہرہ آفاق تصنیف’’کتاب الأم‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ما كان الكتاب والسنة موجودين؛ فالعُذر عمَّن سَمِعَهُما مقطوعٌ إلا باتباعهما، فإذا لم يكن ذلك صِرْنا إلى أقاويل أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، أو واحدٍ منهم، ثم كان قول الأئمة أبي بكر، أو عمر، أو عثمان، إذا صِرْنا فيه إلى التقليدأحب إلينا‘‘۔ ’’جب تک کتاب وسنت موجود ہیں، ان کو سننے والے کی طرف سے کوئی بھی عذر ان کی اتباع کے بغیر مقطوع (بے کار) ہو گا۔ اور اگر یہ معاملہ نہ ہو تو ہم رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے اقوال یا ان میں سے کسی ایک کے قول کی طرف رخ کریں گے۔ نیز ائمہ میں سے ابو بکرؓ، یا عمرؓ، یا عثمانؓ کے قول کی ہم اگر تقلید کو اختیار کریں تو وہ ہمارے لئے زیادہ محبوب ہے‘‘۔ (کتاب الأم للشافعی: ج۸، کتاب اختلاف مالک والشافعیؓ، ص۷۶۴)

امام ابن القیم الجوزیؒ امام شافعیؒ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نقل عن الشافعی فی عدۃ مواضع: قلتہ تقلیداً لعمر، وقلتہ تقلیداً لعثمان، وقلتہ تقلیداً لعطاء‘‘۔ ’’امام شافعیؒ فرماتےہیں کہ: میں نے حضرت عمرؓاورحضرت عثمانؓ اورحضرت عطاء کی تقلید میں یہ کہاہے ‘‘۔ (عصرہ ومنہجہ وآراؤہ فی الفقہ والعقائدوالتصوف: ص۱۰۷)

امام محمد ابو زهرة ؒامام شافعیؒ کادوسرا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قال الشافعی فی مواضع من الحجج قلتہ تقلید لعطاء‘‘۔ ’’حضرت امام شافعی نے بہت سے مقامات پرکہاہے کہ میں نے حضرت عطاء کی تقلید میں ایساکہاہے‘‘۔ (ابن حنبل حياته وعصره آراؤه الفقهية: ص۴۲۷)

اس کا مطلب امام شافعیؒ جیسے جلیل القدرمجتہدومحدث  بھی اپنے پچھلوں یعنی خلفاءِ راشدینؓ کی تقلید کیاکرتے تھے۔ اگرتقلید شرک بدعت یا گمراہی ہوتی تو امام شافعیؒ جیسے جلیل القدرمجتہدومحدث  تقلیدکرتے؟

تیسری صدی ہجری

۳۔ امام احمد بن حنبلؒ(المتوفی ۲۴۱ ھ) فرماتے ہیں:

’’ومن زعم أنه لا يرى التقليد ولا يقلد دينه أحدًا فهو قول فاسق عند اللَّه ورسول - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إنما يريد بذلك إبطال الأثر تطيل العلم والسنة والتفرد بالرأي والكلام والبدعة والخلاف‘‘۔ ’’جو شخص یہ گمان رکھے کہ تقلید کوئی چیز نہیں ہے تو یہ قول اللہ و رسول ﷺکے نزدیک ایک فاسق کا قول ہے، وہ شخص اپنے اس قول کے ذریعہ سے اثر (یعنی اقوال و احادث صحابہؓ و تابعینؒ) کو باطل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور علم و سنت کو معطل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اور اپنی رائے سے تفرد،کلام، بدعت اور مخالفت کرنا چاہتا ہے‘‘۔ (طبقات الحنابلة: ص۶۵-۶۶)

حافظ ابن حجرؒ اورخطیب بغدادیؒ نقل کرتے ہیں کہ: ’’كُنْتُ عِنْدَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَل نتذاكر في مسألة فَقَالَ رجل لأحمد: يَا أَبَا عَبد اللَّهِ لا يصح فيه حديثفَقَالَإن لم يصح فيه حديث ففيه قول الشافعي وحجته أثبت شيء فيه‘‘۔ ’’امام احمد بن حنبلؒ خود مجتہد ہیں۔ ایک مسئلہ کے جواب میں ایک سائل نے کہاکہ اس میں توکوئی حدیث موجود نہیں ہے۔ اس پر حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے جواباًارشاد فرمایاکہ اگرحدیث موجود نہیں تونہ سہی اس میں "ففیہ قول الشافعی وحجتہ، أثبت شئی فیہ"حضرت امام شافعیؒ کا قول موجودہےاورامام شافعی کاقول بذات خودحجت اوردلیل ہے‘‘۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال: ج۲۴، ص۳۷۲؛ تاریخ بغداد:ج۲، ص۴۰۷)

اس کا مطلب امام احمد بن حنبلؒ جیسے جلیل القدرمجتہدومحدث  کی نظر میں تقلید کا انکارکرنے والااور اسے شرک وبدعت قرار دینے والا شخص قول اللہ و رسول ﷺکے نزدیک فاسق ہے، اورعلم و سنت کو معطل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

چوتھی صدی ہجری

۴۔ مفسر قرآن امام ابو بكر جصاص ؒ (المتوفی ۳۷۰ھ) فرماتے ہیں:

’’أَنَّ الْعَامِّيَّ عَلَيْهِ تَقْلِيدُ الْعُلَمَاءِ فِي أَحْكَامِ الْحَوَادِثِ‘‘۔ ’’اوریہ پیش آمده مسائل میں غیر مجتہدپر مجتہدین کی تقلید واجب ہے‘‘۔ (أحكام القرآن: ج ۳ ،ص ۱۸۳)

امام ابو بكراحمدبن علی الرازی الجصاصؒ اپنی کتاب ’’أصول الفقہ‘‘میں ’’ الْقَوْلِ فِي تَقْلِيدِ الْمُجْتَهِدِ‘‘ کے نام سے باب رقم کرنے کے بعد لکھتےہیں: ’’قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إذَا اُبْتُلِيَ الْعَامِّيُّ الَّذِي لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الِاجْتِهَادِ بِنَازِلَةٍ، فَعَلَيْهِ مُسَاءَلَةُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَنْهَا۔ وَذَلِكَ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [الأنبياء: ۷] وَقَالَ تَعَالَى: {فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إذَا رَجَعُوا إلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ} [التوبة: ۱۲۲]‘‘۔ ’’یہ آیت عام طورپراس شخص کے لئے نازل ہوئی ہے جواجتہاد کی اہلیت نہیں رکھتا، اسےجس کے علم و تفقہ پر اعتماد ہوگا اس سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اگر تم خود نہیں جانتے تو اہل علم سے سوال کرو} [الأنبياء: ۷] اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےکہ: {اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا (علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے} [التوبة: ۱۲۲]‘‘۔ (أصول الفقہ المسمی الفصول فی الأصول للجصاص: ج۴، بَابُ الْقَوْلِ فِي تَقْلِيدِ الْمُجْتَهِدِ، ص۲۸۱)

تعجب کی بات ہے کہ چھوتھی صدی کے مفسرقرآن کوقرآن کی تفسیرلکھتے ہوئے تقلید کی حرمت کی دلیل تونظر نہ آئی لیکن تقلید کی حلت کی دلیل نظر آگئی جس سے استدلال کرکے تقلیدکوواجب قراردے رہے ہیں۔

پانچھویں صدی ہجری

۵۔ خطیب بغدادی ؒ (المتوفی ۴۶۳ھ )لکھتے ہیں:

’’وَلِأَنَّا لَوْ مَنَعْنَا التَّقْلِيدَ فِي هَذِهِ الْمَسَائِلِ الَّتِي هِيَ مِنْ فُرُوعِ الدِّينِ لَاحْتَاجَ كُلُّ أَحَدٍ أَنْ يَتَعَلَّمَ ذَلِكَ، وَفِي إِيجَابِ ذَلِكَ قَطْعٌ عَنِ الْمَعَايِشِ، وَهَلَاكُ الْحَرْثِ وَالْمَاشِيَةِ، فَوَجَبَ أَنْ يَسْقُطَ۔ وَلِأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الِاجْتِهَادِ فَكَانَ فَرْضُهُ التَّقْلِيدَ، كَتَقْلِيدِ الْأَعْمَى فِي الْقِبْلَةِ، فَإِنَّهُ لَمَّا لَمْ يَكُنْ مَعَهُ آلَةُ الِاجْتِهَادِ فِي الْقِبْلَةِ، كَانَ عَلَيْهِ تَقْلِيدُ الْبَصِيرِ فِيهَا ‘‘۔ ’’اگر ہم دین کے ان فروعی مسائل میں تقلید کو ممنوع قرار دیدیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر آدمی احکام کودلائل کے ساتھ جاننے کا محتاج ہوگااور عوام پراس کو واجب کرنے سے زندگی کی سب ضروریات کے حاصل کرنے سے انہیں روکنا لازم آئے گا۔ اور کھیتی باڑی اور مویشیوں کی ہلاکت وبربادی لازم آئے گی تو واجب ہے کہ یہ حکم اِنس سے ساقط ہو۔ رہی یہ بات کہ تقلید کس کے لئے جائز ہے؟ سو وہ عامی شخص ہے جو احکام شرعیہ کے طریقوں سے واقف نہیں، لہٰذا اس کے لئے جائز ہےکہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے اور اسکے قول پر عمل پیرا ہو نیز اس لئے کہ وہ (عام آدمی) اجتہاد کا اہل نہیں ہے، لہٰذا اس کا فرض یہ ہےکہ وہ بالکل اس طرح تقلید کرے جیسے ایک نابینا قبلے کے معاملے میں کسی آنکھ والے کی تقلید کرتا ہے، اس لئے کہ جب اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ اپنی ذاتی کوشش کے ذریعہ قبلے کا رخ معلوم کرسکے تو اس پر واجب ہے کہ کسی آنکھ والے کی تقلید کرے‘‘۔ (الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی: ج۲، ص۱۳۲-۱۳۴، طبع الریاض)

۶ ۔ امام ابن عبد البرؒ (المتوفی ۴۶۳ ھ)فرماتے ہیں:

’’لم يختلف الفقهاء أن العامة عليها تقليد علمائها وأنهم المراد بقول الله عز وجل: (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) وأجمعوا على أن الأعمى لا بد له من تقليد غيره ممن يثق بميزه بالقبلة إذا أشكلت عليه، فكذلك من لا علم له ولا بصر، بمعنى لا بد له من تقليد عالمه‘‘۔ ” علماء کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ عام لوگوں پر علماء کی تقلید لازم ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد: پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر تم کو علم نہیں۔ [النحل: ۴۳، الانبیاء: ۷] سے علماء ہی مراد ہیں، اور علماء کا اس امر (بات) پر اجماع ہے کہ نابینا شخص پر جب قبلہ کی تعین میں اختلاف ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ غیر کی جس (کے علم و صداقت) پر اعتماد ہو عمل کرے جو اسے قبلہ کی تمیز کراسکے سو اسی طرح جس شخص کو دینی امور میں علم و بصیرت نہ ہو اس پر لازم ہے کہ وہ عالم کی تقلید کرے“۔ (صحیح جامع بيان العلم وفضله: ص۹۸۹)

۷ ۔ پانچویں صدی ہجری کے امام الحرمین عبدالملک الجوینیؒ(المتوفی ۴۷۸ ھ) اپنی کتاب البرھان میں لکھتےہیں:

’’مسألة:١١٧٣- أجمع المحققون على أن العوام ليس لهم أن يتعلقوا بمذاهب أعيان الصحابة رضي الله تعالى عنهم بل عليهم أن يتبعوا مذاهب الأئمة الذين سبروا ونظروا وبوبوا الأبواب وذكروا أوضاع المسائل وتعرضوا للكلام على مذاهب الأولين۔ والسبب فيه أن الذين درجوا وإن كانوا قدوة في الدين وأسوة للمسلمين فإنهم لم يفتنوا بتهذيب مسالك الاجتهاد وإيضاح طرق النظر والجدال وضبط المقال ومن خلفهم من أئمة الفقه كفوا من بعدهم النظر في مذاهب الصحابة فكان العامي مأمورا باتباع مذاهب السابرين‘‘۔ ’’محقیقین کا اس بات پر اجماع ہے کہ عام عوام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے مذاہب کی پیروی کریں بلکہ ان پر یہ لازم ہے کہ ان ائمہ کرامؒ کے مذاہب کی اتباع کریں جنہوں نے دین اسلام کو مکمل طورپرجانچا، پرکھا، اس پر غوروفکر کیا، ابواب قائم کئے، مسائل کی صورتیں ذکرکیں اور گزشتہ ائمہ کرامؒ کے مذاہب پر کلام کرنے کے قابل ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حضرات (صحابہؓ) اگرچہ دین میں مسلمانوں کے لئے مقتداءاور رہبر تھے، لیکن انہیں  بحث و مباحثہ اور دینی مسائل کے طریقوں کو واضح کرنے اور سمجھنے میں آزمانے کاموقع نہیں ملا۔ ان کے بعد جو ائمہ فقہ تھے انہوں نے صحابہ کرامؓ کےمذاہب پردینی مسائل میں غوروفکر کرنے میں آسانیاں کر دیں لہٰذا عام لوگوں ان مذاہب کی اتباع لازم ہے‘‘۔ (البرهان فی أصول الفقه الجوينی: ج۲، کتاب الترجیح، مسئلہ نمبر ۱۱۷۳، ص ۱۱۴۶)

امام الحرمین عبدالملک الجوینیؒ کا مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ ایک حدیث کی تصحیح کے بارے میں حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ: ’’فقال: هو حديث صحيح، وتبع فى ذلك إمامة (إمام الحرمين الجويني)‘‘۔ ’’انہوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، اس سلسلے میں انہوں نے اپنے امام (امام الحرمین جوینی) کی پیروی کی ہے‘‘۔ (التخيص الحبير: ج۴، ص۱۵۷)

۸۔ شمس الائمہ امام رضی الدین سرخسی ؒ (المتوفی ۴۸۳ھ) فرماتے ہیں:

’’و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة‘‘۔ ’’دورِ اوّل کے بعد ائمہ اربعہ ؒکے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں‘‘۔ (الفتوحات الوہبیہ:ص ۱۹۹)

۹۔ الحافظ أبو المظفر السمعانیؒ(المتوفی ۴۸۹ھ) فرماتے ہیں:

’’ونتكلم في المسألة على الإطلاق فنقول: احتج من جوز للعالم تقليد العالم بظاهر قوله تعالى: {فَاسْأَلوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النحل: ٤٣]‘‘۔ ’’اس مسئلہ میں علی الاطلاق نقل کرتے ہیں کہ: اﷲتعالیٰ کے اس ارشاد: {پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر تم کو علم نہیں}۔ [النحل: ۴۳] سے بظاہراس بات کی دلیل ملتی ہے کہ  ایک عالم کا دوسرے عالم کی تقلید کرناجائز ہے۔ کیونکہ جب کوئی مسئلہ ایک فقیہ کے پاس آئے جس میں وہ لاعلم ہو تو ایسی صورت اس فقیہ کی مثال ایک عامی شخص کی سی ہوجاتی ہے، لہٰذا ایک فقیہ کواگرکسی مسئلہ کی تحقیق نہ ہوتووہ عامی شخص کی طرح علماءکی تقلید کرےگا‘‘۔ (قواطع الأدلة فی الأصول: ج۲، ص ۳۴۲)

کیاخطیب بغداریؒ، امام ابن عبدالبرؒ اور پانچویں صدی ہجری کےامام الحرمینؒ کو قرآن و حدیث کا اتنابھی علم نہیں تھا کہ وہ عامی شخص کے لیے آئمہ اربعہ کی تقلید کو جائز بلکہ واجب قرار دے رہے ہیں اوراس پر امت مسلمہ کااجماع بھی نقل کررہےہیں؟

چھٹی صدی ہجری

۱۰۔حضرت امام غزالیؒ (المتوفی ۵۰۵ھ) فرماتے  ہیں:

’’( تقليد العامي للعلماء ) مسألة: مَسَالَةٌ الْعَامِّيُّ يَجِبُ عَلَيْهِ الِاسْتِفْتَاءُ وَاتِّبَاعُ الْعُلَمَاءِ۔ وَقَالَ قَوْمٌ مِنْ الْقَدَرِيَّةِ: يَلْزَمُهُمْ النَّظَرُ فِي الدَّلِيلِ وَاتِّبَاعُ الْإِمَامِ الْمَعْصُومِ وَهَذَا بَاطِلٌ بِمَسْلَكَيْنِ: أَحَدِهِمَا: إجْمَاعُ الصَّحَابَةِ فَإِنَّهُمْ كَانُوا يُفْتُونَ الْعَوَامَّ وَلَا يَأْمُرُونَهُمْ بِنَيْلِ دَرَجَةِ الِاجْتِهَادِ، وَذَلِكَ مَعْلُومٌ عَلَى الضَّرُورَةِ وَالتَّوَاتُرِ مِنْ عُلَمَائِهِمْ وَعَوَامِّهِمْ‘‘۔”عامی کیلئے اہل علم کی تقلید کا مسئلہ، عامی پر واجب ہے کہ پوچھے اور اتباع کرنا علماء کی اور بعض قدریہ (گمراہ فرقہ) لازم ٹھہراتے ہیں دلیل معلوم کرنے کو مگر یہ باطل ہے۔ دوم مسلکوں  سے پہلا مسلک اجماع صحابہؓ کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم خود اجتہاد کرو اور یہ بات انکے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل ضرورت دین سے ثابت ہے“۔(المستصفیٰ من علم الاصول:  ج۴، ص۱۴۷)

۱۱۔علامہ عبد الکریم بن ابی بكر احمد الشهرستانیؒ (المتوفی ۵۴۸ھ) فرماتے ہیں:

”اہل فروع کہتے ہیں کہ جب مجتہد کو یہ علم و معارف حاصل ہو جائیں تو اس کیلئے اجتہاد کرنا جائز ہے۔ اور وہ حکم جس کی جانب اس کے اجتہاد نے رہنمائی کی ، شریعت میں جائز ہوگا۔ عامی پر اس کی تقلید واجب ہو گی اور اس کے فتویٰ پر عمل کرنا ضروری ہو گا“۔(ترجمہ کتاب الملل والنحل طبع ثانی :ص ۲۹۴)

۱۲۔شیخ عبد القادر جیلانیؒ (المتوفی ۵۶۱ھ) امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’قال الإمام أبوعبد اﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیباني رحمه اﷲ وأَمَاتَنَا علی مذھبه أصلا وفرعا وحَشَرْنا في زمرته‘‘۔ ’’امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل الشیبانی ؒ نے فرمایا ... اللہ تعالیٰ ہمیں عقائد وفروعی مسائل میں انہی کے مذہب پر مو ت دے اور روزِ محشر انہی کے گروہ میں ہمیں اُٹھائے‘‘۔ (محدث میگزین لاہور شمارہ اگست 2003ء : ص ۷۷، بحوالہ ایضاً؛ غنية الطالبين: ص ۵۲۹)

امام شعرانی نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ شیخ، امام احمدؒ اور امام شافعیؒ دونوں ہی سے متاثر تھے اور ان دونوں اماموں کے مسلک پر فتویٰ دیتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ:۱۰۹) مگر مذکورہ اقتباسات سے آپ کا حنبلی المسلک ہونا ہی ثابت ہوتا ہے۔ نیز یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ شیخ بھی بعض متعصبین کی طرح اپنے امام کے اندھے مقلد تھے بلکہ آپ کی تقلید کا دائرہ صرف وہاں تک تھا کہ جہاں تک قولِ امام شرعی نصوص سے متعارض نہ ہوتا جب کہ ایسے تعارض کی صورت میں آپ حدیث ِنبوی ہی کو ترجیح و فوقیت دینے کے قائل تھے۔

غیرمقلدین کے ایک عالم فیض عالم صدیقی صاحب فرماتے ہیں: ”حضرت عبد القادر جیلانی فقہ حنبلی کے مقلد تھے“۔(اختلاف امت کا المیہ :ص ۳۳۰)

امام غزالیؒ جیسے ولی اﷲ بھی عامی شخص کے لئے تقلید کو واجب قراردے رہےہیں اور ساتھ ہی تقلید کا انکار کرنے والوں کو قدریہ اور گمراہ فرقہ قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح شیخ عبدالقادرجیلانیؒ جیسے ولی اﷲبھی خود امام احمد ابن حنبلؒ کامقلد ہونے کا اقرارکرنے میں شرم محسوس نہیں کررہےلیکن موجودہ دورکے غیرمقلدین حضرات کواپنے مقلدکہلوانے میں شرم آتی ہے۔

ساتویں صدی ہجری

۱۳۔امام فخرالدین الرازیؒ (المتوفی ۶۰۴ھ) فرماتے ہیں:

’’أَنَّ الْعَامِّيَّ يجب عَلَيْهِ تَقْلِيدُ الْعُلَمَاءِ فِي أَحْكَامِ الْحَوَادِثِ‘‘۔ ”اور نئے پیش آمدہ مسائل پر عامی پر علما کی تقلید واجب ہے“۔(تفسیر  کبیرالفخرالرازی: ج ۱۰ ، سورۃ النساء، ص ۲۰۶)

امام الرازیؒ ایک اورجگہ فرماتے ہیں کہ: ’’يجوز للعامي أن يقلد المجتهد في فروع الشرع‘‘۔ ’’عامی کے لئے جائز ہے کہ وہ شریعت کے فروعی مسائل میں مجتہد کی تقلید کرے‘‘۔ (المحصول فی اصول الفقہ:ج۶، ص۷۳)

مفسراسلام امام رازیؒ بھی ایک عامی شخص کےلئےعلماء کی تقلید (یعنی بے دلیل بات کی پیروی )کو واجب قرار دے رہے ہیں۔ شاید انہیں بھی قرآن وحدیث سے تقلید کے حرام، شرک وبدعت ہونے کی کوئی دلیل نہیں ملی۔

۱۴۔ امام ابو الفتوح نجم الدین ابن الصلاحؒ (المتوفی ۶۴۳ھ) فرماتے ہیں:

’’الْإِجْمَاعَ عَلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ يَعْنِي تَقْلِيدَ غَيْرِ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ‘‘۔ ’’اس بات پراجماع منعقد ہوچکاہے کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی کی تقلید جائزنہیں ہے‘‘۔ (تحفة المحتاج بشرح المنهاج: ج۴، ص۳۷۴؛ الحبل المتين فی إتباع السلف الصالحين: ج۱۲۴)

امام نجم الدین ابن الصلاحؒ بھی ائمہ اربعہ کی تقلیدپراجماع کا دعویٰ کررہے ہیں۔ شاید انہیں بھی قرآن وحدیث کی کچھ خبرنہ تھی۔

۱۵۔ محدث الکبیر شارح صحیح مسلم علامہ محیی الدين يحیٰ بن شرف النوویؒ (المتوفی ۶۷۶ھ )فرماتے ہیں:

’’وليس له التذهب بِمَذْهَبِ أَحَدٍ مِنْ أَئِمَّةِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَغَيْرِهِمْ مِنْ الْأَوَّلِينَ وَإِنْ كَانُوا أَعْلَمَ وأعلا دَرَجَةٍ مِمَّنْ بَعْدَهُمْ لِأَنَّهُمْ لَمْ يَتَفَرَّغُوا لِتَدْوِينِ الْعِلْمِ وَضَبْطِ أُصُولِهِ وَفُرُوعِهِ فَلَيْسَ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ مَذْهَبٌ مُهَذَّبٌ مُحَرَّرٌ مُقَرَّرٌ وَإِنَّمَا قَامَ بِذَلِكَ مَنْ جَاءَ بَعْدَهُمْ مِنْ الْأَئِمَّةِ النَّاحِلِينَ لِمَذَاهِبِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ الْقَائِمِينَ بِتَمْهِيدِ أَحْكَامِ الْوَقَائِعِ قَبْلَ وُقُوعِهَا النَّاهِضِينَ بِإِيضَاحِ أُصُولِهَا وَفُرُوعِهَا كَمَالِكٍ وَأَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِمَا‘‘۔’’اکابر ین صحابہ وغیرہ اگر چہ بعد والوں سے علم و عمل میں بہت آگے ہیں لیکن پھر بھی کسی کیلئے جائز نہیں کہ صحابہ کے مذہب کو اپنائے، کیونکہ صحابہ کرام ؓکو اتنا موقع نہیں ملا کہ وہ اپنے مذہب کو مدون کرتے اور اس کے اصول و فروع کو محفوظ کرتے، اسی وجہ سے صحابہؓ میں سے کسی بھی صحابیؓ کا مذہب مدون و منقح نہیں، ہاں بعد میں آنے والے آئمہ کرام امام مالکؒ، اما م ابو حنیفہؒ وغیرہ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور باقاعدہ مذاہب مدون کرکے ان کے اصول و فروع کو محفوظ کیا اور مسائل کے وقوع سے پہلے ان کا حل تلاش کیا‘‘۔ (کتاب المجموع شرح المهذب للشیرازی: ج۱، ص۹۳)

امام نوویؒ یہ بھی فرماتے ہیں: ’’وَوَجْهُهُ أَنَّهُ لَوْ جَازَ اتِّبَاعُ أَيِّ مَذْهَبٍ شاء لا فضى إلَى أَنْ يَلْتَقِطَ رُخَصَ الْمَذَاهِبِ مُتَّبِعًا هَوَاهُ وَيَتَخَيَّرَ بَيْنَ التَّحْلِيلِ وَالتَّحْرِيمِ وَالْوُجُوبِ وَالْجَوَازِ وَذَلِكَ يُؤَدِّي إلَى انْحِلَالِ رِبْقَةِ التَّكْلِيفِ بِخِلَافِ الْعَصْرِ الْأَوَّلِ فَإِنَّهُ لَمْ تَكُنْ الْمَذَاهِبُ الْوَافِيَةُ بِأَحْكَامِ الْحَوَادِثِ مُهَذَّبَةً وَعُرِفَتْ: فَعَلَى هَذَا يَلْزَمُهُ أَنْ يَجْتَهِدَ فِي اخْتِيَارِ مَذْهَبٍ يُقَلِّدُهُ عَلَى التَّعْيِينِ‘‘۔ ’’اگر یہ جائز ہو کہ انسان جس فقہ کی چاہے پیروی کرے تو بات یہاں تک پہنچے گی کہ وہ اپنی نفسانی خواہش کے مطابق تمام مذاہب کی آسانیاں چنےگا۔ اس لیے ہرشخص پرلازم ہے کہ ایک معین مذہب چن لے اور اس کی تقلیدکرے‘‘۔ (کتاب المجموع شرح المهذب للشیرازی: ج۱، ص۹۳)

شارح مسلم امام نوویؒ صحیح مسلم میں ایک حدیث کی شرح میں لکھتےہیں: ’’وَغَيْرُهُمْ ممن يقوم بأمور المسملين مِنْ أَصْحَابِ الْوِلَايَاتِ وَهَذَا هُوَ الْمَشْهُورُ وَحَكَاهُ أَيْضًا الْخَطَّابِيُّ ثُمَّ قَالَ وَقَدْ يُتَأَوَّلُ ذَلِكَ عَلَى الْأَئِمَّةِ الَّذِينَ هُمْ عُلَمَاءُ الدِّينِ وَأَنَّ مِنْ نَصِيحَتِهِمْ قَبُولُ مَا رَوَوْهُ وَتَقْلِيدُهُمْ فِي الْأَحْكَامِ وَإِحْسَانُ الظَّنِّ بِهِمْ‘‘۔ ’’یہ حدیث ان اماموں کو بھی شامل ہے جو علمائے دین میں اور علماء کی خیر خواہی سے ہیں۔ ان کی روایت کی ہوئی احادیث کوقبول کرنا اور ان کے احکام میں تقلید کرنا اور ان کے ساتھ حسنِ زن (یعنی نیک گمان) رکھنا‘‘۔ (شرح صحیح مسلم للنوویؒ: ج۲، كتاب الايمان،باب بيان أن الدين النصيحة فيه [عن تميم الداريؓ]، ص۳۹)

شارح مسلم شریف علامہ نوویؒ فرماتے ہیں: ’’أما الاجتھاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة حتیٰ او جبوا تقلید واحد من ھولاء علی امتہ ونقل امام الحرمین الاجماع علیہ‘‘۔ ’’اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا حتیٰ کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے‘‘۔ (روضة الطالبين النووی بحوالہ شرح وقایہ ترجمہ اردونورالہدایہ:ج۱، ص۱۱؛ بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ: ج۱، ص ۸۱)

حیرت کی بات ہے کہ شارح مسلم امام نوویؒ جیسے جلیل القدرمحدث بھی کسی ایک معین مذہب (ایک ہی فقہ) کی تقلیدکو لازم قرار دے رہے ہیں اورساتھ میں ائمہ اربعہ کی تقلید پراجماع بھی نقل کررہےہیں۔ تمام غیرمقلدین حضرات سے گزارش ہے کہ امام نوویؒ پر بھی (نعوذباﷲ) مشرک اور بدعتی ہونے کا فتویٰ صادر فرماکران کی تحقیقات وتشریحات سے استدلال کرناچھوڑدیں۔

۱۶۔ امام شمس الدين القرطبیؒ (المتوفی ۶۷۱ھ) فرماتے ہیں:

’’تَعَلَّقَ قَوْمٌ بِهَذِهِ الْآيَةِ فِي ذَمِّ التَّقْلِيدِ لِذَمِّ اللَّهِ تَعَالَى الْكُفَّارَ بِاتِّبَاعِهِمْ لِآبَائِهِمْ فِي الْبَاطِلِ، وَاقْتِدَائِهِمْ بِهِمْ فِي الْكُفْرِ وَالْمَعْصِيَةِ۔ وَهَذَا فِي الْبَاطِلِ صَحِيحٌ، أَمَّا التَّقْلِيدُ فِي الْحَقِّ فَأَصْلٌ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ‘‘۔ ”کچھ لوگوں نے اس آیت کو تقلید کی مذمت میں پیش کیا ہے اور یہ باطل کے معاملہ میں تو صحیح ہے لیکن حق کے معاملہ میں تقلید سے اس کا کوئی تعلق نہیں حق میں تقلید کرنا تو دین کے اصولوں میں سے ہے“۔(الجامع لاحکام القرآن: ج۳، ص۱۶)

امام قرطبیؒ جیسے جلیل القدرمفسر بھی تقلید کرنے کو دین کا اصول قرار دے  رہے ہیں۔

۱۷۔ علامہ ابن قدامہؒ (المتوفی ۶۲۰ھ) فرماتے ہیں:

’’وَيَجُوزُ التَّقْلِيدُ فِي الْفُرُوعِ إِجْمَاعًا، خِلَافًا لِبَعْضِ الْقَدَرِيَّةِ مِنَ الْمُعْتَزِلَةِ‘‘۔ ’’عامی شخص(غیرمجتہد) کیلئے  فروع میں تقلید بااتفاق صحیح ہے، بعض قدریہ اور معتزلہ اس سے اختلاف کرتے ہیں‘‘۔ (كتاب روضة الناظر وجنة المناظر: ص۱۰۱۸؛ شرح مختصر روضة الناظر: ج ۳، ص ۶۵۰؛ التحبیرشرح التحریر: ج۱، ص۴۰۳۲)

ابن قدامہؒ بھی تقلید کو بالاجماع صحیح قرار دے رہے ہیں اور اس سے اختلاف کرنے والے کو قدریہ و معتزلہ فرقہ قرار دے رہے ہیں؟ اس کامطلب غیرمقلدین حضرات ابن قدامہؒ کی نظرمیں قدریہ و معتزلہ فرقہ میں شامل ہیں۔


آٹھویں صدی ہجری

۱۸۔ امام عبد الكريم بن سعيد نجم الدين الطوفیؒ (المتوفی ۷۱۶ھ) فرماتے ہیں:

’’قَالُوا: قَوْلُهُ تَعَالَى: [فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ] وَهَذَا لَا يَعْلَمُ، [وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ] وَهُمُ الْعُلَمَاءُ، وَلِأَنَّ الْأَصْلَ جَوَازُ التَّقْلِيدِ، تُرِكَ فِي مَنِ اجْتَهَدَ لِظُهُورِ الْحَقِّ لَهُ بِالْفِعْلِ؛ فَمَنْ عَدَاهُ عَلَى الْأَصْلِ۔

قَوْلُهُ: قَالُوا: يَعْنِي مَنْ جَوَّزَ التَّقْلِيدَ احْتَجُّوا بِوُجُوهٍ:

أَحَدُهَا: قَوْلُهُ تَعَالَى: [فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ] {النَّحْلِ: ٤٣}۔ وَهَذَا، وَإِنْ كَانَ أَهْلًا لِلِاجْتِهَادِ، لَكِنَّهُ لَا يَعْلَمُ هَذَا الْحُكْمَ الْخَاصَّ، فَيَتَنَاوَلُهُ عُمُومُ هَذَا النَّصِّ، فَجَازَ لَهُ التَّقْلِيدُ كَالْعَامِّيِّ۔

الْوَجْهُ الثَّانِي: قَوْلُهُ تَعَالَى: [وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ]۔ {النِّسَاءِ: ٥٩} وَهُمُ الْعُلَمَاءُ، أَمَرَ بِطَاعَتِهِمْ، وَذَلِكَ بِتَقْلِيدِهِمْ فِيمَا يُخْبِرُونَ بِهِ عَنِ الشَّرْعِ، وَالْخِطَابُ لِلْمُؤْمِنِينَ، وَهُوَ يَتَنَاوَلُ هَذَا الْمُجْتَهِدَ وَغَيْرَهُ‘‘۔ ’’یہ جو اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے: {اگر تم خود نہیں جانتے تو اہل علم سے سوال کرو}۔ یہ آیت ان لوگوں کے لئے ہے جو علم نہیں رکھتے، {اوراولی الأمرمنکم} سے مراد علماء ہیں، اوریہ آیت تقلید کے جواز کو ثابت کرتی ہےاورجولوگ اجتہاد کی اہلیت رکھتے ہیں وہ اس میں داخل نہیں ہیں۔ اورلوگوں نے اس آیت سے کئی طریقوں سے تقلید کے جواز کی دلیل لی ہے۔

اس میں پہلی صورت یہ ہے: {اگر تم خود نہیں جانتے تو اہل علم سے سوال کرو}[النحل: ۴۳]۔ ایک شخص اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہے لیکن کسی خاص حکم کو وہ نہیں جانتا، وہ بھی اس آیت کے عموم میں داخل ہے۔ اس کے لئے بھی ایک عامی شخص کی طرح تقلید کرنا جائز ہے۔

اور دوسری صورت یہ ہےکہ: {أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولی الأمر منكم}[النساء: ۵۹]۔ {اوراولی الأمرمنکم} سے مراد علماء ہیں، جن کی اطاعت کا حکم دیاگیاہے۔ اوران علماء کی اطاعت ایسےکی جائےگی کہ وہ جو شرعیت کی باتیں بتائیں گےان کی تقلید سے کی جائے گی۔ اور یہ خطاب مومنین میں سے مجتہد اور غیرمجتہددونوں کوشامل ہے‘‘۔ (شرح مختصر الروضة: ج۳، کتاب الاجتھاد، باب هل يجوز للمجتهد تقليد غيره؟، ص۶۳۳)

۱۹۔ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام اولیاء دہلویؒ (المتوفی ۷۲۵ھ)اپنی  کتاب ’’راحة القلوب‘‘ میں لکھتےہیں:

’’کہ حضرت خواجہ سید العابدین زبدۃ العارفین، فرید الحق والشرع شکر گنجؒ نے بتاریخ ۱۱ ذی الحجہ ۶۵۵ ؁ھ فرمایا کہ ہرچار مذہب برحق ہیں۔ اوّل مذہب امام اعظم ابوحنیفہؒ کا۔ دوسرا شافعیؒ کا، تیسراامام مالک ؒ کا اور چوتھااحمدبن حنبلؒ کا۔ لوگوں کوچاہیئے کہ ان میں سے کسی پرشک نہ کریں۔ لیکن یہ یقین رکھیں کہ امام اعظمؒ کومذہب فاضل ترہے اورباقی مذاہب اس کے بعد۔ کیونکہ پہلامذہب امام اعظم کاہے(الفضل للتقد) مشہوربات ہے‘‘۔ (راحة القلوب[اردو]: ص۱۳۲)

۲۰۔ الجرح والتعدیل کےامام شمس الدین ذہبیؒ (المتوفی ۷۴۸ھ)ابن حزمؒ کارد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’نعم من بلغ رتبة الاجتهاد وشهد له بذلك عدة من الأئمة لم يسغ له أن يقلد كما أن الفقيه المبتدئ والعامي الذي يحفظ القرآن أو كثيرا منه لا يسوغ له الاجتهاد أبدا فكيف يجتهد وما الذي يقول؟ وعلام يبني؟ وكيف يطير ولما يريش؟“۔ ” جو شخص اجتہاد کے مرتبہ پر فائذ ہو بلکہ اس کی شہادت متعد آئمہ دیں، اس کیلئے تقلید کی گنجائش نہیں ہے مگر مبتدی قسم کا فقیہ کا عامی درجے کا آدمی جو قرآن کا یا اس کے اکثر حصے کا حافظ ہو اس کیلئے اجتہاد جائز نہیں، وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟ کیا کہے گا کس چیز پر اپنے اجتہاد کی امارت قائم کرے گا؟ کیسے اڑے گا، ابھی اس کے پر بھی نہیں نکلے؟“۔ (سير أعلام النبلاء :ج ۱۸ ،ص ۱۹۱)

پھرامام ذہبیؒ ایک سوال نقل کرکےاس کا جواب دیتے ہیں: ’’وَالأَخْذُ بِالحَدِيْثِ أَوْلَى مِنَ الأَخْذِ بِقَولِ الشَّافِعِيِّ وَأَبِي حَنِيْفَةَ )قُلْتُ: هَذَا جَيِّدٌ، لَكِنْ بِشَرْطِ أَنْ يَكُونَ قَدْ قَالَ بِذَلِكَ الحَدِيْثِ إِمَامٌ مِنْ نُظَرَاءِ الإِمَامَيْنِ مِثْلُ مَالِكٍ، أَوْ سُفْيَانَ، أَوِ الأَوْزَاعِيِّ)“۔ ”حدیث پر عمل کرنا امام ابو حنیفہؒ یا امام شافعیؒ کے قول پر عمل کرنے سے بہتر ہے“؟ اس پر رد کرتے ہوئے امام ذھبیؒ فرماتے ہیں:”میں کہتا ہوں یہ عمدہ بات ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ حدیث پر عمل کا قائل ان دونوں اماموں امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے ہمسر کوئی امام بھی ہو جیسے امام مالکؒ یا امام سفیانؒ یا امام اوزاعیؒ“۔ (سير أعلام النبلاء :ج ۱۶، ص ۴۰۵)

امام ذھبیؒ تقلید پراجماع کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’فهؤلاء الذين وقع إجماع الناس على تقليدهم، مع الاختلاف في أعيانهم، واتفاق العلماء على اتباعهم، والاقتداء بمذاهبهم، ودرس كتبهم، والتفقه على مآخذهم، والتفريع على أصولهم، دون غيرهم ممن تقدمهم أو عاصرهم، للعلل التي ذكرناها‘‘۔ ”آئمہؒ کی تقلید پر اب اجماع ہے اور سب علماء کا اتفاق ہے کہ ان کی پیروی اور ان کے مذاہب کی اقتداء کی جائے اورر ان کی کتابیں پڑھی پڑھائی جائیں اور ان کے دلائل پر فقہ کی بنیاد رکھی جائے اور ان کے قواعد کو مبنیٰ قرار دیا جائے اور صرف انہی کے اصول پر تفریعات کی جائیں نہ کہ دوسروں کے اصول پر“۔ (سير أعلام النبلاء :ج ۸، ص ۹۲)

کیاجرح و تعدیل وفن حدیث کے اتنے بڑے امام لوگوں کو قرآن وحدیث چھوڑ کرتقلیدپرلگارہے ہیں؟ اورساتھ میں تقلید پراجماع کا دعویٰ بھی کررہےہیں؟

۲۱۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ ( المتوفی ۷۲۸ ھ) لکھتے ہیں:

’’ولا یخلو امر الداعی من امرین: الاول ان یکون مجتھداً او مقلداً فالمجتھد ینظرفی تصانیف المتقدمین من القرون الثلاثۃ ثم یرجع ما ینبغی ترجیحہ، الثانی: المقلد یقلد السلف: اذ القرون المتقدمۃ افضل مما بعدھا‘‘۔ ’’دین کا داعی دو حال سے خالی نہیں، مجتہد ہو گا یا مقلد، مجتہد قرون ثلاثہ کے متقدمین کی تصانیف سے مستفید ہو کر راجح قول کر ترجیح دیتا ہے اور مقلد سلف کی تقلید کرتا ہے ، کیونکہ ابتدائی صدیاں بعد والوں سے افضل ہیں‘‘۔ (مجموعۃ الفتاویٰ :ج ۲۰،ص ۹)

ایک اور جگہ امام ابن تیمیہؒ تقلید شخصی کا اثبات کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یکونون فی وقت یقلدون من یفسدہ، وفی وقت یقلدون من یصححہ، بحسب الغرض والہویٰ، ومثل لایجوز باتفاق الائمۃ‘‘۔ ’’لوگ غرض وخواہش کی خاطر کسی وقت ایک امام کی تقلید کریں جو ایک عمل کو فاسد قرار دیتاہو اور کسی وقت دوسرے امام کی تقلید کریں جو اسے صحیح قرار دیتاہو یہ بالاتفاق آئمہ ناجائز ہے‘‘۔(فتاویٰ کبریٰ:ج ۳، ص ۲۰۴)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ’’والذي  علیه جماهير الامة ان الاجتهاد جائز في الجملة والتقليد جائز في الجملة‘‘۔ ” امت کی عظیم ترین اکثریت اس کی قائل ہے کہ اجتہاد بھی جائز ہے اور تقلید بھی جائز ہے“۔(مجموعۃ الفتاویٰ :ج ۱۱،ص۹۱)

اس کا مطلب علامہ ابن تیمیہؒ کے نزدیک غیرمقلدین (لایجتہد ولایقلد) دین کے داعی نہیں۔

۲۲۔امام ابن قیم الجوزیؒ (المتوفی ۷۵۱ھ) اس کے متعلق فرماتے ہیں:

فَالْجَوَابُ أَنَّهُ سُبْحَانَهُ ذَمَّ مَنْ أَعْرَضَ عَمَّا أَنْزَلَهُ إلَى تَقْلِيدِ الْآبَاءِ، وَهَذَا الْقَدْرُ مِنْ التَّقْلِيدِ هُوَ مِمَّا اتَّفَقَ السَّلَفُ وَالْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ عَلَى ذَمِّهِ وَتَحْرِيمِهِ، وَأَمَّا تَقْلِيدُ مَنْ بَذَلَ جَهْدَهُ فِي اتِّبَاعِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَخَفِيَ عَلَيْهِ بَعْضُهُ فَقَلَّدَ فِيهِ مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْهُ فَهَذَا مَحْمُودٌ غَيْرُ مَذْمُومٍ، وَمَأْجُورٌ غَيْرُ مَأْزُورٍ، كَمَا سَيَأْتِي بَيَانُهُ عِنْدَ ذِكْرِ التَّقْلِيدِ الْوَاجِبِ وَالسَّائِغِ إنْ شَاءَ اللَّهُ“۔ ’’تو جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو اس کی نازل کردہ سے اعراض رکھے اور اپنے آبا و اجداد کی تقلید کرے ایسی تقلید کی حرمت اور مذمت پر ائمہ اربعہؒ اور سلف صالحین کا اتفاق ہے ۔ اور ایسے شخص کی تقلید جو کوشش کرکے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کی اتباع کرے اور جو بظاہر چیزیں اس پر مخفی(چھپی) رہ جاتی ہیں ان میں وہ اپنے سے زیادہ علم والے کی تقلید کرتا ہے تو یہ "محمود " ہے "مذموم" نہیں اس میں وہ ماجور ہے(یعنی اگر مسئلہ غلط ہوا تو خطاپر بھی اجر ملے گا) اس پر کوئی وبال نہیں اور اس کا بیان تقلید واجب اور جائز میں آئے گا ان شاء اللہ تعالیٰ“۔(إعلام الموقعين:ج۳،ص۴۴۸)

کیاامام ابن القیمؒ عام لوگوں کو قرآن وحدیث چھوڑ کرتقلیدجیسی گمراہی پرلگارہے ہیں؟

۲۳۔ امام تقی الدین السبكیؒ (المتوفی ۷۵۶ھ) فرماتے ہیں:

’’وَمَا خَالَفَ الْمَذَاهِبَ الْأَرْبَعَةَ كَمُخَالِفِ الْإِجْمَاعِ‘‘۔ ’’جس کسی نے مذاہب اربعہ سے اختلاف کیا، اس نے اجماع سے اختلاف کیا‘‘۔ (الفتاوى الكبرى الفقهية على مذهب الإمام الشافعی: ج۲، ص۲۱۴؛ تحفة المحتاج بشرح المنهاج: ج۴، ص۳۷۴)

۲۴۔امام ابن تیمیہؒ کے ممتاز شاگرد امام شمس الدین محمد بن مفلحؒ (المتوفی ۷۶۳ھ) فرماتے ہیں:

’’وفي الإفصاح: إنّ الإجماع انعقد على تقليد كل من المذاهب الأربعة، وأنّ الحق لا يخرج عنهم‘‘۔ ’’مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید پر اجماع ہوچکا ہے، اورحق یہی ہے کہ ان کی تقلید سے نکلا نہ جائے‘‘۔ (المبدع شرح المقنع: ج۸، ص۱۵۴؛ كشاف القناع عن متن الإقناع: ج۶، ص۳۷۴؛ الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف: ج۱۱، ص۱۷۸)

۲۳۔علامہ شاطبیؒ (المتوفی ۷۹۰ھ) فرماتے ہیں:

ومتي خيرنا المقلدين في مذاهب الائمة لينقوا منها اطيها عندهم لم ببق مرجع الا الشهرات في الاختيار، وهذا مناقض لمقصدوضع الشريعة“۔ ” اگر مقلدین کو یہ اختیار ملتا کہ آئمہ کے مذاہب میں سے جس کو چاہیں اختیار کر سکتے ہیں تو اس کا حاصل سوائے نفس و خواہشات کی پیروی کے کچھ نہ ہوتا اور یہ مقاصد شرع کے خلاف ہے“۔ (الموافقات: ج۴، ص۷۸)

۲۴۔حافظ ابن رجب الحنبلیؒ (المتوفی ۷۹۵ھ)  نے ایک مستقل رسالہ بنام  الرد علي  من اتبع المذاهب الاربعة (یعنی ان لوگوں پر رد جومذاہب اربعہ کے علاوه کسی کی تقلید کرے ) لکھا ہے، اس میں ایک سوال نقل کرتے ہیں پھر اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

فإن قيل: نحن نسلِّم منع عموم الناس من سلوك طريق الاجتهاد؛ لما يفضي ذلك إلى أعظم الفساد۔ لكن لا نسلم منع تقليد إمام متبع من أئمة المجتهدين غير هؤلاء الأئمة المشهورين؟‘‘۔ ’’اگریہ سوال کیا جائے کہ ہم یہ بات تو تسلیم کرتے ہیں کہ عوام الناس کو اجتہاد کے راستے پرچلنے سے منع کرنا ضروری ہے ( کیونکہ اگرعوام کواجتهاد کی راه پرلگا دیا جائے ) تو اس میں بہت بڑا فساد وقوع پذیر ہوگا ،لیکن ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ عوام کو صرف ائمہ اربعہ کی تقلید کرنی ہے کسی اور امام مجتہد کی نہیں؟‘‘

قيل: قد نبهنا على علة المنع من ذلك، وهو أن مذاهب غير هؤلاءلم تشتهر ولم تنضبط، فربما نسب إليهم ما لم يقولوه أو فهم عنهم ما لم يريدوه، وليس لمذاهبهم من يذب عنها وينبه على ما يقع من الخلل فيها بخلاف هذه المذاهب المشهورة‘‘۔ ’’عوام کو ائمہ اربعہ کی تقلید کے علاوه کسی دوسرے امام مجتہد کی تقلید سے منع کرنے کی وجہ اورعلت پرہم نے تنبیہ کردی اور وه یہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے علاوه کسی اور امام مجتہد کا مذہب مشہور ومنضبط نہیں ہوا ، پس بہت دفعہ ان کی طرف وه بات منسوب کی جائے گی جوانهوں نے نہیں کہی ، یا ان سے کسی بات کو سمجھا جائے جوان کی مراد نہ ہوگی ، اور ان کی مذاہب کا دفاع کرنے والا بھی کوئی نہ رہا جو ان کے مذاہب میں واقع ہونے والے خلل ونقص پرتنبیہ کرے ، بخلاف ان مذاہب اربعہ مذاہب مشہوره کے(کہ ان کے تمام مسائل بسند صحیح جمع ومنضبط ہیں اور ان کے علماء بھی برابر چلے آرہے ہیں)‘‘۔ (الرد علی  من اتبع المذاهب الاربعة: ص۳۳-۳۴)

آخر امام ابن رجبؒ عام لوگوں کو قرآن و حدیث چھوڑ کرتقلید جیسی گمراہی پر کیوں لگارہے ہیں؟

۲۱۔امام برہان الدین ابراہیم بن علی المالکیؒ (المتوفی ۷۹۹ھ) فرماتے ہیں:

’’فهؤلاء الذين وقع إجماع الناس على تقليدهم، مع الاختلاف في أعيانهم، واتفاق العلماء على اتباعهم، والاقتداء بمذاهبهم، ودرس كتبهم، والتفقه على مآخذهم، والتفريع على أصولهم، دون غيرهم ممن تقدمهم أو عاصرهم، للعلل التي ذكرناها‘‘۔ ”(ائمہؒ کی) تقلید پر اب اجماع ہے اور سب علماء کا اتفاق ہے کہ ان کی پیروی اور ان کے مذاہب کی اقتداء کی جائے اورر ان کی کتابیں پڑھی پڑھائی جائیں اور ان کے دلائل پر فقہ کی بنیاد رکھی جائے اور ان کے قواعد کو مبنیٰ قرار دیا جائے اور صرف انہی کے اصول پر تفریعات کی جائیں نہ کہ دوسروں کے اصول پر“۔ (الديباج المذهب في معرفة علماء أعيان المذهب: ص ۴۸)

نویں صدی ہجری

۲۲۔ مشہور مؤرخ اسلام علامہ عبدالرحمٰن  بن خلدونؒ (المتوفی ۸۰۸ھ) لکھتے ہیں:

’’ولما عاق عن الوصول إلى رتبة الاجتهاد ولما خشي من إسناد ذلك إلى غير أهله ومن لا يوثق برأيه ولا بدينه فصرحوا بالعجز والاعواز وردوا الناس إلى تقليد هؤلاء كل من اختص به من المقلدين وحظروا أن يتداول تقليدهم لما فيه من التلاعب ولم يبق إلا نقل مذاهبهم‘‘۔ ’’جب مرتبہ اجتہاد تک پہنچنا رک گیا اور اس کا بھی خطرہ تھا کہ اجتہاد نا اہلوں اور ان لوگوں کے قبضہ میں چلاجائےگا جن کی رائے اور دین  پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بڑے بڑے علماء نے اجتہاد سے عجز اور درماندگی کا اعلان کردیا اور لوگوں کو ان چاروں ائمہ کی تقلید پر لگادیا ہر شخص جس کی وہ تقلیدکرتاہے اس کے ساتھ رہے۔ اور لوگوں کو اس سے خبردار کیا  کہ وہ ائمہ کی تقلید بدل بدل کر نہ کریں  یہ تو دین سے کھیلنا ہوجائے گا اس کے سواکوئی صورت ہی نہیں کہ انہی ائمہ اربعہ کے مذاہب آگے نقل کیے جائیں‘‘۔ (مقدمہ ابن خلدون: باب۶، فصل۷، ص ۵۶۶) 

آگےفرماتے ہیں: ’’ومدعي الاجتهاد لهذا العهد مردود على عقبه مهجور تقليده وقد صار أهل الاسلام اليوم على تقليد هؤلاء الأئمة الأربعة‘‘۔ ” اس زمانے میں اجتہاد کا دعویٰ کرنے والا الٹی چال چلتا ہے اور اس کی تقلید متروک ہے اس  لیے کہ اب اہل اسلام حضرات ائمہ اربعہؒ کی تقلید پر ہی کار بند ہیں‘‘۔ (مقدمہ ابن خلدون: باب۶، فصل۷، ص ۵۶۶)

ابن خلدونؒ یہ فرماتے ہیں کہ: ’’تقلید پر کیوں اکتفاء کیاگیا تقلید ان ہی چارمدارس فقہ میں منحصر ہوکر رہ گئی۔ اوراس باب میں نزاع وخلاف کا دروازہ بند کردیاگیا۔اس رکاوٹ اوراقرارعجز کی وجہ یہ تھی کہ فقہی اصطلاحات کی کثرت،رتبہ اجتہاد پر فائز نہ ہونے کے خطرے اوراندیشے نے کہ مبادالوگ ایسے لوگوں کی اطاعت کرنے لگیں اورایسے لوگوں کو امام فقہ ٹھرانے لگیں کہ نہ جن کی رائے پر بھروسہ ہوسکتاہے اورنہ ان کے دین پر اعتماد کیاجاسکتاہے۔اس بناء پر اجتہاد سے روک دیاگیااورکہاگیاکہ ان چاروں میں سے کسی ایک کی ہی تقلید کی جائے۔ چنانچہ اب حاصل فقہ یہ ہے کہ لوگ دیکھ لیں کہ یہ اصول جن کو ہم نقل کررہے ہیں آیاان ائئمہ تک بہ سند پہنچے ہیں یانہیں۔ اس سے زیادہ نہیں اورکسی مدعی اجتہاد کی بات اس باب میں نہیں سنی جائے گی کیونکہ اس سے خطرہ ہے کہ دین بازیچہ اطفال نہ بن جائے‘‘۔ (افکار ابن خلدون: ص٢٢٢)

۲۳۔ امام ابن ہمامؒ (المتوفی ۸۶۱ھ) فرماتے ہیں:

’’نقل الإِمَام إِجْمَاع الْمُحَقِّقين على منع الْعَوام من تَقْلِيد أَعْيَان الصَّحَابَة، بل من بعدهمْ وعلى هَذَا مَا ذكر بعض الْمُتَأَخِّرين منع تَقْلِيد غيرالْأَرْبَعَة لانضباط مذاهبهم وَتَقْيِيد مسائلهم وَتَخْصِيص عمومها وَلم يدر مثله فِي غَيرهم الْآن لانقراض أتباعهم وَهُوَ صَحِيح‘‘۔ ’’امام الحرمين الجوينیؒ نےاپنی کتاب (البرہان) میں محققین کا اجماع اس پرنقل کیا ہے اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے‘‘۔ (التحریر فی اصول الفقہ: ص۵۵۲)

۲۴۔ امام جلال الدین سیوطیؒ کے استاذ امام جلال الدین محلیؒ (المتوفی ۸۶۴ ھ) لکھتے ہیں:

’’الْأَصَحُّ (أَنَّهُ يَجِبُ) عَلَى الْعَامِّيِّ وَغَيْرِهِ مِمَّنْ لَمْ يَبْلُغْ رُتْبَةَ الِاجْتِهَادِ (الْتِزَامُ مَذْهَبٍ مُعَيَّنٍ) مِنْ مَذَاهِبِ الْمُجْتَهِدِينَ‘‘۔ ’’صحیح یہ ہے کہ عام لوگ اور وہ حضرات جو اجتہاد کے درجہ کو نہ پہنچیں ان پر مذاہب مجتہدین میں سے کسی ایک معین (امام کی) تقلید واجب ہے‘‘۔ (حاشية العطارعلی شرح جامع الجوامع: ج۲، ص۴۴۰)

دسویں صدی ہجری

۲۵۔امام جلال الدین سیوطیؒ (المتوفی ۹۱۱ھ ) فرماتے ہیں:

لان العوام يجوز لهم التقليد بالاجماع‘‘۔ ’’عوام کو تقلید سے روکنا ممکن نہیں اسلئے کہ عوام کیلئے تقلید کے جائز ہونے پر اجماع ہو چکا ہے‘‘۔ (کتاب الرد علی من اخلد الی الارض: ص۳)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ’’الأصح أنہ يجب علي العامي وغيره ممن لم يبلغ مرتبة الاجتهاد التزام مذهب معين من مذاهب المجتهدين‘‘۔ ’’صحیح یہ ہے کہ عام لوگ اور وہ حضرات جو اجتہاد کے درجہ کو نہ پہنچیں ان پر مذاہب مجتہدین میں سے کسی ایک معین (امام کی) تقلید واجب ہے‘‘۔ (حاشية العطار: ج۲، ص۴۴۰؛ شرح جامع الجوامع بحوالہ خیر التنقید: ص ۱۷۵)

امام صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ: ’’اعلم أن اختلاف المذاهب في هذه الملّة نعمة كبيرة وفضيلة عظيمة، وله سرٌّ لطيف أدركه العالِمون، وعَمِي عنه الجاهلون، حتى سمعت بعض الجهال يقول: (النبي صلى الله عليه وسلم) جاء بشرع واحد، فمن أين مذاهب أربعة‘‘۔ ’’خوب جان لو کہ اختلاف المذاهب مِلت اسلام میں بہت بڑی نعمت اورعظیم فضیلت ہے ، اوراس میں ایک لطیف راز ہے جس کو علماء ہی جانتےہیں، اورجاہل لوگ اس راز سے غافل وبے خبرہیں، حتیٰ کہ میں نے بعض جاہل لوگوں کویہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺتوایک شریعت لے کرآئے یہ مذاهب اربعہ کہاں سے آگئیں؟‘‘۔ (اختلاف المذاھب للسیوطی، ص۲۵)

۲۶۔علامہ ابن حجر الهيتمی مکیؒ (المتوفی ۹۷۳ ھ) فرماتے ہیں:

أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین“۔ ’’یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں‘‘۔ (فتح المبین: ص۱۶۶)

۲۷۔حضرت امام شعرانی ؒ (المتوفی ۹۷۳ ھ)فرماتے ہیں:

فَإِنْ قُلْت فَهَلْ يَجِبُ عَلَى الْمَحْجُوبِ عَنْ الِاطِّلَاعِ عَلَى الْعَيْنِ الْأُولَى التَّقَيُّدُ بِمَذْهَبٍ مُعَيَّنٍ . فَالْجَوَابُ نَعَمْ يَجِبُ عَلَيْهِ ذَلِكَ لِئَلَّا يَضِلَّ فِي نَفْسِهِ وَيُضِلَّ غَيْرَهُ“۔ ’’اگر تم  یہ سوال کرو کہ کیا شریعت کے اصل سر چشمہ کی اطلاع سے محروم شخص کیلئے تقلید معین واجب  ہے تو جواب یہی ہے کہ ہاں لازم ہے اور یہ اسلئے تاکہ وہ نہ خود گمراہ ہو نہ کسی کو گمراہ کر سکے“۔(فتح العلی المالك: ص۱۰۴)

۲۸۔ امام احمد بن قاسم العبادیؒ (المتوفی ۹۹۴ ھ)لکھتے ہیں:

’’الأصح (أنہ يجب) علي العامي وغيره ممن لم يبلغ مرتبة الاجتهاد (التزام مذهب معين) من مذاهب المجتهدين‘‘۔ ’’صحیح یہ ہے کہ عام لوگ اور وہ حضرات جو اجتہاد کے درجہ کو نہ پہنچیں ان پر مذاہب مجتہدین میں سے کسی ایک معین (امام کی) تقلید واجب ہے‘‘۔ (الآيات البينات على شرح جمع الجوامع: ج۴، ص ۳۸۲)

گیارہویں صدی ہجری

۲۹۔محدث کبیر شارح الجامع الصغیر علامہ مناوی القاهریؒ(المتوفی ۱۰۳۱ھ)فرماتے ہیں:

ويجب علينا أن نعتقد أن الأئمة الأربعة والسفيانين والأوزاعي وداود الظاهري وإسحاق بن راهويه وسائر الأئمة على هدى۔۔۔ وعلى غير المجتهد أن يقلد مذهبا معينا۔۔۔ لكن لا يجوز تقليد الصحابة وكذا التابعين كما قاله إمام الحرمين من كل من لم يدون مذهبه فيمتنع تقليد غير الأربعة في القضاء والافتاء لأن المذاهب الأربعة انتشرت وتحررت حتى ظهر تقييد مطلقها وتخصيص عامها بخلاف غيرهم لانقراض اتباعهم وقد نقل الإمام الرازي رحمه الله تعالى إجماع المحققين على منع العوام من تقليد أعيان الصحابة وأكابرهم“۔ ’’ہم پر یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ آئمہ اربعہؒ ، سفیان ثوریؒ و سفیانؒ بن عیینہ ؒ، امام اوزاعیؒ، داؤد ظاہریؒ، اسحٰق بن راہویہ ؒاور تمام آئمہ راہ راست پر تھے۔۔۔اور غیر مجتہد پر لازم ہے کہ کسی معین مذہب کی تقلید کرے۔۔۔ لیکن صحابہؓ کی تقلید جائز نہیں ، اسی طرح تابعینؒ کی تقلید بھی جیسا کہ امام الحرمین ؒکی تحقیق سے واضح ہے کہ جس امام  کا مذہب مدون نہ ہو اس کی تقلید جائز نہیں ۔ لہذا  قضا ء و افتاء میں آئمہ اربعہؒ کے علاوہ کسی اور کی تقلید جائز نہیں۔ کیونکہ مذاہب اربعہ اس حد تک مشہور اور پھیل گئے  کہ ان میں مطلق کی قیودات عموم کی تخصیصات بھی واضح ہیں، برخلاف دیگر مذاہب کے کہ ان میں یہ چیز نہیں کیونکہ ان کے پیروکار جلد ہی ختم ہو گئے تھے۔ امام رازیؒ نے اجماع نقل کیا ہے کہ عموام کو اکابر صحابہ کی تقلید سے منع کیا جائے گا “۔(فيض القدير شرح الجامع الصغير:ص۲۰۱)

محدث مناویؒ کے قول کی وضاحت کہ وہ کیوں دیگر مجتہدین کی تقلید سے منع  کر رہے ہیں

۲۷۔شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ (المتوفی ۱۰۵۲ھ) فرماتے ہیں:

” امام ابو حنیفہؒ کے پیروں کو حنفی اور مالکؒ  کے مقلدوں  کو مالکی اور شافعیؒ کے ماننے والوں کو شافعی اور احمد بن حنبلؒ کے تابعداروں کو حنبلی کہتے ہیں اور ان مسائل میں انکی پیروی کا نام تقلید ہے اور یہ تقلید ضروری ہے“۔ (عقائد اسلام: ص۱۲۱)

بارہویں صدی ہجری

۲۸۔ القاضی عبد النبی بن عبد الرسول الأحمد نكری ؒ (المتوفی ۱۱۷۳ھ) فرماتے ہیں:

التَّقْلِيد: إتباع الْإِنْسَان غَيره فِيمَا يَقُول بقول أَو بِفعل مُعْتَقدًا للْحَقِيقَة فِيهِ من غير نظر وَتَأمل فِي الدَّلِيل ۔۔۔۔۔۔۔ثمَّ اعْلَم أَن التَّقْلِيد على ضَرْبَيْنِ صَحِيح وفاسد“۔ ’’تقلید کہتے ہیں کہ انسان کسی کو حق پر سمجھتے ہوئے دلیل میں غور و خوص کئے بغیر قولاً و فعلاً اس کی پیروی کرے“۔ ” جاننا چاہئے کہ تقلید کی دو قسمیں ہیں تقلید صحیح اور تقلید فاسد“۔

۲۹۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (المتوفی ۱۱۷۶ھ) فرماتے ہیں:

لان الناس لم یز الوا من زمن اصحابة الٰی ان ظہرت المذاھب الاربعة یقلدون من اتفق من العلما ء من  غیر نکیر یعتبر“۔ حضرت صحابہ کرام ؓ کے زمانہ  سے لے کر مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگ علماء کرامؒ میں سے جس کا بھی اتفاق ہوتا برابر تقلید کرتے رہے اور  بغیر کسی قابل اعتبار  انکار کے یہ کاروائی ہوتی رہی اگر تقلید باطل ہوتی تو وہ حضرات ضرور اس کا انکار کرتے“۔ (عقید الجید: ص۲۹)

ایک اور جگہ حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں:

وجب علیہ ان یقلد لمذہب ابی حنیفۃ ویحرم علیہ ان یخرج من مذہبہ“۔ ’’(ہندوستان اور ماوراء النہر میں رہنے والوں کے لیے) واجب ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کریں اور ان پر حرام ہے کہ آپ کے مذہب کی پیروی سے نکلیں‘‘۔ (الانصاف: ص ۵۳)

تیرہویں صدی ہجری

۳۰۔محمد بن عبد الوہابؒ (المتوفی ۱۲۰۶ھ) اپنے اوپر لگے کچھ بہتانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اني مبطل كتب المذاهب الاربعة ۔ ۔ ۔ ۔ واني ادعي الاجتهاد ؛ واني خارج عن التقليد‘‘۔ ’’مجھ پر یہ کھلے بہتان ہیں کہ میں اجتہاد کا دعوی کرتا ہوں اور تقلید سے اپنے آپ کو  خارج سمجھتا ہوں“۔ (الدررالسنية: ص۳۴)

محمد بن عبد الوہابؒ  کو بھی چند غیرمقلدین اپنے طرف کھینچتے پھرتے ہیں جبکہ  خود ان کے ایک بڑے عالم  مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب   لکھتے ہیں: ”محمد بن عبد الوہاب جو کہ حنبلی مذہب کے مقلد تھے“۔ (تاریخ اہل حدیث: ص۱۷۱)

گویا کہ  یہ بھی مقلد تھے اور بے دلیل بات کی پیروی کرتے تھے؟

۳۱۔ علامہ  عبد العلی محمد بن نظام الدين محمد السهالوی الأنصاری اللكنویؒ (المتوفی ۱۲۲۵ھ) فرماتے ہیں:

وليه البناء ابن الصلاح منع التقليد غير الائمة الاربعة“۔ ’’اور اسی بنا پر ابن الصالحؒ نے ائمہ اربعہ کے سوا دوسروں کی تقلید سے منع کیا ہے‘‘۔ (فواتح الرحموت: ص۲۶۹)

۳۲۔ مفسر قرآن حضرت امام صاویؒ (المتوفی ۱۲۴۱ھ) فرماتے ہیں:

ولا يجوز تقليد ماعد المذاهب الاربعة ولو وافق قول الصحابة والحديث الصحيح والاية فالخارج عن المذاہب الاربعة ضال مضل وربما اداہ ذالك للكفر لان الاخذ بظواهر الكتاب والسنة من اصول الكفر‘‘۔ ’’چار مذہبوں کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اگرچہ وہ صحابہ کے قول اور صحیح  حدیث اور آیت کے موافق ہی ہو۔ جو ان چار مذاہبوں سے خارج ہے وہ گمراہ  اور گمراہ کرنے والا ہے۔ کیونکہ قرآن و حدیث کے محض ظاہری معنی لینا کفر کی جڑ ہے‘‘۔ (تفسير صاوی: ج۳، ص۹)

۳۳۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ (المتوفی ۱۲۴۶ھ) فرماتے ہیں:

”علم احکام شرعیہ جو دو طریقوں سے حاصل ہوتا ہے ایک تقلید سے  دوسرے تحقیق سے پھر تحقیق کے دو طریقے ہیں پہلا اجتہاد بشرطیکہ معقول طور سے ذوی العقول کو ہو، دوسرا الہام بشرطیکہ مداخلت نفسانی سے محفوظ ہو“۔ (منصب امامت: ص۸۳-۸۴)

۳۴:۔حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ (المتوفی ۱۲۳۹ھ) قرآن پاک کی ایک آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ“۔ ’’اور کہیں گے (دوزخ والے) اگر ہم ہوتے سنتے یا سمجھتے تو نہ ہوتے دوزخ والوں میں‘‘۔ ﴿سورۃ الملک:۱۰

”بعض حضرات مفسرین  کرامؒ نے نسمع کو تقلید  پر اور نعقلکو تحقیق و اجتہاد پر محمول کیا ہے۔ ان دونوں لفظوں سے یہی مراد ہے کہ یہ دونوں نجات کے ذریعہ ہیں‘‘۔ (تفسیر عزیزی اردو: ج۳، ص۲۳)

۳۵:۔علامہ عبد العزیز فرہارویؒ (المتوفی ۱۲۳۹ھ) فرماتے ہیں:

ثم من لم يكن مجتهدا وجب عليه اتباع المجتهدا لقوله تعالٰي : فاسالو اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون ولا جماع السلف علي ذلك وهذا الاتباع يسميٰ تقليدا“۔ ’’جو مجتہد نہیں ہے اس پر مجتہد کی اتباع کرنا واجب ہے، اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم خود نہیں جانتے۔ نیز اس لئے بھی واجب ہے کہ اس پر سلف صالحین کا اجماع ہے اور اسی اتباع کا نام تقلید ہے‘‘۔ (نبراس شرح العقائد: ص۷۲)

۳۶ ۔ علامہ آلوسی بغدادیؒ( المتوفی ۱۲۷۰ھ) فرماتے ہیں:

اتباع الغير في الدين بعد العلم بدليل ما أنه محق فاتباع في الحقيقة لما أنزل الله تعالى- وليس من التقليد المذموم في شي‘‘۔ ’’دینی معاملات میں کسی کا اتباع کرنا  جب کہ اس کے حق پر ہونے کا علم بھی ہو درحقیقت اللہ کے احکامات کی پیروی کرنا ہے، تقلید مذموم کا اس سے کوئی ربط  و جوڑ نہیں‘‘۔ (تفسیر روح المعانی: ج۱، ص۴۳۸)

علامہ آلوسیؒ اپنے تفسیر میں علامہ جلال الدین سیوطیؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

على جواز تقليد العام في الفروع‘‘۔ ’’عامی (غیرمجتہد) پر فروع میں تقلید  جائز ہے‘‘۔ (تفسیر روح المعانی: ج۷، ص۳۸۷)

چودہویں صدی ہجری

۳۷۔ غیرمقلدین کے شیخ الکل میاں نذیرحسین دہلویؒ(المتوفی ۱۳۲۰) لکھتے ہیں:

’’پس جب کہ کل صحابہؓ اور تمام مومنین کا قرون اولیٰ میں اس پر اجماع ثابت ہوا کہ کبھی ایک مجتہد کی تقلید کرتے اور کبھی دوسرے مجتہد کی‘‘۔ (معیار الحق: ص۱۴۳)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

’’رہی تقلید وقت لا علمی سو یہ چار قسم ہے۔ قسم اوّل: واجب ہےاوروہ مطلق تقلیدہے‘‘۔ (معیار الحق: ص۸۰)

۳۸۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ (المتوفی ۱۳۶۲) فرماتے ہیں:

’’اس وقت ائمہ اربعہ ؒکے مذاہب ہی میں تقلیدمنحصر ہےاورتقلیدشخصی واجب ہےاور تلفیق (خواہشات نفس کی وجہ سے کبھی  کسی امام کے قول کو لینا اورکبھی کسی امام کے قول کو لینا) باطل ہے۔ (ہدایہ اہل حدیث:ص۲۶)

پندرہویں صدی ہجری

۳۹ ۔ سعودی عرب کے مشہورمحدث علامہ ناصر الدین البانیؒ ( المتوفی ۱۴۱۹) ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے فرماتے  ہیں:

”تقلید کی حرمت کی دلیل مجھے معلوم نہیں البتہ جس کے پاس علم نہیں ہے اس کا تقلید کے بغیر کوئی چارہ نہیں“۔ (فتاوی البانیہ: ص ۱۲۴)

آگےلکھتے :

’’اپنے سے زیادہ علم والے کی تقلید اس بندے کیلئے واجب ہے‘‘۔ (فتاوی البانیہ: ص ۱۲۶)

۴۰۔ سعودی عرب کے شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ( المتوفی ۱۴۲۱) فرماتے ہیں:

والتقليد في الواقع حاصلٌ من عهد الصحابة رضي الله عنهم فإن الله تعالى يقول (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ) ولا شك أن من الناس في عهد الصحابة رضي الله عنهم وإلى عهدنا هذا من لا يستطيع الوصول إلى الحكم بنفسه لجهله وقصوره ووظيفة هذا أن يسأل أهل العلم وسؤال أهل العلم يستلزم الأخذ بما قالوا والأخذ بما قالوا هو التقليد‘‘۔ ’’حقیقت  یہ ہے کہ تقلید صحابہ ؓ  کے دور سے موجود ہے ۔۔۔ کوئی شک نہیں کیا جاسکتا کہ صحابہؓ کے دور میں لوگوں کی ایک تعداد ایسی تھی کہ جو خود حکم شرعی تک نہیں پہنچ سکتی تھی، اسلئے کہ وہ علم نہیں رکھتے تھے ایسے لوگوں کا فریضہ یہی تھا کہ اہل علم سے پوچھ کر مسئلہ پر عمل کریں اور یہی تقلید ہے“۔ (فتاوىٰ نور على الدرب:ج۶،ص۲)

تقلید کی تائید میں خود علماءغیرمقلدین کابیان

۴۱۔ اہلحدیث کے ایک مشہور عالم مولانا ابراہیم صاحب سیالکوٹیؒ لکھتے ہیں:

’’ہمارے حنفی بھائی! ہم اہلحدیثوں کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہم تقلید کا مطلقاً انکار کرتے ہیں‘‘۔ (تاریخ اہل حدیث:ص۱۴۶)

’’ہمارے بے نزاع اور بے نظیر پیشوا شخینا و شیخ الکل شمس العلماء حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی ؒنے اپنی مایہ ناز کتاب معیار الحق میں اس مسئلہ کو نہایت تفصیل سے بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ باقی رہی تقلید وقت لا علمی سو یہ چار قسم کی ہیں: قسم اوّل واجب ہے اور وہ مطلق تقلید ہے‘‘۔ (تاریخ اہل حدیث:ص۱۴۷)

۴۲۔ اہلحدیث کے  ایک اور مشہور عالم داؤد غزنوی ؒکے سوانح میں لکھتے ہیں:

”وہ تقلید کو بعض حالتوں میں واجب قرار دیتے تھے اور بعض میں جائز سمجھتے تھے“۔

آگے فرماتے ہیں:

’’ائمہ اہل سنت میں سے کسی ایک امام کی تقلید کو جو  بغیر تعین کے ہو واجب قرار دیتے تھے‘‘۔ (داؤد غزنوی: ص۳۷۵)

۴۳۔ اہلحدیث کےایک اور مشہور عالم اور محدث محمد گوندلوی ؒفرماتے ہیں:

”بعض دفع تقلید جائز اور بعض دفع واجب ہوتی ہے“۔ (الاصلاح: ج۱، ص۱۵۹)

۴۴۔ مشہوراہلحدیث عالم مولانا محمد حسین بٹالویؒ لکھتےہیں:

’’پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے  علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں  وہ آخر  کا اسلام کو سلام کر بیٹھتے ہیں ان میں سے بعض عیسائی ہو جاتے ہیں بعض لامذہب‘‘۔ (رسالہ اشاعۃ السنہ: شمارہ نمبر ۵،  ج۲۳،ص۱۵۴)

۴۵۔ اہلحدیث کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسریؒ لکھتے ہیں:

’’(تقلید مطلق ) جو اہل حدیث کا مذہب ہے‘‘۔ (فتاوی ثنائیہ: ج۱، ص۲۵۴)

۴۶۔ اہلحدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خانؒ لکھتے ہیں:

’’والتقليد لا يجوز الا لغير المجتهد‘‘۔ ’’تقلید جائز نہیں مگر غیر مجتہد کو‘‘۔ (التاج المکلل: ص۴۵۷)

۴۷۔ اہلحدیث کے ایک اورمشہور عالم اور محدث نواب وحید الزمان صدیقیؒ لکھتے ہیں:

’’عامی کیلئے مجتہد یا مفتی کی تقلید لازمی ہے‘‘۔ (نزل الابرار: ج۱، ص۷)