-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Monday 19 September 2016

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترکِ رفع یدین کی حدیث پرزبیرعلی زئی صاحب کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ

اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم

’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ۔‏ قَالَ وَفِي الْبَابِ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالتَّابِعِينَ۔‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ‘‘۔ ’’حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمانےفرمایا: کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیسےنمازپڑھتےتھے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھی اورتکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا ۔ اس باب میں براءبن عازب رضی اﷲعنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ فرماتے ہیں حدیث ابن مسعودؓ حسن صحیح ہےاور یہی قول ہےبہت سارےصحابہؓ و تابعینؒ میں اہل علم کا سفیان ثوریؒ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے‘‘۔(صحیح سنن الترمذی: ج ۱،ص ۱۵۷، رقم الحدیث ۲۵۷؛ سنن النسائی: ج۱، ص۱۵۸؛ سنن ابی داؤد:ج۱،ص۱۱۶؛ مشکاۃالمصابیح علامہ ناصرالدین البانیؒ: ج۱، باب صفة الصلاة ، الأصل، رقم الحدیث۸۰۹)
حدیث حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ کےقدیم نسخوں کا عکس
۱۔ نسخہ جامع الاازہرمصر کا عکس
۲۔ نسخہ احمد بن سلطان ایوبیؒ کا عکس
۳۔ مسند یحییٰ بن معینؒ کا عکس
۴۔ جامع ترمذی دارلکتب المصریہ کے قلمی نسخے کا عکس
اس حدیث کے تمام راوی صحیح مسلم کے رجالوں میں سے ہیں جودرج ذیل یہ ہیں:
۱۔ هناد بن السری: ’’آپ سے امام بخاری نے”خلق افعال العباد“ میں ، امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور اصحاب سنن اربعہ نے روایت لی ہے۔ ثقہ و صدوق ہیں‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی:ج۲، ص۷۰؛تہذیب التہذیب لابن حجر (
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة وهناد بن السري قالا حدثنا أبو الأحوص عن سعيد بن مسروق عن سلمة بن کهيل عن أبي رشدين مولی ابن عباس عن ابن عباس قال بت عند خالتي ميمونة واقتص الحديث ولم يذکر غسل الوجه والکفين غير أنه قال ثم أتی القربة فحل شناقها فتوضأ وضوا بين الوضوين ثم أتی فراشه فنام ثم قام قومة أخری فأتی القربة فحل شناقها ثم توضأ وضوا هو الوضو وقال أعظم لي نورا ولم يذکر واجعلني نورا۔ (مسلم: ج۲، ص۲۱۶)
۲۔ وكيع بن الجراح:  ’’صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔آپ ثقہ، حافظ اور عادل ہیں۔ ثقہ بالاجماع ہیں‘‘۔ (تقریب التہذیب: ج۲، ص۶۴۶)
حدثني أبو خيثمة زهير بن حرب حدثنا وکيع عن کهمس عن عبد الله بن بريدة عن يحيی بن يعمر ح و حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري وهذا حديثه حدثنا أبي حدثنا کهمس عن ابن بريدة عن يحيی بن يعمر قال کان أول من قال في القدر بالبصرة معبد الجهني فانطلقت أنا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حاجين أو معتمرين فقلنا لو لقينا أحدا من أصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم فسألناه عما يقول هؤلا في القدر فوفق لنا عبد الله بن عمر بن الخطاب داخلا المسجد فاکتنفته أنا وصاحبي أحدنا عن يمينه والآخر عن شماله فظننت أن صاحبي سيکل الکلام إلي فقلت أبا عبد الرحمن إنه قد ظهر قبلنا ناس يقرون القرآن ويتقفرون العلم وذکر من شأنهم وأنهم يزعمون أن لا قدر وأن الأمر أنف قال فإذا لقيت أولک فأخبرهم أني بري منهم وأنهم برآ مني والذي يحلف به عبد الله بن عمر لو أن لأحدهم مثل أحد ذهبا فأنفقه ما قبل الله منه حتی يؤمن بالقدر ثم قال حدثني أبي عمر بن الخطاب قال بينما نحن عند رسول الله صلی الله عليه وسلم ذات يوم إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب شديد سواد الشعر لا يری عليه أثر السفر ولا يعرفه منا أحد حتی جلس إلی النبي صلی الله عليه وسلم فأسند رکبتيه إلی رکبتيه ووضع کفيه علی فخذيه وقال يا محمد أخبرني عن الإسلام فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صلی الله عليه وسلم وتقيم الصلاة وتؤتي الزکاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا قال صدقت قال فعجبنا له يسأله ويصدقه قال فأخبرني عن الإيمان قال أن تؤمن بالله وملاکته وکتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره قال صدقت قال فأخبرني عن الإحسان قال أن تعبد الله کأنک تراه فإن لم تکن تراه فإنه يراک قال فأخبرني عن الساعة قال ما المسول عنها بأعلم من السال قال فأخبرني عن أمارتها قال أن تلد الأمة ربتها وأن تری الحفاة العراة العالة رعا الشا يتطاولون في البنيان قال ثم انطلق فلبثت مليا ثم قال لي يا عمر أتدري من السال قلت الله ورسوله أعلم قال فإنه جبريل أتاکم يعلمکم دينکم۔ (مسلم: ج ۱، ص ۸۴)
۳۔ سفیان الثوری: ’’صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ائمہ نے آپ کو الامام، شیخ الاسلام، سید الحفاظ [حفاظ حدیث کے سردار]، فقیہ، کان سفیان بحراً [آپ علم کا سمندر تھے]، ثقۃ حافظ امام حجۃ امیر المؤمنین فی الحدیث [حدیث میں امیر المؤمنین ہیں] جیسے القابات سے نواز کر آپ کے توثیق و تعدیل کی ہے۔ آپ ثقہ بالاجماع ہیں‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج۱، ص ۱۵۱ تا ۱۵۳؛ تقریب التہذیب: ج۱، ص۲۱۶)
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا عبد الله بن نمير ح و حدثنا ابن نمير حدثنا أبي حدثنا الأعمش ح و حدثني زهير بن حرب حدثنا وکيع حدثنا سفيان عن الأعمش عن عبد الله بن مرة عن مسروق عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم أربع من کن فيه کان منافقا خالصا ومن کانت فيه خلة منهن کانت فيه خلة من نفاق حتی يدعها إذا حدث کذب وإذا عاهد غدر وإذا وعد أخلف وإذا خاصم فجر غير أن في حديث سفيان وإن کانت فيه خصلة منهن کانت فيه خصلة من النفاق- (مسلم: ج ۱، ص۱۶۴)
۴۔ عاصم بن كليب: ’’صحیح بخاری معلقاً، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ کو ائمہ نے ثقۃ، صدوق، مامون قرار دیا ہے‘‘۔(تاریخ الثقات للعجلی: ص۲۴۲؛ کتاب الثقات لابن جبان: ص۷۔۲۵۶؛ تہذیب التہذیب لابن حجر: ج۳،ص۴۰۔ ۴۱)
زبیر علی زئی نے ایک مقام پر لکھا: یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ [نماز میں ہاتھ باندھنا: ص۱۳]
حدثنا يحيی بن يحيی أخبرنا أبو الأحوص عن عاصم بن کليب عن أبي بردة قال قال علي نهاني رسول الله صلی الله عليه وسلم أن أتختم في إصبعي هذه أو هذه قال فأومأ إلی الوسطی والتي تليها- (مسلم :ج ۵، ص۲۹۵)
۵۔  عبد الرحمٰن بن الأسود: ’’آپ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ کو الفقیہ، الامام بن الامام، ثقۃ من خیار الناس کہا گیا ہے۔ بالاتفاق ثقہ ہیں‘‘۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی: ج۵ ،ص۷؛ تہذیب التہذیب لابن حجر:ج۳، ص۳۳۹(
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا علي بن مسهر عن الشيباني ح و حدثني علي بن حجر السعدي واللفظ له أخبرنا علي بن مسهر أخبرنا أبو إسحق عن عبد الرحمن بن الأسود عن أبيه عن عاشة قالت کان إحدانا إذا کانت حاضا أمرها رسول الله صلی الله عليه وسلم أن تأتزر في فور حيضتها ثم يباشرها قالت وأيکم يملک إربه کما کان رسول الله صلی الله عليه وسلم يملک إربه- (مسلم :  ج۱،  ص۴۰۷)
۶۔  علقمہ بن قیس الکوفی: ’’صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ فقیہ، ثقۃ اور ثبت تھے‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج۱، ص۳۹؛ تقریب التہذیب لابن حجر: ج۱، ص۴۰۸( علقمہ تو علقمہ ہیں۔
۷۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ: ’’مشہور صحابی ہیں، آپ کا لقب فقیہ الامۃ ہے۔ (تاریخ الصحابہ لابن حبان: ص۱۴۹؛ تقریب التہذیب لابن حجر: ج۱،ص۳۱۳)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحیح علی شرط مسلم ہے۔ اس کی صحت صر ف امام ترمذی رحمہ اللہ کے حسن فرمانے پر موقوف نہیں جیسا کہ اکثر غیر مقلدین اس حوالے سے الزام بھی لگاتے ہیں۔
حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اکثر غیرمقلد علماء نے صحیح تسلیم کرتے ہوئے رفع یدین کے مسئلے میں اعتدال کا راستہ اختیار کیاہے لیکن موجودہ دور کے چند متعصب غیرمقلد عالموں نے اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کی ہرممکن کوشش کی، لیکن الحمدﷲ! اﷲ تبارک و تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ اس نے ہمارےعلماءِ احناف کو وہ علمی بصیرت و صلاحیات عطاء کی ہیں جس کو بروءِکار لاتےہوئے انہوں نے ان تمام باطل کوششوں کو ناکام بناڈالااور ایسے مضبوط دلائل پیش کیئے کہ علماءِسُولاجواب ہوکر رہ گئے۔
غیرمقلدعالم حافظ زبیر علی زئی صاحب کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ اور ان کا رد
اعتراض نمبر۱: ’’امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ ثقہ ہونے ساتھ مدلس بھی تھے۔ مدلس کی عن والی روایات ضعیف ہوتی ہے“۔(مضروب حق:۲۱ص۳۲، ۳۳)
جواب نمبر۱-۱: ’’امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ(م۱۶۱ھ)خیر القرون کے محدث ہیں اور احناف کےنزدیک خیر القرون کی تدلیس صحتِ حدیث کے منافی نہیں۔ (قواعد فی علوم الحدیث للعثمانی:ص۱۵۹)
جواب نمبر۱-۲: ’’تدلیس کے اعتبار سے محدثین نے رواۃ حدیث کے مختلف طبقات بنائے ہیں،بعض طبقات کی روایات کو صحت حدیث کے منافی جبکہ دوسرے بعض کی روایات کو مقبول قرار دیاہے۔امام سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ کو محدثین کی ایک جماعت جن میں امام ابوسعید العلائی،علامہ ابن حجر،محدث ابن العجمی شامل ہیں، نے”طبقہ ثانیہ“ میں شمار کیا ہے۔(جامع التحصیل فی احکام المراسیل :ص۱۱۳؛ طبقات المدلسین :ص۶۴؛  التعلق الامین علی کتاب التبیین لاسماء المدلسین :ص۹۲؛ تسمیۃ مشایخ وذکرالمدلسین:ص۱۲۳؛ کتاب المدلسین الامام الحافظ ابی زرعۃاحمدبن عبدالرحیم بن العرابی:ص۶)
امام مسلمؒ نے خود اپنی صحیح میں سفیان ثوریؒ کی عن والی روایات شامل کی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام سفیان ثوریؒ کی تدلیس صحت کے منافی نہیں۔
نیزعصر حاضر میں الدکتور العواد الخلف اور سید عبدالماجد الغوری نے بھی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو مرتبہ/طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے۔ (روایات المدلسین للعواد الخلف :ص۱۷۰؛التدلیس والمدلسون للغوری :ص۱۰۴؛ التدلیس والمدلسون،شیخ حمادانصاری)
خود زبیر علی زئی صاحب کے”شیخ“ بدیع الدین شاہ راشدی نے بھی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو اول درجے کے مدلسین میں شمار کیا ہے۔ بدیع الدین شاہ راشدی صاحب لکھتے ہیں: ’’یہ کہ سفیان ثوری اول درجے کے مدلسین میں سے ہیں اور بقاعدہ محدثین ان کی تدلیس مقبول ہوگی اگرچہ سماع کی تصریح نہ کریں‘‘۔ (اہل حدیث کے امتیازی مسائل:ص۳۴)
اور محدثین نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ طبقہ ثانیہ کے مدلس کی روایت مقبول ہے، اس کی تدلیس صحت حدیث کے منافی نہیں۔ (التدلیس والمدلسون للغوری: ص۱۰۴؛ جامع التحصیل فی احکام المراسیل: ص۱۱۳؛  روایات المدلسین للعواد الخلف :ص۳۲)
اعتراض نمبر۲: ’’ حاکم نیشاپوریؒ نے امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ کو طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔ حاکم نیشا پوریؒ حافظ ابن حجرؒ سے زیادہ متقدم تھے اور درج ذیل دلائل کی روشنی میں حاکم کی بات صحیح ہے اور حافظ ابن حجرؒ کی بات غلط ہے“۔ (نورالعینین: حافظ زبیر علی زئی، ص۱۳۸)
جواب نمبر۲: حافظ زبیرعلی زئی صاحب کا امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ کی تدلیس پر طبقات کی بحث چھیڑنے کا مقصد صرف اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنا ہےکیونکہ یہ حدیث ان کے مسلک کے خلاف ہے۔ زبیرعلی زئی صاحب نے ایک طرف اپنی کتاب نورالعینین کے صفحہ نمبر ۱۳۸پر امام حاکم کے قول کی بنیاد پرسفیان ثوریؒ کو طبقہ ثالثہ کاقرار دیااور مدلسین کے طبقات کاصحیح ہونا تسلیم کیاتو دوسری طرف اپنے ماہنامہ الحدیث شمارہ صفحہ نمبر۴۲،  ۴۷ پرحافظ ابن حجرؒکے طبقاتی تقسیم سے اختلاف اور انکارکیا۔ یہاں ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ زبیر علی زئی صاحب نے جب امام بخاری کی کتاب جزرفع الیدین کا ترجمہ و تخریج کی تو اپنی اس کتا ب کی سندکی تصدیق کے لئے حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کا نام رقم کرتے ہوئےانہیں روایت حدیث میں ثقہ و متقن علماءمیں سرفہرست قرار دیا۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف زئی صاحب ابن حجرؒ کوعلماءِحدیث میں سرفہرست قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف ان کے بنائے ہوئے اصول حدیث سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زبیرعلی زئی صاحب امام حاکم نیشاپوریؒ کی اس طبقاتی تقسیم سے حقیقتاً اتفاق کرتے ہیں؟ یا پھر ابن حجرؒ کی طبقاتی تقسیم کی طرح امام حاکمؒ کی تقسیم سے بھی جب مطلب ہوا استدلال کیا اور جب مطلب پورا ہوگیا تو اختلاف و انکار کرکے رد کردیا۔
سچ تو یہ ہے کہ امام حاکمؒ نے مدلسین کی طبقاتی تقسم کااطلاق نہیں بلکہ مدلسین کے اجناس(قسمیں)  بیان کی ہیں مگر زبیر علی زئی صاحب انہیں طبقات کہنے پر بضد ہیں، جو ایک علمی بدیانتی اور تحریف ہے۔اس کے برعکس زبیر علی زئی صاحب اپنے ماہنامہ رسالہ الحدیث شمارہ نمبر۶۷ صفحہ نمبر۲۴پر طبقات کابھی انکار کرچکے ہیں، پھر ان کا امام حاکمؒ کی مدلسین کی اجناس (قسمیں) کا دلیل کے طور پر پیش کرنالاعلم مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے۔ 
اب یہ قارئین ہی صحیح فیصلہ کرسکتے ہیں کہ زبیر علی زئی صاحب تحقیق میں کس حد تک غیرجانبدار ہیں۔ امام حاکمؒ کی معرفتہ علوم الحدیث صفحہ نمبر۱۰۳تا ۱۰۶پر جو تدلیس کے اجناس کا ذکر کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
۱۔ امام حاکمؒ نے جنس اول کی تعریف یہ لکھی ہے۔ ’’قال أبو عبد الله فالتدليس عندنا على ستة أجناس فمن المدلسين من دلس عن الثقات الذين هم في الثقة مثل المحدث أو فوقه أو دونه الا أنهم لم يخرجوا من عداد الذين يقبل أخبراهم فمنهم من التابعين أبو سفيان طلحة بن نافع وقتادة بن دعامة وغيرهما‘‘۔ امام حاکمؒ نے طبقہ جنس اولیٰ میں ابی سفیانؒ، طلحہ بن نافع ؒاور قتادہ بن دعامتہؒ کا ذکر کیااور اصول بتایا کہ اس طبقہ میں وہ راوی ہیں جو صرف ثقہ سے تدلیس کرتے ہیں۔ (معرفتہ علوم الحدیث:ص۱۰۳)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زئی صاحب امام حاکمؒ کی اس طبقاتی تقسیم کے مطابق ابی سفیانؒ، طلحہ بن نافعؒ اور قتادہ بن دعامتہؒ کوطبقہ اولیٰ کا راوی ہونا تسلیم کرتے ہیں؟ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
۱۔ زبیر علی زئی نے ابی سفیانؒ اورطلحہ بن نافع ؒکو اپنی کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین کے صفحہ نمبر۹۴ پر طبقہ ثالثہ کا مدلس قراردیااور اس پر سکوت کیا اور امام حاکم سے اختلاف کیا۔
۲۔ زبیر علی زئی نے قتادہ بن دعامتہؒ کو اپنی کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین کے صفحہ نمبر۹۰ پر طبقہ ثالثہ میں لکھااور امام حاکم سے اختلاف کیا۔
لہٰذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ زبیر علی زئی صاحب امام حاکم کی طبقہ اولیٰ کی تقسیم سے کلیتاًاختلاف کرتے ہیں۔ جب زئی صاحب امام حاکم ؒ کی مدلسین کی جنس اولیٰ سے اختلاف کرتے  ہیں تو پھر امام حاکمؒ کی تقسیم کردہ جنس ثالث (جس میں سفیان ثوری ؒہیں) سے اتفاق کیوں کرتے ہیں؟اس کا مطلب زئی صاحب کے پیش نظرکوئی اصول نہیں ہے۔صرف مسلکی حمایت وتعصب ہے۔
۲۔ امام حاکمؒ تدلیس کی جنس ثانی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’قال أبو عبد الله۔۔۔ وأما الجنس الثاني من المدلسين فقوم يدلسون الحديث۔۔۔ بن عيينة۔۔۔ قال أبو عبد الله نكتفي بما ذكرناه من مثال هذا الجنس فقد صح مثل ذلك عن محمد بن إسحاق ويزيد بن أبي زياد وشباك وأبي إسحاق ومغيرة وهشيم بن بشير وفيما ‘‘۔امام حاکمؒ نے جنس ثانی میں سفیان بن عیینہ ؒابن اسحاق ؒاور ہثیم بن بشرؒکو بیان کیاہے۔(معرفتہ علوم الحدیث:ص۱۰۵)
۱۔ اس کے برعکس زبیر علی زئی صاحب  ابن عیینہؒ اور ہثیم بن بشر ؒکو اپنی کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین کے صفحہ نمبر۱۳۰ پرطبقہ ثالثہ کا مدلس قرار دیتے ہوئےامام حاکمؒ کی طبقات کی دوسری تقسیم سے بھی اختلاف کیاہے۔
۲۔ محمد بن اسحاق ؒکو زبیر علی زئی صاحب نے اپنی کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین کے صفحہ نمبر۱۴۴پرطبقہ رابعہ کا مدلس لکھتے ہوئے امام حاکمؒ کی طبقات کی دوسری تقسیم سے بھی اختلاف کیاہے۔
۳۔ امام حاکمؒ تدلیس کی جنس ثالث کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’قال أبو عبد الله قد روى جماعة من الأئمة عن قوم من المجهولين فمنهم سفيان الثوري روى عن أبي همام السكوني وأبي مسكين وأبي خالد الطائي وغيرهم من المجهولين ممن لم يقف على أساميهم غير أبي همام فإنه الوليد بن قيس ان شاء الله وكذلك شعبة بن الحجاج حدث عن جماعة من المجهولين فأما بقية بن الوليد فحدث عن خلق من خلق الله لا يوقف على أنسابهم ولا عدالتهم وقال أحمد بن حنبل إذا حدث بقية عن المشهورين فرواياته مقبولة وإذا حدث عن المجهولين فغير مقبولة وعيسى بن موسى التيمي البخاري الملقب بغنجار ‘‘۔امام حاکمؒ نے جنس ثالث میں سفیان ثوریؒ، عیسیٰ بن موسیٰ غنجارؒاور بقیۃ بن ولیدؒ کاذکرکیاہے۔(معرفتہ علوم الحدیث:ص۱۰۶)
یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہے کہ امام حاکم ؒ نے جنس ثالث میں ان مدلسین کا ذکر کیا ہے جو مجھولین سے روایت کرتے ہیں۔ مگر امام سفیان ثوریؒ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مجھولین سے روایت کرتے تھے بالکل غلط اورباطل ہے۔صحیح تحقیق کے مطابق کسی بھی محدث سے صحیح سند کے ساتھ یہ قول ثابت نہیں۔
امام حاکم کی تیسری طبقاتی تقسیم کے برعکس جناب زبیر علی زئی صاحب نے عیسیٰ بن موسیٰ غنجارؒکو اپنی کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین کے صفحہ نمبر۱۴۳پرطبقہ رابعہ میں لکھا ہے۔
امام حاکم ؒ کے قول سے زبیر علی زئی صاحب کا اختلاف
مستدرک حاکم (ج ۴، ص ۱۳) میں ’’اعمش عن ابی وائل عن مسروق عن عائشہ رضی اﷲعنہ۔۔۔۔الخ‘‘ کو امام حاکمؒ اور امام ذہبیؒ نے اعمشؒ کی تدلیس کو صحیح قرار دیا ہے، مگر زبیر علی زئی صاحب نے الحدیث شمارہ۳۳ میں صفحہ نمبر ۴۲ پر حافظ ابن حجرؒ کےقول کو صحیح قرار دیتے ہوئے امام حاکم ؒاور علامہ ذہبیؒ کے قول کو غلط لکھا ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ ابن مسعودؓ کی حدیث کے بارےمیں تدلیس کے مسئلےپرامام حاکمؒ کی بات کو صحیح ماننا اور حافظ ابن حجرؒ کو غلط کہنااور دوسری طرف تدلیس ہی کے مسئلے پرامام حاکمؒ کی تحقیق کو غلط کہنااور حافظ ابن حجرؒ کی تحقیق کو صحیح قرار دینا،یہ کوئی انصاف کی بات تو نہ ہوئی۔
امام حاکمؒ کے قول کو زبیر علی زئی صاحب نےوہم قرار دیاہے
زبیر علی زئی صاحب نے الحدیث شمارہ۳۳ میں صفحہ نمبر ۴۷ پرایک بار پھر امام حاکمؒ کے قول کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’امام حاکمؒ کے علاوہ تمام محدثین نے ابوالزبیرؒ کو مدلس قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجرؒنے طبقات مدلسین میں ان کے وہم کی تردید کی ہے‘‘۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ موصوف ایک مقام پرابن مسعودؓ کی ترک رفع یدین کی حدیث کے بارےمیں امام حاکم کی طبقاتی تقسیم کو صحیح قرار دیتے ہوئے ابن حجرؒ کی طبقاتی تقسیم سے اختلاف کرتے ہیں اور دوسرے مقام پرتدلیس ہی کے مسئلے پرامام حاکمؒ کےقول کو ان کا وہم قرار دیتے ہوئے حافظ ابن حجرؒکی طبقاتی تقسیم کو صحیح کہہ رہے ہیں۔
امام حاکمؒ کی اجناسی تقسیم پرزبیر علی زئی صاحب کی تحریفات و غلط بیانیاں
امام حاکم نیشاپوریؒ کی اجناسی تقسیم کو زبیر علی زئی صاحب نے طبقاتی تقسیم قرار دیتے ہوئے جن تحریفات اور غلط بیانیوں کا مظاہر کیا ہے اس کامدلل اور جامع رد علماءِ احناف بھی پیش کرچکےہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ علماءِ احناف کی تحقیق کو غیرمقلدین حضرات شک کی نظرسے دیکھتے ہوئےانہیں قبول نہیں کریں گےاس لئےبہتر یہ ہوگا کہ میں یہاں زبیر علی زئی صاحب کی ان تعصبانہ تحریفات و خیانات کا رد ان کے ہم مسلک (غیرمقلد) معتبرعالم سے پیش کروں تاکہ غیرمقلدین حضرات زبیرعلی زئی صاحب کی تحریفات و خیانات کو سمجھتے ہوئے حق بات کو قبول کریں۔
امام حاکمؒ کی اجناسی تقسیم پرزبیر علی زئی صاحب کی تحریفات و غلط بیانیاں بحوالہ مشہور غیرمقلد محدث العصر شیخ سیدمحب اﷲشاہ راشدی سندھیؒ کی کتاب مقالات راشدیہ (جلداول، ص۳۰۵تا۳۱۲) پر ملاحضہ فرمائیں:
سفیان ثوریؒ کی تدلیس پر زبیر علی زئی صاحب کے اوھام ملاحضہ فرمائیں
اضطراب نمبر۱: زبیر علی زئی صاحب نے جب پہلی بار نورالعینین شائع کی تو سفیان ثوریؒ کو حافظ العلائیؒ کی کتاب جامع تحصیل فی احکام ِ المراسیل صفحہ نمبر۱۱۳کے حوالے سےطبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیتے ہوئےتصریح بالسماع کا اصول کے تحت اس طبقہ کے مدلسین کی احادیث کو قابل اعتبار قرار دیا۔
اضطراب نمبر۲: زبیر علی زئی صاحب کا جب ۱۹۸۹ء/۱۴۰۸ھ میں عبدالرشید الانصاری صاحب کے ساتھ جرابوں پر مسح کے موضوع پرتحریری مناظرہ ہواتو سفیاں ثوریؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دے کر ان کی حدیث سے استدلال کیا۔(جرابوں پر مسح: ص۴۰؛ بحوالہ جزءرفع الیدین:ص۲۶)
اضطراب نمبر۳: زبیر علی زئی صاحب نےجزءرفع الیدین صفحہ نمبر ۲۶ طبع جون ۲۰۰۳ء اشاعت میں سفیان ثوریؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دینے سےرجوع کیا، جوانھوں نےجرابوں پرمسح صفحہ نمبر۴۰ پراپنے تحریری مناظرہ میں لکھا تھا۔(جرابوں پر مسح: ص۴۰؛ بحوالہ جزءرفع الیدین:ص۲۶)
اضطراب نمبر۴: زبیر علی زئی صاحب نےنورالعینین صفحہ نمبر ۱۳۸ طبع دسمبر۲۰۰۶ء اشاعت میں پھر سفیان ثوریؒ کو طبقہ ثالثہ کا مدلس قرار دیامگراس مرتبہ حافظ العلائیؒ کے قول سے نہیں بلکہ امام حاکمؒ کی کتاب معرفتہ علوم الحدیث کے حوالے سے۔ یعنی حافظ العلائی کے قول سے اپنے پچھلے استدلال کو باطل اوروہم قرار دیا۔(نورالعینین: ص۱۳۸)
اضطراب نمبر۵: زبیر علی زئی صاحب نےاپنے رسالہ ماہنامہ الحدیث شمارہ۳۳ صفحہ نمبر۵۴طبع فروری۲۰۰۷ء اشاعت میں حافظ العلائیؒ، امام حاکمؒ اور حافظ ابن حجرؒکے طبقات کا انکارکردیااورامام شافعیؒ کے قول سے استدلال کرتے ہوئےصرف دو طبقوں کااقرار کرتے ہوئےایک بار پھرسفیان ثوریؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قراردیا۔ (ماہنامہ الحدیث: شمارہ۳۳ ،صفحہ نمبر۵۴-۵۵)
اضطراب نمبر۶: زبیر علی زئی صاحب نےاپنے رسالہ ماہنامہ الحدیث شمارہ۴۲ صفحہ نمبر۲۸طبع نومبر۲۰۰۷ء اشاعت میں ایک بار پھر امام حاکمؒ کی اجناسی تقسیم کوقبول کرتے ہوئے ان کی کتاب معرفتہ علوم الحدیث کے حوالے سےسفیان ثوریؒ کو طبقہ ثالثہ کا مدلس قرار دیااوراپنے پچھلے اوھام کی تردید کی۔ (ماہنامہ الحدیث: شمارہ۴۲ ،صفحہ نمبر۲۸)
اضطراب نمبر۷: زبیر علی زئی صاحب نےاپنے رسالہ ماہنامہ الحدیث شمارہ۶۷ صفحہ نمبر۲۴طبع دسمبر۲۰۰۹ء اشاعت میں ایک بار پھر حافظ العلائی، امام حاکمؒ اور حافظ ابن حجرؒکے طبقات کا انکارکردیااور صرف دو طبقوں کوصحیح اور حق قراردیتے ہوئے پھرسےسفیان ثوریؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قراردیا۔ (ماہنامہ الحدیث: شمارہ۶۷، صفحہ نمبر۲۴)
اضطراب نمبر۸: زبیر علی زئی صاحب نےاپنے رسالہ ماہنامہ الحدیث شمارہ۱۰۱ صفحہ نمبر۴۲ طبع جنوری۲۰۱۳ء اشاعت میں پھر سے جرابوں پر مسح کرنے کی سفیان ثوریؒ کی عن سے بیان کردہ روایت سے استدلال کرتے ہوئےامام سفیان ثوریؒ کا طبقہ ثانیہ کا مدلس ہونا تسلیم کیااوران کی تدلیس کوسماع کی تصریح کے بغیرقبول کیا۔ (ماہنامہ الحدیث: شمارہ۱۰۱،صفحہ نمبر۴۲)
مندرجہ بالا تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زبیر علی زئی صاحب سفیان ثوریؒ کی تدلیس کے بارے میں شدید اضطراب کا شکار تھے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ہردور میں سفیان ثوریؒ کو مختلف آئمہ حدیث کے اقوال کے تحت مختلف طبقات میں شمار کرتے ہوئے ان کی بیان کردہ عن کی روایات سے اپنی مرضی کے مطابق کبھی استدلال کیا تو کبھی انھیں ضعیف کہہ کر رد کردیا۔اس سلسلے میں ان کا کوئی اصول یا قاعدہ نہیں تھالہٰذاتدلیس کے مسئلے میں ان کی تحقیقات سے استدلال کرنااور انہیں صحیح تسلیم کرنا غلط و مردوداورجمہورمحدثین کے خلاف ہے۔
امام حاکمؒ نے اپنی کتاب مستدرک علی الصحیحین میں سفیان ثوریؒ سے تقریباً ۲۴۳روایات لیں ہیں جن میں ۹۸ فیصد روایات معنعن اور عن سے ہیں۔امام حاکمؒ کے نزدیک اگر امام سفیان ثوریؒ کی تدلیس والی روایات ضعیف ہوتیں تو وہ انھیں اپنی کتاب مستدرک علی الصحیحین میں کیوں رقم کرتے؟ امام حاکمؒ نے سفیان ثوریؒ کی معنعن اور عن والی روایات کو اپنی صحیحین میں رقم کرکے اِن کی تصحیح کی اور ساتھ ہی امام ذہبیؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حاکمؒ کے نزدیک سفیان ثوریؒ کی تدلیس قابل اعتبار ہے۔
سفیان ثوریؒ کا طبقہ ثانیہ کا مدلس ہوناائمہ محدثین کی نظر میں
یہاں اس بات کا احاطہ کرنا بہت ضروری ہے کہ محدثین کرامؒ کا اتفاق امام حاکمؒ کی طبقاتی تقسیم (بقول زبیر علی زئی صاحب) سے تھا یا حافظ صلاح الدین العلائیؒ اورحافظ ابن حجراسقلانیؒ کے طبقات المدلسین سے تھا۔
۱۔ امام ابو عبدالرحمٰن نسائیؒ کی تحقیق:
’’ امام ابو عبدالرحمٰن نسائیؒ نے تسمیۃ مشایخ وذکرالمدلسین صفحہ نمبر ۱۲۳پرامام سفیان ثوریؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا ہے‘‘۔
۲۔ حافظ صلاح الدین العلائیؒ کی تحقیق:
’’ حافظ صلاح الدین العلائیؒ نے جامع التحصیل فی احکام المراسیل صفحہ نمبر ۱۱۳ پرامام سفیان ثوریؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا ہے‘‘۔
۳۔ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کی تحقیق:
’’حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے کتاب طبقات المدلسین صفحہ نمبر ۳۲اورالنکت علی کتاب ابن صلاح جلد نمبر ۲، صفحہ نمبر۶۳۹ پر امام سفیان ثوریؒ کوطبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا ہے‘‘۔
۴۔ امام سبط ابن العجمیؒ کی تحقیق:
’’ امام سبط ابن العجمیؒ نے التبین اسماء المدلسین پرامام سفیان ثوریؒ مدلس قرار دینے کے بعد صفحہ نمبر ۶۶پر حافظ صلاح الدین العلائیؒ کے اصول کے مطابق طبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا ہے‘‘۔
۵۔ امام ابوزرعۃ العراقیؒ کی تحقیق:
’’ امام ابوزرعۃ العراقیؒ نے کتاب المدلسین صفحہ نمبر ۵۲پر امام سفیان ثوریؒ کومدلس قرار دینے کے بعد صفحہ نمبر ۱۰۹پر حافظ صلاح الدین العلائیؒ کے اصول کے مطابق طبقہ ثانیہ کا مدلس لکھاہے‘‘۔
۶۔ اسلام بن علاءالدین بن مصطفیٰ المصری ؒکی تحقیق:
’’اسلام بن علاءالدین بن مصطفیٰ المصری ؒنے اپنی کتاب خلاصۃالمقال فی اسماءالمدلسین من الرجال صفحہ نمبر ۲۰پر امام سفیان ثوریؒ کوامام نسائی کے حوالے سےطبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیاہےاور حافظ ابن حجرؒ کی طبقاتی تقسیم سے اتفاق کیا ہے‘‘۔
سفیان ثوریؒ کا طبقہ ثانیہ کا مدلس ہوناعلماءِ غیرمقلدین کی نظر میں
۱۔ محترم بدیع الدین شاہ راشدی:
’’محترم بدیع الدین شاہ راشدی صاحب نے جزءِ منظوم فی اسماءالمدلسین رقم ۲۲قلمی میں امام سفیان ثوریؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا ہے‘‘۔
۲۔ محترم حافظ گوندلوی:
’’محترم حافظ گوندلوی صاحب نے خیرالکلام صفحہ نمبر ۴۷میں امام سفیان ثوریؒ کوطبقہ ثانیہ کا مدلس لکھاہے‘‘۔
۳۔ محترم یحییٰ گوندلوی:
’’محترم یحییٰ گوندلوی صاحب نے خیرابراھین فی الجھربالتامین صفحہ نمبر ۲۵، ۲۶ میں امام سفیان ثوریؒ کوطبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا ہے‘‘۔
۴۔ محترم محبّ اﷲ شاہ راشدی:
’’محترم محبّ اﷲ شاہ راشدی صاحب نے اپنے مضمون ایضاح المرام واستیفام الکلام میں امام سفیان ثوریؒ کوطبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا ہے‘‘۔ (الاعتصام جون۱۹۹۱ءاشاعت)
’’محترم محبّ اﷲ شاہ راشدی صاحب نے اپنی کتاب مقالات راشدیہ میں زبیرعلی زئی صاحب کے رد میں ایک طویل اور مدلل تحریر لکھی ہے جس میں زبیرعلی زئی صاحب کی طرف سے امام سفیان ثوریؒ کی تدلیس پرکئے گئےتمام اعتراضات کے منہ توڑ جوابات دیئےہیں‘‘۔ (مقالات راشدیہ: ج۱، ص۳۰۵-۳۳۲)
۵۔ شیخ حمادبن محمد الانصاری:
’’عرب عالم شیخ حمادبن محمد الانصاری نے اپنی کتاب اتحاف ذوی الرسوخ اورالتدلیس والمدلسونمیں امام سفیان ثوریؒ کوطبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا ہے‘‘۔ (اتحاف ذوی الرسوخ: ص۲۶)
۶۔ محدث مسفربن غرم اﷲالدمینی:
’’ عرب عالم محدث مسفربن غرم اﷲالدمینی نے اپنی کتاب تدلیس فی الحدیث صفحہ نمبر۲۶۴پرامام سفیان ثوریؒ کوطبقہ ثانیہ کا مدلس لکھاہے‘‘۔یہاں یہ بات بتانا نہایت ضروری ہے کہ زبیر علی زئی صاحب نے اپنی کتاب الفتح المبین فی طبقات المدلسین میں مختلف مقام پراپنے مسلکی حمایت میں اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ محدثین کرامؒ اور خودعلماءِ غیرمقلدین کی ایک بڑی جماعت حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کی طبقاتی تقسیم کی قائل ہے۔لہٰذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ جمہورکے نزدیک حافظ ابن حجرؒکے طبقات کی تقسیم صحیح اور راجح ہےاور حافظ ابن حجرؒ نے سفیان ثوریؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس لکھا ہے۔اور اس طبقہ کے مدلسین کی احادیث صحیح اور قابل اعتبار ہیں۔
امام شافعیؒ کے اصول سےزبیر علی زئی صاحب کا باطل استدلال اور اس کا رَدّ
زبیر علی زئی صاحب نےاپنے رسالہ ماہنامہ الحدیث شمارہ۶۷ صفحہ نمبر۲۴-۲۶طبع دسمبر۲۰۰۹ء اشاعت میں سفیان ثوریؒ کی تدلیس کو امام شافعیؒ کے اصول سے غلط ثابت کرنےکے لئےمسئلہ تدلیس کے دوطبقات کوصحیح قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’امام شافعیؒ نے یہ اصول سمجھایا ہے کہ جوشخص ایک دفعہ بھی تدلیس کرےتو اس کی روایت مقبول نہیں ہوتی جس میں سماع کی تصریح نہ ہو‘‘۔(ماہنامہ الحدیث: شمارہ۶۷ ،صفحہ نمبر۲۴-۲۶)
امام شافعیؒ کے اصول کی تفصیل جاننے کے لئے بہتر یہ ہوگا کہ مسئلہ تدلیس پر امام صاحب کا مکمل مؤقف نقل کیاجائے تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
۱۔ امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی ؒ (متوفی ۲۰۴ھ) نے فرمایا:'' ومن عرفناہ دلّس مرة فقد أبان لنا عورته في روايته''۔ ''جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہوگیا کہ اُس نے ایک دفعہ تدلیس کی ہے تو اُس نے اپنی پوشیدہ بات ہمارے سامنے ظاہر کر دی''۔ (الرسالۃ : ص۱۰۳۳؛ بحوالہ ماہنامہ محدث لاہور، شمارہ ۳۴۳، طبع جنوری۲۰۱۱)
۲۔ اس کے بعد امام شافعی ؒنے فرمایا: ''فقلنا:لا نقبل من مدلّس حديثًا حتی يقول فيه:حدثني أو سمعت''۔ ''پس ہم نے کہا:ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے، حتیٰ کہ وہ حدثني یاسمعت کہے''۔  ( الرسالۃ : ۱۰۳۵؛ بحوالہ ماہنامہ محدث لاہور، شمارہ ۳۴۳، طبع جنوری۲۰۱۱)
جواب: امام شافعیؒ کےاس قول سے یہ بات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ امام شافعیؒ تدلیس کے معاملے میں کتنے سخت اصول رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مدلس کی کوئی بھی حدیث قابل قبول نہیں چاہے وہ سماع کی تصریح کرے یا نہیں۔
امام شافعیؒ کے مذکورہ بالا کلام کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں فرمایا کہ جو راوی صرف ایک ہی بار تدلیس کرے، اس کی ہر معنعن روایت قابل ردّ ہوگی۔ گویا امام موصوف کے ہاں راوی کے سماع کی تتبع کے بعد تدلیس کا مکرر ہونا یا اس کی مرویات پر تدلیس کا غالب آنا شرط نہیں ہے بلکہ محض ایک بار تدلیس کا پایا جانا ہی کافی ہے۔
 ابن رجب حنبلیؒ (متوفی ۷۹۵ھ) نےبھی امام شافعیؒ کے اس قول کی یہی تعبیر کی ہے: ''ولم يعتبر الشافعي أن يتکرر التدليس من الراوي ولا أن يغلب علی حديثه،بل اعتبر ثبوت تدليسه ولو بمرۃ واحدة''۔ ’’اور شافعیؒ نے اس کا اعتبار نہیں کیا کہ راوی بار بار تدلیس کرے اور نہ اُنھوں نے اس کا اعتبار کیا ہے کہ اس کی روایات پر تدلیس غالب ہو، بلکہ اُنھوں نے راوی سے ثبوتِ تدلیس کا اعتبار کیا ہے اور اگرچہ ( ساری زندگی میں ) صرف ایک مرتبہ ہی ہو‘‘۔ (شرح علل الترمذی :۱ج،ص ۳۵۳، طبع  دار الملاح للطبع والنشر)
مدلس کی ایک ہی بار تدلیس کے حوالے سے حافظ ِمشرق خطیب بغدادیؒ کا بھی یہی موقف ہے۔(الکفایۃ للخطیب البغدادی:ج ۲،ص ۳۸۹-۳۹۰)
مدلس کی ایک بار تدلیس کے حوالے سے ان دونوں ماہر محدثین کے علاوہ کسی اور کا یہ موقف معلوم نہیں ہوسکا۔
امام شافعیؒ نے اپنے کلام کے دوسرے حصہ میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ مدلس راوی کی معنعن روایت قابل قبول نہیں ہے۔ یہی موقف متعدد محدثین کا بھی ہے،مگر ان کا یہ موقف کثیر التدلیس راوی کے بارے میں ہے، صرف ایک بار والے مدلس راوی پر نہیں۔
 بعض لوگوں نے حافظ ابن حبانؒ کا بھی یہی موقف بیان کیاہے۔ بلا شبہ حافظ ابن حبانؒ نے اسی مسلک کو اپناتے ہوئے یہ صراحت بھی فرمائی ہے کہ یہ امام شافعیؒ اور ہمارے دیگر اساتذہ کا موقف ہے۔ (مقدمۃ المجروحین لابن حبان:ج۱، ص۹۲)
مگر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ابن حبانؒ کا یہ موقف مطلق طور پر نہیں ہے،کیونکہ ان کے ہاں جو مدلس صرف ثقہ راوی سے تدلیس کرتا ہے، اس کی روایت سماع کی صراحت کے بغیربھی قبول کی جائے گی۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
’’ایسا مدلس جس کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ صرف ثقہ ہی سے تدلیس کرتا ہے تو اس کی روایت عدمِ صراحت ِسماع کے باوجود قبول کی جائے گی۔ دنیا میں صرف سفیان بن عینیہ ایسے ہیں جو ثقہ متقن سے تدلیس کرتے ہیں۔ سفیان بن عینیہ سے مروی کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جس میں وہ تدلیس کریں اور اسی حدیث میں ان کے اپنے جیسے ثقہ راوی سے سماع کی وضاحت موجود ہوتی ہے‘‘۔ (مقدمہ صحیح ابن حبان:ج۱، ص۹۰، الاحسان)
دیگر محدثین کا امام شافعیؒ وبغدادی ؒسے اختلاف
 امام شافعیؒ اور حافظ بغدادیؒ کا مذکورۃ الصدر موقف محل نظر ہے بلکہ جمہور محدثین اور ماہرینِ فن کے خلاف ہے۔ جیسا کہ حافظ بدر الدین زرکشیؒ (۷۹۴ھ)امام شافعیؒ کے اس قول کا تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''وھو نص غریب لم یحکمه الجمهور''۔’’یہ انتہائی غریب دلیل ہے، جمہور کا یہ فیصلہ نہیں‘‘۔ (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشی:ص۱۸۸)
حافظ ابن عبدالبرؒ نے بھی امام شافعیؒ کے اس موقف کو اپنانے والوں پرافسوس کا اِظہار کیا ہے۔مشہور مالکی امام ابن عبدالبرؒ نے امام قتادہ بن دعامہ،جو تدلیس کرنے میں مشہورہیں، کے عنعنہ کومطلق طور پر رَدّ کرنے والوں کا تعاقب فرمایا ہے۔ چنانچہ لکھتی ہیں: ''قال بعضھم قتادة إذا لم یقل: سمعتُ أو حدثنا فلا حجة في نقله وھٰذا تعسف''۔ ’’ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ قتادہ جب سمعتُ یا حدثنا وغیرہ سے اپنے سماع کی صراحت نہ کریں تو ان کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، یہ انتہائی افسوس ناک موقف ہے‘‘۔ (التمہید لابن عبدالبر:ج۱۹، ص۲۸۷)
یعنی حافظ ابن عبدالبرؒ کے ہاں امام قتادہؒ ایسے مشہور مدلس بھی جب روایت ِعنعنہ سے بیان کریں تو وہ مقبول الروایہ ہیں۔ ان کا عنعنہ اسی وقت رَدّ کیا جائے گا جب اس میں تدلیس پائی جائے گی۔ چنانچہ حافظ ابن عبدالبرؒ دوسرے مقام پر رقم طراز ہیں : ''قتادة إذا لم یقل: سمعت وخُولف في نقله، فلا تقوم به حجة لأنه یدلس کثیرًا عمن لم یسمع منه، ورُبّما کان بینھم غیر ثقة''۔ ’’قتادہ جب (سمعتُ) نہ کہیں اور ان کی حدیث دوسروں کے مخالف ہو توقابل حجت نہیں ہوگی،کیونکہ وہ بکثرت ایسوں سے بھی تدلیس کرتے ہیں جن سے سماع نہیں ہوتا اور بسا اَوقات اس (تدلیس) میں غیر ثقہ راوی بھی ہوتا ہے‘‘۔ (التمہید لابن عبدالبر:ج۳، ص۳۰۷)
حافظ صاحب کی ان دونوں نصوص کو سامنے رکھنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ امام ابن عبدالبر، قتادہ کے عنعنہ کو رد کرنے میں تدلیس شرط قرار دے رہے ہیں، بالفاظِ دیگر اِمام شافعیؒ کے موقف کی تردید بھی کررہے ہیں۔
امام شافعیؒ کا مدلسین کی روایات سے استدلال
اوپر آپ امام شافعیؒ کے حوالے سے پڑھ آئے ہیں کہ جو راوی ایک بار تدلیس کرے، اس کی سبھی معنعن روایات ناقابل قبول ہوں گی۔مگر اس اُصول کی انہوں نے خود مخالفت کی ہے:
 امام صاحب نے ابن جریج کی معنعن روایت سے استدلال کیا ہے۔ (دیکھئے کتاب الرسالۃ للشافعی :ص۱۷۸، فقرہ ۴۹۸؛ ص۳۲۵ ،فقرہ۸۹۰ ؛ص۳۳۰ ، فقرہ ۹۰۳ ؛ص ۴۴۳ ،فقرہ۱۲۲۰)
حالانکہ ابن جریج سخت مدلس ہیں اور مجروحین سے بھی تدلیس کرتے ہیں۔ان کی ضعفا اور کذابین سے تدلیس کی وجہ سے محدثین ان کی مرویات کی خوب جانچ پرکھ کیا کرتے تھے۔جس کی تفصیل (مُعجم المدلسین للشیخ محمد بن طلعت: ص۳۱۱ تا۳۲۰؛ التدلیس فی الحدیث للشیخ مسفر:ص۳۸۳ تا ۳۸۶؛ بھجة المنتفع للشیخ أبی عبیدة: ص۴۱۶تا۴۲۲ )میں ملاحظہ فرمائیں۔
اسی طرح دوسری جگہ مشہور مدلس ابوالزبیر محمدبن مسلم بن تدرس کی معنعن روایت سے اِستدلال کیا ہے۔ دیکھئے کتاب( الرسالۃ :ص۱۷۸ ،فقرۃ۴۹۸ ؛  ص۳۲۴ ،فقرۃ۸۸۹)
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اگرامام شافعیؒ کے نزدیک مدلسین کی روایات سماع کی تصریح کے بغیر قابل اعتبار نہیں تھیں تو پھر امام شافعیؒ نے ان دونوں اور دیگر مدلسین کی معنعن روایات سے استدلال کیوں کیاہے؟
امام شافعیؒ کے موقف کی وضاحت
امام شافعیؒ کے موقف کے بارے میں شیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن سعدؒ فرماتے ہیں:  ’’یہ کلام صرف نظریات کی حد تک ہے بلکہ ممکن ہے کہ امام شافعیؒ نے خود اس پر عمل نہ کیا ہو۔ اُنھوں نے اپنی اسی کتاب (الرسالۃ) میں متعدد مقامات پر ابن جریج کی معنعن روایت سے احتجاج کیا ہے۔اس حدیث میں امام شافعیؒ نے ابن جریج کی اپنے شیخ سے صراحت ِسماع ذکر نہیں کی، ایسے ہی ابوالزبیر کا معاملہ ہے‘‘۔
اسی طرح شیخ ناصر بن حمد الفھد ؒرقم طراز ہیں:  ’’ائمۂ حدیث امام شافعیؒ کے اس قول کی موافقت نہیں کرتے جیسا کہ امام احمد، امام ابن مدینی، امام ابن معین اور امام فسوی رحمہم اللہ اجمعین کا موقف ہے۔ امام شافعیؒ اُمت کے فقہا اور علمائے اسلام میں سے ہیں، مگر حدیث کے بارے میں ان کی معرفت ان حفاظ جیسی نہیں ہے، اور اگر ہم امام شافعیؒ کے قول کا اعتبار کریں تو ہمیں ایسی صحیح احادیث بھی ردّ کرنا ہوں گی جنہیں کسی نے بھی ردّ نہیں کیا یہاں تک کہ (امام شافعیؒ کی موافقت میں)  شوافع نے بھی ردّ نہیں کیں بلکہ اُنہوں نے مدلسین کے مراتب قائم کیے ہیں‘‘۔ (معجم المدلسین شیخ محمد طلعت: ص۲۱۶،۲۱۷)
امام شافعیؒ کے قول کے جواب میں شیخ ابوعبیدہ مشہور بن حسن ؒنے بھی اسی قسم کا جواب دیا ہے۔ دیکھئے (التعلیق علی الکافی فی علوم الحدیث للأردبیلی:ص۳۸۹)
علامہ زرکشیؒ کا نقد آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ اُنہوں نے امام شافعیؒ کے اس قول کو غریب کہا ہے۔ ان تمام اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعیؒ کا یہ موقف محل نظر ہے۔
اس کے بعد جناب زئی صاحب نے امام شافعیؒ کا دوسرا مؤقف بیان کرتے ہوئےاس کی تائید میں بعض ائمہ محدثین کے اقول رقم کرکے امام شافعیؒ کے مؤقف کو جمہورکے موافق ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جناب زئی صاحب رسالہ ماہنامہ محدث لاہور ،شمارہ۳۴۳ ،طبع جنوری۲۰۱۱، صفحہ نمبر۹۷میں لکھتے ہیں:
’’امام شافعی کے بیان کردہ اس اُصول سے معلوم ہوا کہ جس راوی سے ساری زندگی میں ایک دفعہ تدلیس کرنا ثابت ہو جائے تو اُس کی عن والی روایت قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ 
۱۔ ابن رجب حنبلی (متوفی ۷۹۵ھ) نے لکھا ہے: ''ولم يعتبر الشافعي أن يتکرر التدليس من الراوي ولا أن يغلب علی حديثه،بل اعتبر ثبوت تدليسه ولو بمرۃ واحدة''۔ ''اور شافعیؒ نے اس کا اعتبار نہیں کیا کہ راوی بار بار تدلیس کرے اور نہ اُنھوں نے اس کا اعتبار کیا ہے کہ اس کی روایات پر تدلیس غالب ہو، بلکہ اُنھوں نے راوی سے ثبوتِ تدلیس کا اعتبار کیا ہے اور اگرچہ ( ساری زندگی میں ) صرف ایک مرتبہ ہی ہو''۔ (شرح علل الترمذی :۱؍ ۳۵۳، طبع  دار الملاح للطبع والنشر)
۲۔ امام شافعی اس اصول میں اکیلے نہیں بلکہ جمہور علماء ان کے ساتھ ہیں لہذا زرکشی کا''وہو نص غریب لم یحکمہ الجمہور''۔ (النکت:ص١٨٨)
یہ کہنا غلط ہے اگر کوئی شخص اس پر بضد ہے کہ اس منھج اور اصول میں امام شافعی اکیلے تھے یا جمہور کے خلاف تھے! تو وہ درج ذیل اقتباسات پر ٹھنڈے دل سے غور کرے:
''امام ابو قدید عبیداللہ بن فضالہ النسائی (ثقہ مامون )سے روایت ہے کہ (امام )اسحق بن راھویہؒ نے فرمایا:
میں نے احمد بن حنبلؒ کی طرف لکھ کر بھیجا اور درخواست کی کہ وہ میری ضرورت کی ضرورت کے مطابق (امام)شافعیؒ کی کتابوں میں سے (کچھ )بھیجیں تو انھوں نے میرے پاس الرسالہ بھیجی''۔
(کتاب الجرح والتعدیل :٧/٢٠٤وسندہ صحیح ،تاریخ دمشق لابن عساکر :٥٤/٢٩١۔٢٩٢،نیز دیکھئے مناقب الشافعی للبیھقی :١/٢٣٤وسندہ صحیح)
اس اثر سے معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کتاب الرسالہ سے راضی (متفق)تھے اور تدلیس کے اس مسئلے میں ان کی طرف سے امام شافعی رحمہ اللہ پر رد ثابت نہیں ،لہٰذا ان کے نزدیک بھی مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہے چاہے قلیل التدلیس ہو یا کثیر التدلیس‘‘۔(ماہنامہ محدث لاہور :شمارہ۳۴۳ ،طبع جنوری۲۰۱۱، صفحہ نمبر۹۶-۹۷)
زئی صاحب ایک اورجگہ لکھتے ہیں: ’’امام اسحٰق بن راہویہؒ کے پاس امام شافعیؒ کی کتاب الرسالہ پہنچی،لیکن انھوں نے تدلیس کے اس مسئلے پر کوئی رد نہیں فرمایا،جیسا کہ کسی روایت سے ثابت نہیں ،لہذا معلوم ہوا کہ وہ تدلیس کے مسئلے میں امام شافعیؒ کے موافق تھے‘‘۔(ماہنامہ محدث لاہور:شمارہ۳۴۳ ،طبع جنوری۲۰۱۱، صفحہ نمبر۹۹)
جواب: یہ کس طرح کی تحقیق ہوئی کہ جمہورمحدثین کو ثابت کرنے کی خاطر اس طرح کا طریقہ اپنایا جائے۔محدثین کا کسی کتاب سے استفادہ کرنےیا اس کتاب کی تعریف کردینے سےیا پھر اس مسئلے پر رد نہ کرنے سے یہ کیسےلازم ہوگیا کہ اس کتاب میں جو کچھ بھی لکھاہے ان سب چیزوں سے وہ متفق ہیں۔زبیرعلی زئی صاحب اس اندازسے استدلال کرنے میں اکیلے ہیں کیونکہ سلف و خلف میں ان کا ساتھی کوئی بھی نہیں۔کیا کوئی شخص ہمیں دکھاسکتا ہے کہ امام شافعی ؒسے لے کرآج تک کسی عالم محدث نے اس طریقے سے امام شافعیؒ کے موقف کی تائید میں استدلال کیا ہواور کہا ہو کہ امام احمد ؒاورامام اسحق بن راہویہ ؒکا بھی امام شافعیؒ والا موقف ہے؟ اور دلیل کے طورپرامام شافعیؒ کے ساتھ امام احمدؒ یا امام اسحٰق بن راہویہؒ کایہ حوالہ پیش کیا ہو اس طریقے سے جرح و تعدیل کے اصول ثابت کرنے والوں کی تحقیق کیا گل کھلائے گی اﷲہی جانے۔
حافظ زبیر علی زئی صاحب نے ابن رجب حنبلیؒ کی کتاب شرح علل الترمذی ، طبع  دار الملاح للطبع والنشراور دیگر حوالاجات پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ تدلیس کے متعلق ان ائمہ محدثین کا بھی یہی خیال ومسلک ہے جو امام شافعیؒ کا ہےحالانکہ ان ائمہ محدثین کی ان کتب کا صحیح سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ آتی ہے کہ ان ائمہ کرامؒ کو ان کتابوں میں مدلسین کی روایات کے قبول یا رد کرنے کے بارے میں چند مذاہب بیان کرنے مقصود تھے نہ کہ اپنی رائےکا اظہارکرنا مقصود تھا اوریہ مذاہب ’’النکت‘‘ میں حافظ ابن حجراسقلانیؒ نے بھی بیان کیئے ہیں، جیساکہ:
۱۔ بعض اہلحدیث کا مسلک تو یہ ہے کہ مدلس کی کوئی روایت مقبول نہیں اگرچہ سماع کی تسریح بھی کردے۔اس مسلک پر امام شافعیؒ کا قول پیش کیا جاچکاہے۔
۲۔ بعض اہلحدیث کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی نے تدلیس کی تو جب تک وہ سماع کی تسریح نہ کرے تب تک اس کی روایت مقبول نہیں۔اس مسلک پر بھی امام شافعیؒ کا قول پیش کیا جاچکا ہے۔
۳۔ بعض اہلحدیث کا مسلک یہ ہے کہ اگر صرف ثقہ سے تدلیس کرتا ہے تو اس کی روایت مقبول ہے ورنہ سماع کی تسریح کے بغیراس کی روایت مقبول نہیں۔یہ مسلک امام بزارؒ، حسین کرابسیؒ اور ابو الفتح الازدی ؒکا ہے۔
۴۔ مدلس اگرثقہ ہے تو اس کا عنعنہ بھی مطلقاًمقبول ہے۔ حافظ ابن حزمؒ کا اغلب احوال میں اور بعض دوسرے اہلحدیث کا یہی مذہب ہے۔
۵۔ اگر مدلس کی روایات میں تدلیس غالب ہے تو اس صورت میں اس کا عنعنہ مقبول نہیں جب تک کہ حدثناوغیرہ کے صیغے نہ کہےاس کی روایت حجت نہیں۔یہ مسلک امام علی ابن المدینیؒ وغیرہ کا ہے۔امام المحدثین کا میلان بھی اسی جانب ہے۔ حافظ ذہبیؒ، العلائی ؒاور حافظ ابن حجرؒبھی اس پر کاربند ہیں اور اسی بناء پر انہوں نے مدلسین کی طبقاتی تقسیم کی اور تدبرسے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جمہورکا مسلک بھی یہی ہے۔
امام شافعی ؒ کے مؤقف کا رد علماءِ غیرمقلدین کی کتب سے
مندرجہ بالاتحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب کاامام شافعیؒ کے قول سے استدلال بالکل غلط ہے، اس لئے کہ اس نظریہ کو اپنانے میں بے شمار صحیح احادیث کو ضعیف کہا جائے گا حالانکہ وہ محدثین کے ہاں صحیح تھیں۔ مشہور غیرمقلد محدث العصرشیخ سیدمحب اﷲشاہ راشدی سندھیؒ زبیر علی زئی صاحب کی اس ناقص تحقیق کے رد میں لکھتےہیں: ’’ لیکن اگر اس موقف کو سامنے رکھ کر ہم دواوین حدیث کو تلاش کرنا شروع کردیں تو بہت سی روایات جن کو سلف سے لے کر خلف تک صحیح ومتصل قرار دیتے آئے ہیں ان میں سے اچھی خاصی تعداد ضعیفہ بن جائے گی ‘‘۔ (مقالات راشدیہ: ج۱، ص۳۲۸)
مندرجہ بالا تمام دلائل کے باوجود بھی بقول زبیر علی زئی صاحب کے اگر حق امام شافعیؒ کے قول میں ہے تو پھرامام شافعیؒ کے قول کے مطابق مدلسین کی تمام روایات ضعیف ثابت ہوجاتی ہیں، لہٰذاصحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود جتنی بھی عن سےبیان کردہ روایات موجود ہیں، امام شافعیؒ کے قول کے مطابق سب کی سب ضعیف ہوگئیں۔زبیر علی زئی صاحب کے اس استدلال پر میری تمام غیرمقلدین حضرات سے گزارش ہے کہ اب وہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کوضعیف بخاری و ضعیف مسلم کہنا شروع کردیں اوراس کے اصح الکتب ہونے کاانکار کردیں۔ دیدہ باید!
موجودہ دور میں غیرمقلدین کی ایک نئی قسم دریافت ہوئی ہے جو اپنے آپ کو جماعت المسلمین کے نام سے متعارف کراتے ہیں۔ فرقہ غیرمقلدین جماعت المسلمین کے بانی جناب مسعود احمدصاحب (بی ایس سی) اپنی کتاب اصول حدیث میں لکھتے ہیں:
’’مدلس راوی نے خواہ وہ امام ہو یا محدث ہی کیوں نہ کہلاتا ہواپنے استاد کا نام چھپا کراتنابڑا جرم کیا ہے کہ الامان الحفیظ۔۔۔ اس نام نہادامام یا محدث کو دھوکے باز کذاب کہا جائے گا۔علماء اب تک اس راوی کی وجہ سےجس کا نام چھپادیا گیامدلس کی روایت کو ضعیف سمجھتے رہے لیکن اس دھوکے باز کذاب کو امام یا محدث ہی کہتے رہے۔ انھوں نے کبھی یہ سوچنے کی تکلیف گوارہ نہیں کی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں یا ان سےکیا کہلوایا جارہا ہے۔ افسوس تقلید نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچادیا‘‘۔(اصولِ حدیث:ص ۱۳، ۱۴)
’’کسی مدلس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ حدثناکہہ کرحدیث روایت کرےتو اس کی بیان کردہ حدیث صحیح ہوگی۔ یہ اصول صحیح نہیں ہے اس لئے کہ مدلس راوی کذاب ہوتا ہےلہٰذاوہ عن سے روایت کرے یاحدثنا سے روایت کرےوہ کذاب ہی رہے گا۔اس کی بیان کردہ حدیث ضعیف بلکہ موضوع ہوگی۔یعنی مدلس کا نہ عنعنہ صحیح ہے اور نہ تحدیث‘‘۔ (اصولِ حدیث:ص  ۱۸)
فرقہ غیرمقلدین جماعت المسلمین کے بانی جناب مسعود احمدصاحب کی یہ تحریر امام شافعیؒ کےاس قول کے بالکل موافق ہےکہ ''فقلنا:لا نقبل من مدلّس حديثًا حتی يقول فيه:حدثني أو سمعت''۔ ''پس ہم نے کہا:ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے، حتیٰ کہ وہ حدثنی یاسمعت کہے''۔   (الرسالۃ: ص۱۰۳۵)
بقول زبیر علی زئی صاحب کے اگر حق امام شافعیؒ کے قول میں ہے تو پھر انہیں جناب مسعود احمد صاحب کی تحریر کو بھی حق کہہ کرقبول کرلینا چاہیئے تھالیکن موصوف نے مسعود صاحب کےمؤقف کے رد میں رسالہ لکھ ڈالاجس میں فن تدلیس پرلکھی گئی کتب کے نام درج کرتےہوئے تنظیہ انداز میں خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’تدلیس اور فن تدلیس کا ذکرتمام کتب احادیث میں ہے۔ بہت سے علماء نے اس فن میں متعدد کتابیں، رسالے اور منظوم قصائدتصنیف کئے ہیں۔مگر افسوس کہ محدثین کی یہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں‘‘۔(ماہنامہ الحدیث: شمارہ۳۳ ،صفحہ نمبر۲۶)
کیسی عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو زئی صاحب امام شافعیؒ کے ایک قول کو حق کہتے ہوئےاس کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن دوسری طرف امام شافعیؒ کےدوسرے قول سے استدلال کرنے والے مسعود احمد صاحب کے مؤقف کو رد کرنے میں تمام ائمہ محدثین کی کتب کے حوالے پیش کرتےہیں۔یہ کس طرح کی تحقیق ہوئی کہ جب سفیان ثوریؒ کی ترکِ رفع یدین والی حدیث کی بات آئی تو امام شافعیؒ کے بیان کردہ دوطبقات کو حق کہہ کراستدلال کرلیا اورباقی تمام محدثین کے بنائے ہوئے طبقات کوغلط قرار دیدیا لیکن جب امام شافعیؒ کے قول کے مطابق باقی تمام مدلسین پرانگلی اٹھی تو امام شافعیؒ کے قول کو چھوڑ کردیگر محدثین کے بنائے ہوئے طبقات کا ذکر کرکے اس سے استدلال کرلیا، کیا یہ ان کے قول و فعل میں کھلا تضاد نہیں۔ یہ ان کے باطل استدلال اورمسلک پرستی کی واضح دلیل ہے۔
جب ۱۵ ہویں صدی کا ایک عدناعالم حافظ ابن حجرؒ اور دیگرثقہ و متقن علماءجیسے جیدمحدثین کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط کو غلط کہتے ہوئے امام سفیان ثوریؒ جیسےجلیل القدر ثقہ امام کی تدلیس پر شک کرےگا تو پھر کسی بھی ثقہ امام کی تدلیس کی ثقاہت و عدالت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے اس کی ایک واضح مثال فرقہ غیرمقلدین جماعت المسلمین کے بانی جناب مسعود احمد (بی ایس سی) کی پیش کردہ تحریرہے۔اگر مدلسین کے طبقات کا انکار کردیا جائے تو پھرکسی بڑےسےبڑے ثقہ امام کی ثقاہت و عدالت باقی نہ رہے گی، پھر نہ صحیح بخاری پر اعتماد باقی رہے گا اور نہ صحیح مسلم پرکیوں کہ ان اصح الکتب میں تدلیس کی بے شمار احادیث رقم ہیں۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں درج مدلسین کی روایات کے بارے میں اس اشکال پر زبیرعلی زئی صاحب فرماتے ہیں: ’’ان دو کتابوں کو امت کی تلقی بالقبول حاصل ہے لہٰذاان دوکتابوںمیں مدلسین کی روایات سماع،متابعات اور شواہدمعتبرہ کی وجہ سےصحیح ہیں‘‘۔(ماہنامہ الحدیث: شمارہ۶۷ ،صفحہ نمبر۲۷)
زبیرعلی زئی صاحب کے اس بے ربط جواب پر مزیدکئی اشکالات اٹھتے ہیں جن میں سے چند پیش خدمت ہیں:
۱۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو امت کی تلقی بالقبول امام شافعیؒ کے وصال کے کافی عرصہ بعد حاصل ہوئی ہے، جبکہ زبیرعلی زئی صاحب امام شافعیؒ کے جن اقوال سے مدلسین کی طبقاتی تقسیم کو حق قرار دے رہے ہیں  اس زمانے میں ان کتابوں کا وجود بھی نہیں تھا۔ہاں اگر صحیح بخاری اور صحیح مسلم امام شافعیؒ کے زمانے میں لکھی جاچکی ہوتیں اور امام شافعیؒ نے ان کتابوں میں درج مدلسین کی روایات کو اپنے اقوال سے مستثنیٰ قرار دیا ہوتا تب تو زئی صاحب کی دلیل قابل قبول تھی لیکن یہ کتابیں امام شافعیؒ کی بیان کردہ طبقاتی تقسیم کے کافی بعد لکھی گئیں لہٰذا بقول زئی صاحب کے اگرامام شافعیؒ کی تقسیم کو حق مان لیا جائے تو ان کتابوں میں درج مدلسین کی تمام روایات پرامام شافعیؒ کی طبقاتی  تقسیم کا اطلاق ہوگا۔
۲۔ بقول زبیرعلی زئی صاحب کےاگر ان دوکتابوں میں مدلسین کی روایات سماع، متابعات اور شواہد معتبرہ کی وجہ سے صحیح ہیں تو پھرسوال یہ پیداہوتا ہے کہ محدثین کو روایات المدلسین فی صحیح البخاری اور روایات المدلسین فی صحیح مسلم لکھنے کی کیا ضرورت تھی جن میں محدثین نے مدلسین کے طبقات بھی بیان کئے اور ان کی طبقاتی تقسیم بھی پیش کی اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ روایات المدلسین فی صحیح البخاری اور روایات المدلسین فی صحیح مسلم میں بھی امام سفیان ثوریؒ کو طبقہ ثانیہ میں ہی لکھا ہےجو اس بات کی دلیل ہے کہ صحیح بخاری و مسلم میں درج امام سفیان ثوریؒ کی تدلیس والی روایات ان کے طبقہ ثانیہ کے مدلس ہونے کی بناء پر ہی شامل کی گئی ہیں۔
حافظ الحدیث ابوعبداللہ محمد بن مندہؒ (ولادت ۳۱۰ھ، وفات ۳۹۵ھ) نےبھی امام بخاریؒ کو مدلسین میں شمار کیا ہے: "عدہ ابوعبداللہ محمد بن مندہ فی رسالة شروط الائمة من المدلسین حیث قال اخرج البخاری فی کتبه قال لنا فلان وھی اجازة و قال فلان وھی تدلیس"۔ ‏’’ ابوعبداللہ محمد بن مندہؒ نے بخاریؒ کو اپنے رسالہ "شروط الائمہ" میں مدلسین میں شمار کیا ہے۔ چناچہ فرمایا کہ بخاری نے اپنی کتابوں میں اس طرح روایتیں بیان کی ہیں کہ ہم نے فلاں سے کہا "یہ اجازت ہے" اور فلاں نے کہا"یہ تدلیس ہے"‘‘۔ (شرح مختصر جرجانی: ص ۲۱۵)
بقول زئی صاحب کے کیاقلیل اور کثیر تدلیس کے درمیان فرق کرنا عرب علماء نے شروع کیا ہے؟
زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں: ’’ہمارا موقف یہ ہے کہ مدلس راوی کثیر التدلیس ہو یا قلیل التدلیس، ساری زندگی میں اُس نے صرف ایک دفعہ تدلیس الاسناد کی ہو اور اُس کا اس سے رجوع و تخصیص ثابت نہ ہویا معتبر محدثین کرام نے اسے مدلس قرار دیا ہو تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں میں ایسے مدلس کی غیر مصرح بالسماع اور معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے، اِلا یہ کہ اس کی معتبر متابعت، تخصیصِ روایت یا شاہد ثابت ہو‘‘۔
’’بعض شاذ اقوال لے کر کثیر التدلیس اور قلیل التدلیس کا شوشہ چھوڑ دیا ہے، جس سے اُنھوں نے اُصولِ حدیث کے اس مشہور اور اہم مسئلے کو لٹھ مار کر غرق کرنے کی کوشش کی ہے ‘‘۔(ماہنامہ محدث لاہور :شمارہ۳۴۳ ،طبع جنوری۲۰۱۱، صفحہ نمبر۹۷)
جواب: زبیرعلی زئی صاحب کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ قلیل اور کثیر تدلیس کے درمیان فرق کرناپندرھویں صدی میں کچھ عرب علماء نے شروع کر دیا ہے۔ان کی یہ بات بالکل غلط ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس اصول کو رَدّ کرنا ہو وہاں بڑی دلیری سے کہہ دیا کہ یہ اصول اب کی ایجاد ہے اور جس اصول کو خود اپنانا ہو وہاں بے بنیاد باتوں سے عمارت کھڑی کرکے اپنا اصول ثابت کرلیا ، اس کی متعدد مثالیں پچھلے جوابات میں گزرچکی ہیں۔ موصوف کایہ الزام بھی بہرحال درست نہیں ہے زیر بحث اصول میں بھی کچھ ایسی ہی صورت نظر آتی ہے کیونکہ قلیل اور کثیر تدلیس کے درمیان فرق کرنا متقدمین محدثین بڑے بڑے ائمہ سے صراحت کے ساتھ سے ثابت ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے غیرمقلد عالم حافظ خبیب احمد الاثری کی کتاب (مقالات اثریہ:ص۲۰۷-۲۱۶) کے اسکین صفحات جوکہ ذیل میں پیش ہیں۔
نیز قلیل و کثیرتدلیس میں فرق توخود زبیرعلی زئی صاحب کے استاذجناب بدیع الدین شاہ راشدی، حافظ محمد صاحب گوندلوی اور محب اللہ شاہ راشدی رحمھما اللہ بھی کرتے تھےتو کیا یہ بھی عرب علماء ہیں؟
۱۔ جناب بدیع الدین شاہ راشدی سندھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ابن عیینہ کی تدلیس مرتبہ ثانیہ کی تدلیس ہے اور محدثین کے نزدیک اس کی معنعن روایت مقبول ہے‘‘۔ (کما فی طبقات المدلسین لابن حجر:ص۲؛ نشاط العبدص۱۶)
۲۔ بدیع الدین شاہ راشدی صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’یہ کہ سفیان ثوری اول درجے کے مدلسین میں سے ہیں اور بقاعدہ محدثین ان کی تدلیس مقبول ہوگی اگرچہ سماع کی تصریح نہ کریں‘‘۔ (اہل حدیث کے امتیازی مسائل:ص۳۴)
۳۔ محترم حافظ گوندلوی صاحب لکھتے ہیں: تدلیس کے متعلق محقق مسلک یہی ہے کہ جس سے تدلیس بکثرت ثابت ہواگرچہ ثقہ ہی کیوں نہ ہوجب تک سندمیں ایسا لفظ نہ بولے جس سے سماع کا پتہ چلتا ہواس وقت تک اس کی سندصحیح نہیں ہے‘‘۔(خیرالکلام:ص۴۶)
۴۔ محترم محبّ اﷲ شاہ راشدی صاحب لکھتے ہیں: ’’جب امام بخاریؒ نے فرمایاکہ ان کی تدلیس کتنی قلیل و نادرہے۔ لہٰذااگر ایسے قلیل التدلیس اورحجۃوامام و امیرالمومنین فی الحدیث کی معنعنہ روایت بھی غیرمقبول ہوگی تواور کس کی مقبول ہوگی؟‘‘۔ (مقالات راشدیہ: ج۱، ص۳۲۵)
قلیل اور کثیر تدلیس کے درمیان فرق کرنےوالے ائمہ محدثین
۱۔ امام ابن معینؒ ربیع بن صبیح کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ربمادلس‘‘۔ ’’وہ کبھی کبھار تدلیس کرتا ہے‘‘۔ (التاریخ لابن معین، فقرۃ:۳۳۴- الدارمی)
اسکا مطلب کہ وہ تدلیس کی کمی بیشی کے قائل تھے، ورنہ ’’ربما‘‘ کی صراحت بے معنی ہوگی۔
۲۔ امام علی بن المدینیؒ امام یعقوب بن شیبہؒ کے استفسارپرفرماتے ہیں: ’’اذاکان الغالب علیہ التدلیس فلاحتی یقول: حدثنا‘‘۔ ’’جب تدلیس اس پر غالب آجائے تو تب وہ حجت نہیں ہوگا، یہاں تک کہ وہ اپنے سماع کی توضیح کرے‘‘۔ (الکفایۃ للبغدادی: ج۲، ص۳۸۷-اسناد صحیح-التمھیدلابن عبدالبر: ج۱، ص۱۸)
امام علی بن المدینیؒ کے کلام کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ قلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہوگا،الّا یہ کہ اس میں تدلیس ہو۔
۳۔ حافظ ابن رجب ؒامام شافعیؒ کا قول(ہرمدلس کا عنعنہ مردود ہوگا)ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’امام شافعیؒ کے علاوہ دیگرمحدثین نے راوی کی حدیث کے بارے میں تدلیس غالب ہونے کا اعتبارکیا ہے، جب تدلیس اس پر غالب آجائے گی تواس کی حدیث اس وقت قبول کی جائے گی جب وہ صراحت ِسماع کرے۔یہ علی بن المدینی ؒ کا قول ہے جسے یعقوب بن شیبہؒ نے بیان کیاہے‘‘۔(شرح علل الترمذی لابن رجب: ج۲، ص۵۸۳)
حافظ ابن رجبؒ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا رجحان بھی علی المدینیؒ وغیرہ کی طرف تھا۔
۴۔ اما م ابوداؤدؒ نے امام احمدؒسے اس شخص کے بارے میں پوچھا، جو تدلیس کی وجہ سے معروف ہے کہ جب وہ ’’سمعت‘‘ نہ کہےتو کیا قابل اعتماد ہوگا؟
امام احمدؒ نے فرمایا: ’’مجھے نہیں معلوم‘‘۔
امام ابوداؤد ؒنے پوچھا: ’’اعمش کی تدلیس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کے لئے الفاظ کیسے تلاش کئے جائیں گے؟ (ان کی ان مرویات کو کیسے اکٹھاکیا جائےگاجن میں سماع کی صراحت نہیں)
امام احمدؒ نے جواباًفرمایا: ’’یہ بڑامشکل کام ہے‘‘۔
امام ابوداؤدؒنے فرمایا:’’أی انک تحتج بہ‘‘۔ ’’آپ اعمش کی معنعن روایات کو قابل اعتماد گردانتے ہیں‘‘۔ (سوالات ابی داؤدللامام احمد:ص۱۹۹، فقرۃ: ۱۳۸)
امام احمدؒ اعمش کا عنعنہ رد نہیں کررہےجو مشہوربالتدلیس ہیں،تو اس کالازمی تقاضہ یہ ہے کہ وہ قلیل التدلیس راوی کے عنعنہ کو بالاولی سماع پر محمول کرتےہیں۔
۵۔ امام بخاریؒ بھی قِلتِ تدلیس کے قائل ہیں۔ امام بخاریؒ سفیان ثوریؒ کے بارے میں فرماتےہیں: ’’ولا اعرف لسفیان الثوری عن حبیب بن ابی ثابت ولاعن سلمۃ بن کھیل ولا عن منصوروذکرمشایخ کثیرۃ، ولاأعرف لسفیان عن ھؤلاءتدلیساً ما أقل تدلیسہ‘‘۔ (علل الترمذی:ج۲، ص۹۶۶؛ التمھیدلابن عبدالبر:ج۱، ص۳۵؛ جامع التحصیل للعلائی: ص۱۳۰؛ النکت لابن حجر: ج۲،ص۶۳۱)
امام بخاریؒ کا یہ قول دلالت کرتا ہےکہ تدلیس کی کمی اور زیادتی کا اعتبارکیا جائے گا۔کیونکہ انھوں نے یہ نہیں فرمایاکہ سفیان ثوریؒ جن استاذسے تدلیس نہیں کرتے تھےان سے معنعن روایات بھی بیان نہیں کرتے تھے، بلکہ یہ فرمایا کہ: ’’سفیان ثوریؒ کی ان شیوخ سے تدلیس میں نہیں جانتا۔ اس کی تدلیس کتنی کم ہے‘‘۔
امام بخاریؒ یہ جانتے تھے کہ سفیان ثوریؒ مدلس ہیں، انھوں نے سفیان ثوریؒ کی سبھی روایات کا استقراکیا اورپھر یہ نتیجہ نکالاکہ امام سفیان ثوریؒ قلیل التدلیس ہیں، لہٰذا ان کا عنعنہ قبول کیا جائے گا۔ مدلس روایت اس سے مستثنیٰ ہوگی۔اگر وہ انھیں کثیرالتدلیس سمجھتے تو اس طویل بحث کا کیا فائدہ تھا؟
زبیرعلی زئی صاحب اپنے رسالہ ماہنامہ الحدیث: شمارہ۶۷ ،صفحہ نمبر۲۸ پر لکھتے ہیں: ’’سفیان ثوریؒ کثیرالتدلیس تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے عالم مسفربن غزم اﷲالدمینی نے لکھ ہےسفیان ثوریؒ کی تدلیس بہت زیادہ ہے“۔ (ماہنامہ الحدیث: شمارہ۶۷ ،صفحہ نمبر۱۲)
صبح شام بخاری بخاری کا دم بھرنے والوں  نے آج بخاری کا ہی ساتھ چھوڑ دیا ۔ حیرت کی بات ہے کہ زبیر علی زئی صاحب نے ایک عرب علم کے قول کو سچ تسلیم کرتے ہوئے امام بخاریؒ کو جھوٹا ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش کی۔امام بخاریؒ فرماتے ہیں: ’’ما أقَلَّ تدلیسہ‘‘۔ ان کی (سفیان ثوریؒ) کی تدلیس بہت قلیل و نادر ہے‘‘۔ (خلاصۃالمقال فی اسماءالمدلسین من الرجال:ص۲۰) (التدلیس والمدلسوں: ص۱۰۴)(اتحاف ذوی الرسوخ بمن رمی بالتدلیس من الشیوخ: ص۲۶) (علل الترمذی:ج۲، ص۹۶۶) ( التمھیدلابن عبدالبر:ج۱، ص۳۵) (جامع التحصیل للعلائی: ص۱۳۰) (النکت لابن حجر: ج۲،ص۶۳۱) (مقالات راشدیہ: ج۱، ص۳۲۵)
مندرجہ بالا تمام حوالاجات کی موجودگی میں زبیرعلی زئی صاحب اور ان کےمتبعین سے گزارش ہے کہ یاتو اس بات کا اعتراف کرلیں کہ زئی صاحب نے ایک عرب عالم کی اندھی تقلید کرتے ہوئےجھوٹ بولا تھا اور اپنے اس جھوٹ سے رجوع کرلیں یا پھر یہ کہہ دین کہ ان کی بات سچ ہے اور امام بخاریؒ نے (نعوذباﷲ) جھوٹ بولا ہے۔
۶۔ امام مسلم رحمۃ اللہ تو اس مدلس کے معنعن روایت پر نقد کرتے ہیں جو تدلیس میں معروف و مشہورہو ۔امام مسلم فرماتے ہیں: ’’إنما کان تفقد من تفقد منھم سماع رواة الحدیث ممن روی عنھم إذا کان الراوي ممن عرف بالتدلیس في الحدیث وشھر به، فحینئذ یبحثون عن سماعه في روایته ویتفقدون ذلك منه،کي تنزع عنهم علة التدلیس ‘‘۔’’ محدثین نے جن راویوں کے اپنے شیوخ سے سماع کا تتبع کیا ہے، وہ ایسے راوی ہیں جو تدلیس کی وجہ سے شہرت یافتہ ہیں۔ وہ اس وقت ان کی روایات میں صراحت ِسماع تلاش کرتے ہیں تاکہ ان سے تدلیس کی علت دور ہوسکے‘‘۔(مقدمہ صحیح مسلم: ج١،ص٢۲، طبع مکتبہ دارالسلام)
امام مسلم ؒکا یہ قول اس بارے میں نص ِ صریح ہے کہ صراحت سماع ان راویوں کی تلاش کی جائےگی جو بہ کثرت تدلیس کرتے ہیں اور ان کی شہرت کی وجہ ان کا مدلس ہونا ہے۔گویاقلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہوگا، ماسوائے مدلس (تدلیس والی)روایت کے۔
حافظ ابن رجبؒ امام مسلمؒ کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس قول میں احتمال ہے کہ امام صاحب کا مقصودیہ ہے کہ اس راوی کی حدیث میں تدلیس کی کثرت ہو‘‘۔ (شرح علل الترمذی لابن رجب: ج۲، ص۵۸۳)
۷۔ امام ابو حاتمؒ عکرمہ بن عمارکے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وہ بسا اوقات تدلیس کرتا ہے‘‘۔ (الجرح و تعدیل:ج ۷، ص۱۱)
اور سوید بن سعیدکے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وہ بہ کثرت تدلیس کرتے ہیں‘‘۔ (الجرح و تعدیل:ج ۴، ص۲۴۰)
۸۔ امام ابو داؤدؒ محمد بن عیسیٰ الطباع کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وہ بسا اوقات تدلیس بھی کرتا ہے‘‘۔ (سوالات الاجری:ج ۲، ص۲۴۶، فقرۃ:۱۷۳۷)
اور مبارک بن فضالہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وہ شدیدالتدلیس ہیں‘‘۔(سوالات الاجری:ج ۱، ص۳۹۰)
۹۔ امام ابن سعیدؒ حمیدالطویل کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وہ بسا اوقات انس بن مالک سے تدلیس کرتےہیں‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ:ج ۷، ص۲۵۲)
اور مبارک بن فضالہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وہ بہ کثرت تدلیس کرتے ہیں‘‘۔(الطبقات الکبریٰ:ج ۷، ص۳۱۳)
۱۰۔ حافظ دارقطنیؒ یحییٰ بن کثیرکے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وہ بہ کثرت تدلیس کرتاہے‘‘۔(التتبع: ص۱۲۶)
ان ائمہ کرامؒ کے اقوال اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ائمہ محدثین کے ہاں تدلیس کی قلت اورکثرت کا اعتبارکیاجاتاتھا۔ ورنہ انھیں یہ صراحت کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ فلاں راوی قلیل التدلیس ہے اور فلاں کثیرالتدلیس۔وہ محض یہ کہہ دیتےکہ فلاں مدلس ہے ،بس اتنا ہی کافی تھا۔
جس طرح اصول حدیث کا یہ اصول ایک عدنا طالب علم بھی جانتا ہے کہ قلیل الخطأ اور کثیر الخطأ رواۃ کے مابین فرق کیا جاتا ہے اور قلیل الخطأ کی روایت کو بغیر کسی قرینہ کے رد نہیں کیا جاتا اسی طرح قلیل التدلیس رواۃ کی مرویات کو بھی کسی قوی قرینہ کے بغیر رد کرنا بالکل غلط ہے۔
مندرجہ بالاتحقیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ زبیر علی زئی صاحب کو صرف عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲعنہ کی حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے امام حجۃسفیان ثوریؒ کو طبقہ ثالثہ کا مدلس ثابت کرنے کی ضرورت تھی اسی لئے انہوں نے یہ ضرورت کبھی امام حاکمؒ کی اجناسی تقسیم سے بے ربط ثابت کرنے کی کوشش کی تو کبھی امام شافعیؒ کے اقوال کو جمہور محدثین کے موافق بتاکرپوری کی۔مگر زبیرعلی زئی صاحب کا یہ عجب وطیرہ ہےکہ مدلسین کی روایتوں کو قبول اور رد کرنے کے اصول تو حافظ ابن حجرؒکے ذکر کرتے ہیں، مگر جب تدلیس کی طبقاتی تقسیم کی بات ہو تو امام سفیان ثوریؒ کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ کو چھوڑ کر کبھی امام حاکم ؒ کی بیان کردہ تقسیم کا سہارا لیتے ہیں تو کبھی امام شافعیؒ کے اقوال کو حق کہہ کرطبقات المدلسین کا ہی انکار کردیتے ہیں ۔اب اسے علمی خیانت کہا جائے یا پھر دھوکہ بازی اس بات کا فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
یہاں اس بات کو بھی مدِنظر رکھنا ضروری ہوگا کہ محدثین نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ اگر مدلس کا کوئی متابع مل جائے تو الزامِ تدلیس ختم ہوجاتاہے اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی دو محدثین نے متابعت تامہ بھی کررکھی ہے۔
۱۔ امام ابوبکر النہشلی۔ (کتاب العلل للدار قطنی: ج۵، ص۱۷۱-۱۷۲، سوال۸۰۴)
’’وَلَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: ثِنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ: مَا رَأَيْت فَقِيهًا قَطُّ يَفْعَلُهُ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي غَيْرِ التَّكْبِيرَةِ الآُولَى‘‘۔ ’’ابن ابی داؤدؒ نے احمد بن یونسؒ سے انہوں نے امام ابوبکربن عیاش ؒ سےنقل کیاکہ میں نے کسی عالم فقیہ کو کبھی تکبیرافتتاح کے علاوہ رفع یدین کرتے نہیں پایا‘‘۔ (المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۹)
۲۔ اما م وکیع بن جراح۔ (التمہید لابن عبدالبر: ج۴، ص۱۸۹)
’’حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَصْحَابُ عَلِيٍّ، لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، قَالَ وَكِيعٌ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ‘‘۔ ’’امام بخاریؒ کے استاذامام ابوبکربن ابی شیبہؒ(۲۳۵ھ) حضرت ابواسحاق السبیعی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ اور حضرت علی رضی اﷲعنہ  کے ساتھی نماز میں صرف پہلی تکبیرکے وقت رفع الیدین کرتے تھےاور وکیع کی روایت میں ہے کہ پھردوبارہ رفع الیدین نہ کرتے تھے‘‘۔ (رواۃ ابن أبی شیبۃ فی المصنف وسندصحیح علی شرط الشیخین:ج۲، ص۶۰)

اعتراض نمبر۳: زبیرعلی زئی صاحب اپنے رسالہ ماہنامہ الحدیث: شمارہ۶۷،صفحہ نمبر۱۲ میں امام ابوحنیفہؒ پرضعیف راوی ہونے کا الزام لگاتے ہوئے سفیان ثوریؒ پرغیرثقہ راوی (یعنی امام ابوحنیفہؒ)سے تدلیس کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں اورلکھتے ہیں: ’’حافظ ذہبیؒ نے لکھا ہے: وہ (سفیان ثوری) ضعیف راویوں سےتدلیس کرتے تھے۔ اصول حدیث کا مشہورقاعدہ ہے کہ جو راوی ضعیف راویوں سے تدلیس کرےتو اس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔حافظ ذہبی نے لکھا ہے“۔ (ماہنامہ الحدیث: شمارہ۶۷ ،صفحہ نمبر۱۲)
جواب نمبر۳-۱: حافظ زبیرعلی زئی صاحب کے نزدیک حافظ ذہبیؒ کی کہی ہوئی بات اگر اتنی ہی معتبر اور صحیح ہے تو پھر موصوف ان کی صرف وہ بات کیوں قبول کرتے ہیں جس سے ان کا مطلب پورا ہوتا ہے، ان کی کہی ہوئی دوسری بات کیوں قبول نہیں کرتے؟حافظ ذہبیؒ نے اپنی اسی کتاب (سیراعلام النبلاء)جس کےحوالے سے زبیرعلی زئی صاحب نے سفیان ثوریؒ پرضعیف راویوں سے تدلیس کرنے کا الزام عائد کیا ہےاسی کتاب میں امام ابوحنیفہؒ کو ثقہ راوی قرار دیا ہے۔بڑے تعجب کی بات ہے کہ حافظ زبیرعلی زئی صاحب کو حافظ ذہبیؒ کی کتاب سیراعلام النبلاء میں امام سفیان ثوریؒ کاضعیف راویوں سے تدلیس کرنا تو نظرآیا لیکن امام ابوحنیفہؒ کا ثقہ راوی کہلوانا نظر نہیں آیا؟
جواب نمبر۳-۲: حافظ زبیرعلی زئی صاحب کی یہ عادت معلوم ہوتی ہے کہ انہیں اصول حدیث کے وہ قائدے قانون تو یاد رہتے ہیں جو ان کے حق میں جاتے ہیں لیکن موصوف وہ اصول بھول جاتے ہیں جن سےان کے نظریہ کی مخالفت ہوتی ہے۔ حافظ زبیرعلی زئی صاحب کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ جرح و تعدیل کے کچھ قوائد ہیں، جن کو مدِ نظر  رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ کسی بڑے  سے بڑے  محدث کی ثقاہت و عدالت ثابت  نہ ہو سکے گی، کیونکہ ہرمحدث پر کسی نہ کسی محدث کی جرح موجودہے۔ مَثَلاً :امام شافعیؒ پر امام یحییٰ بن معینؒ نے، امام احمدؒ پر امام کرابلیسیؒ نے، امام بخاریؒ پر امام ذہلیؒ نے، امام اوزاعیؒ پر امام احمدؒ نے جرح کی ہے، حتیٰ کہ ابنِ حزمؒ نے امام ترمذیؒ اور امام ابنِ ماجہؒ کو مجہول کہا، خود امام نسائیؒ پر تشیع کا الزام ہے۔کیا ان جرحوں کی بنیادپر ان کو مجروح یا ضعیف کہاجاتاہے؟اگر نہیں تو کیوں نہیں کہاجاتا؟
حافظ ابن الصلاحؒ  نے اصولِ حدیث پر اپنی مشہور و معروف کتاب علوم الحدیث میں تحریر کیا ہے : ’’علماء اہلِ نقل میں جس کی عدالت مشہور ہو اور ثقاہت و امانت میں جس کی تعریف عام ہو، اس شہرت کی بنا پر اس کے بارے میں صراحتا ًانفرادی تعدیل کی حاجت نہیں‘‘۔ (علوم الحدیث المعروف  بمقدمہ  ابن صلاح: صفحہ نمبر ١١٥)
شیخ لاسلام ابو اسحاق شیرازی شافعی(متوفی:۳۹۳۔۴۷۶ھ)اپنی کتاب اللمع فی اصول الفقہ میں لکھتے ہیں: ’’جرح و تعدیل کے باب میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ راوی کی یا توعدالت معلوم و مشہوریا اس کا فاسق ہونا معلوم ہوگایا وہ مجہول الحال ہوگا(یعنی اس کی عدالت یا فسق معلوم نہیں)تو اگر اس کی عدالت معلوم ہےجیسے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲعنھم اور افضل تابعین کی جیسے حضرت حسن بصریؒ،عطاءبن ابی رباحؒ، عامرشعبیؒ، ابراہیم نخعیؒ یا بزرگ ترین فقہا جیسےامام مالکؒ، امام سفیان ثوریؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ، امام اسحاق بن راہویہؒ اور جو ان کے ہم درجہ ہیں۔ تو ان کی خبرضرور قبول کی جائے گی اور ان کی عدالت وتوثیق کی تحقیق ضروری نہ ہوگی‘‘۔ (اللمع فی اصول الفقہ: ص۴۱، مطبوعہ مصطفیٰ البانی الحلیٰ بمصر۱۳۵۸ھ) (اللمع فی اصول الفقہ: ص۱۶۳۔۱۶۴، ۴۸۰، باب القول فی الجراح و التعدیل، فصل ۲۰۷، مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، بیروت)
اصولِ جرح و تعدیل
پہلا اصول:  جو جرح مفسر نہ ہو یعنی اس میں سببِ جرح تفصیل سے بیان نہ کیا گیا ہو تو تعدیل اس پر مقدم رہتی ہے (یعنی قائم رہتی ہے)۔ اور وہ سبب (جرح کے لئے معقول اور) متفق علیہ ہو۔ (مقدمہ اعلاالسنن : ٣/٢٣,  فتاویٰ علمائے حدیث : ٧/٧٢ )
 دوسرا اصول: جارح ناصح ہو، نہ متشدد ہو، نہ متعنت ہو، نہ ہی متعصب ہو۔
تیسرا اصول : جس شخص کی امامت و عدالت حدِ تواتر کو پہنچی ہو تو اس کے بارے میں چند افراد کی جرح معتبر نہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ صحیح بخاری ایسی بے نظیر کتاب ہے کہ کتب حدیث میں اصح الکتب مانی گئی ہی اور اس پر دنیا کا اتفاق ہے اور واقعی حضرت امام بخاریؒ نے بڑا التزام کیا ہے۔ ان کی سعی اور عرق ریزی قابل قدر اور ان کی مقبولیت قابل آفریں و ستائش ہے۔ "جعل الله سعیه مشکورا" اللہ تعالی ان کی کوشش قبول فرمائے" آمین ثمہ آمین۔ مگر اس میں بھی بہت سے ایسے رجال ہیں جن پر ہر قسم کی جرحیں ہوئی ہیں حتیٰ کہ کذاب [بہت جھوٹا] یکذب الحدیث [حدیث کے سلسلہ میں جھوٹ بولتا ہے] یسرق الحدیث [حدیث چراتا ہے] یضع الحدیث [حدیث گھڑتا ہے] جو اعلیٰ درجہ کی جرح ہے وہ بھی منقول ہیں۔ چناچہ بخاریؒ کے مجروح راویوں کے نام بمعہ الفاظ جرح مقدمہ فتح الباری اور میزان الاعتدال میں ملاحظہ کیے جائیں جن کی تعداد ایک سو [۱۰۰] سے زیادہ ہے۔ باوجود ان جرحوں کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان مجروح راویوں کو قابل ترک نہیں سمجھا اور نہ ان کی روایت چھوڑی بلکہ احتجاجاًیا استشہاداًان کی روایت اپنی کتاب اصح الکتب میں داخل کردی اور اس کے باوجود دوسرے محدثین نے بخاریؒ کے اصح الکتب ہونے سے انکار نہیں کیا ۔پھر کون سی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر باقاعدہ اصول کوئی جرح عائد نہیں ہوتی ۔ پھر بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی کوئی روایت نقل نہیں کی۔ بجز منافرت مذہبی کے اور کیا وجہ ہوسکتی ہے پس جب کہ منافرت مذہبی بین دلیل سے ثابت ہے تو امام بخاری کی جرح امام ابو حنیفہ کے حق میں کیا مؤثر ہوسکتی ہے۔
بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس کو مجروح سمجھیں اگر اس کی روایت قابل ترک ہے تو صدہا راوی مسلم و نسائی و ترمذی اور ابو داؤد وغیرہا کے جن سے بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نہیں کی ہے بلکہ ان کو مجروح کہا ہے۔ اس قاعدہ سے قابل ترک ہوجاتے ہیں حالنکہ محدثین نے ان کو قابل ترک نہیں سمجھا ہے پس امام ابو حنیفہ ؒ، امام بخاری ؒکی جرح کی وجہ سے کیوں مجروح ہوجائیں گے۔ امام بخاری ؒنے "کتاب الضعفاء" میں میں حضرت اویس قرنی کو "فی اسنادہ نظر" [ان کی سند محل نظر ہے] کہہ دیا ہے اور بخاریؒ کی اصطلاح میں یہ سخت جرح ہے۔ حالانکہ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کی فضیلت و خیریت صریح احادیث میں موجود ہے ۔پس ایسی جرح سے حضرت اویس قرنی ہرگز مجروح نہیں ہوسکتے۔
اگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی جرح پر وثوق اور اعتماد ہوتا ہے تو وہ جن راویوں پر خود جرح کرتے ہیں۔ ان سے روایت نہ کرتے حالانکہ صحیح بخاری میں متعدد راوی ایسے بھی ہیں کہ ان کو بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مجروح قرار دیا ہے اور خود ان سے روایت بھی کی ہے، ملاحظہ فرمایئے ان راویوں کے نام جن سے بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے اور خود ان پر جرح بھی کی ہے۔
نمبر۱: اسید بن زید الجلال قال الذھبی فی المیزان و العجب ان البخاری اخرج له فی صحیحه وذکرہ فی کتاب الضعفاء۔ ‏’’علامہ ذہبیؒ نے میزان میں فرمایا کہ تعجب ہے امام بخاری نے اپنی کتاب میں اسید بن زید سے روایت بھی بیان کی ہے اور "کتاب الضعفاء" میں بھی ان کا ذکر کیا ہے‘‘۔
نمبر۲: ایوب بن عائد قال البخاری فی کتاب الضغفاء کان یری الا رجاء وھو صدوق۔ ‏’’ایوب بن عائد کے لیے بخاری ؒنے "کتاب الضعفاء" میں لکھا ہے وہ ارجاء کو پسند کرتے تھے حالانکہ وہ سچے تھے‘‘۔
نمبر۳: ثابت بن محمد قال الذھبی مع کون البخاری حدث عنه فی صحیحه ذکرہ فی الضعفاء۔ ‏’’ذہبی نے فرمایا کہ باوجود اس کے کہ بخاریؒ نے ثابت بن محمد سے روایت کی ہے ان کو ضعیفوں میں شمار کیا ہے‘‘۔
نمبر۴: زھیر بن محمد قال البخاری فی کتاب الضعفاء روی عنه اھل الشام مناکیر۔ ‏’’زہیر بن محمد کے لیے بخاریؒ نے "کتاب الضعفاء" میں فرمایا کہ ان سے اہل شام نے منکرات کو روایت کیا ہے‘‘۔
نمبر۵: زیاد بن راسغ قال البخاری فی اسناد حدیثه نظر کذا فی المیزان۔ ‏’’زیاد بن راسغ کے لیے بخاری ؒنے فرمایا کہ ان کی حدیث کی سند محل نظر ہے جیسا کہ میزان میں ہے‘‘۔
نمبر۶: عطاء بن میمونة قال البخاری فی کتاب الضعفاء کان یری القدر وفی مقدمة فتح الباری وغیر واحد کان یری القدر کهمس بن منهالة قال الذھبی اتهم بالقدر وله حدیث منکرا دخله من اجله البخاری فی کتاب الضعفاء۔ ‏’’امام بخاری ؒنے "کتاب الضعفاء" میں فرمایا کہ عطاء بن میمونہ قدر کی طرف مائل تھے اور "فتح الباری" کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ بہت سے راوی قدر کی طرف مائل تھے جیسے ہمس بن منہالہ ، ذہبیؒ نے فرمایا کہ ان پر قدر کی تہمت لگائی گئی اور ان کے پاس منکر حدیث ہے۔ اس لیے امام بخاریؒ نے ان کو "کتاب الضعفاء" میں ذکر کیا ہے‘‘۔
بنظر انصاف ملاحظہ فرمایئے اگر امام بخاری ؒکو اپنی جرح پر وثوق تھا تو ان مجروحین سے کیوں رواہت کی۔  جب امام بخاریؒ کو اپنی جرح پر خود وثوق نہیں تو جائے تعجب ہے کہ مقلدین بخاریؒ کو ان کی جرح پر کیسے وثوق ہوگیا کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کو ضعیف الحدیث کہنے لگے۔
اگر معترض کے نزدیک امام بخاریؒ کی جرح باوجود غیرصحیح اور خلاف اصول کے، امام ابو حنیفہؒ کے حق میں مؤثر ہے تو معترض کے نزدیک امام بخاریؒ کیوں مجروح اور قابل ترک ہوں گے؟ کیا امام بخاریؒ پر ائمہ حدیث سے جرحیں منقول نہیں ہیں؟ ہاں ضرور منقول ہیں، بطور تمثیل چند جرحیں ملاحظہ فرمایئے:
۱۔ امام بخاری ؒکے استاد امام ذہلی ؒنے بخاریؒ پر سخت جرح کی ہے۔(طبقات شافعیہ: ج۲، ص ۱۲)  میں ہے:"قال الذھلی الا من یختلف الی مجلسه [ای بخاری] فلا یاتینا فانهم کتبوا الینا من بغداد انه تکلم فی اللفظ ونهیناہ فلم ینته فلا تقربوہ"۔ ’’امام ذہلی نے فرمایا جو بخاری کی مجلس میں جاتا ہے وہ ہمارے پاس نہ آئے کیوں کہ بغداد سے ہمیں لوگوں نے لکھا ہے کہ بخاری الفاظ قرآن کے سلسلہ میں کلام کررہے ہیں اور ہم نے ان کو اس سے منع کیا مگر وہ باز نہیں آئے ۔ لہٰذا ان کے پاس نہ جانا‘‘۔(طبقات شافعیہ: ج۲، ص ۱۲)  
۲۔ ذہلی ؒنے لوگوں کو امام بخاری ؒکے نزدیک جانے سے منع کردیا اور اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا: "من زعم ان لفظی بالقران مخلوق فهو مبتدع لایجالس ولا یکلم"۔ ‏’’جو یہ سمجھے کہ میرے منہ سے نکلنے والے الفاظ قرآنی الفاظ مخلوق ہیں تو وہ بدعتی ہے۔ نہ اس کے پاس بیٹھا جائے اور نہ اس سے بات کی جائے‘‘۔ ’’ذہلی ؒکے اس کلام کا لوگوں پر ایسا اثر ہوا کہ اکثر لوگوں نے بخاری ؒسے ملنا چھوڑ دیا ‘‘۔ (طبقات :ج۲، ص ۱۲)
۳۔ تاریخ ابن خلکان :ج۲، ص ۱۲۳میں ہے: "فلما وقع بین محمد بن یحیی و البخاری ما وقع فی مسئلة اللفظ ونادی علیه منع الناس من الاختلاف الیه حتی ھجر و خرج من نیشاپور فی تلك المحنة و قطعه اکثر الناس غیر مسلم"۔ ’’جب محمد بن یحیی اور امام بخاریؒ کے درمیان الفاظ قرآن کے سلسلہ میں اختلاف ہوا تو انہوں نے لوگوں کو ان کے [بخاری] کے پاس جانے سے روک دیا یہاں تک کہ اس آزمائش کے وقت میں امام بخاریؒ کو نیشاپور سے ہجرت کرنا پڑی اور امام مسلمؒ کے علاوہ اکثر لوگوں نے ان سے قطع تعلق کرلیا‘‘۔ (تاریخ ابن خلکان: ج۲، ص ۱۲۳)
۴۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے باوجود اس رفاقت کے بخاریؒ سے اپنی صحیح مسلم میں ایک حدیث بھی نہیں روایت کی بلکہ"حدیث منعن" کی بحث میں بعض "منتحلی الحدیث" میں "عصونا" کں لفظ سے بخاریؒ کو یاد کیا ہے اور بہت درشت اور ناملائم الفاظ کہہ گئے۔  دیکھو (مقدمہ صحیح مسلم :ج۱، ص ۲۱)
۵۔  طبقات شافعیہ: ج ۱، ص۱۹۰ میں ہے: "ترکه [ای البخاری] ابو ذرعة و ابو حاتم من اجل مسئلة اللفظ"۔ ‏’’ابو ذرعہ اور ابو حاتم نے الفاظ قرآن کے اختلاف کی وجہ سے بخاریؒ کو چھوڑ دیا‘‘۔ (طبقات شافعیہ: ج ۱، ص۱۹۰)
۶۔  میزان الاعتدال میں ہے: "کما امتنع ابو ذرعة و ابو حاتم من روایة عن تلمیذہ [أی ابن المدینی] محمد [أی البخاری] لاجل مسئلة اللفظ"۔ ‏’’جیسا کہ ابو ذرعہ اور ابو حاتم نے ان [علی بن المدینی] کے شاگرد [امام بخاری] سے الفاظ قرآن کے اختلاف کی بناء پر روایت کرنا ترک کردیا‘‘۔
‏"وقال عبد الرحمن بن ابی حاتم کان ابو ذرعة ترکه الروایة عند من اجل ما کان منه فی تلك المحنة"۔ ’’عبد الرحمن بن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ اس آزمائش کی بناء پر ابو ذرعہ نے امام بخاریؒ سے روایت کرنا ترک کردیا‘‘۔ (میزان الاعتدال)
۷۔ حافظ الحدیث ابوعبداللہ محمد بن مندہؒ (ولادت ۳۱۰ھ، وفات ۳۹۵ھ) نے بخاریؒ کو مدلسین میں شمار کیا ہے: "عدہ ابوعبداللہ محمد بن مندہ فی رسالة شروط الائمة من المدلسین حیث قال اخرج البخاری فی کتبه قال لنا فلان وھی اجازة و قال فلان وھی تدلیس"۔ ‏’’ابوعبداللہ محمد بن مندہؒ نے بخاریؒ کو اپنے رسالہ "شروط الائمہ" میں مدلسین میں شمار کیا ہے۔ چناچہ فرمایا کہ بخاری نے اپنی کتابوں میں اس طرح روایتیں بیان کی ہیں کہ ہم نے فلاں سے کہا "یہ اجازت ہے" اور فلاں نے کہا"یہ تدلیس ہے"‘‘۔ (شرح مختصر جرجانی: ص ۲۱۵)
۸۔ دارقطنیؒ اور حاکمؒ نے کہا ہے کہ اسحق بن محمد بن اسماعیلؒ سے بخاریؒ کا حدیث روایت کرنا معیوب سمجھا گیا ہے: "قال الدار قطنی والحاکم عیب علی البخاری اخراج حدیثه"۔ ‏’’دارقطنی اور حاکم نے فرمایا کہ روایت حدیث میں بخاری پر الزام لگایا گیا ہے‘‘۔ (مقدمہ فتح الباری :ص ۴۵۱)
دارقطنیؒ اور حاکمؒ کا مطلب یہ ہے کہ اسحاق بن محمد کو بخاری ؒنے ثقہ خیال کرلیا حالانکہ وہ ضعیف ہیں۔ ثقہ اور ضعیف میں امتیاز نہ کرسکے اور اسماعیلؒ نے بخاری ؒکے اس فعل پر تعجب کیا ہے کہ ابو صالح جہنی کی منقطع روایت کو صحیح سمجھتے ہیں اور متصل کو ضعیف: "وقد عاب ذالك الاسماعیل علی البخاری وتعجب منه کیف یحتج باحادیثه حیث یقلقها فقال ھذا اعجب یحتج به اذا کان منقطعا ولا یحتج به اذا کان متصلا"۔ ‏’’اسماعیل نے بخاری پر اس کا الزام لگایا اور تعجب کیا کہ ابو صالح جہنی کی احادیث سے کیونکہ استدلال کرتے ہیں جب کہ وہ متصل نہیں ہیں
فرمایا یہ اور زیادہ عجیب بات ہے کہ حدیث منقطع کو قابل حجت اور متصل کو ضعیف سمجھتے ہیں‘‘۔  (مقدمہ فتح الباری : ص ۴۸۳)
۹۔ ذہبی ؒنے بخاری ؒکے بعض امور پر استعجاب ظاہر کیا ہے۔ اسید بن زید الجمال کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: "والعجب ان البخاری اخرج له فی کتاب الضعفاء"۔ ‏’’تعجب ہے کہ بخاری اس سے روایت بھی کرتے ہیں اور اس کو ضعیف بھی کہتے ہیں‘‘۔
جو کسی راوی کو خود ضعیف بتلاوے اور پھر "اصح الکتب" میں اس سے روایت بھی کرے۔ غور کرو اس سے قائل کے حافظہ پر کیا اثر پڑتا ہے۔ معترضین ذرا انصاف کریں کہ اگر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جرج کی وجہ سے ضعیف ہیں تو امام بخاریؒ ابوعبداللہ محمد بن مندہؒ اور ذہلیؒ وغیرہ کی جرح کے سبب سے کیوں مجروح نہ ہوں گے۔
حسب قاعدہ معترضین جب امام بخاریؒ خود مجروح ثابت ہوئے تو مجروح کی جرح امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر کیا اثر ڈال سکتی ہے؟ افسوس ہے کہ غیرمقلدین محض حسد سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر حملے کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اپنا گھر [خود] ڈھاتے ہیں۔ اگر امام ابو حنیفہ ؒ ضعیف کہے جائیں گے تو دنیا کےتمام محدثین ضعیف اور متروک الحدیث ہوجائیں گےاور پھر کسی بڑے  سے بڑے  محدث کی ثقاہت و عدالت ثابت  نہ ہو سکے گی۔
تنبیہ: واضح رہےکہ اسکات خصم کے لیے یہ جرحیں نقل کی گئی ہیں۔ جیسا کہ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "تحفہ" میں بمقابلہ شیعہ الزامی پہلو اختیار فرمایا ہے ورنہ صداقت کے ساتھ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ دونوں ثقہ، صدوق،  عادل، ضابطہ، جیدالحافظہ، عابد، زاہد اور عارف تھے۔ کوئی ان میں مجروح نہیں اور کسی کی حدیث قابل ترک نہیں۔ جن احوال سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جرحیں موضوع ہیں انہیں احوال سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کی جرحیں مدفوع اور ساقط اعتبار ہیں۔لہٰذا زبیر علی زئی صاحب کا یہ دعویٰ کہ امام سفیان ثوریؒ ضعیف راویوں سے بھی تدلیس کیا کرتے تھے باطل اور مردود ثابت ہوا۔
حدیث حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ پر محدثین کرامؒ کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
زبیر علی زئی صاحب نے اپنی کتاب نور العینین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترک رفع یدین کی اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے ائمہ محدثین کے تقریباً ۱۸ اعتراضات پیش کئےہیں۔ ان تمام محدثین نے اس حدیث کے صرف ان الفاظ ’’ثم لا یعود‘‘ پر اعتراض کیا ہے جوکہ سنن ابی ابوداؤد اور سنن نسائی کی دوسری حدیث میں درج ہیں جبکہ جامع ترمذی میں یہ حدیث ان الفاظ’’ثم لا یعود‘‘کے بغیرموجود ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کی حدیث ’’ثم لا یعود‘‘کے الفاظ کے بغیر بھی ترک رفع یدین پر دلالت کرتی ہےاور احناف کا ترکِ رفع یدین کا دعویٰ’’ثم لا یعود‘‘کے الفاظ کےبغیر ’’يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ ‘‘کے الفاظ کے ساتھ بھی ثابت ہے۔ یہ بات ہم اوپر ثابت کرچکے ہیں کہ اس حدیث کی سند صحیح مسلم کی شرط پربالکل صحیح ہےاور اعتراض اب صرف ’’ثم لا یعود‘‘کے الفاظ پر ہے۔
اعتراض نمبر۱: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پر اپنی کتاب نور العینین میں حضرت عبداﷲبن مبارکؒ کی جرح نقل کی ہےجس کے الفاظ یہ ہیں: ’’وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَدْ ثَبَتَ حَدِيثُ مَنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ وَذَكَرَ حَدِيثَ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ‘‘۔(جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱،ص ۱۸۵)
جواب نمبر۱-۱: حضرت عبداﷲبن مبارکؒ کی جرح پر پہلااشکال تو یہ ہوتا ہےکہ اس کی سند میں امام ترمذیؒ کے استاداحمدبن عبدۃکے حالات معلوم نہیں، کہ وہ کب پیداہوئے؟ اور کب فوت ہوئے؟ لہٰذاسند امام ترمذی تک صحیح ثابت بھی ہے کہ نہیں یہ پتہ لگانا ناممکن ہے کیونکہ آٹھویں صدی تک کسی محدث نے احمدبن عبدۃکی تعریف نہیں کی۔ ماسوائے امام ذہبیؒ کے۔ (الکاشف: ج۱، ص۲۳؛ تہذیب: ج۱، ص۱۵۹)
’’حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الآمُلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ المَلِكِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ المُبَارَكِ‘‘۔
دوسری بات یہ کہ اگرحضرت عبداﷲبن مبارکؒ کی اس جرح کو صحیح تسلیم کرلیا جائےتو بھی حقیقت یہ ہے کہ جامع ترمذی میں ترکِ رفع یدین کی حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲعنہ سے دوالگ ابواب میں دوالگ  حدیثین مروی ہیں، ایک قولی اور دوسری فعلی جن کے الفاظ یہ ہیں:
۱۔ ’’ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ‘‘۔ (جامع ترمذی:  باب مَا جَاءَ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ، ج ۱،ص ۳۸)
۲۔ ’’قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ‘‘۔ (جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱، ص ۴۰)
امام ترمذیؒ نے حضرت عبداﷲ بن مبارکؒ کا یہ قول پہلی حدیث کے ساتھ رقم کیا ہےجس کے راوی ’’الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ‘‘  ہیں کہ وہ ثابت نہیں، نہ کہ  دوسری حدیث کے ساتھ جس کے راوی ’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ‘‘ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امام ترمذیؒ نے عبداﷲ بن مبارکؒ کا قول نقل کرنے کے بعدمستقل سندکے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے اور آگے فرمایا ہے: ’’قَالَ وَفِي الْبَابِ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ‘‘۔ اگرامام ترمذیؒ کی نظرمیں عبداﷲبن مبارکؒ کا قول صحیح اور دونوں احادیث کے بارے میں ہوتا توامام ترمذیؒ اس حدیث کو حسن کیوں کہتے؟ لہٰذا ثابت ہوگیاکہ حدیث ابن مسعودؓ خود امام ترمذیؒ کی نظر میں صحیح اور قابل استدلال ہے۔ جامع ترمذی کے عبداﷲ بن سالم بصری والے نسخہ میں (جو پیرجھنڈوسندھ کے کتب خانہ میں موجود ہے) عبداﷲبن مبارکؒ کے قول پر ہی باب ختم ہوگیا ہے، اور اس کے بعد ایک نیا باب قائم کیا گیا ہے ’’باب مَن لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ‘‘اور اس باب میں حضرت عبداﷲبن مسعودؓ کی ’’أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ‘‘ والی حدیث نقل کی گئی ہے۔لہٰذا ان دونوں احادیث کی سند اور متن میں فرق ہونا اور امام ترمذیؒ کا ان دونوں احادیث کو الگ الگ باب میں رقم کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ دو الگ الگ احادیث ہیں۔
تحقیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دونوں احادیث کی سند اور متن میں بڑا فرق ہےاورابن مبارکؒ کی یہ جرح پہلی حدیث کے بارے میں ہے دوسری حدیث کے بارے میں نہیں لہٰذازبیرعلی زئی صاحب کا ان دونوں احادیث پرابن مبارکؒ کا قول چسپاں کرناعام مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔
جواب نمبر۱-۲: حضرت عبداﷲ بن مبارکؒ سے منقول اس جرح کا راوی سفیان بن عبدالملک ہےجوکہ ابن مبارکؒ کے قدیم شاگردوں میں سے ہے۔ (دیکھئے الکاشف: ج۱، ص۲۳؛ تہذیب الکمال: ص۴۴۵)
’’حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الآمُلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ المَلِكِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ المُبَارَكِ‘‘
جبکہ ترکِ رفع یدین پرحدیث ابن مسعودؓ صحیح سندکے ساتھ حضرت عبداﷲ بن مبارکؒ’’ثم لا یعود‘‘کےالفاظ  کے ساتھ خودروایت کرتے ہیں جس میں اس کے بیان کرنے والےمتاخر(شاگرد) راوی سوید بن نصر ہیں۔ (دیکھئے الکاشف: ج۱، ص۳۳۰؛ تہذیب التہذیب: ج۲، ص۲۸۰)
’’أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِصَلاَةِ، رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ»‘‘۔ ’’عبداﷲسے روایت ہے، انہوں نے کہاکیا میں تم کو رسول اﷲﷺکی نمازبتاؤں۔ پھروہ کھڑے ہوئےانہوں نےدونوں ہاتھ اٹھائےپہلی بارمیں (یعنی جب نماز شروع کی)پھر نہ اٹھائے‘‘۔ (سنن نسائی: جلد نمبر ۲، كتاب الافتتاح، باب تَرْكِ ذَلِكَ، رقم الحدیث۱۰۲۹)
بقول غیرمقلد عالم حافظ عبداللہ صاحب روپڑی: ’’حالانکہ معمولی فہم کا انسان بھی اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ بعض دفعہ انسان کا ایک مذہب ہوتا ہے اور حدیث بعد میں پہنچتی ہے۔ اس کے بعد اس کا مذہب وہی سمجھا جائے گا جو حدیث میں ہے خواہ نقل کر نے والے کچھ نقل کریں اھہ بلفظہٖ‘‘۔ (رفع یدین اور آمین: ص۱۴۷ )
یہ کیسےممکن ہے کہ خودعبداﷲبن مبارکؒ اسی سند کے ساتھ ترکِ رفع یدین کی حدیث روایت بھی کریں اور خود ہی کہہ دیں کہ یہ حدیث ثابت نہیں؟
مندرجہ بالا تحقیق سے درج ذیل نقاط سامنے آتے ہیں کہ:
۱۔ حضرت عبداﷲ بن مبارکؒ کی یہ جرح قدیم تھی، لہٰذااِن کی یہ جرح مرجوع ثابت ہوتی ہے۔
۲۔ حضرت عبداﷲ بن مبارکؒ نےاس حدیث کو سنن نسائی میں خود روایت کیا ہےجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابن مبارکؒ نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا تھا۔
۳۔ ابن مبارکؒ کا اس حدیث پر جرح کرنااور پھر اسی حدیث کو روایت کرناان کے قول میں تضادظاہرکرتا ہے، لہٰذا ان کی جرح مضطرب اورساقط العتبارقرار پاتی ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مبارکؒ کی جرح کا جواب
علامہ ابن دقیق العید المالکی الشافعی ؒ (متوفی۷۰۲ھ) جن کو علامہ ذہبیؒ ان القاب سے یاد کرتے ہیں الامام الفقیہہ املجتھداملحدث الحافظ العّلامۃ شیخ الاسلام تقی الیدین ابوالفتح محمد بن علی بن وہب (الیٰ) المالکی الشافعی۔(تذکرۃ الحفاۃ: ج ۴، ص۲۶۲ )
۱۔ علامہ ابن دقیق العید المالکی الشافعی ؒ اپنی کتاب الامام میں فرماتے ہیں کہ: ’’قَالَ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ فِي الْإِمَامِ: وَعَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ أَخْرَجَ لَهُ مُسْلِمٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَيْضًا أَخْرَجَ لَهُ مُسْلِمٌ، وَهُوَ تَابِعِيٌّ، وَثَّقَهُ ابْنُ مَعِينٍ، وَعَلْقَمَةُ، فَلَا يُسْأَلُ عَنْهُ لِلِاتِّفَاقِ عَلَى الِاحْتِجَاجِ بِهِ‘‘۔ ’’عاصم بن کلیب سے امام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت لی ہیں۔ اسی طرح عبدالرحمٰن سے بھی(لہٰذا انکے ثقہ ہونے میں کوئی شک نہیں) ویسے بھی امام ابن معینؒ نے دونوں کو ثقہ کہاہے۔ اور علقمہ بالاتفاق حجت ہے‘‘۔ (نصب الرایہ: ج۱،  ص۳۹۴، بحوالہ الامام فی معرفۃاحادیث الاحکام)
۲۔ علامہ ابن دقیق العید المالکی الشافعیؒ اس جرح کا جواب یوں دیتے ہیں: ’’فَقَالَ الشَّيْخُ فِي الْإِمَامِ: وَعَدَمُ ثُبُوتِ الْخَبَرِ عِنْدَ ابْنِ الْمُبَارَكِ لَا يَمْنَعُ مِنْ النَّظَرِ فِيهِ، وَهُوَ يَدُورُ عَلَى عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، وَقَدْ وَثَّقَهُ ابْنُ مَعِينٍ‘‘۔ ’’حضرت ابن مبارکؒ کے ہاں حدیث کا ثابت نہ ہونا اس حدیث پر عمل کرنے سے روک نہیں سکتا ۔ کیونکہ اس حدیث کا دارومدار عاصم بن کلیب پر ہے اور امام ابن معینؒ نے ان کی توثیق کی ہے‘‘۔ (نصب الرایہ:ج۱،  ص۳۹۵ بحوالہ الامام فی معرفۃاحادیث الاحکام:  وفتح الملہم:ج۲،  ص۴۷۰)
۳۔ علامہ مغلطائیؒ کا جواب: ’’أن عدم ثبات عند ابن المبارک لایمنع من اعتباررجالہ، والنظرفی رأیہ والحدیث یدورعلی عاصم بن کلیب، وھوثقہ عندبن جبان، وابن سعد، واحمد بن صالح، و ابن شاھین، ویحییٰ بن معین وفسوی وغیرھم‘‘۔ ’’حضرت ابن مبارکؒ کے نزدیک حدیث کا ثابت نہ ہونا اس کے راویوں کا اعتبار کرنےسے روک نہیں سکتا ۔ کیونکہ اس حدیث کا دارومدار عاصم بن کلیب پر ہے اور ابن حبانؒ، ابن سعدؒ، احمد بن صالحؒ، ابن شاھینؒ ،امام ابن معینؒ ، فسویؒ اور کچھ اور لوگوں نے ان کی توثیق کی ہے‘‘۔ (شرح ابن ماجہ: ج۵، ص۱۴۶۷)
۴۔ علامہ بدرالدین عینیؒ کا جواب:’’أن عدم ثبوت الخبر عندابن المبارک لا یمنع من النظرفیہ وھویدور علی عاصم بن کلیب وقدوثقہٗ ابن معین‘‘۔ ’’حضرت ابن مبارکؒ کے نزدیک  حدیث کا ثابت نہ ہونا اس حدیث پر عمل کرنے سے روک نہیں سکتا ۔ کیونکہ اس حدیث کا دارومدار عاصم بن کلیب پر ہے اور امام ابن معینؒ نے ان کی توثیق کی ہے‘‘۔ (شرح سنن ابی داؤد: ج۳، ص۳۴۲)
۵۔ علامہ زیلعیؒ اس حدیث پر معترضین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وَهَذَا اخْتِلَافٌ يُؤَدِّي إلَى طَرْحِ الْقَوْلَيْنِ، وَالرُّجُوعِ إلَى صِحَّةِ الْحَدِيثِ لِوُرُودِهِ عَنْ الثِّقَاتِ‘‘۔ ’’حدیث کے تعلیل میں یہ اختلاف دونوں قولوں کے ساقط ہونے اور صحت حدیث کی طرف رجوع کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اسکے ثقہ راویوں کے مروی ہونے کی وجہ سے‘‘۔ (نصب الرایہ:ج۱،  ص۳۹۶)
۶۔ حافظ ابن القطانؒ فرماتے ہیں: ’’وَقَالَ ابْنُ الْقَطَّانِ فِي كِتَابِهِ الْوَهْمِ وَالْإِيهَامِ: وَاَلَّذِي عِنْدِي أَنَّهُ صَحِيحٌ‘‘۔ ’’میرے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے‘‘۔ (بیان الوھم والالہام: ج۳، ص۳۶۷) (نصب الرایہ:ج۱،  ص۳۹۵)
۷۔ علامہ ابن القیمؒ اس حدیث پرمعترضین کے اعتراضات کا تذکرہ کرنے کے بعد جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وقال الحاکم خبرابن مسعودمختصروعاصم بن کلیب لم یخرج حدیثہ فی الصحیح ولیس کماقال فقدااحتج بہ مسلم۔۔۔ والادراج ممکن فی قولہ (ثم لم یعد) واماباقیھافاماان یکون قدروی بالمعنی واماان یکون صحیحاً‘‘۔ ’’امام حاکمؒ نے فرمایاکہ حضرت ابن مسعودؓ کی حدیث لمبی سے مختصرکی گئی ہے۔ اور اسکے راوی عاصم بن کلیب کی حدیث صحیح بخاری یاصحیح مسلم میں نہیں ہے۔ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے جیساکہ امام حاکمؒ فرماتے ہیں۔ پس اسکی حدیث امام مسلم نے بطورحجت صحیح مسلم میں روایت کی ہے (لہٰذا اس کے ثقہ ہونے میں کوئی شک نہیں)‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’اس روایت میں لفظ"ثم لا یعود" کامدرج ہونا تو ممکن ہے لیکن باقی الفاظ حدیث یا روایت بالمعنی ہیں۔ یا اس طرح ہی صحیح ہیں‘‘۔ (تہذیب السنن مع مختصر السنن ابی داؤد: ج۱، ص۳۶۸)
۸۔ علامہ علاؤالدین الماردینیؒ کا جواب: ’’الصحيح والجواب عن الثلاثة ان عدم ثبوته عند ابن المبارك معارض ثبوته عند غيره فان ابن حزم صححه في المحلي وحسنه الترمذي‘‘۔ ’’صحیح جواب یہ ہے کہ ابن مبارک کے نزدیک اس کا عدم ثبوت معارض ہےدوسروں کے نزدیک ثبوت کے ساتھ اور ابن حزم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہےمحلی میں اور امام ترمذی نے حسن کہاہے‘‘۔ (الجوہرالنقی علی سنن الکبریٰ البیھقی الابن ترکمانی: ج۲، ص۷۷)
۹۔ علامہ ابن الترکمانیؒ کا جواب: ’’والحاصل ان رجال ھذا الحدیث علی شرط مسلم‘‘۔ ’’حاصل یہ ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی مسلم کی شرط پرہیں۔ یعنی ثقہ ہیں‘‘۔ (الجوہرالنقی علی سنن الکبریٰ البیھقی الابن ترکمانی: ج۲، ص۷۸)
۱۰۔ محدث وصی احمد سورتیؒ کا جواب: ’’الجواب قال الشیخ فی الامام بان عدم ثبوتہ عندہ لایمنع النظرفیہ وھو یدورعلی عصم و ثقہ، ابن معین واخرج لہ مسلم‘‘۔ ’’ابن مبارکؒ کے نزدیک  حدیث کا ثابت نہ ہونا اس پر عمل کرنے سے نہیں روکتا کیونکہ اس حدیث کا دارومدار عاصم بن کلیب پر ہے اور امام ابن معینؒ نے اس کو ثقہ کہاہے اورامام مسلم نے روایت لی ہے‘‘۔ (التعلیق المجلی لمافی فینۃ الملیٰ: ص ۳۰۵)
۱۱۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اﷲنے حدیث ابن مسعودرضی اﷲعنہ کی تصحیح نہایت ہی بہترین انداز میں اس کے رجالوں کی ثقاحت ودرجات کا موازنہ کرتے ہوئے ان الفاظ میں فرمائی: ’’قَالَ: اجْتَمَعَ أَبُو حَنِيفَةَ وَالْأَوْزَاعِيُّ فِي دَارِ الْحَنَّاطِينَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ لِأَبِي حَنِيفَةَ: مَا بَالُكُمْ لَا تَرْفَعُونَ أَيْدِيَكُمْ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ؟ فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: لِأَجْلِ أَنَّهُ لَمْ يَصِحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ شَيْءٌ، قَالَ: كَيْفَ لَا يَصِحُّ، وَقَدْ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، وَعِنْدَ الرُّكُوعِ، وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ»۔ فَقَالَ لَهُ أَبُو حَنِيفَةَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، وَلَا يَعُودُ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ»، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: أُحَدِّثُكَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَتَقُولُ: حَدَّثَنِي حَمَّادٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ! فَقَالَ لَهُ أَبُو حَنِيفَةَ: كَانَ حَمَّادٌ أَفْقَهَ مِنَ الزُّهْرِيِّ، وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ أَفْقَهُ مِنْ سَالِمٍ، وَعَلْقَمَةُ لَيْسَ بِدُونِ ابْنِ عُمَرَ فِي الْفِقْهِ، وَإِنْ كَانَتْ لِابْنِ عُمَرَ صُحْبَةٌ، أَوْ لَهُ فَضْلُ صُحْبَةٍ، فَالْأَسْوَدُ لَهُ فَضْلٌ كَثِيرٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ، فَسَكَتَ الْأَوْزَاعِيُّ‘‘۔ ’’(حضرت سفیان بن عینیہؒ) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ کے "دار الحناطین" میں امام ابو حنیفہؒ اور امام اوزاعیؒ اکھٹے ہوگئے، امام اوزاعیؒ نے امام ابو حنیفہؒ سے کہا کہ آپ لوگ نماز میں رکوع کرتے ہوئے، اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ امام صاحب نے فرمایا: اس لئے کہ اس سلسلے میں رسول اللهﷺ سے کوئی صحیح حدیث موجود نہیں، امام اوزاعیؒ نے فرمایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ مجھے خود امام زہری نے سالم کے واسطے سے، وہ اپنے والد(حضرت ابن عمرؓ) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللهﷺنماز کے شروع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ امام صاحب نے فرمایا: اس کے برعکس ہمارے پاس یہ حدیث اس سند سے موجود ہے ہم سے حدیث بیان کی حماد بن ابراہیمؒ نے، انہوں نے علقمہؒ اور اسودؒ سے، انہوں نے حضرت (عبداللہ) ابن مسعودؓ سے کہ رسول اللهﷺ رفع یدین نہیں کرتے تھے مگر ابتدائےنماز میں، امام اوزاعیؒ یہ سن کر فرمانے لگے کہ میں آپ کو "عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ" کی (سند سے) حدیث بیان کررہا ہوں اور آپ "حَدَّثَنِي حَمَّادٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ"کی (سند سے) حدیث کہتے ہو، تو امام صاحب نے فرمایا: کہ حماد (آپکی سند کے راوی) زہری سے زیادہ فقیہ (سمجھ والے) تھے، علقمہ (دینی) فقہ کے معاملہ میں حضرت ابن عمر رضی اﷲعنہ سےکم نہ تھے، اگرچہ ابن عمر ؓکوصحبت نبویﷺحاصل ہے، لیکن اسود کو بہت دوسرے فضائل حاصل ہیں، اور حضرت عبدالله (بن مسعودرضی اﷲعنہ) تو عبدالله ہیں۔ یہ سن کر امام اوزاعیؒ خاموش ہوگئے‘‘۔ (مسندأبی حنيفة روايةالحصكفی: كِتَابُ الصَّلَاةِ، رقم الحديث۹۷، ص۱۹۳-۱۹۴؛ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: الجزء الثانی، كِتَابُ الصَّلَاةِ، باب صفة الصلاة، ص۴۶۷؛ فتح القدير: كِتَابُ الصَّلَاةِ،  مسألة الجزء الأول، الحاشية رقم۱، ص۳۱۱؛ البحر الرائق شرح كنز الدقائق: كِتَابُ الصَّلَاةِ،  باب صفة الصلاة،فصل ما يفعله من أراد الدخول فی الصلاة، مسألةالجزء الأول، ص۳۴۱)
۱۲۔ امام بخاریؒ حضرت عبداﷲبن مسعودؓسےمروی نسخ رفع یدین والی حدیث سفیان ثوریؒ کی سند سے اور نسخ تطبیق والی حدیث عبداﷲ بن ادریس کی سند سےلکھنے کے بعدفرماتے ہیں: ’’وقال البخاري بعد ذكر حديث ابن إدريس: "وهٰذا (يعني حديث ابن ادريس) المحفوظ عند أهل النظر من حديث عبد الله بن مسعود"‘‘۔ ’’(عبداﷲبن ادریس کی) یہ روایت زیادہ صحیح ہے‘‘۔ یعنی سفیان کی روایت بھی صحیح ہےلیکن یہ زیادہ صحیح ہے۔ (جزِرفع الیدین للبخاری:ص۸۳)
۱۳۔ محدث جلیل امام ابو جعفراحمدبن محمدالطحاویؒ ترکِ رفع یدین پر حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ کی دواحادیث جوکہ عاصم بن کلیب اور حضرت ابراہیم نخعیؒ سے مروی ہیں، بیان کرنے کے بعدان کی تصحیح ان الفاظ میں فرماتے ہیں: ’’وَكَمَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ وَابْنُ مَرْزُوقٍ قَالاَ: ثنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إيَاسِ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ قَالَ: قَالَ لِي أُبَيّ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ (كُونُوا فِي الصَّفِّ الَّذِي يَلِينِي)۔ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَعَبْدُ اللَّهِ مِنْ أُولَئِكَ الَّذِينَ كَانُوا يَقْرُبُونَ مِنْ النَّبِيِّ، لِيَعْلَمُوا أَفْعَالَهُ فِي الصَّلاَةِ كَيْفَ هِيَ؟ لِيُعَلِّمُوا النَّاسَ ذَلِكَ۔ فَمَا حَكَوْا مِنْ ذَلِكَ، فَهُوَ أَوْلَى مِمَّا جَاءَ بِهِ مَنْ كَانَ أَبْعَدَ مِنْهُ مِنْهُمْ فِي الصَّلاَةِ‘‘۔ ’’قیس بن عبادکہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابی بن کعب رضی ا ﷲعنہ نے کہا کہ ہمیں جناب رسول اﷲﷺنے فرمایا تم اس صف میں ہواکروجو مجھ سےقریب ترہے۔ امام طحاویؒ فرماتے ہیں: پس عبداﷲرضی اﷲعنہ تو ان لوگوں میں سے ہیں جو رسول اﷲﷺ کے قریب رہتے تھے تاکہ وہ آپ کے نماز والے افعال کی کیفیت جان کردوسروں کو سکھائیں۔ پس جو ان حضرات نے بیان کیاوہ ان حضرات کے بیان کرنے سے اولیٰ اور بہترہے جو آپﷺسے دور رہنے والے تھے (اور ان کو کبھی کبھی حاضری کا موقعہ میسرآتا)‘‘۔ (المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۶)
امام ابو جعفراحمدبن محمدالطحاویؒ نے حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ کی احادیث کو حضرت وائل بن حجررضی اﷲعنہ کی حدیث پر ترجیح دی جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام طحاویؒ کے نزدیک بھی حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ سے مروی ترک رفع الیدین کی احادیث صحیح اور قابل عمل ہیں۔
۱۴۔ علامہ ابن رشدالمالکیؒ (متوفی ۵۹۰ھ)   حدیث ابن مسعودرضی اﷲعنہ کی تصحیح ان الفاظ میں فرماتے ہیں: ’’وَأَمَّا اخْتِلَافُهُمْ فِي الْمَوَاضِعِ الَّتِي تُرْفَعُ فِيهَا فَذَهَبَ أَهْلُ الْكُوفَةِ أَبُو حَنِيفَةَ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَسَائِرُ فُقَهَائِهِمْ إِلَى أَنَّهُ لَا يَرْفَعُ الْمُصَلِّي يَدَيْهِ إِلَّا عِنْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ فَقَطْ، وَهِيَ رِوَايَةُ ابْنِ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ۔۔۔ وَالسَّبَبُ فِي هَذَا الِاخْتِلَافِ كُلِّهِ اخْتِلَافُ الْآثَارِ الْوَارِدَةِ فِي ذَلِكَ، وَمُخَالَفَةُ الْعَمَلِ بِالْمَدِينَةِ لِبَعْضِهَا، وَذَلِكَ أَنَّ فِي ذَلِكَ أَحَادِيثَ: أَحَدُهَا: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَحَدِيثُ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ «أَنَّهُ كَانَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ الْإِحْرَامِ مَرَّةً وَاحِدَةً لَا يَزِيدُ عَلَيْهَا»۔۔۔ فَمِنْهُمْ مَنِ اقْتَصَرَ بِهِ عَلَى الْإِحْرَامِ فَقَطْ تَرْجِيحًا لِحَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَحَدِيثِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَهُوَ مَذْهَبُ مَالِكٍ لِمُوَافَقَةِ الْعَمَلِ بِهِ‘‘۔ ’’مقامات رفع یدین کے سلسلہ میں اختلافات پرامام ابوحنیفہؒ، سفیان ثوریؒ، اور سارے فقہائے کوفہ کی رائے ہے کہ نمازی صرف تکبیرتحریمہ کے وقت رفع یدین کرے گا۔ امام مالک سے ابن القاسم نے یہی روایت نقل کی ہے۔۔۔ اس اختلاف کا سبب اس سلسلہ میں وارد احادیث کا اختلاف اور بعض احادیث سے اہل مدینہ کے عمل کا تعارض ہے۔ اس سلسلہ میں جو احادیث واردہیں ان میں ایک عبداﷲبن مسعودؓکی حدیث ہےاوربراءبن عازبؓ کی حدیث ہےکہ «اﷲکے رسولﷺتکبیرتحریمہ کے وقت ایک باررفع یدین کرتے تھےاس پراضافہ نہیں کرتے تھے»۔۔۔ پس اہل علم نے حدیث ابن مسعودرضی اﷲعنہ اور حدیث براءبن عازب رضی اﷲعنہ کو ترجیح دیتے ہوئےصرف رفع یدین بوقت تحریمہ پر اکتفاء کیاہےاور اہل مدینہ کے عمل کے ساتھ موافقت کی وجہ سے امام مالکؒ کا مذہب بھی یہی ہے‘۔ (بداية المجتہد ونہاية المقتصد: ج۱، الفصل الثانی، المسألۃالأولیٰ[رفع الیدین]، ص۳۲۶ ،۳۲۸)
۱۵۔ امام دارقطنیؒ حدیث عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ کی تصحیح ان الفاظ میں فرماتے ہیں: ’’وکذلک قال الدارقطنی: اِنہ حدیث صحیح، اِلاھذاالفظۃ، و کذلک قال احمد بن حنبل وغیرہ‘‘۔ ’’امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں: بے شک یہ حدیث صحیح ہے۔ سوائے ''لفظ ثم لا یعود'' کے اور امام احمدبن حنبلؒ وغیرہ نے بھی یہی کہاہے‘‘۔ (نصب الرایہ: ج ۱، ص۳۹۵)
۱۶۔ علامہ زرقانی مالکیؒ فرماتےہیں: ’’ﷲ درمالک ماادق نظرۃ لما اختلف الرایات عن ابن عمرلم یأخذبہ واخذ بماجاءعمروابن مسعود لاعتضادہ کما قال ابن عبدالبر من جھۃ النظر‘‘۔ ’’اﷲتعالیٰ بھلائی کرے امام مالکؒ کے لئے کیا ہی دقیق نظر تھی انکی جب ابن عمررضی اﷲعنہ کی روایت میں اختلافات ہوئے تو اس پرعمل نہ کیا اور حضرت عمروابن مسعودرضی اﷲعنہم کے فرمان پرعمل کیابوجہ مضبوطی کے جیسا کہ ابن عبدالبرنے کہاہےکہ جہت نظرکی بناءپرامام مالک کا یہ فیصلہ ہے‘‘۔ (شرح الموطا زرقانی بحوالہ حاشیہ التمہید:ج۹، ص۶۲۸)
۱۷۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اس حدیث کی تصحیح ان الفاظ نقل کی ہے: ’’وقَالَ النَّوَوِيّ فِي الْخُلَاصَة اتَّفقُوا عَلَى تَضْعِيف هَذَا الْحَدِيث قَالَ الزَّرْكَشِيّ فِي تَخْرِيجه وَنقل الِاتِّفَاق لَيْسَ بجيد فقد صَححهُ ابْن حزم والدارَقُطْنيّ وَابْن الْقطَّان وَغَيْرُهُمْ وَبَوَّبَ عَلَيْهِ النَّسائيّ الرُّخْصَة فِي ترك ذَلِكَ۔ قَالَ ابْن دَقِيق فِي الْإِلْمَام: عَاصِم ابْن كُلَيْب ثِقَة أخرج لَهُ مُسْلِم وَعبد الرَّحْمَن أخرج لَهُ مُسْلِم أَيْضا وَهُوَ تَابِعِيّ وثّقه ابْن مَعِين وَغَيره انْتهى‘‘۔  ’’علامہ زرکشیؒ نے کہاکہ اس حدیث کو ابن حزم، دارقطنی، ابن قطان وغیرہم نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور امام نسائی نے (السنن میں) اس پر ترک رفع الیدین کی رخصت کا باب قائم کیا ہے۔ اور علامہ ابن دقیق العیدنے الامام میں عاصم بن کلیب کو ثقہ فرمایا ۔ اور کہا کہ اس کو امام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے۔ اسی طرح عبدالرحمٰن کو بھی جو تابعی اور ثقہ ہے۔ اور ابن معین نے دونوں کو ثقہ کہا‘‘۔ (اللآلىءالمصنوعةفی الأحاديث: ج۲، ص ۱۹)
۱۸۔ ملاعلی قاریؒ حدیث ابن مسعودؓ کو صحیح مانتے ہوئے اس کی تصحیح ان الفاظ میں فرماتےہیں: ’’قلت: حدیث ابن مسعودرواۃ ابوداؤد والترمذی حدیث حسن واخرجہ النسائی عن ابن المبارک بسندھما‘‘۔ ’’حدیث ابن مسعودرضی اﷲعنہ کو روایت کیاابوداؤداور ترمذی نے امام ترمذی نے اسکو حسن کہا اور امام نسائی نے بھی اس کوروایت کیاابن مبارک کی سند سے‘‘۔ (الموضوعات الکبریٰ:ص۳۵۴، طبع کراچی)
۱۹۔ غیرمقلد عالم علامہ ابن حزمؒ کی تصحیح متعدد کتب حدیث میں نقل کی گئی ہے مثلاً: ’’تقریب‘‘ اور اسکی شرح ’’التثریب، ج۱، ص۲۶۳‘‘، ’’الدرایہ، ج۱، ص۱۵۰‘‘، ’’تلخیص الجبیر، ج۱، ص۲۲۲‘‘، ’’حاشیہ محلیٰ ابن حزم‘‘، ’’التعلیقات سلفیہ، ج۲، ص۱۰، اور’’تنزیہہ الشریۃ، ج۲، ص۱۰۰‘‘: ’’وصَحح ھذاالحدیث ابْن حزم‘‘۔ علامہ ابن عراقؒ علامہ زرکشیؒ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قَالَ الزَّرْكَشِيّ فِي تَخْرِيجه وَنقل الِاتِّفَاق لَيْسَ بجيد فقد صَححهُ ابْن حزم والدارَقُطْنيّ وَابْن الْقطَّان وَغَيْرُهُمْ‘‘۔ ’’یہ حدیث ابن حزم کے نزدیک صحیح ہے‘‘۔ ’’علامہ زرکشیؒ نے کہاکہ اس حدیث کو ابن حزم، دارقطنی، ابن قطان وغیرہم نے صحیح قرار دیا ہے ‘‘۔ (التعلیقات سلفیہ، ج۲، ص۱۰) (اللآلىءالمصنوعةفی الأحاديث: ج۲، ص ۱۹) (تنزیہہ الشریۃ: ج۲، ص۱۰۰)
۲۰۔ امام نیمونیؒ اپنی کتاب ’’آثارالسنن‘‘ میں فرماتےہیں: ’’رواۃالثلاثہ وھو حدیث صحیح‘‘۔ ’’اس کو روایت کیا اصحاب ثلاثہ نے اور یہ حدیث صحیح ہے‘‘۔ (توضیح السنن شرح آثارالسنن مترجم: ج۱، ص۶۴۲)
۲۱۔ غیرمقلد عالم علامہ احمدشاکرؒمحلیٰ ابن حزم اور حاشیہ ترمذی احمد شاکرمیں لکھتے ہیں: ’’ھو حدیث صحیح‘‘، ’’وھذاالحدیث صححہ ابن حزم وغیرہ من الحفاظ ھو حدیث صحیح وماقالوہ فی تعلیہ لیس بعلۃ‘‘۔ ’’یہ حدیث صحیح ہے‘‘، ’’اس حدیث کو ابن حزم وغیرہ حفاظ حدیث نے صحیح کہاہے۔ اور (فی الواقع)یہ حدیث صحیح ہےاور اس کو معلول قراردینے کے لئےجوکچھ کہاگیاہے، وہ حقیقتاً علت نہیں‘‘۔ (محلیٰ ابن حزم) (حاشیہ ترمذی احمد شاکر: ج۲، ص ۴۱)
۲۲۔ سید ھاشم عبداﷲیمانی الدرایہ فی تخریج الہدایہ کے حاشیےمیں لکھتے ہیں: ’’وقدرایت لاحمدشاکررحمہﷲ فی تعلیقہ علی الترمذی کلاماً نفسیاًانقلہ ھنالفائدتہ‘‘۔ ’’میں نےترمذی کے حاشیہ میں احمد شاکرکانفیس کلام دیکھاہےجسےمیں اس کے مفیدہونے کی وجہ سے یہاں نقل کرتا ہوں‘‘۔ (حاشیہ الدرایہ: ج۱، ص ۱۵۰)
۲۳۔ غیرمقلد عالم علامہ ذھیرالشاویش اور علامہ شعیب ارناؤوط شرح السنۃ میں فرماتے ہیں: ’’وصححہ غیر واحد من الحفاظ، وماقالوہ فی تعلیہ لیس بعلۃ‘‘۔ ’’یہ حدیث صحیح ہے، اورجو بعض نے اس حدیث میں علتیں نکالی ہیں وہ کچھ نہیں (کیونکہ اس میں کوئی خرابی نہیں)‘‘۔ (شرح السنۃ: ج۳، ص ۲۴)
۲۴۔ علامہ عبدالقادرالارناؤوط صحاح ستہ کے مجموعہ’’جامع الاصول‘‘ کے حاشیہ میں اس حدیث کی تخریج کے بعد لکھتے ہیں: ’’واسنادہ صحیح‘‘۔ ’’اسکی سند صحیح ہے‘‘۔ (جامع الاصول: ج۵، ص ۳۰۲)
۲۵۔ غیرمقلد محدث علامہ ناصرالدین البانیؒ نےسنن کی کتابوں (ترمذی، ابو داؤداورمشکوٰۃ)کی صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ الگ کتابی شکل میں شائع کیا۔ چونکہ حضرت عبداﷲبن مسعودؓ کی حدیث ترمذی، ابو داؤد اور مشکوٰۃ شریف میں موجودہیں تو البانیؒ نے اس حدیث کو  صحیح ترمذی، صحیح ابو داؤد اور اسی طرح مشکوٰۃ میں بھی رقم کرکے ان کی تصحیح ان الفاظ میں فرمائی ہے: ’’والحق انہ حدیث صحیح واسنادہ صحیح علیٰ شرط مسلم ولم نجد لمن اعلہ حجۃ یصلح التعلق بھاوردالحدیث من اجلھا‘‘۔ ’’اور حق بات یہ ہے کہ یہ حدیث بھی صحیح ہے۔ اور اس کی سند بھی مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے اور جن لوگوں نے اس حدیث کو معلول قراردیا ہے ہمیں ان کی کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس سے استدلال صحیح ہو۔ اور اس وجہ سے حدیث رد کردی جائے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح بتحقیق علامہ محمد ناصر الدین البانی: ج۱، ص ۲۵۴)
۲۶۔ علامہ الدکتورالطاھرمحمدالدردیری ’’المدونۃ الکبریٰ‘‘ کی احادیث کی تخریج میں اس حدیث کی سند کے ہر ایک راوی کی تعدیل و توثیق کرنے کے بعد ’’الحکم علیٰ ھذاالحدیث‘‘کے تحت لکھتے ہیں: ’’حدیث المدونۃ حدیث حسن لان فی سندہ عاصم بن کلیب وھوصدوق وبقیۃ رجالہ ثقات وقد حسنہ الترمذی‘‘۔ ’’مدونۃ الکبریٰ کی یہ حدیث حسن ہے، کیونکہ اس کی سند میں عاصم بن کلیب ہے جو صدوق (سچا) ہے۔ اور اس کے باقی راوی ثقہ ہیں۔ امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو حسن کہاہے‘‘۔ (تخریج الاحادیث النبویۃ الواردۃ فی مدونۃالامام ملک بن انس: ج۱، ص ۴۰۰)
۲۷۔ غیرمقلد عالم علامہ محمد خلیل ہراس’’حاشیہ محلیٰ ابن حزم‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’وھوحدیث صحیح حسنۃ الترمذی‘‘۔ ’’یہ حدیث صحیح ہے اور امام ترمذی نے اسے حسن کہاہے‘‘۔ (حاشیہ محلیٰ ابن حزم: ج۲)
۲۸۔ الحافظ عبد العظيم بن عبد القوی المنذری مختصر سنن ابی داؤدمیں یہ حدیث نقل کرنے کے بعدلکھتے ہیں: ’’واخرجہ الترمذی والنسائی وقال الترمذی حدیث حسن‘‘۔ ’’یہ حدیث ترمذی اور نسائی میں بھی موجودہے اور امام ترمذی نے اسے حسن کہاہے‘‘۔ (مختصر سنن ابی داؤد للحافظ المنذری: ج۱، ص۳۶۸)
الحافظ المنذری کا حدیث رقم کرنے کے بعدامام ترمذی ؒکا قول نقل کرنا اور اس سے اختلاف نہ کرنا تصحیح کی علامت ہے۔
۲۹۔ عبیداﷲسندھیؒ فرماتےہیں: ’’ابن مسعودرضی اﷲعنہ کی حدیث کی سند صحیح ہے‘‘۔ (مرعاۃ شرح مشکوٰۃ:ج۲، ص۲۹۳)
۳۰۔ علامہ ہاشم سندھیؒ فرماتےہیں: ’’سند ابی داؤد صحیح علی شرط الشیخین‘‘۔ ’’ابوداؤد کی سند امام بخاری ومسلم کی شرط پرصحیح ہے‘‘۔ (کشف الرین مترجم:ص۵۶، مع حاشیہ محمد عباس رضوی؛ کشف الرین: ص۱۱، بحوالہ جلاءالعینین: ص۶،۷)
اعتراض نمبر۲: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام شافعیؒ کااعتراض نقل کیا ہے: ’’قَالَ الزَّعْفَرَانِيُّ قَالَ: الشَّافِعِيُّ فِي الْقَدِيمِ: وَلَا يَثْبُتُ‘‘۔ ’’زعفرانی نے کہاکہ امام شافعیؒ نے فرمایا کہ یہ ثابت نہیں ہے‘‘۔ (کتاب الام: ج۷، ص۲۰۱؛ السنن الکبریٰ للبیہقی: ج۲، ص۸۱؛ فتح الباری: ج۲، ص۲۲۰)
جواب نمبر۲: زبیرعلی زئی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ امام شافعیؒ کی جرح کے مکمل الفاظ نقل کردیں تاکہ قارئین کو یہ اندازہ ہوسکے کہ امام شافعیؒ کی جرح کی کیا حیثیت ہے۔ کیونکہ مبہم الفاظ کی جرح و تعدیل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زبیر علی زئی صاحب نے اس جرح کو نقل کرنے میں ناانصافی سے کام لیا ہےکیونکہ انہوں نے اس جرح کی سند نقل نہیں کی۔ زبیرعلی زئی صاحب چونکہ یہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے سند نقل کردی تو ان کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوجائے گالہٰذا انہوں نے سند نقل نہ کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔اس جرح کی سند امام بیہقیؒ سےلے کر امام زعفرانی ؒتک نا معلوم ہے۔ لہٰذا زئی صاحب نامعلوم اسناد سے عام مسلمانوں کو گمراہ کر رہےہیں۔ امام بیہقیؒ نے اس جرح کی سند کو معلق اور منقطع نقل کیا ہے جو کہ جمہور کے نزدیک ضعیف اور مردود ہے۔
امام بیہقیؒ نے اس جرح کوان الفاظ میں نقل کیاہے: ’’قَالَ الزَّعْفَرَانِيُّ قَالَ: الشَّافِعِيُّ فِي الْقَدِيمِ: وَلَا يَثْبُتُ عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ، يَعْنِي مَا رَوَوْهُ عَنْهُمَا مِنْ أَنَّهُمَا كَانَا لَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلَاةِ إِلَّا فِي تَكْبِيرَةِ الِافْتِتَاحِ‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ج۲، ص۸۱)
اس جرح کی سند منقطع ہے کیونکہ امام بیہقیؒ اور امام حسن بن محمد بن الصباح الزعفرانى ؒکے درمیان ملاقات ثابت نہیں۔  امام زعفرانی ؒکی وفات ۲۵۹یا ۲۶۰ہجری میں ہوئی جبکہ امام بیہقیؒ کی پیدائش ۳۸۴ہجری کو ہوئی، یعنی اس وقت تو امام بیہقیؒ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب امام الزعفرانیؒ نے یہ بات کہی ہوگی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امام بیہقیؒ نے خود ان سے یہ بات سن لی ہو؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام بیہقی ؒاور امام زعفرانی ؒکے درمیان سند نامعلوم اور منقطع ہے۔ لہٰذا یہ جرح ضعیف اور مردود ہےاور زبیر علی زئی صاحب کا امام شافعیؒ کی جرح سے استدلال باطل و مردود ہے۔ اگر زبیرعلی زئی صاحب کی پیش کردہ اس جرح کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو بھی اعتراض باطل ہے کیونکہ امام شافعیؒ کایہ قول قدیم ہے جبکہ امام شافعیؒ کا بعد والا قول اس کے برعکس ہے۔
امام شافعیؒ کے جواب میں علامہ علاؤالدین الماردینیؒ فرماتے ہیں: ’’* قلت * قد تقدم تصحيح الطحاوي ذلك عن على والسند بذلك صحيح كما مر والمثبت مقدم على النافي وقال ابن ابى شيبة في مصنفه ثنا وكيع عن مسعر عن ابى معشر اظنه زياد بن كليب التميمي عن ابراهيم عن عبد الله انه كان يرفع يديه في اول ما يفتتح ثم لا يرفعهما وهذا سند صحيح وقال ايضا ثنا وكيع وابو اسامة عن شعبة عن ابى اسحاق قال كان اصحاب عبد الله واصحاب على لا يرفعون ايديهم الا في افتتاح الصلوة قال وكيع ثم لا يعودون وهذا ايضا سند صحيح جليل ففى اتفاق اصحابهما على ذلك ما يدل على ان مذهبهما كان كذلك وقول الشافعي بعد ذلك‘‘۔ ’’میں کہتا ہوں کہ پہلے امام طحاویؒ کی تصحیح گزرچکی ہےاور اس کی سند بھی صحیح ہے اور ثابت نفی پرمقدم ہوتا ہے۔ امام شافعیؒ کے بعد والا قول بھی یہی ہےکہ ان دونوں حضرات (یعنی حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ ) سے ترکِ رفع یدین ثابت ہے‘‘۔ (الجوہرالنقی علی سنن الکبریٰ البیھقی الابن ترکمانی: ج۲، ص۷۹)
اعتراض نمبر۳: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام احمدابن حنبلؒ کا اعتراض نقل کیا ہے: ’’امام احمد بن حنبلؒ نے اس روایت پر کلام کیا‘‘۔ (جزءرفع یدین: ص ۳۲؛ مسائل احمدروایتہ عبداﷲ بن احمد: ج۱، ص۲۴۰)
جواب نمبر۳: امام احمد بن حنبلؒ نے مسائل احمدروایتہ عبداﷲ بن احمدمیں اس حدیث کے راویوں پر کوئی کلام نہیں کیا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے۔ امام احمدؒ نے صرف ’’ثم لا یعود‘‘کے الفاظ پراعتراض کیا ہے۔امام احمد بن حنبلؒ کی جرح کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے بہتر ہوگا کہ پہلے ان کی جرح کے مکمل الفاظ نقل کئے جائیں۔
’’وکذلک قال الدارقطنی: اِنہ حدیث صحیح، اِلاھذاالفظۃ، و کذلک قال احمد بن حنبل وغیرہ‘‘۔ ’’امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں: بے شک یہ حدیث صحیح ہے۔ سوائے ''لفظ ثم لا یعود'' کے اور امام احمدبن حنبلؒ وغیرہ نے بھی یہی کہاہے‘‘۔ (نصب الرایہ: ج ۱، ص۳۹۵)
 ’’قال ابی: حدیث عاصم بن کلیب رواہ ابن ادریس فلم یقل: ''ثم لا یعود''‘‘۔ (کتاب العلل ومعترفۃ الرجال: ج۱، ص۳۷۰، رقم ۷۱۳)
’’حدثنی ابی قال: حدثنا یحییٰ بن آدم قال: اعلاء علی عبدﷲبن ادریس من کتابہ عن عاصم بن کلیب عن عبدالرحمٰن بن الاسود قال: حدثنا علقمہ عن عبدﷲقال: علمنا رسولﷲﷺالصلاۃ: فکبرورفع یدیہ ثم رکع، وطبق یدیہ وجعلھمابین رکبتیہ، فبلغ سعدافقال: صدق أخی قد کنانفعل ذلک۔ ثم أمرنابھذاوأخذبر کبتیہ‘‘۔ (کتاب العلل ومعترفۃ الرجال: ج۱، ص۳۷۰، رقم ۷۱۴)
امام احمد بن حنبلؒ کی اس جرح میں صرف اتنا لکھا ہےکہ ابن ادریس کی روایات میں ’’ثم لا یعود‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔جبکہ جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابی داؤد کے حوالے سے جو حدیث بیان کی گئی ہے، عبداﷲ بن ادریس نہ اس حدیث کے راویوں میں سے ہیں اورنہ ہی اس میں ’’ثم لا یعود‘‘ کے الفاظ کی زیادتی موجود ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے’’ثم لا یعود‘‘کے الفاظ  کی زیادتی کا اعتراض سفیان ثوریؒ کی اس حدیث پر نہیں بلکہ دوسری حدیث پر کیا ہےاوراس بات کی وضاحت پہلے ہی بیان کی جاچکی ہے کہ اس باب میں ابن مسعودؓ سے دو مختلف اسناد و متن کے ساتھ دو الگ احادیث رقم ہیں۔ اورحضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی حدیث ’’ثم لا یعود‘‘ کے الفاظ کے بغیر بھی ترکِ رفع یدین پر نص و دلالت کرتی ہے۔
امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند احمد،  جلدنمبر۱، مسندعبداﷲ بن مسعودؓ، صفحہ نمبر۵۴۲میں خود یہ حدیث امام وکیع ؒکے حوالے سے ’’ثم لا یعود‘‘ کے الفاظ کے بغیرنقل کی ہے، جس سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ امام احمدبن حنبلؒ کی جرح صرف’’ثم لا یعود‘‘  کے الفاظ پر ہےنہ کہ پوری حدیث پر۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ حدیث ’’ثم لا یعود‘‘ کے الفاظ کے بغیرنقل کی۔  لہٰذازبیر علی زئی صاحب کا امام احمدؒ کی جرح کو امام سفیان ثوریؒ کی حدیث پر’’ثم لا یعود‘‘ کے الفاظ کے ساتھ نقل کرناباطل ومردود ثابت ہوا۔
یہاں ایک اور بات بتانا بہت ضروری ہے کہ امام احمدبن حنبلؒ سے جو الفاظ جزءبخاری میں منقول ہیں ان میں تحریف کی گئی ہے۔جزءرفع یدین کے الفاظ یہ ہیں:  ’’وقال احمد بن حنبل عن یحییٰ بن آدم: نظرت فی کتاب عبدﷲبن ادریس عن صاصم بن کلیب لیس فیہ ''ثم لا یعود''‘‘۔
جبکہ جزءرفع یدین میں تحریف اور گڑبڑ ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:  ’’نظرت فی کتاب عبدﷲبن ادریس عن صاصم بن کلیب لیس فیہ ''ثم لا یعود'' ‘‘۔لہٰذا جزء رفع یدین کا حوالہ پیش کرنا علمی بدیانتی اور تحریف ہے۔
اعتراض نمبر۴: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام ابو حاتم الرازیؒ کا اعتراض نقل کیا ہے: ’’قال أبو حاتم: هذا (يعني حديث سفيان عن عاصم) خطأ يقال: وهم فيه الثوري، فقد رواه جماعة عن عاصم، وقال كلهم: إن النبي صلى الله عليه وسلم افتتح فرفع يديه ثم ركع، فطبق، وجعلها بين ركبتيه، ولم يقل أحد ما روى الثوري‘‘۔ ’’یہ حدیث خطاء ہے، کہاجاتا ہے کہ سفیان ثوری کو اس (کےاختصار) میں وہم ہوا ہے۔ کیونکہ ایک جماعت نے اس کو عاصم بن کلیب سے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہےکہ نبیﷺ نے نماز شروع کی، پس ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کیا اور تطبیق کی اور اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھا۔ کسی دوسرے نے ثوری والی بات بیان نہیں کی ہے‘‘۔ (علل الحدیث: ج۱، ص۹۶، رقم ۲۵۸)
جواب نمبر۴: امام ابو حاتم الرازیؒ کااعتراض محض ان کا خیال ہے اور خیالی باتوں کی جرح و تعدیل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں جبکہ دلائل کے ساتھ درجہ ذیل نقاط سامنے رکھےجائیں تو حقیقت اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔
۱۔ امام ابو حاتم الرازیؒ پر امام ذہبیؒ نے متشددو متعنت ہونے کا الزام لگایا ہےاور محدثین کرام کے نزدیک متشددومتعنت کی مبہم جرح قبول نہیں کی جاتی۔ (تذکرۃ الحفاظ: ج۲، ص۸)
۲۔ امام ابو حاتم الرازیؒ کی جرح کے یہ الفاظ کہ ’’کیونکہ ایک جماعت نے اس کو عاصم بن کلیب سے ان الفاظ کے ساتھ(تطبیق)  بیان کیا ہےاور کسی دوسرےنے سفیان ثوریؒ والی بات بیان نہیں کی‘‘ یہ الفاظ درست نہیں ہیں کہ عاصم بن کلیب سے ایک جماعت نے تطبیق والی روایت نقل کی ہےکیونکہ تطبیق والی روایت عاصم بن کلیب سے صرف عبداﷲ بن ادریس ؒنے نقل کی ہے، اور کسی جماعت نےیہ روایت بیان نہیں کی۔ جبکہ سفیان ثوریؒ والی روایت ابوبکرنہشلی اور عبداﷲبن ادریس نے بھی بیان کی ہے۔ (العلل الواردۃفی الاحادیث نبویۃ: ج۵،ص۱۷۲)
۳۔ امام ابوحاتم الرازیؒ اور امام ابو ذرعہ الرازیؒ دونوں امام سفیان ثوری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’سفیان أحفظ من شعبہ‘‘۔ (علل الحدیث:  رقم ۲۹۹)
’’سفیان أحفظ الرجلین‘‘۔ (علل الحدیث:  رقم ۲۸۳۸)
اگرزبیرعلی زئی صاحب کی نقل کردہ امام ابو حاتمؒ کی بات درست مان لی جائے تو بھی عبداﷲ بن ادریس ؒکی تطبیق والی روایت کے مقابلے میں سفیان ثوریؒ کی روایت کو ہی ترجیح حاصل ہوگی کیونکہ امام ابو حاتم الرازیؒ اور امام ابو ذرعہ الرازیؒ دونوں سفیان ثوریؒ کو امام شعبہؒ سے بڑا حافظ مانتے ہیں تو کیا عبداﷲ بن ادریسؒ کے مقابلے میں سفیان ثوریؒ کی حدیث پر اعتراض کرنا جائز ہے؟ امام سفیان ثوریؒ تو امام شعبہؒ سے بھی بڑے حافظ و محدث ہیں لہٰذا اختلاف میں ترجیح بھی امام سفیان ثوریؒ کو ہی حاصل ہوتی ہےتو پھرعبداﷲ بن ادریس کو امام سفیان ثوریؒ پر فوقیت کیسے حاصل ہوسکتی ہے۔ ’’ویاللعجب سفیان اذاروٰی لھم الجھربآمین کان احفظ الناس ثم اذاروٰی ترک الرفع صارنسی الناس؟‘‘۔ لہٰذا امام ابو حاتم الرازیؒ کا اس حدیث کو امام سفیان ثوریؒ کی خطاء اور وہم قرار دینا ان کے اپنے ہی قول کو رد کرتاہے۔
۴۔ اگر جناب زبیرعلی زئی صاحب کے نزدیک امام ابو حاتم الرازیؒ کی بات اتنی ہی معتبر ہے تو پھر موصوف ان کی صرف اپنے مطلب کی بات کیوں قبول کرتے ہیں ؟ان کی کہی ہوئی دوسری بات بھی قبول کریں۔ امام ابوحاتم الرازیؒ نے حضرت ابو حمید ساعدیؓ کی اثبات رفع یدین والی حدیث کو ’’فصارالحدیث المرسل‘‘ کہا ہے۔کیا زبیر علی زئی صاحب کو امام ابو حاتمؒ کا یہ قول قبول ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ کیسا عجیب تضاد ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب ترکِ رفع یدین کی سفیان ثوریؒ کی حدیث پر امام ابوحاتم ؒ کا قول قبول کرتے ہیں اور اثبات رفع یدین کی حضرت ابو حمیدساعدیؓ کی حدیث پران کا قول قبول نہیں کرتے۔
مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں زبیرعلی زئی صاحب کا امام ابو حاتم الرازیؒ کی جرح سےاستدلال کرنا باطل و مردود ثابت ہوا۔
اعتراض نمبر۵: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام دارقطنی ؒ کا اعتراض نقل کیا ہے:’’امام دارقطنی نے اسے (یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت) کو غیر محفوظ قرار دیا ہے ‘‘۔ (العلل الواردۃفی الاحادیث نبویۃ: ج۵،ص۱۷۳،مسئلہ ۸۰۴)
جواب نمبر۵: زبیرعلی زئی صاحب نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترک رفع والی روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے امام دارقطنیؒ کا حوالہ پیش کرنے میں خیانت کی ہے۔ امام دارقطنی ؒنے اس روایت کو غیر محفوظ نہیں کہا بلکہ انہوں نے اس روایت کی سند کو صحیح تسلیم کیا ہےجس کو زبیر علی زئی صاحب نے بیان نہیں کیا کیونکہ ان کا مقصد اس روایت کو ضعیف ثابت کرنا تھا۔بہتر یہ ہوگا کہ امام دارقطنیؒ کے مکمل الفاظ نقل کئے جائیں تاکہ قارئین کو ان کا مؤقف سمجھنے میں آسانی ہو۔
’’سئل الإمام الدارقطني عن حديث علقمة عن عبد الله قال: "ألا أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فرفع يديه في أول تكبيرة، ثم لم يعد۔ فقال: يرويه عاصم عن عبدالرحمن بن الأسود عن علقمة حدث به الثوري عنه: ورواه أبوبكر النهشلي عن عاصم عن عبد الرحمن بن الأسود عن أبيه وعن علقمة عن عبد الله، وإسناده صحيح، وفيه لفظة ليست بمحفوظة ذكرها أبوحذيفه في حديثه عن الثوري وهي قوله: " ثم لم يعد "۔ وكذلك قال الحماني عن وكيع، وأما أحمد بن حنبل وأبو بكر بن أبي شيبة وابن نمير فرووه عن وكيع، ولم يقولوا فيه: "ثم لم يعد"، وكذلك رواه معاوية بن هشام أيضاً عن الثوري مثل ما قال الجماعة عن وكيع، وليس قول من قال "ثم لم يعد" محفوظاً‘‘۔(العلل الواردۃفی الاحادیث نبویۃ: جلد۵،ص۱۷۲-۱۷۳،مسئلہ ۸۰۴)
امام دارقطنی ؒ نے یہ روایت بیان کرنے کے بعد کہا کہ ''اسنادہ صحیح، فیہ لفظہ لیست محفوظ'' ۔ ’’اس روایت کی سند صحیح ہے لیکن اس میں یہ لفظ محفوظ نہیں ہے جس کو ابو خذیفہ نے ثوری سے روایت کیا ہے اور وہ لفظ ''ثم لا یعود'' ہے‘‘۔
علامہ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں: ’’هَذَا الْحَدِيث قَالَ الزَّرْكَشِيّ فِي تَخْرِيجه وَنقل الِاتِّفَاق لَيْسَ بجيد فقد صَححهُ ابْن حزم والدارَقُطْنيّ وَابْن الْقطَّان وَغَيْرُهُمْ وَبَوَّبَ عَلَيْهِ النَّسائيّ الرُّخْصَة فِي ترك ذَلِكَ۔ قَالَ ابْن دَقِيق فِي الْإِلْمَام: عَاصِم ابْن كُلَيْب ثِقَة أخرج لَهُ مُسْلِم وَعبد الرَّحْمَن أخرج لَهُ مُسْلِم أَيْضا وَهُوَ تَابِعِيّ وثّقه ابْن مَعِين وَغَيره انْتهى‘‘۔  ’’علامہ زرکشیؒ نے کہاکہ اس حدیث کو ابن حزم، دارقطنی، ابن قطان وغیرہم نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور امام نسائی نے (السنن میں) اس پر ترک رفع الیدین کی رخصت کا باب قائم کیا ہے۔ اور علامہ ابن دقیق العیدنے الامام میں عاصم بن کلیب کو ثقہ فرمایا ۔ اور کہا کہ اس کو امام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے۔ اسی طرح عبدالرحمٰن کو بھی جو تابعی اور ثقہ ہے۔ اور ابن معین نے دونوں کو ثقہ کہا‘‘۔ (اللآلىء المصنوعة فی الأحاديث: ج۲، ص ۱۹)
حقیقت یہ ہے کہ امام دارقطنیؒ نے اس روایت کی سند کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔ان کا اعتراض صرف لفظ ''ثم لا یعود'' پہ تھا جبکہ زبیر علی زئی صاحب نے پہلی خیانت یہ کی کہ امام دارقطنیؒ کی طرف جھوٹ منسوب کیا کہ انہوں نے اس مکمل روایت کو غیر محفوظ قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسری خیانت یہ کی کہ امام دارقطنیؒ کااس روایت کی سند کو صحیح کہنا بیان نہیں کیا۔جبکہ اس بات کی تصریح پہلے ہی کی جاچکی ہے کہ احناف کا دعویٰ’’ثم لا یعود‘‘ کے الفاظ کے بغیر بھی ثابت ہے۔
اعتراض نمبر۶: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرحافظ ابن حبانؒ کا اعتراض نقل کیا ہے: ’’قال ابن حبان: هذا أحسن خبر روى أهل الكوفة في نفي رفع اليدين في الصلاة عند الركوع وعند الرفع منه، وهو في الحقيقة أضعف شيء يعول عليه؛ لأن له عللاً تبطله‘‘۔ ’’ابن حبان فرماتے ہیں کہ اہل کوفہ نے ترکِ رفع یدین کی جتنی احادیث بیان کی ہیں ان میں یہ سب سے حسن حدیث ہے ،مگریہ روایت حقیقت میں سب سے زیادہ ضعیف ہے، کیونکہ اس کی علتیں ہیں جو اسے باطل قرار دیتی ہے‘‘۔ (تلخیص الحبیر: ج۱،ص۲۲۲؛ البدرالمنیر: ج۳، ص۴۹۴)
جواب نمبر۶: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ حافظ ابن حبانؒ کی کتاب الصلوٰۃ نامی کوئی کتاب نہیں، اگر ہے تو زبیرعلی زئی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ کتاب پیش کردیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ جرح ابن حبانؒ نے ہی کی ہے توبھیزبیرعلی زئی صاحب نے اپنے اعتراض میں حافظ ابن حبانؒ کا قول تو رقم کردیا لیکن وہ علتیں بیان نہیں کیں جو اس حدیث کو باطل قرار دیتی ہیں۔اصول حدیث کی رو سے کسی بھی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا دارومداراس حدیث کی سند یا متن پر ہوتا ہے۔ اگر حدیث کی سند بالکل صحیح ہو اور متن پر بھی کوئی اعتراض نہ ہو تو پھر حدیث کو بنا کوئی مدلل جرح بیان کئےضعیف قرار دیناایک متشدد و متعنت عمل ہےاور محدثین کرام کے نزدیک متشددومتعنت کی مبہم جرح قبول نہیں کی جاتی۔ (تذکرۃ الحفاظ: ج۲، ص۸)
حافظ ابن حبانؒ کی یہ جرح نقلی اور عقلی دونوں دلائل سے خالی ہے۔ کیونکہ محض حدیث کےضعیف ہونے کا دعویٰ کردینے سے حدیث موضوع یا باطل نہیں ہوجاتی جب تک کہ وجوہِ طعن ثابت نہ ہو۔لہٰذانقلی اور عقلی دلائل پر ہم خود ہی کچھ نظرثانی کردیتےہیں۔
’’ففي المدونة الكبرى قال الإمام مالك: (لا أعرف رفع اليدين في شيء من تكبير الصلاة، لا في خفض ولا في رفع إلا في افتتاح الصلاة، يرفع يديه شيئا خفيفا، والمرأة في ذلك بمنزلة الرجل)، قال ابن القاسم: (كان رفع اليدين ضعيفا إلا في تكبيرة الإحرام )۔ امام مالك رحمه الله فرماتے ہیں کہ ’’میں نمازکی تکبیرات میں کسی جگہ رفع اليدين نہیں جانتا نہ رکوع میں جاتے وقت اور نہ رکوع سے اٹھتے وقت مگر صرف نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت‘‘۔ امام مالک کے صاحب وشاگرد ابن القاسمؒ فرماتے ہیں کہ ’’امام مالك رحمه الله فرماتے ہیں رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگرصرف تکبیرتحریمہ میں ‘‘۔(المدونة الكبرى للإمام مالك: ص ۱۰۷ ،  دار الفكر بيروت)
’’وأما اختلافهم في المواضع التي ترفع فيها فذهب أهل الكوفة أبو حنيفة وسفيان الثوري وسائر فقهائهم إلى أنه لا يرفع المصلي يديه إلا عند تكبيرة الإحرام فقط، وهي رواية ابن القاسم عن مالك "الی ان قال" والسبب في هذا الاختلاف كله اختلاف الآثار الواردة في ذلك‘‘۔   (ہداية المجتہد للعلامه ابن رُشد المالکی: كتاب الصلاة )
علامہ ابن رشد المالکیؒ نے بهی یہی تصریح کی ہے اور فرمایا کہ رفع یدین میں اختلاف کا سبب دراصل اس باب میں وارد شده مختلف روایات کی وجہ سے ہے یعنی چونکہ روایات مختلف ہیں لہٰذا ائمہ مجتہدین کا عمل بهی ہوگا ۔ لہٰذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز غلط ہے توایسے لوگ جاہل وکاذب ہیں۔
علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے مسئلہ رفع الیدین پر ایک مستقل رسالہ تحریر فرمایا ہے جس کا نام نیل الفرقدین فی رفع الیدین ہے، علامہ انورشاہ کشمیریؒ اس رسالے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ترکِ رفع پر تواتر بالتعامل پایا جاتا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ عالم اسلام کے دو بڑے مراکزیعنی مدینہ طیبہ اور کوفہ تقریباً بلااستثناء ترکِ رفع پر عامل رہے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے ترکِ رفع پر تعامل کی دلیل یہ ہے کہ علامہ ابن رشدؒ نے ’’ہدایۃ المجتہد‘‘ میں لکھا ہے کہ امام مالکؒ نے ترکِ رفع یدین کا مسلک تعاملِ اہل مدینہ کو دیکھ کر اختیار کیاہے اور اہل کوفہ کے تعامل کی دلیل یہ ہے کہ محمد بن نصرمروزی شافعیؒ تحریر فرماتے ہیں: ''ما اجمع مصرمن الامصارعلیٰ ترک رفع الیدین مااجمع علیہ اھل الکوفۃ''۔ اس لئے جب عالم اسلام کے دو عظیم مرکز ترکِ رفع پر کاربندتھےتو اس سے تواتربالتعامل ثابت ہوتا گیا‘‘۔
مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں اہل مدینہ اور اہل کوفہ جیسے عالم اسلام کے عظیم مراکز میں ترکِ رفع یدین پر عمل تھا اور امام مالکؒ جیسے جلیل القدر مجتہد و محدث  فرماتے ہیں کہ ’’رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگرصرف تکبیرتحریمہ میں‘‘ تو آخرکیا وجہ تھی کہ امام مالکؒ نے رفع یدین کرنے والی احادیث کو ضعیف کہہ کررد کردیا جبکہ امام مالکؒ نے خود مؤطا امام مالک میں رفع یدین کرنے کی احادیث  رقم کی ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امام مالکؒ کے نزدیک رفع یدین کرنے والی احادیث منسوخ تھیں اور ترکِ رفع کی احادیث صحیح اور تواتر بالتعامل تھیں۔
اس بات کو تو زبیرعلی زئی صاحب سمیت تمام غیرمقلدین حضرات بھی قبول کریں گے کہ حافظ ابن حبانؒ کے مقابلے میں امام مالکؒ جلیل القدرفقیہہ مجتہد و محدث بھی ہیں اور تبع تابعین بھی اور امام مالکؒ کا دور ابن حبانؒ کے مقابلے میں نبی کریم ﷺ سے بہت ہی قریبی دور ہے، لہٰذا امام مالکؒ کے قول کے مقابلے میں حافظ ابن حبانؒ کے قول کی بھلا کیا حیثیت ہوسکتی ہے۔ جبکہ رسول اﷲﷺ کے فرمان میں بھی ہمیں اسی بات کی تلقین ملتی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ"‏۔ لَمْ يَذْكُرْ هَنَّادٌ الْقَرْنَ فِي حَدِيثِهِ وَقَالَ قُتَيْبَةُ ‏"‏ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ‏"۔ ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے بہترین لوگ میرے قرن کے لوگ (یعنی صحابہؓ) ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں (یعنی تابعیؒ ) اور پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں(یعنی تبع تابعینؒ) ۔ اور پھر ان قرنوں کے بعد ان لوگوں کا زمانہ آئے گا جن کی گواہی قسم سے پہلے ہوگی اور قسم گواہی سے پہلے‘‘۔(صحیح المسلم: ج۶، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم، باب فَضْلِ الصَّحَابَةِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، رقم الحدیث ۶۱۵۰)
امام ذہبیؒ اور امام یحییٰ بن کثیرؒ کے اصح اقوال کے مطابق امام مالکؒ جن کا پورا نام ابوعبداللہ مالک بن انس بن ابی عامرالاصبحی الحمیری ؒہے۹۳ھ میں پیدا ہوئے اور آپ کی وفات۱۹۷ھ میں ہوئی، اس لئے آپ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے لہٰذا مندرجہ بالا حدیث کے مطابق آپ اس تیسرےقرن سے تعلق رکھتے ہیں جس کے لوگوں کونبی کریم ﷺ نے تیسرے درجے کے بہترین لوگ قرار دیا۔جبکہ حافظ ابن حبانؒ ۲۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور آپ کی وفات ۳۵۴ھ میں ہوئی لہٰذا نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق آپ اس قرن کے لوگوں میں سے ہیں جن کی گواہی قسم سے پہلے ہوگی اور قسم گواہی سے پہلے۔اس لئے ابن حبانؒ کی گواہی امام مالکؒ کی گواہی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ لہٰذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ زبیرعلی زئی صاحب کا ابن حبانؒ کے قول سے استدلال باطل و مردود ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ غیرمقلدین حضرات کے نزدیک خیرالقرون کے جلیل القدر محدثین کی بات حجت نہیں لیکن تیسری صدی کے بعد کے محدثین کا بلادلیل قول قابل قبول ہے۔ جبکہ غیرمقلد عالم حافظ محمدصاحب گوندلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’اور امت کی اکثریت کا لحاظ قرنِ اوّل میں لیاجائے گا‘‘۔ (خیرالکلام فی وجوب الفاتحہ خلف الامام: ص۵۳۱)
تمام غیرمقلدین حضرات سے درخواست ہے کہ اپنے نعرہ کے مطابق کوئی مستنددلیل پیش کریں اور بلادلیل اقوال سے گریز کریں کیونکہ یہ آپ ہی کا کہنا ہے کہ بلادلیل بات ماننا تقلیدہے اور تقلید آپ کے فرقے کےنزدیک حرام ہے، لہٰذا اپنے مؤقف پرقائم رہیں، اس سے انحراف نہ کریں۔
اعتراض نمبر۷: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام یحییٰ بن آدم ؒ کا نام نقل کرکے انہیں بھی جارحین میں شمار کیاہے۔ (جزءرفع الیدین: ص۳۲؛ تلخیص الحبیر: ج۱،ص۲۲۲)
جواب نمبر۷: زبیرعلی زئی صاحب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر آپ میں علمی اور تحقیقی ذوق ہے اور آپ اپنے پیش کردہ دلائل میں سچے ہیں تو برائے مہربانی امام یحییٰ بن آدمؒ کی جرح کے الفاظ پیش کردیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امام یحییٰ بن آدمؒ سے ابن مسعودؓ کی حدیث پر کوئی جرح منقول ہی نہیں ہےاس لئے زبیر علی زئی صاحب نے امام یحییٰ بن آدمؒ کے نام پر ہی اکتفاکرتے ہوئےاپنے حق میں جارحین کی گنتی بڑھانے کی ناکام کوشش کی ہے۔امید ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین امام یحییٰ بن آدمؒ کا نام جارحین میں سے نکال کراپنے اس فعل سے رجوع فرمالیں گے۔
امام احمد بن حنبلؒ سےصرف اتنا منقول ہے کہ:  ’’وقال احمد بن حنبل عن یحییٰ بن آدم: نظرتُ فی کتاب عبدﷲبن ادریس عن صاصم بن کلیب لیس فیہ ''ثم لا یعود''‘‘۔ ’’یحییٰ بن آدمؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداﷲبن ادریس کی حدیث کے بارے میں کتاب پرنظرکی تو اس میں ''ثم لا یعود'' نہیں تھا‘‘۔ (جزءرفع الیدین: ص۷۹)
اعتراض نمبر۸: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام ابو بکر احمدبن عمروبزارؒ کا اعتراض نقل کیا ہے: ’’امام ابو بکر احمدبن عمروبزارؒنے اس حدیث پر جرح کی ہے‘‘۔ (الجرالزخار: ج۵،ص۴۷؛ التمہید: ج۹، ص۲۲۰)
جواب نمبر۸: زبیرعلی زئی صاحب نے یہاں بھی  امام ابو بکراحمد بن عمرو بزارؒ کی جرح پیش کرنے میں خیانت سے کام لیاہے۔ کیونکہ التمہید: ج۹، ص۲۲۰پرامام بزارؒکی جرح نقل کرنےکےفوراًبعد یہ لکھاہے کہ:
’’وقال أبوبکرأحمدبن عمرالبزار: وھوحدیث لایثبت ولایحتج بہ۔۔۔ فی الاصل (عمروالبراء) والصواب مااثبتہ‘‘۔ ’’ابوبکراحمدبن عمرالبزار نے کہا: یہ حدیث ثابت نہیں اور حجت نہیں ہے۔۔۔ اصل میں عمروالبراءتھااور وہ بہترہے جس کو میں نے بنایا‘‘۔ (التمہید: ج۹، ص۲۲۰)
لہٰذا اس جرح کو امام ابو بکراحمد بن عمرو بزارؒ کی طرف منسوب کرنابالکل غلط ہے، کیونکہ حاشیہ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اصل میں عمروالبراء تھا جس کومحشی نے عمروالبزارلکھ دیا۔ اس کا مطلب یہ سارا کارنامہ محشی کا تھا جس کو زبیرعلی زئی صاحب حذف کرگئے۔
اعتراض نمبر۹: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام محمد بن وضاحؒ ؒ کا اعتراض نقل کیا ہےکہ ’’محمد بن وضاحؒ نے ترکِ رفع یدین کی تمام روایات کو ضعیف کہا ہے‘‘۔ (التمہید: ج۹،ص۲۲۱)
جواب نمبر۹: زبیرعلی زئی صاحب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر آپ میں علمی اور تحقیقی ذوق ہے اور آپ اپنے پیش کردہ دلائل میں سچے ہیں تو برائے مہربانی امام محمد بن وضاحؒ کی جرح کے الفاظ نقل کردیں۔
امام محمد بن وضاحؒ کا قول نقل کرتے ہوئے زبیر علی زئی صاحب نے اپنی عادت کے مطابق یہاں بھی خیانت کی ہے اور مکمل عبارت بیان نہیں کیا۔ امام محمد بن وضاحؒ کے مکمل الفاظ کچھ اس طرح ہیں:
’’محمدبن وضاح یقول الاحادیث الھیٰ تروی عن النبیﷺ فی رفع یدین ثم لایعود ضعیفۃ کلھا‘‘۔ ’’محمد بن وضاح نے کہا کہ رفع یدین میں نبی کریم ﷺ سے وہ روایات جن میں ثم لا یعود کے الفاظ ہیں سب ضعیف ہیں‘‘۔ (التمہید:ج۹، ص۲۲۱)
محمد بن وضاح ؒنے حضرت عبداﷲبن مسعودؒ کی ان روایات کو ضعیف کہا ہے جن میں '' ثم لا یعود'' کے الفاظ ہیں جبکہ مندرجہ بالا پیش کردہ حدیث میں '' ثم لا یعود''  کے الفاظ موجود نہیں ہیں اور یہ حدیث ان الفاظ کے بغیر بھی ترک رفع یدین پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن زبیرعلی زئی صاحب نے خیانت کرتے ہوئے یہ الفاظ نکال دیئےجس سے جملہ ہی تبدیل ہو گیاتاکہ عام اور لاعلم مسلمانوں کو بآسانی دھوکہ دے سکیں۔
اعتراض نمبر۱۰: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرصرف امام بخاری ؒ کا نام نقل کرکے انہیں بھی جارحین میں شمار کیاہے۔ (جزء رفع یدین: ص۳۲؛ تلخیص الحبیر: ج۱،ص۲۲۲؛ المجموع شرح المہذب    : ج۳، ص۴۰۳)
جواب نمبر۱۰: زبیرعلی زئی صاحب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگرا ٓپ اپنے پیش کردہ دلائل میں واقعی سچے ہیں تو برائے مہربانی امام بخاریؒ کی جرح کے الفاظ نقل کردیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امام بخاریؒ سے اس حدیث پر جرح منقول ہی نہیں لہٰذا زبیرعلی زئی صاحب نے یہاں امام بخاریؒ کوجارہین میں تحریر کرکے اپنے جھوٹ اور کذب بیانی کی داستانوں میں مزید اضافہ فرمایا ہے۔امام بخاریؒ نے اس حدیث پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا۔ زبیر علی زئی صاحب کا امام بخاریؒ کو جارحین میں شمار کرنا جھوٹ اور کذب بیانی ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ ہم یہاں امام بخاریؒ کےمکمل الفاظ نقل کردیتے ہیں تاکہ قارئین کو زبیرعلی زئی صاحب کی کذب بیانی اور دھوکہ دہی کا بخوبی علم ہوسکے۔
امام بخاریؒ حضرت عبداﷲبن مسعودؓسےمروی نسخ رفع یدین والی حدیث سفیان ثوریؒ کی سند سے اور نسخ تطبیق والی حدیث عبداﷲ بن ادریس کی سند سےلکھنے کے بعدفرماتے ہیں: ’’وقال البخاري بعد ذكر حديث ابن إدريس: "وهٰذا (يعني حديث ابن ادريس) المحفوظ عند أهل النظر من حديث عبد الله بن مسعود"‘‘۔ ’’(عبداﷲبن ادریس کی) یہ روایت زیادہ صحیح ہے‘‘۔ یعنی سفیان کی روایت بھی صحیح ہےلیکن یہ زیادہ صحیح ہے۔ (جزِرفع الیدین للبخاری:ص۸۳)
اعتراض نمبر۱۱: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام ابن القطان الفاسی ؒ کا اعتراض نقل کیا ہےکہ ’’ابن القطان الفاسیؒ سے زیلعی حنفیؒ نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس زیادت'' ثم لا یعود'' (یعنی دوبارہ نہ کرنے) کو خطاقرار دیا ہے‘‘۔ (نصب الرایہ: ج ۱، ص۳۹۵)
جواب نمبر۱۱: زبیرعلی زئی صاحب نے امام ابن القطانؒ کی جرح کے الفاظ رقم کرکے خود ہی اس بات کی وضاحت فرمادی کہ ان کی جرح اس حدیث کے متعلق نہیں بلکہ جامع ترمذی کی دوسری حدیث کے بارے میں ہے جس میں '' ثم لا یعود'' کے الفاظ موجود ہیں اور اس اعتراض کا جواب پہلے ہی دیاجاچکاہے۔ یہاں امام ابن القطانؒ کی جرح کے الفاظ نقل کئے دیتے ہیں تاکہ قارئین کو کسی قسم کا اشکال نہ رہے۔
’’وقال ابن القطان في كتابه ( الوهم والإيهام ): ذكر الترمذي عن ابن المبارك أنه قال: "حديث وكيع لا يصح" والذي عندي أنه صحيح، وإنما المنكر فيه على وكيع زيادة "ثم لا يعود"‘‘۔ (بیان الوہم والإيہام: ج۳،ص۳۶۵)(نصب الرایہ: ج ۱، ص۳۹۵)
امام ابن القطان الفاسیؒ کا اعتراض درجہ ذیل حدیث پر ہے جس میں "ثم لا يعود"کے الفاظ موجود ہیں:
’’حَدَّثَنَاابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّه، عَنْ النَّبِيِّ أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، ثُمَّ لاَ يَعُودُ‘‘۔ ’’عبداﷲسے روایت ہے، انہوں نے کہاکیا میں تم کو رسول اﷲﷺکی نمازبتاؤں۔ پھروہ کھڑے ہوئےانہوں نےدونوں ہاتھ اٹھائےپہلی بارمیں (یعنی جب نماز شروع کی)پھر نہ اٹھائے‘‘۔ (المعانی الآثارأبو جعفر الطحاوی: جلد نمبر۱، بَابُ التَّكْبِيرِ لِلرُّكُوعِ وَالتَّكْبِيرِ لِلسُّجُودِ وَالرَّفْعِ مِنْ الرُّكُوعِ هَلْ مَعَ ذَلِكَ رَفْعٌ أَمْ لاَ)
محدثین کا اصول یہ ہے کہ ثقہ جب زیادت کرے تو قبول ہےاور امام وکیع زبردست ثقہ راوی ہیں تو یہ زیادت بھی ثقہ ہے، لہٰذا یہ زیادت جمہورمحدثین کے نزدیک مقبول ہے۔ثقہ راوی کی زیادت کی قبولیت پرمحدثین کے اقوال ملاحضہ فرمائیں:
۱۔ امام بخاریؒ فرماتے ہیں: ’’وزیادۃ مقبولۃ والمسفر یقضی علی المبھم اذارواہ اھل الثبت‘‘۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح البخاری: کتاب الزکاۃ، ج۹، ص۱۰۷)
۲۔ امام حاکمؒ فرماتے ہیں: ’’قَبُولِ الزِّيَادَةِ مِنَ الثِّقَةِ فِي الْأَسَانِيدِ وَالْمُتُونِ‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم : کتاب العلم، ج۱، ص۱۵۱)
۳۔ حافظ ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں: ’’ومذهب الجمهورمن الفقهاءوأصحاب الحديث فيماحكاه الخطيب البغدادي أن الزيادة من الثقة مقبولة إذا تفرد بها‘‘۔(زیادۃالثقۃفی کتب مصطلع الحدیث)

۴۔ حافظ ابن حجرؒفرماتے ہیں: ’’إنَّ الزيادة من الثقة المتقن مقبولة‘‘۔ (نخبۃالفکرفی مصطلح أھل الأثر)
۵۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں: ’’زیادۃثقہ وجب قبولھاولاتردلنسیان اوتقصیر‘‘۔ (شرح مسلم للنووی)
۶۔ امام نوویؒ المجموع میں فرماتے ہیں: ’’قال الإمام النووي في المجموع: قد تقرر وعلم أن المذهب الصحيح الذي عليه الجمهور من أصحاب الحديث والفقه والأصول قبول زيادة الثقة‘‘۔ (المجموع: ج۴، ص۲۴۶)
۷۔ ابن حزمؒ لکھتے ہیں: ’’اخذالزیادۃواجب‘‘۔ نیزلکھتے ہیں: ’’اخذالزیادات فرض لایجوزترکہ‘‘۔ (المحلیٰ)
۸۔ شیخ البانیؒ لکھتے ہیں: ’’وافق الشيخ الألباني ابن الجوزي على قبول زيادة الثقة مطلقا في الرفع إذا كان الاسناد صحيحا‘‘۔ (السلسلة الصحيحة: رقم ۳۶)
۹۔ شیخ عبدالعزیزبن محمدؒفرماتےہیں: ’’وزيادة الثقاة، والجمهور على قبولها‘‘۔ (السلسلة الصحيحة: رقم ۳۶)
۱۰۔ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری ؒ لکھتے ہیں: ’’کلا بل ھذہ الزیادۃ صحیحۃ فإنھا زیادۃ من ثقۃ حافظ لیست منافیۃ لروایۃ من ھو أحفظ منہ أو أکثر عددًا کما ستقف علیہ‘‘۔ ’’ہر گز نہیں! بلکہ یہ زیادت صحیح ہے کیونکہ یہ ثقہ حافظ کی زیادت ہے، یہ زیادہ حافظ یا اکثر کے منافی نہیں ہے جیسا کہ آپ عنقریب واقف ہو جائیں گے‘‘۔ (ابکا رالمنن: ص ۲۴۹-۲۵۰ )
امام ابن القطانؒ نے عبداﷲ الا شبیلیؒ کی کتاب الاحکام الوسطی کے رد میں بیان الوہم والإيہام والواقعین فی کتاب الاحکام لکھی ہے جس میں امام ابن القطانالفاسیؒ خود اس حدیث کی تصحیح ان الفاظ میں فرمارہے ہیں: ’’وَقَالَ ابْنُ الْقَطَّانِ فِي كِتَابِهِ الْوَهْمِ وَالْإِيهَامِ: وَاَلَّذِي عِنْدِي أَنَّهُ صَحِيحٌ‘‘۔ ’’امام ابن القطان ؒ نے فرمایاکہ میرے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے‘‘۔ (بیانالوہم والإيہام: ج۳،ص۳۶۷) (نصب الرایہ: ج ۱، ص۳۹۵)
علامہ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں: ’’هَذَا الْحَدِيث قَالَ الزَّرْكَشِيّ فِي تَخْرِيجه وَنقل الِاتِّفَاق لَيْسَ بجيد فقد صَححهُ ابْن حزم والدارَقُطْنيّ وَابْن الْقطَّان وَغَيْرُهُمْ وَبَوَّبَ عَلَيْهِ النَّسائيّ الرُّخْصَة فِي ترك ذَلِكَ۔ قَالَ ابْن دَقِيق فِي الْإِلْمَام: عَاصِم ابْن كُلَيْب ثِقَة أخرج لَهُ مُسْلِم وَعبد الرَّحْمَن أخرج لَهُ مُسْلِم أَيْضا وَهُوَ تَابِعِيّ وثّقه ابْن مَعِين وَغَيره انْتهى‘‘۔  ’’علامہ زرکشیؒ نے کہاکہ اس حدیث کو ابن حزم، دارقطنی، ابن قطان وغیرہم نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور امام نسائی نے (السنن میں) اس پر ترک رفع الیدین کی رخصت کا باب قائم کیا ہے۔ اور علامہ ابن دقیق العیدنے الامام میں عاصم بن کلیب کو ثقہ فرمایا ۔ اور کہا کہ اس کو امام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے۔ اسی طرح عبدالرحمٰن کو بھی جو تابعی اور ثقہ ہے۔ اور ابن معین نے دونوں کو ثقہ کہا‘‘۔ (اللآلىء المصنوعة فی الأحاديث: ج۲، ص ۱۹)
لہٰذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ امام ابن القطان الفاسیؒ کااعتراض بھی اس حدیث کے متعلق ہے جس میں'' ثم لا یعود''  کے الفاظ موجودہیں جبکہ زیر بحث حدیث میں یہ الفاظ موجود نہیں اور یہ حدیث ان الفاظ کے بغیر بھی ترک رفع یدین پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے زبیر علی زئی صاحب کا امام ابن القطانؒ کا نام جارحین میں ذکر کرنا باطل قرار پایا۔
اعتراض نمبر۱۲: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام عبداﷲ الا شبیلیؒ ؒ کا اعتراض نقل کیا ہےکہ ’’لایصح‘‘۔ ’’یہ صحیح نہیں ہے‘‘۔ (الاحکام الوسطی: ج۱،ص۳۶۷)
جواب نمبر۱۲: امام عبداﷲ الا شبیلیؒ کی جرح کے الفاظ بالکل مبہم ہیں اورمبہم الفاظ کی جرح و تعدیل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ محض حدیث کے صحیح نہ ہونے کا دعویٰ کردینے سے حدیث موضوع یا باطل نہیں ہوجاتی جب تک کہ وجوہِ طعن ثابت نہ ہو۔ امام ابن القطانؒ نے عبداﷲ الا شبیلیؒ کی کتاب الاحکام الوسطی کے رد میں بیان الوہم والإيہام والواقعین فی کتاب الاحکام لکھی ہے۔ لہٰذا زبیرعلی زئی صاحب کا عبداﷲ الا شبیلیؒ کا حوالہ دینا غلط ثابت ہوا۔
اعتراض نمبر۱۳: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام ابن ملقنؒ کا اعتراض نقل کیا ہےکہ: ’’ابن ملقنؒ شافعی(متوفی ۸۰۴) نے اسے ضعیف کہاہے‘‘۔ (البدرالمنیر: ج۳،ص۴۹۳)
جواب نمبر۱۳: امام ابن ملقنؒ کی جرح کے الفاظ بالکل مبہم ہیں اورمبہم الفاظ کی جرح و تعدیل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ اصول حدیث کی رو سےمحض حدیث کے ضعیف ہونے کا دعویٰ کردینے سے حدیث موضوع یا باطل نہیں ہوجاتی جب تک کہ وجوہِ طعن ثابت نہ ہو۔ اگر اس طرح سے کسی بھی محدث کی مبہم جرح کو قبول کرلیا جائے تو پھرکتب احادیث میں سےکوئی بھی حدیث اور کوئی بھی کتاب نہ بچ پائے گی، کیونکہ ہر حدیث پر یا احادیث کی کتابوں پرکسی نہ کسی  محدث کی جرح کے الفاظ ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری جیسی اصح الکتب پر بھی ائمہ محدثین سے جرح کے الفاظ منقول ہیں۔ ہم یہاں بطور مثال چندجرحین پیش کئے دیتے ہیں:
۱۔  میزان الاعتدال میں ہے: "کما امتنع ابو ذرعة و ابو حاتم من روایة عن تلمیذہ [أی ابن المدینی] محمد [أی البخاری] لاجل مسئلة اللفظ"۔ ‏’’جیسا کہ ابو ذرعہ اور ابو حاتم نے ان [علی بن المدینی] کے شاگرد [امام بخاری] سے الفاظ قرآن کے اختلاف کی بناء پر روایت کرنا ترک کردیا‘‘۔
‏"وقال عبد الرحمن بن ابی حاتم کان ابو ذرعة ترکه الروایة عند من اجل ما کان منه فی تلك المحنة"۔ ’’عبد الرحمٰن بن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ اس آزمائش کی بناء پر ابو ذرعہ نے امام بخاریؒ سے روایت کرنا ترک کردیا‘‘۔ (میزان الاعتدال)
۲۔ حافظ الحدیث ابوعبداللہ محمد بن مندہؒ (ولادت ۳۱۰ھ، وفات ۳۹۵ھ) نے بخاریؒ کو مدلسین میں شمار کیا ہے: "عدہ ابوعبداللہ محمد بن مندہ فی رسالة شروط الائمة من المدلسین حیث قال اخرج البخاری فی کتبه قال لنا فلان وھی اجازة و قال فلان وھی تدلیس"۔ ‏’’ابوعبداللہ محمد بن مندہؒ نے بخاریؒ کو اپنے رسالہ "شروط الائمہ" میں مدلسین میں شمار کیا ہے۔ چناچہ فرمایا کہ بخاری نے اپنی کتابوں میں اس طرح روایتیں بیان کی ہیں کہ ہم نے فلاں سے کہا "یہ اجازت ہے" اور فلاں نے کہا"یہ تدلیس ہے"‘‘۔ (شرح مختصر جرجانی: ص ۲۱۵)
۳۔ دارقطنیؒ اور حاکمؒ نے کہا ہے کہ اسحق بن محمد بن اسماعیلؒ سے بخاریؒ کا حدیث روایت کرنا معیوب سمجھا گیا ہے: "قال الدار قطنی والحاکم عیب علی البخاری اخراج حدیثه"۔ ‏’’دارقطنی اور حاکم نے فرمایا کہ روایت حدیث میں بخاری پر الزام لگایا گیا ہے‘‘۔ (مقدمہ فتح الباری :ص ۴۵۱)
۴۔ دارقطنیؒ اور حاکمؒ کا مطلب یہ ہے کہ اسحاق بن محمد کو بخاری ؒنے ثقہ خیال کرلیا حالانکہ وہ ضعیف ہیں۔ ثقہ اور ضعیف میں امتیاز نہ کرسکے اور اسماعیلؒ نے بخاری ؒکے اس فعل پر تعجب کیا ہے کہ ابو صالح جہنی کی منقطع روایت کو صحیح سمجھتے ہیں اور متصل کو ضعیف: "وقد عاب ذالك الاسماعیل علی البخاری وتعجب منه کیف یحتج باحادیثه حیث یقلقها فقال ھذا اعجب یحتج به اذا کان منقطعا ولا یحتج به اذا کان متصلا"۔ ‏’’اسماعیل نے بخاری پر اس کا الزام لگایا اور تعجب کیا کہ ابو صالح جہنی کی احادیث سے کیونکہ استدلال کرتے ہیں جب کہ وہ متصل نہیں ہیںفرمایا یہ اور زیادہ عجیب بات ہے کہ حدیث منقطع کو قابل حجت اور متصل کو ضعیف سمجھتے ہیں‘‘۔  (مقدمہ فتح الباری : ص ۴۸۳)
مندرجہ بالا ائمہ محدثین کی جرحوں کےمطابق تو صحیح بخاری کی احادیث ضعیف ثابت ہوتی ہیں لیکن آج ہم مسلمان صحیح بخاری کو قرآن کے بعد اصح الکتب کا درجہ دیتے ہیں حالانکہ امام بخاریؒ پر کی جانے والی جرحوں میں ائمہ محدثین نے وجوہِ طعن بھی بیان کیا ہے کہ امام بخاریؒ پر یہ الزام تھا کہ وہ قرآن کے الفاظ کو مخلوق قرار دیتے تھے۔ اس کے باوجود ہم امام بخاریؒ پر کی جانے والی جرحوں کو قبول نہیں کرتے۔ لہٰذا اصول حدیث کے مطابق زبیرعلی زئی صاحب کاامام ابن ملقنؒ  کی مبہم جرح کوپیش کرنا غلط ثابت ہوا۔
اعتراض نمبر۱۴: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام النوویؒ کا اعتراض نقل کیا ہےکہ امام النوویؒ فرماتے ہیں: ’’اتفقواعلیٰ تضیفۃ‘‘۔ ’’امام ترمذیؒ کے علاوہ سب متقدمین کا اس حدیث کے ضعیف ہونے پراتفاق ہے‘‘۔ (خلاصۃ الاحکام: ج۱،ص۳۵۴)
جواب نمبر۱۴: امام النوویؒ کا دعویٰ بالکل غلط ہے کیونکہ جمہورمحدثین کرامؒ اس حدیث کی تصحیح کے قائل ہیں، اور جن محدثین کرامؒ سےاس حدیث پر جرح منقول ہے ان کا اعتراض بھی صرف '' ثم لا یعود''  کےالفاظ پر ہے۔ جبکہ احناف کا دعویٰ '' ثم لا یعود''  کےالفاظ کے بغیر بھی ترک رفع یدین پر دلالت کرتا ہے۔
اعتراض نمبر۱۵: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام محمدنصر المروزیؒ کا اعتراض نقل کیا ہے۔ (بحوالہ نصب الرایۃ: ج۱، ص۳۹۵؛ والاحکام الوسطی: ج۱،ص۳۶۷)
جواب نمبر۱۵: امام ابن القطان الفاسیؒ نے امام محمد نصر المروزیؒ کا اعتراض صرف '' ثم لا یعود''  کےالفاظ پر نقل کیاہے۔ اورامام ابن القطان الفاسیؒ نےامام محمد نصر  المروزیؒ کا '' ثم لا یعود''  کےالفاظ پر اعتراض نقل کرنے کے بعد اس حدیث کی تصحیح نقل کی ہےاور امام محمد نصر المروزیؒ کے اعتراض کا جواب دیا ہے۔ (بیان الوھم والا یہام الواقعین فی کتاب الاحکام: ج۳، ص۳۶۷)
جبکہ احناف کا دعویٰ ''ثم لا یعود''  کےالفاظ کے بغیر بھی ترک رفع یدین پر دلالت کرتا ہے۔لہٰذا زبیرعلی زئی صاحب کا امام محمد نصر المروزیؒ کا نام جارحین میں شمار کرنابالکل غلط ہے۔
اعتراض نمبر۱۶: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام دارمیؒ کا اعتراض نقل کیا ہے۔ (بحوالہ تہذیب السنن الحافظ ابن القیم: ج۲،ص۴۴۹)
جواب نمبر۱۶: زبیر علی زئی صاحب کا امام دارمیؒ کا حوالہ پیش کرنا باطل ومردود ہے جس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ کیونکہ یہ اعتراض حافظ ابن القیم الجوزیؒ کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے اور امام دارمیؒ اور حافظ ابن القیم الجوزیؒ کے درمیان سند نامعلوم ہے، لہٰذا بے سند قول کو پیش کرناباطل اور مردود ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر زبیر علی زئی صاحب کے نزدیک ابن القیمؒ کا حوالہ درست ہے تو پھر حافظ ابن القیم الجوزیؒ کا مکمل مؤقف بھی درست ہونا چاہئےورنہ زبیرعلی زئی صاحب کا امام ابن القیمؒ کے حوالے سے صرف اپنے مطلب کی بات پیش کرنا اوران کا مکمل مؤقف حذف کردینا ایک علمی بدیانتی اور تحریف ہے۔ حافظ ابن القیم الجوزیؒ نے آئمہ محدثین کے تمام اعتراضات نقل کرکےان کا تفصیلی رد لکھا ہےجو ذیل میں امام حاکمؒ کے اعتراض کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔
اعتراض نمبر۱۷: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام بیہقیؒ کا اعتراض نقل کیا ہے۔ (بحوالہ تہذیب السنن الحافظ ابن القیم: ج۲،ص۴۴۹؛ شرح المہذب النووی: ج۳، ص۴۰۳)
جواب نمبر۱۷: زبیر علی زئی صاحب کا امام بیہقی ؒ کا حوالہ پیش کرنا باطل ومردود ہے اس کی بھی وہی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ کیونکہ یہ اعتراض حافظ ابن القیم الجوزیؒ اورامام النوویؒ کے حوالے سے پیش کیا گیا ہےاورامام بیہقی ؒ اور امام ابن القیم الجوزیؒ و امام النوویؒ کے درمیان سند نامعلوم ہے، لہٰذا بے سند قول کو پیش کرناباطل اور مردود ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر زبیر علی زئی صاحب کے نزدیک ابن القیمؒ کا حوالہ درست ہے تو پھر حافظ ابن القیم الجوزیؒ کا مکمل مؤقف بھی درست ہونا چاہئےورنہ زبیرعلی زئی صاحب کا امام ابن القیمؒ کے حوالے سے صرف اپنے مطلب کی بات پیش کرنا اوران کا مکمل مؤقف حذف کردینا ایک علمی بدیانتی اور تحریف ہے۔ حافظ ابن القیم الجوزیؒ نے آئمہ محدثین کے تمام اعتراضات نقل کرکےان کا تفصیلی رد لکھا ہےجو ذیل میں امام حاکمؒ کے اعتراض کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔
اعتراض نمبر۱۸: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام حاکمؒ کا اعتراض نقل کیا ہے۔ (البدرالمنیر: ج۳، ص۴۹۳)
جواب نمبر۱۸: حافظ ابن القیم الجوزیؒ نے امام حاکمؒ اور دیگرآئمہ محدثین کے تمام اعتراضات نقل کرکےان کا تفصیلی رد لکھا ہےجو درج ذیل ہے:
’’وقال حاکم خبرابن مسعودمختصروعاصم بن کلیب لم یخرج حدیثہ فی الصحیح ولیس کما قال فقد احتج بہ مسلم الا انہ لیس فی الحفظ کا ابن شھاب و امثالہ واما انکارسماع عبدالرحمٰن عن علقمہ فلیس بشیئی فقد سمع منہ وھذا الحدیث اوی باربعۃ الفاظ احدھا قولہ فرفع یدیہ فی اول مرۃ ثم لم یعد و الثانیہ فلم یرفع یدیہ الامرۃ الثانیہ فرفع یدیہ فی اول مرہ لم یذکرسواھا والرابعۃ فرفع یدیہ مرۃ واحدۃ والادرج ممکن فی قولہ ثم لم یعد و اما با فیھافاماان یکون قدروی بالمعنی واماان یکون صحیحاً‘‘۔
’’امام حاکمؒ نے فرمایاکہ حضرت عبداﷲبن مسعودؓ کی حدیث لمبی حدیث سے مختصر کی گئی ہےاور اس کے راوی عاصم بن کلیب کی حدیث صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں نہیں ہے۔ ابن القیمؒ فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں جیسا کہ امام حاکمؒ نے کہاہے۔ پس اس کی حدیث  امام مسلمؒ نے بطور حجت صحیح مسلم میں روایت نہیں کی ہے۔ مگر حافظ زہریؒ جیسے راویوں کے مثل نہیں اور باعلقمہ سے عبدالرحمٰن کے سماع کا انکار تو یہ بھی کوئی چیز نہیں ہے۔ پس عبدالرحمٰن نے علقمہ سے سنا ہے اور وہ ثقہ ہے اور حضرت ابن مسعودؓ کی یہ حدیث چار قسم کے الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے۔ (۱) پہلی مرتبہ دونوں ہاتھ اٹھائے دوسری مرتبہ نہیں اٹھائے۔ (۲) پہلی مرتبہ کے علاوہ ہاتھ نہیں اٹھائے۔ (۳) پہلی مرتبہ دونوں ہاتھ اٹھائے اور (۴) ایک مرتبہ دونوں ہاتھ اٹھائے۔ اس حدیث میں لفظ '' ثم لا یعود''  کا مدارج ہونا تو ممکن ہے لیکن باقی الفاظ حدیث یا روایت بالمعنی ہیں یا اسی طرح صحیح ہیں‘‘۔ (تہذیب السنن مع مختصرالسنن: ج۱، ص۳۶۸)
حافظ ابن القیم الجوزیؒ کی عبارت سے وضاحت ہوگئی کی اس حدیث کی سند اور متن بالکل صحیح ہے۔ ابن القیمؒ نے لفظ ''ثم لا یعود''  کے ادراج کا بھی صرف امکان کا اظہار کیا، یقینی طور پر ادراج کا اظہار نہیں کیا۔ حافظ ابن القیمؒ نے امام حاکم ؒ اور دیگرمحدثین کرامؒ کا جواب اور رد پیش کرکے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ لہٰذا زبیر علی زئی صاحب کا حافظ ابن القیمؒ کے حوالے سے امام محمد نصر المروزیؒ اور امام بیہقیؒ کا اعتراض پیش کرنا باطل اور مردود ثابت ہوا۔
اعتراض نمبر۱۹: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام یحییٰ ابن معینؒ کا اعتراض نقل کیا ہے۔ (نورالعینین: ص۱۲۳)
جواب نمبر۱۹: زبیرعلی زئی صاحب نے حسب عادت امام یحییٰ ابن معینؒ کی جرح پیش کرکے جھوٹ بولاہے۔ امام یحییٰ ابن معینؒ کی جرح انکی کسی کتاب میں نہیں ہے۔ زبیرعلی زئی صاحب نے یہ جرح جلاءالعینین سے نقل ماری ہے تاکہ عام اور لاعلم مسلمانوں کی انکھوں میں دھول جھونک سکیں۔ لہٰذا یہ جرح بے سنداور موضوع ومنگھڑت ہے۔ اگر امام یحییٰ ابن معینؒ نے اس حدیث پر جرح کی ہوتی تو علامہ ابن دقیقؒ، علامہ مغلطائیؒ اور علامہ بدرالدین عینیؒ امام ابن مبارکؒ کی جرح کا جواب دیتے ہوئے امام یحییٰ ابن معینؒ کی توثیق کا ذکرکبھی نہ کرتے۔
۱۔ علامہ ابن دقیق العید المالکی الشافعیؒ اس جرح کا جواب یوں دیتے ہیں: ’’فَقَالَ الشَّيْخُ فِي الْإِمَامِ: وَعَدَمُ ثُبُوتِ الْخَبَرِ عِنْدَ ابْنِ الْمُبَارَكِ لَا يَمْنَعُ مِنْ النَّظَرِ فِيهِ، وَهُوَ يَدُورُ عَلَى عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، وَقَدْ وَثَّقَهُ ابْنُ مَعِينٍ‘‘۔ ’’حضرت ابن مبارکؒ کے ہاں حدیث کا ثابت نہ ہونا اس حدیث پر عمل کرنے سے روک نہیں سکتا ۔ کیونکہ اس حدیث کا دارومدار عاصم بن کلیب پر ہے اور امام ابن معینؒ نے ان کی توثیق کی ہے‘‘۔ (نصب الرایہ:ج۱،  ص۳۹۵ بحوالہ الامام فی معرفۃاحادیث الاحکام:  وفتح الملہم:ج۲،  ص۴۷۰)
۲۔ علامہ مغلطائیؒ کا جواب: ’’أن عدم ثبات عند ابن المبارک لایمنع من اعتباررجالہ، والنظرفی رأیہ والحدیث یدورعلی عاصم بن کلیب، وھوثقہ عندبن جبان، وابن سعد، واحمد بن صالح، و ابن شاھین، ویحییٰ بن معین وفسوی وغیرھم‘‘۔ ’’حضرت ابن مبارکؒ کے نزدیک حدیث کا ثابت نہ ہونا اس کے راویوں کا اعتبار کرنےسے روک نہیں سکتا ۔ کیونکہ اس حدیث کا دارومدار عاصم بن کلیب پر ہے اور ابن حبانؒ، ابن سعدؒ، احمد بن صالحؒ، ابن شاھینؒ ،امام ابن معینؒ ، فسویؒ اور کچھ اور لوگوں نے ان کی توثیق کی ہے‘‘۔ (شرح ابن ماجہ: ج۵، ص۱۴۶۷)
۳۔ علامہ بدرالدین عینیؒ کا جواب:’’أن عدم ثبوت الخبر عندابن المبارک لا یمنع من النظرفیہ وھویدور علی عاصم بن کلیب وقدوثقہٗ ابن معین‘‘۔ ’’حضرت ابن مبارکؒ کے نزدیک  حدیث کا ثابت نہ ہونا اس حدیث پر عمل کرنے سے روک نہیں سکتا ۔ کیونکہ اس حدیث کا دارومدار عاصم بن کلیب پر ہے اور امام ابن معینؒ نے ان کی توثیق کی ہے‘‘۔ (شرح سنن ابی داؤد: ج۳، ص۳۴۲)
اعتراض نمبر۲۰: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرعلامہ ابن عبدالبرؒکا اعتراض نقل کیا ہےکہ: ’’ابن عبدالبربحوالہ مرعاۃ المفاتیح نقلہ من مسئلہ رفع الیدین للشیخ عبدالمنان، ص۱۷‘‘۔
جواب نمبر۲۰: زبیرعلی زئی صاحب کا یہاں بھی ابن عبدالبرؒکی طرف جرح کی نسبت کرنادرست نہیں ہےکیونکہ یہ جرح غیرمقلد عالم عبدالمنان نورپوری کی کتاب سے نقل کی گئی ہے۔ حافظ زبیرعلی زئی صاحب سے گزارش ہے کہ ابن عبدالبرؒ کی جرح کے اصل الفاظ نقل کریں اور انکی اپنی یاکسی مستند کتاب کا حوالہ پیش کریں یاپھر ناقل سے ابن عبدالبرؒ تک سند و متن پیش کردیں ورنہ اپنی پیش کردہ جرح سے رجوع فرمائیں۔ جبکہ علامہ ابن عبدالبرؒنےاپنی کتاب التمہیدلمافی الموطامن المعانی ولاسانیدمیں یہ حدیث رقم کرنے کے بعد کسی قسم کااعتراض رقم نہیں کیاجو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ علامہ ابن عبدالبرؒ سے اس حدیث پر کسی قسم کی کوئی جرح منقول نہیں ہے۔ علامہ عبدالبرؒاسی کتاب میں مسئلہ رفع یدین پربحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’واختلف العلماء فی رفع الیدین فی الصلاة فروی ابن القاسم وغیرہ عن مالک أنہ کان یریٰ رفع الیدین فی الصلاة ضعیفًا الا في تکبیرة الاحرام وحدہا، وتعلق بہٰذہ الروایة عن مالک أکثر المالکیین‘‘۔  ’’اور نماز میں رفع یدین کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ ابن القاسم وغیرہ نے امام مالک رحمة الله عليه سے روایت کیاہے کہ امام مالک رحمة الله عليه نماز میں رفع یدین کو ضعیف سمجھتے تھے مگر صرف تکبیر احرام میں، اور امام مالک رحمة الله عليه کی اس روایت پر اکثر مالکیین کا اعتماد ہے‘‘۔(التمہید: ج۹، ص۲۱۲)
اعتراض نمبر۲۱: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرامام ابوداؤدؒکا اعتراض نقل کیا ہےکہ: ’’امام ابوداؤدؒ نے کہا! یہ حدیث مختصر ہےلمبی حدیث سےاور یہ اس لفظ پرصحیح نہیں‘‘۔ (سنن ابی داؤدومشکوٰۃبحوالہ نورالعینین: ص۱۲۱)
جواب نمبر۲۱: امام ابوداؤدؒ کی جرح کے الفاظ مبہم ہیں اور مبہم الفاظ کی جرح وتعدیل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ پہلی بات یہ ہےکہ امام ابو داؤدؒ نے اس حدیث کی سند پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا لہٰذا ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ امام ابوداؤدؒ بھی اس حدیث کی سند کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ حدیث مختصر ہے لمبی حدیث سے تو آخر وہ کونسی لمبی حدیث ہے جس کے بارے میں امام ابوداؤدؒنے بیان فرمایا؟ لہٰذا یہاں امام ابوداؤد ؒکی جرح کے الفاظ مبہم ہیں۔ بالفرض اگر ہم خود ہی اس لمبی حدیث کا تعین کریں تو ہمیں دوہی احادیث نظر آتی ہیں جن سے یہ حدیث مختصر کی جاسکتی ہے۔ پہلی تو یہ کہ اس حدیث میں '' ثم لا یعود''  کے الفاظ کااضافہ کردیا جائے تو یہ مختصر سے لمبی حدیث بن جائے گی اور'' ثم لا یعود''  کے الفاظ کےساتھ ترک رفع یدین پرواضح دلیل بن جائےگی۔ یا پھرعبداﷲبن ادریس کی بیان کردہ تطبیق والی حدیث ہےجسے عبدا ﷲبن ادریس کے سواء کسی نے بیان نہیں کیا۔ اگر اس لمبی حدیث کو تطبیق والی حدیث مان لیا جائے تو مزید اشکال ہوتا ہے کہ تطبیق والی روایت عاصم بن کلیب سے صرف عبداﷲ بن ادریس ؒنے نقل کی ہے، جبکہ سفیان ثوریؒ والی روایت ابوبکرنہشلی اور عبداﷲبن ادریس نے بھی بیان کی ہے۔ (العلل الواردۃفی الاحادیث نبویۃ:  ج۵،ص۱۷۲)
مندرجہ بالا تحقیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ امام ابوداؤد ؒ کی جرح کے الفاظ مبہم ہیں لہٰذا زبیرعلی زئی صاحب کا امام ابوداؤدؒ کی جرح سے استدلال باطل و مردود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیرمقلد محدث علامہ ناصرالدین البانیؒ نے صحیح ابی داؤدکے نام سے جو کتاب شائع کی ہے، اس میں امام ابوداؤدؒکی جرح کے الفاظ نقل کرنے کے بعدبھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
اعتراض نمبر۲۲: ’’زبیرعلی زئی صاحب نے نورالعینین میں حدیث ابن مسعودرضی اﷲ عنہ پرابن قدامہ المقدسیؒ کا اعتراض نقل کیا ہےکہ: ’’ ابن قدامہ المقدسیؒ نے کہا! ضعیف‘‘۔ (المغنی: ج۱، ص۲۹۵ بحوالہ نورالعینین: ص۱۲۳)
جواب نمبر۲۲: ابن قدامہ المقدسیؒ کی جرح کے الفاظ مبہم ہیں اور مبہم الفاظ کی جرح وتعدیل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ ویسے بھی امام مالکؒ، امام احمدؒ، امام طحاویؒ اور جمہورمحدثین کی تصحیح کے بعد امام ابن قدامہؒ کی مبہم جرح کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے۔
آخر میں مشہور ومعروف غیرمقلد محدث علامہ ناصرالدین البانی صاحب ؒکی بات نقل کر دیتے ہیں۔ غور سے پڑھیئے: ’’قال الالبانی: والحق انہ حدیث صحیح واسنادہ صحیح علی شرط مسلم‘‘۔ ’’ البانیؒ نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط پرصحیح ہے‘‘۔ (التعلیق علی المشکوٰۃ للالبانی: ج۱، ص۲۵۴)
آخری اعتراض: غیرمقلدین حضرات جب علماءِ احناف کے ان تمام دلائل سے عاجزآجاتے ہیں اور ان کے پاس اپنے مؤقف کے دفاع میں کچھ باقی نہیں رہتا تو پھر علم حدیث کا ایک قائدہ کلیہ بیان کرکے اپنے کمزور مؤقف کو صحیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔زبیر علی زئی صاحب علامہ احمد شاکرؒ کاقول  نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’کیونکہ اس حدیث میں''نفی''  کا بیان ہے اور دیگر احادیث میں ''اثبات''  ہے۔ اور اثبات ہمیشہ مقدم ہوا کرتا ہے۔ چونکہ یہ عمل سنت ہے، ممکن ہے کہ نبیﷺ نے کبھی ایک یا زیادہ بار اسے ترک بھی کیا ہو۔ مگر اغلب اور اکثر اس پر عمل کرنا ہی ثابت ہےلہٰذا رکوع کیلئےجاتے اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا ہی سنت ہے ‘‘۔ اس کے بعد زبیر علی زئی صاحب اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’راقم عرض کرتا ہے کہ نماز کے بیسیوں مسائل ہیں۔ جیسے ان کے نہ ذکر کرنے سےان کی نفی نہیں ہوتی۔ ایسے ہی رکوع کا رفع یدین ہے‘‘۔ (حواشی سنن ابوداؤد، تحقیق و تخریج حافظ زبیرعلی زئی: ج ۱، ص۵۶۵)
جواب: زبیر علی زئی صاحب علم حدیث کا جو قائدہ کلیہ بیان کررہے ہیں اس کے مطابق اگر یہ بات قبول کرلی جائے کہ اثبات ہمیشہ نفی پر مقدم ہوا کرتا ہے تو پھر اس اصول کے مطابق تمام غیرمقلدین حضرات کو سجدوں کا رفع یدین بھی کرنا چاہئے کیونکہ سجدوں کا رفع یدین بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے اور بہت سے صحابہؓ و تابعینؒ کے اس پر عمل پیرا ہونے کی دلیل ملتی ہیں جنہیں ہم مسئلہ رفع یدین والی پوسٹ پرتفصیل سےبیان کرچکے ہیں۔ بقول زبیر علی زئی صاحب کے اگر حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی اس حدیث میں رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر نہ کرنے سے اس کی نفی نہیں ہوتی توپھر بالکل اسی طرح رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کرنے والی احادیث میں سجدوں کے رفع یدین کا ذکر نہ کرنے سے اس کی نفی نہیں ہوسکتی۔ جس طرح یہ ممکن ہے کہ نبیﷺ نے کبھی ایک یا زیادہ بار رکوع کے رفع یدین کو  ترک بھی کیا ہو، بالکل اسی طرح یہ بھی تو ممکن ہے کہ نبیﷺ نے کبھی ایک یا زیادہ بار سجدوں کے رفع یدین کوبھی  ترک کیا ہو۔ کیونکہ بقول زبیر علی زئی صاحب کے اثبات ہمیشہ نفی پر مقدم ہوا کرتا ہے تو پھرغیرمقلدین حضرات سجدوں کے رفع یدین کے اثبات کو اس کی نفی پر مقدم کیوں نہیں کرتے؟ کتب احادیث کی تقریباً تمام کتابوں میں صحیح سندسےسجدوں کے رفع یدین کا ذکر ملتا ہے اور صحابہؓ و تابعینؒ کا اس رفع یدین پر عامل ہونا اس کےسنت  ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ لہٰذا میری تمام غیرمقلدین حضرات سے گزارش ہے کہ پہلے خود اس اصول پر عمل کرکے دکھائیں پھر ہمیں اس پر عمل کرنے کی تلقین کریں۔  انشاءاﷲیہاں انہیں یہ اصولی یاد نہیں رہے گا۔
حقیقت میں یہ بالکل درست بات ہے کہ اثبات نفی پرمقدم ہوتا ہے، لیکن کب اور کن حالات میں اس کا علم نہ تو زئی صاحب کو ہے اور نہ ہی ان کے متبعین کو، لہٰذا ہم ہی ان کے علم میں کچھ اضافہ کیئے دیتے ہیں۔ اثبات نفی پر اس وقت مقدم ہوتا ہے جب نفی کرنے والے کا علم اس شیئے کو محیط نہ ہو جس شیئے کی نفی کی جارہی ہے۔ اگرراوی کا علم اس چیز کو محیط ہو جیساکہ ابن مسعودرضی اﷲعنہ کی اس حدیث میں ہے تو اثبات اور نفی کا حکم برابرہوگا۔ اور یہ بات ایک عام طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ رسول اﷲﷺ کی صحبت میں ہمیشہ رہے ہیں اور شاذ و نادر ہی آپ سے دور ہوئے ہیں۔ آپؓ کی قربت کا یہ عالم تھا کہ آپؓ نے تہجد کی نماز تک رسول اﷲﷺ کے پیچھےپڑھی ہیں۔ حتیٰ کہ لوگ آپؓ کو اہل بیت سے گمان کرتے تھے۔ لہٰذا آپؓ کو رسول اﷲﷺ کی نمازوں کے بارے میں مکمل خبرتھی اور آپؓ کابیان کرنادوسرے صحابہ کرامؓ کے بیان کرنے سے زیادہ مستنداورمعتبرہے۔
حدیث ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کو صحیح قرار دىنے والے حضرات مجتہدین ومحدثىن
تنبیہ: اصول فقہ و حدیث کا ضابطہ ہے کہ ’’اذا استدل المجتہد بحدیث الخ‘‘۔ ’’جس حدیث سے کوئی فقىہ و مجتہد ومحدث استدلال کرے وہ اس کے نزدىک صحیح ہے‘‘۔ (تدریب الراوی :ج ۱، ص ۴۸؛  تلخىص الحبیر : ج۲، ص۱۴۳؛ قواعد فی علوم الحدیث:ص۵۷)
۱۔ حضرت ابر اہیم النخعی رحمہ اﷲ ۹۶ھ (مسند ابی حنیفہ بروایت حسن: ص ۱۳؛مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف: ص۲۱؛ موطا امام محمد: ص۹۳؛ کتاب الحجہ لامام محمد: ج۱،ص۹۶؛ مسند ابن الجعد: ص۲۹۲؛ سنن الطحاوی: ج۱،ص۱۶۱،۱۶۳؛ مشکل الآثار للطحاوی: ج۲،ص۱۱؛ جامع المسدنید: ج۱،ص۳۵۲؛  معجم الکبیر للطبرانی: ج۲۲،ص۲۲؛ سنن دار قطنی : ج۱،ص۳۹۴؛ سنن الکبری للبیہقی:  ج۲، ص۸۱)
۲۔ امام اعظم ابو حنیفہ التابعی رحمہ اﷲ  ۱۵۰ھ (مسند ابی حنیفہ بروایت حسن : ص۱۳؛  مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف: ص ۲۱؛ موطا امام محمد: ص۹۳؛  کتاب الحجہ: ج ۱،ص۹۶؛ سنن الطحاوی: ج۱،ص۱۶۲؛ جامع المسانید:ج۱،ص۳۵۳؛ الاوسط لا بن المنذر : ج۳،ص۱۴۸؛  التجريد للقدروی؛ ج۵،ص۲۷۲؛ حلیة العماءللشاشی: ج۱،ص۱۸۹؛ المحلی ابن حزم: ج۴،ص۱۱۹ ،ج۱ص۳۰۱؛ التمیہد: ج۹،ص۲۱۳؛  الاتذکار لا بن البر : ج۴،ص ۹۹؛ مناقب المکی :ج۱،ص۱۳۰؛ مغنی لابن قدامہ: ج۲،ص۱۷۲؛ دلائل الاحکام: ج۱،ص۲۶۳؛ شرح سنن ابن ماجہ المغلطائی: ج۵،ص۱۴۶۶۔۱۴۶۷؛ عمدة القاری:ج۵،ص۲۷۲)
۳۔ امام سفیان ثوری رحمہ اﷲ  ۱۶۱ھ (جز رفع الیدین :ص۴۶؛ ترمذی :ج ۱ص۵۹؛ الاوسط لابن منذر :ج۳،ص۱۴۸؛ حلیة العماءللشاشی :ج۱،ص۱۸۹؛ التجرید للقدوری :ج۱،ص۲۷۲؛ شرح البخاری لابن بطال :ج۲،ص۴۲۳؛ التمہید :ج ۹،ص۲۱۳؛الاستذکار :ج۴،ص۹۹؛ شرح النہ للبغوی :ج۲، ص۲۴؛مغنی لابن قدامہ :ج۲،ص۱۷۲؛ دلائل الاحکام لابن شداد :ج۱،ص۲۶۳؛ شر ح سنن ابن ماجہ للمغلطائی :ج۵،ص۱۴۶۶؛عمدة القاری :ج۵،ص۲۷۲)
۴۔امام ابن القاسم المصری رحمہ اﷲ ۱۹۱ھ (المدونة الکبریٰ ا لامام مالک: ج۱، ص۷۱)
۵۔ امام وکیع بن الجراح الکوفی رحمہ اﷲ ۱۹۷ھ (جزءرفع الیدىن للبخاری :ص۴۶؛ عمدة القاری ج۵،ص۲۷۲)
۶۔امام اسحاق بن ابی اسرائیل المروزی رحمہ اﷲ ۲۴۶ھ (سنن دار قطنی: ج۱، ص۳۹۹،۴۰۰؛ سندصحیح)
۷۔امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اﷲ ۲۵۶ھ (جزءرفع الیدین للبخاری: ص۲۵، للزئی: ص۱۱۲)
۸۔ امام ابو داؤد السجستانی رحمہ اﷲ ۲۷۵ھ (تاریخ بغداد الخطیب: ج۹،ص۵۹؛ تذکرة الحفاظ: ج۲ص۱۲۷؛ النکت لابن حجرص:ص۱۴۱)
۹۔امام ابو عیسی ترمذی  رحمہ اﷲ ۲۷۹ھ (سنن ترمذی: ج۱،ص۵۹؛ شرح الھدایہ للعینی: ج۲،ص۲۹۴)
۱۰۔ امام احمد بن شعیب نسائی رحمہ اﷲ ۳۰۳ھ (النکت لابن حجر: ص۱۶۵؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۱۱۔ امام ابو علی الطوسی رحمہ اﷲ ۳۱۲ھ (مختصر الاحکام مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی: ج۲، ص۱۰۳؛ شرح ابن ماجہ للحافظ للمغلطائی: ج ۵، ص۱۴۶۷)
۱۲۔ امام ابو جعفر الطحاوی رحمہ اﷲ ۳۲۱ ھ(الطحاوی: ج۱،ص۱۶۲؛ الرد علی الکرانی بحوالہ جوہر النقی: ص۷۷،۷۸)
۱۳۔امام ابو محمد الحارثی البخاری رحمہ اﷲ ۳۴۰ھ (جامع المسانید: ج ۱، ص۳۵۳، مکة المکرمة)
۱۴۔امام ابو علی النسابوری رحمہ اﷲ ۳۴۹ھ (النکت لابن حجر ؒ: ص۱۶۵؛ زہر الربی علی النسائی للسیوطی: ص۳)
۱۵۔امام ابو علی ابن السکن المصری رحمہ اﷲ ۳۵۳ھ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۱۶۔ امام محمد بن معاویہ االاحمر رحمہ اﷲ ۳۵۸ھ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۱۷۔امام ابو بکر ابن السنی رحمہ اﷲ ۳۶۴ھ (الارشاد لامام الخلىلی: ص ۱۳۱؛ زہر الربی للسیوطی: ص ۳)
۱۸۔ امام ابن عدی رحمہ اﷲ ۳۶۵ھ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی ص۳)
۱۹۔امام ابو الحسن الدار قطنی رحمہ اﷲ ۳۸۵ھ (کتاب العلل: ج ۵، ص۱۷۲؛ النکت: ص۱۶۴؛ زہر الربی: ص۳)
۲۰۔ امام ابن مندة رحمہ اﷲ ۳۹۰ھ (النکت لا بن حجرؒ:  ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۲۱۔ امام ابو عبد اﷲ الحاکم رحمہ اﷲ ۴۰۵ھ (النکت لا بن حجرؒ:  ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۲۲۔ امام عبد الغنی بن سعید رحمہ اﷲ ۴۰۹ھ (النکت لا بن حجرؒ:  ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۲۳۔ امام ابو الحسین القدوری رحمہ اﷲ ۴۲۸ھ (التجرید للقدوری ؒ: ج۲، ص۵۱۸)
۲۴۔امام ابو یعلی الخلیلی رحمہ اﷲ ۴۴۶ھ (الارشاد للخلیلی: ص ۱۱۲؛ النکت: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۲۵۔ امام ابو محمد ابن حزم رحمہ اﷲ ۴۵۶ھ (المحلی لا بن حزم: ج ۴، ص۱۲۱، مصر)
۲۶۔ امام ابوبکر الخطیب للبغدادی رحمہ اﷲ ۴۶۳ھ (النکت لا بن حجرؒ:  ص ۱۶۳؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۲۷۔ امام ابوبکر السرخسی رحمہ اﷲ ۴۹۰ھ (المبسوط للسرخسی: ج ۱، ص۱۴)
۲۸۔ امام موفق المکی رحمہ اﷲ ۵۶۸ ھ (مناقب موفق المکی: ج۱، ص۱۳۰، ۱۳۱)
۲۹۔امام ابو طاہر السلفی رحمہ اﷲ ۵۷۶ھ (النکت لا بن حجرؒ:  ص ۱۶۳؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۳۰۔ امام ابوبکر کاسانی رحمہ اﷲ ۵۸۷ھ (بدائع الصنائع للکاسانیؒ: ج۱، ص۴۰)
۳۱۔امام ابن القطان الفاسی رحمہ اﷲ ۶۲۸ھ (بیان الوھم والا ےھام لابن القطان الفاسی: ج۳، ص۳۶۷)
۳۲۔ امام محمد الخوارزمی رحمہ اﷲ ۶۵۵ھ (جامع المسانید)
۳۳۔امام ابو محمد علی بن زکریا المنجی رحمہ اﷲ ۶۸۶ھ (اللباب فیا الجمع بین السنة والکتاب: ج۱، ص۲۵۶)
۳۴۔ امام ابن الترکمانی رحمہ اﷲ ۷۴۵ھ (الجوہر النقی علی البیہقی لا بن الترکمانی: ج۲، ص۷۷، ۷۸)
۳۵۔امام حافظ مغلطائی رحمہ اﷲ ۷۶۲ھ (شرح ابن ماجہ الحفاظ المغلطائی: ج ۵، ص۱۴۶۷)
۳۶۔ امام حافظ زیلعی رحمہ اﷲ ۶۷۲ھ (نصب الرایہ للزیلعی: ج۱، ص۳۹۶؛ وفی نسخة: ج۱، ص۴۷۴)
۳۷۔امام حافظ عبد القادر القرشی رحمہ اﷲ ۷۷۵ھ (الحاوی علی الطحاوی: ج ۱، ص۵۳۰)
۳۸۔ امام فقیہ محمد البابرقی رحمہ اﷲ ۷۸۶ھ (العنایہ شرح الھدایہ: ج۱، ص۲۶۹)
۳۹۔ امام فقیہ محمد الکردری رحمہ اﷲ ۸۲۶ ھ (مناقب کردری: ج۱، ص۱۷۴)
۴۰۔محدث احمد بن ابی بکر البوصیری رحمہ اﷲ ۸۴۰ھ (اتحاف الخیرة المھرہ للبوصیری: ج۱۰، ص۳۵۵، ۳۵۶)
۴۱۔ محدث محمود العینی رحمہ اﷲ ۸۵۵ھ (شرح سنن ابی داؤد للحافظ العینی ؒ : ج ۳، ص۳۴۱، ۳۴۲؛  شرح الھدایہ عینی: ج۲، ص۲۹۴)
۴۲۔امام ابن الھمام رحمہ اﷲ ۸۶۱ھ (فتح القدیر شرح الھدایہ لابن الھمام: ج۱، ص۲۶۹، ۲۷۰)
۴۳۔ملا علی قاری رحمہ اﷲ ۱۰۱۴ھ (مرقات: ج۲،ص۲۶۹؛  شرح الفقایہ: ج۱، ص۲۵۷، ۲۵۸؛ شرح مسند ابی حنیفہ للعلی قاری: ص۳۸)
۴۴۔ امام محمد ھاشم السندھی رحمہ اﷲ ۱۱۵۴ھ (کشف الدین مترجم لمصمدہاشم السندھی: ص۱۵، ۱۶)
۴۵۔امام حافظ محدث محمد الزبیدی رحمہ اﷲ ۱۲۰۵ھ (عقود الجواھر المنفىہ للزبیدی)
۴۶۔ امام محمد بن علی النیموی رحمہ اﷲ ۱۳۴۴ھ (آثار السنن مع التعلیق للنمیوی ؒ: ص۱۳۲)
۴۷۔امام حافظ خلىل احمد السہارنپوری رحمہ اﷲ ۱۳۴۶ھ (بذل المجھود: ج۲، ص۲۱)
۴۸۔ مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اﷲ ۱۳۵۰ھ (نیل الفرقدین لکشمیری: ص۵۶، ۵۷، ۵۸، ۶۱، ۶۴، ۶۶)
۴۹۔ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اﷲ (اعلاءالسنن للعثمانی ؒ: ج ۳، ص۴۵، ۴۶)
۵۰۔ امام شیخ الحدیث زکریا المدنی رحمہ اﷲ (اوجز المسالک علی موطا مالک)
۵۱۔ غیر مقلد عالم علامہ محمد زہیر الشاویش رحمہ اﷲ (تعلیق علی شرح السنة للبغوی: ج۳، ص۲۴، بیروت)
۵۲۔ غیر مقلد عالم علامہ احمد محمد الشاکر المصری رحمہ اﷲ  (الشرح علی الترمذی لا حمد شاکر المصری: ج۲، ص۴۱، دارالعمران بیروت)
۵۳۔علامہ شعیب الارناؤط رحمہ اﷲ (تعلیق علی شرح السنہ للبغوی: ج۳، ص۲۴، بیروت)
۵۴۔غیرمقلدعالم علامہ عطاء اﷲحنیف رحمہ اﷲ (تعلقات سلفیہ علی سنن النسائی: ص۱۲۳)
۵۵۔ الشیخ حسین سلیم اسد رحمہ اﷲ (تعلیق علی مسند ابی یعلی شیخ حسین سلیم اسد: ج۸،ص۴۵۴۔ ج۹، ص۲۰۹، دمشق بیروت)
۵۶۔ غیر مقلد عالم مولانا ابراہیم سیالکوٹی رحمہ اﷲ  (واضح البیان، ص۳۹۹)
۵۷۔ غیر مقلد محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اﷲ  (مشکوة بتحقیق الالبانی :ج۱، ص۲۵۴، بیروت؛ سنن الترمذی: ج ۱، ص۷۱)
ہم نے یہ ثابت کردیا کہ حدیث حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ کے تمام راوی ثقہ ہیں اور سند بالکل صحیح ہےجیساکہ محدثین کی تصحیح اوپر پیش کی جاچکی ہے۔ اب اس حدیث کے متعدد طرق بیان کئے جارہےہیں جن سے اس کے صحیح ہونے کی مکمل تصدیق ہوجاتی ہے۔
سند نمبر ۴۰۔ چالیسویں سند جامع ترمذی کی زیربحث حدیث ہے جوکہ شروع میں ہی بیان کی جاچکی ہےجس کی تائید میں یہ انتالیس سندیں پیش کی گئی ہیں۔ یہ تمام سندیں کچھ مرفوع روایات کی ہیں اور کچھ موقوف کی مگر مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔ اگران تمام اسناد کو بھی ضعیف تصوّرکرلیا جائے تب بھی یہ تمام روایات مل کرحسن لغیرہ بن جائیں گی اور تعداد طرق کی بناپرمثل صحیح قرارپائیں گی جوکہ احکام حلال میں حجت ہوجاتی ہیں۔
آخرمیں میں اس تحریر کا اختتام زبیرعلی زئی صاحب اوران کے فرقے کے لوگوں کو زئی صاحب کی اپنی لکھی ہوئی عبارت کے حوالےسے نصیحت کرتے ہوئےکرتاہوں۔
امیرالمومنین خلیفہ ھارون رشیدرحمہ اﷲ کے نزدیک حدیث رسول اﷲﷺ پرطعن کرنے والا ملحداور زندیق ہے
زبیرعلی زئی صاحب اپنے رسالہ ماہنامہ الحدیث شمارہ نمبر۶صفحہ نمبر۳پرامیرالمومنین خلیفہ ھارون رشیدؒ کا ایک واقع بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’معلوم ہوا کہ امیرالمومنین ھارون رشیدؒکے نزدیک حدیث رسول اﷲﷺ پرطعن کرنے والاملحد اور زندیق ہے، آج کل بعض کلمہ گولوگ کتاب وسنت کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس بات سے غافل ہیں کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جب ہرانسان اپنے رب کے سامنے پیش ہوگا، جس نے نبی کریمﷺکی احادیث رد کی ہوں گی وہ اﷲتعالیٰ کو کیا جواب دے گا؟‘‘۔ (رسالہ ماہنامہ الحدیث: شمارہ نمبر۶صفحہ نمبر۳)
مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب حدیث رسولﷺ پرطعن کرنے والوں کو ملحد اور زندیق کہہ رہے ہیں اورخودبھی وہی کام کررہے ہیں۔ زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج وہ بھی ترکِ رفع الیدین پرحضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ کی بالکل صحیح سند و متن کی حدیث کو صرف مسلکی ہمایت اور فرقہ واریت کے سبب رد کررہے ہیں اوراپنی ہی لکھی تحریر کی کھلی مخالفت کررہے ہیں۔ زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین کو یہ سوچنا چاہیئے کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جب ہرانسان اپنے رب کے سامنے پیش ہوگا، جس نے نبی کریمﷺکی صحیح احادیث رد کی ہوں گی وہ اﷲتعالیٰ کو کیا جواب دے گا؟