-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Tuesday 24 April 2018

فرقہ غیرمقلدین (نام نہاداہل حدیث ) کی گمشدہ اور یتیم اسناد کاعلمی تعاقب

اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم
اس تحریر کے آغازسے پہلےمیں قارئین کرام کو اس بات سے آگاہ کرنا چاہوں گا کہ فرقہ غیرمقلدین کی گمشدہ اوریتیم سند مجھ تک کیسے پہنچی۔
مارچ ۲۰۱۵ میں فرقہ غیرمقلدین اورنعمان اقبال کے درمیان ایک مناظرہ طے پایہ تھا جس کا موضوع علماءِ دیوبند وعلماء غیرمقلدین کے عقائدپرمبنی تھا۔ اس مناظرے میں دونوں فریقین کی جانب سے اپنی اپنی علمی اسنادپیش کی گئیں، لہٰذا فرقہ غیرمقلدین کی طرف سے یہ سند پیش کی گئی جس کے بارے میں جناب شہزادسلفی صاحب، خطیب جامع مسجد ذوالفقارمحمدی اہلحدیث نے مناظرے کی شرائط میں یہ شرط رکھی تھی کہ دوران مناظرہ ان کی سند پر کسی قسم کی کوئی بات نہ ہوگی۔ یقیناً فرقہ غیرمقلدین کے شرکاء اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ان کی پیش کردہ سند میں کئی ایسے نام ہیں جن کا وہ اہلحدیث ہونا تو کیا مسلمان ہونابھی ثابت نہ کرسکیں گےاورنہ ہی اس سند کوامام بخاریؒ تک ثابت کرسکیں گے، لہٰذا انہوں نے مناظرہ شروع ہونے سے پہلے ہی شرائط میں یہ بات طے کرلی کہ ان کی سند پر کسی قسم کی گفتگو نہیں ہوگی۔
 
فرقہ غیرمقلدین کی کہانی ان کے اپنوں کی زبانی ویڈیومیں ملاحضہ فرمائیں
فرقہ غیرمقلدین کی گمشدہ اوریتیم سندکاتعاقب اورعلمی محاسبہ پیش کرنے سے پہلے میں روافض کی چند علامات بیان کرنا چاہوں گاتاکہ قارئین کرام کوشیعہ روافض اورفرقہ غیرمقلدین (نام نہاداہلحدیث) کے درمیان مماثلت کاعلم ہوسکے۔
۱۔ صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخیاں کرنا، خصوصاً حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲعنہ کو بُرابھلاکہنا۔
۲۔ خلفاءِ راشیدین میں سے حضرت ابوبکر، حضرت عمراورحضرت عثمان رضی اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین کے فیصلوں کوتسلیم کرنے سے انکارکرنااورانہیں قرآن وحدیث کے خلاف بتانا۔
۳۔ ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اورامام احمدبن حنبل رحمہ اﷲتعالیٰ اجمعین) کی تقلید کا انکارکرنااوران کے مقلدین کو مشرک وکافرکہنا۔
۴۔ ائمہ اربعہ خصوصاًامام ابوحنیفہ رحمہ اﷲتعالیٰ کی شان میں گستاخیاں کرنا اوران کے فتووں کو قرآن وحدیث کے مخالف بتانا۔
۵۔ اجماع امت اورقیاس شرعی کا انکارکرنا۔
۶۔ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک شمارکرنا۔
۷۔ ۲۰ رکعات تراویح کا انکار کرنا اوراسے بدعت قراردینا۔
۸۔ نکاح متعہ کے جائزہونے کا اقرارکرنا اوراس کےحلال ہونے کوقرآن وحدیث سے ثابت کرنا، اوربموجب قول الجرح مدنوع عورت غیبت شوہرمیں جب دیرہوجائےتوجب چاہے نکاح کرلے، یہ بدلہ متعہ کا ان لوگوں نے قراردیاہے۔ اورفرقہ غیرمقلدین کے بانی عبدالحق بنارسی اوران کے خصوصی شاگرد علامہ وحیدالزمان صدیقی نے کھل کرجوازمتعہ کا فتویٰ دیا ہے جس کو ہم انشاءاﷲ ان کی کتابوں کے حوالوں سے ثابت کریں گے۔
۹۔ خود کومحمدی بتانا اوردوسروں کوغیرمحمدی کہنا۔ جیساکہ سپاہ صحابہؓ کے مقابلے میں شیعوں نے سپاہ محمد بنائی۔
۱۰۔ غیرمقلدین شیعوں کی طرح جمع بین الصلوٰتین کے قائل ہیں۔
۱۱۔ غیرمقلدین شیعوں کی طرح پاؤں کے مسح کے قائل ہیں۔
۱۲۔ دوران اذان حی علی الفلاح کے بعدحی علی خیرالعمل کہنےکوجائز تسلیم کرنا۔
۱۳۔ ساس کے ساتھ زنا کرنے پربیوی کو حرام نہ سمجھنااوراسے اپنے نکاح میں ہونا تسلیم کرنا۔
۱۴۔ مشت زنی کے جواز پرشیعوں اورغیرمقلدین میں موافقت۔
۱۵۔ خنزیر کے اجزاء کے پاک ہونے پرشیعوں اورغیرمقلدین میں موافقت۔
۱۶۔ نماز جنازہ جہراً پڑھنے پرغیرمقلدین اورشیعوں میں موافقت۔
۱۷۔ عورتوں کے ساتھ وطی فی الدبرمیں شیعوں اورغیرمقلدین کی موافقت۔
۱۸۔ کتے کے پاک ہونے پرغیرمقلدین اورشیعوں کی موافقت۔
ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الْـهُدٰى وَيَتَّبِــعْ غَيْـرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُـوَلِّـهٖ مَا تَوَلّـٰى وَنُصْلِـهٖ جَهَنَّـمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيْـرًا‘‘۔ ’’اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے‘‘۔ [سورۃ النساء: ۱۱۵]
’’حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ بْنِ أَنْعَمُ الْأَفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي"‘‘۔ ’’عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آ چکی ہے، (یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے) یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہو گا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہو گا، بنی اسرائیل بہتر (۷۲) فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے"، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: "یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے"‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲، کتاب الایمان والسلام، باب امت محمدیہ کی فرقہ بندی کا بیان، رقم الحدیث ۲۶۴۱)
مندرجہ بالا حدیث کی بنیاد پرموجودہ دورکا ہرفرقہ یہ دعویٰ کرتاہے کہ وہ اس حدیث میں جنتی فرقے کا مصداق ہےاورصرف وہی قرآن وسنت اورصحابہ کرام کے نقشِ قدم پرہے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ کیونکہ ہم اہل بیت کے ماننے والوں میں سے ہیں لہٰذا ہم وہ جنتی فرقہ ہیں، غیرمقلدین کہتے ہیں کہ کیونکہ ہم صرف کتاب وسنت کوماننے والے ہیں لہٰذا صرف ہم ہی وہ جنتی فرقہ ہیں۔
ایک عربی شاعرنے کیا خوب کہاہےکہ: ’’وکل یدعی وصلابلیلیٰ ولیلیٰ لاتقرلھم بذالک‘‘۔ ’’ہرایک لیلیٰ کے وصال کادعویٰ کرتاہےلیکن لیلیٰ ان کے لئے اس چیزکااقراربھی نہیں کرتی‘‘۔
توہروہ جماعت جویہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہی کتاب سنت اورصحابہ کرام کے نقشِ قدم پرعمل پیراہے تواس پرلازم ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ کی دلیل پیش کرے۔ جبکہ حق بات تو یہ ہے کہ راہ ِراست پروہی فرقہ کہلائے گاجس کے متبعین نبی کریم ﷺ اورصحابہ کرامؓ کے مبارک دور سے چلے آرہے ہیں جواپنی جماعت کے لئے منہج کے طورپراس حدیث کاخیال کرتے ہیں۔ جیساکہ نبی کریم ﷺنے فرقہ ناجیہ کی صفت بیان کی ہےکہ: ’’مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘ "وہ لوگ جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے"۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بات سورج کی روشنی کی طرح واضح ہوگئی کہ جولوگ صرف اﷲ اوررسولﷺ کی اطاعت کے دعویدارہیں وہ فرقہ ناجیہ میں سےہرگز نہیں ہوسکتے کیونکہ نبی ﷺ نے یہ نہیں فرمایاکہ : ’’عَلَی مَا أَنَا عَلَيْهِ فَقَطً‘‘ "یعنی جس پر صرف میں ہوں"۔ بلکہ اس کے ساتھ اپنے صحابہ کوبھی شامل کیا۔ لہٰذا رسول اﷲﷺ کاصحابہ کرامؓ اورخلفاءِ راشدین کاذکرکرنااس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث کا اصل مصداق وہی لوگ ہیں جواﷲاوراس کے رسولﷺکے ساتھ ساتھ صحابہ کرامؓ کےبھی نقشِ قدم پرہوں گے۔
فرقہ غیرمقلدین کی گمشدہ اوریتیم سندملاحضہ فرمائیں
مندرجہ بالا سند کے بارے میں فرقہ غیرمقلدین نے اپنی ایک ویب سائیٹ پرپہلے ہی اس بات کا اعتراف کرلیاکہ ان کی پیش کردہ یہ سندانتہائی ضعیف اورمسلسل بالعلل ہے کیونکہ یہ صوفیاءومجاہیل سے بھری پڑی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے عالم حافظ عبدالمنان نورپوریؒ نے علم ہوتے ہی اسے بیان کرناترک کردیاتھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہےکہ فرقہ غیرمقلدین جو صبح شام لوگوں کو تقلید سے روکتے ہیں اورتحقیق کا درس دیتے ہیں، ان کے عالم جناب  حافظ عبدالمنان نورپوریؒ نے اپنی ہی پیش کردہ علمی سند بغیرتحقیق کیئے ہی لوگوں کو بیان کرنا شروع کردی تھی۔ یہ فرقہ غیرمقلدین کے دجل وفریب کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ان کے عالم جو اپنے جہلاء کو تحقیق کا درس دیتے ہیں لیکن خود بناتحقیق کیئےاپنی سند بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے بعد فرقہ غیرمقلدین نے اپنی ایک اورنئی سند پیش کی جس میں حافظ عبدالمنان نورپوری سے لے کرامام شوکانی تک مکمل سندبالکل وہی ہے۔ اس سند میں اورپچھلی سند میں فرق صرف اتنا ہے کہ امام شوکانی کے بعدچند ناموں کو بدل دیا گیا جن کے بارے میں آگے ہم تفصیلاً گفتگو کریں گےکہ ان کی پیش کردہ دوسری سند کتنی مجہول منقطہ اورضعیف ہے۔ فرقہ غیرمقلدین کی دوسری سندیہ ہے:
فرقہ غیرمقلدین کی گمشدہ اوریتیم سندکا علمی وتحقیقی تعاقب
فرقہ غیرمقلدین کی یتیم سند ان کے عصرحاضرکے عالم حافظ عبدالمنان نورپوریؒ سے شروع ہوتی ہے اورسیدھا بنارس کے بدنامے زمانہ اورمشہورزیدی شیعہ شیخ عبدالحق بنارسی سے ہوتی ہوئی یمنی زیدی شیعہ عالم امام شوکانی پرجاکر ختم ہوجاتی ہے کیونکہ امام شوکانی سے پہلے کے جتنے ائمہ کرام کےنام درج کیئے گئے ہیں ان میں سےتقریباً تمام اشخاص یا تو شافعی مقلدہیں یا پھرحنفی و مالکی مقلدین ہیں، کوئی ایک بھی ایسانہیں جس نے ائمہ اربعہ کی تقلید کا انکارکیاہو۔ اس کا مطلب غیرمقلدین کی سندمیں امام شوکانی سے پہلے جتنے بھی ائمہ کا ذکرکیاگیاہے ان میں کوئی ایک بھی فرقہ غیرمقلدین سے تعلق نہیں رکھتا۔ ہم یہاں سب سے پہلے امام شوکانی کے زیدی شیعہ ہونے کوثابت کریں گے، اس کے بعد برصغیرپاک وہندمیں امام شوکانی کے شاگردعبدالحق بنارسی کے زیدی شیعہ ہونے کے دلائل پیش کرتے ہوئے بقیہ علماءِغیرمقلدین کے شیعہ عقائد ونظریات کوتفصیلاً بیان کریں گےاورساتھ میں یہ بھی ثابت کریں گے کہ غیرمقلدین کی سندمیں امام شوکانی کے بعدکے تقریباً تمام ائمہ کرام مقلدین میں سے ہیں۔
امام شوکانی کے مذہب وعقیدہ کے بارے میں ان کی اپنی کتاب فتح القدیرمیں لکھا ہے کہ: ’’مذهبه وعقيدته:  كان مذهب الشوكاني في مطلع حياته العلمية المذهب الزيديّ، وقد حفظ أشهر كتب المذهب، وألّف فيه كتبا، وبرع في مسائله وأحكامه حتى أصبح قدوة، ثم طلب الحديث وفاق فيه أهل زمانه من الزيدية وغيرهم، مما جعله يخلع ربقة التقليد، ويدعو إلى الاجتهاد ومعرفة الأدلة من الكتاب والسّنّة‘‘۔ ’’مذہب اور عقیدہ: انہوں نے مذہب امام زید کے مطابق فقہ حاصل کی، حتیٰ کہ اس میں پورےماہر ہوگئے۔ پھر تالیفات کیں اور فتوے دئیے حتیٰ کہ اس میں ايک نمونہ بن گئےیا مقتدا ہوگئےاور علم الحدیث کی طلب میں لگےتو اپنے اہل زمان سے فوقیت لے گئے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے گلے سے تقلید کی رسی کو اتار ڈالا اور منصب اجہتاد کےمدعی ہوگئے‘‘۔ (تفسیرفتح القدير للشوكانی: ص۶)
امام شوکانی پہلے زیدی مذہب پرتھے۔ (فقہ الحدیث:ج۱،ص۱۰۸)
 فتح القدیر اور فقہ الحدیث کے حوالے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ امام شوکانی اور ان کا خاندان ائمہ زیدیہ کے مقلدتھے اورزیدی شیعہ تھے۔ پھر امام شوکانی نے ائمہ زیدیہ کی تقلید کا انکارکیااورغیرمقلد ہوگئے۔ قارئین کرام امام شوکانی کی اپنی کتاب کے حوالے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ امام شوکانی ہی فرقہ غیرمقلدین کے بانی ہیں کیونکہ انہوں نے ہی تقلید کا انکارکرتے ہوئے ائمہ زیدیہ کے مسلک کو چھوڑا اورغیرمقلد ہوگئے۔ ان سے پہلے ان کے جتنے اساتذہ کا ذکر ملتا ہے کسی ایک سے بھی تقلید کا انکارثابت نہیں ہے۔
قادیانی جماعت نے بھی امام شوکانی کو بارھویں صدی کا امام اور مجدد تسلیم کیاہے۔ (عسل مصفی: ج۱، ص۱۶۵)
يہ توامام شوکانی کے زیدی شیعہ ہونے کی صراحت تھی، ان کے بعدان کے شاگرد مولوی عبدالحق بنارسی کا ذکر بھی اسی کتاب کے مقدمہ میں چند سطر پہلے”بعض تلامیذہ الذین أخذوا عنہ العلم“ کے عنوان کے تحت موجودہے۔
’’اخذ عند العلم۔۔۔۔ الشیخ عبد الحق بن فضل الهندی‘‘۔ ’’ یعنی آپ سے علم حاصل کرنے والوں میں علامہ شیخ عبد الحق بن فضل ہندی بھی ہے‘‘۔ (تفسیرفتح القدير للشوكانی: ص۶)
برضغیرپاک وہندمیں غیرمقلدیت کا بیج عبد الحق بنارسی زیدی شیعہ نے بویاتھاجس کے بارے میں علامہ خالد محمود لکھتے ہیں: ’’یہ صحیح ہے کہ ہندوستان میں ترکِ تقلید کے عنوان سے جس شخص نے پہلے زبان کھولی وہ عبدالحق بنارسی تھا‘‘۔ (آثار الحدیث: ج۲، ص۳۷۵)
علامہ خالد محمود آگے لکھتے ہیں: ’’غیرمقلدحلقوں میں گستاخ اورتفرقہ انگیزاندازکے داعی عبدالحق بنارسی اور ابوالحسن محی الدین تھے۔ یہ دونوں نومسلم تھےجومسلمانوں کی صفوں میں انتشارپھیلانے کے لئے داخل کیئے گئے تھے۔ اصلاً یہ ہندوتھے‘‘۔ (آثار الحدیث: ج۲، ص۳۷۶)
عبد الحق بنارسی کےمتعلق مولانا عبد الخالق کی تحریر ملاحظہ فرمائیں جو غیر مقلدوں کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی کے استاذاور خسر ہیں۔ آپ اپنی کتاب تنبیہ الضالین وہدایت الصالحین کے صفحہ نمبر۳پر لکھتے ہیں: ’’سوبانی مبانی اس فرقہ نواحداث کا عبد الحق ہے، جو چند روز سے بنارس میں رہتا ہے اور حضرت امیر المومنین (سید احمدشہیدؒ) نے ایسی دہی حرکات ناشائستہ کے باعث اپنی جماعت سے ان کو نکال دیا تھا اور علمائے حرمین نے اس کے قتل کا فتوی ٰ لکھا تھا، مگر یہ کسی طرح بھاگ کر وہاں سے بچ نکلا‘‘۔ (تنبیہ الضالین وہدایت الصالحین: ص۳؛ بحوالہ برصغیرپاک وہندکے چندتاریخی حقائق: ص۱۱۵؛ الکلام المفید فی الاثبات تقلید: ص۱۳۶؛ اہل حدیث یاشیعہ: ص۷)
اس سے پہلے بھی عبدالحق بنارسی نے اپنے پہلے سفرحج کے دوران ائمہ مجتہدین (یعنی امام ابوحنیفہؒ) کی شان میں گستاخی کی تھی جس کے نتیجے میں انہیں گرفتار کیاگیاتھا۔مولانا حکیم عبدالحی حسنی لکھتے ہیں: ’’پھرمکہ مبارکہ کا سفرکیاوہاں حج کی ادائیگی کی۔ مکہ میں ائمہ مجتہدین کی شان میں غیرمناسب باتیں کہیں جس کانتیجہ یہ نکلاکہ کوتوال نے انہیں گرفتار کیاپھرانہیں رہاکیاگیااوروہ ہندوستان واپس آئے‘‘۔ (نزھۃ الخواطر: ج۷، ص۲۶۶؛ بحوالہ برصغیرپاک وہندکے چندتاریخی حقائق: ص۱۲۲)
جب دوسری مرتبہ سفرحج کی تیاری کی توقیام کلکتہ میں مولانا محمد سعید اسلمی مدراسی اورمولانا رجب علی (رفقاءقافلہ) سے تقلیدوعدم تقلید کے مسئلے پربحث ہوئی۔ تاہم یہ بحث جلد ختم ہوگئی لیکن مولوی محمد سعید اسلمی اورمولوی رجب علی کوجورنجش پیداہوچکی تھی اس نے قیام مدینہ میں ایک نئی شکل اختیار کرلی۔ مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں: ’’سید صاحب کے ساتھیوں میں مولوی عبدالحق نیوتنوی بہت تیز مزاج تھے۔ وہ بعض مروجہ غیرشرعی مراسم کے رد وابطال میں ذراتیزی سے کام لیتے تھے۔ جھٹ شکایت ہوئی کہ یہ وہابی ہیں۔ چنانچہ ان پرمقدمہ قائم ہوگیا۔ مولانا عبدالحی نے ضمانت دے کرانہیں چھڑایااورمقدمے کی جواب دہی کے موقع پربھی مولاناہی نے عدالت سے بات چیت کی۔ اس طرح مولوی عبدالحق رہاہوئے۔ مکہ معظمہ تک سید صاحب کے ساتھ رہے۔ پھرصنعاچلے گئے اورقاضی شوکانی سے حدیث کی سند لے کرہندوستان آئے‘‘۔ (سیداحمدشہید: ص۲۲۷-۲۲۸؛ بحوالہ برصغیرپاک وہندکے چندتاریخی حقائق: ص۱۲۳)
مولانا عبدالخالق اورمولاناعبدالحی حسنی کی تحریر کی تصدیق امام شوکانی کی کتاب کے اردو ترجمہ سے ملاحضہ فرمائیں: ’’دہلی میں شاہ اسماعیل شہید کے تلامذہ میں شامل ہوااورشیخ عبدالحی بڑھانوی سے بھی استفادہ کیاپھرسفر حج میں سیداحمدبریلوی کے قافلہ میں شیرک ہوا، وہاں مدینہ میں بعض مسائل کی بناپرمخالفین نے قاضی مدینہ سے شکایت کردی توخفیہ طور پرجدہ پہنچ کرصنعاء چلاگیا‘‘۔ (تفسیرفتح القدير للشوكانی[اردو]: ص۴۰)
اسی طرح فرقہ غیرمقلدین کے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں: ’’دراوسط عمر بعض درعقائد ایشاں و میل بسوے تشیع وجزآں معروف است‘‘۔ ’’عبدا لحق بنارسی کی عمر کے درمیانی حصے میں اس کے عقائد میں تزلزل اور اہل تشیع کی طرف اس کا رحجان بڑا مشہور ہے۔ ان کا یہ تفردخطائے اجتہادی کی قبیل سے تھا‘‘۔ (سلسلۃ العسجد: ص۳۶؛ بحوالہ برصغیرپاک وہندکے چندتاریخی حقائق: ص۱۱۴)
اسی طرح مولانا عبیداللہ سندھی اپنی کتاب شاہ ولی اللہ اور انکی سیاسی تحریک میں لکھتے ہیں: ’’ امیر شہید نے ان کے رہنما کو  جو مولانا محمد اسماعیل اور امام شوکانی دونوں کا شاگرد اور زیدی شیعہ تھا ، اپنی جماعت سے نکلوا دیا‘‘۔ (شاہ ولی اللہ اور انکی سیاسی تحریک: ص ۸۳؛ بحوالہ برصغیرپاک وہندکے چندتاریخی حقائق: ص۱۱۲)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’وہ ہندوستانی  عالم جو کہ مذہباً زیدی شیعہ تھا اور امیر شہید نے  اسے اپنی جماعت سے نکلوا دیا تھا، وہ بھی مولانا ولایت علی کے ساتھ شامل ہو گیا۔ نواب صدیق حسن خان اسی استاد کے توسط سے امام شوکانی کے شاگرد ہیں‘‘۔ (شاہ ولی اللہ اور انکی سیاسی تحریک: ص ۱۰۳؛ بحوالہ برصغیرپاک وہندکے چندتاریخی حقائق: ص۱۱۲)
عبدالحق بنارسی کے بارے میں محدث قاری عبد الرحمٰن صاحب پانی پتی لکھتے ہیں: ’’بعد تھوڑے عرصے کے مولوی عبد الحق بنارسی صاحب،مولوی گلشن علی کے پاس گئے۔ دیوان راجہ بنارس کے شیعہ مذہب تھے اور کہا کہ میں شیعہ ہوں اور اب میں ظاہر شیعہ ہوں اور میں نے عمل بالحدیث کے پردے میں ہزار اہل سنت کو قید مذہب نے سے نکال دیا ہے اب ان کا شیعہ ہونا بہت آسان ہے۔ چنانچہ مولوی گلشن علی نے تیس روپیہ ماہوار کی نوکری کروادی“۔ (کشف الحجاب: ص۴۳)
محدث قاری عبد الرحمٰن صاحب پانی پتی نے یہ بھی فرمایاکہ:’’مولوی عبدالحق بنارسی کا فتویٰ جواز متعہ کا میرے پاس موجودہے۔ مولوی عبدالحق نے برملا کہا کہ عائشہ رضی اﷲ عنہا علی رضی اﷲ عنہ سے لڑی، اگر توبہ نہیں کی ہوگی تو مرتد مری‘‘۔ (نعوذ باﷲ من ذالک البکواس)۔ (کشف الحجاب: ص۴۲؛ بحوالہ آثار الحدیث: ج۲، ص۳۷۶)
پھر فرماتےکہتے ہیں کہ: ’’دوسری مجلس میں کہا کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا علم ہم سے کم تھا ان کو ہرایک کو پانچ پانچ حدیثیں یا د تھیں اور ہمیں ان کی سب حدیثیں یاد ہیں‘‘۔ (استغفر اﷲ العظیم)۔ (کشف الحجاب: ص۴۲)
کیا کوئی مسلمان صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اور اپنی روحانی ماں اور زوجہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے متعلق ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کر سکتاہے؟ ہرگز نہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے بارے میں ایسے نازیبہ الفاظ استعمال کرنے والاکوئی شیعہ یا غیرمسلم ہی ہوسکتاہے۔
مولاناسید عبدالحی لکھنویؒ اپنی مايہ ناز تصنیف”الثقافة الاسلامیہ فی الہند“ کے صفحہ نمبر ۱۰۴پر لکھتے ہیں: ’’منهم من سلک ملک الا فراط جدا وبالغ فی حرمة التقلید وجاوز عن الحدود بدع المقلدین و ادخلهم فی اہل الاهواء ووفع فی اعراض الائمة لا سیما الااما ابی حنیفة و هذا مسلک الشیخ عبد الحق بن فضل اﷲ بنارسی‘‘۔ ’’ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو حد سے بڑھ گئے ہیں اور تقلید کی حرمت میں بے حد مبالغے سے کام لے کے حدود کو پھلانگ گيے،مقلدین کو بدعتی قراردیا اور ان کو اہل اھواء میں داخل کردیا۔ ائمہ کرام بالخصوص امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کی توہین و تنقیص میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور يہ مسلک ہے عبد الحق بن فضل اﷲ بنارسی کا‘‘۔ (الثقافة الاسلامیہ فی الہند: ص۱۰۴؛ بحوالہ برصغیرپاک وہندکے چندتاریخی حقائق: ص۱۱۵؛ اہل حدیث یا شیعہ: ص۱۱)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ برصغیرپاک وہند میں فرقہ غیرمقلدین کا سب سے پہلاعالم عبدالحق بنارسی تھاجوکہ مذہباً زیدی شیعہ تھا۔ یہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشارپھیلانے کے لئے دہلی میں شاہ اسماعیل شہید کے تلامذہ میں شامل ہوا۔ اس نے اپنے پہلے سفرحج میں مکہ میں ائمہ مجتہدین (یعنی امام ابوحنیفہؒ) کی شان میں غیرمناسب باتیں کہیں جس کے نتیجے میں اسےگرفتار کیاگیا۔ پھراپنے دوسرے سفرحج پرمدینہ میں اسے گرفتار کیاگیا اور مقدمہ چلایا گیا۔ مولانا عبدالحی نے اس کی ضمانت دے کراسےچھڑایااورمقدمے کی جواب دہی کے موقع پربھی انہوں نے ہی عدالت سے بات چیت کی۔ علمائے حرمین نے اس کے قتل کا فتویٰ لکھ دیا، مگر یہ کسی طرح بھاگ کر وہاں سے بچ نکلا اور صنعاچلاگیا۔
عبدالحق بنارسی کے شیعہ عقائد ونظریات فرقہ غیرمقلدین کے تقریباً ہرچھوٹے بڑے عالم کے عقائدونظریات میں واضح طورپردیکھے جاسکتے ہیں۔ علماء غیرمقلدین نے ہردورمیں اپنے آباؤاجدادکی پیروی کرتے ہوئے صحابہ کرامؓ بالخصوص حضرت عمر رضی اﷲعنہ اورائمہ مجتہدین خصوصاً امام ابوحنیفہؒ، امام محمدؒ اور امام ابویوسفؒ کی شان میں گستاخیاں کیں جن کی تفصیلات بحوالہ ان کی پیش کردہ سند کے علماءکے ناموں کے ساتھ آگےتفصیل سے بیان کی جائیں گی۔
عبدالحق بنارسی کے تلامذہ میں نواب صدیق حسن خان اورعلامہ وحیدالزمان صدیقی مترجم حدیث بہت مشہورہیں جنہوں نے عبدالحق بنارسی کے شیعہ عقائد ونظریات کو اپنی کتابوں میں کھل کربیان کیا ہے جوکہ فرقہ غیرمقلدین  کے گمراہ کن عقائد و نظریات کامنہ بولتاثبوت ہے۔
بانی فرقہ غیرمقلدین مولوی عبدالحق بنارسی کے شیعہ عقائد ونظریات ان کے شاگردخاص علامہ وحیدالزمان صدیقی اورنواب صدیق حسن خان کی کتب کے حوالوں سے ملاحضہ فرمائیں:
فرقہ غیرمقلدین کے شیعہ عقائدونظریات اورصحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخیاں
۱۔ غیرمقلد علامہ وحیدالزمان صدیقی اپنی کتاب ھدیۃ المہدی میں لکھتے ہیں: ’’رام چندر، کرشن جی، لچھمن جو ہندووں میں ہیں اور زرتشت جو فارسیوں میں ہیں اور کنفیوشس اور مہاتما بدھ جو چین وجاپان میں ہیں اور سقراط وفیثا غورث جو یونان میں ہیں ہم پر واجب ہے کہ ان تمام انبیاء و رسل پر ایمان لائیں‘‘۔ (العیاذ باﷲ)۔(ھدیةالمہدی[اردو]:ص۱۵۵)
غیرمقلد عالم حافظ عبدالقادرروپڑی اپنے شیخ علامہ وحیدالزمان صدیقی کامکمل دفاع اورتائید کرتے ہوئے ان کے اس عقیدے کو صحیح قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکرنہیں کیاحالانکہ کسی قوم کے تواترسے ثابت ہے کہ وہ نبی یاصالح لوگ تھے۔ جیسےرام چندر، کرشن جی، لچھمن ہندووں میں اور زرتشت فارسی میں اور کنفیوشس اوربدھوملک چین میں اورجاپان میں سقراط اور فیثا غورث جو یونان میں ہیں۔ پس ہم پر واجب ہے کہ ہم کل انبیاءاورمرسلین پر ایمان لاویں اوران میں سے کسی میں تفریق نہ کریں‘‘۔ (العیاذباﷲ)۔ (ھدیةالمہدی: ص۸۵؛  فتوحات اہلحدیث المعروف میزان مناظرہ: ص۱۴۸)
۲۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتےہیں: ’’خداعرش پر ہے اور عرش خدا کا مکان ہے‘‘۔  (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۱، ص۳؛ ھدیة المہدی: ص۹)
۳۔ علامہ وحیدالزمان صاحب یہ بھی لکھتےہیں کہ: ’’اﷲ تعالیٰ جس صورت میں چاہے ظاہر ہو سکتاہے۔ اﷲ تعالیٰ کا چہرہ،آنکھ، ہاتھ،مٹھی، انگلیاں، کلائی،دونوں بازو، سینہ،پہلو، کمر،پاؤں، ٹانگ اور پنڈلی اس کی شان کےمطابق ہیں ۔ اورتشبیہ یہ ہےکہ اگرکہاجائے اس کاہاتھ ہمارے ہاتھ کی طرح اوراس کی سماعت ہماری سماعت کی طرح ہے اورایسے ہی دوسرے اعضاء‘‘۔ (العیاذ باﷲ)۔ (ھدیة المہدی[اردو]:ص۲۷)
۴۔ غیر مقلد عالم وحیدالزمان صاحب اﷲ تعالیٰ کی صفات فعلیہ کےبارےمیں لکھتےہیں: ’’تعجب کرنا، اُترنا چڑھنا، آنا جانا،مسخری و مکر (یعنی مذاق ٹھٹھہ وفریب)، چلنا، بھاگنا اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے ۔ اﷲتعالیٰ جس صورت میں چاہے ظاہر ہو سکتا‘‘۔ (العیاذ باﷲ)۔ (ھدیة المہدی[اردو]:ص۲۳)
اس کے برعکس اہلسنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہےکہ جوشخص اﷲتبارک وتعالیٰ کے لئے جہت و مکان اورجسم ماننے وہ کافرہے۔ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ فرماتے ہیں: ’’امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام احمدؒ اور امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک جو شخص اﷲ پاک کی ذات کے لئے جھت و مکان اورجسم ماننے وہ کافرہے‘‘۔ (المنھج القویم بشرح مسائل التعليم:ص۲۵۴؛ حاشية الجرهزی على المنهج القويم بشرح مسائل التعليم: ص۴۰۸؛ سِیَراعلَامِ النُبَلاءِ ازالامام شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذھبی: ص۱۰۱)
۵۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے ہیں: ’’اور یقیناً اس امت کے بہت سے متاخرین علماء علم و معرفت اور سنت کی نشریات میں عوام صحابہؓ سے افضل ہیں۔ ہمارے امام مہدی ؑ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرفاروق ؓ دونوں سے افضل ہیں‘‘۔ (ھدیة المہدی[اردو]:ص۱۶۴)
۶۔ غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں: ’’بعض اهلِ علم نقل ایں استمناء از صحابہ نزد غیبت از اھل خود کردہ اند‘‘۔ ’’صحابہ ؓجب اہل و عیال سے دور ہوتے تو صحابہ کرام ؓبھی مشت زنی کیا کرتے تھے‘‘۔ (نعوذ باﷲمن ذالک البکواس)۔ (عرف الجادی من جنان ھدی الھادی: ص ٢۱۴۔۲۱۵)
۷۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی نے حضرت امیر معاویہ ؓ کے لئے جو الفاظ استعمال کئے ہیں میں انھیں نقل کرنے کی جرٔت نہیں کرسکتا۔آپ حضرات کتاب کے اسکین میں خود ہی پڑھ لیں۔ (لغات الحدیث:کتاب ’’ص‘‘، ص۴۰)
۸۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی نے حضرت عمررضی اﷲعنہ کے بارے میں لکھا ہے: ’’حضرت عمرؓ بڑے پیٹ والے سخت آدمی تھے‘‘۔ (لغات الحدیث:کتاب ’’ع‘‘، ص۴۰)
۹۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب فرماتے ہیں: ’’متعہ سے اگر حضرت عمررضی اﷲ عنہ منع نہ کرتے تو زناوہی کرتا جو بدبخت ہوتا (کیونکہ متعہ آسان ہے اوراس سے کام نکل جاتاہےپھرحرام کاری کی ضرورت نہ رہتی)‘‘۔ (نعوذ باﷲمن ذالک البکواس)۔ (لغات الحدیث :کتاب ’’م‘‘، ص۹)
۱۰۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے  ہیں: ’’جب حضرت عمرو بن عاص ؓ کی دغا بازی ظاہر ہوئی اورلوگ نادم ہوئے توآپ نے درید بن صمت کا شعرپڑھا‘‘۔ (نعوذ باﷲمن ذالک البکواس)۔ (لغات الحدیث :کتاب ’’ع‘‘، ص۶۰)
۱۱۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے  ہیں: ’’ولایلتزمون ذکرالخلفاء ولاذکرسلطان الوقت لکونہ بدعۃ‘‘۔ ’’اہل حدیث خطبہ جمعہ میں خلفاء الراشدین اوربادشاہ وقت کے ذکرکاالتزام نہیں کرتے؛ کیونکہ یہ بدعت ہے‘‘۔ (ھدیة المہدی: ص۱۱۰)
۱۲۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے  ہیں : ’’جب ومنہ یعلم ان من الصحابۃ من ھو فاسق کالولید ومثلہ یقال فی حق معاویہ وعمرومغیرۃ وسمرۃ‘‘۔ ’’اس سے معلوم ہواکہ کچھ صحابہؓ فاسق ہیں جیساکہ ولید (بن عقبہ) اوراسی کے مثل کہاجائے گا، معاویہ (بن ابی سفیان) عمرو (بن عاص) مغیرہ (بن شعبہ) اورسمرہ ( بن جندب) کے حق میں (کہ وہ بھی فاسق ہیں)‘‘۔ (نعوذ باﷲمن ذالک البکواس)۔  (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۲، ص۹۴)
۱۳۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے  ہیں : ’’واذاکثر الکلاب فی البلد وخیف اذاھم یجوز اھلاکھم اواخراجہ ویستحب الترضی للصحابۃ غیر ابی سفیان ومعاویۃ وعمروبن العاص ومغيرة بن شعبہ  وسمرة بن جندب ویستحب السکوت عن ھؤلاء الخمسۃ وتفویض امرھم الی ﷲ ولایحسن سبھم ولامدحہم‘‘۔ ’’صحابہ کرامؓ کے نام کے ساتھ رضی اﷲتعالیٰ عنہ لکھنا جائزنہیں، معاویہ (بن ابی سفیان) عمرو (بن عاص) مغیرہ (بن شعبہ) اورسمرہ ( بن جندب) کے حق میں (کیونکہ وہ فاسق ہیں)‘‘۔ (نعوذ باﷲمن ذالک البکواس)۔  (کنزالحقایق من فقہ خیرالخلایق: ص۲۳۴)
۱۴۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے  ہیں: ’’حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمرو رضی اﷲ عنہ کے مناقب بیان کرنا جائز نہیں ہیں‘‘۔ (لغات الحدیث: ج۲، ص۳۶)
۱۵۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے  ہیں: ’’حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمروبن عاص رضی اﷲ عنہ شریر تھے‘‘۔ (لغات الحدیث: ج۲، ص۳۶)
۱۶۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے  ہیں: ’’اسلام کا سارا کام معاويہ رضی اﷲ عنہ نے خراب کیا‘‘۔ (لغات الحدیث: ج۳، ص۱۰۴)
۱۷۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب یہ بھی لکھتے  ہیں کہ: ’’بعض صحابہ کرامؓ نے ایسے بھی کام کیئے جو شرعاًاورعقلاً ہرطرح سے مذموم ہیں‘‘۔ (نعوذ باﷲمن ذالک البکواس)۔ (لغات الحدیث :کتاب ’’س‘‘، ص۱۹)
۱۸۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صحیح بخاری کے ترجمہ میں امیرمعاویہؓ کے بارے میں لکھتے  ہیں کہ: ’’صحابیت کا ادب ہم کواس سے مانع ہے کہ ہم معاویہ کے حق میں کچھ کہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے دل میں آنحضرتﷺکے اہل بیت کی الفت اورمحبت نہ تھی۔ ان کا باپ ابوسفیان ساری عمرآنحضرتﷺسےلڑتارہا، یہ خود حضرت علی رضی اﷲعنہ سے لڑے، ان کے بیٹے ناخلف یزید پلیدنے توغضب ڈھایا، امیرالمومنین امام حسین علیہ السلام کومع اکثراہل بیت کے بڑے ظلم اورستم کے ساتھ شہیدکرادیا‘‘۔ (تیسیرالباری ترجمہ صحیح بخاری: ج۵، ص۹۰)
۱۹۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صحیح بخاری کے ترجمہ میں ایک اورجگہ لکھتے  ہیں: ’’ابوسفیان زندگی بھرآنحضرتﷺ سے لڑتے رہے، ان کے فرزندارجمندمعاویہ بن ابی سفیان نے حضرت علی رضی اﷲعنہ خلیفہ برحق سے مقابلہ کیا، ہزاروں مسلمانوں کاخون گرایا، قیامت تک اسلام میں جوضعف آگیایہ انہیں (معاویہ) کاطفیل تھا‘‘۔ (تیسیرالباری ترجمہ صحیح بخاری: ج۶، ص۶۱)
۲۰۔ نیزیہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’ایک سچے مسلمان کا جس میں ایک ذرہ برابربھی پیغمبرصاحب کی محبت ہودل یہ گوارہ نہیں کرے گاکہ وہ صحابہؓ کی تعریف اورتوصیف کرے، البتہ ہم اہل سنت کایہ طریق ہےکہ صحابہ سے سکوت کرتے ہیں، اس لئے معاویہ سے بھی سکوت کرناہمارامذہب ہےاوریہی اسلم اورقرین احتیاط ہے، مگران کی نسبت کلمات تعظیم مثلاً حضرت ورضی اﷲعنہ کہناسخت دلیری اوربے باکی ہے، اﷲمحفوظ رکھے‘‘۔ (لغات الحدیث: مادہ عز)
۲۱۔ فرقہ غیرمقلدین کے شیخ الکل مولانا نذیرحسین دہلوی حضرت معاویہؓ بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’الجواب (ازمولوی محمد فصیح غازی پوری) حضرت علیؓ کے مقابلے میں جہاں امیرمعاویہ کاتذکرہ ہو، وہاں لفظ حضرت یادعائیہ الفاظ کہنادرست نہیں، کیونکہ انہوں نے آخری خلیفہ راشدکے خلاف بغاوت کی ہے لہٰذا ان کوغلط کاراورباغی سمجھناچاہیئے‘‘۔ (فتاویٰ نذیریہ: ج۳، کتاب مناقب الصحابہؓ، ص۴۴۶)
۲۲۔ ایسے ہی موجودہ دورکا ایک جاہل غیرمقلدجوکہ یوٹیوب پرانجنیئرعلی مرزاکے نام سے مشہور ہےاوراپنے آپ کو غیرمقلدعالم زبیرعلی زئی کا شاگرد بتاتاہے۔ اس بدبخت نے توحضرت امیرمعاویہؓ اوردیگرائمہ کرامؒ کی شان میں اتنی گستاخیاں کی ہیں کہ خود فرقہ غیرمقلدنے بھی اس سے لاتعلقی اوربرأت  کا اعلان کردیاہے۔ کیونکہ فرقہ غیرمقلدین بھی جانتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کی شان میں اس قدرکھل کربدزبانی کرنے پر توپوری امت مسلمہ ان کے خلاف ہوجائے گی جیسے شیعوں کے خلاف ہوگئی ہےلہٰذا فرقہ غیرمقلدین نے انجنیئرعلی مرزاسے لاتعلقی اوربرأت کا اعلان کرنے میں ہی اپنی آفیت سمجھی۔
اس کے برعکس اہلسنت والجماعت احناف کے نزدیک صحابہ کرامؓ سے محبت کرنااور اُن کاظاہری و باطنی طور پر عملاًاحترام کرنا، صحابہ کرامؓ سےبغض و عداوت رکھنے والوں سے نفرت و عداوت رکھنا،  صحابہ کرامؓ کے باہمی  ظاہری اختلافات پرخاموشی اختیار کرنا اور ہر قسم کی منفی رائےدہی سے اجتناب کرنا، اور یہ عقیدہ رکھناکہ تمام صحابہؓ اللہ کے یہاں انتہائی معزَّزاوراجر و ثواب والے ہیں اور اُن کی سیرت و کردار کو زبانی و عملی طور پر اپنانا ہرمسلمان پرفرض واجب ہےجس کے بارے میں قرآن وحدیث میں واضح طورپربیان ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے کہ: ’’وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ‘‘۔ ’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے  یہ بڑی کامیابی ہے‘‘۔ [سورۃ التوبہ: ۱۰۰]
ایک اورجگہ ارشادباری تعالیٰ ہے کہ: ’’لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا‘‘۔ ’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے  ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی‘‘۔ [سورۃ الفتح: ۱۸]
رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا: ’’حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ سَمِعْتُ ذَكْوَانَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم "لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ‏"‏‏ ‘‘۔ ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اصحاب کو برا بھلامت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، كتاب فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً‏" قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ، رقم الحدیث ۳۶۷۳)
اسی طرح رسول اﷲﷺنےایک اورجگہ ارشادفرمایا: ’’حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ‏"آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ‏"‏‏‘‘۔ ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۲، كتاب الإيمان، باب عَلاَمَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، رقم الحدیث ۱۷)
صحابہ کرامؓ کوبراکہنے والوں پراﷲکی لعنت: ’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ" ‘‘۔’’رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا:  جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کےبارے میں برا کہہ رہے ہیں تو کہو الله تمہارے شر پر لعنت کرے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۱، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رقم الحدیث۱۸۰۰)
صحابہ کرامؓ کوبراکہنے والوں پراﷲتعالیٰ اورفرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت، قیامت کے دن نہ اس کا فرض قبول کیا جائےگا  نہ نفل: ’’حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ عَمْرٍو الْعُكْبَرِيُّ، ثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ، عَنْ أَبِيه، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْه وَسَلَّمَ قَالَ: إنَّ اللهُ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِي بَيْنَهُمْ وُزَرَاءَ وأنْصَارًا وأصْهَارًا، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْه يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا ِعَدْلٌ ‘‘۔ ’’رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا: الله نے مجھے منتخب کیا اور میرے لیے میرے ساتھیوں کا انتخاب فرمایا، ان میں سے میرے کچھ وزراء بنائے، مددگار اور قرابت دار بنائے، بس جو انھیں برا کہے اس پر الله کی، الله کے فرشتوں کی، اور تمام انسانوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن نہ اس کا فرض قبول کیا جائےگا  نہ نفل‘‘۔ (المعجم الکبیر:ج ١٧، ص١٤٠)
’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ، كُلُّهُمْ عَنْ حُسَيْنٍ، - قَالَ أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، - عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ يَحْيَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ صَلَّيْنَا الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ قُلْنَا لَوْ جَلَسْنَا حَتَّى نُصَلِّيَ مَعَهُ الْعِشَاءَ - قَالَ - فَجَلَسْنَا فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ ‏"مَا زِلْتُمْ هَا هُنَا‏"۔‏ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّيْنَا مَعَكَ الْمَغْرِبَ ثُمَّ قُلْنَا نَجْلِسُ حَتَّى نُصَلِّيَ مَعَكَ الْعِشَاءَ قَالَ ‏"أَحْسَنْتُمْ أَوْ أَصَبْتُمْ‏"۔‏ قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ وَكَانَ كَثِيرًا مِمَّا يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ ‏"‏النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ وَأَنَا أَمَنَةٌ لأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لأُمَّتِي فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ"‘‘۔ ’’سیدنا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ہم نے مغرب کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر ہم نے کہا: اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء آپ کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہو گا، پھر ہم بیٹھے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یہیں بیٹھے رہے۔ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسول اللہ! ہم نے آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی پھر ہم نے کہا: اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء کی نماز بھی آپ کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اچھا کیا اور ٹھیک کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے پھر فرمایا:تارے بچاؤ ہیں آسمان کے، جب تارے مٹ جائیں گے تو آسمان پر بھی جس بات کا وعدہ ہے وہ آ جائے گی (یعنی قیامت آ جائے گی اور آسمان بھی پھٹ کر خراب ہو جائے گا) اور میں بچاؤ ہوں اپنے اصحاب کا جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر بھی وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی فتنہ اور فساد اور لڑائیاں) اور میرے اصحاب بچاؤ ہیں میری امت کے جب اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے‘‘۔ (صحیح المسلم: ج۶، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم، باب بَيَانِ أَنَّ بَقَاءَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَمَانٌ لأَصْحَابِهِ وَبَقَاءَ أَصْحَابِهِ أَمَانٌ، رقم الحدیث ۶۴۶۶)
’’حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ - وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ - قَالاَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ سَمِعَ عَمْرٌو، جَابِرًا يُخْبِرُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ‏ "‏يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ لَهُمْ فِيكُمْ مَنْ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَيَقُولُونَ۔‏ نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ ثُمَّ يَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ لَهُمْ فِيكُمْ مَنْ رَأَى مَنْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَيَقُولُونَ نَعَمْ۔‏ فَيُفْتَحُ لَهُمْ ثُمَّ يَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ لَهُمْ هَلْ فِيكُمْ مَنْ رَأَى مَنْ صَحِبَ مَنْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَيَقُولُونَ نَعَمْ‏ فَيُفْتَحُ لَهُمْ"‘‘۔ ’’سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک زمانہ آئے گا کہ جہاد کریں گے آدمیوں کے جھنڈ تو ان سے پوچھیں گے کہ کوئی تم میں وہ شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو تو لوگ کہیں گے کہ ہاں! تو فتح ہو جائے گی ان کی پھر جہاد کریں گے لوگوں کے گروہ تو ان سے پوچھیں گے کہ کوئی ہے تم میں سے جس نے دیکھا ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کو یعنی تابعین میں سے کوئی ہے، لوگ کہیں گے: ہاں! پھر ان کی فتح ہو جائے گی، پھر جہاد کریں گے آدمیوں کے لشکر تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کوئی ہے تم میں ایسا جس نے صحابی کے صاحب کو دیکھا ہو یعنی تبع تابعین میں سے لوگ کہیں گے: ہاں! تو ان کی فتح ہو جائے گی‘‘۔(صحیح المسلم: ج۶، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم، باب فَضْلِ الصَّحَابَةِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، رقم الحدیث ۶۴۶۷)
’’حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ"‏۔ لَمْ يَذْكُرْ هَنَّادٌ الْقَرْنَ فِي حَدِيثِهِ وَقَالَ قُتَيْبَةُ ‏"‏ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ‏"‘‘۔ ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے بہترین لوگ میرے قرن کے لوگ (یعنی صحابہؓ) ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں (یعنی تابعیؒ ) اور پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں(یعنی تبع تابعینؒ) ۔ اور پھر ان قرنوں کے بعد ان لوگوں کا زمانہ آئے گا جن کی گواہی قسم سے پہلے ہوگی اور قسم گواہی سے پہلے‘‘۔(صحیح المسلم: ج۶، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم، باب فَضْلِ الصَّحَابَةِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، رقم الحدیث ۶۱۵۰)
سیدناحضرت امیر معاویہ رضی اﷲعنہ کی عظمت وشان میں احادیث رسولﷺ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی، کاتبِ وحی اور ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں۔
سیدنا حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲعنہ کی عظمت وشان صحیح بخاری میں کچھ اس طرح بیان ہے: ’’حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ أَوْتَرَ مُعَاوِيَةُ بَعْدَ الْعِشَاءِ بِرَكْعَةٍ وَعِنْدَهُ مَوْلًى لاِبْنِ عَبَّاسٍ، فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ دَعْهُ، فَإِنَّهُ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‘‘۔ ’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی، وہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مولیٰ (کریب) بھی موجود تھے، جب وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ایک رکعت وتر کا ذکر کیا) اس پر انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم، باب ذِكْرُ مُعَاوِيَةَ رضى الله عنه، رقم الحدیث ۳۷۶۴)
’’حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قِيلَ لاِبْنِ عَبَّاسٍ هَلْ لَكَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ، فَإِنَّهُ مَا أَوْتَرَ إِلاَّ بِوَاحِدَةٍ‏.‏ قَالَ إِنَّهُ فَقِيهٌ‏‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ خود فقیہ ہیں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم، باب ذِكْرُ مُعَاوِيَةَ رضى الله عنه، رقم الحدیث ۳۷۶۵)
’’حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الأَسْوَدِ الْعَنْسِيَّ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهْوَ نَازِلٌ فِي سَاحِلِ حِمْصَ، وَهْوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ، قَالَ عُمَيْرٌ فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا"۔‏ قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ۔‏ قَالَ "أَنْتِ فِيهِمْ"۔‏ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ"۔‏ فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَارَسُولَ اللَّهِ۔‏ قَالَ "لاَ‏"‘‘۔ ’’عمیر بن اسودعنسی نے بیان کیا کہ وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کا قیام ساحل حمص پر اپنے ہی ایک مکان میں تھا اور آپ کے ساتھ (آپ کی بیوی) اُم حرام رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ عمیر نے بیان کیا کہ ہم سے اُم حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا، اس نے (اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت) واجب کر لی۔ اُم حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر (رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۴، كتاب الجهاد والسير، باب مَا قِيلَ فِي قِتَالِ الرُّومِ، رقم الحدیث۲۹۲۴)
دوسری حدیث میں ہے کہ: ’’كَمَا قَالَ فِي الأَوَّلِ۔‏ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ۔‏ قَالَ ‏"أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ"۔‏ فَرَكِبَتِ الْبَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ، فَهَلَكَتْ‘‘۔ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تو سب سے پہلی فوج میں شامل ہو گی (جو بحری راستے سے جہاد کرے گی) چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اُم حرام رضی اللہ عنہا نے بحری سفر کیا پھر جب سمندر سے باہر آئیں تو ان کی سواری نے انہیں نیچے گرا دیا اور اسی حادثہ میں ان کی وفات ہو گئی‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۴، كتاب الجهاد والسير، باب الدُّعَاءِ بِالْجِهَادِ وَالشَّهَادَةِ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، رقم الحدیث۲۷۸۸)
پہلا جہاد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں (حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲعنہ کی قیادت میں) ۲۸ھ میں ہوا جس پرجزیرہ قبرص کے نصاریٰ پرچڑھائی کی گئی، اسی میں حضرت ام حرام رضی اﷲعنہا شریک تھیں، واپسی پرراستے میں سواری سے گرکرشہیدہوگئیں اوراس طرح رسول اﷲﷺ کی پیشن گوئی پوری ہوئی۔ دوسرا جہاد ۵۵ھ میں حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲعنہ کے دور خلافت میں ہوا جس میں قسطنطنیہ پرحملہ کیاگیاتھا۔ امت مسلمہ کااس بات پر اتفاق ہے کہ نبی کریمﷺکی پیشن گوئی کے مطابق جنت کی بشارت کی فضیلت سیدنا اَمیر معاوِیہ رضی اﷲعنہ کو بھی نصیب ہوئی۔
رسول اﷲﷺنے حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲعنہ کے حق میں دعافرماتےہوئے ارشادفرمایا: ’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمِيرَةَ، وَكَانَ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ "‏اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ‏"۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ‘‘۔’’صحابی رسول حضرت عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا: اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، باب مَنَاقِبِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رضى الله عنه، رقم الحدیث۱۷۷۶، قال الشيخ الألبانی صحيح، المشكاة ۶۲۳، الصحيحة۱۹۶۹)
’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ، قَالَ لَمَّا عَزَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عُمَيْرَ بْنَ سَعِيدٍ عَنْ حِمْصَ، وَلَّى مُعَاوِيَةَ فَقَالَ النَّاسُ عَزَلَ عُمَيْرًا وَوَلَّى مُعَاوِيَةَ۔‏ فَقَالَ عُمَيْرٌ لاَ تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلاَّ بِخَيْرٍ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ "للَّهُمَّ اهْدِ بِهِ"‘‘۔ ’’ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے عمیر بن سعد کو حمص سے معزول کیا اور ان کی جگہ معاویہ رضی الله عنہ کو والی بنایا تو لوگوں نے کہا: انہوں نے عمیر کو معزول کر دیا اور معاویہ کو والی بنایا، تو عمیر نے کہا: تم لوگ معاویہ رضی الله عنہ کا ذکر بھلے طریقہ سے کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے"اللهم اهدبه" اے اللہ! ان کے ذریعہ ہدایت دے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، باب مَنَاقِبِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رضى الله عنه، رقم الحدیث۱۷۷۶، قال الشيخ الألبانی صحيح بما قبله۳۸۴۲)
رسول اﷲﷺنے حضرت معاویہ رضی اﷲعنہ کے حق میں یہ دعابھی فرمائی:’’اَللّٰہُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَةَ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ‘‘۔ ’’اے اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم سکھا اور اس کو عذاب سے بچا‘‘۔ (مسند أحمد: رقم الحدیث ۱۶۷۰۲؛ والطبرانی فی الکبیر؛ وصحّحہ الألبانی)
حضرت معاریہ رضی اﷲعنہ کے حق میں رسول اﷲﷺکی یہ دعا ئیںآپ ﷺکی ان دعاؤں میں سے نہیں جو قبول نہیں ہوئیں تھیں، یہ آپ ﷺکی مقبول دعاؤں میں سے ہیں، لہٰذا آپ ﷺکے ارشادات سے یہ ثابت ہوا کہ معاویہ رضی الله عنہ خود بھی ہدایت پر تھے اور لوگوں کے لیے بھی ہدایت کا معیار تھے۔
سیدناحضرت امیر معاویہ رضی اﷲعنہ کے بارے میں اہلسنت والجماعت کا مؤقف
شارح مسلم امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی (المتوفی ۶۷۶ھ) شرح صحیح مسلم میں اہلسنت والجماعت کومؤقف کچھ اس طرح بیان فرماتےہیں: ’’وَمَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْحَقُّ إِحْسَانُ الظَّنِّ بِهِمْ وَالْإِمْسَاكُ عَمَّا شَجَرَ بَيْنَهُمْ وَتَأْوِيلُ قِتَالِهِمْ وَأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ مُتَأَوِّلُونَ لَمْ يَقْصِدُوا مَعْصِيَةً ولامحض الدُّنْيَا بَلِ اعْتَقَدَ كُلُّ فَرِيقٍ أَنَّهُ الْمُحِقُّ وَمُخَالِفُهُ بَاغٍ فَوَجَبَ عَلَيْهِ قِتَالُهُ لِيَرْجِعَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ وَكَانَ بَعْضُهُمْ مُصِيبًا وَبَعْضُهُمْ مُخْطِئًا مَعْذُورًا فِي الْخَطَأِ لِأَنَّهُ لِاجْتِهَادٍ وَالْمُجْتَهِدُ إِذَا أَخْطَأَ لَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَكَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هُوَ الْمُحِقُّ الْمُصِيبُ فِي تِلْكِ الْحُرُوبِ هَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَكَانَتِ الْقَضَايَا مُشْتَبِهَةٌ حَتَّى إِنَّ جَمَاعَةً مِنَ الصَّحَابَةِ تَحَيَّرُوا فِيهَا فَاعْتَزَلُوا الطَّائِفَتَيْنِ وَلَمْ يُقَاتِلُوا وَلَمْ يَتَيَقَّنُوا الصَّوَابَ ثُمَّ تَأَخَّرُوا عَنْ مُسَاعَدَتِهِ مِنْهُمْ‘‘۔ ’’اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہگار نہیں ہوتا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جامعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے‘‘۔ (شرح صحیح مسلم للنوویؒ: ج۱۸، کتاب الفتن، باب إذا تواجه المسلمان بسيفيهما، ص۱۱)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ تمام صحابہ کرام رضی اﷲعنہم اجمعین اسلام کے لیے مخلص، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کےحوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے۔ اس کے برخلاف بدگوئی وفضول گوئی پھوٹ پیدا کرتی ہے، جو شیطان کا کام ہے، وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں میں غصہ، نفرت، عداوت، کینہ، حسد، نفاق کے بیج بوتا ہے۔
غیر مقلدین کی گندی زبان اور ان کے شر سے ائمہ احناف، علماءِدیوبنداور آئمہ اربعہ تو کیا صحابہ کرام ؓ بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ جب ان بے غیرتوں نے صحابہ کرامؓ پر اتنےبڑے بڑےالزامات لگاڈالے جن کی عظمت اور شان اﷲ پاک نے قرآن میں اور نبی کریم ﷺ نے اپنے فرمان میں بیان فرمائی تو پھر علماء احناف اور ائمہ اربعہ کس گنتی میں ہیں۔ کیاکوئی اہلحدیث صحابہ کرامؓ کی شان میں ایسی گستاخیاں کرسکتاہے؟ ہرگزنہیں۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ آج کل کےفرقہ غیرمقلدین جواپنے اہل حدیث ہونے کے دعویدارہیں درحقیقت چھوٹے رافضی ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲعنہ جیسے جلیل القدرصحابی جو کاتب وحی ہیں، غیرمقلدین ان کو فاسق کہہ کراورحضرت ورضی اﷲعنہ جیسے تعظیمی القاب سے محروم کرکے بھی یہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں اوراپنے آپ کو اہل سنت والجماعت میں شامل سمجھتے ہیں۔ سب کچھ ہوسکتاہے لیکن گستاخ صحابہؓ وگستاخ امیرمعاویہؓ اہل سنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔
فرقہ غیرمقلدین کی فروعی مسائل میں شیعوں سے موافقت اوراہلسنت والجماعت کی مخالفت
۱۔ فرقہ غیرمقلدین کے بانی مولوی عبدالحق بنارسی کے شاگردِخاص علامہ وحیدالزمان صدیقی کے نزدیک نکاح متعہ حلال قطعی ہے: ’’وکذالک بعض اصحابنافی نکاح المتعۃ فجوزو ھا ونرٰی کان ثابتاً جائزاً فی شریعۃ کما ذکرہ اللہ فی کتابہ فما استمتعتم بہ منھم الی اجل مسمی یدل صراحۃ علی اباحتہ فالاباحتہ قطعیۃ لکونہ قد وقع الاجماع علیہ و تحریم ظنی‘‘۔ ’’ اور ایسے ہی ہمارے بعض اصحاب نے نکاح متعہ کو جائز قرار دیا ہے جبکہ وہ شریعت میں ثابت اور جائز تھا جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسکا تذکرہ یوں کیا ہے کہ، ان میں سے تم جس سے متعہ کرو گے تو اس سے اس کی مزدوری ہی دے دیا کرو۔ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراءت میں الی اجل مسمیکی زیادتی ہے، جو صراحتاً جواز کی دلیل ہے۔ یعنی جس سے تم مدت مقررہ تک کے لئے متعہ کرو۔ پس اباحت اور جواز قطعی ہے اسلئے کہ اباحت پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور جہاں تک حرمت کا تعلق ہے تو وہ ظنی ہے‘‘۔  (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۲، ص۳۳-۳۴)
اسی طرح وحید الزمان صدیقی ہدیۃ المہدی کے صفحہ نمبر۱۱۲پر بھی نکاح متعہ کو جائز قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بااختیار قول اھل مکۃ فی المتعۃ‘‘۔ ’’متعہ کے بارے میں اہل مکہ کے قول جواز کے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں‘‘۔
غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں: ’’متعہ سے اگر حضرت عمررضی اﷲ عنہ منع نہ کرتے تو زناوہی کرتا جو بدبخت ہوتا (کیونکہ متعہ آسان ہے اوراس سے کام نکل جاتاہےپھرحرام کاری کی ضرورت نہ رہتی)‘‘ ۔ (لغات الحدیث :کتاب ’’م‘‘، ص۹)
بالکل اسی طرح شیعہ بھی متعہ کوقرآن وحدیث سے ہی جائزبلکہ باعث مغفرت اورباعت رحمت ثابت کرتے ہیں، جیساکہ حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ شیعوں کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’یہ عورتوں کے متعہ کوبہترین عبادت اورافضل طاعت خیال کرتےہیں‘‘۔ (تحفٔہ اثناءعشریہ[اردو]: ص۷۱۵)
قارئین کرام ذرا غورفرمائیں! شیعوں سے موافقت میں غیرمقلدین حضرات جس طرح دیگرمسائل کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ویسے ہی ان کے عالم وحیدالزمان صدیقی نکاح متعہ کوبھی قرآن وحدیث کی روشنی میں جائزقراردے رہے ہیں اور ساتھ ہی اس پراجماع کادعویٰ بھی کررہے ہیں۔ یہ ہے قرآن وحدیث سے ان کےباطل استدلال کی دلیل جس پر پوری غیرمقلدیت عمل پیراہے۔
۲۔ اسی طرح طلاق ثلاثہ کے مسئلےپرپوری غیرمقلدیت نے شیعوں کی موافقت اوراہلسنت والجماعت اورصحابہ کرامؓ کی مخالفت کی۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صاحب صحیح مسلم کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:’’جو شخص اپنی عورت سے کہے کہ تجھ پرطلاق ہیں تین اس میں اختلاف ہے علماءکا۔ امام شافعی اورامام ملک اورابوحنیفہ اوراحمد اورجماہیرعلماءکاقول یہ ہے کہ تینوں طلاق اس پرپڑگئیں اورطاؤس اوراہل ظاہرکامذہب ہے کہ نہیں پڑتی اس پرمگرایک طلاق اوریہ ایک روایت ہے حجاج بن ارطاۃ سے اورمحمد بن اسحاق سے اوریہی مذہب قوی اورصحیح ہے ان احادیث کی روسے ابن قیمؒ نے اورمحققان محدثین نے اسی کواختیار کیاہے ‘‘۔ (صحیح مسلم شریف: ج۴، ص۹۹-۱۰۰)
مولاناثناءاﷲامرتسری نواب صدیق حسن خان صاحب کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’نواب صدیق حسن خان صاحب نے"اتحاف النبلاء" میں جہاں شیخ الاسلام کے تفردات لکھے ہیں اس فہرست میں طلاق ثلاثہ کا مسئلہ بھی لکھا ہے۔ جناب شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تین طلاق کے ایک مجلس میں ایک ہونے کا فتویٰ دیا تو بہت شور شرابہ ہوا۔ شیخ الاسلام اور ان کے شاگرد ابن قیم پر مصائب برپا ہوئے، ان کو اونٹ پر سوار کراکے درے مار مار کر شہر میں پھرا کر توہین کی گئی، قید کئے گئے۔ اس لئے کہ اس وقت یہ مسئلہ علامت روافض کی تھی‘‘۔(فتاوی ثنائیہ: ج۲، ص۲۱۹)
غیرمقلد عالم مولاناثناءاﷲامرتسری طلاق ثلاثہ کے مسئلےپراعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے یہ فتوےٰابدالآبادکےلئے شرعی طورپرہی دیاہے، توہم کہتے ہیں، پھرآپ اورہم اسے کیوں مانیں، ہم فاروقی تونہیں محمدی ہیں۔ ہم نے ان (عمررضی اﷲ عنہ) کا کلمہ تونہیں پڑھا، آنحضرتﷺکاکلمہ پڑھاہے‘‘۔ (فتاوی ثنائیہ: ج۲، ص۲۵۲)
فرقہ غیرمقلدین کے اس جواب پرسوال یہ پیداہوتاہے کہ اگریہ محمدی ہیں توپھرحضرت فاروق اعظمؓ اورتمام صحابہ کرامؓ کون تھے؟ کیا وہ سب محمدی نہیں تھے؟ اوراگرانہوں نے آنحضرتﷺ کا کلمہ پڑھاہے۔ توکیاحضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ اورتمام صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺکاکلمہ نہیں پڑھاتھاجوتین طلاق کے تین ہونے پرہی فتویٰ دیتے رہے؟
فرقہ غیرمقلدین کے ایک اورعالم مولانا محمد رئیس ندوی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ: ’’موصوف(حضرت عمرؓ) نے باعتراف خویش اس قرآنی حکم میں ترمیم کردی۔ اس قرآنی حکم میں موصوف نے یہ ترمیم کی کہ تین قرارپانے لگیں‘‘۔ (تنویر الآفاق فےمسئلة الطلاق: ص۴۸۷)
غیرمقلدعالم مولانا محمد رئیس ندوی صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے(تین طلاقوں کو تین کہنےوالی) یہ بات غصہ میں کہی تھی‘‘۔ (تنویر الآفاق فےمسئلة الطلاق: ص۱۰۳)
قارئین کرام ذرا غورفرمائیں کہ کیایہ فرقہ غیرمقلدین کاحضرت عمررضی اﷲعنہ پربہتان اعظیم نہیں کہ خلیفہ ثانی نے طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں قرآنی حکم میں ترمیم کردی۔ اورساتھ ہی حضرت علی رضی اﷲعنہ پرالزام نہیں کہ وہ غصہ میں تین طلاقوں کو تین کہاکرتےتھے؟ اوراس سے بڑھ کرتعجب کی بات یہ ہے کہ کسی ایک صحابی رسول نے حضرت عمررضی اﷲعنہ کے اس حکم کوقرآنی حکم میں ترمیم سمجھتے ہوئے یہ سوال نہ کیاکہ اے عمرؓ! جس بیوی کو اﷲنے ہم پرحرام نہیں کیا تو آپ کو یہ حق کیسے حاصل ہوگیاکہ آپ ایک حلال بیوی کو ہم پرحرام کردیں؟
کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ جو صحابہ کرامؓ مال غنیمت میں حاصل ہونے والے کپڑے میں اضافہ محسوس کرتے ہوئے حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ پراعتراض کردیا کرتے تھے، وہ صحابہ کرامؓ قرآنی حکم میں ترمیم جیسے انتہائی بڑے مسئلے میں خاموش رہے، ایسا ممکن نہیں۔ کیونکہ تمام صحابہ کرامؓ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اکٹھی دی گئی تین طلاقوں کے بعد بیوی کے حرام ہوجانے کا حکم حضرت عمررضی اﷲعنہ کا نہیں بلکہ اﷲاوراس کے رسولﷺکاہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس طرح نکاح متعہ کی حرمت کو حضرت عمررضی اﷲعنہ نے قانونی طورپرنافض کیابالکل اسی طرح سے اکٹھی دی گئی تین طلاقوں کی حرمت کوبھی قانونی طورپرنافض کیا۔
فرقہ غیرمقلدین کی طرح مشہور شیعہ عا لم ابو جعفر محمد بن الحسن بن علی الطو سی لکھتے ہیں: ’’والطلاق الثلاث بلفظ وا حد او فی طہر واحد متفرقاً لا یقع عندناالا وا حدۃ‘‘۔ ’’تین طلا قیں ایک لفظ سے دی گئی ہو ں یا ایک طہر میں علیحدہ علیحدہ دی گئی ہو ں ہما رے نزدیک صرف ایک طلا ق وا قع ہو تی ہے‘‘۔ (المبسوط فی فقہ الامامیہ:ج۵، ص۴)
۳۔ حالت حیض میں طلاق کے شمارہونے یانہ ہونے پربھی پوری غیرمقلدیت نے شیعوں کی موافقت اوراہلسنت والجماعت اورصحابہ کرامؓ کی مخالفت کی۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صحیح بخاری کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: ’’اب وہ طلاق جوحالت حیض میں دی تھی اہل حدیث کے نزدیک لغوہےلیکن ائمہ اربعہ کے نزدیک اس کا شمارہوگا۔ ائمہ اربعہ اوراکثرفقہاءتواس طرف گئے ہیں کہ شمارہوگااورظاہریہ اوراہل حدیث اورامامیہ اورہمارے مشائخ میں سے امام ابن تیمیہ، ابن قیم، امام ابن حزم علیہم الرحمۃ اورمحمد باقراورجعفرصادق اورناصر علیہم السلام اہل بیت کایہ قول ہے کہ اس طلاق کاشمارنہ ہوگااس لئے کہ یہ بدعی اورحرام تھا۔ شوکانی اورمحققین اہل حدیث نے اسی کوترجیح دی ہے‘‘۔ (تیسیرالباری صحیح بخاری شریف: ج۷، کتاب النکاح، ص۱۶۴)
اس کے بعدصحیح بخاری سے حضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ کی روایت نقل کرنے کے بعدآگےلکھتے ہیں: ’’ائمہ اربعہ اورجمہورفقہانے اسی سے دلیل لی ہے اوریہ کہاہے کہ جب ابن عمرؓ خودکہتے ہیں کہ یہ طلاق شمارکیاگیاتواب اس کے وقوع میں کیاشک رہی ہم کہتے ہیں کہ ابن عمرؓ کاصرف قول حجت نہیں ہوسکتا‘‘۔ (تیسیرالباری صحیح بخاری شریف: ج۷، کتاب النکاح، ص۱۶۵)
محترم قارئین کرام! آپ نے دیکھا کہ غیرمقلد عالم کتنی ڈھٹائی کے ساتھ حالت حیض میں طلاق کے شمارہونےیانہ ہونے کے مسئلے پرائمہ اربعہ اورجمہور فقہاءکے ساتھ ساتھ ابن عمررضی اﷲعنہ سے بھی اختلاف کررہے ہیں اوراپنی تائید میں شیعوں سے موافقت کرتے ہوئےامام باقراورامام جعفرصادق ودیگراہل بیت کے اقوال سے احتجاج کررہے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک جلیل القدرصحابی رسول ابن عمررضی اﷲعنہ (جنہوں نے اپنی آنکھوں سے نبی ﷺکی زیارت کی اورجنہیں خودنبی پاکﷺنے حالت حیض میں اپنی زوجہ کوایک طلاق دینے کے بعدرجوع کرنے کا حکم دیا) ان کاقول حجت نہیں لیکن امام باقراورامام جعفرصادق کاقول حجت ہے۔ کیا یہ فرقہ غیرمقلدین کے شیعہ رافضی ہونے پرواضح دلیل نہیں؟
اسی طرح دوسرےشیعہ عا لم محمد بن علی بن ابرا ہیم المعروف ابن ابی جمہور لکھتے ہیں: ’’وروی جمیل بن دراج فی صحیحہ عن احدہما علیہما السلام قال: سألتہ عن الذی یطلق فی حا ل طہر فی مجلس واحد ثلاثاً؟قال: ھی واحدۃ‘‘۔ ’’ جمیل بن درا ج نے اپنی کتا ب "صحیح" میں امام باقر یا امام صا دق سے روا یت نقل کی ہے کہ میں نے ان سے اس شخص کے با رے میں پوچھا جو اپنی بیوی کو حا لت طہر میں ایک مجلس میں تین طلاقیں دیتا ہے تو انہو ں نے جواب دیا کہ ایک طلاق واقع ہو گی‘‘۔ (عوالی اللآلی العزیزیہ:ج۳، ص۳۷۸)
۴۔ اسی طرح جماعت تراویح کے متعلق مشہور غیرمقلدمحقق علامہ امیر یمانی صاحب لکھتے ہیں: ’’والمحافظه علیها ھوا لذی نقول انه بدعه‘‘۔ ’’تراویح  کی جماعت کے ساتھ باقاعدگی سے ادائیگی کو ہم بدعت کہتے ہیں‘‘۔ (سبل السلام الموصلۃالیٰ بلوغ المرام: ج۳، ص۲۹)
اس سے چندسطورپہلےامیر یمانی صاحب لکھتے ہیں: ’’ان عمر ھوالذی جعلھا جماعه و سماھا بدعه۔ وأما قوله: ونعم البدعه، فلیس فی البدعه ما یمدح بل کل بدعه ضلاله‘‘۔ ’’حضرت عمرؓ نے ہی تراویح کو ایک مقرر کردہ امام کے ساتھ جماعت کی صورت دی اور اس کا نام بدعت رکھا آپ کا یہ قول کہ اچھی بدعت ہے تو بدعت کوئی بھی ہو قابل تعریف نہیں بلکہ ہر  بدعت ضلالۃ (گمراہی) ہے‘‘ (نعوذبا للہ من ذالک)۔ (سبل السلام الموصلۃالیٰ بلوغ المرام: ج۳، ص۲۷)
اسی طرح ایک اورغیرمقلد عالم ابوالاقبال سلفی لکھتے ہیں: ’’بیس رکعات تراویح بدعت ہے: بیس رکعت تراویح پڑھناسنت رسولﷺ نہیں بلکہ بدعت ہے‘‘۔ (مذہب حنفی کادین اسلام سے اختلاف بجواب جماعت اھل حدیث کا خلفاءِراشدین سے اختلاف: ص۲۹)
جماعت تراویح کے متعلق بالکل یہی بات شیعوں کے حوالے سے امام ابن تیمیہؒ نقل کرتےہوئے لکھتے ہیں: ’’شیعہ کے نزدیک نمازتراویح بدعت ہے: شیعہ مصنف لکھتاہے: عمرنے تراویح کی بدعت جاری کی۔ حالانکہ نبی کریمﷺنے فرمایاتھا، لوگو! رمضان کی راتوں میں نمازباجماعت بدعت ہے۔ چاشت کی نمازبھی بدعت ہے، لہٰذا رمضان کی راتوں میں جمع نہ ہواکرو۔ صلوٰۃ الضحیٰ بھی نہ پڑھاکرو۔ عمررات کونکلے تومساجدمیں چراغ جلتے دیکھ کرپوچھایہ کیاہے؟ لوگوں نے کہاہم نفلی نمازکے لئے جمع ہوئے ہیں، فرمایا: یہ ہے توبدعت مگراچھی ہے‘‘۔ (منھاج السنۃالنبویۃاردو: ص۷۷۷)
قارئین کرام ذراغورفرمائیں کہ غیرمقلدعالم اورشیعہ عالم کے الفاظ میں کتنی زیادہ مماثلت ہےکہ دونوں ہی حضرت عمررضی اﷲعنہ کی جاری کردہ سنت (نمازِتراویح)کوبدعت وگمراہی قراردے رہے ہیں۔
۵۔ اسی طرح وحید الزمان صدیقی اہل تقلید کی مخالفت اوراہل تشیع سے موافقت پرفخریہ کلمات اداکرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ولا یجوز تقلید المجتھد المیت وحکیٰ بعضھم الاجماع علیہ و قیل یجوز و رجحہ الشیخ ابن القیم لان القول لایموت و تقلید السلف الاقوال الصحابۃ و تابعین تدل علی و قال ابن مسعود رضی اللہ عنہ من کان متبعاً فلیستن بمن قدمات و خالفتنا فیہ المقلد و افقنا فیہ امامیۃ‘‘۔ ’’ فوت شدہ مجتہد کی تقلید جائز نہیں اور بعض نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ جائز ہے، اور شیخ ابن قیم رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے کیونکہ قول تو نہیں مرتا اور سلف صالحین نے جو اقوال صحابہ و تابعین کی تقلید کی ہے وہ اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے جو کسی کی اتباع کرنا چاہتا ہو اسے چاہیئےکہ فوت شدہ لوگوں کی اتباع کرے، اس بارے میں مقلدین نے ہماری مخالفت کی ہے اور فرقہ امامیہ ہمارے موافق ہے‘‘۔ (ھدیة المہدی: ص۱۱۱-۱۱۲)
قارئین کرام زرا غورفرمائیں کہ غیر مقلد عالم وحیدالزمان صاحب یہاں شیعہ اماموں کو اپنی تائید میں پیش کررہےہیں اوراہل سنت والجماعت کی مخالفت کررہے ہیں۔
۶۔ غیرمقلدعالم علامہ وحیدالزمان صدیقی شیعوں کی طرح وضو میں پاؤں کے مسح کے قائل تھے: ’’قال ابن جریر من اصحابنا یتخیر المتوضی ان یغسل رجلیہ او یمسح علیھا لان ظاھر الکتاب ینطق بالمسح ولکن الصحابۃ اتفقوا علی الغسل الا ماروی عن ابن عباس رضی اللہ عنہ و حکی عنہ الرجوع ویحکی من الشیخ ابن عربی جواز مسح الرجلین فی الوضوء و ھو المنقول عن عکرمۃ ووجدنا فی کتب الزیدیۃ والامامیۃ الروایات المتواترۃ عن آئمۃ اہل البیت رضی اللہ عنھم تشعر بجواز المسح‘‘۔ ’’ہمارے اصحاب میں سے ابن جریر نے کہا ہے کہ وضو کرنے والے کو اختیار ہے چاہے وہ پاؤں دھوئے چاہے ان پر مسح کرلے۔ اس لئے کہ کتاب اللہ ظاہر مسح ہی کو بیان کرتی ہے، لیکن صحابہ کرامؓ دھونے پر متفق ہیں، مگر جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے جس سے ان کا رجوع بھی منقول ہے، شیخ ابن عربی سے بھی پاؤں کے مسح کا جواز نقل کیا گیا ہے، اور یہی حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے بھی۔ اور ہم نے زیدی اور امامی شیعوں کی کتابوں میں آئمہ اہل بیت کی متواتر روایات پائی ہیں جو مسح کے جواز کو ثابت کرتی ہیں‘‘۔  (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۱، ص۱۲)
اس اقتباس میں وحید الزمان غیر مقلد نے پاؤں کے مسح کا جواز ہی نقل نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف غسل رجلین پر صحابہ کا اجماع بھی نکل کیا ہے، تعجب ہے کہ پھر بھی مسح کے جواز کےقائل ہیں اور اپنی تائید میں صحابہؓ اور اہل سنت کے آئمہ کو چھوڑ کر شیعوں کے اماموں سے متواتر روایات بیان کرتےہیں، تو کیا یہ ان کے شیعہ ہونے کی اٹل دلیل نہیں ہے؟ کہ جن شیعی روایات کی تردید انہیں کرنی چاہیئے تھی وہ بڑے فخر سے اپنی تائید میں نقل کرتےہیں۔
۷۔ غیرمقلدعالم علامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب حی علی الفلاح کے بعد حی علی خیر العمل کہنے کے قائل تھے: ’’ولو زاد بعد الحیعلتین حی علی خیر العمل فلا باس بہ‘‘۔ ’’ اسمیں کوئی حرج نہیں کہ حی علی الفلاح کے بعد حی علی خیر العمل کہا جائے‘‘۔  (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۱، ص۵۹)
۸۔ تھوڑے پانی میں نجاست گرجانےپرپانی کے ناپاک نہ ہونے میں فرقہ غیر مقلدین اورشیعوں کی موافقت پرعلامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے ہیں: ’’لا یفسد ماء البئر ولو کان صغیراً والماء فیہ قلیلاً بوقوع النجاسۃ‘‘۔ ’’کنویں کا پانی نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوتا خواہ وہ کنواں چھوٹا ہو اور پانی بھی اس میں کم ہو‘‘۔  (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۱، ص۳۱)
اسی طرح شیعہ کہتے ہیں: ’’فان وقع فی البئر زمبیل من عذرۃ رطبۃ او یابس او زمبیل من سرقین فلا باس بالوضوء منھا ولا ینزح منھا شئی‘‘۔ ’’کنویں میں پاخانے کی بھری ہوئی زنبیل گرگئی خواہ نجاست تر ہو یا خشک،یا گوبر والی زنبیل گرگئی، تو کوئی حرج نہیں،اس سے وضو کرسکتے ہیں اور اس میں سے پانی نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ (من لا یحضرہ الفقیہ:ص۵)
۹۔ ساس کے ساتھ زنا کی وجہ سے بیوی کے حرام نہ ہونےمیں فرقہ غیر مقلدین اورشیعوں کی موافقت پرعلامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے ہیں: ’’وکذالک لو جامع ام امراتہ لا تحرم علیہ امراتہ‘‘۔ ’’اگرکسی شخص نے اپنے باپ کی بیوی سے زناکیابالغ ہویا نابالغ، اس باپ پروہ عورت حرام نہ ہوگی، اسی طرح اگرکسی نے اپنے بیٹے کی بیوی سے جماع کیااس کے بیٹے  پروہ عورت حرام نہیں ہوگی، اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کی ماں (ساس)سے جماع کیا تو اس پر اس کی بیوی حرام نہیں ہوگی‘‘۔  (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۲، ص۲۸)
اسی طرح شیعہ کہتے ہیں: ’’عن ابی جعفر علیہ السلام وانہ فی رجل زنا بام امراتہ او بابنتھا او باختھا فقال لا یحرم ذالک علیہ امراتہ‘‘۔ ’’ حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی ساس یا اس کی پچھ لگ بیٹی یا اپنی سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی حرام نہیں ہوگی‘‘۔ (فروع کافی: ج۲،ص۱۷۴)
۱۰۔ مشت زنی کے جواز میں فرقہ غیر مقلدین اورشیعوں کی موافقت پرنواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں: ’’وبالجملتہ استنزال المنی بکف یا چیزے از جمادات نزد دعائے حاجت مباح است لا سیما چوں فاعل ناشی از وقوع فتنہ یا معصیت کہ اقل احوالش نظر بازی است باشد کہ دریں حین مندوب است بلکہ گاہے گاہے واجب گرد‘‘۔ ’’ہاتھ سے منی نکالنا یا جمادات میں سے کسی چیز کے ساتھ رگڑ کر جبکہ اس کا تقاضہ ہو بالکل مباح ہے، بالخصوص جبکہ فاعل کو فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو جس کی کم از کم حد نظر بازی ہے، تو ایسے وقت میں مستحب ہے بلکہ کبھی تو واجب ہوجاتی ہے۔ جس وقت اس کے سوا گناہ سے بچنا نا ممکن ہو۔ بعض اہل فن نے اس کا ارتکاب صحابہ سے بھی نقل کیا ہے جبکہ وہ اپنے اہل سے دور ہوتے تھے‘‘۔ (عرف الجادی من جنان ھدی الھادی: ص ٢۱۴۔۲۱۵)
اسی طرح مشت زنی کے جوازپر شیعہ کہتے ہیں: ’’عن ابی عبداللہ علیہ السلام سالتہ عن الدلک قال ناکح نفسہ لا شئی علیہ‘‘۔ ’’امام جعفر علیہ السلام سے مشت زنی کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے وجود سے فعل کرتا ہے اس پر کوئی مواخزہ نہیں‘‘۔ (فروع کافی: ج۲،ص۲۳۴)
۱۱۔ عورتوں کے ساتھ وطی فی الدبرمیں فرقہ غیر مقلدین اورشیعوں کی موافقت پرغیرمقلدعالم وحیدالزمان صدیقی لکھتے ہیں: ’’ووطی الازواج و الاماء فی الدبر‘‘۔ ’’اہل حدیث عورتوں اور باندیوں کی دبر میں وطی کرنے کے جواز کا انکار نہیں کرتے‘‘۔  (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۲، ص۱۳۵)
غیر مقلد عالم وحید الزمان صدیقی صحیح بخاری شریف کےجلدنمبر۶صفحہ نمبر۳۷ تا۳۸پر سورۃ البقرۃ کی آیت۲۸۶ "نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ" کی تفسیر کے حاشیہ میں لکھتےہیں: ’’اسحاق بن راہویہ کی روایت میں اس کی صراحت ہے کہ (یہ آیت) عورتوں سے دبر میں جماع کرنے کے باب میں اتری۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی اباحت منقول ہے۔ اور امام مالکؒ اور امام شافعیؒ بھی پہلے اسکے قائل تھے۔ حاکم نے کہا! جدید قول شافعیؒ کایہ ہےکہ یہ حرام ہے‘‘۔ اس کے بعد اگلے صفحے پرلکھتے ہیں: ’’یہ لفظ (دُبرمیں) امام بخاری نے چھوڑدیا۔ اس کوطبرانی نے وصل کیا۔ اس میں صاف یوں ہے کہ آیت وطی فی الدُبُّرکی اجازت میں اتری۔ تو آیت سے وطی فی الدُبُّرکاجوازنکلے گا۔ مگربہت سی حدیثیں اس کی ممانعت میں وارد ہوئی ہیں۔ ان سے آیت کا عموم خاص ہوسکتا ہے۔ اورایک جماعت اہلحدیث جیسے بخاری،زیلعی،بزاز،نسائی اور ابوعلی نیشاپوری اسی طرف گئی ہے کہ وطی فی الدبر کی ممانعت میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ میں کہتا ہوں اس حدیث کے کئی طریق ہیں اورسب طریق ملاکرحجت لینے لائق ہوجاتی ہے۔ان حدیثوں سے آیت کی تخصیص کرلینا بہترہے۔ مطلب یہ کہ آیت سے وطی فی الدبر کا جواز نکلتا ہے‘‘۔
معزز قارئین! آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ براکام فرقہ غیرمقلدین کی طرح شیعہ مذہب میں بھی جائز ہے، جیسا کہ خمینی صاحب لکھتے ہیں: ’’والأقوی والأظہر جواز وطیئ الزوجۃ مع الدبر علی کراہیۃ شدیدۃ‘‘۔ ’’قوی ترین اور راجح بات یہ ہے کہ شدید کراہت کے باوجود بیوی کی دبر میں جماع کرنا جائز ہے‘‘۔ (تحریر الوسیلۃ للخمینی: ج٢، ص٢٤١، مسئلہ نمبر ١١)
اسی طرح عورتوں کے ساتھ وطی فی الدبرکےجوازمیں شیعہ یہ دلیل پیش کرتےہیں: ’’عن حماد بن عثمان قال سالت ابا عبداللہ علیہ السلام عن الرجل یاتی المراۃ فی ذالک الموحع وفی البیت جماعۃ وقال لی ورفع صوتہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کلف مملو کہ مالا یطیق فلیبہ ثم نظر فی وجوہ اھل البیت ثم اصغی الی فقال لا باس بہ‘‘۔ ’’حماد بن عثمان روایت کرتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ اپنی عورت کی دبر میں دخول کر سکتا ہے؟ آپ نے بلند آواز سے یہ فرمایا کہ اپنے غلام سے اس کی طاقت سے بڑھ کر کام لینا جائز نہیں بلکہ اسے فروخت کردینا چاہیئے، پھر اپنے اہل بیت کے چہروں کو دیکھ کر میری طرف سرجھکایا اور فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ (الاستبصار: ج۲،ص۱۳۰)
۱۲۔ خنزیر کے اجزاء کے ناپاک نہ ہونےمیں فرقہ غیر مقلدین اورشیعوں کی موافقت پر وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے ہیں: ’’ شعر المیتہ والخنزیر طاھر و کذا عظمھا و عصبھا و حافرھا و قرنھا ‘‘۔ ’’مردار کے بال اور خنزیر کے بال پاک ہیں اور ایسے ہی ان کی ہڈیاں اور ان کا پٹھا اور ان کے کھر اور ان کے سینگ پاک ہیں‘‘۔ (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۱، ص۳۰)
نیزوحیدالزمان حیدرآبادی یہ بھی لکھتے ہیں: ’’خون حیض کےعلاوہ باقی تمام خون، منی، رطوبت فرج، خمرحلال و حرام جانور کا پیشاب یہ سب چیزیں پاک ہیں‘‘۔ ’’اہلحدیث کا راجح مذہب یہ ہے کہ کتےاور خنزیرکا لعاب پاک ہے‘‘۔ (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۱، ص۴۹)
اسی طرح شیعہ کہتے ہیں: ’’عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال سالتہ من الحبل یکون من شعر الخنزیر یستسقٰی بہ الماء من البئر ھل یتوضاً من ذالک الماء قال لاباس بہ‘‘۔ ’’ زرارہ کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ خنزیر کے بالوں کی رسی سے کنویں میں سے پانی نکالیں تو اس سے وضو کیا جاسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں۔ "قال العشر و الصوف کلہ ذکی" آپ نے فرمایا اسکے بال اور اون سب پاک ہیں‘‘۔ (فروع کافی: ج۲،ص۱۰۳)
۱۳۔ قارئین جانتے ہیں کہ کتا نجس ہے، جوکہ اگر کنویں میں گرجائے تو کنواں ناپاک ہوجاتا ہے اور اس کا سارا پانی نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر شیعون کے ہاں صرف پانچ ڈول نکالنے سے کنواں پاک ہوجاتا ہے، لیکن غیر مقلدین کے ہاں توپانچ ڈول نکالنے کی بھی ضرورت نہیں جیسا کہ فرقہ غیر مقلدین کے عالم وحید الزمان صدیقی نزل الابرار میں لکھتےہیں: ’’ودم السمک طاہر وکذالک الکلب وریقہ عند المحققین۔ ولو سقط فی الماء ولم یتغیر لا یفسد الماء وان اصاب فمہ الماء‘‘۔ ’’اور مچھلی کا خون پاک ہے اور ایسے ہی کتا اور اس کا تھوک بھی پاک ہے۔ اگر کتا پانی میں گرجائے اور پانی کے اوصاف تبدیل نہ ہوں تو پانی پلید نہیں ہوگا۔ اگرچہ اس کا منہ پانی میں ڈوب جائے‘‘۔ (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۱، ص۳۰)
اسی طرح شیعہ کہتے ہیں: ’’بکیف خمس ولاء‘‘۔ ’’تجھے پانچ ڈول کافی ہیں‘‘۔ (فروع کافی: ج۱،ص۴)
۱۴۔ فرقہ غیرمقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی بھی کچھ اسی طرح کے غلیظ فتوے اپنی کتاب میں لکھتےہیں: ”حلال جانور کا ہر جزءحلال ہے۔ (آنتىں، آلہ تناسل، دونوں بیضے، فرج یعنی مادہ جانور کے پیشاب کا مقام، غدہ یعنی غدود، مثانہ یعنی پھکنا اور پِتا)‘‘۔ (فتاویٰ نذىریہ:ج۳، ص۳۲۰-۳۲۱)
۱۵۔ اسی طرح غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی جمع بین الصلوٰتین میں شیعوں کی موافقت میں لکھتے  ہیں : ’’الجمع بین الصلوٰتین من غیر عزر ولا سفر ولا مطر جائز عند اہل حدیث و التفریق افضل و اشترط بعضھم ان لا یتخذوہ عادۃ و رواہ امامیۃ کتبھم عن العترۃ الطاھرۃ‘‘۔ ’’اہل حدیث کے نزدیک بغیر کسی عذر، بغیر کسی سفر، بغیر کسی بارش کے بھی، دونمازوں کوجمع کرکے پڑھنا جائز ہے۔ اور تفریق افضل ہے، اور بعضوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ لوگ اسے عادت نہ بنالیں اور جمع بین الصلوٰتین کو امامیہ نے اپنی کتابوں میں آل پاک سے روایت کیا ہے‘‘۔ (ھدیة المہدی: ص۱۰۹)
اس کے برعکس رسول اﷲﷺ سے صرف میدان عرفات میں ظہر اور عصر کی جمع تقلدین اور مزدلفہ میں مغرب و عشاء کی جمع تاخیرثابت ہے، اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں بھی بلاعزر شرعی جمع نہیں فرمائی۔ جمع بین الصلوٰ تین بلا عذر تمام ائمہ اربعہ کے نزدیک ناجائز ہے، لیکن فرقہ غیرمقلدین اپنے زیدی شیعہ آباؤاجدادکی اندھی تقلید میں جمع بین الصلوٰتین کےقائل ہیں۔ حالانکہ قرآن وحدیث سے اس کی واضح طورپرنفی ثابت ہے۔
قرآن مجیدمیں اﷲتعالیٰ نے واضح طورپرارشادفرمایاہےکہ: ’’إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا‘‘۔ ’’بےشک نماز تو مومنوں پر مقررہ وقت پر فرض ہے‘‘۔ [سورہ النساء: ۱۰۳]
اسی طرح صحیح بخاری کی حدیث سے بھی اس بات کی واضح دلیل ملتی ہے کہ: ’’حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ قَالَ سَالِمٌ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَفْعَلُهُ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ وَيُقِيمُ الْمَغْرِبَ فَيُصَلِّيهَا ثَلَاثًا  ثُمَّ يُسَلِّمُ ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ الْعِشَاءَ‘‘۔ ’’ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا ہے، جب حضورﷺکو سفر میں جانے کی جلدی ہوتی تو  نماز مغرب  کو مؤخر کرتے، یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع کرتے۔ سالم کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمابھی اسی طرح کرتے، جب ان کو سفر کی جلدی ہوتی، اور نماز مغرب کا  وقت  قائم ہوجاتا توتین رکعت نماز مغرب  پڑھتے، پھر سلام پھیر کر تھوڑی دیر انتطار کرتے حتیٰ کہ عشاء کا وقت قائم ہوجاتا‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۲، كتاب تقصير الصلاة، بَابُ هَلْ يُؤَذِّنُ أَوْ يُقِيمُ إِذَا جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، رقم الحدیث ۱۱۰۹)
اس کی ایک اورواضح دلیل حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: ’’أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي الصَّلاَةَ لِوَقْتِهَا إِلاَّ بِجَمْعٍ وَعَرَفَاتٍ‘‘۔ ’’ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ہمیشہ اپنے وقت پر پڑھا کرتے تھے سوائے مزدلفہ اور عرفات کے‘‘۔ (سنن نسائی: ج۳، کتاب المناسک الحج، رقم الحدیث ۳۰۱۰)
۱۶۔ نماز میں ہاتھ اٹھاکر دعامانگنے میں فرقہ غیر مقلدین اورشیعوں کی موافقت پرعلامہ وحیدالزمان صدیقی صاحب لکھتے ہیں: ’’ولاباس ان یدعو فی قنوتہ بما شاء فیرفع یدیہ الی صدرہ یبسطھما و بطو نھا نحو السماء‘‘۔ ’’اس میں کوئی حرج نہیں کہ قنوت میں جو دعا پڑھے بس ہاتھوں کو اپنے سینے کے برابر تک اٹھا کر کھول لے ان کی ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہوں‘‘۔  (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۱، ص۱۲۳)
وحیدالزمان حیدرآباری اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں: ’’ویجوزون الدعاء برفع الایدی فی الصلوٰۃ ای دعاء کان ولو من قبیل ما یسال عن الناس‘‘۔ ’’اہل حدیث ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کو جائز کہتے ہیں خواہ کوئی سی دعا ہو خواہ ایسی دعا ہو جو لوگوں سے بھی مانگی جاسکتی ہے‘‘۔  (نزل الابرار من فقہ النبی المختار:ج۱، ص۱۱۰)
’’جنازہ کی قرات اور دعائیں جہراً پڑھنی سنت ہے‘‘۔ (فتاوٰی علمائے حدیث: ج۵، ص۱۵۲)
اسی طرح غیرمقلد عالم ثناءاﷲ امرتسری بھی یہی لکھتےہیں: ’’جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ اور اس کے بعد کی سورۃ بآواز بلند جہراً پڑھنا جائز بلکہ سنت ہے‘‘۔ (فتاوٰی ثنائیہ: ج۲،ص۵۶)
قارئین کرام اس بات سے بخوبی آگاہ ہونگےکہ جمہور اہل سنت کے نزدیک نماز جنازہ چونکہ دعا ہی کی ایک صورت ہے، اور دعا کو آہستہ پڑہنے کا حکم قرآن مجیدمیں موجودہے، اسلئے امت مسلمہ بالاجماع جنازہ کی دعائیں آہستہ پڑھنے کی قائل ہے۔ جیسا کہ غیر مقلد عالم قاضی شوکانی نے بھی یہی نقل کیاہےکہ: ’’مذھب الجمھور الی انہ لا یستحب الجھر فی صلوٰۃ الجنازۃ تمسکوا بقول ابن عباس رضی اللہ عنہ المتقدم لم اقرا ای جھراً الا لتعلموا انہ سنۃ و بقولہ فی حدیث ابی امامۃ سراً فی نفسہ‘‘۔ ’’ جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ نماز جنازہ میں جہر مستحب نہیں، اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول سے جو پیچھے گزرا دلیل پکڑی ہے، آپ نے فرمایا کہ میں نے جہراً اسلئے پڑھا کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ پڑھنا سنت ہے، اور جمہور نے حضرت امامہ کے اس قول "سراً فی نفسہ" سے بھی استدلال کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے اپنے جی میں پڑھو‘‘۔ (نیل الاوطار:ج۴، ص۶۶)
اسی طرح فقہ حنبلی کی مشہور کتاب المغنی ابن قدامہ میں بھی یہی لکھاہےکہ: ’’ویس القرات والدعا فی صلٰۃ الجنازۃ لا نعلم بین اہل العلم فیہ خلافھا‘‘۔ ’’ نماز جنازہ میں قرأت اور دعا آہستہ پڑہے اس سلسلہ میں ہم اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں جانتے‘‘۔ (المغنی ابن قدامہ: ج۲، ص۴۸۶)
اس کے ساتھ ہی ہمارے پاس نماز میں دعا کے لئے ہاتھ نہ اٹھانے کی مرفوع حدیث موجود بھی ہے: ’’عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی یَحْیَی قَالَ: رَأَیْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ الزُّبَیْرَ رضی اللہ عہما وَرَأَی رَجُلًا رَافِعًا یَدَیْہِ یَدْعُو قَبْلَ أَنْ یَفْرُغَ مِنْ صَلَاتِہِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْہَا قَالَ: لَہُ إِنَّ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ لَمْ یَکُنْ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حَتَّی یَفْرُغَ مِنْ صَلَاتِہِ۔ رَوَاہُ الْمَقْدَسِیُّ، وَالطَّبَرَانِیُّ کًمَا قَالَ الْہَیْثَمِیُّ۔ وَقَالَ: وَرِجَالُہُ ثِقَاتٌ‘‘۔ ’’محمد بن ابی یحییٰ اسلمی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا وہ فراغت سے پہلے نماز میں ہاتھ اٹھاکر دعا مانگ رہا تھا جب وہ فارغ ہوا تو آپ نے اسے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک نماز سے فارغ نہ ہوجاتے ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے۔ روایت المقدسی اورالطبرانی کے بارے میں الہیثمی فرماتے ہیں: اس کے تمام راوی ثقہ ہیں‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ؛ أخرجہ المقدسی فی الأحادیث المختارۃ: ج۹، ص۳۳۶، رقم الھدیث ۳۰۳؛ والہیثمی فی مجمع الزوائد:ج۱۰، ص۱۶۹؛ وقال : رواہ الطبرانی و ترجم لہ فقال محمد بن یحیی الأسلمی عن عبداللہ بن الزبیر ورجالہ ثقات، والمبارکفوری فیتحفۃ الأحوذی: ج۲، ص۱۰۰، وقال : رواہ الطبرانی ورجالہ ثقات)
اتنے قوی شواہداوراجماع امت کے باوجود بھی فرقہغیرمقلدین نے اس مسئلے میں اہل سنت والجماعت کو چھوڑکرشیعوں سے موافقت کی توکیا یہ ان کے شیعہ ہونے کی قوی تردلیل نہیں ہے؟
مندرجہ بالا حوالہ جات سے قارئین کرام خود اس بات کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ فرقہ غیرمقلدین اورروافض میں کتنی مشابہت ومماثلت ہے۔ یہی مماثلت ومشابہت اس بات کی دلیل ہے کہ فرقہ غیرمقلدین شیعوں کی ایک نئی نسل ہے جنہیں ائمہ اربعہ کے مقابلے میں مسلمانوں کی صفوں میں شامل کیاگیاتاکہ امت مسلمہ اختلاف و انتشارکاشکاررہے۔
بعض غیرمقلدین حضرات کہتے ہیں کہ غیرمقلدعالم علامہ وحیدالزمان صدیقی اہلحدیث نہیں بلکہ حنفی تھے۔ اس الزام کے رد میں ہم ان ہی کی ان کتابوں سے یہ بات ثابت کریں گے جن کے حوالے ہم اوپرپیش کرچکے ہیں کہ علامہ وحیدالزمان صدیقی پکے غیرمقلد تھے اوراپنے غیرمقلدشیعہ ہونے کا اقرارانہوں نے اپنی کتابوں میں کھل کرکیا ہے اورساتھ میں تقلید کارداورامام ابوحنیفہؒ کومرجیہ قراردینے کی بھی ناکام کوشش کی ہے۔ غیرمقلدمترجم مولانا محمد داؤدرازسابق ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندنے بھی صحیح بخاری کے ترجمہ فروری ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں اس بات کا اعتراف کیاہےکہ علامہ وحیدالزمان جماعت اہلحدیث کے عظیم عالم ہیں۔
۱۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی کا اپنی کتاب ہدیۃالمہدی کے صفحہ نمبر ۱۰۲۔۱۰۳پرخود اپنے اہلحدیث ہونے کا اقرار ملاحضہ فرمائیں۔
۲۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی کا اپنی کتاب ہدیۃالمہدی کےصفحہ نمبر۱۲۱ پرائمہ اربعہ کی تقلید سے انکاراوراہلحدیث کے فرقہ ناجیہ ہونے کا اقرار۔
۳۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی اپنی کتاب نزل الابرار کےجلدنمبر۳صفحہ نمبر ۸ پرلکھتے ہیں: ’’ ہمارا ایک نام ہے اہل حدیث، ان کو وہابی کہنے والے بدعتی ہیں‘‘۔
۴۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی اپنی کتاب ہدیۃالمہدی کےصفحہ نمبر ۱۰۰ پراپنے شیعہ ہونے کا اقرارکرتے ہوئےلکھتے ہیں: ’’اہل حدیث شیعانِ علیؓ ہیں‘‘۔
۵۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی کا اپنی کتاب نزل الابرار کےصفحہ نمبر ۷ پراپنے شیعہ ہونے کا اقرارکرتے ہوئےلکھتے ہیں: ’’اہل حدیث شیعانِ علیؓ ہیں‘‘۔
۶۔ غیر مقلد عالم علامہ وحیدالزمان صدیقی اپنی کتاب ہدیۃالمہدی میں تقلید کا رداورحنفیوں کی مخالفت میں لکھتے ہیں: ’’میں کہتاہوں اہل بدعت سے حنفی اورشافعی تقلید پرجمے ہوئے ہیں۔ مرجیہ میں سے ابوحنیفہؒ نعمان بن ثابت کے ساتھی یہ گمان کرتے ہیں اوریہ عقیدہ اہل حدیث کے خلاف ہے‘‘۔
۷۔ غیرمقلدمترجم مولانا محمد داؤدرازسابق ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند صحیح بخاری کے ترجمہ فروری ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں لکھتے ہیں: ’’مجموعۂ حدیث کاترجمہ بزبان اردوسب سے پہلے جماعت اہل حدیث کے ایک عظیم عالم علامہ وحیدالزمان حیدرآبادی رحمہ اﷲنے دیگربہت سی اہم کتب حدیث کے ساتھ کیاتھا‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۱، ص۲۳، اشاعت فروری ۲۰۰۴ء)
۸۔ وحیدالزمان صدیقی کی طرف سے حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲعنہ کی شان میں کی گئی گستاخیوں پرغیر مقلدمترجم مولانا محمد داؤدراز لکھتے ہیں: ’’(بڑوں کی لغزش) حضرت مولاناوحیدالزمان مرحوم کی خدمات سنہری حرفوں سے لکھنے کے قابل ہیں مگرکوئی انسان  بھول چوک سے معصوم نہیں ہے۔ صرف انبیاءؑ کی ذات ہے جن کی حفاظت اﷲپاک خودکرتاہے۔ حضرت معاویہؓ کے ذکرکے سلسلے میں مولانامرحوم کے قلم سے ایک نامناسب بیان نکل گیا۔ اﷲتعالیٰ مرحوم کی اس لغزش کومعاف فرمائے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، باب فضائل اصحاب النبیﷺ، ص۱۹۱، اشاعت فروری ۲۰۰۴ء)
اتنے واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص وحیدالزمان کوحنفی مقلدکہے تو اس کے دجال وکذاب ہونے میں کوئی شک نہیں۔
عبدالحق بنارسی کے مشہورتلامذہ علامہ وحیدالزمان صدیقی اورنواب صدیق حسن خان کی کتب کے حوالہ جات سے یہ بات سورج کی روشنی کی طرح واضح ہوگئی کہ فرقہ غیرمقلدین کے بانی عبدالحق بنارسی زیدی شیعہ تھے۔ کیونکہ ان کے استادامام شوکانی خود بھی زیدی شیعہ تھے لہٰذا ائمہ زیدیہ کی تقلید سے نکلنے کے باوجود بھی ان کی سوچ پر شیعیت غالب رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کےشاگرد عبدالحق بنارسی اوران کے شاگردعلامہ وحیدالزمان صدیقی اورنواب صدیق حسن خان پربھی وہی شیعیت غالب رہی اوران کی آنے والی نسلوں سے بھی شیعہ عقائد ونظریات کے واضح ثبوت ملتے ہیں جن کی تفصیل پیش خدمت ہے۔
فرقہ غیرمقلدین نے اپنے شیعہ رافضی آباؤاجداد کی تقلید میں جہاں ائمہ اربعہ کی تقلید کا انکارکیاوہیں خلفاءِ راشدین اورصحابہ کرامؓ کی پیروی کابھی انکارکیا۔ یہی وجہ ہےکہ طلاق ثلاثہ،بیس رکعات تراویح اوراذان ثانی جیسےاتفاقی مسائل میں فرقہ غیرمقلدین نے اجماع صحابہ کرامؓ اوراجماع امت کوتسلیم کرنے سے انکارکرتے ہوئےخلفاءِ راشدین خصوصاً حضرت عمرفاروق اورحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہھم اجمعین کے فیصلوں کونہ صرف قرآن وحدیث کے خلاف کہا بلکہ حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ جیسے جلیل القدرصحابی (جن کے بارے میں رسول اﷲﷺ نے یہ فرمایاتھاکہ اگرمیرے بعد کوئی نبی ہوتا تووہ عمرؓ ہوتے) کی سمجھ کو بھی غیرمعتبرقراردیااورساتھ ہی ان کے کیئے ہوئے فیصلوں کو قرآن وحدیث کے خلاف بتاتے ہوئے تراویح اوراذا ن ثانی کو بدعت قراردیا۔ اس کے برعکس رسول اﷲﷺ نےحضرت عمررضی اﷲعنہ کا مقام اوران کے علم وعمل کی گواہی کچھ ان الفاظ میں دی ہے۔
’’حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم"لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمَمِ مُحَدَّثُونَ، فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ‏"‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں۔ زکریابن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود اﷲتعالیٰ (فرشتوں کے ذریعہ) ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہواتو وہ حضرت عمر ہیں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، كتاب فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، باب مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ الْقُرَشِيِّ الْعَدَوِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، رقم الحدیث ۳۶۸۹)
’’حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ، سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ "قَدْ كَانَ يَكُونُ فِي الأُمَمِ قَبْلَكُمْ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُنْ فِي أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْهُمْ"۔‏ قَالَ ابْنُ وَهْبٍ تَفْسِيرُ مُحَدَّثُونَ مُلْهَمُونَ‘‘۔ ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی محدَّث ان میں سے ہے تو وہ عمر بن الخطاب ہے، ابن وہب نے کہا محدَّث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو‘‘۔ (صحیح مسلم: ج۶، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم، باب مِنْ فَضَائِلِ عُمَرَ رضى الله تعالى عنه، رقم الحدیث ۶۲۰۴)
’’حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ "أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلاَّ أَنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي"۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ۔‏ وَفِي الْبَابِ عَنْ سَعْدٍ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ‘‘۔ ’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اورکہا: یہ حدیث حسن ہے‘‘۔ (الجامع الترمذی: ج۵، كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب فی مناقب عمررضی اﷲعنہ، رقم الحدیث ۳۶۸۶)
’’حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ، فَشَرِبْتُ حَتَّى إِنِّي لأَرَى الرِّيَّ يَخْرُجُ فِي أَظْفَارِي، ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ"‏‏۔‏ قَالُوا فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏"الْعِلْمَ"‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے (خوب اچھی طرح) پی لیا۔ حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "علم"‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۱، كتاب العلم، بَابُ فَضْلِ الْعِلْمِ، رقم الحدیث ۸۲)
’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "‏بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَىَّ، وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ مِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ، وَمِنْهَا مَا دُونَ ذَلِكَ، وَعُرِضَ عَلَىَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ‏"۔‏ قَالُوا فَمَا أَوَّلْتَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏"‏الدِّينَ‏"‘‘۔ ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  میں ایک وقت سو رہا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں۔ کسی کا کرتہ سینے تک ہے اور کسی کا اس سے نیچا ہے۔ (پھر) میرے سامنے عمر بن الخطاب لائے گئے۔ ان (کے بدن) پر (جو) کرتا تھا، اسے وہ گھسیٹ رہے تھے۔ (یعنی ان کا کرتہ زمین تک نیچا تھا) صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا تعبیر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اس سے) دین مراد ہے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۱، كتاب الإيمان، باب تَفَاضُلِ أَهْلِ الإِيمَانِ فِي الأَعْمَالِ، رقم الحدیث ۲۳)
’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، هُوَ الأَنْصَارِيُّ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ"۔‏ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ فَقَالُوا فِيهِ وَقَالَ فِيهِ عُمَرُ أَوْ قَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ فِيهِ شَكَّ خَارِجَةُ إِلاَّ نَزَلَ فِيهِ الْقُرْآنُ عَلَى نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ ۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَابِ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ وَأَبِي ذَرٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ۔‏ وَخَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ ثِقَةٌ‘‘۔ ’’عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان و دل پر حق کو جاری فرما دیا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس میں لوگوں نے اپنی رائیں پیش کیں ہوں اور عمر بن خطاب رضی الله عنہ نےبھی رائے دی ہو، مگر قرآن اس واقعہ سے متعلق عمر رضی الله عنہ کی اپنی رائے کے موافق نہ اترا ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں فضل بن عباس، ابوذر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ خارجہ بن عبداللہ انصاری کا پورا نام خارجہ بن عبداللہ بن سلیمان بن زید بن ثابت ہے اور یہ ثقہ ہیں‘‘۔ (الجامع الترمذی: ج۵، كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب فِی مَنَاقِبِ عُمَرَ رضى الله عنهما كِلَيْهِمَا ، رقم الحدیث ۱۶۱۶)

قارئین کرام! جس عمربن خطاب رضی اﷲعنہ کے علم وایمان کے کامل ہونے اوران کےولی اﷲہونے کی گواہی خودرسالت مآبﷺنے دی اسی عمررضی اﷲعنہ کے بارے میں فرقہ غیرمقلدین کے علماکیا لکھتے ہیں ذراغورفرمائیں۔
فرقہ غیرمقلدین کے خطیب النہد مولانا محمد جوناگڑھی لکھتے ہیں کہ: ’’حنفی بھائیو! ذرا کلیجہ پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے بتلاؤ کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ علم و فقہ میں بڑھے ہوئےتھےیا حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ خليفة المسلمين امیر المؤمنين رضی اﷲعنہ؟ پس آؤ سنو! بہت سے صاف صاف موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم نے ان میں غلطی کی اورہماراآپ کااتفاق ہے کہ فی الواقع ان مسائل کے دلائل سے حضرت فاروقؓ بے خبرتھے‘‘۔ (طریق محمدی:ص۹۴)
اسی طرح مولانا محمد جوناگڑھی صاحب اپنی دوسری کتاب شمع محمدی میں لکھتے ہیں: ’’سیدنافاروق ؓ کی سوچ معتبر نہیں‘‘۔ (شمع محمدی از محمد جونا گڑھی: ص۲۲)
آگے لکھتے ہیں: ’’صحابہؓ کی درایت معتبر نہیں‘‘۔ (شمع محمدی از محمد جونا گڑھی: ص۲۲)
اسی طرح فرقہ غیرمقلدین کے ایک اورعالم مولانا محمد رئیس ندوی نے طلاق ثلاثہ کے مسئلے پرتو یہاں تک لکھا ہے کہ: ’’موصوف(حضرت عمرؓ) نے باعتراف خویش اس قرآنی حکم میں ترمیم کردی۔ اس قرآنی حکم میں موصوف نے یہ ترمیم کی کہ تین قرارپانے لگیں‘‘۔ (تنویر الآفاق فےمسئلة الطلاق: ص۴۸۷)
قارئین کرام ذرا غورفرمائیں کہ حضرت عمرفاروق اعظم رضی اﷲعنہ کے بارے میں جواعتراضات فرقہ غیرمقلدین کے عالموں نے کیئے ہیں بالکل وہی اعتراضات شیعہ عالم کے حوالے سے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب منھاج السنۃمیں رقم کیئے ہیں اوراس کاعنوان کچھ اس طرح رقم کیاہےکہ: ’’بقول شیعہ فاروق اعظم کی اجتہادی غلطیاں‘‘۔ (منہاج السنۃ النبویۃ[اردو]: ص۵۰۶)
اس طرح شیعوں کی موافقت میں مولانا محمد جوناگڑھی صاحب حضرت ابوبکرصدیق اورحضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہھم اجمعین کے اختلافات بیان کرتے ہوئے ان پراﷲاوررسول ﷺ کے فرمان کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئےلکھتے ہیں: ’’مرتدوں کی قیدی عورتوں کوحضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے لونڈیاں بنالیں لیکن حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کاخلاف کیا اورانہیں آزادکردیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے بعدخلیفہ نامزدکیالیکن حضرت عمررضی اﷲعنہ نے نہیں کیا‘‘۔ (طریق محمدی: ص۲۸۱)
فرقہ غیرمقلدین کے عالموں کی طرح بالکل وہی الزام شیعہ عالم کے حوالے سے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب منھاج السنۃمیں رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شیعہ مصنف لکھتاہے: عمرنے اپنے بعدانتخاب خلیفہ کوشوریٰ کے حوالے کرکے سیدناابوبکرکی مخالفت کی‘‘۔ ’’شیعہ مصنف لکھتاہے: چھٹااختلاف منکرین زکوٰۃ کے بارے میں ہے۔ سیدنا ابوبکرنے ان سے جنگ کی تھی۔ سیدناعمرنے اپنے عہدخلافت میں اجتہادسے کام لے کرلونڈی، غلام اورمال ان کوواپس کیااورقیدیوں کورہاکردیا‘‘۔ (منہاج السنۃ النبویۃ[اردو]: ص۵۱۳، ۵۷۲)
اس کے برعکس حضرت ابوبکرصدیقؓ کا حضرت عمرفاروقؓ کو خلیفہ ثانی مقرر کرنا اورحضرت عمرؓ کا خلیفہ مقررنہ کرنے پراہلسنت والجماعت کاجونظریہ ہے وہ امام نوویؒ نے شرح مسلم میں کچھ ان الفاظ میں بیان فرمایاہے: ’’فإن تركه فقد اقتدى بالنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في هذا وإلا فقد اقتدى بأبي بكر‘‘۔ ’’خلیفہ نے اگر خلافت کے لئے کسی کو نامزد نہ کیا تو آنحضرتﷺکی قتداءکی۔ اور اگر نامزد کردیا تو حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ کی اقتداء کرلی‘‘۔ (شرح صحیح المسلم النووی: كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب الاستخلاف وتركہ، ج۱۲، ص ۲۰۵)
فرقہ غیرمقلدین نے نہ صرف صحابہ کرامؓ اورائمہ اربعہؒ کے اقوال کوغیرحجت قراردیابلکہ رسول خداحضرت محمد مصطفیٰﷺکی رائے کوبھی غیرحجت قراردے دیا۔
فرقہ غیرمقلدین کے خطیب النہد مولانا محمد جوناگڑھی صاحب رسول اﷲﷺکی رائے کوبھی غیرحجت قراردیتے ہوئےلکھتے ہیں: ’’تعجب ہے کہ جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہواس دین والے آج ایک امتی کی رائے کودلیل اورحجت سمجھنے لگے‘‘۔ (طریق محمدی: ص۷۱)
فرقہ غیرمقلدین کے علماءنے نبی ﷺکی رائے کوغیرحجت قراردیکراﷲکے فرمان کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’لَّـقَدْ كَانَ لَكُمْ فِىْ رَسُوْلِ اللّـٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ‘‘۔ ’’البتہ تمہارے لیے رسول اللہﷺ میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ [سورۃ الاحزاب: ۲۱]
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہم یہودیوں سے ایسی دلچسپ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں کیا ہم ان میں سے کچھ تحریری شکل میں لا سکتے ہیں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا تم بھی یہود ونصاریٰ کی طرح دین میں حیران ہونے لگے ہو۔ جبکہ میں تمہارے پاس واضح، بے غبار اور صاف شفاف دین لے کرآیا ہوں۔ اگر بالفرض موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہو کر دنیا میں تشریف لے آئیں تو ان کے پاس بھی میری تابعداری کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا"‘‘۔ دوسری روایت میں آتا ہے کہ: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہو کر تمہارے درمیان تشریف لے آئیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی تابعداری کرو تو صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے، اگر وہ زندہ ہوتے تو میری تابعداری کے سوا ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہ ہوتا‘‘۔ (مسندامام احمد: ج۳، ص۳۸۷؛ و امام بہیقی فی شعب الایمان کما فی المشکوة: ج۱، ص۳۰؛ و فی سنن الدارمی: ج۱، ص۱۱۶)
قارئین کرام ذراسوچیں کے جس نبیﷺکی تابعداری حضرت موسیٰ کلیم اﷲجیسے جلیل القدرپیغمبرپرواجب ہواس نبیﷺ کی رائے فرقہ غیرمقلدین کے نزدیک حجت نہیں۔ یہی ترک تقلید کا نتیجہ ہے کہ جب انسان کا اعتماد اپنی برگزیدہ ہستیوں پرسے ایک ایک کرکے ختم ہوتاچلاجاتاہے توپھرایک وقت ایسا آتاہے کہ اس کابڑےسے بڑے ائمہ کرامؒ وصحابہ کرامؓ حتیٰ کہ رسول خداحضرت محمد مصطفیٰﷺپرسے بھی اعتماد ختم ہوجاتاہےاورپھروہ گمراہیت کے اندھیروں میں ایسا بھٹک جاتاہےجہاں سے واپسی ممکن نہیں رہتی۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ فرقہ غیرمقلدین نے سب سے پہلےفقہاءوصحابہ کرام کے اقوال کوغیرمعتبرقراردیتے ہوئےان کوقبول کرنے سے انکارکیا۔ ان کے بعدان کے نقش قدم پرچلتے ہوئے فرقہ منکرین حدیث نے ائمہ محدثین کے اقوال ورسول اﷲﷺفرمان کوغیرمعتبرقراردیتے ہوئے ان کوقبول کرنے سےانکارکیا۔ اوران کے بعدقادیانیوں نے ان دونوں کے نقش قدم پرچلتے ہوئے قرآن کی واضح آیات کا انکارکیااورختم نبوت اورنزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی انکارکرڈالا۔
اسی طرح غیرمقلدین کے عصرحاضرکے عالم زبیرعلی زئی جن کی غیرمقلد حلقوں میں اندھی تقلید کی جاتی ہے۔ انہوں نے بھی اپنےشیعہ آباؤاجداد عبدالحق بنارسی، وحیدالزمان صدیقی اورنواب صدیق حسن خان کی پیروی کرتے ہوئے صحابہ کرامؓ، ائمہ مجتہدین اورائمہ محدثین کوتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے اپنی کتابوں میں صحابہ کرامؓ اورائمہ مجتہدین ومحدثین کے خلاف بہت زہراگلاہےجس کی چندمثالیں بمع حوالہ پیش خدمت ہے۔
غیرمقلدین کے شیخ زبیرعلی زئی ایک مٹھی سے زائدداڑھی کاٹنے پر جلیل القدرصحابی رسول حضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ کے عمل کی مخالفت کرتے ہوئےاوران کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عبداﷲبن عمرؓ کی جوروایت پیش کی جاتی ہےوہ ان کا اپناعمل ہےاوران کاعمل دین میں دلیل نہیں بنتا۔ صحابی کا قول اوراپنا عمل دلیل نہیں بنتا۔۔۔۔ صحابی کااپناعمل اورقول دلیل نہیں جب یہ دلیل نہیں تواس سے گنجائش کیسے ملی؟‘‘۔ (شرعی احکام کاانسائیکلوپیڈیا: ص۱۵۸)
اس کے برعکس امام بخاریؒ اپنی صحیح میں داڑھی کے مسئلے پرنبی کریمﷺکی حدیث کےفوراًبعد حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ کا عمل رقم کرتے ہیں جس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ رسولﷺنے جو داڑھی بڑھانے کا حکم فرمایاتوکہاں تک بڑھانے کاحکم فرمایاتھا۔
’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ "‏خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ‏"۔‏ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مشرکین کے خلاف کرو، داڑھی چھوڑ دو اور مونچھیں کترواؤ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی (ہاتھ سے) پکڑ لیتے اور (مٹھی) سے جو بال زیادہ ہوتے انہیں کتروا دیتے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۷، كتاب اللباس، باب تَقْلِيمِ الأَظْفَارِ،رقم الحدیث۵۸۹۲)
تعجب کی بات ہے کہ صحابی رسول حضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ جوسنت رسولﷺ کے سب سے زیادہ حریص تھے اورجنہوں نے رسول اﷲﷺ کاخوددیدارکیااورآپﷺکی داڑھی مبارک کوبہت قریب سے دیکھا، جن کی صداقت کے بارے میں اﷲپاک نے اپنے قرآن میں اورنبی پاک ﷺنے اپنے فرمان میں گواہی دی، ان کاقول اورعمل غیرمقلدین کے نزدیک حجت نہیں اورپندرہویں صدی ہجری کے پرفتن دورمیں پیداہونے والے جناب زبیرعلی زئی جن کی صداقت کی گواہی ان کے اپنے فرقے کے لوگ نہیں دیتےان کاقول اورعمل غیرمقلدین کے نزدیک حجت ہے۔
جبکہ صحابہ کرامؓ کےقول وفعل کے معتبرہونے کی گواہی خودرسول اﷲﷺ نےدی ہے: ’’ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ "خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ، وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ‏"‘‘۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے اور اس کے بعد ایسے لوگوں کا زمانہ آئے گا جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے اور گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۴، كتاب الشهادات، باب لاَ يَشْهَدُ عَلَى شَهَادَةِ جَوْرٍ إِذَا أُشْهِدَ، رقم الحدیث ۲۶۵۲)
’’أَخْبَرَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لَقَدْ أَدْرَكْتُ أَقْوَامًا لَوْ لَمْ يُجَاوِزْ أَحَدُهُمْ ظُفْرًا لَمَا جَاوَزْتُهُ كَفَى إِزْرَاءً عَلَى قَوْمٍ أَنْ تُخَالَفَ أَفْعَالُهُمْ‘‘۔ ’’حضرت ابراہیم نخعی ارشاد فرماتے ہیں میں نے ایسے لوگوں (صحابہ کرامؓ) کا زمانہ پایا ہے اگر ان میں سے کوئی ایک شخص ایک ناخن جتنا بھی آگے نہ بڑھتا تو میں بھی آگے نہ بڑھتا کسی بھی قوم کی ذلت کے لئے کافی ہے تم ان (صحابہ کرامؓ)کے افعال کی مخالفت کرنے لگو‘‘۔ (سنن دارمی: جلد اول، مقدمہ دارمی، رقم الحدیث ۲۲۴)
۲۔ اسی طرح زبیرعلی زئی امام ابوحنیفہؒ کےتابعی ہونے کاانکارکرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حنیفہ کے مزعوم امام ابوحنیفہ تابعی نہیں تھے‘‘۔ اورامام ابوحنیفہؒ کے تابعی ہونے کا اقرارکرنے والے امام ابن عبدالبرؒ (المتوفی: ۳۶۸ھ)، امام ابن الندیمؒ (المتوفی: ۴۳۸ھ)، امام یافعیؒ(المتوفی: ۷۰۰ھ)، امام ابن کثیرؒ (المتوفی: ۷۰۱ھ)، حافظ ابن حجرعسقلانیؒ (المتوفی: ۷۷۳ھ)، علامہ عینی حنفیؒ (المتوفی: ۷۶۲ھ) اورامام ابن العمادحنبلیؒ (المتوفی: ۱۰۳۲ھ) کے اقوال کومنقطع وبے سندقراردیتےہوئےامام ابوحنیفہؒ کےاس قول پرقیاس کرتے ہوئے لکھتےہیں کہ: ’’"میں نے عطاء (بن ابی رباحؒ) سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا"۔ ظاہرہے کہ اس گواہی سے ثابت ہواکہ امام صاحب نے کسی صحابی کونہیں دیکھاتھا، ورنہ وہ یہ کبھی نہ کہتے: میں نے عطاءسے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا‘‘۔ (تحقیقی اصلاحی اورعلمی مقالات: ج۶، ص۱۶۵)
علم تفسیر کے میدان میں امام عمادالدین ا بن کثیر شافعیؒ کواورعلم حدیث وفن جرح وتعدیل کے میدان میں امام ذھبیؒ اورابن حجرعسقلانیؒ کی تحقیق کوحجت ماناجاتاہےجوکہ امام ابوحنیفہؒ کے تابعی ہونے کی گواہی دیتےہیں۔
حافظ الحدیث ومفسرقرآن عمادالدین ا بن کثیر شافعی ؒحضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا تذکرہ ان الفاظ سے کرتے ہیں:”وہ امام ہیں، عراق کے فقیہ ہیں، آئمہ اسلام اور بڑی شخصیات میں سے ايک شخصیت ہیں ، ارکان علماءمیں سے ايک ہیں،ائمہ اربعہ جن کے مذاہب کی پیروی کی جاتی ہے ان میں سے ايک امام ہیں ۔ آپ نے صحابہؓ کازمانہ پایااورحضرت انس بن مالکؓ کو دیکھاہے اوربعض کا قول ہے کہ کسی صحابی کودیکھاہے اوربعض نے بیان کیاکہ آپ نے سات صحابہ سے روایت کی ہے“۔ (البدایة والنہایة: ج۱۰، ص۱۰۷)
حافظ ذہبیؒ الشافعی (المتوفی ٧٤٨ھ) اپنی كتاب "تذکرۃ الحفاظ" میں امام صاحب کا ذکر "ابو حنيفة الإمام الأعظم" کے عنوان سے کرتے ہیں: ”حضرت امامؒ کی پیدائش سنہ ٨٠ھ میں ہوئی، آپؒ نے حضرت انس بن مالکؓ (٩٣ھ) کوجب وہ کوفہ گئے توکئی دفعہ دیکھا۔ امام ابوحنیفہؒ نے عطاء، نافع، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج، سلمہ بن کہیل، ابی جعفر، محمدبن علی، قتادہ، عمرو بن دینار، ابی اسحاق اور بہت سے لوگوں سے حدیث روایت کی ہے اور ابوحنیفہ سے وکیع، یزید بن ہارون، سعد بن صلت، ابوعاصم، عبدالرزاق، عبیداللہ بن موسیٰ، ابونعیم، ابوعبدالرحمن المقری اور خلق کثیر نے روایت لی ہے اور ابوحنیفہ امام تھے اور زاہد پرہیزگار عالم، عامل، متقی اور بڑی شان والے تھے۔حضرت ضرار بن صرد نے کہا، مجھ سے حضرت یزید بن ہارون نے پوچھا کہ سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) والا امام ثوریؒ ہیں یا امام ابوحنیفہؒ ؟ تو انہوں نے کہا کہ: ابوحنیفہؒ (حدیث میں) افقه (سب سے زیادہ فقیہ) ہیں اور سفیانؒ (ثوری) تو سب سے زیادہ حافظ ہیں حدیث میں۔ حضرت عبدللہ بن مبارکؒ نے فرمایا : امام ابو حنیفہؒ لوگوں میں سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) رکھنے والے تھے۔ حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں: ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کے عیال (محتاج) ہیں۔ امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں: بے شک ابوحنیفہؒ (حديث میں) امام تھے“۔ (تذكرة الحفاظ: دار الكتب العلمية، جلد ١ صفحة١٦٨،، طبقه ٥، بيان: أبو حنيفة إمامِ أعظم)
امام ذہبیؒ اورابن کثیرؒکی طرح امام ابن الحجر العسقلانی الشافعیؒ (المتوفی ٨٥٢ھ) نے بھی اسماء الرجال کی اپنی مشہور کتاب تہذیب التهذیب میں امام ابو حنیفہؒ کےعلم، عمل اور تقویٰ کو نہایت تفصیل سے بیان کرتے ہوئےفرمایا: ’’انہوں نے دیکھا حضرت انس (بن مالک رضی الله عنہ) کو‘‘۔ (تہذیب التهذیب :ج۱۰، ص۴۵۱-۴۴۹)
تعجب کی بات ہے کہ زبیرعلی زئی کے نزدیک جلیل القدرائمہ محدثین جن کا امام ابوحنیفہؒ کے دورسے چندسوسالوں کا فاصلہ ہے وہ تومنقطع وبے سندہوگئے اورخود زبیرعلی زئی صاحب کاامام ابوحنیفہؒ سے ۱ ہزار ۳ سوسالوں کا فاصلہ ہے وہ سند متصل ہوگئے۔ اب ان احمقوں سےکوئی پوچھے کہ جب ان جلیل القدرائمہ محدثین کےیہ اقوال تمہارے نزدیک منقطع وبے سند ہیں توپھرتفاسیراورعلم حدیث کے باب میں ان کےکہےہوئےاقوال تمہارے نزدیک کیسے حجت ہوگئے؟ ان عقل کے دشمنوں کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ حضرت عطاءؒکی شان میں تعریفی کلمات اداکردینے سے یہ کیسےلازم آگیاکہ امام ابوحنیفہؒ نےکسی صحابی کونہیں دیکھا؟ زبیرعلی زئی صاحب کے نزدیک اگرامام ابوحنیفہؒ کا حضرت عطاءبن ابی رباحؒ کی شان میں تعریفی کلمات اداکردینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے کسی صحابی کونہیں دیکھاتوپھرزبیرعلی زئی صاحب سے گزارش ہے کہ مشہورثقہ تابعی اورصحیح بخاری ومسلم کےراوی یحییٰ بن سعیدانصاریؒ اور أيوب السختيانیؒ کے تابعی ہونے کا بھی انکار فرمادیں کیونکہ ان دونوں حضرات نے بھی امام ابوحنیفہؒ کی طرح حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کے پوتے اورام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا کے بھتیجے قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ کے بارے میں فرمایا ہے کہ انہوں نے حضرت قاسمؒ سے افضل کسی کونہیں دیکھا۔
صحیح بخاری ومسلم کے مشہورثقہ تابعی راوی یحییٰ بن سعیدانصاریؒ (المتوفی: ۱۴۳ھ) قاسم بن محمد بن ابی بکر(المتوفی: ۱۰۶ھ) کے بارے میں فرماتےہیں: "مَا أَدْرَكْنَا بِالمَدِيْنَةِ أَحَداً نُفَضِّلُهُ عَلَى القَاسِمِ"۔ ’’ہم نے مدینہ شریف میں کسی کونہ پایا جسے قاسم بن محمدپر فضیلت دے سکیں‘‘۔ (سير أعلام النبلاء شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذَهَبی: ج۵، ص۵۵؛ تذھیب تہذیب الکمال فی اسماءالرجال: ج۷، ص۳۷۷؛ تاريخ مدينة دمشق: ج۴۹، ص۱۶۸؛ التمهيد لما فی الموطأ من المعانی والأسانيدابن عبد البر: ج۸، ص۵۸)
صحیح بخاری ومسلم کے مشہورثقہ تابعی راوی أيوب السختيانی (المتوفی: ۱۳۱ھ) قاسم بن محمد بن ابی بکر(المتوفی: ۱۰۶ھ) کے بارے میں فرماتےہیں: "مَا رَأَيْتُ رَجُلاً أَفْضَلَ مِنْهُ"۔ ’’میں نے کسی کوبھی حضرت قاسم سے افضل نہیں دیکھا‘‘۔ (سير أعلام النبلاء شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذَهَبی: ج۵، ص۵۵؛ تذھیب تہذیب الکمال فی اسماءالرجال: ج۷، ص۳۷۷؛ تاريخ مدينة دمشق: ج۴۹، ص۱۶۸؛ التمهيد لما فی الموطأ من المعانی والأسانيدابن عبد البر: ج۸، ص۵۸)
امام بخاریؒ (المتوفی: ۲۵۶ھ)بھی قاسم بن محمد بن ابی بکر(المتوفی: ۱۰۶ھ) کے بارے میں یہی فرماتےہیں کہ: "البُخَارِيُّ: حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ القَاسِمِ - وَكَانَ أَفْضَلَ أَهْلِ زَمَانِهِ - أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ - وَكَانَ أَفْضَلَ أَهْلِ زَمَانِهِ "۔ ’’امام بخاری کا قول ہے کہ آپ اپنے زمانہ میں سب سے افضل تھے‘‘۔(سير أعلام النبلاء شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذَهَبی: ج۵، ص۵۵؛ تذھیب تہذیب الکمال فی اسماءالرجال: ج۷، ص۳۷۷؛ تاريخ مدينة دمشق: ج۴۹، ص۱۶۸؛ التمهيد لما فی الموطأ من المعانی والأسانيدابن عبد البر: ج۸، ص۵۸)
زبیرعلی زئی صاحب کی علمی اورعقلی دونوں صلاحیات پرحیرت اورافسوس ہوتاہے کہ امام ابوحنیفہؒ سے بغض، نفرت اورتعاصب نے ان کی عقل پرتالےڈال دیئے ہیں۔ فرقہ غیرمقلدین کے شیعہ رافضی ہونے کی اس سے بڑھ کراورکیادلیل ہوگی کہ ان لوگوں نے قدم قدم پرصحابہ کرامؓ اورتابعین و ائمہ مجتہدینؒ کی کھل کرمخالفت کی ہے۔
جبکہ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی فضیلت کی گواہی خودرسول اﷲﷺ نےدی ہے: ’’حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "‏يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيَقُولُونَ فِيكُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَيَقُولُونَ نَعَمْ۔‏ فَيُفْتَحُ لَهُمْ،‏ ثُمَّ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ هَلْ فِيكُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَيَقُولُونَ نَعَمْ۔‏ فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ هَلْ فِيكُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَيَقُولُونَ نَعَمْ۔‏ فَيُفْتَحُ لَهُمْ"‘‘۔ ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ  کچھ لوگ جنگ کریں گےاور پوچھیں گے! کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی صحابی رسولﷺہے؟)وہ کہیں گے! جی، تو انہیں  فتح نصیب ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ  کچھ لوگ جنگ کریں گےاور یہ پوچھا جائے گا! کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکے کسی صحابی کی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی تابعی ہے؟)وہ کہیں گے! جی، تواُنہیں بھی  فتح نصیب ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ  کچھ لوگ جنگ کریں گےاور پوچھیں گے! کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکے صحابی کی صحبت پانے والے کی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی تبع تابعی ہے؟)وہ کہیں گے! جی، تو ان کے ہاتھ پر بھی فتح ہوگی‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، كتاب فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، باب فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، رقم الحدیث ۳۶۴۹)
صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی پیروی کرنے کی دلیل: ’’وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا} قَالَ أَيِمَّةً نَقْتَدِي بِمَنْ قَبْلَنَا، وَيَقْتَدِي بِنَا مَنْ بَعْدَنَا ۔ وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ ثَلاَثٌ أُحِبُّهُنَّ لِنَفْسِي وَلإِخْوَانِي هَذِهِ السُّنَّةُ أَنْ يَتَعَلَّمُوهَا وَيَسْأَلُوا عَنْهَا، وَالْقُرْآنُ أَنْ يَتَفَهَّمُوهُ وَيَسْأَلُوا عَنْهُ، وَيَدَعُوا النَّاسَ إِلاَّ مِنْ خَيْرٍ‘‘۔ ’’اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ الفرقان میں فرمانا {واجعلنا للمتقين إماما} کہ: "اے پروردگار! ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے"۔ مجاہد نے کہا یعنی امام بنا دے کہ ہم لوگ اگلے لوگوں صحابہ اور تابعین کی پیروی کریں اور ہمارے بعد جو لوگ آئیں وہ ہماری پیروی کریں اور عبداللہ بن عون نے کہا تین باتیں ایسی ہیں جن کو میں خاص اپنے لیے اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے پسند کرتا ہوں، ایک تو علم حدیث، مسلمانوں کو اسے ضرور حاصل کرنا چاہئے۔ دوسرے قرآن مجید، اسے سمجھ کر پڑھیں اور لوگوں سے قرآن کے مطالب کی تحقیق کرتے رہیں۔ تیسرے یہ کہ مسلمانوں کا ذکر ہمیشہ خیر و بھلائی کے ساتھ کیا کریں، کسی کی برائی کا ذکر نہ کریں ‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۹، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، ص۴۵۶)
مشہورشیعہ عالم حسن بن یوسف بن علی بن المطھرت الحلی (المتوفی: ۷۲۶) نے جونصیرالدین طوسی (المتوفی: ۶۷۲) کا خصوصی شاگرد تھا، اس نے ’’منھاج الکرامۃفی معرفۃ الامامۃ‘‘ کےنام سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب اہل سنت وشیعہ کے مابین متنازع مسائل ومباحث سے لبریزتھی، یہ کتاب موضوعات کاپلندہ تھی اوراس میں سابقین اولین صحابہؓ کوجی پھرکرگالیاں دی گئیں اورمذاہب اربعہ بالخصوص امام ابوحنیفہؒ پرسخت تنقید کی گئی اورساتھ ہی فقہ حنفی کے بہت سے پیچیدہ مسائل کوقرآن وحدیث کے خلاف بتایاگیا۔ امت مسلمہ شیخ الاسلام تقی الدین احمدبن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۲۸) کے اعظیم احسان سے کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتی کہ انہوں نے شیعوں کی کتاب مذکورہ کے رد میں ’’منھاج الاعتدال فی نقص کلام اھل الرفض والاعتدال‘‘ کے نام سے ایک کبیرالحجم کتاب لکھی جو لوگوں میں ’’منھاج السنۃالنبویۃ‘‘کے نام سے مشہورہوئی۔ فرقہ غیرمقلدین کے شیعہ رافضی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ موجودہ دور کے غیرمقلدین حضرات فقہ حنفی اورامام ابوحنیفہؒ کی طرف جو جھوٹ منسوب کرتے ہیں بالکل وہی جھوٹ  شیعوں نے اپنی کتاب’’منھاج الکرامۃفی معرفۃ الامامۃ‘‘ میں ائمہ اربعہ کی طرف منسوب کیئےہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نےاپنی کتاب میں شیعوں کے ان تمام اعتراضات اورکذب بیانیوں کو نقل کرنے کے بعد ان کے مدلل اورجامع جوابات تحریرفرمائےہیں۔ ہم نےاس تحریرمیں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی کتاب ’’منھاج السنۃ النبویۃ‘‘ کےاردوترجمہ کے حوالے سے شیعوں کے وہ تمام جھوٹ اوراعتراضات پیش کیئےہیں تاکہ قارئین کرام کوشیعوں اورغیرمقلدین کے ایک ہونے کابخوبی اندازہ ہوسکے۔
۱۔ جس طرح غیرمقلدین حضرات امام ابوحنیفہؒ کو مرجیہ ثابت کرنے میں دجل وکذب بیانی کرتے ہیں باکل اسی طرح شیعوں نے بھی امام ابوحنیفہؒ کو قدری ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔
اس الزام کے جواب میں ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’اس کے جواب میں کہا جائے گاکہ جوبات سنداً مذکور ہوہم اس کی صحت سے آگاہ ہیں، جوبات شیعہ مصنف نے بیان کی ہے وہ قطعی طورپرجھوٹ ہے، اس لئے کہ امام ابوحنیفہؒ تقدیرکے قائل ہیں اورانہوں نے فقہ الاکبرمیں منکرین تقدیرکی تردید کی ہے‘‘۔ (منہاج السنۃ النبویۃ[اردو]: ص۲۰۶)
۲۔ جس طرح غیرمقلدین حضرات ائمہ اربعہ کے مسالک پراعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے نئے دین (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) اختراع کیئے، بالکل ویسے ہی شیعہ ائمہ اربعہ کے مسالک پراعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے کوئی علم اختراع کیاتھا۔
اس الزام کے جواب میں ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’یہ بات غلط ہے کہ ائمہ اربعہ نے کوئی علم اختراع کیاتھابخلاف ازیں انہوں نے علم کی جمع وتدوین کااہتمام کیابعدمیں وہ علم انہیں کی جانب منسوب ہوا، جس طرح کتب حدیث کوان کے جامعین مثلاً امام بخاری ومسلم اورابوداؤدکی طرف منسوب کیاجاتاہے۔ بعید اسی طرح مختلف قراءتوں کوان ائمہ کی جانب منسوب کیاجاتاہےجنہوں نے وہ اختیارکی تھیں‘‘۔ (منہاج السنۃ النبویۃ[اردو]: ص۲۳۶)
۳۔ ’’جوشخص اپنی ماں بہن سے یہ جانتے ہوئے نکاح کرلے کہ محرمات میں سے ہیں اس پرحدِ شرعی نہیں‘‘۔ (منہاج السنۃ النبویۃ[اردو]: ص۲۳۶)
اس الزام کے جواب میں ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’اس کاجواب یہ ہے کہ جمہوراہل سنت ان مسائل کے خلاف ہیں، اورکسی کوبھی درست تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ (منہاج السنۃ النبویۃ[اردو]: ص۲۳۷)
مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ اور حنفیوں میں سے قاضی ابو یوسف رحمہ اﷲاور امام محمد رحمہ اﷲنے فرمایا: جس آدمی نے عقد نکاح کیا کسی ایسی عورت سے جس سے اس کا نکاح جائز نہیں تھا کہ وہ اس کے محارم میں سے تھی جیسے ماں، بہن یا کوئی اور جو نسباً یا رضاعاً حرام تھی۔ ان میں سے کسی سے بھی اس نے نکاح کیا اور وطی کی جبکہ اس کو حرام ہونے کا علم تھا اس پر حد زنا قائم کرنا لازم ہے کیونکہ یہ نکاح بے محل ہوا جس میں خود اس کے نزدیک بھی کوئی شک شبہ نہیں اور بچہ اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اس پر حد لازم نہیں اگرچہ کہے کہ مجھے معلوم تھا کہ یہ عورت مجھ پر حرام ہے۔ ہاں اس پر حق مہر بھی لازم ہو گا اور اولاد بھی اس سے ملائی جائے گی اور اس کو شدید ترین سزا بطور تعزیر اور سیاسیاً دی جائے گی حد شرعی مقرر سمجھ کر نہیں‘‘۔
لہذا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حد نہیں ہے لیکن شدید سزا بطور تعزیر ہے لیکن فتوی ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کے قول پر ہی ہے۔
۴۔ نبیذ مباح ہے۔
اس الزام کے جواب میں ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’شیعہ مضمون نگارکی بوالعجمی ملاحضہ کیجئے کہ ابھی قیاس سے انکارکررہاتھااورابھی قیاس کی مددسے نبیذکے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کے خلاف احتجاج کرنے لگا، ہم پوچھتے ہیں کہ تم نے حدیث: "كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ"سے کیون نہ استدلال کیا‘‘۔ (منہاج السنۃ النبویۃ[اردو]: ص۲۳۹)
۵۔ کتے کی کھال پہن کرنمازپڑھناجائزہے۔
اس الزام کے جواب میں ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’علماءکی ایک جماعت کا خیال ہےکہ حدیث نبویﷺ: "ایما اھاب دبغ فقد طھر" (جوچمڑابھی رنگاجائے وہ پاک ہوجاتاہے) کے عموم کے پیش نظرکتے کاچمڑابھی دباغت سے پاک ہوجاتاہے، اگرشیعہ سے اس کی حرمت کی دلیل طلب کی جائے تونہ بتاسکے گا‘‘۔ (منہاج السنۃ النبویۃ[اردو]: ص۲۳۹)
شیعہ رافضی مصنف کے مندرجہ بالاالزامات کے مطالعے کے بعدقارئیں کرام اس بات سے بخوبی آگاہ ہوگئے ہونگے کہ موجودہ دور کے غیرمقلدین حضرات شیعوں کی دوسری قسم ہےجومسلمانوں کی صفوں میں انتشارپھیلانے کے لئے داخل کیئے گئے تھے۔
برصغیرمیں فقہ حنفی کی مزمت میں سب سے پہلی لکھی جانے والی کتاب "استصقاءالافحام" ہےجو ایک متعصب شیعہ رافضی حامد حسین کستوری کی تصنیف ہے، اسکے بعد غیر مقلدین کی طرف سے جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں، وہ سب اسی کتاب کی نقالی اور اپنے شیعہ اکابرین کی قے خوری ہے۔ ہماری اس بات کی تصدیق مشہور غیر مقلد عالم مولوی محمد حسین بٹالوی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں: ’’امام الآئمہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جو اعتراضات و مطاعن اخبار اہل الزکر میں مشتہر کئے گئے ہیں یہ سب کے سب ہزیانات بلا استثناء اکاذیب و بہتانات ہیں، جن کا ماخز زمانہ حال معترضین کے لئے حامد حسین شیعی لکھنوی کی کتاب "استصقاءالافحام" ہے‘‘۔ (بحوالہ السیف الصارم لمنکر شان الامام الاعظم رحمہ اللہ)
اب ہم قارئین کے سامنے فرقہ غیرمقلدین کی یتیم سند کے پہلے عالم سے اس سندکے تعاقب کا آغازکرتے ہیں۔
فرقہ غیرمقلدین کی پہلی سندکا علمی وتحقیقی تعاقب
۱۔ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ(پیدائش:۱۳۶۰ھ-وفات:۱۴۳۳ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی یتیم سندکے پہلے عالم حافظ عبدالمنان نورپوری صاحب اپنی کتاب مکالمات نورپوری میں لکھتے ہیں: ’’اجماع وقیاس کاقانون سازی کی بنیاد ہونا قرآن وحدیث سے ثابت نہیں۔ اجماع صحابہؓ اوراجماع ائمہ مجتہدین کادین میں حجت ہوناقرآن وحدیث سے ثابت نہیں‘‘۔ (مکالمات نورپوری: ص۸۵)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نےقیاس کے بارے میں’’منھاج السنۃ النبویۃ‘‘  میں روافض کا درج ذیل اعتراض نقل کیاہے جوبالکل وہی اعتراض ہے جوکہ غیرمقلد عالم حافظ عبدالمنان نورپوری نے قیاس کے بارے میں اپنی کتاب مکالمات نورپوری میں کیاہے: ’’قَالَ الرَّافِضِيُّ: (وَذَهَبَ الْجَمِيعُ مِنْهُمْ إِلَى الْقَوْلِ بِالْقِيَاسِ، وَالْأَخْذِ بِالرَّأْيِ، فَأَدْخَلُوا فِي دِينِ الله ما ليس منه، وَحَرَّفُوا أَحْكَامَ الشَّرِيعَةِ، وَأَحْدَثُوا مَذَاهِبَ أَرْبَعَةً لَمْ تكن في زمن النبي صلى الله تعالى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا زَمَنِ صَحَابَتِهِ، وَأَهْمَلُوا أَقَاوِيلَ الصَّحَابَةِ، مَعَ أَنَّهُمْ نصُّوا عَلَى تَرْكِ الْقِيَاسِ، وقالوا: أول من قاس إبليس)‘‘۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: ’’رافضی کہتا ہے کہ سارے اہل سنت والجماعت قیاس اور عمل بالرائے کے قائل ہیں اور اس کے عامل ہیں، انہوں نے خدا تعالیٰ کے دین میں ایسی چیز داخل کردی ہے جو اس میں سے نہیں ہے۔ اور انہوں نے احکام شریعت کو بدل دیا ہے اور چار مذاہب ایجاد کیئے، جو نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے اور ناں ہی صحابہ کرام کے دور میں۔ حالانکہ صحابہ کرام نے ترک قیاس کی تاکید کی ہے اور یہ کہا ہے کہ جس نے سب سے پہلے قیاس کیا وہ ابلیس ہے‘‘۔ (منھاج السنۃالنبویۃ: ص۱۱۰)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نےحجیت اجماع کے بارے میں’’منھاج السنۃ النبویۃ‘‘  میں روافض کا بالکل وہی اعتراض نقل کیاہے جوکہ غیرمقلد عالم حافظ عبدالمنان نورپوری نےاپنی کتاب مکالمات نورپوری میں کیاہے۔ اس اعتراض کے جواب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتےہیں: ’’اہل اسلام اورشیعہ میں ایک نمایاں فرق یہ بھی ہے کہ شیعہ دین اسلام کوایک اجتماعی دین تسلیم نہیں کرتے علاوہ ازیں شیعہ کے یہاں غیرمنصوص شرعی احکام میں مسلمانوں کااجماع حجت نہیں، بخلاف ازیں اہل السنۃ والجماعۃ کے تشریعی نظام میں یہ امرمسلم ہے کہ فقہ وتشریع میں مہارت رکھنے والے علماءکااجماع اﷲورسولﷺ کے دین میں ایک شرعی دلیل کی حیثیت رکھتاہے، امام حاکم اوردیگرمحدثین نے سیدناعبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: "لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ" (اﷲتعالیٰ میری امت کوگمراہیت پر جمع نہیں کرے گا)‘‘۔ (منھاج السنۃالنبویۃ[اردو]: ص۲۱)
اسی طرح حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ شیعوں کے اسی اعتراض کو نقل کرتےہوئے لکھتے ہیں: ’’شیعوں کا پچاسواں دھوکہ: شیعہ اہل سنت پرطعن کرتے ہیں کہ وہ ائمہ اربعہ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام شافعی و مالک اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ کامذاہب تواختیارکرتے ہیں، مگرائمہ اہل بیت کامذہب اختیارنہیں کرتے‘‘۔ (تحفٔہ اثناءعشریہ[اردو]: ص۱۵۱)
قارئین کرام مندرجہ بالا تفصیل سے ثابت ہوگیاکہ جس طرح شیعہ روافض اجماع اور قیاس شرعی کے منکرہیں بالکل ویسے ہی غیرمقلدین حضرات بھی اجماع وقیاس شرعی کے منکرہیں۔
جس طرح خلفائے ثلاثہ حضرات ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ اورعثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافتیں امت مسلمہ کے اجماع سے ثابت ہیں، مگر شیعہ ان کی خلافت کو ماننے سےانکارکرتے ہیں، لہٰذا وہ اجماع کے منکر ہوئے۔
بالکل اسی طرح ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اورامام احمد بن حنبلؒ کی تقلید امت مسلمہ کے اجماع سے ثابت ہے، مگرغیرمقلدین ان کی تقلید کو ماننے سے انکارکرتے ہیں، لہٰذا یہ بھی اجماع کے منکرہوئے۔
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب بیس رکعات تراویح رائج کی، ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو تین قرار دیا، نکاح متعہ کی حرمت کا اعلان کیا تو کسی صحابی رسولﷺنے اس سے اختلاف نہیں کیا، لہٰذا یہ تینوں مسئلےصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع سے ثابت ہوئے، ان تینوں مسئلوں میں سے دوکو غیرمقلدین نے نہ مانا اورشیعوں نے تو تینوں کو ہی تسلیم کرنے سے انکارکردیا، تو اسطرح یہ دونوں فریق اجماع امت کے منکر ثابت ہوئے۔
’’موقوفات (اقوال و افعال) صحابہ رضی اﷲ عنہم حجت نہیں‘‘۔ (رسالہ عبد المنان: ص۱۴، ۸۱، ۸۴، ۸۵، ۵۹)
۲۔ حافظ محمدگوندلوی رحمہ اللہ(پیدائش:۱۳۱۵ھ- وفات: ۱۴۰۵ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی سندمیں حافظ عبدالمنان نورپوری کے بعددوسرانام حافظ محمد گوندلوی کاہے۔ حافظ محمدگوندلوی نے بھی حافظ عبدالمنان نورپوری کی تائیدکرتےہوئے اس بات کا اقرارکیا ہے کہ فرقہ غیرمقلدین اجماع کے منکرہیں۔
۳۔ مولانا ابوالخیرمحمد اسماعیل ابن ابراہیم سلفی رحمہ اللہ(پیدائش:۱۳۱۴ھ- وفات:۱۳۷۸ھ)
۴۔ حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی رحمہ اللہ (پیدائش: ۱۲۶۷ھ - وفات: ۱۳۳۴ھ)
۵۔ شیخ عبدالحق بنارسی(پیدائش: ۱۲۰۶ھ - وفات:۱۲۸۶ھ)
شیخ عبدالحق بنارسی کے زیدی شیعہ ہونے اورعلماءِحرمین کی طرف سے ان پرقتل کا فتویٰ صادرہونے کی مکمل تفصیل ہم اس تحریرکی ابتداءمیں ہی بیان کرچکےہیں۔
۶۔  حسين  بن محسن الأنصار (المتوفی:١٢٢٧ھ)
۷۔ عن ابیہ
فرقہ غیرمقلدین کی سند میں مذکوربالانام کی تفصیل اورحالات معلوم نہ ہوسکے لہٰذا فرقہ غیرمقلدین کی سندمیں درج یہ نام مجہول ہے۔
۸۔ محمد الشوكانی رحمہ اللہ (پیدائش: ۱۱۷۳ھ - وفات: ۱۲۵۰ھ)
امام شوکانی کے زیدی شیعہ ہونے کی مکمل تفصیل اس تحریرکی ابتداءمیں ہی پیش کی جاچکی ہے۔
۹۔ عبدالقادر بن احمد رحمہ اللہ (پیدائش: ۱۱۳۵ھ - وفات: ۱۲۰۷ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی سند میں امام شوکانی کےفوراً بعدجوپہلانام رقم ہے وہ عبدالقادربن احمدؒ کاہے۔ ان کاپورانامعبد القادر بن السید احمد بن عبدالقادر الحسنی الکوکبانی الیمنی ہے۔ ان کاسنہ پیدائش ۱۱۳۵ھ اورسنہ وفات ۱۲۰۷ھ ہے۔ یہ شافعی مسلک تھے۔ لہٰذا ہمارے دعوےٰ کے مطابق فرقہ غیرمقلدین کی سند میں امام شوکانی کے بعدرقم پہلاہی نام شافعی مقلدثابت ہوگیا۔
۱۰۔ محمدبن الطيب القادری رحمہ اللہ (پیدائش: ۱۱۲۴ھ - وفات: ۱۱۸۷ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی سند میں امام شوکانی کے بعددوسرانام محمدبن الطیب القادریؒ کاہے۔ آپ کاپورانام محمد بن الطَّيِب بن عبد السلام الحسنی القادری ہےاورآپ کاسنہ پیدائش۱۱۲۴ھ اورسنہ وفات۱۱۸۷ھ ہے۔ آپ ایک ادیب، مورخ اورسلسلہ قادریہ سے تعلق رکھنے والےمشہورصوفی بزرگ ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک طرف فرقہ غیرمقلدین کے لوگ صوفیوں پرکفراورشرک کے فتوےلگاتے ہیں اوردوسری طرف انہیں اپنی سند میں پیش کرکےان سے احتجاج بھی کرتےہیں۔
۱۱۔ القاضی تقی الدین محمدبن احمد الفاسی رحمہ اللہ  (پیدائش: ۷۷۵ھ - وفات: ۸۳۲ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی سند میں امام شوکانی کے بعدجوتیسرانام رقم ہے وہ القاضی تقی الدین محمدبن احمد الفاسیؒ کاہے۔ آپ کاپورانام تقی الدين أبو الطيب محمد بن أحمد بن علی الفاسی المكی المالكی الحسنی ہے۔ آپ کاسنہ پیدائش۷۷۵ھ اورسنہ وفات۸۳۲ھ ہے۔ آپ فقہ مالکیہ کے مورخ اورحدیث کے عالم ہیں۔ فرقہ غیرمقلدین کی سند یہاں بالکل منقطع ہے کیونکہ القاضی تقی الدین کا سنہ وفات ۸۳۲ھ ہے اورمحمد بن الطیب القادری کاسنہ پیدائش ۱۱۲۴ھ ہےلہٰذا ان دونوں کے درمیان تقریباً۲۹۲سال کافاصلہ ہےاس لئےان کی آپس میں ملاقات ثابت نہیں اورساتھ ہی القاضی تقی الدین بھی فقہ مالکیہ کے مقلدین میں سے ہیں۔
۱۲۔ احمد ابن احمدالعجلی رحمہ اللہ(پیدائش: ۹۸۳ھ - وفات: ١۰۷۴ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی سند میں القاضی تقی الدین محمدبن احمد الفاسیؒ کے بعدجونام رقم ہے وہ احمدابن احمدالعجلیؒ کا ہے۔ آپ کاپورانام احمد بن محمد العجل اليمنى ہے۔ آپ کاسنہ پیدائش۹۸۳ھ اورسنہ وفات۱۰۷۴ھ ہے۔ فرقہ غیرمقلدین کی سندکے ضعف اوران کےعلماءکی ناقص تحقیق کا اندازہ اس بات سے ہی لگایاجاسکتاہےکہ فرقہ غیرمقلدین نے اپنی سند میں القاضی تقی الدین محمدبن احمد الفاسی (جن کاسنہ وفات۸۳۲ھ ہے) کا نام پہلے لکھ دیااوراحمد بن محمد العجل(جن کاسنہ وفات ۱۰۷۴ھ ہے) کانام بعد میں لکھا، حالانکہ احمد بن محمد العجل(المتوفی: ۱۰۷۴) کانام پہلے آناچاہیئے تھااورالقاضی تقی الدین محمدبن احمد الفاسی (المتوفی: ۸۳۲ھ)  کانام بعدمیں۔ بہرحال فرقہ غیرمقلدین کی سند یہاں بھی منقطع ہے کیونکہ القاضی تقی الدین کا سنہ وفات ۸۳۲ھ ہے اور احمد بن محمد العجل کاسنہ پیدائش ۹۸۳ھ ہے لہٰذا ان دونوں کے درمیان بھی تقریباً۱۵۱سال کافاصلہ ہےاس لئےان کی بھی آپس میں ملاقات ثابت نہیں ۔
۱۳۔ القطب النہروانی رحمہ اللہ(پیدائش: ۹۱۷ھ - وفات: ۹۹۰ھ)
 فرقہ غیرمقلدین کی سند میں احمدابن احمدالعجلیؒ کے بعدچوتھانام القطب النہروانیؒ کاہے۔ آپ کاپورانام القطب محمد بن أحمد بن محمد النہروانی ہے۔ آپ کاسنہ پیدائش۹۱۷ھ اورسنہ وفات۹۹۰ھ ہے۔ آپ فقہ حنفی سے تعلق رکھتےہیں۔ لہٰذا ہمارے دعوےٰ کے مطابق یہ بات بھی ثابت ہوگئی فرقہ غیرمقلدین کی سندمیں حنفی مقلدین بھی ہیں۔
۱۴۔ ابو الفتح رحمہ اللہ(پیدائش: ۷۹۰ھ - وفات: ۸۷۱ھ)
 فرقہ غیرمقلدین کی سند میں القطب النہروانیؒ  کے بعدپانچواں نام ابوالفتحؒ کاہے۔ آپ کاپورانام النور أبی الفتوح أحمد بن عبد الله الطاووسى ہے۔ آپ کاسنہ پیدائش۷۹۰ھ اورسنہ وفات۸۷۱ھ ہے۔ آپ حنفی صوفی بزرگ ہیں۔ لہٰذا ہمارے دعوےٰ کے مطابق یہاں بھی ثابت ہوگیاکہ فرقہ غیرمقلدین کی سندمیں حنفی صوفی مقلدین بھی ہیں۔
۱۵۔ أبو سعد بن أحمد بن أبی يوسف الهروی رحمہ اللہ (المتوفی: ۴۸۸ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی سند میں ابوالفتحؒ کے بعدچھٹانام أبو سعد بن أحمد بن أبی يوسف الهرویؒ کاہے۔ آپ کاپورانام أبوسعدمحمدبن أحمدبن أبی يوسف الهروی ہے۔ آپ کاسنہ وفات۴۸۸ھ ہے۔ آپ فقہ شافعی سے تعلق رکھتےہیں۔ فرقہ غیرمقلدین کی سند یہاں بھی بالکل منقطع ہے کیونکہ ان سے پہلے جوابوالفتحؒ کانام رقم ہے ان کا سنہ پیدائش۷۹۰ھ ہے اورأبی يوسف الهروی کاسنہ وفات ۴۸۸ھ ہےلہٰذاان دونوں کے درمیان بھی تقریباً۳۰۲سال کافاصلہ ہےاس لئےان کی بھی آپس میں ملاقات ثابت نہیں اورساتھ ہی أبی يوسف الهروی بھی فقہ شافعی کے مقلدین میں سے ہیں۔ لہٰذا ہمارے دعوےٰ کے مطابق یہاں بھی ثابت ہوگیاکہ فرقہ غیرمقلدین کی سندمیں شافعی مقلدین بھی کثرت سے موجودہیں۔
۱۶۔ محمدالفارسینی رحمہ اللہ
آپ کا پورانام المعمر محمد بن شادبخت الفارسی الفرغانی ؒہے۔ آپ بھی صحیح بخاری روایت کرنے والوں میں سے ہیں لیکن آپ کے مکمل حالات معلوم نہ ہوسکے۔
۱۷۔ یحیٰ ابن عمار رحمہ اللہ(المتوفی: ۴۵۸ھ)
آپ کا پورانام المعمر أبی لقمان يحیٰ بن عمار بم مقبل بن شاهان الختلانیؒ ہے۔ آپ بھی صحیح بخاری روایت کرنے والوں میں سے ہیں۔ آپ کے بارے میں کتابوں میں صرف اتنا ذکرملتاہے کہ آپ نے۱۴۳سال کی عمرپائی اوراصول حدیث میں روایت کاسماع حاصل کرنے کی کم سے کم عمر۵سال ہے جبکہ امام فربریؒ(جنہوں نے امام بخاریؒ سے سب سے پہلےبخاری شریف کا سماع حاصل کیا) کاسنہ وفات ۳۲۰ھ ہے لہٰذااس حساب سے آپ کا سنہ وفات ۴۵۸ھ نکلتاہے۔
 ۱۸۔ الامام الفربری رحمہ اللہ(پیدائش: ۲۳۱ھ - وفات: ۳۲۰ھ)
آپ کاپورانام أبو عبد الله محمد بن يوسف بن مطر بن صالح بن بشر الفربریؒ ہے۔ آپ امام بخاریؒ کے خاص تلامذہ(شاگرد) میں سے ہیں۔ آپ سب سے پہلےشخص ہیں جنہوں نے امام بخاری سے صحیح بخاری کا سماع حاصل کیا۔ آپ بھی شافعی مسلک ہیں۔
۱۹۔ امیرالمومنین فی الحدیث محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ(پیدائش: ۱۹۴ھ-وفات: ۲۵۶ھ)
امام بخاری رحمہ اﷲ کی شخصیت کسی تعریف کی محتاج نہیں۔ آپ صحیح بخاری کے مصنف ہیں اورآپ کی بخاری میں روایت کردہ تمام احادیث کی سندجناب رسول مقبول حضرت محمدﷺپرجاکرختم ہوتی ہے۔ فرقہ غیرمقلدین کی سند میں بقیہ ائمہ کرام کی طرح امام بخاریؒ کا شمار بھی شافعی مقلدین میں ہوتاہے۔
الإمام تاج الدين السبكی رحمہ الله(المتوفی:٧٧١ھ)نے ابو عبد الله (امام بخاری ؒ) کا تذکرہ اپنی کتاب "طبقات الشافعیہ" میں کیا ہے: ’’آپ فرماتے ہیں کہ انہوں (امام بخاریؒ) نے سماع(حدیث) کیا ہے زعفرانی، ابوثور اور کرابیسی سے، میں کہتا ہوں  (امام سبکیؒ کہتے ہیں)کہ انہوں (امام بخاریؒ)نے امام حمیدی سے فقہ حاصل کی تھی اور یہ سب حضرات امام شافعی کے اصحاب میں سے ہیں‘‘۔ (طبقات الشافعية الكبرى: ج۲، ص۲۱۴)
فرقہ غیر مقلدین کے عالم نواب صدیق حسن خان صاحب نےبھی امام بخاریؒ کے شافعی المذہب ہونے کا اعتراف کیاہے۔ (الحطۃ فی ذکر صحاح الستہ ۱۳۱)
اسی طرح شیخ الہندحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی اپنی کتاب ’’الأنصاف فی بیان سبب الأختلاف‘‘ میں امام تاج الدین سبکیؒ اورشارح مسلم علامہ نووویؒ کے حوالے سےنہایت تفصیل کے ساتھ امام بخاریؒ کے شافعی المذہب ہونے کاذکرکیا ہے۔ (الأنصاف فی بیان سبب الأختلاف اردوترجمہ: ۲۸-۲۹)
الحمداﷲہم نے فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیثوں کی پہلی سند کوسورج کی روشی کی طرح واضح کردیاہے کہ اس سند میں امام شوکانی سے پہلے جتنے بھی ائمہ کرام کانام درج ہے ان میں سے ایک بھی غیرمقلدنہیں تھے بلکہ سب کے سب یاتوشافعی مقلدین ہیں یا پھرحنفی یامالکی مقلدین میں سے ہیں۔ حتیٰ کہ امام بخاریؒ کا بھی شافعی مقلد ہونا ثابت ہے۔ لہٰذا امام شوکانی کے بعدکی سند فرقہ غیرمقلدین کی سندہرگزنہیں ہوسکتی۔
فرقہ غیرمقلدین کی دوسری سندکا علمی وتحقیقی تعاقب
۱۔  حامد بن حسن الشاکر رحمہ اللہ (المتوفی:  ۱۱۷۳ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی دوسری سند میں امام شوکانی کے بعدجوپہلانام درج ہے وہ حامد بن حسن الشاکرکاہےجوکہ ایک زیدی شیعہ عالم ہیں۔ ان کا پورانام حامدبن حسن بن محمودشاکرالیمنی ہے۔ ان کا سنہ وفات ۱۱۷۳ھ ہے اوریہ ایک زیدی شیعہ عالم تھے۔ فرقہ غیرمقلدین کی پیش کردہ دوسری سندمیں امام شوکانی کے بعدپہلانام ہی زیدی شیعہ عالم کاہے لہٰذا ہمارے دعوے کے مطابق یہاں بھی ثابت ہوگیاکہ فرقہ غیرمقلدین کی پیش کردہ تمام اسنادشیعوں پرہی جاکرختم ہوتی ہے۔
۲۔ السيد احمد بن عبد الرحمٰن الشامی رحمہ اللہ (المتوفی:  ۹۳۵ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی دوسری سند میں امام شوکانی کے بعددوسرانام عبد الرحمٰن الشامیؒ کاہے۔ آپ کاپورانام السيد احمد بن عبد الرحمٰن الشامی ہےاورآپ کاسنہ وفات۹۳۵ھ ہے۔ آپ ایک صوفی بزرگ ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ فرقہ غیرمقلدین نے اپنی پہلی سندکواس بنیاد پرضعیف اورمجہول قراردیکرچھوڑدیاتھاکہ ان کی پہلی سند صوفیوں اورمجاہیل سے بھری پڑی ہے جبکہ ان کی دوسری سند میں بھی صوفی بزرگ موجودہیں جن پریہ کفراورشرک کے فتوےلگاتے ہیں۔
۳۔ محمد بن حسن العجيمی رحمہ اللہ (المتوفی:  ۱۱۵۶ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی دوسری سند میں امام شوکانی کے بعدتیسرانام محمد بن حسن العجیمیؒ کاہے۔آپ کاسنہ وفات۱۱۵۶ھ ہے۔ آپ حنفی مقلدین میں سےہیں۔ لہٰذا ہمارے دعوےٰ کے مطابق یہ بات بھی ثابت ہوگئی فرقہ غیرمقلدین کی دوسری سندمیں بھی حنفی مقلدین ہیں۔ فرقہ غیرمقلدین کی دوسری سندکےضعف اوران کےعلماءکی ناقص تحقیق کا اندازہ اس بات سے ہی لگایاجاسکتاہےکہ فرقہ غیرمقلدین نے اپنی اس سند میں عبد الرحمٰن الشامیؒ(جن کاسنہ وفات۹۳۵ھ ہے) کا نام پہلے لکھ دیااورمحمد بن حسن العجیمیؒ (جن کاسنہ وفات۱۱۵۶ھ ہے) کانام بعد میں لکھا، حالانکہ محمد بن حسن العجیمیؒ (المتوفی:۱۱۵۶) کانام پہلے آناچاہیئے تھااورعبد الرحمٰن الشامیؒ(المتوفی: ۹۳۵ھ)  کانام بعدمیں۔ بہرحال فرقہ غیرمقلدین کی سند یہاں بھی منقطع ہے کیونکہعبد الرحمٰن الشامیؒکا سنہ وفات ۹۳۵ھ ہےاورمحمد بن حسن العجیمیؒ کاسنہ پیدائش ۱۱۵۶ھ ہے لہٰذا ان دونوں وفات میں تقریباً۲۲۱سال کافاصلہ ہےاس لئےان کی بھی آپس میں ملاقات ثابت نہیں ۔
۴۔  احمد بن محمد العجل اليمنى رحمہ اللہ(پیدائش: ۹۸۳ھ - وفات: ١۰۷۴ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی دوسری سند میں محمدبن حسن العجیمیؒ کے بعدجونام رقم ہے وہ احمد بن محمد العجل اليمنى ؒکاہے۔ آپ کاسنہ پیدائش۹۸۳ھ اورسنہ وفات۱۰۷۴ھ ہے۔ فرقہ غیرمقلدین کی دوسری سند یہاں بھی منقطع ہے کیونکہ محمدبن حسن العجیمیؒ اور احمد بن محمد العجل اليمنىؒ کی آپس میں ملاقات ثابت نہیں ہے۔
۵۔ يحيیٰ الطبری رحمہ اللہ (پیدائش: ۹۷۶ھ - وفات: ١۰۳۳ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی دوسری سند میں احمد بن محمد العجل اليمنى ؒکے بعدجونام رقم ہے وہ یحییٰ الطبریؒ کاہے۔ آپ کا پورانام رضی الدين بن يحيىٰ بن مكرم الطبری الشافعی ہے۔آپ کاسنہ پیدائش۹۷۶ھ اورسنہ وفات۱۰۳۳ھ ہے۔ آپ مسجدالحرام کے امام اورشافعی مسلک تھے۔
۶۔ جدہ محب الطبری رحمہ اللہ (پیدائش: ۶۱۵- وفات: ۶۹۴ھ)
فرقہ غیرمقلدین کی دوسری سند میں یحییٰ الطبریؒ کے بعدجونام رقم ہے وہ محب الطبریؒ کاہے۔ آپ کا پورانام الشيخ محب الدين الطبری الشافعی ہے۔آپ کاسنہ پیدائش۶۱۵ھ اورسنہ وفات۶۹۴ھ ہے۔ آپ بھی فقہ شافعی سے تعلق رکھتےتھے۔
۷۔ إبراہيم الدمشقی رحمہ اللہ (المتوفی:  ۸۰۶ھ)
آپ کا پورانام البرھان إبراہيم  بن محمد بن صدیق الرسام الدمشقی ثم المکی ؒہے۔ آپ کے مکمل حالات معلوم نہ ہوسکے۔
۸۔ عبد الرحيم الفرغانی رحمہ اللہ (المتوفی: ۴۵۸ھ)
آپ کا پورانام عبد الرحيم بن ابی بكر بن عماد الدين بن ابی بكر علی بن عبد الجليل المرغينانی الفرغانیؒ ہے۔ آپ بھی فقہ حنفی سے تعلق رکھتےتھے۔
الحمداﷲہم نے فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیثوں کی دوسری سند کوبھی سورج کی روشی کی طرح واضح کردکھایاکہ ان کی پیش کردہ دوسری سند میں امام شوکانی سے پہلےحامد بن حسن الشاکرکانام درج ہے جوکہ ایک زیدی شیعہ عالم تھےاور ان کے بعد جتنے ائمہ کرام کانام درج ہے ان میں سے ایک بھی غیرمقلدنہیں بلکہ سب کے سب یاتوشافعی مقلدین ہیں یا پھرحنفی یامالکی مقلدین میں سے ہیں۔ لہٰذا حامد بن حسن الشاکرکے بعدکی سند فرقہ غیرمقلدین کی سندہرگزنہیں ہوسکتی۔
الحمداﷲ ہم نے یہ ثابت کردکھایاکہ فرقہ غیرمقلدین کا وجودد ہندستان میں انگریز کے دور کے بعد کا ہے اس سے پہلے اسلامی دنیا میں ان کانام ونشان تک نہ تھا۔ پھر اُس زمانے میں عرب میں بھی تو مسلمان علماءموجود تھے لیکن اس فرقے کی سند ہندستان سے مکہ مدینہ نہیں بلکہ عبد الحق بنارسی شیعہ سے ہوتی ہوئی سیدھایمنی شیعہ امام شوکانی پرجاکرختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوگیا کہ فرقہ غیرمقلدین کا تعلق اہلسنت والجماعت سے نہیں بلکہ ان کا شجرہ زیدی شیعوں سے جاملتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فرقہ جدید کے علماءوجہلاء سب کے سب صحابہ کرامؓ اورائمہ مجتہدین پربدزبانی کرتے ہیں اورانہیں شیعوں کی طرح طعن و تشن کا نشانہ بناتے ہیں۔
ہماری یہ دعاہے کہ اﷲتعالیٰ ہرمومن مسلمان کو اس فرقہ جدیدنام نہاد اہلحدیثوں کے شر سے محفوظ فرمائےاورہمیں صحابہ کرامؓ اورائمہ مجتہدین کی سرپرستی میں صحیح دین سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثمہ آمین)