-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Saturday, 27 January 2024

اتباع اور تقلید میں فرق

بسم الله الرحمن الرحیم
اتباع اور تقلید میں فرق
تقلید کا معنیٰ لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنیٰ ہیں۔ (مختار الصحاح: ۴۸۲، موسوعه فقہیہ: ۱ / ۲۶۴ - ۲۶۵، فیروز الغات: ا - ت، صفحہ ۳۵، ۲۱۲)
یہ دعوا بلکل غلط ہے کہ اصل لفظ "اتباع" ہے جو صرف اور صرف الله و رسول (قرآن و حدیث کی) دلیل کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں، کیونکہ یہی لفظ "اتباع" نفس و شیطان کی پیروی، اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) اور غیر عالم کی پیروی کے لئے بھی قرآن میں استعمال ہوا ہے، تو وہ کونسی اور کیا "دلیل" دیتے تھے کہ ان کےلئےبھی لفظ "اتباع" استعمال کیا گیا اور ان کی اتباع سے روکا بھی گیا؟
اور جن قرآنی آیات سے بے علم و عقل اور بے ہدایتے آباء و اجداد کی "تقلید" کا حرام و شرک ہونا ثابت کیا جاتا ہے، ان میں لفظ اتباع کا ترجمہ تقلید کیوں کیا جاتا؟
اصولین کے نزدیک تقلید اور اتباع کے معنیٰ
۱۔ امام علی بن محمد الجرجانیؒ(المتوفی ۸۱۶ھ) فرماتے ہیں:”التَّقْلِيد: إتباع الْإِنْسَان غَيره فِيمَا يَقُول بقول أَو بِفعل مُعْتَقدًا للْحَقِيقَة فِيهِ من غير نظر وَتَأمل فِي الدَّلِيل۔۔۔۔۔۔۔ثمَّ اعْلَم أَن التَّقْلِيد على ضَرْبَيْنِ صَحِيح وفاسد“۔ ’’تقلید کہتے ہیں کہ انسان کسی کو حق پر سمجھتے ہوئے دلیل میں غور و خوص کئے بغیر قولاً و فعلاً اس کی پیروی کرے“۔ ” جاننا چاہئے کہ تقلید کی دو قسمیں ہیں تقلید صحیح اور تقلید فاسد“۔ (کتاب التعريفات للجرجانی:ص۹۰)
۲۔ حضرت مولانا قاضی محمداعلیٰ تھانویؒ تقلید کی تعریف یوں کرتے ہیں: ’’التقليد اتّباع الإنسان غيره فيما يقول أو يفعل معتقدا للحقية من غير نظر إلى الدليل، كأنّ هذا المتّبع جعل قول الغير أو فعله قلادة في عنقه من غير مطالبة دليل‘‘۔ ’’تقلید (کے اصلاحی معنیٰ یہ ہیں کہ) کسی آدمی کا دوسرے کے قول یا فعل کی اتباع کرنا محض حسن عقیدت سے کہ جس  میں (مجتہد کی ) دلیل پر غور نہ کرے۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا بلا دلیل طلب کرنے کے“۔ (کشف الاصطلاحات الفنون والعلوم: ص ۵۰۰)
۳۔ علامہ ابن ملکؒ اور علامہ ابن العینیؒ فرماتے ہیں: ’’وهو عبارۃ عن اتباعه في قولهاو فعله منقدا للحقية تامل في الدليل‘‘۔ ”تقلید دوسرے کے قول یا فعل میں اتباع کا نام ہےیہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہ وہ حق ہے بغیراس کے کہ دلیل کی فکر میں پڑے(کہ اس کی دلیل کیاہے)“۔ (شرح منار مصری:ص ۲۵۲)
۴۔ ’’التقليد اتباع الغير علي ظن انه محق بلا نظر في الدليل‘‘۔ ”دلیل میں غور و خوص کئے بغیر کسی کی اتباع کرنا یہ گمان رکھتے ہوئے کہ وہ حق پر ہے“۔ (النامی شرح حسامی: ص ۱۸۰)
یہ عبارت تقلیداور اتّباع کے ایک ہونے پرصراحت سے دال ہےاور اس میں لفظ الدلیل پرلام عہد کے لئے ہے یعنی وہ خاص دلیل جس کو مجتہد نے پیش نظر رکھ کراجتہاد کیاہےاور ’’من غیرنظرالیٰ الدلیل‘‘ اور ’’من غیرتامل فی الدلیل‘‘ اور ’’من غیرمطالبۃ الدلیل‘‘ میں اسی خاص دلیل کی طرف اشارہ ہے اس دلیل سے وہ دلیل مراد نہیں جو مقلد اپنی طرف سے کبھی پیش کردیتا ہے۔
۵۔ حضرت مولانارشیداحمد گنگوہیؒ فرماتے ہیں: ’’اوراتباع وتقلیدکے معنیٰ واحد ہیں‘‘۔ (سبیل الرشاد: ص۳۲)
تقلید کی تعریف میں اہل لغت نے لفظ اتّباعِ غیربلادلیل  ہی بیان کیا ہے جیسا کہ تعریفات سے ظاہر ہے ، اگر تقلیداور اتباع میں فرق ہوتا تو اہل لغت تقلید کی تعریف اتباع سے کبھی نہ کرتے۔
عرف عام میں تقلید کو اتباع بولاجاتا ہے۔(غیرمقلدین کے گھر کی گواہی)
 غیرمقلدین حضرات کےشیخ الکل جناب مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلویؒ فرماتے ہیں کہ :’’معنیٰ تقلید کے اصطلاح میں اہل اصول کی یہ ہےکہ مان لینا اور عمل کرنا ساتھ قول بلا دلیل اس شخص کی بات جس کا قول حجت شرعی نہ ہو۔تو اس بنا پر اس اصطلاح کی رجوع کرنا عامی کا طرف مجتہد وں کی اور تقلید کرنی ان کی کسی مسئلہ میں تقلید نہ ہو گی ۔ (کیونکہ لاعلمی کے وقت ان کی طرف رجوع کرنا نصوص قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور وہ شخص اہل الذکر اور اہل علم کی بات ماننے کا شرعاً مکلف ہے)۔ بلکہ اس کو اتباع اور سوال کہیں گے اور معنیٰ تقلید کے عرف میں یہ ہیں کہ وقت لاعلمی کے کسی اہل علم کا قول مان لینا اور اس پر عمل کرنا اور اس معنیٰ عرفی سےمجتہدوں کے اتباع کو تقلید بولا جاتا ہے‘‘۔ (معیارالحق:ص۷۲)
آگے لکھتے ہیں: ’’امام الحرمین نے کہاہے کہ اسی قول مشہورپربڑےبڑےاصولی ہیں اورغزالی اورآمدی اورابن حاجب نے کہاکہ رجوع کرناآنحضرتﷺاوراجماع اورمفتی اورگواہوں کی طرف اگرتقلیدقراردیاجائے توکچھ ہرج نہیں۔ پس ثابت ہواکہ آنحضرتﷺکی پیروی کواورمجتہدین کی اتباع کوتقلید کہناجائزہے‘‘۔ (معیار الحق: ص ۷۳)
غیرمقلد عالم کی زبانی اس مفصل عبارت سے چند اہم نکات واضح ہوتے ہیں جن سے درج ذیل فوائد ثابت ہوتے ہیں:
۱۔ لاعلمی کے وقت کسی مسئلہ میں مجتہدین کی طرف رجوع کرنا درحقیقت تقلید نہیں بلکہ اتباع اور سوال ہے۔
۲۔ مجتہدین کی اتباع کو تقلید بھی کہاجاتا ہے، یعنی بالٓمال اتباع اور تقلید ایک ہی جیزہے، ان میں کوئی فرق نہیں۔
۳۔ لاعلم اور انجان آدمی کامفتی کے قول کی طرف رجوع کرناتقلید نہیں بلکہ یہ بحکم شرعی واجب ہے۔ لیکن بڑے بڑے اصولیوں کے قول کے مطابق اس کو تقلید کہنے میں بھی کوئی حرج اور مضائقہ نہیں ہے۔
۴۔ جس طرح مجتہدین کی اتباع کوتقلید کہنا جائز ہے اسی طرح آنحضرت ﷺ کی اتباع کو بھی تقلید کہنا جائز ہے اس تفصیل کو ملحوظ رکھنے کے بعد اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں مجتہدین کی اتباع اور تقلید کرتا ہوں یا یہ کہے کہ میں آنحضرت ﷺکا مقلد ہوں تو درست اور صحیح ہےاور اس پرکوئی ملامت اور لعن طعن نہیں ہوسکتی۔ نیز جو حضرات تقلید اور اتباع کو ایک ہی مفہوم میں لیتے ہیں ان پر بھی کوئی گرفت نہیں ہوسکتی۔
غیرمقلدین دعویٰ کرتے ہیں کہ تقلیدمحض بلادلیل قول قبول کرنے کا نام ہے اور اتباع علیٰ وجہ البصیرت قول قبول کرنے کا نام ہے۔
آئیں دیکھتے ہیں کہ اتّباع میں علیٰ وجہ البصیرت سے کیا مراد ہے؟ اگر مراد یہ ہے کہ اتّباع کرنے والاوہ مسئلہ اور اس کی دلیل دونوں کو علیٰ وجہ البصیرت سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو پھر اسے کسی عالم مفتی سے مسئلہ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ خود قرآن و حدیث سے براہِ راست مسائل اخذ کرلیا کرے۔ کیونکہ کسی مجتہد عالم کی اتّباع وہاں ہوتی ہے جہاں علم سے محرومی ہویا علم میں کمی ہو۔ علیٰ وجہ البصیرت علم کے ہوتے ہوئے بھی کسی دوسرے سے مسئلہ پوچھنا اور اس پر عمل کرنا کم عقلی اور بے وقوفی کی نشانی ہے۔
اس کے برعکس اگرعلیٰ وجہ البصیرت اتّباع کا مطلب یہ ہے کہ اتّباع کرنے والا اپنی صوابدید اور دانست کے مطابق پوری طرح مطمئن ہے کہ میں جس کی اتّباع کرتاہوں وہ اس قابل ہے کہ اس کی اتّباع کی جائے اور اس سلسلہ میں اسے کوئی ترددّ نہیں، بالکل یہی مطلب تقلید کاہے۔ کیونکہ تقلید کرنے والا جس کی تقلید کرتا ہے اس کو حق پر اور اہل حق علماء میں سمجھتا ہے۔ اور اس میں اسے کوئی ترددّ نہیں، لہٰذا اتّباع کی تعریف میں علیٰ وجہ البصیرت کے جملے کو تقلید کے خلاف سمجھنا غیرمعقول بلکہ کم عقلی والی بات ہے۔ کیونکہ اتّباع اور تقلید دونوں کے حقیقی معنیٰ ومفہوم ایک ہیں ۔

غیرمقلدین حضرات تقلید کی تعریف میں کتاب  موسوعہ فقہیہ کے حوالہ سے ادھوری بات نقل کرکے عام اور لاعلم مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ موسوعہ فقہیہ کےصفحہ نمبر۲۶۴اور ۲۶۵میں اتباع کے متعلقہ الفاظ (تقلیداوراقتداء) کی دضاحتیں بھی موجود ہیں اور عامی آدمی پرمجتہد کی تقلید کالازم ہونا بھی نقل کیا گیاہے۔
غیرمقلدین حضرات تقلید کی تعریف کے سلسلے میں مسلم الثبوت وغیرہ کتب کے حوالہ سے تقلید کی تعریف ”التقليد اخذ قول الغير من غير حجة“  سے دلیل پکڑتے ہیں۔
غیرمقلدین  حضرات مسلم الثبوت کی پوری عبارت نقل نہیں کرتے ورنہ کسی صاحب فہم کو شبہ باقی نہ رہے غالباً اسی میں وہ اپنے لئے خیر سمجھتے ہیں۔ مسلم الثبوت کی مکمل عبارت درج ذیل ہے:
’’فصل- التقليد: العلمل بقول الغير من  غير حجة  کأخذ العامی والمجتهد من مثله، فالرجوع الي النبي علیه الصلوٰة والسلام اولٰی الاجماع ليس منه وکذا العامي الٰي المفتي  والقاضي الٰی العدول لايجاب النص ذالك عليها‘‘۔ ’’تقلید  غیر کے قول پر بغیر حجت کے عمل کرنے کا نام ہے جیسا کہ عامی اور مجتہد کا اپنے جیسے عامی اور مجتہد کے قول کو لینا پس آنحضرتﷺ  اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے اور اسی طرح عامی کا مفتی اور قاضی کا عادلوں کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ ان پر ایسا کرنے کو نص واجب قرار دیتی ہے “۔
تقلید  کی اس تعریف کے بعد آخر میں یہ بات لکھی ہےکہ’’لكن العرف علٰي أن العامي مقلد للمجتهد قال الامام الحرمین وعليه معظم الأصولين۔ الصحیح لصحۃ ایمان المقلد عند الأئمۃ اربعۃ وکثیر من المتکمین خلافاً للأشعری“۔ ”مگر عرف اسی پر ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے (امام الحرمینؒ) فرماتے ہیں کہ اسی پر اکثر اصولین ہیں۔ ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمدبن حنبل) کے نزدیک مقلد کا ایمان صحیح ہوتاہےاوراکثرمتکلمین کے نزدیک سوائے اشعری کے‘‘۔ (شرح مسلم الثبوت:ج۲، ص۴۳۲)
غیرمقلدین حضرات کےشیخ الکل جناب مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ مسلم الثبوت کی مکمل عبارت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امام الحرمین نے کہاہےکہ اسی قول مشہورپربڑےبڑےاصولی ہیں اورغزالی اورآمدی اورابن حاجب نے کہاکہ رجوع کرناآنحضرتﷺاوراجماع اورمفتی اورگواہوں کی طرف اگرتقلیدقراردیاجائے توکچھ ہرج نہیں۔ پس ثابت ہواکہ آنحضرتﷺکی پیروی کواورمجتہدین کی اتباع کوتقلید کہناجائزہے‘‘۔ (معیار الحق: ص۷۳)
لیکن عام ارباب اصول کے عرف میں مجتہدکے قول کوماننے والا مقلد کہلاتاہےحالانکہ مجتہد کاقول اس کے لئے حجت ہےیہ من غیرحجۃکی مداورزدمیں نہیں ہے اور علماءِ اصول کی اکثریت اسی پرہے، لہٰذا مجتہدکی تقلیدپر من غیرحجۃ کی تعریف کوفٹ کرنااورمجتہدکے قول کوغیرحجت قراردیناارباب اصول کی واضح عبارات سے غفلت پرمبنی ہے کیونکہ عامی جب خودعلم نہیں رکھتا توعلم والوں کی طرف مُراجعت کے بغیراس کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں اورایسا کرنے کوبھی نص واجب قراردیتی ہے۔ جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے کہ: ’’فَاسْاَلُـوٓا اَهْلَ الـذِّكْرِ اِنْ كُنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘۔’پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر تم کو علم نہیں‘‘۔ [سورۃ النحل: ٤٣]
ثانیاً یہ کہ ہم نے باحوالہ تقلید کی تعریف میں’’من غير مطالبة دليل‘‘ اور ’’من غير تامّل فی الدليل‘‘ اور ’’بلا نظر فی الدليل‘‘ کے الفاظ بھی نقل کیئے ہیں جس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ مجتہد کے پاس دلیل موجودہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقلد دلیل کاتقاضہ نہیں کرتا اوراس خاص دلیل کافکرمند نہیں ہوتا جوکہ مجتہد نے قائم کی ہے۔ کیونکہ الدلیل میں الف لام عہد کے لئے ہے۔ غرض یہ کہ تقلید کی تعریف صرف یہی نہیں جو مسلم الثبوت کے حوالے سے نقل کی گئی ہے بلکہ وہ بھی ہے جوہم نےباحوالہ نقل کی ہیں۔
غیرمقلدین حضرات ’’اتباع اور تقلید‘‘کے فرق کو صرف ایک جملے سے بیان کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ اتباع کسی غیر نبی کی بات کو دلیل کے ساتھ قبول کرنےکو کہتے ہیں اور تقلید کسی غیر نبی کی بات کو بلا دلیل قبول کرنے کانام ہے۔
میں تمام غیر مقلدین حضرات سے سوال کرتاہوں کہ اگر اتباع کسی غیر نبی کی بات کو دلیل کے ساتھ قبول کرنے کو کہتےہیں تو پھر قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر ’’اتباع‘‘ کا لفظ یہودونصاریٰ،من گھڑت پرستوں، خواہشِ نفس،بےسند خیال اور شیطان کی پیروی کے لئے بھی استعمال ہوا ہے تو  یہ کیا دلیل دیا کرتے ہیں؟جن کی پیروی کے لئے بھی قرآن میں ’’اتباع ‘‘ کا لفظ استعمال ہواہے؟
۱۔ یہودونصاریٰ کیا دلیل دیاکرتے تھے کہ اﷲتبارک وتعالیٰ نے ان کی پیروی کوبھی لفظ اتباع سے تعبیرکیا؟
۲۔ من گھڑت پرستوں کی آخرایسی کونسی دلیلیں تھیں جن کی پیروی کے لئے بھی لفظ اتباع ہی استعمال ہوا؟
۳۔ نفس ہمیں کونسی دلیل دیتاہےجس کی پیروی کے لئے بھی لفظ ابتاع ہی نازل ہوا؟
۴۔ بے سند خیالوں میں ایسی کونسی دلیلیں ہواکرتی ہیں جن کی پیروی کے لئے بھی لفظ اتباع ہی استعمال کیاگیا؟
۵۔ شیطان ہمیں ایسی کیادلیلیں دیتاہے کہ اس کی پیروی کے لئے بھی اﷲتبارک وتعالیٰ نے لفظ اتباع ہی نازل فرمایا؟
اتباع بھی اسی طرح ہو تی ہے بے دلیل کسی کے پیچھے چلنے کو بھی اتباع ہی کہا جائے گا اور با دلیل کسی کے پیچھے چلنے کو بھی اتباع ہی کہا جائے گا بے دلیل کسی کے پیچھے چلنے سے اتباع کا مطلب نہیں بدل جاتا۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں : وَ مَنۡ یَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ۔”جو شخص شیطان کی اتباع کرتا ہے تو اچھی طرح جان لے کہ شیطان بے حیائی اور نا معقول کام کرنے کا حکم دیتا ہے“۔{سورۃ النور :۲۱}
اللہ تعالیٰ نے بھی یہاں شیطان کے پیچھے چلنے والوں کے  لئے اتباع کا ہی لفظ استعمال کیا۔ (سوال)شیطان کی بات با دلیل ہوتی ہےیا بے دلیل؟
ایک اور آیت میں آتا ہے: وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلۡفَیۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ۔ ”ہم تو اسی طریقے کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے  اگرچہ ان کے باپ دادے    کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور نہ جانتے ہوں سیدھی راہ“۔{سورۃ البقرۃ ۱۷۰}
قرآن پاک نے بے عقل اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے باپ داداؤں کے پیچھے چلنے  سے منع فرمایا ہے اور ان کے پیچھے چلنے کا ہم بھی نہیں  کہتے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر باپ دادا مومن مسلمان اور متقی پرہیزگار ہوں تو کیا قرآن اس وقت بھی باپ دادا کی پیروی سے ہمیں روکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی لئے قرآن مجید میں اﷲ بتارک و تعالیٰ نے ایمان لانے والے  باپ داداؤں کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے۔
وَالَّذينَ ءامَنوا وَاتَّبَعَتهُم ذُرِّيَّتُهُم بِإيمٰنٍ أَلحَقنا بِهِم ذُرِّيَّتَهُم وَما أَلَتنٰهُم مِن عَمَلِهِم مِن شَيءٍ ۚ كُلُّ امرِئٍ بِما كَسَبَ رَهينٌ ۔’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے‘‘۔{سورۃالطور:۲۱}
اللہ تعالیٰ نے ان کفار کی بات کو ذکر کیا تب بھی  لفظ تقلید نہیں بلکہ اتباع ہی لایا۔تومعلوم ہوا کہ اتباع بھی بلا دلیل ہوتی ہے۔
غیرمقلدین حضرات بتائیں کیا قرآن کی یہ آیات اس بات کی دلیل کیلئے کافی نہیں کہ اتباع بھی بلا دلیل ہو سکتی ہے؟ پھر آج سے شروع ہو جائیں یہ کہنا  کہ اتباع بھی علی الاطلاق حرام ہے۔
غیرمقلدین حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن میں ’’اتباع‘‘ کا لفظ موجودہے جبکہ ’’تقلید‘‘ کا لفظ قرآن میں موجود نہیں، لہٰذا قرآن میں اتباع کاحکم توہے، تقلید کانہیں۔
غیرمقلدین حضرات کا یہ اعتراض ایک نابالغ بچے کے اعتراض کی طرح ہے جوکہتاہے کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ ’’وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا‘‘۔ ’’اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یادونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو‘‘۔ [سورۃ الاسراء: ۲۳]
اب اگرایک نابالغ بچہ ہم سے یہ کہے کہ قرآن میں تواﷲتعالیٰ نے ماں باپ کو ’’اُف‘‘ کہنے اور ’’جھڑکنے‘‘ سے منع کیا ہے مارنے اور گالی دینے سے نہیں۔ اور اپنے اس دعویٰ کی دلیل یہ پیش کرے کہ کیونکہ قرآن میں’’اُف‘‘ اور’’جھڑکنے‘‘کے الفاظ موجودہیں ’’مارنے‘‘ اور ’’گالی‘‘ دینے کے نہیں، لہٰذا مجھے قرآن سے ’’مارنے‘‘ اور ’’گالی‘‘دینے کے الفاظ دکھاؤ تب میں ’’مارنے‘‘ اور ’’گالی‘‘دینے کے حکم کو تسلیم کرونگا۔
اس کی ایک اورمثال یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ ایک چرسی، ہیروئنچی یا افیمچی یہ کہتاہے کہ کیونکہ قرآن مجید اوراحادیث مبارکہ میں شراب کےلفظ کے ساتھ اس کی حرمت کاحکم توملتاہے لیکن چرس، ہیروئن اورافیم کے الفاظ موجودنہیں، لہٰذا چرس، ہیروئن اورافیم کےالفاظ قرآن وحدیث میں دکھاؤ گے تومیں انہیں حرام تسلیم کرونگاورنہ ان کی حرمت قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے۔
بالکل اسی طرح ایک شخص کہتاہے کہ کیونکہ قرآن مجید میں بھیڑ(نرومادہ)، بکری(نرومادہ)، اونٹ(نرومادہ)، اورگائے(نرومادہ)کی حلّت کاحکم توملتاہے لیکن بھینس(جاموس) کی حلّت قرآن وحدیث میں موجودنہیں کیونکہ بھینس(جاموس) کالفظ قرآن وحدیث میں کہیں نہیں ملتالہٰذا بھینس حلال جانورنہیں ہے۔
ایسے ناسمجھ، کم علم وکم عقل اوراحمق لوگوں سے یہی کہاجائے گاکہ قرآن مجیدمیں کسی چیز کی حلّت اور حرمت کے حکم کے پائےجانے کا انحصارکسی لفظ کے صراحتاً موجود ہونے پرنہیں ہوتابلکہ اس حکم میں  مقیس اور مقیس علیہ کے مابین علت مشترکہ ہونے پرہوتاہے۔ یا تو وہ علت منصوصہ ہو یعنی نص میں علت بیان کی گئی ہو، یا پھر علت بدیہی ہو، یعنی دماغ لڑائے بغیر بات سنتے ہی فورا ًسمجھ آجانے والی ہو۔
جیسےمندرجہ بالاآیت مبارکہ میں والدین کو ’’اُف‘‘ نہ کرنے کی علت غور و خوض کیئے بغیر سمجھ آ رہی ہے کہ انہیں تکلیف دینے کا سب سے کم درجہ ’’اُف‘‘ کہنےسے منع کی خاطر یہ حکم جاری کیا گیا ہےلہٰذا انہیں مارنا اور گالی دینا توطریق اولیٰ حرام ہوگا۔ سو ہر وہ کام جس سے والدین کو تکلیف پہنچےاس آیت کی رو سے منع قرارپایا۔
اسی طرح قرآن وحدیث میں شراب کی حرمت کاحکم شراب کے لفظ پرنہیں بلکہ اس کےپینےپرنشہ طاری ہوجانےاورہوش وحواس کھوجانے کی علت پرجاری ہواہے۔ اب شراب پینے پرنشہ طاری ہوجانے اورہوش وحواس کھوجانےوالی علت جن جن اشیاء میں مشترکہ پائی جائے گی وہ تمام چیزیں خودباخود اس حکم میں داخل ہوجائیں گی۔ اس کے لئے شراب کے لفظ کا ہونا ضروری نہیں، جیساکہ آج شراب مختلف ناموں سے دستیاب ہے پھربھی تمام مکاتب فکرکے نزدیک حرام ہے۔
بالکل ایسے ہی قرآن وحدیث میں بھینس(جاموس) کا لفظ کہیں بھی موجود نہیں پھربھی تمام مکاتب فکرکے نزدیک بھینس (جاموس) حلال ہے کیونکہ بھینس اورگائے میں علتیں مشترکہ ہیں لہٰذا جب گائے کا لفظ قرآن مجیدمیں صراحتاً موجودہے توگائے اوربھینس کی علتیں مشترکہ ہونے کی وجہ سے بھینس بھی حلال ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ بھینس کو تمام ائمہ کرام نے گائے کی ایک قسم قراردیاہے۔
مندرجہ بالاتینوں مثالوں سے یہ بات واضح طورپرسمجھی جاسکتی ہے کہ اتباع اور تقلید ایک ہی کام کے دومختلف نام ہیں کیونکہ لغت میں اتباع کے بھی وہی معنیٰ بیان ہوئے ہیں جو تقلیدکےہیں، لہٰذایہاں بھی دونوں لفظوں میں علتیں مشترکہ ہیں۔ لغت میں تقلید، اتباع، اقتداء، اطاعت سب کے معنیٰ پیروی کرنا، فرمابرداری کرنا، تابعداری کرناہے، لہٰذا قرآنِ کریم کے بیان سے صرف اتباع کے لفظ کو قبول کرنا اوراس کے معنیٰ ومفہوم سمجھے بغیرتقلید کو اس کی مخالفت میں استعمال کرنا، اس کی وہی مثال بنتی ہےجیساکہ ایک نشئی شراب کی حرمت کے مقابلے میں چرس، ہیروئین اورافیم کوحلال قراردیتاہو۔
اگر غیرمقلدین کے نزدیک تقلید کا بیان قرآن کریم میں موجود ہے تو پھر وہیں سے پہلے تقلید کا لفظ دکھائیں پھر وہیں سے اس کی معنیٰ کریں پھر اسکے بعد اس کا حکم دکھائیں کیونکہ تقلید کے وجوب کو ثابت کرنے کیلئے آپ لوگ یہی پیمانہ بناتے ہیں۔
غیرمقلدین جواب دیں ان کے باپ داداؤں کی بات با دلیل تھی یا بے دلیل اگر بے دلیل بات کو اتباع نہیں کہا جاتا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اتباع کیوں قرار دیا ہے تقلید  کیوں نہیں؟ معلوم ہوا کہ  اتباع بھی بے دلیل ہوتی ہے دلیل کا ہونا ضروری نہیں۔
لیکن لغت سے جاہل غیرمقلدین تقلید کا  معنیٰ اپنی خوائش کے مطابق ہی تعین کرتے ہیں۔کبھی کہتے ہیں  تقلید کا معنیٰ بے دلیل بات کی پیروی کرنے کو ہی کہا جاتا ہے۔ اور ان کے عالم کہلانے والے جاہل یہاں تک بھی لکھتے ہیں کہ: ”قرآن و سنت کے خلاف بات ماننے کو تقلید کہتے ہیں“۔(احکام و مسائل: ج ۱، ص ۱۵۸، عبد المنان نورپوری)
تقلید کا یہ معنیٰ تعین کرنے کی حاجت انکی مجبوری کے سوا کچھ نہیں اگر یہ انصاف سے جو معنیٰ اس کا ہے وہی لیں  اور خود سے ایک ہی طرف کا معنیٰ تعین نہ کریں تو ان کا مذہب خطرے میں پڑ جاتا ہے۔  جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مذہب صرف غلط بنیادوں پر کھڑا ہے۔بہر حال ہم انہیں منہ مانگا جواب دینگے۔(انشاء اللہ)
غیرمقلدین حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ  سے تقلید کے متعلق ایک قول نقل کرتے ہیں، جبکہ مولانا تھانویؒ   کی  بات سمجھنے میں یہ  بلکل جاہل ہیں کیونکہ بقول ان کے ایک مولوی صاحب جماعت اہلحدیث کیلئے علمی اور گہری باتیں بسا اوقات پریشانی کا باعث ہو تی ہیں ۔(قافلہ حدیث:ص ۸۰)
اور جو قول غیرمقلدین حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ  کا پیش کرتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں   لفظ اتباع کو نبیﷺ کے ساتھ اور تقلید کو مجتہد کے ساتھ خاص کیا گیا ہے، جیسے حمد کا معنیٰ بھی تعریف ہوتا ہے اور نعت کا معنیٰ بھی تعریف ہوتا لیکن نبیؐ کی تعرف حمد کی بجائے نعت کہلاتی ہے اور اللہ کی تعریف نعت نہیں بلکہ حمد  کہلاتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی کہے کہ نعت کا معنیٰ اب تعریف نہیں رہا یا حمد کا معنیٰ تعریف نہیں رہا۔جبکہ مولانا تھانویؒ  خود بھی فرماتے ہیں :’’ تقلید کہتے ہیں اتباع کو ‘‘۔(شان صحابہ: ص۲۹۶)
اس کی ایک اور مثال یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ لغت میں ’’حدیث‘‘ ہرقسم کے کلام یاخبرکوکہتے ہیں۔ جس کی دلیل قرآن مجید میں موجوداﷲتبارک وتعالیٰ کے ارشادات سے ملتی ہے۔
۱۔ ’’ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ‘‘۔ ’’اوراپنے رب کی نعمت کااظہارکیجئے‘‘۔ [سورۃ الضحی: ۹۳]
۲۔ ’’هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَی‘‘۔ ’’کیا موسیٰؑ کی خبرتمہیں پہنچی ہے‘‘۔ [سورۃ النّٰزعٰت: ۱۵]
۳۔ ’’فَمَا لِهَؤُلاء الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا‘‘۔ ’’ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی‘‘۔ [سورۃ النسآء: ۷۸]
۴۔ ’’أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللّهِ يُكَفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلاَ تَقْعُدُواْ مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُواْ فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ‘‘۔ ’’جب تم الله کی آیتوں پر انکار اور مذاق ہوتا سنو تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو‘‘۔ [سورۃ النسآء: ۱۴۰]
مندرجہ بالاآیات میں ’’حدیث‘‘ کے معنیٰ ذکرکرنا، خبراوربات(کلام) کےواردہوئےہیں۔
اس سے پتہ چلتاہے کہ عربی لغت میں ’’حدیث‘‘کے معنیٰ صرف رسول اﷲﷺکے اقوال وافعال اورارشادات کےہی نہیں تھےبلکہ خبراورکلام کے بھی ہیں۔ جیساکہ اﷲتبارک وتعالیٰ نے موسیٰؑ کی خبرکوبھی حدیث ہی بیان فرمایاہے۔ لیکن عہدرسالت میں اس لفظ کو رسول اﷲﷺکے اقوال وافعال اورارشادات وواقعات کے ساتھ خاص کردیاگیااوربعدمیں صحابہ کرامؓ کے اقوال اورواقعات کوبھی حدیث ہی قراردیاجانے لگا۔ بالکل ایساہی معاملہ لفظ ’’اتباع‘‘ کے ساتھ بھی ہواہے۔ جیساکہ اوپربیان کیا جاچکا ہے۔
غیرمقلدین حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ  سے تقلید اور اتباع کے متعلق ایک قول نقل کرکے اتباع اور تقلید کے فرق کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ مولانا تھانویؒ خود فرماتے ہیں کہ: ’’پس ایک زمانہ خاص تک ایک شخص کے اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان سے احکام کی دلیل بھی دریافت کرلینااور یہی تقلیدشخصی ہے‘‘۔ (اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ: ص۵۴)
غیرمقلدین حضرات تذکرۃالرشید کے حوالے سے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا تقلید کے متعلق ایک اورقول نقل کرکے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتےہیں،کہ مولانا تھانویؒ یہ کہتے ہیں کہ ’’تقلید شخصی پر کبھی اجماع نہیں ہوا‘‘ جبکہ مولانافرماتے ہیں کہ ’’وہ میں نے بطور تحقیق اور رائے کے نہیں بلکہ (اپنے شیخ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ) کو بطور اشکال کے پیش کیا ہے‘‘۔ (امداد الفتویٰ: ص۳۸۳)
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ’’بعض علماء نے ان مذاہب اربعہ میں اہل سنت والجماعت ہونے پر اجماع نقل کیا ہے‘‘۔ (اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ: ص ۵۱)
غیرمقلد عالم زبیر علی زئی صاحب نے اپنی کتاب ’’دین میں تقلید کا مسئلہ‘‘میں ایک  جھوٹ رقم کیا ہے کہ مولانا سرفراز خان صفدرؒ نے اپنی کتاب’’المنھاج الواضح، راہ ِسنت‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’یہ الگ بات ہے کہ اقتدا ءاور چیز ہے اور تقلید اور‘‘۔ ان کے اس جھوٹ کی اصل حقیقت ملاحضہ فرمائیں۔
مشہور زمانہ غیرمقلد عالم زبیر علی زئی کا جھوٹ ملاحضہ فرمائیں۔ جس فرقے کے عالموں کے دجل کا یہ حال ہے اس کے جاہلوں کا کیا حال ہوگا۔
کتاب المنھاج الواضح یعنی راہ ِسنت کے صفحہ نمبر۳۵ پر لکھی یہ عبارت واضح طور پر پڑھی جاسکتی ہے کہ یہ الفاظ مولاناصفدر ؒ کے نہیں بلکہ علامہ امیر یمانیؒ کےہیں جو انہوں نے علامہ برمادیؒ کو بطورتردید پیش کیا ہے۔ 
غیرمقلد عالم زبیر علی زئی صاحب نے اپنی کتاب ’’دین میں تقلید کا مسئلہ‘‘میں دوسرا جھوٹ یہ رقم کیا ہے کہ مولانا سرفراز خان صفدرؒ نے اپنی کتاب ’’الکلام المفید فی اثبات تقلید‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’تقلیداوراتباع ایک ہی چیز ہے‘‘۔
زبیرعلی زئی صاحب الکلام المفید اور راہِ سنت کی عبارات میں تعارض ثابت کرتے ہوئے حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی سمجھ پرانگلی اٹھارہے ہیں جبکہ ذرابھی عقل و شعور اور اردو سمجھنےوالا شخص بھی اس بات کوبآسانی سمجھ سکتاہے کہ راہِ سنت کی عبارت پرزبیرعلی زئی صاحب نے انتہائی کذب بیانی سے کام لیتے ہوئے علامہ امیر یمانیؒ کی عبارت کو مولانا سرفرازخان صفدرؒ کی طرف منسوب کرکے عام اورلاعلم عوام کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ کتاب الکلام المفید فی اثبات تقلید کے صفحہ نمبر۳۲ پر لکھی یہ عبارت بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس کتاب میں بھی مولاناصفدر ؒ نےعلامہ ابن القیمؒ کے الفاظ بطوراشکال بحوالہ علام الموقعین سےدرج کیئے ہیں۔

غیرمقلدین حضرات کےشیخ الکل مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلویؒ فرماتے ہیں:’’پس ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺکی پیروی اورمجتہدین کی اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے‘‘۔(یعنی غیرمقلدین کے گھر کی دلیل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تقلید اور اتباع دونوں کے معنیٰ ایک ہی ہیں)