-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Thursday 26 May 2016

ہمارا مقصدکسی فرقے یا مسلک کی تزلیل یاا ِنہیں گمراہ ثابت کرنا نہیں، بلکہ ہمارا مقصد دلائل کے ساتھ حق کو ثابت کرنا اور اپنے آئمہ کرام ؒ کا دفاع کرنا ہے۔

۱۔  ’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ "‏إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ‏"۔ قَالَ فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فَقَالَ هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‏، وَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَهُ‘‘۔ نبی کریم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ: ’’جب حاکم (مجتہد)کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دہرا اجر(ثواب) ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا (اجر) ثواب ملتا ہے‘‘۔ (الصحيح بخاری، کتاب الاعتصام، باب أَجْرِ الْحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ، رقم الحدیث ۷۳۵۲)
۲۔ ’’حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، -يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ- عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏"‏ مَنْ أَفْتَى"۔ وَحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي نُعَيْمَةَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ الطُّنْبُذِيِّ -رَضِيعِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ- قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم"‏مَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ‏"‘‘۔ حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’کہ جو کوئی فتویٰ بغیر علم کے دیا گیا تو اس فتویٰ کا گناہ اس مفتی پر ہو گاجس نے اس کو فتویٰ دیا‘‘۔ (رواۃابو داؤد، جلد نمبر ۳، صفحہ نمبر ۸۵۴،  رقم الحدیث۳۶۵۷)
پہلی حدیث کے مطابق اگر کسی مجتہد جیسےامام شافعی ؒ یا امام ابو حنیفہ ؒ میں سے کسی کا اجتہاد غلطی پر بھی ہواتو بھی ان کو ایک اجر ملے گا لہٰذا ان کے اس اجتہادکی پیروی (تقلید) کرنے والے کو بھی ایک اجر ملےگا جبکہ دوسری حدیث کے مطابق بغیر علم کے فتویٰ دینے والا گناہ گار ہوگا لہٰذا بغیر علم کے اجتہاد کرنےوالا تو بطریق اولیٰ گناہ گار ہوگاکیونکہ اجتہاد کرنا فتویٰ دینے سے زیادہ بڑاعمل ہےاور اس غیر عالم کے فتویٰ یا اجتہادکی پیروی (تقلید) کرنے والا بھی گناہ گار ہوگا۔ اس لئے تمام مسلمان بھائیوں سے گزارش ہے کہ یا تو خود علم دین پر مکمل دسترس حاصل کرکےمجتہد بن جائیں یا پھر کسی ایسے مجتہد کی پیروی (تقلید) کریں جس کے مجتہد ہونے پر امت مسلمہ پچھلے ۱۴۰۰ سالوں سے متفق ہے۔
امام اعظم ابو حنیفہؒ (متوفی۱۵۰ھ)، امام محمد بن الحسن شیبانیؒ (متوفی ۱۸۹ھ)، قاضی ابو یوسفؒ (متوفی ۱۸۲ھ)، امام أبی بكر ابراہیم بن رستم المروزیؒ (متوفی ۲۰۱ھ)، بشیربن ولید بن خالدبن ولیدالکندیؒ (متوفی ۲۳۸ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’واذا کان المفتي علي ھذه الصفة  فعلي العامي تقليده وان کان المفتي اخطأ في ذلك ولا معتبر بغيره ھكذا "روی" الحسن عن ابي حنيفة وابن رستم عن محمد و بشیر بن الولید عن ابي یوسف رحمھم ﷲ تعالیٰ‘‘۔ ’’عامی شخص پر مفتی کی تقلید واجب ہے اگرچہ مفتی سے خطا ہو جائے اسے ایک اجر ملے گا۔ یہ قول ہے امام ابو حنیفہؒ، ابن رستمؒ، محمد بن الحسن شیبانیؒ، بشیر بن ولیدؒ، اور قاضی ابو یوسفؒ کا‘‘۔ (الهدایۃمع شرح الكفایۃج۱، كتاب الصوم، ص ۵۹۸)


Tuesday 24 May 2016

مناظرہ قرأت خلف الامام نعمان اقبال بمقابلہ عمر صدیق

بسم الله الرحمن الرحیم
حافظ عمر صدیق صاحب  کا دعویٰ
ہم اہل حدیث لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے نہ پڑھنے سے نماز نہیں ہوتی۔ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنا ضروری ہے۔ اگر دلائل سے واضح ہوجانے کے بعد بھی  کوئی شخص  تعصب مسلکی کی وجہ سے سنت پر عمل نہیں کرتا تو وہ جاہل ہے۔ انشاء اﷲ میرے دلائل قرآن و حدیث ہونگے۔
بسم الله الرحمن الرحیم
نعمان اقبال صاحب کی طرف سےجواب دعویٰ:
حافظ عمر صدیق صاحب کے دعوے پر میرا جواب دعویٰ ہے کہ قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے دلائل بھی ملتے  ہیں اور نہ پڑھنے کے بھی اس لئے پڑھنے والے کی نماز بھی درست ہے اور نہ پڑھنے والے کی بھی  بشرطیہ کہ مقتدی اس مسئلے میں کسی مجتہدامام  کی پیروی کرے،  خود سے اس بات کا فیصلہ نہ کرے ورنہ نماز درست نہ ہوگی۔اس مسلئے میں اگر مقتدی امام شافعی ؒکی پیروی کرتے ہوئےامام کے پیچھےسورۃ  فاتحہ پڑھتا ہے تو اس کی نماز درست ہے اور اگر کوئی امام ابوحنیفہ ؒ کی پیروی کرتے ہوئے نہیں پڑھتا تو اس کی نماز بھی درست ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمانِ ہے کہ:
1.    ’’جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے‘‘۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام، باب أَجْرِ الْحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ، رقم الحدیث :۷۳۵۲)
2.    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے (کسی کو) بغیر علم کے فتویٰ دیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا ۔)رواه ابو داؤد، جلد نمبر ۳، صفحہ نمبر ۸۵۴،  رقم الحدیث :۳۶۵۷(
پہلی حدیث کے مطابق اگر امام شافعی ؒ یا امام ابو حنیفہ ؒ میں سے کسی کا اجتہاد غلطی پر ہے تو بھی ان کی پیروی کرنے والے کو ایک اجر ملےگا جبکہ دوسری حدیث کے مطابق بغیر علم کے فتویٰ دینے والا گناہ گار ہوگا لہٰذا بغیر علم کے اجتہاد کرنےوالا بھی گناہ گار ہوگا۔اگر احادیثِ مبارکہ سے واضح ہوجانے کے بعد بهی کوئی شخص یا فرقہ تعصب ِمسلکی کی وجہ سے سنت پر عمل نہیں کرتا تو وه جاہل ہے۔  انشاءالله قرآن و حدیث کی روشنی میں میں ثابت کروں گا کہ امام کے پیچھے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنا ہی مقتدی کے لیے بہتر ہے۔

ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب کاامام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ پڑھنے پردلیل نمبر ۱:
"لا صلاۃ لمن لم یقرا بفاتحة الکتاب" آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑهی، اس کی نماز نہیں‘‘۔(صحیح بخاری، الآدب، باب و جوب القرءۃ للامام و الماموم فی الصلوات کلها...، رقم الحدیث۷۵۶، صحیح مسلم ،باب الصلاۃ، رقم الحدیث۳۹۴)
اہلسنت والجماعت نعمان اقبال کا اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمرصدیق صاحب کی پہلی دلیل پر اعتراضات
1.    ہمارے اہلحدیث بھائی نے اپنے دعویٰ میں لکھا تھا کہ ’’میرے دلائل قرآن و حدیث سے ہونگے‘‘۔ دعویٰ کے مطابق عمر صدیق صاحب کی پہلی دلیل قرآن سے ہونی چاہیئے تھی کیونکہ سب سے پہلا درجہ قرآن کا ہے پھر بخاری و مسلم کا۔ہمارے اہلحدیث عمر صدیق بھائی کا قرآن کو چھوڑ کر بخاری و مسلم  سے دلیل کی ابتداء کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ موصوف کا پہلا دعویٰ غلط ثابت ہوگیا اور ان کے پاس امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی دلیل قرآن میں موجود نہیں ہے۔
2.   عمر صدیق بھائی کی پیش کردہ حدیث میں یہ کہاں لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان انفرادی نماز کے لئے ہے یا جماعت کی نماز کے لیے ہے؟ جبکہ اس حدیث کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ انفرادی نماز کے بارے میں ہے ۔
3.   عمر صدیق بھائی سے گزارش ہے کہ وہ اپنے دلائل میں کسی امام مجتہد، مفسر یا محدث کا قول پیش نہ کریں ۔ جو بھی دلائل ہیں وہ قرآن و حدیث سے پیش کریں کیونکہ یاد رکھیں آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ کسی اما م کے مقلد نہیں ہیں۔
اب میں اہلحدیث عمر صدیق صاحب کی بیان کردہ حدیث کا صحیح مطلب دوسری صحیح حدیث سے پیش کرتا ہوں۔

ذیل میں پیش کردہ حدیث اور آئمہ مجتہدین کے اقوال سے یہ بات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان جماعت کی نماز کے بارے میں نہیں بلکہ مقتدی کی انفرادی نماز کے لئے ہے۔ اس لئے عمر صدیق صاحب کا اس حدیث سے استدلال کرنا درست نہیں۔
امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر اہلسنت والجماعت (احناف) کی دلیل نمبر ۱:
 
 
اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی۔
امام بیہقی رحمہ اللہ اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ایک روایت نقل کرتے ہیں":قال اللہ عزوجل: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ"۔’’اور جب قرآن پڑھا جایا کرےتو اس کی طرف کان لگا دیا کرواور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو‘‘۔(الاعراف:۲۰۴)
قال أحمد: فالناس على أن هذا في الصلاة وعن سعيد بن الْمُسَيَّبِ و الحسن و إبراهيم و محمد بن كعب و الزهري أنها نزلت في شأن الصلاة وقال زيد بن أسلم و أبو العالية كانوا يقرأون خلف الإمام فنزلت : (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) وقال أحمد في رواية أبي داود : أجمع الناس على أن هذه الآية في الصلاة ولأنه عام فيتناول بعمومه الصلاة۔ (المغنی الابن قدامۃ :ج۲،ص۱۱۷) (مجموع الفتاویٰ الابن تیمیۃ :ج۲۲،ص۱۵۰)
سورۃ اعراف مدنی ہے۔جیسا کہ علامہ ابن کثیراپنی تفسیر (ج۴،ص۲۵۴) میں ،اور مشہورغیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی تفسیر فتح البیان (ج۳،ص۳۹۳) میں لکھتے ہیں’’سورۃ اعراف مدنی ہے۔ کیونکہ اس سورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت یہود کا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور ظاہر ہے کہ یہود کا مرکز مدینہ طیبہ میں تھا نہ کہ مکہ مکرمہ میں‘‘۔
نیز اس آیت کا شان نزول بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ (مدنی صحابی) سے یہی مروی ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی۔ پس ترک قراءت خلف الامام کا حکم مدنی ہی ہے۔
أخبرنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحافظ رحمه الله أنا عبد الرحمن بن الحسن القاضي، نا إبراهيم بن الحسين، نا آدم بن أبي إياس، نا ورقاء، عن ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عن مجاهد، قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في الصلاة فسمع قراءة فتى من الأنصار فنزل وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا۔(کتاب القراءۃ للبیھقی :ص۱۰۷رقم الحدیث ۲۴۸)
اس روایت میں ذکر ہے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم جب قراءت فرما رہے تھے تو ایک انصاری نوجوان کی قراءت سنی تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بات واضح ہے کہ انصار مدینہ منورہ ہی  میں تھے۔
امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر اہلسنت والجماعت (احناف) کی دلیل نمبر ۲:
"قال اللہ عزوجل: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ"۔)الاعراف:۲۰۴(

’’اور جب قرآن پڑھا جایا کرےتو اس کی طرف کان لگا دیا کرواور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔‘‘

حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ، ثنا أَبُو صَخْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ: قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ فِي الصَّلاةِ أَجَابَهُ مَنْ وَرَاءَهُ إِذَا قَالَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ حَتَّى تَنْقَضِيَ الْفَاتِحَةُ وَالسُّورَةُ فَلَبِثَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَلْبَثَ ثُمَّ نَزَلَتْ: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ فَقَرَأَ وَأَنْصِتُوا۔
محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب نماز میں قرات کرتے تھے تو مقتدی بھی آپ کے پیچھے قرات کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپﷺ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہتے تو مقتدی بھی اسی طرح کہتے یہاں تک کہ سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت ختم ہو جاتی ۔یہ معاملہ جب تک اللہ نے چاہا چلتا رہا ۔پھر آیت ’’وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ فَقَرَأَ وَأَنْصِتُوا‘‘ نازل ہوئی تو آپﷺ قرأت کرتے تھے اور صحابہؓ خاموش رہتے تھے۔(تفسیر ابن ابی حاتم الرازی: ج۴ ص۲۵۹،حدیث نمبر ۹۴۹۳)
حافظ عمر صدیق صاحب  سے گزارش ہے کہ وہ اپنے دعوے کی دلیل قرآن و حدیث سے پیش کریں اور اپنے من پسند استدلال اور لمبی لمبی تقریروں سے اجتناب کریں اور باقی فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔
حافظ عمر صدیق صاحب کی اپنی پہلی دلیل کے رد میں پیش کردہ وضاحتوں پر مزید اشکالات:

  1.  عمر صدیق صاحب فرماتے ہیں :’’کیونکہ اس حدیث میں ’’من‘‘ہے  جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس میں مقتدی بھی شامل ہے‘‘۔ میری حافظ صاحب سے گزارش ہے کہ اپنے اس دعوے کو دلیل کے ساتھ ثابت کریں کہ ’’من‘‘سے مراد یہاں مقتدی کا امام کے پیچھے فاتحہ پڑھناہے انفرادی نماز نہیں ،ورنہ آپ کی بلا دلیل بات کی کوئی حیثیت نہیں۔
  2.  امام بخاری ؒ کے قول سے استدلال پرمیری عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ کیونکہ امام بخاری ؒ اس کو عموم پر دلالت کرتے ہیں لہٰذا آپ امام بخاری ؒ کی تقلید کرتے ہوئےان کی اس بات کو صحیح مانتے ہوئےنماز میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتے ہیں ۔ اس پر  میں آپ سے یہ سوال بھی کرنا چاہونگاکہ آپ امام ابو حنیفہؒ جیسے خیرالقرون کے مجتہد جن کو پوری اُمت نے ایک مجتہد امام مانا ہے ،کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ ؒ کے شاگردوں کے شاگردوں کے شاگرد امام بخاری ؒ کی بات کو کس  بنیاد پر صحیح تسلیم کرتے ہوئے ان کی تقلید کر رہے ہیں جبکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ دین میں تقلید حرام ہے؟
  3. عمر صدیق صاحب کا امام بخاری ؒ کےاستدلال کو دلیل بناکر پیش کرنا بالکل غلط ہے کیونکہ کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ "جو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتیجبکہ امام بخاری ؒسے لے کر آج تک کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ جو امام کے پیچھے نماز میں فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز باطل ہے۔یہ بات میری نہیں ہے بلکہ موجودہ دور کے مشہور غیر مقلدعلماء اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔’’غیر مقلدین کے مشہور عالم ارشاد الحق اثری نے اپنی کتاب توضیح الکلام صفحہ ۷۱پر، عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے خیرالکلام کے مقدمہ میں صفحہ ۱۴ پر اور غیر مقلدین کے شیخ الکل حافظ محمد گوندلوی نے خیر الکلام کے صفحہ ۳۳ پہ اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امام بخاری سے لے کر محقق علماء اہلحدیث نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ جو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز باطل ہے‘‘۔ جبکہ آپ کا دعویٰ ہے اوپر درج ہے۔
  4.  عمر صدیق صاحب نے بڑی ہی آسانی کے ساتھ میری پیش کردہ حضرت جابر بن عبداﷲؓ کی روایت کو بغیر کسی دلیل کے یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ ’’اس روایت کاحدیث ہونا ثابت کرو, حدیث مرفوع ہونا ثابت کرو, پهر اس پر بات کرے گئے‘‘۔عمر صدیق صاحب کے مطالبہ پر میں حضرت جابر بن عبداﷲؓ کی روایت کی تائید میں دوسری حدیث پیش کررہا ہوں جو کہ مرفوع روایت ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا : ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے ناقص ہوتی ہے مگر وہ نماز جو امام کے پیچھے پڑھی جاوے۔ (کتاب القراۃ بیہقی: جلد۱ ص۱۹۴)

امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر اہلسنت والجماعت (احناف) کی دلیل نمبر:۳
 (اب اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی؟)
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، سعید بن ابی عروبہ، ابوغسان، معاذ بن ہشام، اسحاق بن ابراہیم، جریر، سلیمان، حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تین مختلف اسانید سے یہی حدیث روایت کی گئی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو اور ان کی اس حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان پر سمع اللہ لمن حمدہ جاری فرما دیا ہے البتہ امام مسلم سے اس حدیث کی سند کے بارے میں ابونضر کے بھانجے ابوبکر نے گفتگو کی تو امام مسلم نے فرمایا سلیمان سے بڑھ کر زیادہ حافظہ والا کون ہو سکتا ہے یعنی یہ روایت صحیح ہے تو امام مسلم رحمہ اللہ سے ابوبکر نے کہا کہ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا کیا حال ہے فرمایا مسلم نے وہ میرے نزدیک صحیح ہے یعنی جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو تو اس نے کہا پھر آپ نے اس حدیث کو یہاں کیوں بیان نہیں کیا تو امام نے جواب دیا میں نے اس کتاب میں ہر اس حدیث کو نقل کیا جو میرے نزدیک صحیح ہو بلکہ اس میں میں نے ان احادیث کو نقل کیا ہے جس کی صحت پر سب کا اجماع ہو۔ (صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر۵۹۰ حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات ۱۴ متفق علیہ ۳)

ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب کےدعویٰ  (امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ پڑھنا فرض ہے)  کی پہلی دلیل کا ایک اور رد اُسی حدیث سے
حافظ عمر صدیق صاحب نےبخاری کی جس حدیث سے دلیل پیش کی ہے بالکل وہی حدیث اسی سند کے ساتھ سُنن ابو داؤد میں بھی موجود ہے جس سےیہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’ جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ اور کچھ مزید نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی‘‘۔ معلوم ہوا کہ بخاری شریف میں یہ حدیث مکمل تفصیل کے ساتھ نہیں ہے۔
حدیث کے مکمل الفاظ کےمطابق تو مقتدی کو صرف سورۃ فاتحہ ہی نہیں بلکہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ مزید قرآن میں سے کوئی اور سورت بھی پڑھنا لازم  ہونا چاہیئے؟ لہٰذا حدیث کےمطابق غیرمقلدین حضرات کی نماز بھی نہیں ہوتی جو امام کی اقتداء میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں اور مزید کوئی سورت نہیں پڑھتے،کیونکہ  حافظ عمر صدیق صاحب کا دعویٰ تو صرف سورۃ فاتحہ پڑھنےکے بارے میں ہے ۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ جلیل القدر محدثین اس حدیث کا کیا مطلب بیان فرماتےہیں۔
سفیان بن عیینہ ؒ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس کے بارے میں ہے جو اکیلا نماز پڑھتا ہے۔ (سُنن ابو داؤدجلد نمبر۱، صفحہ نمبر ۶۰۹)
امام بخاری ؒ کےاستادامام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ کے قول "لا صلاۃ لمن لم یقرا بفاتحة الکتاب" کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اکیلاہو(تو اس وقت اس کو سورۃ فاتحہ پڑھناضروری ہے)۔ (جامع ترمذی :جلد نمبر۱، صفحہ نمبر ۷۱)
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب نے یہ حق بات تو تسلیم کرلی کہ سورۃ الاعراف، آیت نمبر ۲۰۴ میں جو حکم نازل ہوا ہے وہ نماز کے بارے میں ہے۔
ہمارےاہلحدیث بھائی جناب حافظ عمرصدیق صاحب نے اعتراض کیاکہ میری پیش کردہ روایت مرسل ہے کیونکہ محمد بن کعب القرظی (م۴۰ھ علی الاصح) تابعی ہیں صحابی نہیں، اور مرسل حجت نہیں۔
جوابمرسل عند الجمہور حجت اور قابل قبو ل ہے ۔ لہٰذا میری آپ سے گزارش ہے کہ اپنی تحقیق میں اضافہ فرمائیں۔
(قال الامام أبو جعفر مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِىُّ م ۳۱۰ھ) واجمع التابعون باسر ھم  علی قبول المرسل ولم یات عنھم انکارہ ولا عن احد من الائمۃ بعد ھم الی راس الماتین ۔(قواعد فی علوم الحدیث للعثمانی: ص ۱۴۶،ص۱۴۷)
(د قال الامام عبد الرحمن الشہیر بابن رجب الحنبلی م۷۹۵ھ) قد استدل کثیر من الفقہا ء بالمرسل۔و حُکِیَ الاحتجاج بالمرسل عن اھل الکوفۃ وعن اھل العراق جملۃً  و حکاہ الحاکم  عن ابراہیم النخعی و حماد بن ابی سلیمان وابی حنیفۃ و صاحبیہ(شرح علل الترمذی لابن رجب ص۲۴۴)
(وقال الامام المحدث ظفر احمد العثمانی م۱۳۹۴ھ) اما الاجماع فھوان الصحابۃ والتابعین اجمعوا  علی قبول المراسیل من العدل (قواعد فی علوم الحدیث :ص۱۴۰)
نیز اس مرسل کی تائید حدیث ابن عباس ؓ متصل مرفوع سے بھی ہوتی ہے لہذا یہ مرسل حجت ہے۔ تحقیق السند: اسنادہ حسن ورواتہ ثقات۔
أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان أنا أحمد بن عبيدا لصَّفَّارُ ، نا عبيد بن شَرِيكٍ ، نا ابن أبي مريم ، نا ابن لَهِيعَةَ ، عن عبد الله بن هُبَيْرَةَ ، عن عبد الله بن عباس ،’’أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ في الصلاة فقرأ أصحابه وراءه فخلطوا عليه فنزل (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا) فهذه في المكتوبة‘‘ ثم قال ابن عباس: ’’وإن كنا لا نستمع لمن يقرأ إنا إذًا لأجفىٰ من الحمير‘‘۔(کتاب القراءۃ للبیہقی ص۱۰۹رقم الحدیث:۲۵۵)
چونکہ احادیث بھی وحئی الہی ہیں اورجن لوگوں نے خودکو اور اپنے فرقے کو حق پر اوردوسروں کو گمراہ ثابت کرنے کے لئے صحیح احادیث کو ضعیف قرار دیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ انھوں نے اس وحئی الہی کاانکار کیا تو یقیناً انھوں نے کفر کیا۔
ہمارےاہلحدیث بھائی جناب حافظ عمرصدیق صاحب فرماتے ہیں کہ میری پیش کردہ حضرت ابو ہریرہ ؓ والی حدیث ضعیف ہے۔
جواب: اس روایت کی دو سندیں ہیں:
  1. وَرُوِيَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , كَمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ , أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ , أنا أَحْمَدُ بْنُ بِشْرِ بْنِ سَعْدٍ الْمَرْثَدِيُّ , نا فُضَيْلُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ , ناخَالِدٌ يَعْنِي الطَّحَّان۔
  2. قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , نا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ ۔
پہلی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں پہلی سند کے ثقہ راوی فُضَيْلُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّاب نے دوسری سند کے راوی مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِي کی متابعت کر رکھی ہے۔ ّ مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ خَالِدٌ يَعْنِي الطَّحَّانَ کا بیٹا ہے۔
آج آٹھ دن گزرنے کے بعد بھی ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب نے اب تک اپنے دعویٰ کی ایک بھی دلیل پیش نہیں کی
میراہمارےاہلحدیث بھائی جناب حافظ عمرصدیق صاحب سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے دعویٰ  ( کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی چاہے امام ہو یا نہ ہو مقتدی ہو یا نہ ہو نماز نہیں ہوتی) کے سچے ہونے کی قرآن یا کسی صحیح حدیث سے کوئی ایک دلیل پیش کردیں جس سے یہ بات واضح ہوجائے کہ ان کا اور ان کے فرقہ اہلحدیث کے تمام لوگوں کا یہ دعویٰ سچا ہےیا پھر جھوٹا۔

ہمارے اہلحدیث عمر صدیق بھائی اور تمام اہلحدیث  حضرات کا نعرہ ہے کہ اطیعواﷲ و اطیعوالرسول لیکن جب انھیں ان کے فرقے کے عمل کے خلاف کو ئی صحیح حدیث پیش کی جائے تو فوراً صحیح حدیث کو چھوڑ کر کسی امام کی تقلید کرتے ہوئے ان کے بلا دلیل اقوال پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔
میری ہمارےاہلحدیث بھائی جناب حافظ عمرصدیق صاحب سے گزارش ہے کہ وہ کسی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی امام مجتہد کا قول پیش کرکے اپنے اصولوں کی خلاف ورزی نہ کریں کیونکہ آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جب قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی اما م کا قول ملے تو اسے دیوار پر دے مارو لہٰذا آپ کا یہ استدلال خود آپ کو مقلد ثابت کر رہا ہے ۔
آپ کا انورشاہ کشمیریؒ کا موقف بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے پاس میری پیش کردہ حدیث کا کو ئی جواب نہیں ۔ کیونکہ انور شاہ کشمیریؒ نے جو بات نقل کی ہے اس سے کہیں سورۃ فاتحہ  پڑھنے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید سورت ملانے کی بھی مخالفت کی۔
بخاری کی جس حدیث سے آپ نےاپنی واحد دلیل پیش کی ہےبالکل وہی حدیث اسی سند کے ساتھ میں نے بھی پیش کی ہے لہٰذا اگر آپ کی پیش کردہ حدیث صحیح ہےتو پھر میری پیش کردہ حدیث بھی بالکل صحیح ہوئی۔
ہمارے اہلحدیث عمر صدیق بھائی سے گزارش ہے کہ ابن عیینہ ؒ کی سماعت کے ثبوت کا مطالبہ آپ مجھ سے نہیں بلکہ اپنے معتبرعالم جناب زبیر علی زئی صاحب سے کریں کیونکہ انھوں نےہی اپنے سُنن ابوداؤد کے ترجمہ میں اس حدیث کے ساتھ جناب سفیان ؒ کے قول کو بنا کسی اعتراض کے صحیح تسلیم کرتے ہوئے رقم کیا ہے۔
آپ کے دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ جناب اگر ہم کسی امام یا مجتہد کے کسی قول کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں تو یہ ہماری اصولوں کے خلاف نہیں کیونکہ ہم تقلید کو جائز مانتے ہیں جبکہ آپ کا کسی امام کے قول کو پیش کرنا آپ کے بنیادی اصول کے ہی خلاف ہے کیونکہ آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ دین اسلام میں تقلید شرک،  بدعت اور حرام ہے۔ لہٰذا آپ کا کسی امام یا محدث کے بلا دلیل قول کو پیش کرنا آپ کو اس امام کا مقلد ثابت کر رہا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آپ امام احمد بن حنبل ؒ جیسے جلیل القدر محدث  جو دوسری صدی ہجری کے محدث ہیں۔ ان کا قول آپ کے نزدیک  غلط ہے جن کے علم اور عمل پر پوری اُمت مسلمہ کا اتفاق ہے اور امام نویؒ جوکہ آٹھویں صدی ہجری کے محدث ہیں ان کی تقلید کرتے ہوئےآپ ان کے قول کو دلیل بناکر پیش کر رہے ہیں۔
ہمارے اہلحدیث عمر صدیق بھائی فرماتے ہیں: ’’ واذا قری القران۔الآیه (الاعراف:۲۰۴) کا شان نزول قرآءت خلف الامام نہیں بلکه اسکے مخاطب کفار ہیں‘‘۔
ان کے اس دعویٰ کا تعاقب ملاحضہ فرمائیں۔
بھائی عمر صدیق صاحب مولانا اشرف علی تھانویؒ کی اس عبارت کے آگےکے الفاظ بھی تحریر فرمادیتے تو یقیناًیہ ان کی خیانت نہ کہلاتی۔اس عبارت کے آگے کے الفاظ ملاحضہ فرمائیں’’اس باب میں علماء کے درمیان طویل مباحثے ہیں جن کا اعادہ کا یہاں محل نہیں‘‘۔ مزیدفرماتے ہیں: ’’فاستمعوالہ و النصتوا۔ صیغۂ امر میں ہیں لیکن امر سے مرادیہاں وجوب ہے یا محض استحباب؟ انصتو۔ ایسی خاموشی کو کہتے ہیں جو سننے ہی کی غرض سےاور بہ طور ادب ہو‘‘۔ یہاں یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس معاملےمیں آئمہ مجتہدین میں اختلافات ہیں کیونکہ دلائل دونوں طرف ہیں۔ اس بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ آج کل کے لاعلم مسلمانوں کو یہ چاہیئے کہ اگر آپ نماز میں فاتحہ پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں تو کسی مجتہد کی پیروی کرتے ہوئے اس پر عمل کریں ، خود مجتہد بننے کی کوشش نہ فرمائیں ورنہ نہ مجتہد بن سکیں گے اور نہ ہی مقلدرہیں گے۔میرا عمر صدیق صاحب سے صرف اتنا مطالبہ ہے کہ وہ کوئی مستند دلیل پیش کریں کہ آئمہ مجتہدین نے متفقہ طور پر اس آیت کو کافروں پر نازل ہونا قراردیاہے۔
جناب حافظ عمرصدیق صاحب کے اس دعویٰ پر مندرجہ ذیل سوالات اور اشکال پیدا ہوتے ہیں جن کے جوابات مطلوب ہیں۔
  1.  قرآن مجیدمیں اﷲتبارک و تعالیٰ کےاس حکم پرکہ ’’اور جب قرآن پڑھا جایا کرےتو اس کی طرف کان لگا دیا کرواور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو‘‘  کافروں کا اس حکم پر عمل کرنے کی امید کی جاسکتی ہے؟
  2.  کیا قرآن کو سننے اور اس کی تعظیم کی توقع کفار سے کی جاسکتی ہے؟
  3.  کیا اﷲ تبارک و تعالیٰ کفار کوان کے کفر کے باوجود رحمت نازل فرمانے کی امید دلاسکتےہیں؟ جبکہ وہ اپنے کفر پر ڈٹے ہوں؟
حافظ عمر صدیق بھائی  کی دلیل کے معیار کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ موصوف کے نزدیک دوسری صدی ہجری کے جلیل القدر محدث سفیان بن عیینہؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ  کا قول غلط ہے،  جبکہ چوتھی صدی ہجری کے علامہ خطابیؒ اور آٹھویں صدی ہجری کے امام نووی ؒ کا قول صحیح ہے ۔تعجب کی بات ہے۔۔۔
رسول اﷲﷺنے فرمایا:’’جس شخص نے نماز میں سورۂ فاتحه نہیں پڑهی، اس کی نماز نہیں‘‘۔(صحیح بخاری:حدیث نمبر ۷۵۶)
سفیان بن عیینہ  ؒ (۱۰۷ھ) فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث اس کے بارے میں ہے جو اکیلا نماز پڑھتا ہے‘‘۔ (سُنن ابو داؤدجلد ۱، صفحہ ۶۰۹)
امام بخاری ؒ کےاستادامام احمد بن حنبلؒ (۱۶۴ھ)فرماتے ہیں: ’’نبی کریم ﷺ کے قول "لا صلاۃ لمن لم یقرا بفاتحة الکتاب" کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اکیلاہو(تو اس وقت اس کو سورۃ فاتحہ پڑھناضروری ہے)‘‘۔ (ترمذی :جلد نمبر۱، صفحہ نمبر ۷۱)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ’’میری امت کا سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے ، پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے ۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے‘‘ ۔ (صحیح البخاری: جلد نمبر ۵، كتاب فضائل أصحاب النبى ﷺ،رقم الحدیث ۳۶۵۰)
نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق زمانے کے لحاظ سے علامہ خطابیؒ اورامام نویؒ سے زیادہ معتبر شخصیت سفیان بن عیینہؒ اور امام احمدؒ کی ہے لہٰذا قول بھی ان ہی کا زیادہ معتبر سمجھا جانا چاہیئے۔اب اگر جناب عمر صدیق صاحب کے نزدیک علامہ خطابیؒ اور امام نویؒ کے مقابلے میں ابن عیینہؒ اور امام احمدؒ کے قول کی کوئی حیثیت  نہیں تو وہ کہہ دیں کہ وہ علامہ خطابیؒ اور امام نوویؒ کی تقلید کرتے ہوئے اس حدیث کو امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی دلیل سمجھتے ہیں ، لہٰذا ان کے اس اقرار پر ہم اُن کے اس عمل کو صحیح تسلیم کرلیں گے۔
فرقہ اہلحدیث کے مطابق کسی کی بلا دلیل بات ماننا تقلید ہے لہٰذا یا تو عمر صدیق صاحب اس بات کی دلیل پیش کریں کہ ابن عیینہؒ اورامام احمد  ؒکا قول صحیح نہیں اور علامہ خطابی ؒ اور امام نویؒ کا قول درست ہے یا پھر اپنا مقلد ہونا تسلیم فرمائیں۔ جزاک اﷲخیر
عمر صدیق بھائی نے خود تسلیم کرلیا کہ میری پیش کردہ سورۃ الاعراف ، آیت نمبر ۲۰۴ کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ کی کتاب القراءۃ للبیہقی کی حدیث نمبر ۲۵۵کا راوی اِبنِ لَهِيعَةَ ثقہ ہےلہٰذا یہ حدیث حسن ہے۔پھر بھی موصوف صحیح حدیث کو تسلیم کرنے کا انکار کررہے ہیں جو ان کے قول و فعل کا کھلا تضادہے۔
أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان أنا أحمد بن عبيدا لصَّفَّارُ ، نا عبيد بن شَرِيكٍ ، نا ابن أبي مريم ، نا ابن لَهِيعَةَ ، عن عبد الله بن هُبَيْرَةَ، عن عبد الله بن عباس ،’’أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ في الصلاة فقرأ أصحابه وراءه فخلطوا عليه فنزل (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا) فهذه في المكتوبة‘‘ ثم قال ابن عباس’’وإن كنا لا نستمع لمن يقرأ إنا إذًا لأجفىٰ من الحمير‘‘۔
رسول اﷲﷺ نماز میں قرأت کر رہے تھے۔ آپ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری صحابی بھی پڑھ رہے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی’’ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا‘‘۔ابن عباسؓ فرماتے ہیں: یہ آیت فرض نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(کتاب القراءۃ للبیہقی ص۱۰۹رقم الحدیث:۲۵۵)
عمر صدیق صاحب فرماتےہیں کہ مولانا صفدر صاحب نے ابن لَهِيعَةَ پر جرح کر رکھی ہےلہٰذا یہ حدیث قابل قبول نہیں۔
عمر صدیق صاحب کے اس بیان سے اہلحدیث حضرات کے اس جھوٹ کا پردہ فاش ہوگیا کہ ہم صرف قرآن و حدیث کو ماننتے ہیں اور کسی کی بات تسلیم نہیں کرتے۔اگر ان حضرات کا یہ دعویٰ سچا ہوتا تو تمام اہلحدیث حضرات اس صحیح حدیث کی پیروی کرتے ہوئے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا چھوڑدیتے ۔لیکن کیونکہ یہ عمل ان کے فرقے کے خلاف ہے لہٰذا مولانا صفدر صاحب کی جرح کا بہانہ بناکر صحیح حدیث کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، جوکہ ان کے قول و فعل کا کھلا تضاد ہے۔ اور تعجب  کی بات تو یہ ہے کہ کیا غیرمقلدین حضرات کے نزدیک ایک حنفی عالم مولانا صفدرصاحب کی بیان کردہ جرح اتنی معتبر ہوگئی کہ ان کی بیان کردہ جرح پر غیرمقلدین حضرات کسی راوی کہ ثقہ یا ضعیف ہونے کا دارومدار بنالیا؟
اگر عمر صدیق صاحب کے نزدیک مولانا صفدر صاحب کی جرح اتنی ہی معتبر ہے تو پھر صفدر صاحب کی اُن جرحوں کو بھی صحیح تسلیم کریں جو کہ ان راویان پر ہے جو کہ ان کے فرقےکی مخالفت میں ہیں ۔ صرف اِس جرح کو تسلیم کرنا جو کہ ان کے فرقے کی تائید میں ہےاِن کے قول و فعل کا کھلا تضاد ہے۔
جب کسی فعل کے منسوخ ہونے کی واضح دلیل قرآن مجید کی آیت سے اور اس آیت کی تشریح رسول اﷲﷺ کی حدیث سے اور اس حدیث کی تشریح حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ جیسے فقیہہ صحابی سےمل جائے تو پھر مزید سوالات اور اشکال کرنا کسی مسلمان کا کام نہیں بلکہ شیطان کے پیروکاروں کا کام ہے۔
"قال اللہ عزوجل: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ" (الاعراف۲۰۴)
’’اور جب قرآن پڑھا جایا کرےتو اس کی طرف کان لگا دیا کرواور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔‘‘
أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان أنا أحمد بن عبيدا لصَّفَّارُ ، نا عبيد بن شَرِيكٍ ، نا ابن أبي مريم ، نا ابن لَهِيعَةَ ، عن عبد الله بن هُبَيْرَةَ، عن عبد الله بن عباس ،’’أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ في الصلاة فقرأ أصحابه وراءه فخلطوا عليه فنزل (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا) فهذه في المكتوبة‘‘ ثم قال ابن عباس: ’’وإن كنا لا نستمع لمن يقرأ إنا إذًا لأجفىٰ من الحمير‘‘۔
رسول اﷲﷺ نماز میں قرأت کر رہے تھے۔ آپ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری صحابی بھی پڑھ رہے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی’’ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا‘‘۔ابن عباسؓ فرماتے ہیں: یہ آیت فرض نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(کتاب القراءۃ للبیہقی ص۱۰۹رقم الحدیث:۲۵۵)
جب کسی مسئلے پر اﷲ اور اس کے رسول ﷺ فیصلہ سنا دیں ، پھر اس پر مزید قیاس آرائیاں اور اشکال کرنا مسلمانوں کا کام نہیں بلکہ شیطان کے پیروکار وں اور یہود و نصاریٰ کا کام ہے۔تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اﷲ اور رسولﷺ کے پیروکار بنیں ۔
ہمارے اہلحدیث عمر صدیق بھائی سے گزارش ہے کہ وہ میری پوسٹس کا مکمل مطالعہ فرماکر اعتراض پیش کیا کریں۔ جن اعتراضات کےجوابات میں پہلے ہی دے چکاہوں انھیں بار بار دہراکر اپنا اور میرا قیمتی وقت برباد نہ کریں۔ اگر میرے جوابات  کے رد میں کوئی دلیل ہےتو پیش کریں صرف لفاظیوں سے کام نہ چلائیں۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ، وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ 
اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، ابونعیم وہب، بن کیسان، جابر بن عبداللہ ؓفرماتے ہیں جس نے ایک رکعت بھی سورۃ فاتحہ کے بغیر پڑھی گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(جامع ترمذی:جلداول:باب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ:رقم الحدیث ۳۰۱)
عمر صدیق صاحب یہ ثابت کرکے دکھائیں کہ حضرت جابر بن عبداﷲؓ کی بیان کردہ موقوف حدیث قابل قبول نہیں ہے اور آپ کا بخاری کی حدیث کو فاتحہ کی فرضیت کے جواز میں پیش کرنا موقوف حدیث کے مقابلے میں صحیح ہے جبکہ اس حدیث میں جماعت کی نماز کا ذکر تک نہیں۔
میں پہلے بھی بتاچکا ہوں حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت کی دو سندیں ہیں:
  1. وَرُوِيَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , كَمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ , أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ , أنا أَحْمَدُ بْنُ بِشْرِ بْنِ سَعْدٍ الْمَرْثَدِيُّ , نا فُضَيْلُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ , ناخَالِدٌ يَعْنِي الطَّحَّانَ،
  2. قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , نا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ،
پہلی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں پہلی سند کے ثقہ راوی فُضَيْلُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّاب نے دوسری سند کے راوی مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِي کی متابعت کر رکھی ہے ّ مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ خَالِدٌ يَعْنِي الطَّحَّانَ کا بیٹا ہے۔
ہمارے اہلحدیث عمر صدیق بھائی کے اعتراضات اور دعویٰ کہ ’’امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نمازنہیں ہوتی‘‘  کا رد ان کے اپنے معتبر اہلحدیث عالم و مترجم مولانا بدیع الزمانؒ کی جامع ترمذی کے ترجمہ سے۔
جناب حافظ عمر صدیق صاحب سے سوال: کیا حضرت جابر بن عبداﷲؓ کی نماز ہوئی یا نہیں؟ کیونکہ وہ بھی تو امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھتے تھے۔
فاتحہ نہ پڑھنے کی دلیل اہلحدیث عالم مولانا جونا گڑی کے تفسیرابن کثیر کے ترجمہ سورۃ الاعراف (آیت ۲۰۴) سےملاحضہ فرمائیں۔
الله کی قسم ہم نے فریق ِمخالف کے گهر سے حوالہ پیش کر کے بهی نبی ﷺکی سنت پر عمل کیا ہے۔ پتہ چلا کہ فریق مخالف کے گهر سے حوالہ دینا یہ تو میرے نبی ﷺکی سنت ہے اور ہم نے جو بهی بات ابهی تک کی ہے وه سنت پر چلتے ہوئے کی ہے۔ اور مزه بهی تب ہی آتا ہے کہ جس کو فریق مخالف کے ہاں بہت مقام حاصل ہو اس سے حوالہ دیا جائے۔
ہمارے اہلحدیث عمر صدیق بھائی سے گزارش ہے کہ وہ میری پوسٹس کا مکمل مطالعہ فرماکر اعتراض پیش کیا کریں۔ جن اعتراضات کےجوابات میں پہلے ہی دے چکاہوں انھیں بار بار دہراکر اپنا اور میرا قیمتی وقت برباد نہ کریں۔ اگر میرے جوابات  کے رد میں کوئی دلیل ہےتو پیش کریں صرف لفاظیوں سے کام نہ چلائیں۔
جناب عمر صدیق صاحب دعویٰ کررہے ہیں کہ انھوں نے  لفظ ’’من‘‘ کاعموم پر دلالت کرنا قرآن سے ثابت کیاہے۔
میری جناب عمر صدیق صاحب درخواست ہے کہ وہ قرآن کی وہ آیت پیش کریں جس میں لفظ ’’من‘‘کے وہی معنیٰ ثابت ہوتے ہیں جو یہ بیان فرمارہے ہیں، پھر میں اس بات کی دلیل قرآن سےپیش کرونگا کہ لفظ ’’من‘‘ کے جو معنیٰ موصوف بیان فرمارہے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔
پھر فرماتے ہیں کہ محدثین نے امام احمدؒکے قول کا ردپیش کیا ہے۔
اس پر میرا مطالبہ ہے کہ اُن محدثین کانام پیش کردیں اور ان کےرد کی دلیل بھی تاکہ ہم یہ فیصلہ کرسکیں کے کونسا محدث زیادہ معتبر ہے اور کس محدث کی دلیل زیادہ قوی ہے ورنہ بلادلیل بات مان کر تو آپ اُس محدث کے مقلد بن جائیں گے۔جبکہ آپ کےنزدیک تقلید حرام ہے۔
پھر فرماتے ہیں کہ سفیان بن عیینہؒ کا ابو داؤدؒ سے ملاقات ثابت کرو۔
اس اعتراض کا میں پہلے بھی جواب دے چکا ہوں کہ ابن عیینہ ؒ کی سماعت کے ثبوت کا مطالبہ آپ مجھ سے نہیں بلکہ اپنے معتبرعالم جناب زبیر علی زئی صاحب سے کریں کیونکہ انھوں نےہی اپنے سُنن ابوداؤد کے ترجمہ میں اس حدیث کے ساتھ جناب سفیان ؒ کے قول کو بنا کسی اعتراض کے صحیح تسلیم کرتے ہوئے رقم کیا ہے۔اب جو اعتراض آپ مجھ پر کر رہے ہیں پہلے وہی اعتراض زبیر علی زئی پر کریں۔ پھر بھی ہم ان کے مطالبے پر امام ابو داؤدؒ کی سماعت امام سفیان بن عیینہؒ سے ثابت کیئے دیتے ہیں۔ امام ابو داؤدؒ سے  امام سفیان بن عیینہؒ کی سماعت کی سند ملاحضہ فرمائیں۔
آپ کا انورشاہ کشمیریؒ کا موقف بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے پاس میری پیش کردہ حدیث کا کو ئی جواب نہیں ۔ کیونکہ انور شاہ کشمیریؒ نے جو بات نقل کی ہے اس سے کہیں سورۃ فاتحہ  پڑھنے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا، صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ  کے بعد مزید کوئی سورت ملانا ضروری نہیں ۔آپ سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی انورشاہ کشمیری ؒ کی پوری بات نقل کریں، صرف اپنے  مطلب کی نہیں۔
اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی۔"قال اللہ عزوجل: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف۲۰۴)
’’
اور جب قرآن پڑھا جایا کرےتو اس کی طرف کان لگا دیا کرواور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔‘‘
اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی۔
قال أحمد: فالناس على أن هذا في الصلاة وعن سعيد بن الْمُسَيَّبِ و الحسن و إبراهيم و محمد بن كعب و الزهري أنها نزلت في شأن الصلاة وقال زيد بن أسلم و أبو العالية كانوا يقرأون خلف الإمام فنزلت : (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) وقال أحمد في رواية أبي داود : أجمع الناس على أن هذه الآية في الصلاة ولأنه عام فيتناول بعمومه الصلاة۔ (المغنی لابن قدامۃ :ج۲ص۱۱۷) (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ :ج۲۲ص۱۵۰)
جنا ب حافظ عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بیان کردہ اجماع کو مکمل طور پر بمع حوالہ تحریر فرمائیں کیونکہ مبہم بات  قابل قبول نہیں۔ اور ساتھ ہی میرے پیش کردہ دلائل کے ثبوت میں جو میں نے اجماع نقل کیاہے اس پر بھی نظرثانی فرمائیں جس کا آپ نے اب تک جواب نہیں دیا۔
جنا ب حافظ عمر صدیق صاحب نے اپنے دعویٰ کے مطابق اب تک اس بات کی کوئی دلیل پیش نہیں کہ جس شخص نے امام کے پیچھے نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی۔ برائے مہربانی اپنے اس دعویٰ پر مجھے قرآن کی کوئی ایک آیت یااحادیث مبارکہ سے کوئی ایک دلیل پیش کردیں ورنہ اپنے موقف سے رجوع فرمالیں۔ شکریہ
جناب حافظ عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ دلیل اپنے دعویٰ کے مطابق پیش کریں جس بات پر آپ اجماع نقل کررہے ہیں اس پر تو ہم بھی متفق اور عمل پیراہیں، لیکن آپ کا دعویٰ یہ نہیں لحاظہ آپ اپنی پیش کردہ حدیث اور  دعویٰ کے مطابق دلیل پیش کریں۔
اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی۔
قال أحمد: فالناس على أن هذا في الصلاة وعن سعيد بن الْمُسَيَّبِ و الحسن و إبراهيم و محمد بن كعب و الزهري أنها نزلت في شأن الصلاة وقال زيد بن أسلم و أبو العالية كانوا يقرأون خلف الإمام فنزلت : (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) وقال أحمد في رواية أبي داود : أجمع الناس على أن هذه الآية في الصلاة ولأنه عام فيتناول بعمومه الصلاة۔ (المغنی لابن قدامۃ :ج۲ص۱۱۷) (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ :ج۲۲ص۱۵۰)
جنا ب حافظ عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کہ مطابق اجماع پیش کرکے دکھائیں۔ جس طرح میں نے اپنے دعویٰ کے مطابق قرآنِ مجیدکی آیت سورۃ الاعراف(۲۰۴) کا نمازکے بارے میں نازل ہونے پر اجماع پیش کیاہے۔
جس طرح آپ قرآن کی واضح آیت کی مخالفت کرتے ہوئے بخاری کی حدیث سے استدلال کرتےہوئے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فرضیت ثابت کر رہے ہیں جبکہ اس حدیث میں امام کا ذکر تک نہیں ،بالکل اسی طرح ابو داؤد کی حدیث سے آپ کو امام کے پیچھے مزید سورت ملانے کا بھی پابند ہونا چاہیئے۔ یہ کیا کہ حدیث کے پہلے حصہ پر تو عمل ہے لیکن دوسرحصہ پر نہیں۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب کےدعویٰ کی پہلی دلیل حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی حدیث کی جامع تحقیق کے بعد ان کے مؤقف کا مکمل ردا حادیث مبارکہ کی روشنی میں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فر مایا :’’الحدیث اذا لم تجمع طر قہ لم تفہمہ والحدیث یفسر بعضہا بعضا ‘‘۔ کہ جب تک حدیث کے طرق جمع نہ کر لیں اس وقت تک حدیث کا معنی ٰنہیں سمجھ سکتے، کیونکہ ایک حدیث دوسری حدیث کی تشریح کرتی ہے۔(الجا مع لاخلاق الرا وی ص:۳۷۰ رقم۱۶۵۱)
اس اصو ل کے تحت ہم نے حدیث عبا دہ کے مختلف طرق جمع کیے، جن میں یہ الفا ظ آئے ہیں:
’’لا صلوۃ لمن لم یقرء بفا تحۃ الکتا ب  فصاعداً “(خلق افضل العبا د للبخا ری :ص۶۷، صحیح مسلم :ج۱،ص۱۶۹، سنن ابی دا ود :ج۱، ص۱۲۶)
نیزاس روایت کےکئی اور شواہدبھی موجودہیں جو ذیل میں درج ہیں:
’’عن ابی ہریرۃ مرفوعًا: لا صلوۃ الا بقرءاۃ فا تحۃ الکتاب فما زاد‘‘(ابو داود :ج۱،ص۱۲۵،  با ب من تر ک القر ءاۃ فی صلوتہ ، صحیح ابن حبان :ج۳، ص۱۴۱، رقم الحد یث ۱۷۸۸،کتا ب القرءۃ للبیہقی :ص۱۳،۱۴، رقم الحدیث ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹)
’’عن ابی سعید الخدری مرفوعاً: امر نا ان نقرء بفا تحۃ الکتا ب  وما تیسر‘‘(ابو داود :ج۱، ص۱۲۵،  با ب من تر ک القر ءاۃ فی صلوتہ ، صحیح ابن حبا ن :ج۳،ص۱۴۰،  رقم الحدیث ۱۷۸۸ ،کتا ب القرءۃ للبیہقی :ص۱۵،  رقم الحدیث۳۲ یا ۳۵)
’’عن أبي سعيد مرفوعا: لا صلاة لمن لم يقرأ في كل ركعة بالحمد لله وسورة في فريضة أو غيرها‘‘(سنن ابن ماجۃ :ص۶۰ ، باب القراءۃ خلف الامام، کتا ب القرءۃ للبیہقی :ص۱۶،  رقم الحدیث ۳۶، ۳۷)
تمام طرق جمع کرنے سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا مخاطب وہ شخص ہے جو دو نو ں سورتیں  [یعنی سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت]پڑ ھتا ہے، مقتدی اس کا مخا طب نہیں ۔ لہذا یہ روایت مقتدی پر وجوب قر اءۃ کی دلیل نہیں  بلکہ انفرادی نمازمیں قرأت کی دلیل ہے۔
حافظ عمر صدیق صاحب کی ناانصافی کا عالم دیکھئے کہ موصوف نے میری سند کاایک راوی ’’محمود بن الربیع ‘‘ ہی حذف کردیا۔خدارا غور کریئے اور کچھ خدا کا خوف کیجئے۔
حافظ عمر صدیق صاحب! برائے مہربانی میرے اس سوال کا جواب عنایت فرما دیجئے کہ آپ کی بیان کردہ بخاری کی حدیث اور میری بیان کردہ ابو داؤد کی حدیث دونوں سند و متن کےلحاظ سے تقریباً ایک جیسی اور ایک ہی صحابی رسولﷺ سے منقول ہیں، جب آپ بخاری کی حدیث پر عمل کرتے ہیں تو پھر ابوداؤد کی صحیح حدیث پر عمل کیوں نہیں کرتے۔ جواب ضرور عنایت فرمائیے گا۔
امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر اہلسنت والجماعت (احناف) کی دلیل نمبر۴:
ذیل میں پیش کردہ جامع ترمذی کی حسن صحیح حدیث جس کی تشریح  بھی مشہور غیرمقلد عالم علامہ مولانا بدیع الزمانؒ نے کی ہے، امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی۔
مندرجہ بالا حدیث کو پڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی تو ایساشخص یا فرقہ لوگوں کی اصلاح نہیں بلکہ لوگوں کو دین اسلام کے نام پر گمراہ کررہا ہے۔ تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی ایسے شخص و فرقے کی باتوں میں آکر اپنی نمازوں کو ضائع مت کریں۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب کی دلیل نمبر ۲ کا رد حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ہی بیان کردہ حدیث سے۔  جس سےبات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ صحابہ کرامؓ رسول اﷲﷺ کے ساتھ نماز میں قرأت کیا کرتے تھے ، اس پر آپ ﷺ  نے فرمایا مجھ سے قرآن چھنا جاتا ہے، پھر صحابہ کرام ؓ قرأت کرنے سےباز آگئے۔
احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے ہمیں یہ بات بآسانی سمجھ آتی ہے کہ ابتدائے اسلام میں جسطرح نماز میں بات چیت کرنے کی اورسلام کا جواب دینےکی اجازت تھی لیکن بعد میں نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو اس عمل سے روک دیا، بالکل اسی طرح امام کے پیچھے نمازمیں قرأت کرنے کی بھی اجازت تھی۔ لیکن جب اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف میں قرآن کی تلاوت کے وقت خاموش رہنے کا حکم دیا اور رسول اﷲﷺ نے نماز کے دوران قرأت کرنے پر یہ فرمایا کہ ’’مجھےیوں محسوس ہواکہ مجھ سے قرآن چھناجاتا ہے‘‘پھر صحابہ کرامؓ اجمعین نے آپ ﷺ کے پیچھے قرأت کرنا ترک فرمادیا۔
اتنے واضح دلائل کے بعد مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں۔اﷲپاک سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب  کے دہرے معیار کا حال ذیل میں پیش کردہ ان کی اپنی پوسٹس سے ملاحضہ فرمائیں جس میں قولِ منقطع کو بے سند ہونے اوردوسری جگہ مرسل روایت کے ضعیف ہونےکا طعنہ دے رہے ہیں اور دوسری پوسٹ میں مرسل اور منقطع روایت کوصحیح کہہ کر دلیل پیش کررہے ہیں۔
جناب حافظ عمر صدیق صاحب  کا دہرہ معیار دیکھ کر مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ جب میں نے دلیل کے طور پر ایک منقطع اور مرسل روایت پیش کی تو بے سند اورضعیف کہہ کر رد کردیا اور جب اپنی باری آئی تو منقطع اور مرسل روایت کوصحیح قراردیکر بطورِدلیل پیش کردیا اور سونے پر سوہاگا یہ کہ اس پر انصاف کی امید کا مطالبہ بھی ہم سے ہی کررہے ہیں۔
یہ ہے ہمارے اہلحدیث بھائیوں کا حال ۔ خود ہی اصول بناکرپابند کرتے ہیں اور جب اپنی باری آتی ہے تو اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کو جوتے کی نوک پر رکھ دیتے ہیں۔ اﷲسمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب قرآن و حدیث اور ان کے گھر کےدلائل سے ابھی سے عاجز آگئے کہ انھوں نے اپنے دلائل اور جوابات پیش کرنےکے بجائے مجھے غلط القابات سے نوازنا شروع کردیاجو شخص دلائل سے خالی اور مخالفین کے دلائل سے عاجز آجاتا ہے وہ اپنی جان چھڑانے کے لئے اسی طرح کا طرزعمل اختیار کرتاہے۔
جناب حافظ عمرصدیق صاحب سے گزارش ہے کہ اپنی جان چھڑانے سے پہلے میرے ان سوالوں کے جوابات تو دیتے جائیں:
اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، ابونعیم وہب، بن کیسان، جابر بن عبداللہ ؓفرماتے ہیں جس نے ایک رکعت بھی سورۃ فاتحہ کے بغیر پڑھی گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ (جامع ترمذی:جلد اول،رقم الحدیث ۳۰۱)
سوال نمبر ۱: آپ کی پیش کردہ صحیح بخاری کی حدیث جس سے آپ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کو فرض قرار دے رہےہیں اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان جماعت کی نماز کے لیے ہے؟جبکہ اس حدیث کے بارے میں جلیل القدر صحابی حضرت جابر بن عبداﷲرضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ انفرادی نماز کے بارے میں ہے ۔
سوال نمبر ۲: جلیل القدر صحابی رسول جابر بن عبداﷲؓ کا فہم زیادہ معتبر ہے یا آپ اور آپ کے فرقے کے لوگوں کا؟
سوال نمبر ۳: زمانے کے لحاظ سے علامہ خطابیؒ اورامام نویؒ سے زیادہ معتبر شخصیت سفیان بن عیینہؒ اور امام احمدؒ کی ہے لہٰذا قول بھی ان ہی کا زیادہ معتبر سمجھا جانا چاہیئے۔پھرکیا وجہ ہے کہ جناب عمر صدیق صاحب کے نزدیک علامہ خطابیؒ اور امام نوویؒ کے مقابلے میں صحابی رسول حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲؓ، ابن عیینہؒ اور امام احمدؒ کے قول کی کوئی حیثیت  نہیں ؟
سوال نمبر ۴: آپ اور آپ کےفرقے کا دعویٰ ہے کہ کسی کی بلادلیل بات ماننا تقلید ہے، اور تقلید شرک و حرام ہے۔اب یا تو آپ اپنے دعویٰ کے مطابق  علامہ خطابیؒ اور امام نووی ؒ کی پیش کردہ اقوال کے صحیح ہونے کی دلیل پیش کردیں ؟ یا پھر یہ تسلیم کرلیں کہ آپ ان آئمہ کرام کے مقلد ہیں،  کیونکہ کسی کی بلا دلیل بات ماننا تقلید ہےاور آپ اور آپ کے فرقے کے نزدیک تقلید شرک و حرام ہے۔
اہلحدیث حضرات کا نعرہ ہےکہ اہلحدیث کے دو ہی اصول ’’واطیعوﷲ و اطیعوالرسول‘‘ لیکن جب ان سے کسی مسلئے پر دلیل کا مطالبہ کیا جائے تو فوراً اﷲ اور رسول ﷺ کو جھوڑ کر حنفی علماء سے اپنے مؤقف کی تائید میں دلیل پیس کرکے اپنے کئے ہوئے دعویٰ کو جھوٹا ثابت کردیتے ہیں۔ کیا یہ ان کی کھلی منافقت نہیں؟
میں نے جناب عمر صدیق صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے دعویٰ کے مطابق قرآن کی وہ آیت پیش کریں جس میں لفظ ’’من‘‘کے وہی معنیٰ ثابت ہوتے ہیں جو یہ بیان فرمارہے ہیں لیکن  موصوف نے اپنے مؤقف کی دلیل قرآن و حدیث سےپیش کرنےکے بجائے حنفی علماء کی تقلید کرتے ہوئے ان کے اقوال پیش کرکے اپنے آپ کو احناف کا مقلد بنا ڈالا۔اب کہاں گئے وہ اصول ’’و اطیعوﷲو اطیعوالرسول‘‘؟؟؟
اب میں اس بات کی دلیل قرآن سےپیش کرتاہوں کہ لفظ ’’من‘‘ کے جو معنیٰ موصوف بیان فرمارہے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔
اولاً کلمہ ”من ‘‘کے متعلق علماء مثلاً امام سرخسیؒ وغیرہ اصول بیان فر ماتے ہیں:’’وھی عبارۃ عن ذات من یعقل وھی تحتمل الخصوص والعموم‘‘(اصو ل السرخسی :ج۱،ص۱۵۵،  نور الانوا ر :ص۷۵،۸۱)
قرآن مجید میں لفظ  ”من ‘‘کئی مقامات پر خصوص کے لیےبھی آیا ہے۔مثلاً ’’قال عزوجل: وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ‘‘(الشوری:۵) اور دوسرے مقام پر تصریح فرما دی کہ فرشتے صرف مومنین کے لیے ہی دعا کرتے ہیں’’وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا  الآیۃ‘‘(المومن:۷) معلوم ہوا کہ یہاں لفظ من ‘‘عمو م کے لیے نہیں بلکہ خصوص کے لیے ہے۔
 ’’قال عز وجل:أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ‘‘ (الملک:۱۶،۱۷) یہاں بھی لفظمن ‘‘ہے اور مراد صرف اللہ تعالی کی ذاتِ مبارکہ ہے۔لہذا  اس حدیث میں لفظ  ”من ‘‘بھی  خصوص کے لیے ہے جیسا کہ مشہور محد ث علامہ ابن عبد البر ؒنے ”التمہید “ میں اس کی تصریح فر مائی ہے’’عن عبا دۃ رضی اللہ عنہ وھو محتمل للتاویل ۔۔۔ خاص وواقع علی من صلی وحدہ  او کا ن اماماً‘‘۔(التمہید :ج۴، ص۴۴۸، ۴۴۹)  لہذا لفظ  ”من ‘‘ کو عموم پرسمجھ کر اس سے مقتدی کی قرأت ثا بت کر نا دھوکہ و فریب ہے ۔
فرقہ اہلحدیث کے معتبرعالم جناب زبیر علی زئی صاحب نےاپنے سُنن ابوداؤد کے ترجمہ میں اس حدیث کے ساتھ جناب سفیان بن عیینہ  ؒ کے قول کو بنا کسی اعتراض کے صحیح تسلیم کرتے ہوئے رقم کیا ہے۔الله کی قسم ہم نے فریق ِمخالف کے گهر سے حوالہ پیش کر کے بهی نبی ﷺکی سنت پر عمل کیا ہے۔ پتہ چلا کہ فریق مخالف کے گهر سے حوالہ دینا یہ تو میرے نبی ﷺکی سنت ہے اور ہم نے جو بهی بات ابهی تک کی ہے وه سنت پر چلتے ہوئے کی ہے۔
اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، ابونعیم وہب، بن کیسان، جابر بن عبداللہ ؓفرماتے ہیں جس نے ایک رکعت بھی سورۃ فاتحہ کے بغیر پڑھی گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔(جامع ترمذی:جلد اول:رقم الحدیث ۳۰۱)
سفیان بن عیینہ ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کے قول کی تائید جلیل القدر صحابی حضرت جابر بن عبداﷲرضی اﷲعنہ سے بھی ہوتی ہے۔ وہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ انفرادی نماز کے بارے میں ہے۔
میں نے اپنے مؤقف کے صحیح ہونے کی دلیل جلیل القدر صحابی رسول جابر بن عبداﷲؓ کے قول سے  پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ عمر صدیق صاحب کی پیش کردہ صحیح بخاری کی حدیث میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کی تاکید جماعت کی نماز کے لئے نہیں ہے بلکہ انفرادی نماز کے لئے ہے۔
میرا مطالبہ ہے کہ اب حافظ عمر صدیق صاحب بھی اپنی بیان کردہ صحیح بخاری کی حدیث پر کسی صحابی رسول ﷺ کا قول پیش کرکےیہ ثابت کریں کہ یہ حکم انفرادی اور جماعت  دونوں نمازوں کے لئے ہے۔
سورۃ الاعراف (آیت ۲۰۴) کاحکم نماز میں مکمل طور پر خاموش   رہنے کااعتراف غیر مقلدین (اہلحدیث حضرات) کے گھر سے
الحمداﷲ! ہم نے مخالفین کے گھر کے اعتراف سے یہ ثابت کردیا کہ سورۃ الاعراف(۲۰۴) کا حکم نماز میں امام کی قرأت کے دوران مکمل طور پر خاموش رہنے کا حکم ہے۔اب قرأت چاہے سورۃ فاتحہ کی ہو یاکسی اور سورت کی دونوں ہی قرآن کی تلاوت میں شامل ہیں ،کیونکہ دونوں ہی قرآن مجید کا حصہ ہیں۔
میری جناب حافظ عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ زرا صبر سے کام لیا کریں اور اپنی خوش فہمی کا بھی اعلاج کریں کیونکہ دین اسلام ان دونوں برائیوں کی نفی کرتا ہے۔باقی رہی اب تک دلائل کی بات تو الحمد اﷲ میں نے اب تک آپ کے تمام دلائل کا منہ توڑ جواب دیاہے اور آپ کی طرف سے اب تک گیدڑ بھپکیاں ہی سنتا رہا ہوں۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا ( اس میں علمی و دینی غلبہ بھی داخل ہے ) یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ غالب ہی رہیں گے ۔ (صحيح البخاری :كتاب الاعتصام بالكتاب والسنةرقم الحديث۷۳۱۱)
مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں  یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ ہر دور میں مسلمانوں کی ایک جماعت حق پر غالب رہے گی اور جنگ کرتی رہے گی۔اب سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کونسی جماعت ہے  جو پچھلے ۱۴۰۰ سالوں سے حق پر غالب رہی ہے اور ساتھ میں جنگ بھی کرتی رہی ہے۔
اسلامی تاریخ  اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانوں میں فقہ حنفی کے ماننے والوں کی تعداد ہمیشہ سب سے زیادہ رہی ہے اور علمی اور دینی لحاظ سے بھی اسی فقہ کے ماننے والوں کا غلبہ رہا ہے اور جہاد کے میدانوں میں بھی سب سے زیادہ خدمات وفتوحات اِنھی کے ماننے والوں کی ہیں اور الحمدﷲآج بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ مجاہدین اسی فقہ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔غیر مقلدین حضرات سے گزارش ہے کہ وہ ان ۱۴۰۰سالہ تاریخ میں اپنی کوئی ایک علمی یاجہادی جماعت اور اس کی کوئی ایک دینی خدمت پیش کردیں جس سے وہ اس حدیث کا مصداق بن سکیں۔
جناب حافط عمر صدیق صاحب! پچھلی بار آپ کی طرف سے بھی جواب آنے میں کافی تاخیر ہوئی تھی لیکمیرادین مجھے صبر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ باقی رہی ضدکی بات تو الحمداﷲ ہم نے ن میں نے صبر کادامن نہیں چھوڑا تھا۔ کیونکہ دلائل کی دنیا میں مخالفین کے گھر سےدلیلیں پیش کرکے یہ واضح کردیا ہے کہ ضد پر کون ہے اورحق پر کون۔
بسم الله الرحمن الرحیم
اسلام علیکم !الحمدالله !تمام حنفی بھائیوں کو اپنا اہلسنت ہونا مبارک ہو،تم وه عظیم گروه ہو جس کے بارے میں امام الانبیاءجناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان ہوا تها کہ  ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا (اس میں علمی و دینی غلبہ بھی داخل ہے ) یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ غالب ہی رہیں گے ‘‘۔ (صحيح البخاری :كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة: رقم الحديث۷۳۱۱)
الحمداﷲ! اُس پاک پروردگار کا بہت کرم ہے کہ اُس نے میری زبان سے کلمہ حق کہلوایا اور ہمارے عام مسلمان بھائیوں نے اس حق بات کی طرف رجوع کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ الحمداﷲ! احناف کا ہر عمل قرآن و حدیث اور صحابہ و تابعین کے عمل سے ثابت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ایک بھائی نے میری پوسٹ پڑھ کر نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے پر اپنےمؤقف سے رجوع کرلیا۔
ضد پر کون ہے اور تعصب کو ن پھیلارہا ہے اس بات کا اندازہ خود حافظ صاحب کے بدلتے بیانات سے ہورہاہے۔موصوف پہلے خودحضرت  عبادہ بن صامت ؓ کی ابو داؤد کی حدیث کے راویوں پر اعتراض کرتے ہیں ،پھر خود ہی کہتے ہیں کہ ’’مسئلہ جرح و تعدیل کا نہیں ہے‘‘، پھر اگلےہی جملے میں لکھتے ہیں کہ ’’متن کے مل جانے سے روایت کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوتا‘‘۔
جناب حافظ عمر صدیق صاحب پھر آپ ہی بتادیں کہ کسی حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے کا فیصلہ کس طرح کیا جاتا ہے؟
ہم نے تو آج تک یہی پڑھا اور سنا تھا کہ کسی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا دارمداراس کے متن یا سند پر ہوتا ہے۔ اب ہمارے اہلحدیث بھائی حافظ عمر صدیق صاحب نے یہ نئے اصول کہاں سے بیان فرمائےہیں واﷲعالم۔ میرا حافظ صاحب سے مطالبہ ہے کہ وہ میری پیش کردہ ابو داؤد کی روایت کو اصولِ جرح و تعدیل کے مطابق ضعیف ثابت کرکے دکھائیں ورنہ اپنےقول سے رجوع فرمائیں۔
ضد پر کون ہے اور تعصب کو ن پھیلارہا ہے اس بات کا اندازہ خود حافظ عمر صدیق صاحب کے بدلتے بیانات سے ہورہاہے۔بیچارے تین ہفتوں سے اپنی پہلی اور آخری دلیل سےہی اب تک امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کو فرض  ثابت نہ کرسکے ہیں۔ جبکہ ان کی پہلی دلیل تو قرآن مجید سے ہونی چاہئے تھی۔
جناب حافظ عمر صدیق صاحب نے اب تک قرآن سے ایک آیت بھی پیش نہیں کی جس سے اما م کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہواور نہ ہی کسی حدیث سے یہ ثابت کرسکے ہیں کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز باطل ہے ۔ اس کے برعکس میں نے سب سے پہلے قرآن کی آیت سورۃ الاعراف(۲۰۴) پیش کی پھر صحیح مسلم اور ترمذی کی کئی احادیث پیش کیں جن سےامام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کی واضح دلیل ملتی ہے۔لیکن موصوف حق بات تسلیم کرنے میں آر محسوس کرتے ہوئے مسلسل ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ان کی ضد اور تعصب کا عالم دیکھئے کہ  اپنے ہی معتبر عالموں کے تفسیرابن کثیر کے تراجم جن میں سورۃ الاعراف (۲۰۴) کی مکمل تفصیل موجود ہے، جس سے واضح طور پر امام کے پیچھے قرأت کرنے کی ممانعت ملتی ہے ، قبول نہ کرنے پر اڑے ہیں۔ بھلا ضد اور تعصب کی اس سے بڑھ کرمثال اور کیا ہوگی۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب  کے دہرے معیار کا حال ذیل میں پیش کردہ ان کی اپنی پوسٹس سے ملاحضہ فرمائیں جس میں قولِ منقطع کو بے سند ہونے اوردوسری جگہ مرسل روایت کے ضعیف ہونےکا طعنہ دے رہے ہیں اور دوسری پوسٹ میں مرسل اور منقطع روایت کوصحیح کہہ کر دلیل پیش کررہے ہیں۔
جناب حافظ عمر صدیق صاحب  کا دہرہ معیار دیکھ کر مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ جب میں نے دلیل کے طور پر ایک منقطع اور مرسل روایت پیش کی تو بے سند اورضعیف کہہ کر رد کردیا اور جب اپنی باری آئی تو منقطع اور مرسل روایت کوصحیح قراردیکر بطورِدلیل پیش کردیا۔جناب اگر مرسل روایت آپ کے نزدیک حجت ہے تو پھر میری پیش کردہ مرسل روایت بھی قبول فرمائیں ورنہ خود مرسل روایت دلیل کے طور پر پیش کرکے اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں پر شرمندہ نہ ہوں۔
یہ ہے ہمارے اہلحدیث بھائیوں کا حال ۔ خود ہی اصول بناکرپابند کرتے ہیں اور جب اپنی باری آتی ہے تو اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کو جوتے کی نوک پر رکھ دیتے ہیں۔ اﷲسمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ نبی کریم ﷺ کے پیچھے ایک جماعت بلند آواز میں فاتحہ پڑھتی تھی۔ یہ نہیں کہ صرف ایک ہی آدمی نے پڑھا تھا‘‘۔ذیل میں پیش کردہ جامع ترمذی کی حدیث کے الفاظ پڑ ھیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا ان کی بات صحیح ہے یا غلط؟
پھر موصوف فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے بلند آواز سے قرأت کرنا منع فرمایا ہےآہستہ نہیں۔ کوئی غیر مقلد بھائی مجھے یہ تو بتائے کہ اس حدیث میں کہا لکھا ہے کہ بلند آواز میں قرأت نہ کیا کرو، آہستہ کرلیا کرو؟
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی نے بلند آواز میں قرأت کی ہوتی تو پھر نبیﷺ یہ سوال نہ کرتے کہ ’’کیا کسی نے تم میں سے میرے ساتھ قرأت کی ہے‘‘ بلکہ یقیناً یہ فرماتے کہ ’’تم میں سے کس نے میرے ساتھ قرأت کی‘‘۔اور اس بات پر حیرت بھی نہ فرماتے کہ ’’میں بھی کہتا تھاکیا ہوامجھ کو چھناجاتا ہے مجھ سے قرآن‘‘۔اور ویسے بھی نبی کریم ﷺ کے پیچھے پوری جماعت کا بلند آواز میں قرأت کرنا عقلاً بھی ممکن نہیں ہے۔اگر یقین نہیں تو کبھی خود تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ کیونکہ اگر پوری جماعت بلند آواز میں ایک ساتھ قرأت  کرناشروع کردے تو پھر نماز میں ایک شوروغل سا سماع ہوجائے گا  ۔ صحابہ کرامؓ کاایسا کرنا ممکن ہی نہیں اور نہ ہی عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ نماز میں کوئی ایسا عمل کیا جائے۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب  فرماتے ہیں کہ امام الانبیا جناب محمدرسول اﷲﷺ کے آگے صحابی رسول کی بات کیسے چل سکتی ہے۔ لیکن شاید یہ بھول گئے کہ سب سے پہلے تو حکم اﷲ کا ہے پھر نبی ﷺ کا ہے پھر صحابہ ؓ کی باری آتی ہے۔جب اﷲ پاک نے قرآن میں حکم فرمادیا تو بات ہی ختم ہوجاتی ہے۔
’’اور جب قرآن پڑھا جایا کرےتو اس کی طرف کان لگا دیا کرواور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو‘‘۔(الاعراف۲۰۴)
دوسری بات یہ کہ جس طرح قرآن مجید کی تشریح  کا حق اﷲ نے ہمارے پیارے نبی ﷺ کو دیا بالکل اسی طرح نبی ﷺ نے اپنے بعد یہ حق صحابہ کرامؓ کو منتقل کیا۔اب اگر دین میں صحابی رسول ﷺکی بات حجت نہیں تو پھر آپ کی بات کیسے حجت ہوسکتی ہے؟
جابر بن عبداللہ ؓفرماتے ہیں جس نے ایک رکعت بھی سورۃ فاتحہ کے بغیر پڑھی گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ (جامع ترمذی:جلد اول:رقم الحدیث ۳۰۱ )
جناب حافظ عمر صدیق صاحب سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ اپنی پیش کردہ پہلی اور آخری دلیل حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی حدیث پرنبی کریم ﷺ کا فرمان پیش کریں جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ نبی ﷺ کا حکم  جماعت کی نماز کے لئے تھا۔ورنہ جب حضرت جابر بن عبداﷲؓ کا قول حجت نہیں تو پھر کسی اور کا قول کیسے حجت ہوسکتا ہے؟
جناب عمر صدیق صاحب نے امام اسحاق بن راہوؒ کا قول پیش کرتے ہوئے ہم سے انصاف کی در خواست کی ہے تو ہم بھی انشااﷲ انصاف سے ہی کام لیں  گے۔اگر جناب عمر صدیق صاحب یہ کہہ دیں کہ ہم ان آئمہ محدیثین(امام اسحاق بن راہوؒ )  کی تقلید کرتے ہوئے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کو فرض قرار دیتےہیں تو ہم انکے عمل کو صحیح تسلیم کرلیں گے۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی صحیح بخاری کی حدیث کی مراد دیگر صحابہ ؓو آئمہ کرام ؒسے یہی منقول ہے کہ یہ حدیث منفرد کے لیے ہے۔ مثلاً۔۔۔
قال جا بر بن عبد اللہؓ اذا کا ن وحدہ ۔(جامع ترمذی:جلد اول:رقم الحدیث ۳۰۱)
 سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی فر ما یا کہ یہ حکم اکیلے آد می کیلئے ہے ۔( موطا امام مالک :ص۲۹؛ و دارقظنی:ص۱۵۴)
امام سفیا ن بن عیینہ ؒجو اس حد یث کے راوی ہیں فر مایتے ہیں:لمن یصلی وحدہ۔ (تفسیر سفیان بن عیینہ :ص۲۰۲ ، ابوداود :ج۱:ص۱۲۶،التمہید لابن عبد البر المالکی :ج۴:ص۴۴۹)
قال امام احمد بن حنبلؒ: اذا کا ن وحدہ ۔(ترمذی :ج۱:ص۷۱، باب ماجاء فی تر ک قرءۃ خلف الامام)
امام ابوبکر اسماعیلی ؒفر ما تے ہیں :کان وحدہ ۔(بذل المجہود الشیخ سہا رنپوری :ج۲:ص۵۴)
امام ابن عبد البر ؒفر ماتے ہیں :عن عبا دۃ رضی اللہ عنہ وھو محتمل للتاویل ۔۔۔ خا ص وواقع علی من صلی وحدہ او کا ن اماماً ۔(التمہید لا بن عبد البر :ج۴:ص۴۴۸،۴۴۹،الاستذکار :ج۱:ص۴۷۰)
امام ابنِ قدامہ المقدسی ؒفر ماتے ہیں :قال الامام ابن قدا مہ المقدسی :فھو محمول علی غیر الماموم۔(المغنی لابن قدا مہ :ج۱:ص۶۰۶)
شیخ الحدیث سہا رنپوری ؒنے بھی اس کی مراد  اذا کا ن وحدہ بیا ن فر مائی ہے ۔ (بذل المجہود :ج۲:ص۵۲)
مجھے بڑے حیرت اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عمر صدیق صاحب کو صحابی رسول حضرت جابر ؓ اور ابن عمر ؓ کا قول حجت نہیں لگتا کیونکہ اس سے ان کے عمل کی نفی ہوتی ہے اور امام اسحاق بن راہو ؒ کا  قول معتبر لگتاہیں کیونکہ اس سے ان کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔ کیا یہ دھوکا اورتعصب نہیں؟
جناب عمر صدیق صاحب مجھ پر اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے جھوٹ بولا ہے کہ حضرت جابر بن عبداﷲؓ نے کہا ہے کہ یہ روایت انفرادہ نماز کے بارے میں ہے۔جناب حافظ صاحب سے گزارش ہے کہ وہ خود ہی اس حدیث کا مطلب بیان فرمادیں؟
جابر بن عبداللہ ؓفرماتے ہیں جس نے ایک رکعت بھی سورۃ فاتحہ کے بغیر پڑھی گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ (جامع ترمذی:جلد اول:رقم الحدیث ۳۰۱)
حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی صحیح بخاری کی حدیث کی مراد دیگر صحابہ ؓو آئمہ کرام ؒسے بھی یہی منقول ہے کہ یہ حدیث منفرد کے لیے ہے۔ مثلاً۔۔۔
قال جا بر بن عبد اللہؓ اذا کا ن وحدہ ۔(جامع ترمذی:جلد اول:رقم الحدیث ۳۰۱)
 سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی فر ما یا کہ یہ حکم اکیلے آد می کیلئے ہے ۔( موطا امام مالک :ص۲۹؛ و دارقظنی:ص۱۵۴)
امام سفیا ن بن عیینہ ؒجو اس حد یث کے راوی ہیں فر مایتے ہیں:لمن یصلی وحدہ۔ (تفسیر سفیان بن عیینہ :ص۲۰۲ ، ابوداود :ج۱:ص۱۲۶،التمہید لابن عبد البر المالکی :ج۴:ص۴۴۹)
قال امام احمد بن حنبلؒ: اذا کا ن وحدہ ۔(ترمذی :ج۱:ص۷۱، باب ماجاء فی تر ک قرءۃ خلف الامام)
امام ابوبکر اسماعیلی ؒفر ما تے ہیں :کان وحدہ ۔(بذل المجہود الشیخ سہا رنپوری :ج۲:ص۵۴)
امام ابن عبد البر ؒفر ماتے ہیں :عن عبا دۃ رضی اللہ عنہ وھو محتمل للتاویل ۔۔۔ خا ص وواقع علی من صلی وحدہ او کا ن اماماً ۔(التمہید لا بن عبد البر :ج۴:ص۴۴۸،۴۴۹،الاستذکار :ج۱:ص۴۷۰)
امام ابنِ قدامہ المقدسی ؒفر ماتے ہیں :قال الامام ابن قدا مہ المقدسی :فھو محمول علی غیر الماموم۔(المغنی لابن قدا مہ :ج۱:ص۶۰۶)
شیخ الحدیث سہا رنپوری ؒنے بھی اس کی مراد  اذا کا ن وحدہ بیا ن فر مائی ہے ۔ (بذل المجہود :ج۲:ص۵۲)
جناب حافظ عمر صدیق صاحب کی پیش کردہ پہلی اور آخری دلیل حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی صحیح بخاری کی حدیث میں ”مقتدی” کالفظ نہیں ہے،اور حضرت جابر بن عبداﷲؓاور حضرت ابن عمر ؓ و دیگر آئمہ حضرات نے تصریح کی ہےکہ یہ حد یث مقتدی کے علا وہ پر محمو ل ہے ۔ نیز سورۃ الاعراف آیت (۲۰۴) اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دیگر مفسر روایات میں بھی اس بات کی تصریح موجود ہے کہ امام کی قراءت کے وقت مقتدی خاموش رہے۔ جو کہ احناف کے برحق ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اﷲپاک سمجھ عطا فرمائے۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب  کی غلط بیانیاں اور جھوٹ کا پردہ فاش
فرماتے ہیں :’’امام خطابی ؒکے قول کی تائید امام اسحاق بن راہو یہ ؒکے قول سے ہوتی ہے‘‘۔جناب ذرا یہ تو بتادیں کہ امام اسحاق بن راہویہ ؒ کے کس قول سے ہوتی ہے؟ کم از کم وہ قو ل تو رقم کردیں؟
محترم  جناب حافظ عمر صدیق صاحب! امام اسحاق ؒکے بارے میں اگر آپ کی بیان کردہ بات درست ہے تو پھر  کیا امام بغویؒ، علامہ آلوسیؒ اور امام مبارکپوریؒ جھوٹ لکھتےہیں؟
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمرصدیق صاحب  کے دن بہ دن بدلتے اصول ملاحضہ فرمائیں۔
میں نے اما م خطابی ؓ کے قول کے صحیح ہونے کی کامطالبہ کیا تو موصوف نے بجائے قرآن و حدیث پیش کرنے کے ایک غیر نبی  (امام اسحاق بن راہویہؒ) کا قول پیش کردیا۔ پھر فرماتے ہیں کے کسی سے پوچھناتقلید نہیں۔
اب تک تو اہلحدیث حضرات کا نعرہ تھا کہ دلیل کے ساتھ کسی کی بات کو مانناتقلید نہیں لیکن اب ان کے اصول بدل گئے اور اب ان کے نزدیک کسی سے پوچھنا بھی تقلید  نہیں۔ اگر کسی سے پوچھنا تقلید نہیں ہے تو پھر ہم حنفیوں پر مقلد ہونے کا الزام کیوں؟
کچھ دیر کے لئے میں عمرصدیق صاحب کی اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہتاہوں کہ جس طرح آپ امام اسحاق ؒاور امام خطابیؒ کی رائے کو حق مان کردلیل بناکر پیش کررہے ہیں بالکل اسی طرح سے ہم بھی حضرت جابر بن عبداﷲؓ، امام ابوحنیفہ ؒ، امام احمد بن حنبلؒ کی رائے کو حق تسلیم کرتے ہوئےآپ کی پیش کردہ صحیح بخاری کی حدیث کو اکیلے شخص کی نماز کے حکم میں داخل سمجھتے ہیں۔
الحمداﷲ!اس نسبت سے بھی ہماری دلیل آپکی پیش کردہ دلیل کےمقابلے میں زیاوہ قوی ہے کیونکہ ہماری دلیل میں قرآن بھی ہے ، نبی کریم ﷺ کےفرمان بھی ہیں، صحابی رسول ابن عباسؓ کی تفسیر بھی ہے، حضرت جابر ؓ کا قول بھی ہے اور ان تمام دلائل کے ساتھ ساتھ آئمہ مجتہدین کی ایک بڑی جماعت تائید بھی ہے۔
جناب عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ اپنی پیش کردہ دلیل کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث یا کم از کم صحابہ ؓ کے اقوال پیش کریں۔ کسی اُمتی کا قول پیش کرناآپ کو انکا مقلد ثابت کررہا ہے۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب  پہلےخود ہی احسن الکام (جلد۲، صفحہ ۱۷)کی عبارت پیش کرتے ہیں پھر خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس عبارت کے معنیٰ و مطلب بیان کرتےہیں اور اس سے اپنے موقف کی بلاوجہ تائید کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
جناب حافظ عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ذیل میں پیش کردہ اپنے بیان کردہ مطلب کی احسن الکام کی پیش کردہ عبارات سے نشاندہی فرمادیں کہ احسن الکلام میں یہ بات کہاں لکھی ہوئی ہے جس کا مطلب آپ نے خود گڑھاہے؟
  1.  حافظ صاحب فرماتے ہیں ’’دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ حدیث لغو اور بے کار ہے۔‘‘ یہ بات احسن الکلام میں کہاں لکھی ہوئی ہے؟
  2.  حافظ صاحب فرماتے ہیں ’’حدیث توصحیح ہے لیکن ہے بے کار ۔‘‘ یہ بات احسن الکلام میں کہاں لکھی ہوئی ہے؟
  3.  پھرفرماتے ہیں ’’جن لوگوں نے عمومات سے استدلال کیا ہے وہ بے انصاف ہیں ۔‘‘ یہ بات احسن الکلام میں کہاں لکھی ہوئی ہے؟
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’نشے کی حالت میں  نمازکے قریب مت جاؤ‘‘۔اب اگر کوئی کم عقل شخص قرآن کی اس آیت کا آدھا  حصہ کچھ اس طرح سے بیان کرے کہ ’’نمازکے قریب مت جاؤ‘‘اور عام مسلمانوں کو قرآنِ مجید کی ہی آیت سنا کر نماز پڑھنے سے روکےتو یہ اس بے وقوف کا دجل و فریب ہی کہلائے گاجو آیت کا صرف ایک حصہ پیش کرکے عام مسلمانوں کو گمراہ کر رہا ہے۔
بالکل اسی طرح سے حافظ عمر صدیق صاحب نے احناف کی کتب حسامی ، توضیح اور تلویح سے صرف اپنے مطلب کی عبارت پیش کی اور باقی تفصیل حذف کردی تاکہ عام اور معصوم مسلمانوں کو بآسانی بیوقوف بنایا جاسکے۔
حافظ عمر صدیق صاحب سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ حسامی ، توضیح اور تلویح کی مکمل عبارات پیش کریں اور ساتھ ہی کتاب کا اسکین صفحہ بھی پیش کریں تاکہ عام اور لاعلم مسلمانوں کو اصل حقیقت کا علم ہوسکے۔
حافظ عمر صدیق صاحب پہلے تو بضد تھے کہ لفظ ’’من‘‘ صرف عموم پر ہی دلالت کرتا ہے۔لیکن الحمداﷲجب میں نے اس کے خصوص پر دلالت کرنے کی دلیل قرآن کی آیات سے پیش کردی تو موصوف نے خود ہی قبول کرلیاکہ ’’یہ صحیح ہے کہ بسااوقات اس میں تخصیص بھی مراد ہوسکتی ہے‘‘۔ مگر اس حدیث میں حرف ’’من‘‘ عموم پر دلالت کرتا ہے ۔اس کا فیصلہ آپ کیسے کرسکتے ہیں؟
آپ پر نعوذباﷲکیا وحی نازل ہوئی تھی جو آپ اس بات کا فیصلہ فرمارہے ہیں کہ یہاں لفظ ’’من‘‘ عموم پردلالت کرتاہے۔آپ نے اس بات کا اعتراف خود اپنی تحریر میں کیا ہے کہ ’’بسااوقات اس میں تخصیص بھی مراد ہوسکتی ہے‘‘ لہٰذا اس بات کا فیصلہ نہ آپ کرسکتے ہیں اورنہ ہی میں کہ آپ کی بیان کردہ بخاری کی حدیث میں اس لفظ کا اصل مطلب کیا نکلتاہے۔پھر آپ کی ضد فضول ہے۔
دوسری بات یہ کہ قرآن مجید کی آیت سورۃ الاعراف(۲۰۴) اورصحابی رسول حضرت جابر بن عبداﷲؓ کا واضح بیان اس بات کی شاہد ہے کہ آپ کا لفظ ’’من‘‘ کاعموم پر دلالت کرنے کو ثابت کرنا نہایت ہی باطل اور قرآن کے خلاف ہے۔
مجھے بڑاتعجب ہوتا ہے جب غیرمقلدین  یہ کہتے ہیں کہ فہم صحابی حجت نہیں تو پھر کیاآپ کا فہم صحابی رسول کے مقابلے میں حجت ہے؟
حافظ عمر صدیق صاحب نے اعتراض پیش کیا ہے کہ ابن عیینہؒ کی سماعت امام ابو داؤدؒ سے ثابت کرکے دکھاؤ۔ذیل میں پیش کردہ ابن عیینہؒ سے امام ابو داؤدؒ کی سند ملاحضہ فرمائیں:
امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر اہلسنت والجماعت (احناف) کی دلیل نمبر۵:
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب فرماتے ہیں’’راوی اپنی روایت کا مطلب دوسروں سے زیادہ پہتر جانتاہے‘‘۔ حیرت انگیر بات یہ ہے کہ موصوف کو ایک صحابی ؓ کا مطلب سمجھ میں آتا ہے اور باقی صحابہ کرامؓ اجمعین کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا؟
مجھے بڑے ہی تعجب اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جناب عمر صدیق صاحب کو حضرت عبادہ بن صامت ؓ کا بیان کردہ مطلب تو سمجھ میں آتا ہے لیکن حضرت جابر بن عبداﷲؓ اور حضرت عبداﷲؓ بن عمر ؓ کا بیان کردہ مطلب سمجھ میں نہیں آتا؟
یہ ہے ان کے ضد اور تعصب کی سب سے بڑی مثال کہ اپنے مطلب کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن حق بات سمجھ میں نہیں آتی۔
عمر صدیق صاحب کسی کی کہی ہوئی آدھی بات کا مطلب خود اپنی طرف سےاخذ کرلیتے ہیں اور باقی باتوں پر تبصرہ کئے بغیر خاموشی سے نکل جاتے ہیں۔موصوف نے میری پیش کردہ غیرمقلد عالم محمد جوناگڑیؒ کی احسن البیان (ص۵)کی آخری  عبارت پر کوئی تبصرہ نہیں کیاکیوں کہ یہ عبارت موصوف کے مؤقف کے خلاف جوہیں۔
غیرمقلد عالم مولانا محمد جونا گڑیؒ اپنی کتاب احسن البیان کے صفحہ نمبر۵ پر سکتہ کی حدیث کا ذکر کرنے کے بعد لکھتےہیں۔’’اس طرح آیت قرآن اور احادیث صحیحہ میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔ دونوں پر عمل ہوجاتا ہے۔جب کہ سورۃ فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں ٹکراؤ ہےاور دونوں میں سے کسی ایک پر ہی عمل ہوسکتا ہے، بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں ‘‘۔
غیرمقلد عالم مولانا محمد جوناگڑیؒ کی لکھی ہوئی تحریر سے یہ بات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ غیر مقلد عالم خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ سورۃ الاعراف (۲۰۴) کا حکم نماز کے بارے میں ہے اور اس سے نماز میں امام کے پیچھے قرأت کرنے کی نفی ثابت ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ اس طرح قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں تعارض معلوم ہوتا ہے اور بیک وقت دونوں میں سے کسی ایک پر ہی عمل کیا جاسکتا ہے۔
سورۃ الاعراف کاحکم نماز کےبارے میں ہونے پر غیرمقلد عالم کا اعتراف اوراحادیث صحیحہ میں امام کے پیچھے قرأت کرنے کی ممانعت اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ مقتدی کو امام کے پیچھے قرأت نہ کرنا،قوی تر دلائل سے ثابت ہے۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب کا اپنے مؤقف کی تائید میں  انور شاہ کشمیریؒ کے اقوال کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی مخالفت میں پیش کرنااس بات کی واضح دلیل ہے کہ موصوف کےپاس اپنے مؤقف کی تائید میں نہ تو قرآن کی کوئی آیت ہے اور نہ ہی احادیث مبارکہ سے کچھ ملتاہے۔
حافظ عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ وہ جب بھی کسی کتاب سے حوالہ پیش کریں تو میری طرح پوری عبارت نقل کیا کریں اور ساتھ میں کتاب کا سکین صفحہ بھی پیش کریں تاکہ قارئیں کو اصل حقائق کا علم ہوسکے۔ صرف اپنے مطلب کی عبارت پیش کرنا اور باقی تفصیل کو حذف کردیناانصاف نہیں۔ اس لئے پرائے مہربانی انورشاہ کشمیریؒ کی مکمل عبارات پیش کریں اور ساتھ ہی ان کا اسکین صفحہ پیش کریں۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب نے اپنے کچھ اعتراضات سوالوں کی شکل میں پیش کیئے ہیں جن کا ذیل میں ترتیب وار جواب دیتاہوں۔ امید ہے کہ اہل حق میرے جوابات سے متفق ہونگے۔پہلے تین سوالوں کے جوابات ملاحضہ فرمائیں۔
سوال نمبر۱: کیا یہ آہستہ پڑھنے کے بھی خلاف ہے؟
جواب نمبر۱: قرآنِ مجید اور نبی کریم ﷺ کے فرمان سے اس بات کوئی دلیل نہیں ملتی جس سے آہستہ پڑھنے کی گنجائش نکلتی ہو، اسلئے یہ آیت آہستہ پڑھنے کے بھی خلاف ہے۔
سوال نمبر۲: کیا اس آیت کے مخصص کوئی روایت ہے کہ ہیں؟
جواب نمبر۲: رسول اﷲﷺ نماز میں قرأت کر رہے تھے۔ آپ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری صحابی بھی پڑھ رہے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی’’وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا‘‘۔ابن عباسؓ فرماتے ہیں: یہ آیت فرض نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(کتاب القراءۃ للبیہقی :ص۱۰۹:رقم الحدیث۲۵۵)
سوال نمبر۳: پھر آپ لوگ تراویح کی نماز میں امام کو لقمہ کیوں دیتے ہو؟ جب وہ قرأت  بھول جاتا ہے۔ تب کیا یہ آیت کا حکم نہیں ہوتا؟
جواب نمبر۳: امام تراویح کی نماز میں آیت بھول جاتا ہے تو بھول جانے کے سبب یا تو وہ تلاوت سے رک جاتا ہے یا پھر وہ قرا ٓن کی آیت کی غلط تلاوت کر رہا ہوتاہے۔ان دونوں سورتوں میں لقمہ دینے سے سورۃ الاعراف(۲۰۴) کی حکم کی مخالفت نہیں ہوتی کیونکہ جب امام کو لقمہ دیا جاتا ہے اس وقت یا تو وہ بھول جانے کے سبب قرآن نہیں پڑھ رہا ہوتا ، یاپھر اگر پڑھ بھی رہا ہوتا ہے تو وہ غلط قرآن پڑھ رہا ہوتاہے، لہٰذا آیت کو  غلط پڑھناقرآن کی تلاقت میں شامل نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں قرآن کے حکم کی مخالفت نہیں رہتی۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب نے اپنے کچھ اعتراضات سوالوں کی شکل میں پیش کیئے ہیں جن کا ذیل میں ترتیب وار جواب دیتاہوں۔ امید ہے کہ اہل حق میرے جوابات سے متفق ہونگے۔ اگلے تین سوالوں کے جوابات ملاحضہ فرمائیں۔
سوال نمبر۴: آپ لوگ نماز جمعہ میں درود والی آیت آنے پر درود کیوں پڑھتے ہیں؛ کیا دلیل ہے؟جبکہ یہ آیت نمازِ جمعہ کو بھی شامل ہے۔
جواب نمبر۴: میری جناب حافظ عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ کوئی بھی اعتراض /سوال پیش کرنے سے پہلے اس مسئلے کی مکمل تحقیق کرلیا کریں۔ تاکہ بعد میں شرمندگی اٹھانی نہ پڑے۔نمازجمعہ میں درود والی آیت کی تلاوت پر ہم امام کے پیچھے درودشریف نہیں پڑھتےاور اس وقت بھی امام کی تلاوت کو خاموشی سے سنتیں ہیں تاکہ ہم پر رحم کیا جائے۔
سوال نمبر۵: جب کوئی نمازی کچھ دیر بعد آیا جماعت کے کھڑے ہونے سےتو پھر تو امام قرآن پڑھ رہا ہوتا ہےتو وہ نمازی جماعت میں داخل کیسے ہوگا؟ جبکہ وہ اﷲ اکبر کہہ کر ہی داخل ہوسکتا ہے، اور بقول آپ کے قرأت کے وقت کچھ بھی نہیں بولنا چاہیئے، انصات کرنی چاہیئے؟
جواب نمبر۵:امام کی قر أت کے وقت خا موش رہنا اور غور سے سننا ان نماز یو ں کے لئے ضروری ہے جو اس امام کی قتداء کرتے ہوئے نماز میں داخل ہوکر نماز پڑھ رہےہوں اور مقتدی نماز میں اس وقت تک داخل نہیں ہوتا جب تک کہ اﷲاکبر کے مکمل الفاظ زبان سے ادا نہ کرلے، جیساکہ نماز سے باہرآنے کے لئے السلام علیکم ورحمۃاﷲ کے الفاظ دوسری بار مکمل ادا ہونے کے بعد نمازسے فراغت ملتی ہے۔ اسی لئے مقتدی کا اﷲاکبر کے الفاظ اداکرنے کے بعد اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے ، اس سے پہلے نہیں۔ جیساکہ حدیث میں وارد ہے۔
’’حدثنا عثمان بن ابی شیبة ثنا وکیع عن سفیان عن ابی عقیل عن علی قال قال رسول ﷲﷺۖ مفتاح الصلوة اطہور و تحریمھا التکبیرو تحلیلھا التسلیم‘‘۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے رو ا یت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرما یا : ’’نماز کی کلید صرف وضو ہے اور اس کا تحریمہ صرف اللہ اکبر کہنا ہے اور نماز سے صرف السلام علیکم و رحمۃ اللہ ہی سے نکلا جاسکتا ہے‘‘۔(ابوداؤد: جلد ١، صفحہ٢٧٩، حدیث٦١٤، باب فی تحریم الصلوة و تحلیلھا) (ابن ماجہ: جلد ١، صفحہ ١٨١، باب فی مفتاح الصلوة الطھور) (صحیح الترمذی: جلد ١، صفحہ١٨٠، باب ماجاء فی تحریم الصلا ة وتحلیلھا)
جمہور صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم سے یہی تفسیر منقول ہے ۔چنانچہ امام عبد اللہ بناحمد نسفی (م ۷۱۰ھ ) فر ما تے ہیں:’’وجمہور الصحا بۃ علی انہ فی استماع المؤ تم“۔( مدار ک التنزیل للنسفی ج۱،ص۴۵۸)
سوال نمبر۶: فجر کی نماز کے وقت آپ کا مذہب ہے کہ اگر کسی نمازی نے سنتیں ادا نہیں کی ہیں تو  وہ کرسکتا ہے۔چاہے فجر کی فرض نماز کھڑی ہوجائے، کیا تب یہ (عمل ) اس آیت کے خلاف نہیں؟
جواب نمبر۶: اگر امام قرأت کررہا ہو اور مقتدی سنتیں ادا کررہا ہو تب بھی یہ عمل اس آیت کے خلاف نہیں کیونکہ اما م کی قر أت کے وقت خا موش رہنا اور غور سے سننا ان نماز یو ں کے لئے ضروری ہے جو اس امام کی قتداء میں نماز پڑھ رہےہوں۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کے مؤقف کی تائیدقرآن مجید کی سورۃ الاعراف آیت نمبر ۲۰۳اور ۲۰۵ سے ہوتی ہے تو آپ خود اس آیت کو دلیل کے طور پر پیش کریں۔ ہم سے مطالبہ کیوں کررہے ہیں؟
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کے مؤقف کی تائیدقرآن مجید کی سورۃ الاعراف آیت نمبر ۲۰۳ اور۲۰۵ سے ہوتی ہے تو آپ خود اس آیت کو دلیل کے طور پر پیش کریں اوراس کے معنیٰ و مفحوم بیان کرتے ہوئے ثابت کریں کہ یہ آیت آپ کے مؤقف کے حق میں دلیل ہے۔ بار بار ہم سے اس آیت کو پیش کرنے کا مطالبہ کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یاتو آپ خود اس آیت کے معنیٰ و مفحوم سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر آپ کو خود اپنے اس استدلال پر یقین و اطمنان نہیں اس لئے آپ اس آیت کو پیش کرنے سے ڈر تے ہوئے بار بار ہم سے یہ مطالبہ کر رہےہیں۔
یقیناً جو لوگ میری اور آپ کی پوسٹس پڑھ رہے ہیں وہ خود کمنٹس میں اس بات کا فیصلہ سنا رہے ہیں کہ کون گپ مار رہا ہے اور کون دلائل پیش کررہا ہے، لہٰذا آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے لوگوں کے کمنٹس خود بتارہے ہیں جن کا ذکر میں اپنی پچھلی پوسٹ میں دلیل کے ساتھ کرچکا ہوں۔
دوسری بات یہ کہ اگر چند لمحوں کے لئے مان بھی لیا جائے کہ زیادہ تاخیر میری طرف سے ہوئی ہے تب بھی یہ کو ئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ ہم اب اس موضوع پر بھی مناظرہ کریں۔
جب کسی سے کوئی علمی گفتگو کریں تو اونچے ظرف اور خندہ پیشانی کے ساتھ کریں۔موضوع سے ہٹ کر ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو اچھالناکسی اچھے ظرف اور اخلاق کی نشانی نہیں ہے۔
تیسری بات یہ کہ میں فیس بُک پر صرف آپ سے تحریری مناظرہ نہیں کررہا بلکہ آپ جیسے کئی غیر مقلد (اہلحدیث) بھائیوں کو پوسٹس میں جوابات دیتا ہو ں لہٰذا اگر میری طرف سے کچھ تاخیر ہوجائے تو اس پر فتح و شکست کا اعلان کردینا یہ انصاف کی بات نہیں ہے۔
حافظ عمرصدیق صاحب  پہلے خود ہی موضوع سے ہٹ کر اعتراض کرتے ہیں ، اور جب ہم ان کے اعتراض کا جواب دیں تو موضوع تبدیل کرنے کا الزام بھی ہمارے ہی سر ڈال دیتے ہیں۔بھلا یہ کونسی منافقت ہے؟ پھر موصوف پوچھتے ہیں صحابہ کرامؓ اور آئمہ کرام ؒمقلد تھے یا غیرمقلد؟ جواب ملاحضہ فرمائیں۔
حافظ عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ آپ سے جس موضوع پر گفتگو چل رہی ہے  اسی کے مطابق بات کریں، بلاوجہ اِدھر اُدھر میری دوسری پوسٹ پر دہان دیکر اعتراضات پیش مت کریں ورنہ موضوع تبدیل کرنے کا سہرا آپ کے سر ہوگا۔
اب مجبوراً مجھے اُن اعتراضات کے جوابات دینے پڑرہے ہیں جنکوآپ نے موضوع تبدیل کرکے بیان کیا ہے۔
دین میں صرف دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ، مجتہدین جن کو اﷲ نے قرآن و حدیث کا مکمل علم اور ان سے استدلال کی صلاحیت عطا فرمائی ہوتی ہے جسکی بنا پر وہ کسی کی تقلیدنہیں کرتے۔دوسرے مقلدین جن کو اﷲ نے قرآن و حدیث کا مکمل علم عطا نہیں کیا ہوتا اور نا ہی اتنی صلاحیت دی ہوتی ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے مسائل استنباط کرسکیں۔جن صحابہ کرام ؓ کو اﷲ نے قرآن و حدیث کا مکمل علم عطا فرمایا تھا وہ مجتہدین تھے لہٰذا وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے اور جن صحابہ کرام ؓکے پاس مکمل علم نہیں تھا وہ ان مجتہدین (صحابہ کرامؓ) کی تقلید کیا کرتے تھے۔غیرمقلدین کے شیخ الکل جناب نذیر حسین دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’جب کہ کل صحابہ اور تمام مومنین کا قرونِ اولیٰ میں اس بات پر اجماع ثابت ہواکہ کبھی ایک مجتہد کی تقلید کرتے اورکبھی دوسرے مجتہد کی‘‘۔(معیارالحق:ص۱۴۳)
امام ابوحنیفہؒ، امام مالک ؒ، امام شافعی ؒ اور امام احمد ابن حنبل ؒ کیونکہ خود مجتہدتھے اس لئے وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ انھیں غیرمقلد بھی کہا جاسکتا ہے۔
آ ج کل کے غیرمقلدین حضرات جن کو قرآن و حدیث سمجھنے کے لئے ترجمہ کی ضرورت پڑتی ہے، ایسے جاہل اور بیوقوف لوگ آئمہ مجتہدین کی تقلید کا انکار کرکے اپنے مجتہد (غیرمقلد)ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
حافظ عمرصدیق صاحب  نے استادمحترم جناب مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کی عبارت سے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ آج کل کے غیرمقلدین اہلحدیث ہیں کیونکہ لفظ اہلحدیث نبی کریم ﷺ سے لے کرآج تک چلا آرہا ہے۔ موصوف کے اس دعویٰ کا تعاقب ملاحضہ فرمائیں۔
لفظ "اہل حدیث" قدیم اور جدید دو اصطلاحوں میں منقسم ہے یعنی  اہلِ حدیث کا عنوان دواصطلاحوں میں مختلف معانی کا حامل ہے:
۱۔ اہلحدیث باصطلاح قدیماصطلاحِ قدیم میں اس سے مراد وہ لوگ تھے جوحدیث روایت کرنے، پڑھانے، اس کے راویوں کی جانچ پڑتال کرنے اور اس کی شرح میں مشتغل رہتے تھے، انہیں محدثین بھی کہا جاتا تھا اور وہ واقعی اس فن کے اہل سمجھے جاتے تھے؛ سواہلِ علم کی اصطلاح قدیم میں اہلِ حدیث سے مراد حدیث کے اہل لوگ تھے، اہلِ ادب، اہلِ حدیث، اہلِ تفسیر سب اسی طرح کی اصطلاحیں ہیں۔ حافظ محمد بن ابراہیم الوزیر ؒ(۷۷۵-٨٤٠ہجری)لکھتے ہیں:"یہ بات معلوم ہے کہ اہلِ حدیث اس طبقے کا نام ہے جو اس فن کے درپے ہو اس کی طلب میں منہمک رہے۔ایسے سب لوگ اہلِ حدیث ہیں؛ خواہ وہ کسی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں "۔ (الروض الباسم لابن الوزیر:۱/۱۲۲)
۲۔اہلحدیث باصطلاحِ جدیداہلحدیث سے مراد ترک تقلید کے نام سے ایک فقہی مسلک پیداہوا جوپہلے کچھ عرصے تک وہابی کہلاتا تھا۔یہ جدید اصطلاح اسلام کی پہلی تیرہ صدیوں میں کہیں نہیں ملتی، اس کا آغاز چودھویں صدی ہجری سے ہوتا ہے؛ یایوں سمجھ لیجئے کہ تیرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں اس کے لیئے کچھ حالات سازگار ہوگئے تھے، اس وقت یہ فرقہ وجود میں آیا۔
یہی وجہ ہے کہ محدثین کا ذکر چار ہی قسم کی کتابوں میں ملتا ہے ۔طبقات حنفیہ، طبقات مالکیہ، طبقات شافعیہ اور طبقات حنابلہ۔آج تک طبقات غیرمقلدین نامی کوئ کتاب محدثین نے نہیں لکھی۔اگر لکھی ہے تو آپ بتادیں۔
حافظ عمرصدیق صاحب کی پیش کردہ دلیل نمبر ۲ کا جواب میں پہلے بھی دیچکا ہوں ایک بار پھر ملاحضہ فرمائیں۔
دلیل نمبر ۲عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال  من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ثلاثا غير تمام فقيل لأبي هريرة إنا نكون وراء الإمام فقال اقرأ بها في نفسك۔(صحیح مسلم)
دلیل نمبر۲کا جواب :عمر صدیق بھائی کی بیان کردہ صحیح مسلم کی حدیث کے مرفوع حصہ میں ”مقتدی‘‘کے الفظ نہیں ہیں،اور ائمہ حضرات نے تصریح کی ہےکہ یہ حد یث مقتدی کے علا وہ پر محمو ل ہے ۔ اس حد یث میں”اقرأ بھا فی نفسک‘‘حضرت ابو ہریرہ کا موقوف قول ہے ، جیسا کہ امام بخا ری اور امام بیہقی رحمہما اللہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے ۔ ’’فی نفسک ‘‘کا معنی قر آن وحدیث میں منفرد واکیلے کے لئے بھی آیا ہے۔ ’’اقرأ بھا فی نفسک‘‘ کا ایک اور معنیٰ یہ بھی ہیں کہ دل میں غور و فکر کر لیا کرو۔نیز حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دیگر مفسر روایات میں بھی اس بات کی تصریح ہے کہ امام کی قراءت کے وقت مقتدی خاموش رہے۔ قاعدہ ہے کہ مبہم کے مقابلے میں مفسر حدیث کو دیکھا جائے گا۔ لہذ ایہ روایت قر ءاۃ خلف الا مام کی دلیل نہیں بن سکتی۔
حافظ عمرصدیق صاحب کی پیش کردہ انتہائی ضعیف ترین دلیل نمبر ۳ کا مدلل اور جامع ردملاحضہ فرمائیں۔
دلیل نمبر ۳: "حدثنا عبدالله حدثنی ابی ثنا محمد بن سلمه عن ابن اسحاق عن مکحول عن محمود بن الربیع عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول الله صلی الله علیه وسلم فی صلاۃ الفجر فقرا رسول الله صلی الله علیه وسلم فثقلت علیه القراءۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم هذا یارسول الله صلی الله علیه وسلم قال لا تفعلوا الا بفاتحه الکتب فانه لا صلاۃ لم یقرا بها
صبح کے وقت ہم آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رهے تهے اور آپ قراءت کر رهے تهے۔آپ پر قراءت ثقیل هو گئی۔ نماز سے فارغ هو کر آپ نے فرمایا شاید تم امام کے پیچھے پڑهتے هو۔ہم نے عرض کیا۔ہم جلدی جلدی پڑهتے ہیں۔آپ نے فرمایا کے صرف سورۂ فاتحه پڑها کرو کیوں کے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (سنن ابی داؤدؒ: جلد ۱: صفحہ ۱۴۴: تحقیق علامہ ناصرالدین البانیؒ)
دلیل نمبر۳ کا جواب: ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب کا قرآن مجید کی واضح آیت سورۃ الاعراف(۲۰۴)، احادیث صحیحہ ،صحابہ کرامؓ،تابعین و تبع تابعین اور آئمہ مجتہدین ومحدثین و مفسرین کے اقوال کے مقابلے میں ایک انتہائی ضعیف راوی کی تدلیس والی حدیث سے استدلال کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اب جناب کے پاس حق کو چھپانے کے لئے کچھ نہیں بچا جس کے سبب اب موصوف ایک انتہائی ضعیف ترین راوی کی ضعیف ترین حدیث جس میں وہ مدلس بھی ہے، فاتحہ خلف الامام کی دلیل بناکر پیش کررہے ہیں۔محمد بن اسحاق کے ضعیف اور مدلس ہونے کے قوی تر دلائل میری اگلی پوسٹس پر ملاحضہ فرمائیں اور اس باطل استدلال سے باز آجائیں۔ اﷲ پاک عقل سلیم عطافرمائے۔
مجھے بڑے ہی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں ایسے کئی فرقے پیدا ہوگئے ہیں جو دعویٰ تو قرآن و حدیث پر عمل کا کرتے ہیں اور عام اور معصوم مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے نام پرگمراہ کرتے ہیں لیکن جب ان سے دلائل کی دنیا میں بات کی جاتی ہے تو حقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے اور ان کا قرآن و حدیث پر عمل کا جھوٹا دعویٰ خاک میں مل جاتا ہےاور اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اور ضعیف ترین راوی  ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۱۔ امام مالکؒ فرماتے: ’’وقال مالك دجال من الدجاجلة‘‘محمد بن اسحاق دجالوں میں سے ایک دجال ہے۔(تہذیب التہذیب: ج،۹ص۴۱؛تذکرہ الحفاظ: ج۱،ص۱۳۰)
امام مالکؒ فرماتے ہیں: ’’محمد بن إسحاق كذاب‘‘ محمد بن اسحاق کذاب ہے۔(تاریخ بغداد :ج۲،ص۱۹)
۲۔ قال علی المدینی، سعید قطانؒ: ’’علي يعني ابن المدينى قال سمعت يحيى يعيى ابن سعيد القطان يقول قلت لهشام بن عروة ان ابن اسحاق يحدث عن فاطمة بنت المنذر فقال أهو كان يصل إليها؟ فقلت ليحيى كان محمد بن اسحاق بالكوفة وانت بها؟ قال نعم، قلت تركته متعمدا؟ قال نعم تركته متعمدا ولم أكتب عنه حديثا قط‘‘۔ علی بن المدینی ؒ  فرماتے ہیں میں نے سعید بن قطانؒ سے پوچھا محمد بن اسحاق اور آپ کو کوفہ میں رہتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا جی ہاں ہم دونوں کوفہ میں ہوتے ہیں  میں نے کہا آپ نے اس کو جان بوجھ کر چھوڑ رکھا ہے یحیی بن سعید نے کہا جی ہاں میں نے اس کو قصدا ًچھوڑ ا ہوا ہے اور میں نے اس سے  کبھی بھی حدیث نہیں لکھی۔(الجرح والتعدیل: ج۷،ص۱۹۳)
۳۔ابو حفص فلاسؒ، سعید بن قطانؒ: ’’قلنا كنا عند وهب بن جرير يعنى يقرأ علينا كتاب المغازى عن أبيه عن ابن إسحاق، قال تنصرفون من عنده بكذب كثير‘‘۔ابو حفص فلاس ؒکہتے ہیں :کہ ہم وہب بن جریر  ؒ کے پاس تھے اور جب لوٹے تو یحییٰ بن سعید ؒ کے پاس سے گذرے یحییٰ بن سعید ؒ نے پوچھا تم کہاں تھے۔ہم وہب بن جریرؒ  کے پاس تھے اور وہ ہمارے سامنے محمد بن اسحاق کی مغارزی کتاب پڑھ رہے تھے یحیی ٰبن سیعد القطانؒ نے کہا کہ تم اس سے بہت سا جھوٹ لے کر لوٹے ہو۔ (الجرح والتعدیل :ج۷،ص۱۹۳)
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اور ضعیف ترین راوی  ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۴۔ یحیی ٰبن معین ؒ فرماتے ہیں: ’’يزل الناس يتقون حديث محمد بن اسحاق‘‘لوگ  ہمیشہ محمد بن اسحاق کی حدیث سے بچتے رہے ہیں اور کبھی یوں فرمایا: ’’بذاك هو ضعيف‘‘محمد بن اسحاق قوی نہیں ضعیف ہے۔(الجرح والتعدیل:  ج۷،ص۱۹۴)
۵۔ عبدالرحمٰن بن ابی حاتمؒ  نے اپنے باپ ابو حاتمؒ سے سنا انھوں نے فرمایا: ’’محمد بن اسحاق ليس عندي في الحديث بالقوى ضعيف الحديث‘‘اسحاق میرے نزدیک باب حدیث میں قوی نہیں بلکہ ضعیف الحدیث ہے۔(الجرح والتعدیل :ج۷،ص۱۹۴)
۶۔ امام نسائی ؒ فرماتے ہیں : ’’لیس بالقوی ‘‘محمد بن اسحاق قوی نہیں ہے۔ (ضعفاء صغیر للنسائی :ص۵۲)
۷۔ امام دارقطنیؒ فرماتے  ہیں: ’’لایحتج بہ ‘‘اس کی حدیث کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔ (تذکرۃالحفاظ: ج۱،ص۱۳۰)
۸۔ سلیمان تیمیؒ فرماتے ہیں:’’وقال سليمان التيمي: كذاب‘‘ محمد بن اسحاق کذاب ہے۔(میزان الاعتدال: ج۳ ،ص۴۶۹)
۹۔ ہشام بن عروۃ ؒ فرماتے ہیں : ’’وقال ہشام بن عروة: كذاب‘‘محمد بن اسحاق کذاب ہے۔(میزان الاعتدال :ج۳،ص۴۶۹)
۱۰۔یحییٰ بن سعیدالقطان ؒ فرماتے ہیں: ’’قال يحيى القطان: أشهد أن محمد بن إسحاق كذاب‘‘میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد بن اسحاق بہت بڑا جھوٹا ہے۔ (میزان الاعتدال :ج۳،ص۴۷۱)
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اور ضعیف ترین راوی  ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۱۱۔علامہ نوویؒ لکھتے ہیں : ’’وإذا قالوا: متروك الحديث، أو ذاهبه، أو كذاب، فهو ساقط لا يكتب حديثه‘‘ قاعدہ یہ ہے کہ جب محدثین کسی راوی کے متعلق یہ الفاظ کہہ دیں کہ وہ متروک الحدیث  ہے یا باب حدیث میں گیا گذرا ہے یا جمہور اس کو کذاب کہہ دیں تو ایسا راوی ساقط الاعتبار ہوتا ہے اور  اس کی حدیث لکھنے کے قابل نہیں ہوتی۔ (التقریب والتیسیر للنووی :ج۱ ،ص۵۳)
اور یہ بات واضح رہے کہ محدثین کے نزدیک کذاب اور تہمت کذاب ایسی جرح ہے کہ جس کا ردارک نہیں ہو سکتا اس لیے  محمد بن اسحاق جس کو دجال کذاب مکار کہا گیا ہے اس کی وجہ سے  اس کی حدیث انتہائی ضعیف  ہے اس لیے اس کی  حدیث حجت نہیں بن سکتی۔البتہ جن بعض محدثین نے اس کو ثقہ کہا ہے اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ محمد بن اسحاق ان کے نزدیک مغارزی اور تاریخ میں معتبر ہے ۔ لیکن شرعی احکام اور حلال و حرام میں حجت نہیں ۔
۱۲۔ حافظ ابن حجرؒ  فرماتے ہیں: ’’وَابْن إِسْحَاق لَا يحْتَج بِمَا ينْفَرد بِهِ من الْأَحْكَام‘‘ اس کی روایت احکام میں  حجت نہیں خصوصاً جب یہ روایت کرنے میں منفرد ہو۔ اور زیر بحث اس کی جتنی بھی احادیث ہیں ان میں یہ منفرد ہے کوئی بھی ثقہ راوی اس کا متابع نہیں ہوتا۔(الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایہ: جلد۲ ،ص۱۹)
۱۳۔ ابو داؤد ؒ ابن اسحاق کے متعلق فرماتے ہیں : ’’وقال أبو داود: قدري معتزلي‘‘ ابن اسحا ق قدری اور معتزلی ہے۔(میزان الاعتدال: جلد۳،ص۴۶۹)
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اور ضعیف ترین راوی  ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۱۴۔ علامہ ذھبیؒ فرماتے ہیں: ’’والذي تقرر عليه العمل أن ابن إسحاق إليه المرجع في المغازي والأيام النبوية مع أنه يشذ بأشياء وأنه ليس بحجة في الحلال والحرام‘‘ اور عملاً  جو چیز پختہ طور پر ثابت ہے وہ یہ ہے کہ محمد بن اسحاق کی طرف مغارزی اور سیر نبویہ میں رجوع کیا جاہے لیکن اس میں بھی وہ شاذ چیزیں بیان کرتا ہے  لیکن حلال حرام میں حجت نہیں۔(تذکرۃ الحفاظ: ج۱، ص۱۶۳)
۱۵۔امام احمد بن حنبلؒ: ’’أما مُحَمَّد بن إِسْحَاق فَيكْتب عَنهُ هَذِه الْأَحَادِيث يعْنى الْمَغَازِي وَنَحْوهَا فَإِذا جَاءَ الْحَلَال وَالْحرَام أردنَا قوما هَكَذَا قَالَ أَحْمد بن حَنْبَل بِيَدِهِ وصم يَدَيْهِ وَأقَام أَصَابِعه الإبهامين‘‘ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق سے مغارزی  وغیرہ کی احادیث لکھی جاتی ہیں لیکن جب حلال حرام کے مسئلہ آتے ہیں تو ہم محمد بن اسحاق سے اعراض کرکے ثقہ لوگوں کا ارادہ کرتے ہیں ۔
۱۶۔امام احمد بن حنبلؒ  نے اس مفہوم  کو اس طرح بیان ادا کیا کہ دونوں ہاتھوں کی مٹھی بند کی اور دونوں انگوٹھے کھڑے  رکھے۔ (تاریخ ابن معین برویۃ الدوری: ج۳،ص۲۴۷؛ الجرح والتعدیل :ج۷،ص۱۹۳؛  طبقات الحنابلہ: ج۱، ص۲۳۷؛ المقصد الارشد:ج۲،ص۲۷۹؛ النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح:ج۲،ص۳۰۹؛ فتح المغیث: ج۱، ص۳۵۰)
۱۷۔ محمد بن ہارون فلاسؒ فرماتے ہیں: ’’سألت يحيى بن معين عن محمد بن اسحاق فقال ما احب ان احتج به في الفرائض‘‘ میں نے یحییٰ بن معین ؒ سے محمد بن اسحاق کے متعلق پوچھا تو یحییٰ بن معین ؒ نے فرمایا کہ میں فرائض میں اس کی حدیث سے حجت نہیں پکڑنا پسند کرتا۔(الجرح والتعدیل :جلد۷،ص۱۹۴)
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اور ضعیف ترین راوی  ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۱۸۔ علامہ ابن رجب ؒ  لکھتے ہیں : ’’واما من روی عن ضعیگ فاسقطہ من الاسناد بالکلیۃ فھو نوع تدلیس ومنہ مایسممی التسویۃ وھو ان یروی عن شیخ لہ ثقۃ عن رجل ضعیف عن ثقۃ فیسقط الضعیف من الواسط جو راوی ضعیف سے روایت کرتا ہو  اور وہ سند سے ضعیف راوی کو گرادے تو یہ ردلیس ہے اس کی ایک قسم کا نام تدلیس التسویہ ہے وہ یہ  کہ راوی کا شیخ ثقہ ہو لیکن شیخ الشیخ ضعیف ہو اور شیخ الشیخ ثقہ راوی سے  روایت کرے پس یہ ضعیف دو ثقہ راویوں کے درمیان میں ہے جس کو راوی حدیث حذف کر دیتا ہے۔(شرح علل الترمذی لابن رجب :ج۲ ،ص۸۲۵)
۱۹۔غیرمقلد علامہ البانی صاحبؒ   لکھتے ہیں: ’’وابن إسحاق حجة في المغازي، لا في الأحكام إذا خالف‘‘محمد بن اسحاق مغارزی میں  حجت ہے احکام میں حجت نہیں خصوصا ًجب وہ دوسرے ثقات کی مخالفت کرے۔ (ضعیف ابی داود :ج۲،ص۱۶۵)
۲۰۔غیرمقلد عالم نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں’’درسندش نیز ہماں محمد بن اسحاق است ومحمد بن اسحاق حجت نیست‘‘ نیز اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور محمد بن اسحاق حجت نہیں۔(دلیل الطالب: ص۲۳۹)
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اور ضعیف ترین راوی  ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۲۱۔علامہ نوویؒ فرماتے ہیں بدعتی کی حدیث کے بارے میں راجح مذہب یہ ہے کہ جس حدیث سے اس کی بدعت کی تقویت و تائید ہوتی ہو اس کی وہ حدیث قبول نہیں کی جاتی ۔(شرح مسلم للنوی :ص۲؛ شرح نختبہ الفکر :ص۱۱۸)
۲۲۔ ابو حاتم ؒ  محمد بن اسحاق کو ضعیف کہتے ہیں۔ (کتاب العلل :جلد ۱،ص۴۳۳)
۲۳۔’’وہیب بن خالد الا روايته عن أهل الكتاب وكذبه سليمان التيمي ويحيى القطان ووهيب بن خالد‘‘ وہب بن خالدؒ  محمد بن اسحاق کو کاذب اور جھوٹا کہتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب: جلد۹،ص۴۵)
۲۴۔جریر بن عبدالحمیدؒ فرماتے ہیں: ’’وقال جرير بن عبد الحميد ما ظننت أني أعيش إلى دهر يحدث فيه عن محمد بن إسحاق ويسكت فيه‘‘میرا یہ خیال نہ تھا کہ  میں اس زمانہ تک زندہ رہوں گا جس میں لوگ محمد بن اسحاق سے احادیث کی سماعت کریں گے۔(تہذیب التہذیب: جلد۲، ص۳۰۶)
۲۵۔امام بیہقیؒ فرماتے ہیں:محدثین اور حفاظ حدیث ابن اسحاق کے تفردات سے گریز کرتے ہیں۔(سنن الکبری بحوالہ الجوھر النقی: جلد ۱،ص۱۵۵)
۲۶۔علامہ ماردینیؒ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق پر محدیثین کے نزدیک مشہور کلام ہے۔(الجوھر النقی: ج۱، ص۱۵۵)
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اور ضعیف ترین راوی  ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۲۷۔ عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: ’’لم یکن يحتج به في السنن‘‘میرے باپ احمد بن حنبلؒ ابن اسحاق کو سنن اور احکام میں ان سے احتجاج نہیں کرتے تھے۔(بغدادی: جلد۱،ص۲۳۰؛تہذیب التہذیب: جلد۹،ص۴۴)
۲۸۔ حنبل بن اسحاقؒ کا بیان ہے کہ امام احمد ؒ نے فرمایا کہ: ’’ابن اسحاق لیس بحجۃ ‘‘ یعنی ابن اسحاق حجۃ نہیں ہے۔ (بغدادی :جلد۱ ،ص۲۳۰؛ تہذیب التہذیب :جلد۹،ص۴۴)
۲۹۔امام احمدؒ سے  دریافت کیا گیا کہ  ابن اسحاق  جب کسی حدیث کے بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس کی حدیث حجت ہو گی؟’’قال لا واللہ ‘‘فرمایا  بخدا ہرگز نہیں۔ (بغدادی: جلد۱، ص۲۳۰)
۳۰۔ابن ابی خیثمہؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو  لیس بذالك ،ضعیف ، اور   لیس بالقوی کہا ۔
میمونی ؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو ضعیف کہا ہے ۔(بغدادی: جلد۱ ،ص۲۳۱؛تہذیب التہذیب: جلد۹،ص۴۴)
۳۱۔علی بن المدینیؒ کا بیان ہے: ’’لم  یضعفه عندي الا روایته، عن اھل الکتاب ‘‘میرے نزدیک ابن اسحاق کو صرف اس بات نے ضعیف کر دیا ہے کہ وہ یہود اور نصاریٰ سے روایتیں لے لے کر بیا ن کرتا ہے۔ (تہذیب التہذیب: جلد۹،ص۴۵)
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اور ضعیف ترین راوی  ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۳۲۔ علامہ ابو الفرج محمد بن اسحاق بن ندیمؒ اپنی کتاب الفہرست میں محمد بن اسحاق کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مطعون علیه غیر مرضی الطریقه الی ان قال وکان یحمل عن الیھود والنصاري ولیمیھم فی کتبه اھل العلم الاول و اصحاب الحدیث یضعفونه ویتھمونه‘‘اس پر طعن کیا گیا ہے اور اس کا طریقہ ناپسند یدہ تھا ۔(پھر اگے فرمایا) کیونکہ وہ یہود اور نصاریٰ سے روایات لیتا تھا اورا پنی کتابوں میں ان کو پہلے علم والے کہا کرتا تھا اور اہل حدیث اس کو ضعیف کہتے ہیں اور اس کو متہم قرار دیتے ہیں۔ (الفھرست لابن الندیم: ص۱۴۲ طبع مصر)
۳۳۔حضر شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں :’’اقول الرویه عن اھل الکتاب تججویذ فیما سبیله سبیل الاعتبار و حیث یکون الامن عن الاختلاط فی شرائع الدین ولا یجوز فیما سوٰی ذالك ‘‘میں کہتا ہوں کہ اہل کتاب سے روایت ایسے معاملات میں جہاں عبرت مقصود ہو اور جہاں دین کے احکام میں اختلاط واقع نہ ہوتا ہو درست ہے، اور اس کے علامہ ان سے روایت جائز نہیں ہے۔ (حجۃ اللہ  البالغۃ :جلد۱،ص۱۷۱)
۳۴۔امام ترمذیؒ فرماتے ہیں  کہ :بعض محدثین نے ان کے حافظہ کی خرابی کی وجہ سے اس میں کلام کیا ہے۔(کتاب العلل :جلد۲،ص۲۳۷)
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اور ضعیف ترین راوی  ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۳۵۔امام نوویؒ فرماتے ہیں :جو راوی صحیح کی شرطوں  کے مطابق نہیں  ہیں ان میں ایک محمد بن اسحاق بھی ہے۔ (مقدمئہ نووی :ص ۱۶)
۳۶۔امام ذھبیؒ فرماتے ہیں: محمد بن اسحاق کی روایت درجئہ صحت سے گری ہوئی ہے اور حلال و حرام میں اس سے احتجاج درست نہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ :جلد۱،ص۱۶۳)
۳۷۔علامہ منذری ؒاور حافظ سخاویؒ فرماتے ہیں : امام احمدؒ نے فرمایا کہ ابن اسحاق کی روایات مغارزی میں تو لی جاسکتی ہے لیکن جب حلال حرام کا مسئلہ ہو تو اس میں ایسے  ایسے راوی درکار ہیں (یعنی ثقہ اور ثبت)۔(التغریب والترھیب: جلد۴ ،ص۲۹۰ ؛و فتح المغیث :ص۱۲۰)
۳۸۔اہل سنت میں سے بہت ساروں نے اسے شیعہ لکھا ہے اور خود شیعہ نے بھی اسے اپنا تسلیم کیا ہے۔(رجال کشی :جلد ۵، ص۳۹۰)
محمد بن اسحاق کو شیعوں نے اپنا تسلیم کیا  ہے۔(رجال الطوسی :ص۲۸۱)
۳۹۔غیرمقلد فیض عالم صدیقی نے اپنی کتاب صدیقہ کائنات ص۱۱۴ پر محمد بن اسحاق کے بارے میں لکھا ہے کہ جمہور کے نزدیک یہ ضعیف تھا۔
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اور ضعیف ترین راوی  ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۴۰۔ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں: ’’وکان مالك بن انس لایرضاہ و یحیی بن سعید القطان لایروی عنه و یحیی بن معین یقول لیس ھو بحجۃ واحمد بن حنبل یقول یکتب عنه ھذا الاحادیث اعني المغازی فاذا جأ الحلال الحرام اردنا قوما ھکذا یرید اقوای منه فاذا کان لا یحتج به فی صفات اللہ سبحان تعالٰی وانما نقموا علیه فی رويته عن اھل الکتاب ثم فاذا روی عن ثقه وبین  سماعه منه فجماعه من الائمه لم یروابه بأسا ‘‘۔ (کتاب الاسماء والصفات :ص۲۹۷)
ترجمہ: امام مالکؒ اس کو  پسند نہیں کرتے تھے یحییٰ بن سعید بن القطانؒ اس سے روایت نہیں لیتے تھے اور ابن معین فرماتے ہیں کہ وہ حجت نہیں اور امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مغارذی کی حدیثیں تو لکھی جاسکتی ہیں لیکن حلال و حرام کی روایتوں میں ہم قوی راویوں کو تلاش کریں گے پس جب حلال و حرام میں ابن اسحاق  کی روایت حجت نہیں تو صفات باری تعالٰی میں بطریق اولٰی اس کی روایت حجت نہیں ہو سکتی اور محدثین نے اس پر جو عیب لگایا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اہل  کتاب سے روایت کرتا ہے اور ضعیف قسم کے لوگوں سے بھی روایت  کرتا ہے اور ان کے ناموں میں تدلیس  سے کام لیتا ہے پس جب ثقہ سے روایت کرے اور سماع کی تصریح بھی کرے تو ائمہ کی ایک جماعت اس میں مضائقہ نہیں سمجھتی۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبلؒ نے ابن اسحاق  کو جو حسن الحدیث کہا یا جو غیرمقلدین اس کی توثیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ صرف مغارذی  تاریخ وغیرہ میں نہ کہ احکام  اور حلال حرام میں۔ علامہ ذھبیؒ نے سفیانؒ بن حسینؒ کے ترجمہ میں نقل کیا ہے کہ ’’ لایحتج به کنحو محمد بن اسحاق ‘‘ یعنی محمد بن اسحاق کی  طرح اس سے بھی احتجاج درست نہیں۔
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اورضعیف ترین ہونے کے ساتھ ساتھ  مدلس بھی ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۱۔  امام احمد بن حنبلؒ   فرماتے ہیں: ’’ابن اسحاق یدلس‘‘محمد بن اسحاق تدلیس کرتا ہے۔ (تہذیب التہذیب: ج۹،ص۴۳)
۲۔ اثرم ؒ کہتے ہیں میں نے  امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا’’ما تقول في محمد بن إسحاق؟ قال هو كثير التدليس جدا‘‘ آپ محمد بن اسحاق کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ بہت زیادہ تدلیس کرتا ہے۔ (الجرح والتعدیل :ج۷،ص۱۹۳)
۳۔نیز امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا : ’’قيل له: فإذا قال أخبرني وحدثني فهو ثقة؟ قال: هو يقول أخبرني ويخالف‘‘وہ بہت زیادہ تدلیس کرتا ہے ان سے پوچھا گیا کہ جب  وہ اخبرنی اور حدثنی کے ساتھ روایت کرے تو اس کی روایت معتبر ہے؟ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ وہ اخبرنی کہتا ہے پھر اس کے خلاف بھی کہہ دیتا ہے۔ (میزان  الاعتدال :ج۳،ص۴۷۰)
۴۔علامہ نوویؒ لکھتے ہیں: ’’فَإِن ابْن إِسْحَاق مُدَلّس مَشْهُور بذلك، والمدلس إِذا قَالَ: عَن، لَا يحْتَج بِهِ بالِاتِّفَاقِ‘‘ محمد بن اسحاق تدلیس کرنے میں مشہور ہے اور جب مدلس عن  کے ساتھ روایت کرے تو اس کی حدیث بالاتفاق حجت نہیں ہوتی۔(خلاصۃ الاحکام :ج۲ ،ص۷۱۶)
۵۔ علامہ بصریؒ فرماتے ہیں: ’’سَنَده ابْن إِسْحَاق وَهُوَ مُدَلّس‘‘اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے۔ (مصباح الزجاجۃ :ج۳ ،ص۸۲)
۶۔ علامہ ابن رجب ؒ  لکھتے ہیں: ’’وابن اسحاق مدلساور ابن اسحاق مدلس ہے۔(فتح الباری لابن رجب: ج۹،ص۴۹۳)
راوی محمد بن اسحاق   غیر متعبر اورضعیف ترین ہونے کے ساتھ ساتھ  مدلس بھی ہے جو کہ قابل حجت نہیں یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
۷۔علامہ عراقیؒ فرماتے ہیں: ’’فی اسناد محمد بن اسحاق وقد  رواہ بالعنعنہ وھو مدلس‘‘ اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے عن کے ساتھ روایت کی ہے۔ (طرح التہذیب: ج۲ ،ص۷۰)
۸۔ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ’’محمد بن اسحاق بن یسار امام المغارزی صدوق یدلس‘‘محمد بن اسحاق بن یسار غزوات کے نقل کرنے میں امام ہے سچا ہے لیکن  تدلیس کرتا ہے۔ (تقریب التہذیب: ص ۲۹۰)
۹۔ علامہ نور الدین الہیثمیؒ ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’رواہ الطبرانی فی الاوسط ورجالہ ثقات الابن اسحاق مدلس‘‘ اس حدیث کو  کو طبرانی ؒ نے معجم اوسط میں روایت کیا ہے اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن محمد بن اسحاق مدلس ہے۔(مجمع الزوائد:ج۹،ص۱۵۵)
۱۰۔غیرمقلدعالم  علامہ ناصرالدین البانیؒ  لکھتے ہیں : ’’ورجالہ ثقات الاان ابن اسحاق مدلس‘‘اس کے راوی ثقہ ہیں مگر محمد بن اسحاق مدلس ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :ج۶،ص۱۰۸۷)
۱۱۔ غیرمقلدعالم  علامہ شوکانی ؒ لکھتے ہیں: ’’وفی  اسنادہ محمد بن اسحاق وھو مدلس وقد عنعن‘‘اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے  اوراس نے عن کے ساتھ روایت کی ہے۔
۱۲۔ غیرمقلدعالم  محدث عبدالرحمٰن مبارکپوری صاحب ایک سند کا ضعف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فان فی سندہ محمد بن اسحاق وھو مدلس ورواہ عن فاطمۃ بنت المنذر بالعنعنۃ ومع ھذا قد تفرد ھو االلفظ ولم یقلہ غیرہ‘‘  اس  کی سند میں محمد بن اسحاق ہے جو مدلس ہے اور اس حدیث کو فاطمہ بن منذر سے عن کے ساتھ روایت کرتا ہے اور وہ حدیث کے ان لفظوں کے نقل کرنے میں منفرد ہے یہ لفظ کسی اور نے نقل نہیں کیے اسلئے یہ ضعیف ہے۔(ابکار المنن: ص۵۳)
راوی محمد بن اسحاق   کی توثیق میں غیرمقلدین دلیل پیش کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ  نے اسے ثقہ کہا ہے۔
جواب : ایسے کذاب اور دجال راوی کے بارے میں امام بخاریؒ کی رائے کیا وقعت رکھتی ہے؟ خصوصاً جب کہ امام بخاری ؒنے ابن اسحاق کا زمانہ نہیں پایا اور ہشام بن  عروہ ؒ امام مالک ؒ اور یحییٰ بن قطانؒ وغیرہ اس کا زمانہ پانے والے انتہائی سنگین الزامات اس پر عائد کرتے ہیں اور یہ بڑے محتاط اور عارف باسباب الجرح بھی ہیں۔ علامہ بریں اگر واقعی محمد بن اسحاق احادیث روایت کرنے والا راوی  ثقہ ہے تو  امام بخاریؒ نے باوجود اشد ضرورت کے صحیح بخاری میں اس سے احتجاج کیوں نہیں کیا؟
یہ امام بخاری ؒکی ذاتی رائے ہے ۔حق وہی جو جمہور نے کہا ہے ،چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد ایک مقام پر لکھتے ہیں : ’’جمہور اہل اسلام کے نزدیک ایسی حدیث سے و حسن ہو احتجاج صحیح ہے لیکن امام بخاریؒ حدیث حسن احتجاج کے قائل نہیں ہیں ‘‘آگے لکھتے ہیں ’’والحق ماقاله الجمھور‘‘ (دلیل الطالب :ص۸۸۲) حق بات وہی ہے جو جمہور نے کہی ہے۔ قاضی شوکانی غیرمقلد نے بھی امام بخاریؒ اور ابن العربیؒ کا یہ مسلک نقل کرکے آگے لکھا ہے’’والحق ماقاله الجمھور‘‘  کہ حق وہی ہے جو جمہور نے کہا ہے (نیل الاوطار:جلد ۱،ص۲۲)
غیرمقلدین  کہتے ہیں امام شعبہؒ  نے محمد بن اسحاق کو امیر المحدثین لکھا ہے۔
جواب :۔ اول ،غیرمقلدین کے نزدیک اس طرح کہنے سے توثیق ثابت نہیں ہوتی، چنانچہ غیرمقلد عالم مبارک پوری صاحب ایک جگہ ایک راوی ابو طاہر فقیہ کے متعلق جس کو علامہ تاج الدین سبکیؒ نے ادیب عارف اور امام المحدثین والفقھاء لکھا ہے ۔ ’’قلت لا دلاله فی ھذا اعلٰی کو نه ثقه قابلاً للاحتجاج‘‘ (تحفۃ الاحوذی :جلد۲،ص۷۵)  یعنی،  میں کہتا ہوں کہ امام المحدثین والفقھاء  کہنے سے یہ کیسے لازم آیا کہ وہ ثقہ اور قابل احتجاج بھی تھے۔
محقق نیمویؒ نے ابو عبداللہ فخجویہ دینوریؒ کو کبا ر محدثین لکھا ہے لیکن غیرمقلد مبارک پوری صاحب  ان پر گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔’’فان مجود کونه من کبتا المحدثین لایستلزم کونه ثقه‘‘ (تحفه الاحوذی :جلد۲، ص۷۵) یعنی ،  ان کے صرف کبار محدیثین  ہونے سے یہ کیسے لازم آیا کہ وہ ثقہ بھی تھے؟
قارئین کرام! ذرا انصاف سے بتائیں جن کے بارے میں جرح کا ایک لفظ بھی موجود نہ ہو اور علامہ تاجدین سبکیؒ وغیرہ جیسے اما م اور ثقہ عالم ان کو امام المحدثین اور کبار المحدثین لکھیں مگر معہذا ان کی ثقاہت ثابت نہ ہو سکے تو غیرمقلدین کے نزدیک ثقہ نہیں اور محمد بن اسحاق جس کو آئمہ  جرح و تعدیل کذاب اور دجال تک کہتے ہوں  تو اس سے امام شعبہؒ کا ابن اسحاق کو امیر المحدثین کہنے سے ان کی توثیق ثابت ہو سکتی ہے؟
۱۔ امام یحیٰ بن معین ؒ فرماتےمیں نے سلمہ کےوالد ابن عبدالرحمٰن اور ابان بن عثمان سے سنا، وہ کہتے ہیں وہ ثقہ ہےاور حجت نہیں۔
۲۔ امام نسائی ؒ فرماتےمحمد بن اسحاق قوی نہیں۔
 ۳۔ امام دارقطنی ؒفرماتےاس کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔
۴۔ امام مالکؒ فرماتےمحمد بن اسحاق دجالوں میں سے ایک دجال ہے۔
 ۵۔ ابن عیینہ ؒ فرماتےمحمد بن اسحاق قدریا تھا۔
۶۔ علامہ ذھبیؒ فرماتے ہیںاور عملاً  جو چیز پختہ طور پر ثابت ہے وہ یہ ہے کہ محمد بن اسحاق کی طرف  مغازی اور سیر نبویہ میں رجوع کیا جاتاہے لیکن اس میں بھی وہ شاذ چیزیں بیان کرتا ہے  لیکن حلال حرام میں حجت نہیں۔(تذکرۃ الحفاظ :ج۱،ص۱۷۳)
امام دارقطنی ؒ محمد بن اسحاق بن یسار کے بارے میں فرماتے ہیں:  اس کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔)میزان الاعتدال فی نقدالرجال:ج۱،ص۳۶۱(
مشہورغیرمقلدمحدث علامہ ناصرالدین البانیؒ لکھتے ہیں: اس سند کے راوی ثقہ ہیں اور مسلم کے ہیں سوائےمحمد بن اسحاق کے، جوکہ  مدلس ہےاور عن سے روایت کرتا ہے۔ اس سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔  (ضعیف ابی داؤد :ج۲،ص۴)
مشہورغیرمقلدمحدث  علامہ ناصرالدین البانیؒ  لکھتے ہیں:  محمد بن اسحاق مغارزی میں  حجت ہے احکام میں حجت نہیں خصوصاًجب وہ دوسرے ثقات کی مخالفت کرے۔ (ضعیف ابی داؤد :ج۲،ص۱۶۵)
مشہورغیرمقلدمحدث علامہ ناصرالدین البانیؒ لکھتے ہیں :یہ سند ضعیف ہے محمد بن اسحاق کی تدلیس کی وجہ سے۔ یہ سند ضعیف ہے،  اس سند کےتمام راوی ثقہ اور مشہور ہیں سوائےمحمد بن اسحاق کے، جوکہ  مدلس ہےاور عن سے روایت کرتا ہے۔ (ضعیف ابی داؤد :ج۲،ص۱۶۶)
حافظ عمرصدیق صاحب کی پیش کردہ انتہائی ضعیف ترین دلیل نمبر ۳ کا دوسرا مدلل اور جامع جواب ملاحضہ فرمائیں۔
دلیل نمبر ۳:"حدثنا عبدالله حدثنی ابی ثنا محمد بن سلمه عن ابن اسحاق عن مکحول عن محمود بن الربیع عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول الله صلی الله علیه وسلم فی صلاۃ الفجر فقرا رسول الله صلی الله علیه وسلم فثقلت علیه القراءۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم هذا یارسول الله صلی الله علیه وسلم قال لا تفعلوا الا بفاتحه الکتب فانه لا صلاۃ لم یقرا بها"۔صبح کے وقت ہم آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رهے تهے اور آپ قراءت کر رهے تهے۔آپ پر قراءت ثقیل هو گئی۔ نماز سے فارغ هو کر آپ نے فرمایا شاید تم امام کے پیچھے پڑهتے هو۔ہم نے عرض کیا۔ہم جلدی جلدی پڑهتے ہیں۔آپ نے فرمایا کے صرف سورۂ فاتحه پڑها کرو کیوں کے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (سنن ابی داؤدؒ: جلد ۱: صفحہ ۱۴۴: تحقیق علامہ ناصرالدین البانیؒ)
دلیل نمبر۳ کادوسرا جواب:اگر چند لمحوں کے لئے ہم ابن اسحاق پر کی جانے والی آئمہ جرح و تعدیل کی  تمام جرحوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے ثقہ مان لیں تو بھی یہ حدیث ضعیف ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس حدیث میں محمد بن اسحاق مدلس ہے اور عن سے روایت کررہا ہے اور وہ بھی محمد بن سلمہ سے ۔سنن  ابی داؤد میں کچھ دوسری احادیث بھی ملتی ہیں جن میں محمد بن اسحاق ،محمد بن سلمہ سےعن عن سے روایت کررہا ہے اور اس سند کو مشہور غیر مقلد محدث علامہ ناصرالدین البانیؒ نے اپنی کتاب ضعیف ابی داؤد میں ضعیف قرار دیا ہےجن کو آپ اوپر پیش کئے گئے اسکین صفحات میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔لہٰذا مندرجہ بالا تمام دلائل کی روشنی میں یہ بات سورج کی طرح واضح ہوگئی کہ محمد بن اسحاق ایک انتہائی ضعیف اور کمزور راوی ہےاور اس راوی کی بیان کردہ حدیث سے استدلال کرنا اور اسے دلیل کے طور پر پیش کرنا بالکل غلط  ہے خصوصاً اس وقت کہ جب وہ اس حدیث میں مدلس بھی ہو۔
جناب حافظ عمر صدیق صاحب سے میں نے اب تک مندرجہ ذیل سوالات کیئے جن کا اب تک کوئی جواب نہیں آیا۔ جب تک مجھے ان تمام سوالات کے جوابات موصول نہیں ہونگے میں بھی حافظ صاحب کے مزید کیئے گئے کسی بھی سوال کا جواب دینے کا پابند نہیں ہونگا۔
سوال نمبر ۱حافظ عمر صدیق صاحب اپنے دعوی ٰکے مطابق امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے فرض ہونے پر اب تک قرآن سے کوئی دلیل پیش نہیں کرسکے ہیں۔
سوال نمبر ۲: آپ کی پیش کردہ صحیح بخاری کی حدیث جس سے آپ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کو فرض قرار دے رہےہیں اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان جماعت کی نماز کے لیے ہے؟جبکہ اس مسئلے پر جلیل القدر صحابی حضرت جابر بن عبداﷲرضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ انفرادی نماز کے بارے میں ہے ۔ اب تک میرے اس سوال کا جواب نہیں آیا؟
سوال نمبر۳جلیل القدر صحابی رسول جابر بن عبداﷲؓ کا فہم زیادہ معتبر ہے یا آپ اور آپ کے فرقے کے لوگوں کا؟
سوال نمبر۴نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق تو زمانے کے لحاظ سے علامہ خطابیؒ اورامام نویؒ سے زیادہ معتبر شخصیت سفیان بن عیینہؒ اور امام احمدؒ کی ہے لہٰذا قول بھی ان ہی کا زیادہ معتبر سمجھا جانا چاہیئے۔پھرکیا وجہ ہے کہ جناب عمر صدیق صاحب کے نزدیک علامہ خطابیؒ اور امام نویؒ کے مقابلے میں صحابی رسول حضرت جابر بن عبداﷲرضی اﷲ، ابن عیینہؒ اور امام احمدؒ کے قول کی کوئی حیثیت  نہیں ؟ اب تک میرے اس سوال کا جواب نہیں آیا؟
سوال نمبر۵آپ اور آپ کےفرقے کا دعویٰ ہے کہ کسی کی بلادلیل بات ماننا تقلید ہے، اور تقلید شرک و حرام ہے۔اب یا تو آپ اپنے دعویٰ کے مطابق  علامہ خطابیؒ اور امام نوی ؒ کی پیش کردہ اقوال کے صحیح ہونے کی دلیل پیش کردیں ؟ یا پھر یہ تسلیم کرلیں کہ آپ ان آئمہ کرام کے مقلد ہیں،  کیونکہ کسی کی بلا دلیل بات ماننا تقلید ہےاور آپ اور آپ کے فرقے کے نزدیک تقلید شرک و حرام ہے؟  اب تک میرے اس سوال کا جواب نہیں آیا؟
سوال نمبر۶:جنا ب حافظ عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کہ مطابق اجماع پیش کرکے دکھائیں۔ جس طرح میں نے اپنے دعویٰ کے مطابق قرآنِ مجیدکی آیت سورۃ الاعراف(۲۰۴) کا نمازکے بارے میں نازل ہونے پر اجماع پیش کیاہے۔ اب تک میرے اس سوال کا جواب نہیں آیا؟
سوال نمبر۷:میری  پیش کردہ حضرت ابن عباس ؓ کی (کتاب القراءۃ للبیہقی:ص۱۰۹،رقم الحدیث۲۵۵) کا  اب تک کوئی جواب نہیں آیا؟
سوال نمبر۸:میری پیش کردہ تفسیر ابن کثیر سے سورۃ الاعراف  (۲۰۴) کی تفسیر کا  اب تک کوئی جواب نہیں آیا؟
سوال نمبر۹:میری پیش کردہ جامع ترمذی سے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث (قرأت نہ کرنے کا بیان میں جب امام جہر کرتا ہو) کا  اب تک کوئی جواب نہیں آیا؟
سوال نمبر۱۰:میری پیش کردہ حضرت ابو ہریرہؓ کی  (کتاب القراۃ بیہقی: جلد۱ ،ص۱۹۴) سے روایت کا  اب تک کوئی جواب نہیں آیا؟
محترم حافظ عمرصدیق صاحب اور محترم قارئین کرام! السلام علیکم!
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب اپنے امتحانات سے فارغ ہوکر واپس آگئے ہیں جس پر ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں اور امتحانات میں ان کی کامیابی کے لئے اﷲ پاک سے دعا گوہیں۔
فاتحہ خلف الامام کے موضوع پر ہمارے درمیان جو مناظرہ چل رہا تھا ہم اس  مناظرے کا وہیں سے آغاز کرتے ہیں جہاں سے ہمارا سلسلہ منقطع ہوا تھا۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق بات بیان کرنے اور لوگوں کو حق بات کوسمجھنے اور حق بات کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب نے فاتحہ خلف الامام کے وجوب پراپنی پیش کردہ ابوداؤد کی حدیث پر میرے پیش کردہ اعتراضات کے پہلے جواب کا تحقیقی رد ملاحضہ فرمائیں۔عمر صدیق صاحب کو مشورہ ہے کہ دلیل پیش کرنے سے پہلے اپنے عالموں کی اندھی تقلیدکے بجائے اچھی طرح تحقیق کرلیا کریں۔
جناب عمر صدیق صاحب نے ابو داؤد کی حدیث کو امام ترمذی ؒ کےقول سے ’’حسن‘‘ ثابت کرنے میں اپنے عالم جناب زبیرعلی زئی صاحب کی اندھی تقلید کرتے ہوئےانھی کی طرح دجل و فریب کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ عمر صدیق صاحب نے ابوداؤ کی جو حدیث دلیل کے طور پر پیش کی تھی اس کی سند اور متن میں اور ترمذی کی حدیث کی سند اور متن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
 جبکہ امام ترمذی ابن اسحاق کے بارے میں خود فرماتے ہیں کہ: بعض محدثین نے ان کے حافظہ کی خرابی کی وجہ سے ان پر کلام کیا ہے۔ (کتاب العلل: جلد۲،صفحہ ۲۳۷) مشہورغیرمقلد محدث شیخ البانیؒ نے بھی اس روایت کو ضعیف لکھا ہے۔ ابن القیمؒ فرماتے ہیں۔وہ مدلس ہے، اسی صورت میں حدیث ناقابل حجت ہے۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب نے فاتحہ خلف الامام کے وجوب پراپنی پیش کردہ ابوداؤد کی حدیث پر میرے پیش کردہ اعتراضات کے پہلے جواب کا تحقیقی رد ملاحضہ فرمائیں۔عمر صدیق صاحب کو مشورہ ہے کہ دلیل پیش کرنے سے پہلے اپنے عالموں کی اندھی تقلیدکے بجائے اچھی طرح تحقیق کرلیا کریں۔
جناب عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ اپنے عالم جناب زبیرعلی زئی صاحب کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے آپ آئمہ اربعہ کی تقلید کرتے ہوئےامام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل ہوجائیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
۱۔ امام دارقطنی ؒ محمد بن اسحاق بن یسار کے بارے میں فرماتے : اس کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔(میزان الاعتدال فی نقدالرجال:ج۱ ،ص۳۶۱)
۲۔امام بیہقیؒ فرماتے ہیں:محدثین اور حفاظ حدیث ابن اسحاق کے تفردات سے گریز کرتے ہیں۔(سنن الکبری بحوالہ الجوھر النقی: جلد ۱،ص۱۵۵)
۳۔ امام ابن حبان ؒ اور ابن خزیمہؒ کا اسے اپنی صحیح میں ذکرکرلینے سے اگر یہ حدیث صحیح ہوگئی تو پھر ابن حبان اور ابن خزیمہ کی تمام ضعیف احادیث جو انھوں نے اپنی کتاب میں رقم کی ہیں ان کو بھی صحیح تسلیم کرلیا جائے؟ کیا خیال ہے؟
۴۔امام ابو داؤد ؒنےاگر اس حدیث پر سکوت کیا ہے تو اس کا مطلب یہ کیسے ہوگیا کہ ان کے نزدیک یہ حدیث حسن ہے؟
۵۔جلیل القدر صحابی حضرت جابر بن عبداﷲرضی اﷲعنہ ، سفیان بن عیینہ ؒ، امام احمد بن حنبل  ؒ اورامام ابو داؤدؒ کے قول کے مقابلے میں امام خطابی ؒ کے قول کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ تمام حضرات فرماتے ہیں کہ یہ انفرادی نماز کے بارے میں ہے۔ جابر بن عبداللہ ؓفرماتے ہیں: ’’جس نے ایک رکعت بھی سورۃفاتحہ کے بغیر پڑھی گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو‘‘۔
ہمارے اہلحدیث بھائی جناب حافظ عمر صدیق صاحب نے فاتحہ خلف الامام کے وجوب پراپنی پیش کردہ ابوداؤد کی حدیث پر میرے پیش کردہ اعتراضات کے پہلے جواب کا تحقیقی رد ملاحضہ فرمائیں۔عمر صدیق صاحب کو مشورہ ہے کہ دلیل پیش کرنے سے پہلے اپنے عالموں کی اندھی تقلیدکے بجائے اچھی طرح تحقیق کرلیا کریں۔
جناب عمر صدیق صاحب سے گزارش ہے کہ اپنے عالم جناب زبیرعلی زئی صاحب کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے آپ آئمہ اربعہ کی تقلید کرتے ہوئےامام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل ہوجائیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
۶۔ علامہ منذریؒ کا اس پر خاموشی اختیار کرنے سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ ان کے نزدیک یہ حدیث قابل حجت ہے۔ایسی مبہم دلیل پیش کرنا حق کو چھپاناہے۔
۷۔امام یحیٰ بن معینؒ ، امام مالکؒ، امام ذہبیؒ، امام دارقطنیؒ اور امام نسائیؒ جیسے جلیل القدر آئمہ محدثین کی جرحوں کی موجودگی میں ، علامہ ابن القیمؒ کا محمد بن اسحاق کو مدلس کہہ کر اس حدیث کو ناقابل حجت قراردینااورغیرمقلدمحدث شیخ البانی ؒ کا اس روایت کو ضعیف قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ امام بغویؒ کے قول کی کوئی حیثیت نہیں۔
۸۔ علامہ ابن القیمؒ کا محمد بن اسحاق کو مدلس کہہ کر اس حدیث کو ناقابل حجت قراردینے کے بعدان ہی کے حوالےسے امام بخاریؒ کی تائید پیش کرنا، عقل سے بالاتر دلیل ہے۔
چونکہ اس راوی پرہم نے بحوالہ جمہور محدثین کے ۴۷  جرحین نقل کی ہیں جس میں اس راوی کو کذاب ودجال ، قدری یہاں تک کے شیعہ تک قرار دیا گیا ہے اس لئے اس راوی کو اگر کسی نے ثقہ بھی کہا ہو تو بھی احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ اس سے شرعی احکامات اور حلال و حرام میں حدیث لینے  سےگریز کیا جائے۔
ہم نے راوی محمد بن اسحاق بن یسارپرآئمہ جرح و تعدیل اور جمہور محدثین سے تقریباً  ۴۷  جرحین نقل کی ہیں جس میں اس راوی کو کذاب ودجال ، قدری یہاں تک کے شیعہ تک قرار دیا گیا ہے۔
کیونکہ محمد بن اسحاق بن یسار راوی پرہم نے بحوالہ آئمہ جرح و تعدی اور جمہور محدثین سے تقریباً ۴۷ جرحین نقل کی ہیں جس میں اس راوی کو کذاب ودجال،  قدری یہاں تک کے شیعہ تک قرار دیا گیا ہے اس لئے اس راوی کو اگر کسی نے ثقہ بھی کہا ہو تو بھی احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ اس سے شرعی احکامات اور حلال و حرام میں حدیث لینے  سےگریز کیا جائے۔
حافظ عمرصدیق صاحب  کا  دعویٰ مناظرہ اپنے ہی معتبر علماء کی کتب سے غلط اور بے بنیاد ثابت ہوگیا۔موصوف نے دعویٰ کیا تھا کہ جس شخص نے نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی جبکہ ان کے معتبر عالم فرماتے ہیں: ’’امام بخاری سے لے کر محقیقین علما ء اہلحدیث تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا‘‘۔ ساتھ میں اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ’’جو شخص تحقیق کرے اور سمجھے کہ فاتحہ فرض نہیں ہے خواہ نماز جہری ہو یا سری اپنی تحقیق پر عمل کرے تو اس کی نماز باطل نہیں ہے‘‘۔
 
 
 
امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر اہلسنت والجماعت (احناف) کی دلیل نمبر۶:
امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر اہلسنت والجماعت (احناف) کی دلیل نمبر۷:
 
امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر اہلسنت والجماعت (احناف) کی دلیل نمبر۸:
امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر اہلسنت والجماعت (احناف) کی دلیل نمبر۹:
امام کے پیچھے نماز  میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے پر اہلسنت والجماعت (احناف) کی دلیل نمبر۱۰:
 
 
 
دلیل نمبر ۱۰ میں موجود بعض احادیث پر ضعیف ہونے کاالزام  لگانے سے پہلے اصولِ حدیث کے قوائد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی الزام عائد کیا جائے کیوں کہ اصول حدیث سے قوائد و ضوابط کے لحاظ سے کسی ضعیف حدیث کی متابعت کسی صحیح حدیث سے ہوجائے تو وہ ضعیف حدیث حسن درجہ کو پہنچ جاتی ہے، جبکہ دلیل نمبر ۱۰ پر موجود تمام احادیث کی متابعت نہ صرف صحیح احادیث سےبلکہ قرآن کی آیتوَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ" (الاعراف :۲۰۴) سے بھی ہوتی ہے لہٰذا مندر جہ بالا تمام احادیث بھی حسن درجے کو پہنچ جاتی ہیں۔
آخیر میں حضرت شیخ احمد سرہندی ملقب بہ مجدد الف ثانیؒ کا امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے سے رجوع کرنااور اس پر انکا مؤقف ملاحضہ فرمائیں
میں ( حضرت شیخ احمد سر ہندی ملقب بہ مجدد الف ثانی)مدت تک مذہب حنفی کے خلاف نماز جماعت میں سورہ فاتحہ پڑھتا رہا پھر سمجھ میں آگیا کہ امام کا پڑھنا عین مقتدی کا پڑھنا ہے ۔ با دشاہ کے سامنے عرض حال کیلئے جب ایک جماعت جاتی ہے ،تو صرف ایک ہی شخص گفتگو کرتا ہے مجھے نورِ فرا ست سے معلوم ہوا کہ علام کلام ماتریہ حق بجانب ہیں اور اجتہاد میں امام ابو حنیفہ کا درجہ تمام اماموں سے بڑھا ہوا ہے۔ (مجدد الف ثانی کے حالات :ص۱۴۴)