-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Monday 23 October 2017

شہادتِ حسین بن منصورحلّاج رحمہ اﷲتحقیق کے آئینے میں

اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم
حُرفِ آغاز
اس تحریرکے آغاز سے پہلے میں قارئین کرام کو یہ باور کروانا چاہتاہوں کہ اس تحریرکے لکھنے سےنہ تو مجھے کوئی مالی نفع حاصل ہوگا اور نہ ہی دنیاوی شان و شوکت حاصل ہوگی بلکہ عین ممکن ہے کہ اس تحریر کے منظرعام پرآجانے کے بعد آج کےلاعلم مسلمان حسین بن منصورحلّاجؒ اور ان کی تائید میں کتابیں لکھنے والے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور حضرت مولانا ظفراحمدعثمانیؒ کی طرح مجھ پربھی لعن طعن کرتے ہوئےکافروزندیق ہونےکے فتوے لگائیں۔ لیکن جو لوگ دلائل کے ساتھ حق بات  کوسمجھنے اورقبول کرنے والے ہیں وہ میری اس تحریرسے ضرور استفادہ حاصل کریں گےانشاءاﷲ۔
کسی بھی شخص کو کافریازندیق کہنا بہت آسان ہے جس کے لیےصرف دوالفاظ اور ایک لمحہ ہی کافی ہوتاہے۔ لیکن کسی ایسےشخص کوجس پرکافروزندیق ہونے کا الزام لگاکرقتل کیا گیا ہو، دلائل کےساتھ مومن مسلمان اورولی اﷲثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ بڑی جرٔت اور حوصلے کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور کے لاعلم اورکم علم وکم فہم علماء بناتحقیق کیئے بڑی آسانی کے ساتھ حسین بن منصورحلّاجؒ کو کافروزندیق کہہ کراپنی جان چھڑالیتےہیں اوراس مسئلے میں عام اورلاعلم مسلمانوں کو بے وقوف بنارہے ہیں اوراہل اﷲسے بدگمان کررہے ہیں۔ لیکن ہر دور میں جہاں علماءِ سُو مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں مشغول رہے ہیں وہیں علماءِ حق بھی مسلمانوں کی اصلاح و رہنمائی کرنے میں ہردور میں کوشاں رہے ہیں۔ ان ہی علماءِ اہل حق میں سے قابل ذکرنام حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور ان کے شاگردِخاص حضرت مولانا ظفراحمدعثمانیؒ کا ہے جنہوں نے حسین بن منصورحلّاجؒ پرلگائے گئے الزامات کے مدلل ، علمی اور تحقیقی جوابات اپنی کتاب’’القول المنصورفی ابن منصور-سیرت منصورحلّاج‘‘میں دیکرعام اورلاعلم مسلمانوں کو گمراہ ہونے اوراہل اﷲسے بدگمان ہونے سے بچایاہے۔
میری اس تحریرکااصل مقصد ان لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے جو لاعلمی کے سبب چند لوگوں کے پیش کردہ نہایت قلیل اوریک طرفہ دلائل پڑھ کرولی اﷲاوربزرگ ہستیوں پرلعن طعن کرتے ہیں اور انہیں کافر وزندیق کہہ کراپنی عاقبت خراب کرتے ہیں اور قرآن مجیدکی اس آیت کا مصداق بنتےہیں۔’’وَالَّـذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْـرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا‘‘۔ ’’اور جو ایمان دار مردوں اور عورتوں کو ناکردہ گناہوں پر ستاتے ہیں سو وہ اپنے سر بہتان اور صریح گناہ لیتے ہیں‘‘۔ [سورۃ الاحزاب:۵۸]
اور ساتھ ہی نبی کریمﷺکےفرمان کامصداق قرار پاتے ہیں: ’’حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَعْمَرَ، أَنَّ أَبَا الأَسْوَدِ الدِّيلِيَّ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي ذَرٍّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ "‏لاَ يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلاً بِالْفُسُوقِ، وَلاَ يَرْمِيهِ بِالْكُفْرِ، إِلاَّ ارْتَدَّتْ عَلَيْهِ، إِنْ لَمْ يَكُنْ صَاحِبُهُ كَذَلِكَ‏"‘‘۔ ’’حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی شخص کو کافر یا فاسق کہے اور وہ درحقیقت کافر یا فاسق نہ ہو تو خود کہنے والا فاسق اورکافر ہو جائے گا‘‘۔ (صحیح البخاری: کتاب الأدب، باب مَا يُنْهَى مِنَ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ ، جلد نمبر ۸، رقم الحدیث ۶۰۴۵)
امام ابو داؤدؒ روایت کرتے ہیں کہ: ’’حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم"يَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يَدْخُلِ الإِيمَانُ قَلْبَهُ لاَ تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِينَ وَلاَ تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ فِي بَيْتِهِ"‘‘۔ ’’حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اے وہ لوگو جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو مگرایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے! مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دے گا"“۔ (صحیح سنن ابی داؤد: كتاب الأدب، باب فِي الْغِيبَةِ، ج۳، ص ۱۹۷، رقم الحدیث ۴۸۸۰؛ قال الشيخ الألبانی: حسن صحيح)
امام ابو داؤدؒ روایت کرتے ہیں کہ: ’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ رَاشِدٍ، قَالَ جَلَسْنَا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَخَرَجَ إِلَيْنَا فَجَلَسَ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ "مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ فَقَدْ ضَادَّ اللَّهَ وَمَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ وَهُوَ يَعْلَمُهُ لَمْ يَزَلْ فِي سَخَطِ اللَّهِ حَتَّى يَنْزِعَ عَنْهُ وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ"‏۔ ’’یحییٰ بن راشد کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے انتظار میں بیٹھے تھے، وہ ہمارے پاس آ کر بیٹھے پھر کہنے لگے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے "جس نے اللہ کے حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی سفارش کی تو گویا اس نے اللہ کی مخالفت کی، اور جو جانتے ہوئے کسی باطل امر کے لیے جھگڑے تو وہ برابر اللہ کی ناراضگی میں رہے گا یہاں تک کہ اس جھگڑے سے دستبردار ہو جائے، اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہیں تھی تو اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنائے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے توبہ کر لے"“۔ (صحیح سنن ابی داؤد: كتاب الأقضية، باب فِيمَنْ يُعِينُ عَلَى خُصُومَةٍ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَعْلَمَ أَمْرَهَا، ج۲، ص ۳۹۶، رقم الحدیث ۳۵۹۷؛ قال الشيخ الألبانی: حسن صحيح)
مندرجہ بالا آیت و احادیث کی روشنی میں آئمہ احناف کا مؤقف یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کی زبان سےکوئی ایسا کلمۂ کفر نکل جائے جس سے صحیح اور غلط دونوں معنیٰ مراد لیئے جاسکتے ہوں تو ایسی صورت میں وہی معنیٰ مراد لینا چاہیئے جو صحیح ہو، خصوصاًجب دوسرے قرائن اور شواہد اس کی تصدیق کرتے ہوں۔
میری اس تحریرسے ہرگزہرگزیہ تاثر بھی نہ لیا جائے کہ میری یہ تحریرحسین بن منصورحلّاجؒ کی ہمایت میں اوراس دورکے قاضی اور مفتیان کرامؒ کی مخالفت میں لکھی گئی ہےجنہوں نے حسین بن منصور حلّاجؒ کے قتل کے فتویٰ پردستخط کیئے۔ کیونکہ شریعت کے قوانیں ظاہری اعمال وشواہدکی بنیادپر لاگوہوتے ہیں، باطنی اعمال پرنہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ظاہر کے مکلف ہیں باطن کے نہیں، لہٰذا جب کوئی عمل شواہدکی بنیاد پرواضح طورپرثابت ہوجائے توشریعت کاحکم اس ظاہری عمل پرعائد ہوتا ہے بھلے اس انسان کاباطن کتنا ہی اچھاکیوں نہ ہو۔ اس دور کے علماءومفتیان کرامؒ نے بھی حسین بن منصورحلّاجؒ کے ظاہری عمل اورشواہدکی بنا پر فتویٰ صادر کیاتھا باطن پرنہیں، بھلے ان کا باطن کتنا ہی اچھاکیوں نہ تھا، اس لئے کہ شریعت ظاہری دلائل کے قبول کرنے کی پابند ہے جبکہ کسی انسان کے باطن پرکسی بھی قسم کی دلیل قائم نہیں کی جاسکتی۔ اس کی مثال کچھ اس طرح سے سمجھی جاسکتی ہے کہ اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقین دیدے اوربعدمیں کہے کہ میری نیت ایک طلاق کی تھی تو شریعت میں اس کی نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گااور طلاق واقع ہوجائے گی بھلے حقیقت میں اس کی نیت ایک ہی طلاق کی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس دور کے علماء ومفتیان کرامؒ کے اس فیصلے کو شریعت کے خلاف نہیں سمجھتےکیونکہ انہوں نےان ہی شواہدپرفتویٰ دیا جو شواہد ان کے سامنے رکھے گئے اور ان ناکافی شواہد پرفتویٰ دینے کےلئےانہیں مجبورکیاگیا۔
آج کےاِس پُرفتن دورمیں اس فتویٰ کی بنیاد پرعام اور لاعلم مسلمانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے اوران بزرگ ہستیوں سے بدظن کرکے ان پرلعن طعن کیاجارہا ہےاور ان پرایسے ایسے الزامات لگائے جارہے ہیں جن کے وہ کبھی بھی حقدار نہ تھے۔ میری اس تحریرکا حقیقی مقصدایسے ہی لوگوں کا رد کرنا ہے جو عام اورلاعلم مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں اور ساتھ ہی عام مسلمانوں کو یہ پیغام بھی پہنچانا ہے کہ اس مسئلہ میں خاموشی اختیارکی جائے اوران بزرگ ہستیوں کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جائے اوران کے تمام معاملات کو اﷲتبارک وتعالیٰ کے سپردکردیاجائےکیونکہ وہ دلوں کے بھیدبہترجاننے والاہے۔
مقدمہ
اہل اَﷲمقبولین کی آزمائش مختلف طریقوں سے ہردور میں ہوتی رہی ہیں، انبیاء علیہم السلام کی آزمائش وامتحان تو انتہائی اعلیٰ درجہ ومعیار پرہوئیں ہیں۔ جیساکہ ہمارے پیارے نبی رسول اﷲﷺاوردوسرےانبیاءعلیہم السلام کی آزمائشوں کی گواہی قرآن و حدیث کے مطالعہ سے واضح ہوکرسامنے آچکی ہے۔ امت مسلمہ میں ہردورمیں ایسے بیشترافرادموجود رہے ہیں جن کو آزمائش کی ان منزلوں سے گزرناپڑاہے جہاں بڑے بڑوں کی پتہ پانی ہوجاتا ہے۔ دورِصحابہ وتابعین رضوان اﷲعلیہم اجمعین کے واقعاتِ عشق الہی سے قطع نظربعدکے ادوار پر سرسری نظر ڈالی جائے تو بھی امتحانات و آزمائشوں کی فہرست بہت طویل ہوجاتی ہے۔ اسی طویل فہرست میں حسین بن منصورحلّاجؒ’’اناالحق‘‘کا اسم گرامی بھی سنہرے حروف سے لکھاگیا ہے۔
حسین بن منصورحلّاجؒ کی آزمائش کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ چوتھی صدی ہجری کے آغاز سے چودھویں صدی کے نصف تک امت مسلمہ کے بڑے بڑے ائمہ اوراکابرین میں ان کی عظمت وشان سے قطع نظران کی دیانت وامانت کے بارے میں عجیب قسم کے شکوک وشبہات موجودرہے ہیں۔ اس لئے کہ تاریخی روایات میں روایتی تساہل نے اپنی رنگ آمیزی خوب خوب طریقے سے کی ہے۔ تاہم چیدہ چیدہ علماءدین اور عارفین نے روایاتِ تاریخ کو تحقیق کی سان پرپرکھ کرحسین ابن منصورؒکوعارف باﷲاور فنافی اﷲکے بلندمقام پرفائزپایاہے۔
حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے انہی تحقیقات پرروشنی ڈالی تو حسین بن منصورؒ کی آزمائش کو امت مسلمہ کے عظیم محسن امام احمدبن حنبلؒ کی آزمائش کی مماثل بتایاہے۔ اس حقیقت کی وضاحت کی غرض سے حکیم الامتؒ نے حسین بن منصورؒ کے بارے میں جس قدرمواد و تاریخی روایات اور تحقیقی اشارات کی صورت میں جو کچھ صحیح سند سے میسر آسکاسب کو جمع کیا اور اپنے خادمِ خاص حضرت مولانا ظفراحمدعثمانیؒ کو اس جمع شدہ مواد کی روشنی میں شیخ فنافی اﷲحسین بن منصورحلّاجؒ کی ایسی مکمل سوانح حیات مرتب کرنے کاحکم فرمایا جس میں حسین بن منصورحلّاجؒ کی جلالت و شان اور عرفان وعشقِ الہی کے مقام بلندکی وضاحت کے ساتھ ساتھ الزامات واعتراضات اور شکوک و شبہات کا بھی پردہ چاک ہوجائے۔سوانح حسین بن منصورؒکی تکمیل ہونے کے بعد حکیم الامتؒ نے خود ہی اس سوانح کا نام’’القول المنصورفی ابن منصور‘‘ تجویزفرمایا۔ اس تحریرکا تاریخی مواداورروایات واشارات کتاب’’القول المنصورفی ابن منصور-سیرت منصورحلّاج‘‘سے لیاگیا ہے اورقارئین کےاطمینان کے لئے اُن اصل کتابوں کے حوالہ جات اور اسکین صفحات بھی پیش کیئے گئے ہیں جن کتابوں سے حکیم الامتؒ نے استفادہ کیاہے۔
اولیاءاﷲکی باتوں کو سمجھنا ہرکسی کے بس کا کام نہیں
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں: ’’کسی غیرمقبول کے ساتھ حسن ِظن رکھنا مضرنہیں، اور مقبول سے بالاوجہ بدگمانی کرنامضرہےاسکی ایسی مثال ہے کہ کسی رذیل(یعنی بے حیا، بے شرم، بے غیرت، کم ذات) کے ساتھ شریفوں جیسامعاملہ کرنا بُرانہیں لیکن کسی شریف کے ساتھ رذیلوں جیسا برتاؤبہت ہی بُراہے‘‘۔ (القول المنصورفی ابن منصور-سیرت منصورحلّاج: ص۱۷)
الإمام أبی المواهب عبد الوهاب بن أحمد بن علی الأنصاری الشافعی المشهور بالشعرانیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’وكان الشيخ محيي الدين رضي الله عنه يقول: كثيراً ما يهب على قلوب العارفين نفحات إلهية، فإن نطقوا ا جهلهم كمل العارفين وردها عليهم أصحاب الأدلة من أهل الظاهر، وغاب عن هؤلاء أن الله تعالى كما عطى أولياءه الكرامات التي هي فرع المعجزات، فلا بد أن ينطق ألسنتهم بالعبارات التي تعجز العلماء عن فهمها۔
قلت: ومن شك في هذا القول: فلينظر في كتاب المشاهد للشيخ محيي الدين؛ أو كتاب الشعائر لسيدي محمد، أو في كتاب خلع النعلين لابن قسي، أو كتاب عنقاء مغرب لابن العربي، فإن أكبر العلماء لا يكاد يفهم منه معنى مقصوداً لقائله أصلاً، بل خاص بمن دخل مع ذلك المتكلم حضرة القدس، فإنه لسان قدسي لا يعرفه إلا الملائكة، أو من تجرد عن هيكل البشرية، أو أصحاب الكشف الصحيح‘‘۔ ’’شیخ محی الدین ؒ(ابن عربی)کا ارشادہےکہ بسااوقات قلوب عارفین پرتجلیاتِ الٓہیہ کی ہوائیں چلتی ہیں۔ اگروہ ان کو زبان سے بیان کردیں تو بعض دفعہ عارفین کاملین بھی انکونہیں سمجھتے اور اہل ظاہرتوردہی کردیتے ہیں۔ مگران لوگوں کے ذہن سے یہ بات اس وقت غائب ہوجاتی ہےکہ جب اﷲتعالیٰ نے اپنے اولیاءکوکرامات عطا فرمائی ہیں جو معجزات کی فرع ہیں تو اس میں کیا تعجب ہے کہ اﷲتعالیٰ انکی زبانوں کوایسی عبارات بھی عطا فرمائیں جن کے سمجھنےسےعلماءعاجزہوجائیں، انتہیٰ جس کو اس قول میں شک ہووہ شیخ ابن عربی کی کتاب المشاھدیاسیدی محمدی کی کتاب الشعائریا ابن قسی کی کتاب خلع النعلین یا شیخ ابن عربی کی کتاب عنقاءمغرب مطالعہ کرے، کہ بڑےبڑےعلماء ان کا مطلب نہیں سمجھ سکتے، ان کا مطلب وہی سمجھ سکتا ہے جو اس متکلم کے ساتھ بارگارہِ قدس میں داخل ہوا ہوکیونکہ یہ قدسی زبان ہےجسکوملاٹکہ ہی سمجھ سکتے ہیں یا وہ جوبشریت کی قید سے خلاصی پاچکے، یا وہ جن کوکشفِ صحیح عطاہواہے‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی:ج۱، ص۲۸-۲۹)
’’ہمارے زمانے میں حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتویؒ کی کتاب آب حیات کامطالعہ کرنے کے باوجوداردوزبان میں ہونیکے بڑےبڑےعلماء اسکے سمجھنے سے قاصر ہیں نیزحضرت مولانا محمداسماعیل صاحب دہلویؒ شہیدکی کتاب عتقات اور حضرت شاہ ولی اﷲدہلویؒ کی کتاب تفہیماتِ الٓہیہ کا مطالعہ کیا جائے کہ اکثر اہل علم انکے بہت سے مقامات نہیں سمجھ سکتے‘‘۔ (القول المنصورفی ابن منصور-سیرت منصورحلّاج: ص۱۷)
اہل علم کے مندرجہ بالا اقوال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اولیاءاﷲکی زبان سے نکلے ہوئے کلمات کو سمجھنا ہر انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔ اور اسی ناسمجھی کے سبب اولیاءاﷲوجماعت صوفیہ پر لعن وطعن ہر دور میں ہوئی ہے۔ ذوالنون مصریؒ اور ابویزیدبسطامیؒ کے وقت سے آج تک ہرزمانے میں یہ لعن طعن برابرہوتی رہی ہے، بلکہ سیدی ابراہیم دسوقیؒ نے نقل کیا ہےکہ بعض لوگوں نے تو صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت پرطعن کیاہے۔ کسی کو ریاءکارکہا، کسی کو منافق ۔ چنانچہ حضرت زبیررضی اﷲعنہ نماز بہت خشوع سے پڑھتے تھے، تو بعض لوگ ان کو معاذاﷲریاءکار کہتے تھے۔ یعنی ہر دور میں ایسے کم فہم لوگ رہے ہیں جنہوں نے اہل اﷲکی مخالفت کی ہے، جس کی دلیل قرآن مجیدکی یہ آیت ہے: ’’وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا‘‘۔’’ اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا، کیا تم ثابت قدم رہتے ہو، اور تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے‘‘۔ [سورۃ الفرقان:۲۰]
الإمام أبی المواهب عبد الوهاب بن أحمد بن علی الأنصاری الشافعی اللشعرانیؒ نےاپنی کتاب الطبقات الکبریٰ اللشعرانی میں ان واقعات کو تفصیل سے نقل کرتے ہوئے لکھاہےکہ:
۱۔ سہل بن عبداﷲرضی اﷲعنہ کو ان کے وطن سے نکالاگیا۔ انکی طرف بہت سی بُری بُری باتیں منسوب کی گئیں۔ کافر تک کہاگیا۔ چنانچہ وہ اپنے وطن سے بصرہ آئے اور مرتے دم تک وہیں رہے، حالانکہ علم ومعرفت ومجاہدات میں بڑے درجہ پرتھے۔
۲۔ شیخ ابوالحسن حصری رضی اﷲعنہ پر بھی کفر کاحکم لگایاگیا۔ ان کے کچھ الفاظ ایک محضرمیں لکھ کرقاضی القضاۃ کے سامنے پیش کیئے گئے۔ قاضی نے ان کو بلایا اور ان سے گفتگوکی، نتیجہ یہ ہواکہ ان کو جامع مسجد میں بیٹھنے (اور حلقہ قائم کرنے)سے روک دیا گیا۔
۳۔ امام غزالیؒ کی بھی تکفیر کی گئی اور انکی کتاب احیاء کو جلایاگیا، امام غزالیؒ پرانکارکرنے اور کتاب کے جلانے کا فتویٰ دینے والوں میں قاضی عیاض اور ابن رشدؒ بھی تھے۔
۴۔ ابویزیدبسطامیؒ کو سات مرتبہ ان کے شہرسے جلاءوطن کیاگیا۔
۵۔ اسی طرح علماءاخمیم نے ذوالنون مصریؒ کے خلاف شوروشغب کیا اور کشتی میں سوار ہوکرسلطان مصر کی طرف چلے، تاکہ ذوالنونؒ کے کفرپرشہادت دیں، اُن کو اسکا علم ہوا، تو فرمایااے اﷲاگریہ لوگ جھوٹے ہوں، تو انہیں غرق کردیجئے، چنانچہ کشتی لوٹ گئی اور لوگوں کی نظروں کے سامنے سب غرق ہوگئے۔ ذوالنون مصریؒ کی شکایت بعض حکام تک پہنچائی گئی، تو ان کو بغداد تک اس صورت سے لایا گیاکہ گلے میں طوق تھا اور پیروں میں بیڑیاں، جب خلیفہ نے ان سے گفتگوکی تو ان کے کلام کی صولت و شوکت سے متاثرہوکربے ساختہ کہنے لگا۔ اگریہ زندیق ہے تو روئے زمین پرکوئی مسلمان نہیں۔
۶۔ سمنون محب کو بھی بڑی مصیبت کا سامنا ہواتھا۔ خلیفہ نے ان کی اور ان کے اصحاب کی گردن مارنے کا حکم دیاتھا، جسکی وجہ سے یہ حضرات برسوں روپوش رہے۔
۷۔ علماء نے شیخ ابوسعید فرازؒکی بعض الفاظ کی بناءپرجو ان کے مکتوبات میں پائے گئے تھے تکفیرکی۔
۸۔ حضرت جنیدبغدادیؒ نے علم توحیدپر تقریرکی تو لوگوں نے ان کے خلاف شہادت دی پھر انھوں نے فقہ میں (مشغولی اختیارکرکے) اپنے کو چھپایا، حالانکہ ان کا درجۂ علم وجلالت مقام معلوم ہے۔
۹۔ شیخ ابن ابی جمرہؒ نے جب یہ فرمایا کہ مجھے بیداری میں رسول اﷲﷺسے شرفِ اجتماع حاصل ہوتا ہے۔ لوگوں نے ان کے خلاف ایک مجلس منعقد کی جسکے بعد وہ اپنے گھرسے باہرنہیں نکلتے تھے۔ صرف جمعہ کے لئے گھرسے باہرآتے تھےاور مرتے دم تک یہی حال رہا۔
۱۰۔ مقام رے کے زہادوصوفیہ نے شیخ یوسف بن الحسین پرانکار کیا اور ان کو عظائم امورسے متہم کیا، مگرانھوں نے کسی کی پرواہ نہ کی کیونکہ وہ اپنی حالت میں متمکن تھے۔
۱۱۔ امام سبکیؒ کے متعلق بارہاکفرکی شہادت قائم کی گئی۔ باوجودیکہ ان کا علم وعمل بہت کامل تھا۔ بڑےمجاہدہ کرنے والے اور کامل متبع سنت تھے۔
۱۲۔ اسی طرح بہت سے علماءصوفیہ کو ابتلاءپیش آیاہے۔ آئمہ اربعہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدبن حنبلؒ وغیرہم کے ابتلاءات مشہوراور کتب مناقب میں مسطور ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی: ج۱، ص۳۰-۳۵؛ اردو ترجمہ: ص۷۰-۷۵)
پس کسی شخص کے متعلق اس کے بعض معاصرین کے سخت کلمات یا بعض مورخین کی ضعیف روایات یا بعض علماء کے تکفیری فتاوجات کسی امام یا ولی اﷲکے مردودہونے کی دلیل نہیں ہوسکتےورنہ کوئی بڑے سے بڑا عالم یا ولی اﷲبھی مقبول نہ رہ سکے گا۔ کیونکہ اس قسم کے ابتلاءات سے بہت کم لوگ بچے ہیں، بلکہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ موافقین ومخالفین کے اقوال میں غلبہ اور بقاء کس جانب کو ہواہے۔ اگر اہل اسلام کے قلوب میں اس شخص کی مقبولیت اور ولایت کااعتقادباقی رہا اور مخالفین کی باتوں کا کچھ اثر نہ رہا تو وہ مقبول اور ولی اﷲہے۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو مقبول اور ولی اﷲنہیں کیونکہ اﷲتبارک وتعالیٰ نے جس طرح دین اسلام کے مقابلے میں کسی باطل دین کو پنپنے نہیں دیا بالکل اسی طرح اولیاءاﷲکےمقابلے میں کسی باطل شخص کو مقبول ہونے نہیں دیا۔ اس کی دلیل اﷲتبارک وتعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ: ’’وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُـوْنُـوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ‘‘۔ ’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں برگزیدہ امت بنایا تاکہ تم اور لوگوں پر گواہ ہو اور رسولﷺ تم پر گواہ ہو ‘‘۔ [سورۃ البقرۃ:۱۴۳]
اسی طرح حدیث شریف میں آتا ہے: ’’أَنْتُمْ شُھَدَائُ اللّٰہِ فِي الْأَرْضِ‘‘۔ ’’ کہ تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو ‘‘۔
حسین بن منصورحلّاجؒ پر لگائے گئے الزامات کی اصل حقیقت جاننے سے پہلے ان کا ایک مختصرتعارف عوام الناس کے سامنے پیش کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ عام عوام جو ابھی تک تصویر کا ایک رُخ دیکھتی رہی ہے اور حسین بن منصورحلّاجؒ پر لعن طعن کرتی رہی ہے اس کے سامنےتصویرکادوسرااورحقیقی رُخ پیش کرکے ان کی اصلاح کی جاسکے۔
حسین بن منصورحلّاجؒ کا مختصرتعارف وحالات زندگی
ان کا اصل نام حسین بن منصورہے۔ دادا کانام محمی ہے جو مجوسی تھااور مقام بیضاءکاباشندہ تھا جو فارس کا ایک شہرہے۔ ان کے والدکانام منصورہے جن کے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔ حسین بن منصورکی کنیت ابومغیث ہے، اور بعض کے نزدیک ابوعبداﷲ۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۸۸-۶۸۹)
حسین بن منصورؒکے صاحبزادےاحمدبن حسین سے خطیب بغدادیؒ نے تاریخ بغداد میں روایت کیاہےکہ: ’’میرےوالدحسین بن منصوربیضاءفارس کے ایک موضع میں جس کانام طورہےپیداہوئے۔ نشودنماتسترمیں ہوا۔ وہیں سہل بن عبداﷲتستریؒ کی صحبت میں دوسال رہے۔ پھربغداد کی طرف چلے گئے، کبھی تو وہ ٹاٹ پہنتے تھے کبھی دوبے سلے رنگین کپڑوں میں رہتے۔ بعض اوقات دراعہ(لمباکرتا)اور عمامہ استعمال کرتےاور کبھی سپاہیوں کے طریقے پرقباء پہن کرچلتے پھرتےتھے۔ جب تسترسے اپناپہلاسفربصرہ کی طرف کیا تو ان کی عمر۱۸سال تھی۔ اس وقت دو بے سلے رنگین کپڑے پہن کرعمروابن عثمان مکیؒ اور جنیدبن محمدؒکے پاس تشریف لے گئے۔ اُم الحسین بنت ابی یعقوب اقطع سے نکاح کیا۔ عمروبن عثمان ؒاس نکاح سے بگڑگئےاور جس کی وجہ سے ابویعقوب اورعمروبن عثمان ؒکے درمیان وحشت و نفرت بڑھ گئی۔ پھرحضرت جنیدبن محمدؒکی خدمت میں حاضرہوئے اوران سے اس کلف واذیت کو ظاہرکیاجوابویعقوب اور عمروبن عثمانؒ کے درمیان چل جانے سے ان کو پہنچی تھی۔ جنیدؒنے سکون وصبرکاامرکیا اور فرمایاکہ دونوں کی خاطرداری کرتے رہو۔ ایک مدّت تک اس حالت پرصبرکیاپھرمکہ چلے گئے۔ ایک سال مجاور مکہ رہ کراس حال میں بغدادواپس آگئےکہ فقراءصوفیہ کی ایک جماعت ان کے ساتھ تھی(گویااجازت سے پہلے ہی شیخ بن گئے)پھرجنیدؒکے پاس پہنچے اور ان سےکوئی مسئلہ (جوغالباًتصوف کاتھا)پوچھاتو جنیدؒنے کچھ جواب نہیں دیااور بعدمیں انکی نسبت یہ فرمایا کہ وہ اس سوال میں (درپردہ) مدعی تھے(طالب علم نہ تھے)۔ اب وہ جنیدؒ سے بھی متوحش ہوگئے اور اپنی زوجہ کو لے کرتسترواپس چلے گئے۔ ایک سال تک وہیں رہے، اس وقت لوگوں میں ان کو بڑی مقبولیت حاصل ہوگئی تھی، یہاں تک کہ اس زمانے کے سب لوگ ان سے حسد کرنے لگے، اور عمربن عثمانؒ تو ان کے بارے میں خورسنان والوں کو برابرخطوط لکھتے رہتےتھے۔ جن میں ان کے متعلق بڑی بڑی باتیں ہوتی تھیں۔ پھر اچانک ان میں ایک تبدیلی رونماہوئی یہاں تک کہ انہوں نے صوفیانہ لباس اتارپھینکااور (اہل طریق سے) الگ ہوگئےاور (سپاہیانہ)قباءپہن کراہل دنیا کی صحبت میں رہنے لگے۔ پھرتسترسے روانہ ہوگئےاور پانچ سال تک غائب رہے۔ پھر فارس واپس آئے اور لوگوں کے سامنے (عارفانہ وصوفیانہ)کلام کرنے لگے۔ مجلس منعقد کرتے اور لوگوں کو اﷲتعالیٰ کی طرف دعوت دیتےتھے۔ فارس میں ابوعبداﷲزاہدکے لقب سے مشہورتھے۔ اس زمانے میں چندکتابیں بھی تصنیف کیں‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۸۸-۶۹۰)
لقب حلّاج کی وجہ
’’خطیب بغدادیؒ نے تاریخ بغداد میں ابو عبدالرحمٰن بن حسین السلمیٰ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ حسین بن منصورؒ کو حلّاج اس لئے کہاجاتا تھاکہ وہ ایک بار واسط میں ایک دُھنے کی دکان پرپہنچے اور اسے کسی کام کو بھیجناچاہا، اس نے کہا! میں اپنے کام میں مشغول ہوں، ابن منصور نے کہا تو میراکام کردے میں تیراکام کردوں گا۔ چنانچہ وہ چلاگیا، جب (کام کرکے) واپس آیا تودکان کی روئی کا ساراذخیرہ دُھنا ہواپایا (جس کا ایک مدّت میں بھی دُھننا دشوارتھا) اس وجہ سے ان کا لقب حلّاج پڑگیا۔
بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی ابتدائی حالت میں لوگوں کے اسرارپران کے دل کا حال بیان کردیا کرتے تھےاورمریدوں کے چھپے ہوئے بھیدظاہرکردیتےتھے۔ اسی وجہ سے لوگ ان کو حلّاج الاسرارکہنے لگے۔ پھرحلّاج لقب مشہورہوگیا‘‘۔(بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۱)
ریاضت و مجاہدات
خطیب بغدادیؒ تاریخ بغداد میں محمدبن علی بن الفتح کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ حسین بن منصورؒ اپنی بدایت حال میں مکہ پہنچے تو ہم نے کوشش کرکے ان کی پیوندزدہ گدڑی کو دیکھا اس میں سے ایک جُوں پکڑی، پھر اس کووزن کیاتو نصف دانگ کے برابرتھی۔ کثرت ریاضت اور شدّت مجاہدات کی وجہ سے (ان کی گدڑی میں ایسی بڑی بڑی جُوئیں ہوگئی تھیں اور ان کو اپنے شغل سے) اتنی فرصت نہ تھی کہ کپڑوں کو صاف کریں یا جُوں ماریں۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۶)
خطیب بغدادیؒ نے تاریخ بغداد میں ابویعقوب نہرجوری کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حسین بن منصورؒپہلی مرتبہ مکہ معظمہ میں آئے تو سال بھر تک (مسجدحرام) کے صحن میں بیٹھے رہے، وضواور طواف کے سواکسی وقت اپنی جگہ سے نہ ہٹتے تھے۔ نہ بارش کی پرواہ تھی، نہ دھوپ کی، شام کے وقت ان کے واسطے مکہ کی روٹیوں میں سے ایک روٹی اور ایک کوزہ میں پانی لایا جاتاتھا تو وہ روٹی کے چار طرف ایک ایک دفعہ منہ مارتے (اورچارلقمہ کھالیتے)پانی کے دوگھونٹ پیتے۔ ایک گھونٹ کھانے سے پہلے اور ایک گھونٹ کھانے کے بعد، پھر باقی ماندہ روٹی کو کوزہ کے اوپررکھ دیتے جو ان کے پاس سے اٹھالی جاتی تھی۔(بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۶)
خطیب بغدادیؒ نےتاریخ بغداد میں ابو عبدالرحمٰن بن حسین السلمیٰ سے روایت کیاہےکہ فارس بغدادی سے میں نے سنا کہ جب حسین بن منصورحلّاجؒ کو قید کیا گیاتو ٹخنوں سے گھٹنوں تک تیرہ بیڑیاں (لوہے کی) ان کے پیروں میں ڈالی گئیں اس کے باوجود بھی وہ رات دن میں ایک ہزار رکعتیں پڑھتے تھے۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۰)
ابن منصورؒ کی کرامات
خطیب بغدادیؒ نے تاریخ بغداد میں ابو عبدالرحمٰن بن حسین السلمیٰ کے حوالے سے روایت کیا ہے کہ حسین بن منصورؒ کو حلّاج اس لئے کہاجاتا تھاکہ وہ ایک بار واسط میں ایک دُھنے کی دکان پرپہنچے اور اسے کسی کام کو بھیجناچاہا، اس نے کہا! میں اپنے کام میں مشغول ہوں، ابن منصور نے کہا تو میراکام کردے میں تیراکام کردوں گا۔ چنانچہ وہ چلاگیا، جب (کام کرکے) واپس آیا تودکان کی روئی کا ساراذخیرہ دُھنا ہواپایا (جس کا ایک مدّت میں بھی دُھننا دشوارتھا) اس وجہ سے ان کا لقب حلّاج پڑگیا۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۱)
امام ابوجعفرمحمد بن جریرالطبریؒ تاریخ الطبری میں روایت کرتے ہیں کہ بنت سمری نے کہا کہ ابن منصورنے ایک دن مجھے بلایااوراپناہاتھ آستین کے اندرڈال کرنکالاتو وہ مشک سے بھراہواتھا، وہ مشک مجھے دی، دوبارہ پھرآستین میں ہاتھ ڈالااور مشک سے بھراہوانکالا، وہ بھی مجھے دی۔ اسی طرح چندبارکیا اور کہااس کو اپنی خوشبومیں ڈال لے، کیونکہ عورت جب مردکے پاس پہنچتی ہے تو اسے خوشبوکی حاجت ہوتی ہے۔ پھر ایک دن وہ اپنے کمرہ میں بوریوں پر بیٹھے تھے، مجھے بلایااور کہا! فلاں جگہ سے بوریہ اٹھاؤاور اسکے نیچے سے جتنا چاہولےلو۔ میں نے اس جگہ سے بوریہ اٹھایاتو اس کے نیچے تمام گھرمیں دینا ربچھے ہوئے دیکھےجس سے میری آنکھوں میں چکا چوند ہونے لگی۔ (بحوالہ تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۸۱)
عریب بن سعد قرطبی دنبالہ تاریخ الطبری میں نقل کرتے ہیں کہ ابن نصر قشوری بیمار ہواتو طبیب نے اس کے لئے سیب تجویز کیا۔ ہر چندتلاش کیاگیا، نہیں ملاتوحلّاج نے ہواکی طرف ہاتھ کا اشارہ کیااورلوگوں کے سامنے سیب رکھ دیا۔ سب کو تعجب ہوا توپوچھا، یہ تم کو کہاں سے ملا؟ کہاجنت سے۔ حاضرین میں سےایک نے کہاکہ جنت کے پھل میں تغیرنہیں ہوتااور اس میں تو کیڑاہے، کہا چونکہ یہ داربقاسے دارفنامیں آگیاہے اس لئے اس میں ایک جزویہاں کی بلاءکا آگیا۔ لوگوں نے اس جواب کوان کے فعل سے بھی زیادہ عجیب سمجھا۔ (بحوالہ دنبالہ تاریخ الطبری از عریب بن سعد قرطبی:۸۸۲ء)
شیخ یوسف بن اسماعیل النبہانیؒ نے اپنی کتاب جامع کراماتِ اولیاءمیں نقل کیا ہے کہ حسین بن منصور حلاجؒ کی کرامات میں سے ایک کرامت یہ بھی ہے کہ ابن خفیف (جیل خانہ) میں انکے پاس گئے اور پوچھا کس حال میں ہو؟ کہااللہ تعالیٰ کی نعمتیں میرے اوپر (نازل) ہیں ظاہر میں بھی اورباطن میں بھی۔ پھرابن خفیف نے کہا میں تم سے تین مسئلہ (تصوف کے) پوچھنا چاہتا ہوں۔ ابن منصورؒ نے کہا پوچھو! ابن خفیف نے کہا! صبر کسے کہتے ہیں؟ ابن منصور ؒنے کہا، صبر یہ ہے کہ میں ان بیڑیوں کی طرف نظر کروں تو یہ ٹوٹ جائیں۔  ابن خفیف کہتے ہیں کہا ابن منصور نے یہ کہہ کر ان بیڑیوں کی طرف نگاہ کی تو سب ٹوٹ کر کھل گئیں (باوجود اس قدرت تصرف کے رات دن پیروں میں بیڑیاں ڈالے رکھتے تھے، تصرف کے زریعے انکو الگ نہ کرتے تھے) اور دیوار(جیل خانہ کی طرف نظر کی تو دیوار)پھٹ کر کھل گئی اور دفعۃًہم دجلہ کے کنارے پہنچ گئے (مگربایں ہمہ وقت جیل خانہ میں ہی رہتے تھے) اور کہا یہ صبر ہے۔ ابن خفیٖف نے کہا فقر کیا ہے؟ تو ایک پتھر پر نگاہ ڈالی، وہ فوراً سونا اور چاندی بن گیا، کہا یہ فقر ہے۔کہ باوجود اس (تصرف) کے میں ایک پیسے تک کا محتاج ہوتا ہوں جس سے(گھر میں جلانے) کا تیل خریدوں۔ ابن خفیف نے کہا! فتوت (مردانگی) کسے کہتے ہیں؟ ابن منصور ؒنے کہا کل رات تم اس کو دیکھ لو گے۔ ابن خفیف کہتے ہیں جب رات آئی تو میں نے (خواب ) میں دیکھا گویا قیامت قائم ہے، اور ایک منادی پکار رہا ہے، حسین بن منصور حلّاج کہاں ہے؟چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ کے آگے کھڑے کیئے گئے، ان سے کہا گیا جو تجھ سے محبت رکھے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو تجھ سے بغض رکھے گا وہ دوزخ میں جائے گا۔ حلّاج نے کہا (نہیں) یارب بلکہ سب کو بخش دیجیئے۔ پھر میری (ابن خفیف) طرف متوجہ ہوئے اور کہا یہ "فتوت"(مردانگی) ہے۔ (جامع کراماتِ اولیاء: ج۲، ص۴۳-۴۴)
 اگرحسین بن منصورحلّاجؒ ساحر و زندیق ہوتے تو باوجود اس تصرف کے جیل خانہ میں قیدکیوں رہتے؟ ہروقت پیروں میں بیڑیاں کیوں ڈالے رکھتے؟ ساحرو زندیق کا صبر و فقر سے کیا واسطہ؟ جس انسان کوایسا تصرف حاصل ہو تو یقیناًجیل خانہ سے بھاگ جائے اور ایسی جگہ روپوش ہوکہ کسی کوبھی پتہ نہ چلے۔
حسین بن منصورؒ پرلگائے گئےالزامات اورجوازِقتل کا فتویٰ کس طرح حاصل کیاگیا
خطیب بغدادیؒ تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں کہ:
حسین بن منصورحلّاجؒ جب واپس بغداد آئےتو کسی نے وزیر حامد بن عباس کو اطلاع دی کہ حلّاج کہتا ہے کہ میں نے بہت سے لوگوں کو زندہ کیا ہے اور میں مُردوں کو زندہ کر سکتا ہوں اور بہت سے جنات میرے تابع ہیں اور میں جو چاہوں میرے پاس لا کر حاضر کر دیتے ہیں۔ نیز یہ کہ بہت سے اہل کار میرے گرویدہ ہو گئے ہیں۔ نصر حاجب سرکاری دفاتر کا نگران بھی میری طرف مائل ہو گیا ہے اور اس کے علاوہ کئی بڑے بڑے لوگ حلقہ بگوش ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر وزیر حامد بن عباس نے خلیفہ سے درخواست کی کہ حلّاج کا معاملہ اس کے سپرد کر دیا جائے لیکن نصر حاجب آڑے آیا۔ جب وزیر نے اصرار کیا تو خلیفہ مقتدر باللہ نے ابن منصوراوراس کے مریدوں کا معاملہ وزیرحامد بن عباس کے سپرد کر دیا۔ وزیرحامد بن عباس نے علماء سے اس کے قتل کا فتویٰ طلب کیا تو علماء اور فقہاء نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ثبوت کافی نہیں۔
وزیر حامدبن عباس نے بہت سے طریقوں اور کوششوں کے ذریعہ حسین بن منصورؒکو ۸سال سات مہینے آٹھ دن قیدمیں رکھنے کے بعدان کے ایک مریدکوسرکاری گواہ بنالیامگروہ اس کوشش میں تھاکہ ابن منصورؒ کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جائے جس پرگرفت کرکے علماءسے قتل کافتویٰ حاصل کرلے، چنانچہ حامد نے علماء کے سامنے حلاج کی ایک کتاب پیش کی، جس میں لکھا تھا کہ: "اگر کوئی شخص حج نہ کر سکے تو ایک صاف ستھری کوٹھی کو لیپ پوت کر حج کے ارکان اس کے سامنے ادا کرے۔ پھر تین یتیموں کو بلوا کر انہیں عمدہ کھانا کھلائے، عمدہ کپڑے پہنائے اور سات سات درہم ان کے حوالے کر دے، تو اس کو حج کا ثواب مل جائے گا"۔
حامد بن عباس نے جب یہ فقرے قاضی ابوعمر کو سنائے تو اس نےحلّاج کوبُلاکرپوچھا کہ: تجھے یہ مضمون کہاں سے پہنچا؟ حلّاج نےحسن بصری رحمةاللہ علیہ کی کتاب "الاخلاص: کتاب السنة" کا حوالہ دیا۔ جس پرقاضی القضاة غضب ناک ہو گیا اورقاضی ابوعمرکی زبان سے ابن منصورؒکے لئے’’یاحلال الدم‘‘نکل گیااوروزیرحامد نے قاضی کے اس لفظ کو پکڑلیااورکہااس لفظ کو لکھ دیجئے۔ قاضی ابوعمرحلّاج سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھ کراس بات کو ٹالنے لگےمگرحامد اس بات کے لکھنے کامطالبہ کرتا رہا۔ یہاں تک کہ حامد نے دوات اپنے آگے سے بڑھاکرقاضی کے سامنے رکھ دی اورکاغذ منگاکراس کے حوالے کردیااور بہت سختی کے ساتھ اس بات کے لکھنے کا مطالبہ کیاجس کے بعد قاضی مخالفت نہ کرسکا اورابن منصورؒ کےجوازِقتل کافتویٰ لکھ دیا۔ ان کے بعددوسرے علماءنےبھی اس پردستخط کردیئے، پھرخلیفہ نے بھی علماءکے فتوے پرقتل کی اجازت دے دی۔
حسین بن منصورحلّاجؒ نے جب یہ صورت دیکھی توکہاکہ: ’’میری پشت (شرعاً) ممنوع ومحفوظ ہے (یعنی مجھے سزا ئے تازیانہ بھی نہیں دی جاسکتی) اورمیراخون بہانا حرام ہے، تم کو ہرگز یہ جائزنہیں کہ گھڑگھڑا کہ میرے جوازقتل کا فتویٰ دو، حالانکہ میرااعتقاد اسلام (کےموافق) ہے، میرامذہب سنت ہے، اور میں حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت عمرؓوعثمانؓ وحضرت علیؓ وطلحہؓ وزبیرؓ وسعدؓوسعیدؓاورعبدالرحمٰن بن عوفؓ اورابوعبیدہ بن جراح رضی اﷲعنہم کی تفضیل کا قائل ہوں اور سنت (کے بیان) میں میری کتابیں کتب فروشوں کے پاس موجود ہیں۔ پس میرے خون کے معاملہ میں اﷲسے ڈرو۔ اﷲسے ڈرو‘‘۔
وہ بارباراسی بات کودہراتے رہے اورلوگ برابردستخط کررہے، یہاں تک کہ حسب منشاء فتوے کی تکمیل کرلی گئی تویہ لوگ مجلس میں اُٹھ کھڑے ہوئے اورحلّاج کواسی جگہ بھیج دیا گیاجہاں وہ پہلے قیدتھے۔ (تاریخ مدینۃ السلام، خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۷-۷۱۸)
اس فتوے کی بنیادپرچوتھی صدی ہجری کے آغاز یعنی۱۸ ذیقعد ۳۰۹ھ کو حسین بن نصورحلّاجؒ کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کے بعدسولی دی گئی اور پھر گردن کاٹ کران کی نعش کو جلاکردریا دجلہ میں بہادیاگیا، سرکودودن تک بغداد کے پُل پرنصب کیاگیاپھرخراسان بھیج دیاگیااور اطراف واکناف میں گھمایاگیااورعام عوام کے سامنے یہ مشہور کردیا گیا کہ حسین بن منصور حلّاجؒ "اناالحق" ’’میں حق ہوں‘‘ کا نعرہ لگایا کرتے تھے۔ اورانہوں نےمبینہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا حتیٰ کہ وہ اس سے بھی اوپر چلےگئے اور پھر وہ یہ دعویٰ کرنے لگے کہ وہی اللہ ہے (نعوذباللہ)۔
تذکرۃ الاولیا میں مرقوم ہے کہ ’’حلّاج کے کان، ناک کاٹ دیئے گئے اس کے آخری کلام کے بعد اس کی زبان کاٹ دی گئی پھر نماز شام کے وقت اس کا سر تن سے جدا کردیا گیا‘‘۔ ایک اور روایت جو کچھ یوں ہے کہ ’’حلّاج نے اپنے دونوں کٹے ہوئے خون آلود بازو اپنے چہرے پر ملے ان کا چہرہ خون سے دہکنے لگا جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کررہے ہو، کہنے لگے میرے جسم کا بہت خون بہہ چکا ہے جس سے میرا چہرہ زردپڑ گیا ہوگا میں نے اپنے چہرے کو سرخ اس لئے کیا تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں میرا چہرہ کسی ڈر یا خوف سے پیلا پڑ گیا ہوگا ۔ پھر لوگوں نے سوال کیا آپ نے چہر ہ تو سرخ کرلیا مگر اپنی کلائیوں کو خون سے تر کیوں کیا۔ جواب دیا کہ وضو کیلئے۔ عشق میں دو رکعت کی نماز ہے جس کا وضو صرف خون سے ہی ہوتا ہے۔ جب منصور کے ہاتھ، پاؤں، بازو کاٹے جاچکے تھے اور آنکھیں نکال دی گئی تھیں جلاد نے ان کی زبان کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو منصور نے کہا ٹھہر میں ایک بات کہہ لوں پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کے بولے یا الٰہی اس تکلیف پر جو یہ مجھ پر تیرے لئے روا رکھے ہیں انہیں محروم نہ رکھنا۔ میں تیرے دیدار کیلئے آرہا ہوں، پھرجلاد نے وزیرحامد العباس کے کہنے پر اس کا سر کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ اٹھایا ساتھ ہی حلّاج نے یہ کلمات ادا کئے "واجد کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ تیرے ساتھ ایک ہوجائے۔ میں تیرے دیدار کو آرہا ہوں"۔ حلّاج کا کٹا ہوا سر نیچے آن گرا اس کے جسم کو تیل سے تر کردیا گیا اور پھر آگ لگادی خاکستر کو ایک مینار سے دریائے دجلہ میں پھینک دیا گیا۔
علامہ حضرت زکریا قزوینی لکھتے ہیں: ’’"جب انہیں پھانسی دینے کے لیے لے جانے لگے تو انہوں نے ایک حاجب کو بلایا اور کہا کہ جب مجھے جلایا جانے لگے تو دجلہ کا پانی چڑھنا شروع ہوجائے گا اور قریب ہوگا کہ پانی بغداد کو غرق کردے جب تم یہ منظر دیکھو تو میری راکھ پانی میں ڈال دینا تاکہ پانی ساکت ہوجائے ۔ جب انہیں پھانسی دی گئی اور جلایا گیا تو دجلہ میں طغیانی آگئی حتی کہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ بغداد غرق ہوجائے گا تو خلیفہ نے کہا کیا تمہیں پتہ ہے کہ منصور حلّاج نے اس بارے میں کچھ کہا تھا ۔ حاجب نے کہا ہاں امیر المومنین اس نے اسی طرح کہا تھا تب اس نے حکم دیا جیسا اس نے کہا تھا ویسا ہی کرو پھر انہوں نے راکھ پانی میں پھینک دی"۔ موت سے عین پہلے منصور حلّاج ؒنے آخری بات یہ کہی "اے رب اگر تو ان لوگوں کو بھی وہی کچھ دکھادیتا جو میں دیکھ رہا ہوں تو یہ مجھے کبھی سزا نہ دیتے اور اگر مجھ سے وہ چیز چھپا لیتا جو ان سے چھپا رکھی ہے تو میں کبھی اناالحق کا نعرہ نہ لگاتا۔ اے اللہ میرے قاتلوں کو معاف کردے"واللہ اعلم‘‘۔ (آثارالبلادواخبارالعباد: ص۱۶۸)
جو دنیا کو پہچان لے گا وہ زاہد ہوجائے گا، اور جو اللہ تعالیٰ کو پہچان لےگا وہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو ہر چیز پر مقدم رکھے گا، اور جو اپنے ہی کو نہ پہچانے گا وہ تو زبردست غرور اور دھوکہ میں مبتلا رہےگا۔
ابن منصورکا عقیدہ توحید اور کلمہ أنا الحق کی توجہیہ
امام ابوالقاسم القشیریؒ (متوفی ۴۶۵ھ) اپنی کتاب رسالۃ القشیریۃمیں روایت نقل کرتے ہیں کہ: ’’ہم کو شیخ ابوعبدالرحمٰن سلمیؒ نے خبردی کہ میں نے محمد بن غالب سے سناکہ انہوں نے ابو نصراحمدابن سعیدالاسفنجابی سے سناکہ حسین بن منصورنے فرمایاکہ اﷲتعالیٰ نے ہرچیزکے لئے حدوث لازم کردیا ہےکیونکہ قدیم ہونا اس کے لئے مخصوص ہے۔ پس جس چیز کاظہورجسم سے ہے اس کے لئے عرض لازم ہےاورجوچیزآلات واسباب سے مجتمع ہوئی ہے اس کی قوتیں اس کو تھامے ہوئے ہیں (یعنی وہ ان قوتوں کی محتاج ہے)اورجس چیزکوایک وقت مجتمع کرتاہےدوسراوقت اسکو متفرق کردیتاہےجسکواس کا غیرقائم کرتاہے۔ اس کو دوسرے کی احتیاج ہے جس پروہم کی دسترس ہوسکتی ہے، تصویرخیالی اس تک پہنچ سکتی ہے۔
اورجس کومحل اور مکان اپنے اندرلئے ہوئے ہےاس کوکیفیت مکانی محیط ہے جوکسی جنس کے تحت میں ہےاس کے لئے مکیف اورممیّزہونا لازم ہے۔ کیونکہ جنس کے تحت میں انواع ہوتی ہیں اورہرنوع دوسری نوع سے کسی فصل کے ذریعہ ممتازہوتی ہے۔ اﷲتعالیٰ پرنہ کوئی مکان قوق سایہ فگن ہے، نہ کوئی مکان تحت اس کواٹھائےہوئےہے، کوئی حداس کے سامنےنہیں اور کوئی قریب ونزدیک اس کامزاحم نہیں (یعنی اسکے نزدیک کوئی نہیں جو مزاحمت کااستعمال ہوسکے) نہ کوئی اس کواپنے پیچھے لے سکتاہےنہ سامنے ہوکراس کومحدودکرسکتاہے، نہ اولیّت نے اس کو ظاہرکیانہ بعدیت نے اس کی نفی کی، نہ لفظ کل نے اس کواپنے اندرلیا (کیونکہ نہ وہ کسی کل کا جزوہے نہ کلی کافردہے) نہ لفظ کان نے اس کو ایجادکیانہ لیس نے اس کومفقودکیا (یعنی جب یہ کہاجاتاہے کہ اﷲتعالیٰ ایساہےاورایسانہیں ہے تویہ مطلب نہیں کہ تمہارے بیان کے بعدوہ ایساہوگیااورتمہاری تزیہ کے بعدوہ ایسا نہیں رہا، بلکہ جن صفاتِ کمال سے وہ موصوف ہے ہمیشہ سے موصوف ہے اور جن عیوب سے وہ منزہ ہے ہمیشہ سے منزہ ہے)۔
اس کے وصف کے لئے کوئی تعبیرنہیں (اورجوتعبیرہے بھی وہ ناقص ہے) اسکے فعل کی کوئی علت نہیں، اسکے وجودکی کوئی نہایت نہیں (نہ ماضی میں نہ مستقبل میں کیونکہ وہ ازلی بھی ہے اور ابدی بھی)۔
وہ اپنی مخلوق کے احوال (وکیفیات)سے منزہ ہے اس کو اپنی مخلوق سے کسی قسم کا امتزاج (واختلاط) نہیں، نہ اس کے فعل میں آلات واسباب کی احتیاج، وہ اپنی قدامت کے سبب مخلوق سے الگ ہے، جیسامخلوق اپنے حدوث کے سبب اس سےالگ ہے (پس خالق مخلوق کے اندرنہ حلول کرسکتاہےنہ اس کے ساتھ متحدہوسکتاہے)۔
اگرتم کہوکہ وہ کب ہوا؟ تو اس کاوجودوقت (اورزمانہ سے) سابق ہےاگرتم ھوکہو(یعنی اس کی طرف ھویاوہ کہہ کراشارہ کرو) توہااورواؤاسی کے پیداکیئے ہوئے ہیں اور مخلوق سےخالق پراشارہ نہیں ہوسکتامحض یاد کے درجے ہیں یاتمام تصورہوسکتاہے۔ اگرتم کہووہ کہاں ہے؟ تو ہرمکان سے اس کاوجودمقدم ہے، حرف اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں)۔
اوراس کا وجودہی خوداس کا مثبت ہےاوراس کی معرفت یہ ہے کہ اس کوواحدجانو۔ اور توحیدیہ ہےکہ مخلوق سے اس کو ممتاز (اورالگ) سمجھو، جوکچھ وہم کے تصورمیں آتاہے وہ اس کے غیرکاہے۔
اور جوچیزاس (کےپیداکرنے) سے پیداہوئی وہ اس میں کیونکرحلول کرسکتی ہےکیونکہ حال ومحل میں اتحادہوتاہےاورحادث قدیم کے ساتھ متحدنہیں ہوسکتا، اور جس چیزکواس نے نشوونمادیا اس کی طرف کیونکرپہنچ سکتی ہے۔ آنکھیں اپنےاندراس کو نہیں لے سکتیں اور گمان اس کے پاس تک نہیں پہنچ سکتا۔
اس کا قرب یہ ہے کہ مکرم بناوے، اوربعدیہ ہےکہ ذلیل کردے۔
اسکی بلندی چڑھائی کے ساتھ نہیں، اس کاآنا بدون انتقال کےہے۔
وہ اوّل بھی ہے اور آخربھی، ظاہربھی ہےاور باطن بھی ہے، قریب بھی ہےاوربعید بھی، اسکی مثال مثل کوئی شئےنہیں، وہی سننے والادیکھنے والاہے‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۲۷-۲۸)
’’محمد بن احمداصفہانیؒ نے بتایاکہ ایک شخص حضرت حسین بن منصورؒکے قریب آکھڑاہوااورکہنے لگا، وہ حق کون ہے جس کی طرف صوفیہ اشارہ کرتے رہتے ہیں؟ فرمایاجوسب کوبنادینے والاہے مگراسے بنانے والاکوئی نہیں جسے اس کی علت قراردیاجائے‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۴۹۶)
خطیب بغدادیؒ نے ابوالطیب محمدبن الفرخان کے حوالے سے روایت کیاہےکہ: ’’میں نے حسین بن منصورسے سناوہ فرماتے تھے کہ اولین وآخرین کے علوم کاخلاصہ چارباتوں میں ہے۔ (۱) رب جلیل کی محبت (۲) متاع قلیل (یعنی دنیا) سے نفرت (۳) کتاب منزل کااتباع (۴) تغیّرحال کاخوف‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۲)
یہ ہے حسین بن منصورؒکاعقیدۂ توحیدجسکا ہرلفظ کتاب و سنت اورمذہب سلف صالحین کی پُرشوکت تفسیرہے۔ جس میں صاف تصریح ہے کہ مخلوق کو اﷲتعالیٰ کے ساتھ کسی قسم کااختلاط وامتزاج نہیں ہوسکتا، نہ حلولاًنہ اتحاداً۔
’’حسین بن منصورؒ اﷲتعالیٰ سے اپنی محبت کا اظہاریوں فرماتے ہیں کہ: محبوب سے تمہاری محبت یہ ہے کہ اس کے سامنے اپنے تمام اوصاف بالائے طاق رکھ دو‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۵۲۳)
مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں کہ:
چون "انا الحق" گفت شیخ و پیش بُرد            پس گلوی جمله کوران را فشرد
جب شیخ نے اناالحق کہااورآگے بڑھ گئے               توتمام اندھوں کے گلے کودبادیا
بود انا الحق در لب منصور نور                        بود انا الله در لب فرعون زور
’’اناالحق‘‘ منصورکے لب پرنورتھا                           ’’میں خداہوں‘‘فرعون کے لب پر جھوٹ تھا
آن انا منصور، رارحمت بُدہ                           ایں انا فرعون،را لعنت بُدہ
وہ انامنصورکےلئے(باعث)رحمت تھا                      یہ انافرعون کے لئے (موجب)لعنت تھا
گفت فرعونے "انا الحق"، گشت پست           گفت منصورے "انا الحق" و برَست
کسی فرعون نے اناالحق کہاوہ پست ہوا                       کسی منصورنے اناالحق کہاوہ بالاہے
آن انا را لعنه الله، در عقب                              ویں انا را رحمه الله، اے محب
اس اناکے لئے اﷲتعالیٰ کی لعنت درپےہے              اوریہ انااےدوست! اﷲکی رحمت ہے
پس اگرایسے شخص کی زبان سے اگرکسی وقت ’’أنا الحق‘‘ نکل گیاہوتواس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتاکہ وہ اپنے آپ کو خداکہتاتھا۔ کیونکہ انسان کا حادث ہونا ظاہراوریقینی ہے۔ اور ابن منصورؒکے عقیدہ میں وہ خود اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ حادث محتاج قدیم سے متحد نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا چندضعیف روایات کی بنیاد پران پرلگائے گئے اس الزام کو صحیح تسلیم کرلیاجائے توبھی اس قول کی تاویل ضروری ہے۔ ابن منصورؒ کے عقیدۂ توحید کو مدنظررکھتے ہوئے ان کے اس قول کی صحیح تاویل یہ ہوسکتی ہے کہ اس وقت ابن منصورؒ کی زبان کلام حق کی ترجمان تھی۔ ان کی زبان سے اسی طرح ’’أنا الحق‘‘ نکلاتھاجیساکہ شجرۂ موسیٰ سے’’اِنّی أَ نا اللہ ربُّ العالمین‘‘کی آواز آئی تھی۔ ظاہر ہے کہ درخت نے اپنے کو اللہ رب العالمین نہیں کہا تھا، بلکہ اس وقت وہ کلام الہی کا ترجمان تھا۔ اسی طرح ابنِ منصور کے متعلق بھی خیال کیا جا سکتا ہے اور غلبہ حالات و واردات میں بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ عارف کی زبان سے اللہ تعالیٰ تکلم فرماتے ہیں، جس کو سالکین اصحابِ حال سمجھ سکتے ہیں۔ پس یہ تو مسلم ہو سکتا ہے کہ ابنِ منصور کی زبان سے ’’أنا الحق‘‘  نکلا ہو،مگر یہ مسلم نہیں کہ ابن منصور نے خود’’أنا الحق‘‘ کہا تھا۔
صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث سے بھی اس بات کی واضح دلیل ملتی ہے کہ عشق الٰہی وغلبہ محبت سے سرشارہوکرکسی مسلمان کی زبان سےغیردانستہ طورپرکبھی ایسے کلمات نکل جاتے ہیں لیکن اسکا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ وہ مسلمان اپنے آپ کو خداسمجھنے اورکہنے لگاہو۔ ممکن ہے حسین بن منصورؒ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیاہولہٰذا ان کے اس کلام کی تاویل نہایت ضروری ہےجوکہ ہم نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کی۔
’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، - وَهُوَعَمُّهُ - قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "‏لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلاَةٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَأَيِسَ مِنْهَا فَأَتَى شَجَرَةً فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ إِذَا هُوَ بِهَا قَائِمَةً عِنْدَهُ فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ۔‏ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ"‘‘۔ ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے (جبکہ وہ اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے) اُس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جتنی خوشی تم میں سے کسی مسافر کو اپنے اُس (سواری کے) اونٹ کے مل جانے سے ہوتی ہے جس پر وہ چٹیل بیابان میں سفر کررہا ہو، اُسی پر اس کے کھانے پینے کا سامان بندھا ہو اور (اتفاق سے) وہ اونٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر بھاگ جائے اور وہ (اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے) مایوس ہوجائے اور اسی مایوسی کے عالم میں (تھکا ہارا بھوکا پیاسا) کسی درخت کے سایہ کے نیچے لیٹ جائے اور اسی حالت میں (اس کی آنکھ لگ جائے اور جب آنکھ کھلے تو) اچانک اس اونٹ کو اپنے پاس کھڑا ہوا پائے اور (جلدی سے) اس کی نکیل پکڑ لے اور خوشی کے جوش میں (زبان اس کے قابو میں نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی غرض سے) کہنے لگے! اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں۔ (خوشی کے مارے اسے پتہ بھی نہ چلے کہ میں کیا کہہ گیا)۔  )صحیح مسلم: کتاب التوبہ، باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بہا، رقم الحدیث ۶۹۶۰)
تحقیق مسئلہ وحدۃ الوجود
حسین بن منصورحلّاجؒ کے حالات کو جاننے کے لئے سب سے پہلے مسئلہ وحدۃالوجودکی حقیقت کو واضح کرنا ہوگا جسکے غلط عنوان سے مخالفین اسلام نے ایک شور برپاکیااور عام اور لاعلم مسلمانوں کو بہت بہکایا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ ابن منصورحلّاجؒ اور ابن عربیؒ کواس مسئلے میں بہت زیادہ بدنام کیا جاتا ہے۔ کبھی کہاجاتا ہے کہ وہ خالق ومخلوق میں اتحاد مانتے ہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ مخلوق میں خدا کے حلول کے قائل ہیں، اور اس مغالطہ کا اصل منشاء مسئلہ وحدۃالوجودکی حقیقت سے بیخبری ہے۔ اس لئے مختصراًعرض ہے کہ یہ مسئلہ نہ مقاصد تصوف سے ہے، نہ مقامات سلوک میں اسکا شمارہے۔ چنانچہ سلف میں اس کامفصل تذکرہ تحریراً یا تقریراً نہ تھا، صرف ابہام کے درجہ میں کہیں کہیں اس کے آثار کا ظہور ہوجاتا تھا۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ معنون تھا، عنوان نہ تھا، پھر خلف میں اس کا عنوان ظاہر ہوا، اور مختلف تعبیرات سے ظاہرہوا۔ اسی لئے بعض لوگ غلطی میں پڑگئے اور دوسروں کو مغالطہ دینے لگے۔
اس مسئلہ کی حقیقت معلوم کرنے سے پہلے یہ امر اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیئے کہ اسلام کے تمام فرقے اﷲتعالیٰ کی وحدانیت پر کامل یقین اور اتفاق رکھتے ہیں۔ اسلام میں توحید کی جیسی سادہ، بے تکلف اور صاف تعلیم ہے۔ جس کی نظیرکوئی مذہب پیش نہیں کرسکتا۔ محققین کے نزدیک اسلام کی سرعت اشاعت کا بڑاسبب یہی ہے کہ توحیدکی تعلیم جیسی اسلام میں ہے کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔ خصوصیت کے ساتھ صوفیہ کرام سب سے زیادہ عقیدۂ توحید کے علمبردارہیں کیونکہ دوسروں کے نزدیک تو یہ مسئلہ محض عقلی ونقلی ہے۔ مگرصوفیہ کرامؒ کے نزدیک کشفی اور بدیہی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیہ کرامؒ کے کلام میں توحید کا ذکر دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ پس ان کی طرف کسی ایسی بات کی نسبت کرنا جو توحیداسلامی کے خلاف یاکسی درجے میں بھی اس کے منافی ہو بہت بڑا ظلم ہے۔ حضرات صوفیہ نے غلبۂ حال میں جن مختلف عنوانات سے اپنے ذوق کو تعبیرکرنا چاہا۔ بعض لوگوں نے اس کے سمجھنے میں غلطی کی اور غلطی کے ازالہ کا جو طریقہ تھا ان کے اس کلام کی طرف رجوع کیا جاتا جو حالتِ صحومیں انھوں نے فرمایاہے، اس سے کام نہیں لیا گیا۔
وحدۃ الوجودکا صحیح مطلب
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیریؒ (متوفی: ۴۶۵)لکھتے ہیں: ’’کہاجاتاہےکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جوافعال ہوتے دیکھتے ہیں، واقعات ان کے سامنے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جن پرحقیقت کھل جاتی ہے تووہ اﷲکے سواہرچیزکومحسوس کرنے سے عاری ہوجاتے ہیں چنانچہ وہ اپنے دل میں سب کوباطنی طورپرایک ہی جگہ اکھٹے دیکھتے ہیں اورجب انہی چیزوں کودنیامیں دیکھتے ہیں توہرچیزکاایک الگ وجودنظرآرہاہوتاہے‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۴۹۷)
عقیدۂ وحدۃالوجودبزبان حضرت جنیدبغدادیؒ: ’’حضرت جنیدؒسےکسی نے توحیدکے بارے میں پوچھاتوفرمایاکہ میں نے کسی شاعرسےاس بارے میں یہ سناتھا۔
"میرےدل میں ایک آرزوگنگنانے لگی (کہ توحیدکیاہے؟) تومیں نے بھی یہی گنگناناشروع کردیاچنانچہ جہاں وہ (توحیدسےواقف) تھے، ہم بھی وہاں تھےاورجب وہ وہاں تھے ہم بھی اسی وقت میں تھے۔"
یہ سن کراس قائل نے پوچھاکہ قرآن وحدیث ختم ہوگئے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، موحدایک ادنیٰ اورآسان طریقے سےبھی توحیدکابلندمقام تلاش کرلیتاہے‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۴۹۸)
مولاناتقی عثمانی حفظ اﷲفرماتے ہیں: ’’وحدۃ الوجود کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں حقیقی اور مکمل وجودصرف ذات باری تعالیٰ کی ہے، اس کے سوا ہروجود بے ثبات، فانی اور نامکمل ہے۔ ایک تو اس لئے کہ وہ ایک نہ ایک دن فنا ہوجائے گا، دوسرے اس لئے کہ ہرشئی اپنے وجود میں ذاتِ باری تعالیٰ کی محتاج ہے، لہٰذاجتنی اشیاءہمیں اس کائنات میں نظرآتی ہیں، انہیں اگرچہ وجود حاصل ہے لیکن اﷲکے وجود کے سامنے اس وجود کی کوئی حقیقت نہیں، اس لئے وہ کالعدم ہے۔
اس کی نظیریو سمجھئے جیسے دن کے وقت آسمان پرسورج کے موجود ہونے کی وجہ سے ستارے نظرنہیں آتے، وہ اگرچہ موجود ہیں، لیکن سورج کا وجود ان پر اس طرح غالب ہوجاتا ہے کہ ان کا وجود نظر نہیں آتا۔
اسی طرح جس شخص کو اﷲنے حقیقت شناس نگاہ دی ہو وہ جب اس کائنات میں اﷲتعالیٰ کے وجود کی معرفت حاصل کرتا ہےتو تمام وجود اسے ہیچ، ماند، بلکہ کالعدم نظرآتے ہیں‘‘۔ (فتاویٰ عثمانی: جلداوّل، کتاب الایمان والعقائد: ص۶۶)
’’حضرت جنیدؒنے فرمایاکہ اﷲکی توحیدبیان کرتے وقت سب سے بہترین بات جوہم کہہ سکتے ہیں، وہ ہےجسے حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ نے بیان فرمایاتھا:
"پاک ہے وہ ذات کہ جس نے اپنی مخلوق کو اپنی پہچان کاراستہ نہیں دیابلکہ اپنی ذات کی پہچان سے عاجزکردیاہے۔"
استاذابوالقاسم القشیریؒ نے فرمایاکہ حضرت صدیق اکبررضی اﷲعنہ کے فرمان کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ اﷲتعالیٰ کی پہچان ممکن ہی نہیں کیونکہ ہرایک کویہ بات معلوم ہے کسی شئے سے عجزتبھی ہوتاہے جب وہ موجودہواورمعدوم نہ ہوجیسے ایک اپاہج اپنے عمل دخل سے بیٹھ توسکتانہیں لیکن اگروہ صحیح ہوجائے تواس میں بیٹھنے کی صفت موجودہے بالکل یونہی اﷲکاعارف یعنی اس کی پہچان کرنے والا، اس کی پہچان سے عاجزہوتاہےحالانکہ پہچان کرلینے کی صفت اس میں موجودہوتی ہےکیونکہ عارف میں معرفت ہوتوعارف ہوگالیکن صوفیہ کے ہاں انتہاءمیں معرفت کاپایاجاناضروری ہوتاہے چنانچہ ابتداءمیں کسبی معرفت اگرچہ حقیقۃًمعرفت ہی کہلاتی ہے لیکن حضرت صدیق اکبررضی اﷲعنہ نے ضروری معرفت کے مقابلے میں اسے اہمیت نہیں دی جیسے روشن سورج کے سامنے ایک جلتے چراغ کی روشنی کی حیثیت نہیں ہوتی‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۴۹۵)
مشہورغیرمقلدعالم حافظ عبداﷲمحدث روپڑی فتویٰ اہلحدیث میں توحید کی چاراقسام بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’یہ چار قسمیں توحید کی صوفیاء کے ہاں مشہور ہیں۔ اخیر کی دو وہی ہیں جن کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے یعنی توحید حالی وحدۃ الشہود ہے اور توحید الٰہی وحدۃ الوجود ہے۔ یہ اصطلاحات زیادہ تر متاخرین صوفیاء(ابن عربی وغیرہ) کی کتب میں پائی جاتی ہیں۔ متقدمین کی کتب میں نہیں۔ ہاں مراد ان کی صحیح ہے، توحید ایمانی اور توحید علمی تو ظاہر ہے توحید حالی کا ذکر اس حدیث میں ہے: "ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک"۔ "یعنی خدا کی اس طرح عبادت کر گویا کہ تواس کو دیکھ رہا ہے پس اگر تو نہ دیکھے تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے"۔
یہ حالت چونکہ اکثر طور پر ریاضیت اور مجاہدہ سے تعلق رکھتی ہے ، اس لیے یہ عقل سے سمجھنے کی شئے نہیں ہاں اس کی مثال عاشق ومعشوق سے دی جاتی ہے۔عاشق جس پر معشوق کا تخیل اتنا غالب ہوتا ہے کہ تمام اشیاء اس کی نظر میں کالعدم ہوتی ہیں‘ اگر دوسری شئے کا نقشہ اس کے سامنے آتا ہے تو محبوب کاخیال اس کے دیکھنے سے حجاب ہو جاتا ہے گویا ہر جگہ اس کو محبوب ہی محبوب نظر آتا ہے خاص کر خدا کی ذات سے کسی کو عشق ہو جائے تو چونکہ تمام اشیاء اس کے آثار اور صفات کا مظہرہیں اس لیے خدائی عاشق پر اس حالت کا زیادہ اثر ہوتا ہے یہاں تک کہ ہر شئے سے اس کو خدا نظر آتا ہے وہ شئی نظر نہیں آتی ہے جیسے شیشہ دیکھنے کے وقت چہرے پر نظر پڑتی ہے نہ کہ شیشہ پر‘‘۔ (فتاویٰ اہلحدیث: ج۲، ص۱۵۳)
مشہورغیرمقلدعالم علامہ اسماعیل سلفی فرماتےہیں: ’’مسئلہ درست تھا، اگرتعبیرناپسندتھی تو اسے بدل دیاجاتالیکن یہاں کوئی پرانابغض تھاجسے نکالناضروری سمجھاگیااورفتووں کی مشین تان دی گئی اورکفرکے انبار انڈیل دیئے گئے‘‘۔ (تحریک آزادیٔ فکر: ص۲۹)
شہید حسین بن منصور حلّاج رحمہ اﷲتعالیٰ پرلگائے گئے الزامات (بحوالہ تاریخ بغداد و تاریخ طبری) کی اصل حقیقت قرآن وحدیث اور تاریخی شواہد کی روشنی میں
پہلا الزام: مثل قرآن بنانے کا دعویٰ
خطیب بغدادی نے ابن باکویہ شیرازی کے واسطہ سے ابوزرعۃ طبری سے روایت کیا ہے کہ لوگ حسین بن منصورکے متعلق اختلاف رکھتے ہیں۔ کوئی ان کو قبول کرتا ہے اور کوئی رد کرتا ہے۔ لیکن میں نے محمد بن یحییٰ رازی سے سنا کہ میں نے عمروبن عثمان کو ابن منصورپرلعنت کرتے اور یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگرمیں اس پرقابو پاؤں تو اپنے ہاتھ سے قتل کردوں۔ میں نے دریافت کیا کہ حضرت شیخ کو ان کی کس بات پرغصہ آیا۔ کہا! میں نے کتاب اﷲکی ایک آیت پڑھی تو کہنے لگاکہ میں بھی اس کی مثل تالیف کرسکتاہوں۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۹)
جواب:
۱۔ اس روایت کی سند میں ابن باکویہ شیرازی ضعیف ہے اور محدثین کے نزدیک غیرثقہ راوی ہے۔ (لسان المیزان: ج۷، ص۲۵۲)
۲۔ دوسراراوی محمد بن یحییٰ رازی بھی حجت نہیں، یہ ثقات سے منکراحادیث روایت کرتا تھا۔ (لسان المیزان: ج۷، ص۵۷۸)
۳۔ تیسرا راوی ابو زرعہ طبری مجہول ہے۔ کتب اسماع الرجال میں اس کے حالات کاکہیں ذکرنہیں ملتا۔ لہٰذا یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک المروزیؒ (متوفی ۱۸۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’الإسناد من الدین، ولولا الإسناد لقال من شاء ماشاء‘‘۔ ’’سند دین میں سے ہے، اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا‘‘۔ (مقدمہ صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: ۳۲ و سندہ صحیح)
ایسی ضعیف روایت کی بناء پرکسی ایسے شخص کو کافروزندیق سمجھنا جن کو آئمہ طریق، اجلۂ علماء اور بڑے بڑے بزرگان دین نے اولیاء میں شمار کیا ہو۔ کم عقلی اور گمراہی کی نشانی ہے۔ اس طرح کی ضعیف روایت سے کسی شخص کوکافروزندیق کہنا شروع کردیاجائے تو پھربڑےبڑےجلیل القدرمحدثین اور ائمہ مجتہدین بھی نہ بچ پائیں گے۔
دوسراالزام: ابن منصورکےخط کےعنوان میں ’’بسم اﷲالرحمٰن الرحیم‘‘ کی جگہ ’’من الرحمٰن الرحیم‘‘لکھا ہونا
خطیب بغدادی ؒنے اس واقعہ کوابراہیم بن محمدواعظ (یعنی ابوالقاسم نصرآبادہؒ)سے وہ ابوالقاسم رازی کے واسطہ سے وہ ابوبکربن حمشادسے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ دنیورمیں ایک شخص آیا، جس کے پاس ایک تھیلاتھا، جسے وہ رات دن میں کسی وقت بھی اپنے سے الگ نہ کرتاتھا۔ لوگوں نے اس تھیلے کی تلاشی لی تو اس میں حلّاج کا ایک خط نکلاجس کا عنوان یہ تھا ’’من الرحمٰن  الرحیم الی فلان بن فلان‘‘ یہ خط رحمٰن رحیم کی طرف سے فلاں شخص کے نام ہے۔ یہ خط بغداد بھیج دیاگیا، تو حلّاج کوبلایاگیا، ان کو دکھایاگیاتو(حلاّج نے)کہا، ہاں میراخط ہے میں نے ہی لکھا ہے۔ لوگوں نے کہا، اب تک تونبوت ہی کے مدعی تھے، خدائی کابھی دعویٰ کرنےلگے۔ (حلاّج نے)کہا، میں خدائی کا دعویٰ نہیں کرتا (دوسری روایت میں ہے کہ ابن منصورنےکہا! معاذاﷲ، میں نہ خدائی کا دعویٰ کرتاہوں، نہ نبوت کا، میں تو ایک آدمی ہوں، اﷲکی عبادت کرتا، نمازروزہ کی کثرت کرتاہوں اس کے سواکچھ نہیں جانتا)۔
پھرابن منصورنے اسی واقعہ میں اس حقیقت کو ان الفاظ سے بیان کیا ’’ما أدعي الربوبية، ولكن هذا عين الجمع عندنا، هل الكاتب إِلا اللَّه، وأنا واليد فيه آلة‘‘۔ ’’میں خدائی کا دعویٰ نہیں کرتا۔ لیکن یہ بات(جومیں نے لکھی) توہمارے نزدیک عین جمع ہے۔ اﷲکے سوالکھنے والا کون ہے، میں اور میراہاتھ تو اس میں آلہ محض کے سواکچھ نہیں‘‘۔
ابن منصورسے کہاگیاکہ اس بات میں تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ انہوں نے ابوالعباس بن عطاء، ابومحمدجریری اورابوبکرشبلی کانام لیا، اور یہ بھی کہاکہ ان میں سے دوبزرگ تو اس حقیقت کو چھپاتے ہیں، اگرصاف کہہ سکتے ہیں توابن عطاءکہہ سکتے ہیں۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۰۶)
جواب:
حسین بن منصورحلّاج رحمہ اﷲپرجب خدائی کا دعویٰ کرنے کا جھوٹاالزام لگایاگیاتو انھوں نےواضح الفاظ میں اس الزام کی نفی کرتےہوئےفرمادیاکہ: ’’میں خدائی کا دعویٰ نہیں کرتا۔ لیکن یہ بات(جومیں نے لکھی) توہمارے نزدیک عین جمع ہے۔ اﷲکے سوالکھنے والا کون ہے، میں اور میراہاتھ تو اس میں آلہ محض کے سواکچھ نہیں‘‘۔
حسین بن منصورحلّاج رحمہ اﷲکے اس کلام کا حقیقی اورصحیح مطلب حدیث قدسی میں موجود ہے:
’’حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "‏إِنَّ اللَّهَ قَالَ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَىَّ عَبْدِي بِشَىْءٍ أَحَبَّ إِلَىَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَىَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطُشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَىْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ، يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ"‏‏‘‘۔ ’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج ۸، كتاب الرقاق، باب التَّوَاضُعِ، رقم الحدیث۶۵۰۲)
حسین بن منصورحلّاجؒ کے اس کلام کا حقیقی وصحیح مطلب مندرجہ بالاحدیثِ قدسی سے واضح طورپرسمجھا جاسکتا ہے جس میں اﷲتبارک وتعالیٰ خودفرماتے ہیں کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔ اور میرابندہ نوافل کے ذریعہ میرے اتنے قریب ہوجاتاہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ کیا کوئی شخص اﷲتبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد کاحقیقی معنیٰ و مطلب بیان کرسکتا ہے؟ اﷲتعالیٰ کے اس ارشاد کا حقیقی معنیٰ ومطلب اس کے علاوہ اورکچھ نہیں ہوسکتاجو حسین بن منصورؒ کی زبان سے بیان ہوا ’’یعنی یہ بات(جومیں نے لکھی) توہمارے نزدیک عین جمع ہے۔ اﷲکے سوالکھنے والا کون ہے، میں اور میراہاتھ تو اس میں آلہ محض کے سواکچھ نہیں‘‘۔
ابن منصورؒنے اس کیفیت کا اظہارکیاہے جو اولیاءاﷲکو ریاضت ومجاہدے سے حاصل ہوتی ہے۔ جن پراﷲکی محبت کا غلبہ ہوتا ہے ان کو سوائے اﷲتعالیٰ کے کوئی چیز نظرنہیں آتی، یہ خاص کیفیت ہے جن پرگزرتی ہے وہی سمجھ سکتا ہے۔حسین بن منصورؒکے کلام کا یہی مطلب ہے کہ اقوال حسنہ سب اﷲہی کی طرف سے ہیں میں تو محض آلہ اظہار ہوں۔ مجھ سے لکھوانے والا تو صرف اﷲہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے خط کومنجانب اﷲ کی طرف منسوب کیا۔
حسین بن منصورحلّاج رحمہ اﷲکے اس جملے ’’ولكن هذا عين الجمع عندنا‘‘۔ ’’لیکن یہ بات(جومیں نے لکھی) توہمارے نزدیک عین جمع ہے‘‘ کو اصطلاح صوفیہ میں توحید الٰہی ’’وحدۃ الوجود‘‘ کہاجاتاہے۔ توحیدالٰہی ’’وحدۃ الوجود‘‘ کا صحیح مطلب مولاناتقی عثمانی صاحب اور مشہورغیرمقلدعالم حافظ عبداﷲمحدث روپڑی صاحب کی زبانی وضاحت سےبیان کیاجاچکاہے۔
پھر جب ان سے اس عقیدہ’’عین جمع‘‘ کے متعلق سوال کیاگیا توانھوں ابن عطاء، محمدجریری اورامام شبلی کانام لیااور یہ بھی بتادیا کہ دو بزرگ تو اس عقیدہ کوراز رکھتے ہیں اگرصاف کہہ سکتے ہیں تو وہ ابن عطاءؒہیں۔ اب دیکھنا یہ تھاکہ کیا ابن عطاءؒ نے ابن منصورؒ کی بات کی تائیدکرتےہوئےان کے اس  عقیدہ کو صحیح قراردیاکفریہ؟
چنانچہ تینوں بزرگوں (ابن عطاءؒ، محمدجریریؒ اورامام شبلیؒ)کوبلایاگیااورابن منصورؒ کی پیشن گوئی کے مطابق دوبزرگوں نے توموافقت سے انکارکیااورابن العباس بن عطاءؒ نے پوری تائیدکی۔ وزیرحامدالعباس نے کہاآپ ایسے اعتقاد کی تصویب کرتےہیں؟ اس پرحضرت ابوالعباس بن عطاءؒ نے فرمایا: ’’فَقَالَ: هذا اعتقاد صحيح، وأنا أعتقد هذا الاعتقاد، ومن لا يعتقد هذا فهو بلا اعتقاد‘‘۔ ’’یہ اعتقاد صحیح ہے، میں اس کا معتقد ہوں اور جس کا یہ اعتقاد نہ ہووہ بے اعتقادہے‘‘۔
ابن عطاءؒ کے اس جواب پر وزیرحامد العباس نے انہیں اپنے غلاموں کے ذریعہ مارنا شروع کردیاجس کے نتیجہ میں ان کے نتھنوں سے خون بہنے لگا، پھر ان کو قید میں ڈالنے کا حکم دیا۔ تو ابو العباس بن عطاءؒ نےبد دعاکی کہ اے اﷲ! اس وزیرکوقتل کراوراس کے ہاتھ پیرکٹوادے۔ اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد حضرت ابن عطاءؒ کاانتقال ہوگیا اوروزیرحامدبھی اسی طرح قتل کیاگیا۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۰۶-۷۰۷)
ابن عطاءؒ کا حسین بن منصورؒ کے اس عقیدہ کی مکمل تائیدکرنا اور خود کو ان کا معتقد کہنااس بات کی دلیل ہے کہ حسین بن منصورؒکااعتقادقرآن وسنت کے عین مطابق تھا۔  یہاں ابو العباس بن عطاءؒکے مختصرحالات بیان کیئے دیتے ہیں تاکہ قارئین کرام کو ان کا علمی مقام و مرتبے کا علم ہوسکے۔
امام ذہبیؒ ابوالعباس بن عطاءؒکے بارے میں لکھتے ہیں: ’’پرہیزگارعبادت گزارابوالعباس احمد بن محمد بن سھل بن عطاء الأدمی البغدادی۔ روزانہ پورا قرآن ختم کرتے تھےاوررمضان المبارک میں ہردن تین بارختم کرتے تھے، اورفہم معانی قرآن کےلئےجوایک تلاوت شروع کی تھی اس میں چودہ برس کے اندرنصف قرآن تک بھی نہ پہنچے۔ حلّاج کا حال ان پرحاوی تھااور اسے صحیح قرار دیتے تھے۔ سلمی فرماتے ہیں: وہ حلّاج کی ہمایت کے سبب آزمائش میں مبتلا ہوگئے تھے۔ وزیرحامد نے انہیں طلب کیااورکہا کہ آپ حلّاج کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ابن عطاءؒ نے فرمایا! تم کو اس معاملہ سے کیا واسطہ؟ تم لوگوں کا مال لوٹتے رہو اورخون بہاتے رہو۔ وزیرحامد کے حکم سے ابن عطاءؒ کے دانت توڑدیئے گئے۔ ابن عطاءؒ نے چلاتے ہوئے وزیرحامد العباس کو بد دعا دی کہ اے اﷲ! اس کے ہاتھ پیرکٹوادے۔ اس واقعہ کے ۱۴ دن بعد ابن عطاءؒ کی وفات ہوگئی اورزیادہ دن نہ گزرے تھے کہ وزیرحامدبن العباس بھی قتل کیاگیا۔ قتل سے پہلے اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹے گئے۔ اس وقت لوگ کہتے ہیں کہ اس کو ابوالعباس بن عطاءؒ کی بددعالگئی‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۶، ص۲۵۵)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: ’’پرہیزگارعبادت گزارابوالعباس احمد بن محمد بن سھل بن عطاء الأدمی البغدادی۔ روزانہ پورا قرآن ختم کرتے تھے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں: وہ حلّاج کے مذہب کے ہامی تھے اور اسے صحیح قرار دیتے تھے۔ سلمی فرماتے ہیں: وہ حلّاج کی ہمایت کے سبب آزمائش میں مبتلا ہوگئے تھے‘‘۔ (بیان تلبیس الجھمیۃ: ج۲، ص۱۱۰)
ابن ملقنؒ اپنی کتاب طبقات الاولیاء میں حضرت ابو العباس بن عطاءؒ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وہ حضرت جنیدبغدادیؒ اور ابراہیم مارستانیؒ وغیرہ کی صحبت میں رہے۔ حضرت جنیدبغدادیؒ اورابو سعیدخرازکی بہت تعظیم کرتے تھے‘‘۔ (طبقات الاولیاء: ص۵۹)
خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: ’’(ابو العباس بن عطاءؒ) اس زمانے کے ان صوفیوں میں سے تھے جوعبادات و اجتہاداورکثرت سے قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔ انہوں نے یوسف بن موسیٰ القطان اور فضل بن زیادصاحب احمد بن حنبلؒ سے احادیث روایت کی‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۶، ص۱۶۵)
حضرت ابوالعباس بن عطاءؒ جیسے جلیل القدر بزرگ ومحدث جن کواولیاءاﷲمیں شمار کیاجاتاہے۔ انہوں نے ابن منصورؒ کی مکمل تائیدکی، ان کے حال کوصحیح قرار دیااوران کے لئے وزیرحامد کے مظالم کوبرداشت کرتے ہوئے اپنی جان تک دیدی۔
ابن منصورؒ کانبوت اورخدائی کےدعوےسےانکاراوراپنی عبدیت کااقرار، حضرت ابن عطاءؒکاابن منصورکی تائیداوران کےعقیدہ کےصحیح ہونےکااقراراوروزیرحامدالعباس کےمظالم اس بات کی واضح دلیل ہےکہ ابن منصورؒپرلگائے گئے الزامات جھوٹے تھےاوروہ بے قصورتھے۔
تیسراالزام: سحر(جادو) کی تعلیم وتعلم
خطیب بغدادیؒ نے ابن باکویہ شیرازی کے واسطہ سے ابوالحسن بن ابوتوبہ سے روایت کیا ہے کہ اس نے علی بن احمدحاسب سے سناوہ اپنے باپ سے روایت کرتاہےکہ۔ کوئی ان کو قبول کرتا ہے اور کوئی رد کرتا ہےکہ مجھے معتضدنے ہندوستان کچھ باتیں معلوم کرنے کے لئے بھیجا، جن پر وہ مطلع ہوناچاہتاتھا، میرے ساتھ کشتی میں ایک شخص تھا جس کا نام حسین بن منصورتھا۔ اس کی معاشرت بہت اچھی اورصحبت بہت پاکیزہ تھی۔ جب ہم کشتی سےکنارہ پراترےاورمزدوروں نے سامان اتارناشروع کیاتو میں نے اس (حسین بن منصور) سے پوچھا، تم یہاں کس لئے آئے ہو؟ کہاجادوسیکھنے آیاہوں تاکہ مخلوق کواﷲتعالیٰ کی طرف دعوت دوں۔ اسی کنارہ پرایک جھونپڑی تھی جس میں ایک بہت بوڑھاآدمی رہتاتھا۔ حسین بن منصورنےاس سے کہا، تمہارےیہاں کوئی شخص جادوکاجاننے والاہے؟ (اس کے جواب میں) بڈھے نے سوت کی انٹی نکالی اوراس کاایک کنارہ حسین بن منصورکے ہاتھ میں دے کرانٹی کوہوامیں پھینک دیا، تواس کاایک لمباتاربن گیا۔ اس کے بعد بڈھااس تارپرچڑھ گیا، پھراترآیااورابن منصورسےکہا، تم اسی کوچاہتے ہو؟ پھر مجھ میں اوران میں جدائی ہوگئی۔ اسکے بعدمیں نے بغدادہی میں ان کو دیکھا۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۲۹۷-۲۹۸)
جواب:
۱۔ اس روایت کی سند میں بھی وہی ابن باکویہ شیرازی راوی موجودہے جومحدثین کے نزدیک غیرثقہ ہے۔ (لسان المیزان: ج۷، ص۲۵۲)
۲۔ دوسراراوی علی بن احمدشروانی ہےجس نے حلّاجؒ کی حکایات کو جمع کیاتھا۔ اس کے متعلق محدثین فرماتے ہیں کہ ’’کذاب اشر‘‘ یعنی بہت جھوٹاشیخی بازہے۔ (لسان المیزان: ج۵، ص ۴۹۹)
۳۔ اور اس (علی بن احمدشروانی )کاباپ مجہول ہے کیونکہ کتب اسماع الرجال میں اس کاکہیں ذکرنہیں ملتا۔
شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک المروزیؒ (متوفی ۱۸۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’الإسناد من الدین، ولولا الإسناد لقال من شاء ماشاء‘‘۔ ’’سند دین میں سے ہے، اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا‘‘۔ (مقدمہ صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: ۳۲ و سندہ صحیح)
یہ روایت بھی کسی بھی طرح قابل قبول و قابل اعتماد نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیر حامد العباس نے جب ابن منصورؒ کو ناحق قتل کیا تو اپنے اس اقدام کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنے ہمنواؤں کے ذریعہ اس قسم کے قصہ مشہورکروادیئےتاکہ عوام اس سے باغی نہ ہوجائے۔
الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری نے تاریخ الطبری میں اس واقعہ کو ا بن منصورؒ کے اصحاب سے دوسرے الفاظ میں یوں نقل کیا ہے کہ: ’’میں ابن منصورکے ساتھ ایک سال تک مکہ میں رہاکیونکہ وہ حجاج عراق کی واپسی پرمکہ ہی میں مقیم ہوگئےتھے۔ تومجھ سےفرمایا، اگرتم اپنے وطن کوواپس جاناچاہتے ہوتولوٹ جاؤکیونکہ میں تویہاں سے ہندوستان کاقصد کررہاہوں۔ راوی کہتاہےکہ حلّاج کوسیاحت اورسفرکابہت شوق تھا۔ چنانچہ وہ ہندوستان کے ارادہ سے سمندرمیں سفرکرنے لگے۔ میں بھی ہندوستان تک ان کے ساتھ رہا۔ جب وہ ہندوستان پہنچے توان کوایک عورت کاپتہ دیاگیا، وہ اس کے پاس گئے، اس سے باتیں کیں، اس نے دوسرےدن آنے کوکہا۔ چنانچہ اگلے دن میں اورابن منصوردونوں ساحل سمندرپرپہنچے ۔ (وہ عورت بھی آئی) اوراس عورت کے ہاتھ میں لپٹاہواسوت تھا۔ جس میں کمندکی طرح گرہیں لگی ہوئی تھیں۔ تواس نے کچھ پڑھ کردم کیااورتاگےکےاوپرچرھنے لگی۔ وہ تاگے پرپاؤں رکھ کرچڑھتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ ہماری نگاہوں سے غائب ہوگئی۔ یہ دیکھ کرحلّاج واپس ہوئے اور کہا، میں اسی عورت کی وجہ سے ہندوستان آیاتھا‘‘۔ (تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۸۳)
تاریخ بغداداورتاریخ طبری کی دونوں روایات میں درج ذیل اختلافات واضح ہوتے ہیں:
۱۔ پہلی روایت میں بوڑھے کا ذکرہے جبکہ دوسری روایت میں عورت کا ذکرہے۔
۲۔ پہلی روایت میں جادوسیکھنے کا ذکرہے جبکہ دوسری روایت میں جادو کا نام ونشان تک نہیں۔
۳۔ پہلی روایت میں بوڑھے شخص نے پہلی ہی ملاقات میں تاگے پرچڑھ کراپناکمال دکھایاجبکہ دوسری روایت میں عورت نے اگلے دن کی ملاقات میں اپناکمال دکھایا۔ ان اختلافات سے بھی روایت کاضعیف ہونا ثابت ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پہلی روایت کی سند ابن باکویہ شیرازی، علی بن احمدشروانی اور اس کے باپ کی وجہ سے سخت ضعیف ہے، اور دونوں روایات کا اختلاف اسے اور بھی ضعیف ثابت کرتاہے۔ بالفرض اگریہ سندجرح سے سالم مان لی جائے توبھی روایت میں اس بات کی بھی تصریح ہے کہ’’حسين بن مَنْصُور، وكان حسن العشرة طيب الصحبة‘‘اور یہ وہ صفت ہےجوساحروں میں نہیں پائی جاتی۔ ساحرتو نہایت غلیظ، گندے اور ناپاک ہوتے ہیں۔ انکوحسن معاشرت وپاکیزگی سےکیا تعلق۔ اسکےبعدان کایہ قول کہ’’وأدعو الخلق إِلَى اللَّه تعالى‘‘اس الزام کاردہےکیونکہ جادوگر لوگوں کواﷲکی طرف نہیں بلکہ شیطان کی طرف دعوت دیتےہیں۔
خطیب بغدادیؒ نے اس مضمون کو دوسری سندسے بھی ابوعندالرحمٰن سلمی کے واسطہ سے مزین سےروایت کیاہے: ’’وہ کہتے ہیں، میں نے حسین بن منصورکوایک سفرمیں دیکھا، پوچھاکہاں جاتے ہو، کہاہندوستان، (وہاں) سحرسیکھوں گااوراس کے ذریعہ مخلوق کو اﷲکی طرف دعوت دوں گا‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۸)
اس روایت کی سند میں علی بن محمد بن مزین صوفی اور ابوعبدالرحمٰن السلمی صوفی ہیں، تو سند میں بجز اسماعیل بن احمدحیری شیخ الخطیب کے اور کوئی محل نظرنہیں۔ انساب سمعانی میں ان کا بہت مختصر تذکرہ ملتا ہےجبکہ جرح و تعدیل کچھ مذکورنہیں۔ اگراس سندکوجرح سے سالم مان لیاجائے تو پھر ابوعبدالرحمٰن السلمی صوفی کی ان تمام روایات کو بھی صحیح تسلیم کرنا پڑےگاجن سے حسین بن منصورحلّاجؒ کاتوحیدپرست، ولی اﷲ، صاحب کرامت اوربے قصورہونا ثابت ہوتاہے۔
بالفرض اگراس روایت کو بھی صحیح تسلیم کرلیا جائے توبھی ابن منصورؒ کے اس قول سے کہ میں جادو سیکھنے آیا ہوں، سحر حرام پرمحمول کرنا درست نہیں، بلکہ سحرحلال پرمحمول کرنا لازم ہے۔ جس کا قرینہ اسی روایت میں ان کایہ قول ہے کہ ’’وأدعو الخلق إِلَى اللَّه تعالى‘‘ تاکہ اﷲکی طرف لوگوں کو دین کی دعوت دوں۔ اورظاہر ہے کہ دعوت اﷲ سحر حرام نہیں ہوسکتی اور نہ ساحروں کو دعوت الی اﷲسے کچھ تعلق ہے۔ لغۃً ہرمؤثرعجیب کو سحرکہاجاتا ہے،چنانچہ صحیح بخاری میں ہے۔ "‏إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا ـ أَوْ ـ إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ لَسِحْرٌ"۔ ’’رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: بعض تقریریں بھی جادو بھری ہوتی ہیں یا یہ فرمایا کہ بعض تقریر جادو ہوتی ہیں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج ۷، كتاب الطب، باب مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا، رقم الحدیث۵۷۶۷)
اس لئے یاتو ابن منصورؒ کا مطلب یہ تھا کہ ہندوستان کے اصحاب تصرف سے ملنے آیا ہوں، تاکہ خودبھی قوت تصرف حاصل کروں اور لوگوں کو اس کے ذریعہ اﷲکے دین کی طرف دعوت دوں۔ اس لئےکہ تیسری صدی ہجری میں ہندوستان کے اندراولیاءاﷲاوراصحاب تصرف کاموجود ہونا یقینی طورثابت ہے کیونکہ اس وقت اطراف سندھ میں اسلامی حکومتیں قائم ہوچکی تھیں۔
چوتھاالزام: ابراہیم بن شیبان کی جرح اوراس کاجواب
خطیب بغدادیؒ نے ابوعبدالرحمٰن سلمی کے حوالے سے ابوعلی ہمدانی کایہ قول نقل کیاہےکہ ’’میں نے ابراہیم بن شیبان سےحلّاج کے متعلق دریافت کیاتوفرمایا، جوشخص بیہودہ دعووں کاثمرہ دیکھناچاہے وہ حلّاج اور اس کےانجام کودیکھ لے۔ اس کے بعد ابراہیم نے فرمایاکہ دعاوی اورمعارضات ہمیشہ اپنے اصحاب کےحق میں منحوس ثابت ہوئے ہیں، جب سےابلیس نے اناخیرمنہ کہاتھا‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۲۹۸)
جواب:
۱۔ یہ  سند بھی اسماعیل بن احمدحیری شیخ الخطیب کے واسطہ سے ہےجومحل نظرہے۔ انساب سمعانی میں ان کا بہت مختصر تذکرہ ملتا ہےجبکہ جرح و تعدیل کچھ مذکورنہیں۔
۲۔ دوسراراوی ابو علی ہمدانی مجہول ہے کیونکہ اس کا حال بھی کتب اسماع الرجال سے معلوم نہیں ہوسکا۔
۳۔ تیسراراوی ابوعبدالرحمٰن السلمی صوفی ہے۔ اگراس سندکوبھی جرح سے سالم مان لیاجائے تو پھر ابوعبدالرحمٰن السلمی صوفی کی ان تمام روایات کو بھی صحیح تسلیم کرنا پڑےگاجن سے حسین بن منصورحلّاجؒ کاتوحیدپرست، ولی اﷲ، صاحب کرامت اوربے قصورہونا ثابت ہوتاہے۔
شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک المروزیؒ (متوفی ۱۸۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’الإسناد من الدین، ولولا الإسناد لقال من شاء ماشاء‘‘۔ ’’سند دین میں سے ہے، اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا‘‘۔ (مقدمہ صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: ۳۲ و سندہ صحیح)
اگراس روایت کی تمام علتوں کو چھوڑکراسےصحیح تسلیم کرلیا جائے توبھی ابراہیم بن شیبان کاقول مجمل و مبہم ہے کیونکہ اس میں ابن منصورؒ کے کسی دعوےکا ذکرنہیں ہےجس سے اندازہ کیاجاسکے کہ وہ دعویٰ بیہودہ تھا یا نہیں۔ ممکن ہے ان کا اشارہ دعویٰ اناالحق کی طرف ہوجو ان کے متعلق عوام میں مشہورکرادیاگیاتھا۔ اگرچہ اس دعوے کا ثبوت بھی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔ دراصل اس کلمےکا عنوان بالکل غلط لیا جاتاہےورنہ دراصل یہ کلمہ ایساہی ہےجیساکہ قرآن میں’’وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ‘‘ اور حدیث میں ’’اَلْجَنَّۃُ حَقٌّ واَلنَّارُ حَقٌّ‘‘ واردہواہے۔ اس کلمہ کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ میں حق ہوں یا میں خداہوں۔ اس کلمہ کےصحیح و برحق ہونےکےدلائل آگے پیش کیئے جائیں گے۔
امام ربانی مجددالف ثانی شیخ احمدسرہندیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’اناالحق کے یہ معنیٰ ہرگزنہیں کہ میں حق اورخداہوں، بلکہ یہ مطلب ہے کہ میں نہیں ہوں صرف حق تعالیٰ موجودہےکہ جس کی بارگاہ میں تغیرذات وتبدل صفات وافعال کا کوئی گزرنہیں۔ (مکتوبات امام ربّانی[اردو]: دفتراوّل، حصّہ چہارم، ۶۴۱،ص ۱۵۱)
ابراہیم بن شیبان کے اعتراض کا جواب بزبان حسین بن منصورحلّاجؒ:
شیخ فریدالدین محمد عطارنیشابوریؒ(متوفی ۵۴۰تا۶۱۸) اپنی کتاب تذکرۃ الاولیاء میں نقل کرتے ہیں کہ ’’حضرت شبلی نے فرمایاکہ حسین بن منصورکو جب سولی پرچڑھایاگیاابلیس ان کے سامنے آیااور کہنے لگاکہ ایک اناینت تم سے سرزدہوئی، ایک مجھ سے۔ تم نے اناالحق کہا۔ میں نے اناخیرکہا۔ مجھے لعنت کا پھل ملا۔ اور تم کو مقعدصدق (کادرجہ ملا) اس تفاوت کی کیاوجہ؟ حلّاجؒ نے کہا۔ تونے خودی سے اناکہاتھااور میں نے خودی سے پاک ہوکر کہا۔ تفاوت اسی وجہ سے ہواکہ مجھ پررحمت ہوئی اور تجھ پرلعنت‘‘۔ (تذکرۃ الاولیاء: ص۵۱۹)
پانچواں الزام: ابویعقوب اقطع کی جرح اوراس کاجواب
خطیب بغدادی ؒنے ابن باکویہ شیرازی کے واسطہ سےابوذرعہ طبری سےروایت کیاہے کہ میں نے ابویعقوب اقطع سے سناوہ کہتے تھے کہ میں نے اپنی بیٹی کوحسین بن منصورکےنکاح میں اس کاعمدہ طریقہ اوراچھا مجاہدہ دیکھ کردیدیا تھا، پھرتھوڑی مدت کے بعدمجھے معلوم ہواکہ وہ توحیلہ بازساحراورخبیث کافرہے۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۲۹۹)
جواب:
۱۔ اس روایت کی سند میں بھی وہی ابن باکویہ شیرازی ہے جو محدثین کے نزدیک غیرثقہ ہے۔ (لسان المیزان: ج۷، ص۲۵۲)
۲۔ دوسرا راوی ابو زرعہ طبری مجہول ہے۔ کتب اسماع الرجال میں اس کے حالات کاکہیں ذکرنہیں ملتا۔
۳۔ تیسرا راوی ابویعقوب اقطع بھی مجہول ہے۔ کتب اسماع الرجال میں اس کے حالات کابھی ذکرنہیں ملتا۔ لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک المروزیؒ (متوفی ۱۸۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’الإسناد من الدین، ولولا الإسناد لقال من شاء ماشاء‘‘۔ ’’سند دین میں سے ہے، اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا‘‘۔ (مقدمہ صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: ۳۲ و سندہ صحیح)
اگراس روایت کو بھی تمام علتوں کے باوجودصحیح تسلیم کرلیا جائے توبھی ابویعقوب اقطع کی جرح مبہم سے کسی ایسے شخص کو مجروح قرارنہیں دیا جاسکتاجسےبڑےبڑےاولیاءوعلماءکرامؒ نے قبول کیاہواور ان کی تائیدکی ہو۔
خطیب بغدادیؒ تاریخ بغدادمیں لکھتے ہیں کہ ابن منصورؒسےان کے شیخ اوّل عمروبن عثمان مکیؒ ناراض تھے اورناراضگی کی وجہ ابویعقوب اقطع کی لڑکی سے نکاح کرنا تھا۔ اس نکاح کی وجہ سے عمروبن عثمانؒ میں اورابو یعقوب اقطع میں اختلافات چل گئے تھے۔شیخ عمروبن عثمان مکیؒ اپنےوقت کےامام مسلّم طریقت تھےاورامام بخاری ؒسے حدیث روایت کی ہے۔ جس شخص (ابویعقوب اقطع)نے عمروبن عثمانؒ جیسے شیخ طریقت کی رعایت نہ کی وہ ابن منصورکوبرُابھلاکہے تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔
ایک اوراہم نکتہ یہ ہےکہ ابو یعقوب اقطع کےالفاظ ہیں کہ’’پھر تھوڑی مدت کےبعدمجھےمعلوم ہوا‘‘۔ یعنی انہوں نے جو کچھ حسین بن منصورؒکے بارے میں کہاوہ کہیں سے سن کرکہا خودسے ایسا کچھ نہیں دیکھاجوبیان کرسکتے۔
ابویعقوب اقطع کی جرح کی بہترین مثال کچھ اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ عکرمہ مولی ابن عباسؓ ونافع مولی ابن عمرؓپربعض ائمہ نے سخت جرح کی ہیں مگردوسرے علماءکی توثیق وتعدیل سے ان کو مقبول قراردیاگیا ہےاورجرح مبہم پرالتفات نہیں کیاگیا۔ بالکل یہی معاملہ ابن منصورؒ کے ساتھ بھی کرناچاہیئےکیونکہ ابن منصورؒکی توثیق وتعدیل ابراہیم بن محمدنصرآبادیؒ جیسے حافظ الحدیث و متبع سنت ، امام شبلی ؒجیسے امام طریق، ابوعبداﷲبن خفیفؒ جیسے شیخ طریقت اورابوالعباس بن عطاءؒجیسے ولی اﷲومحدث نے کررکھی ہے۔
چھٹاالزام: حسن بصریؒ کی طرف منسوب حج کامضمون
خطیب بغدادی ؒ اور عریب بن سعد قرطبی نے بیان کیا ہے کہ وزیرحامدبن العباس کے پاس روزانہ دفترکے دفترحلّاج کے اصحاب (اورمریدوں کے گھر) سےلائےجاتےتھے(جن میں حلّاج کے خطوط) اورکتابیں ہوتی تھیں۔ ایک دن وزیرحامد کے سامنے حلّاج کی ایک کتاب پڑھی جارہی تھی، جس میں یہ مضمون تھا کہ: "اگر کوئی شخص حج کاارادہ رکھتا ہواورقدرت نہ رکھتاہووہ اپنے گھرمیں سے ایک کمرہ مربع (عبادت کے لئے) مخصوص کرلے اوراس کوپاک صاف رکھے، کسی قسم کی نجاست وہاں نہ پہنچ سکے، نہ اس کے سواکوئی دوسراوہاں جائے۔ سب کواس کمرےسےروک دے۔ پھرایام حج میں اس گھرکاطواف کرےجیساکہ خانہ کعبہ کاطواف کرتے ہیں اورجومناسک مکہ میں اداکیئے جاتے ہیں سب بجالائے۔ جب یہ کرچکے توتیس یتیموں کوجمع کرکے اس گھرکےسامنے اپنی ہمت وقدرت کےموافق کھاناکھلائےاوربذات خودان کی خدمت کرےجب وہ کھانے سےفارغ ہوکرہاتھ دھولیں توہرایک کوایک ایک عمدہ کپڑے پہنائے۔ پھرہرایک کوسات درہم یاتین درہم دے، (ابوالقاسم بن زبخی کوشک ہے) یہ عمل اس کے لئے حج کاقائم مقام ہوگا"۔
جس وقت یہ کتاب پڑھی جارہی تھی وزیرحامد بن العباس کی مجلس میں قاضی ابوعمروقاضی ابوالحسین ابن الاشنائی اور ابوجعفربن بہلول قاضی اورعلماء وشہودکی ایک جماعت موجودتھی۔ قاضی ابوعمرنےحلّاج کی طرف متوجہ ہوکرفرمایاکہ یہ مضمون تجھے کہاں سے پہنچا؟ کہا! حسن بصری کی کتاب الاخلاص سے، قاضی ابوعمرنے کہا، اے حلال الدم! توجھوٹ کہتاہے، ہم نے مکہ میں حسن بصری کی کتاب الاخلاص سنی ہےاس میں تویہ مضمون نہیں تھا۔ پس قاضی ابوعمر کی زبان سے یاحلال الدم نکلناتھاکہ وزیرحامدنے اس لفظ کوپکڑلیااورکہااس لفظ کولکھ دیجئے۔ قاضی ابوعمرحلّاج سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھ کراس بات کو ٹالنے لگےمگرحامد اس بات کے لکھنے کامطالبہ کرتا رہا۔ یہاں تک کہ حامد نے دوات اپنے آگے سے بڑھاکرقاضی کے سامنے رکھ دی اورکاغذ منگاکراس کے حوالے کردیااور بہت سختی کے ساتھ اس بات کے لکھنے کا مطالبہ کیاجس کے بعد قاضی مخالفت نہ کرسکا اورابن منصورؒ کےجوازِقتل کافتویٰ لکھ دیا۔ ان کے بعددوسرے علماءنےبھی اس پردستخط کردیئے، پھرخلیفہ نے بھی علماءکے فتوے پرقتل کی اجازت دے دی۔ (تاریخ مدینۃ السلام، خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۷)
حلّاج نے جب یہ صورت دیکھی توکہاکہ: ’’میری پشت (شرعاً) ممنوع ومحفوظ ہے (یعنی مجھے سزا ئے تازیانہ بھی نہیں دی جاسکتی) اورمیراخون بہانا حرام ہے، تم کو ہرگز یہ جائزنہیں کہ گھڑگھڑا کہ میرے جوازقتل کا فتویٰ دو، حالانکہ میرااعتقاد اسلام (کےموافق) ہے، میرامذہب سنت ہے، اور میں حضرت صدیق اکبرؓ، اور حضرت عمرؓوعثمانؓ وحضرت علیؓ وطلحہؓ وزبیرؓ وسعدؓوسعیدؓاورعبدالرحمٰن بن عوفؓ اورابوعبیدہ بن جراح رضی اﷲعنہم کی تفضیل کا قائل ہوں اور سنت (کے بیان) میں میری کتابیں کتب فروشوں کے پاس موجود ہیں۔ پس میرے خون کے معاملہ میں اﷲسے ڈرو۔ اﷲسے ڈرو‘‘۔
وہ بارباراسی بات کودہراتے رہے اورلوگ برابردستخط کررہے، یہاں تک کہ حسب منشاء فتوے کی تکمیل کرلی گئی تویہ لوگ مجلس میں اُٹھ کھڑے ہوئے اورحلّاج کواسی جگہ بھیج دیا گیاجہاں وہ پہلے قیدتھے۔ (تاریخ مدینۃ السلام، خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۸)
جواب:
قارئین کرام! آپ نے دیکھا کہ وزیرحامد العباس نے قاضی ابوعمرسے کس طرح زبردستی فتوےپردستخط کروایا۔ قاضی ابوعمرکی زبان سے ایک لفظ کیانکل گیاوزیرکے نزدیک آیت وحدیث ہوگیا حالانکہ قاضی اپنی بات کو ٹالناچاہتےتھےمگروزیرنےخودکاغذاوردوات آگےکرکےفتویٰ لکھنے پر اصرارکیااورمجبورہوکرقاضی نے جواز قتل کا فتویٰ لکھ ڈالا۔
حسین بن منصورحلّاجؒ کی کتاب میں رقم مسئلہ (ایام حج میں کسی گھرکا طواف کرنا) کی شرعی حیثیت اورحسن بصریؒ کی طرف نسبت کی وجہ
رہایہ سوال کہ اپنے گھرکے کمرہ کابیت اﷲکی طرح طواف کرناکب جائزہےاوراس بات کو حسن بصریؒ کاقول کیونکرسمجھ لیاگیا؟ جواب یہ ہے کہ بیت اﷲکے سواکسی گھر کوبیت اﷲکےبرابرسمجھناتوحرام ہے۔ مگرتشبہ بالبیت حرام نہیں۔ جنانچہ حضرت عبداﷲبن عباسؓ سے بصرہ میں تعریف منقول ہےاورامام احمدبن حنبلؒ اس کے جواز کے قائل ہیں جسکاحاصل یہ ہے کہ عرفہ کے دن تمام بلادکے مسلمان اپنے اپنے شہرسےباہرجاکرمیدان میں وقوف کریں اوردن بھردعااورمناجات میں مشغول رہیں۔ گویا اہل عرفات کے ساتھ تشبہ کریں۔ سوممکن ہے کہ ابن منصورنے بھی اسی تشبہ پرمحمول کرکےحسن بصری کی طرف اس قول کو منسوب سمجھ لیاہو، جسکا قرینہ یہ ہے کہ یہ صورت اس شخص کے لئے بیان کی گئی ہے جوحج سے عاجزہو۔ اگربالفرض یہ تسلیم کربھی لیاجائے کہ ابن منصورکایہ عقیدہ تھاکہ کوئی جگہ طواف وغیرہ کے لئے مطلقاً بیت اﷲکے برابرہوسکتی ہے توبھی یہ ابن منصورکی ایک علمی غلطی سمجھی جاسکتی تھی، کفراورتکفیرسے اس کا ہرگزکوئی تعلق نہیں بنتاکیونکہ کسی مکان سے صورۃ ًبیت اﷲجیسامعاملہ کرنا کفرنہیں۔ بہت سے بہت بدعت اور گناہ ہی ہوسکتاہے، جبکہ نیت طواف شرعی کی ہواوراگرطواف شرعی کی نیت نہ ہومحض صورت طواف کی ہوتوبدعت اورگناہ بھی نہیں۔ حضرت جابربن عبداﷲرضی اﷲعنہ سے مروی ہے’’فطاف حول اعظمہ ثلثا‘‘ (رواۃالبخاری)۔  طواف کالفظ اس حدیث میں بھی ہے اوررسول اﷲﷺسے صورت طواف کا صدور بھی ہوامگرطواف لغوی تھاطواف شرعی نہ تھا۔اسی طرح حسین بن منصورؒ کے معاملے میں بھی یہ احتمال ہے کہ طواف سے طواف عبادت مراد نہ ہوبلکہ طواف لغوی مراد ہو۔ اورکسی عمل کوثواب یاحصول برکات میں حج کاقائم مقام سمجھنابھی کفرنہیں۔ بعض احادیث میں صبح کی نمازکےبعدطلوع شمس تک اسی جگہ بیٹھ کرمشغول ذکررہنے اوراس کے بعددورکعت بوقت اشراق پڑھنے کاثواب حج وعمرہ کے برابرواردہے۔ اگرابن منصورنے کسی سے اس عمل کاثواب بھی حج کے برابرسناہوجوانہوں نے حسن بصریؒ کی کتاب میں غلط طورپردیکھاتھاتواس سے کفرلازم نہیں آسکتا۔ اگراس بات سے بالیقین کفرلازم آتاتوقاضی ابوعمرفتویٰ کفرسے اسقدرپہلوتہی نہ کرتےکہ وزیرحامدکوالحاج واصرارواحبارکی نوبت نہ آتی۔
وزیر حامد العباس نے جب حسین بن منصورحلّاجؒ کے قتل کا فتویٰ قاضی ابو عمرسے زبردستی لکھوایا تو اس فیصلے پرحسین بن منصورحلّاجؒ نے کن الفاظ کے ساتھ احتجاج کیا۔ خطیب بغدادی ؒکی زبانی ملاحضہ فرمائیں:
حسین بن منصورحلّاجؒ نے کہاکہ ’’میراخون بہانا حرام ہے، تم کو ہرگز یہ جائزنہیں کہ میرے جوازقتل کا فتویٰ دو، حالانکہ میرااعتقاد اسلام ہے، میرامذہب سنت ہے، اور میں حضرت صدیق اکبرؓ، اور حضرت عمرؓوعثمانؓ وحضرت علیؓ وطلحہؓ وزبیرؓ وسعدؓوسعیدؓاورعبدالرحمٰن بن عوفؓ اورابوعبیدہ بن جراح رضی اﷲعنہم کی تفضیل کا قائل ہوں اور سنت (کے بیان) میں میری کتابیں کتب فروشوں کے پاس موجود ہیں۔ پس میرے خون کے معاملہ میں اﷲسے ڈرو۔ اﷲسے ڈرو‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۸)
میں تمام مسلمان بھائیوں اوربہنوں سےسوال کرتا ہوں کہ کیا یہ الفاظ کسی ایسے شخص کے ہوسکتے ہیں جوخدائی کا دعویدار ہویا پھرکافروزندیق ہو؟ ہرگزنہیں۔ یہ ہے ابن منصورؒکی بےگناہی کاواضح ثبوت۔
وزیر حامد العباس نے حسین بن منصورحلّاجؒ کے قتل کا فتویٰ قاضی ابو عمرسے زبردستی حاصل کیاتھا۔ مشہورمورخ ابن اثیرکی شہادت:
’’حافظ محدث ابن اثیرکامل فرماتے ہیں کہ اسی سال ۳۰۹ھ میں حسین بن منصورحلّاج صوفی قتل کئے گئے، جلائے گئے۔ ان کاابتدائی حال یہ تھاکہ زہدوتصوف اورکرامات ظاہرکرتے، جاڑوں میں میوہ گرمی میں گرمی کاجاڑوں میں لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ ہوامیں ہاتھ لمبا کرکے دراہم سے بھراہواواپس لاتےجن پرقل ھواﷲاحدلکھی ہوئی تھی۔ ان کووہ دراہم قدرت کہتےتھے۔ لوگ جوکچھ کھاتے پیتے، گھروں میں جوکام کرتےسب بتلادیتے، دلوں کی باتوں کوکھول کربیان کردیتے۔ بہت لوگ ان کی وجہ سے فتنہ میں مبتلاہوگئےاور حلول کا اعتقادکربیٹھے۔
عرض ان کے بارے میں لوگوں نے اسی طرح مختلف باتیں کہیں۔ جیساعیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بعض کہتے کہ ان میں خدائی کاایک حصہ حلول کرآیاہے۔ بعض انہیں کوخداکہنے لگے، بعض کہتے ہیں کہ وہ ولی اﷲہیں۔ اورجوخوارق ان سے ظاہرہوتے وہ کرامات ہیں جوبزرگوں سے ظاہرہواکرتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں شعبدہ بازحیلہ گر، ساحروکذاب وکاہن ہیں، جن ان کے تابع ہیں وہی بے وقت میوہ لاتے ہیں۔
ان کے قتل کاسبب یہ ہواکہ جب بغدادواپس آئے تووزیرحامدبن عباس کوخبرپہنچی کہ حلّاج نے ایک جماعت کوزندہ کیاہے، مردوں کو جلاتاہے، جن ان کی خدمت کرتے ہیں اورجوچاہتاہے حاضرکرتےہیں۔ اس نے خلیفہ کے چشم خدم کوبہلالیاہے۔ نصرحاجب اس کی طرف مائل ہے۔ حامدنے خلیفہ مقتدرباﷲسے درخواست کی کہ حلّاج اور اس کی جماعت کواس کےحوالے کردے۔ نصرحاجب نے اس درخواست کوٹالناچاہاتووزیرنےاصرارکیاچنانچہ مقتدرنے حلّاج کواس کے حوالہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس نے حلّاج اوراس کے ایک آدمی کوجوسمری نام سے مشہورتھااوردوسروں کوبھی گرفتارکیا۔ لوگوں نے کہا، یہ اس کو خداکہتے ہیں۔ حامد نے ان سے گفتگوکی تواقرارکرلیاکہ واقعی وہ سچ مچ ان کے نزدیک خداہے، مردوں کو زندہ کرتاہے۔
حلّاج کے سامنے یہ بات پیش کی گئی تو اس نے اس سے انکارکیااورکہااعوذباﷲمیں خدائی اورنبوت کا دعویٰ کیوں کرتا میں تو ایک معمولی آدمی ہوں اﷲعزوجل کی عبادت کرتا ہوں۔
حامد نے قاضی ابوعمروقاضی ابوجعفربن بہلول اور بڑےبڑے فقہاءاورشہودکوجمع کرکے ان سے فتویٰ پوچھا۔ سب نے کہاجب تک ہمارے سامنے اس کی کوئی بات پایۂ ثبوت کونہ پہنچ جائےجوموجب قتل ہواس وقت تک اس کے متعلق فتویٰ نہیں دیاجاسکتااورلوگوں نے جن باتوں کادعویٰ ان کی طرف منسوب کیاہےبدون بینہ یااقرارکے قبول نہیں کی جاسکتیں۔ حامدان کو اپنی مجلس میں برابرطلب کرتااورگفتگوکرتاتھامگران سے کوئی بات ایسی ظاہرنہ ہوئی تھی جوشرعاًناپسندیدہ ہو۔ ایک مدت دراز اسی حال میں گزرگئی اور حامدان کے بارے میں (تلاش جرم کےلئے) کوشش کرتارہا۔ حامد کے ساتھ حلّاج کو بہت واقعات پیش آئے جن کی تفصیل بہت طویل ہے۔
بلآخروزیرکو ان کی ایک کتاب ملی جس میں لکھا تھاکہ انسان جب حج کاارادہ کرے اورقدرت نہ پائے الخ۔ جب یہ مضمون وزیرکے سامنے پڑھاگیاتو قاضی ابوعمرنے حلّاج سے پوچھا، یہ مضمون تم کو کہاں سے ملا؟ کہا، حسن بصری کی کتاب الاخلاص سے، قاضی نے کہااے حلال الدم توجھوٹاہے۔ بس ان کی زبان سے حلال الدم نکلنا تھاکہ وزیرنے سن لیااورکہا، یہ بات لکھ دیجئے، قاضی ابوعمرنے اس کوٹالناچاہامگروزیرنے مجبورکیا۔ تو انہوں نے (مجبورہوکر) حلّاج کے خون حلال ہونے کا فتویٰ لکھ دیا۔ ان کے بعددوسرے فقہاءوعلماءنے بھی اس پردستخط کردیئے۔
حلّاج نے جب یہ بات سنی توفرمایاتم کو میراخون (بہانا)جائزنہیں۔ جب کہ میرااعتقاد اسلام ہے اورمذہب سنت (کےموافق) اس بارہ میں میری بہت سی کتابیں موجود ہیں۔ میرے خون کے معاملہ میں اﷲسے ڈرو اﷲسے ڈرو۔ اس پرلوگ منتشرہوگئے‘‘۔ (الکامل فی التاریخ الا ابن اثیر: ج۵، ص۶۷۰-۶۷۳)
وزیر حامد العباس نے حسین بن منصورحلّاجؒ کے قتل کا فتویٰ قاضی ابو عمرسے زبردستی حاصل کیاتھا۔ مشہورمورخ ابن خلکان کی شہادت:
’’قاضی ابن خلکان نے (اپنی تاریخ میں) لکھ ہے کہ ابن منصورکےقتل کاسبب کوئی ایسی بات نہ تھی جوشرعاًموجب قتل ہو۔ صرف وزیرنے ان کے خلاف مقدمہ بنالیاتھا۔ جب ان کو مجلس قضاء میں باربارطلب کیاگیاتوان پرکوئی ایسی بات ثابت نہیں ہوئی جوخلاف شریعت ہو۔ اس وقت وزیرنے اپنی جماعت سےکہاکہ ابن منصورکی لکھی ہوئی کچھ کتابیں بھی ہیں؟ لوگوں نے کہا، ہاں موجودہیں۔ پھرانہوں نے بتلایا کہ اس کی ایک کتاب میں یہ مضمون ملاہےکہ جب انسان حج سے عاجزہوجائے تواپنے گھرکے کمرے کوپاک صاف کرکے خوشبومیں بسائے، اس کا طواف کرے تویہ عمل بیت اﷲکے مثل ہوگا۔ واﷲاعلم۔ یہ قول ان کی طرف منسوب کرناصحیح تھایانہیں؟ اس پر قاضی نے ان کو طلب کیا اور کہاکہ یہ کتاب تمہاری تصنیف کردہ ہے؟ کہا، ہاں۔ پھرپوچھا، تم نے اس کے مضامین کو کہاں سے لیا؟ کہاحسن بصری سے۔ اورحلّاج کو یہ معلوم نہ تھاکہ لوگوں نے اس میں کچھ اپنی طرف سے بھی ملادیا ہے۔ توقاضی نے کہا، اے حلال الدم! توُ توجھوٹاہے۔ حسن بصری کی کتابوں میں اس قسم کی کوئی بات نہیں۔ جیسے ہی قاضی کے منہ سے حلال الدم کالفظ نکلا، وزیرنےفوراًاس کو پکڑلیااورکہا، یہ اس کی فرع ہے کہ تم نے اس کے کفرکاحکم دے دیاہے (کیونکہ مسلمان یاتوکفرسے حلال الدم ہوتاہے یازنابعدالاحصان سے، یا قتل ناحق سےاوریہاں زنااورقتل کاکوئی قصہ نہیں، تو بجزکفروارتدادکے اورکوئی سبب حلال الدم ہونے کانہیں ہوسکتا) اورقاضی سے کہا، کہ تکفیرکافتویٰ اپنے دستخط سے لکھ دو۔ قاضی نے اس سے بچنے کی کوشش کی مگروزیرنے اس کو مجبورکیا، چنانچہ قاضی نے (مجبورہوکر) لکھ دیا، اس پرعم لوگ وزیرسے بگڑگئےاوراسے اپنی جان کا خطرہ ہوگیاتو خلیفہ نے گفتگو کی اور بارگاہ خلافت سے ابن منصور کوایک ہزادکوڑے لگائے جانےاورہاتھ پیرکاٹے جانے اورسولی دیئے جانے کاحکم حاصل کرلیا‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ الامام عبدالوھاب الشعرانی: ج۱، ص۳۴)
ابن خلکان کا طرز بیان بتلاتاہے کہ جس وقت حج کا مضمون پڑھاجارہا تھا اس وقت ابن منصورمجلس قضامیں موجودنہ تھے، بعدمیں بلائے گئے تھے۔ اوران کوصرف کتاب دکھلاکرسوال کیاگیاکہ یہ کتاب تمہاری تصنیف کردہ ہے؟ ابن منصورنے اس کی صورت دیکھ کراقرارکرلیا۔ ان کو یہ خبرنہ تھی کہ لوگوں نے اس میں کچھ الحاق بھی کردیاہےاورچونکہ پہلے زمانے میں پریس کا وجودنہ تھا۔ کتابیں عموماً قلمی ہوتی تھیں اسلئے دشمنان اسلام کوعلماء کی کتابوں میں الحاق کابڑاموقع مل جاتا تھاکیونکہ قلم سے قلم اور خط سے خط ملادینامشکل کام نہیں۔
علامہ عبدالوھاب شعرانیؒ اپنی کتابوں میں جابجالکھتے ہیں کہ لوگوں نے میری زندگی میں میری کتابوں کے اندرالحاق اورخلط کردیاتھاجسکی مجھے کچھ خبرنہ تھی۔ آج کل کے اس قدرترقی یافتہ دور میں لوگ کسی کتاب میں تحریف کردیتے ہیں تو پھر اس دور میں یہ کام کتنی آسانی سے کیاجاسکتاتھا، اس بات کا اندازہ قارئین خود لگاسکتے ہیں۔ جبکہ حسین بن منصورؒ بھی وزیرحامد کی قید میں تھے اور ان کی تمام کتابیں  اورخطوط بھی وزیرحامدکے قبضہ میں تھیں تووزیرکے لئے یہ کام نہایت ہی آسان تھا کہ ابن منصورؒ کی کتاب میں تحریف کرکے مجلس قضا میں قاضی اور دیگرعلماء کے سامنے پیش کرکے جوازقتل کا فتویٰ حاصل کےسکے۔
تاریخ طبری اورتاریخ ابن خلکان کی روایت میں موافقت اس بات کی دلیل ہے کہ ابن منصورؒ کو کتاب پڑھ کرنہیں سنائی گئی تھی، صرف کتاب دکھائی گئی تھی۔
’’وزیرحامد بن عباس نے اس کی بعض کتابوں میں یہ مضمون بھی پایاکہ اگرآدمی تین دن تین رات متواترروزے رکھے اور(درمیان) میں افطار نہ کرے۔ چوتھے روز بندیا کےچندپتوں پرافطارکرےتورمضان کےروزوں کی ضرورت نہ رہے گی اوراگرکسی رات میں شروع سےصبح تک دورکعتیں پڑھے تو اسکے بعدنماز کی ضرورت نہ رہے گی۔ اوراگرکسی دن اپنی ساری مملوکات کو جواس وقت اسکے ملک میں ہوں صدقہ کردے تو(ہمیشہ کےلئے) زکوٰۃکاقائم مقام ہوجائےگااوراگرایک کمرہ بناکرچندروزے رکھےپھراس کمرہ کے گردننگاہوکرطواف کرےتواس کوحج کی ضرورت نہ رہے گی۔ اوراگرقریش کے قبرستان میں جاکرقبورشہداءکی زیارت کرےاوروہاں دس دن قیام کرکے نمازپڑھتادعاکرتا رہےاورمتواترروزے رکھے اورافطارکے وقت بجزقدرقلیل جوکی روٹی اورخالص نمک کے کچھ نہ کھائے توپھراس کوساری عمرعبادت کی ضرورت نہ رہے گی۔ وزیرنے علماءفقہاءاورقاضیوں کوجمع کیاپھرحلّاج سےپوچھاگیاکہ تم اس کتاب کوپہچانتےہو؟ کہا، ہاں یہ کتاب السنن حسن بصری کی ہے۔ حامد نے کہا کیا تم اس کتاب کےمضامین کونہیں مانتے؟ کہاکیوں نہیں یہ توایسی کتاب ہے کہ میں اﷲتعالیٰ کے ساتھ اس کے موافق معاملہ کرتاہوں۔ قاضی ابوعمرنے کہایہ توسراسراحکام اسلام کے منافی ہے۔ پھرقاضی نے اس سے کچھ اورگفتگوکی یہاں تک کہ ان کی زبان سے حلّاج کے متعلق ’’یاحلال الدم‘‘ نکل گیا۔ فقہاء نے بھی ان کی موافقت کی اوران کے قتل کافتویٰ دےدیاان کے خون کومباح کردیاگیاپھریہ سب کاروائی مقتدرباﷲکے پاس لکھ کربھیجی گئی تواس نے فرمان بھیج دیاکہ اگرقاضیوں نے حلّاج کے قتل کافتویٰ دےدیاہےتومحمد بن عبدالصمدکوتوال حاضرہواوراسکے ہزارکوڑے لگائے۔ اگراسی میں ہلاک ہوجائے توفبہاورنہ گردن ماردی جائے‘‘۔ (تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری: ج۱۱، ص۹۲)
اس روایت کا طرز بیان بھی ابن خلکان کے موافق ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن منصورکوکتاب کامضمون نہیں سنایاگیاصرف صورت دکھاکرسوال کیاگیاتھا کہ اس کو مانتے ہو یانہیں؟ حلّاجؒ کو ان خرافات کی خبر نہ تھی جو ان کے خلاف اس کتاب میں رقم کردیئے گئے تھے۔ اور ظاہرہے کہ ایسا اقرار جواز قتل میں ہرگزحجت نہیں جب تک مشتبہ مقامات کوتفصیل وارسناکراقرارنہ لیاجائے۔ اور ان مضامیں کاابن منصورؒ کے نزدیک غلط اورافتراءعلےاﷲہوناخودان کی زندگی کےمطالعہ سے واضح ہے۔
خطیب بغدادیؒ  تاریخ بغداد میں ابویعقوب نہرجوری کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حسین بن منصورؒپہلی مرتبہ مکہ معظمہ میں آئے تو سال بھر تک (مسجدحرام) کے صحن میں بیٹھے رہے، وضواور طواف کے سواکسی وقت اپنی جگہ سے نہ ہٹتے تھے۔ نہ بارش کی پرواہ تھی، نہ دھوپ کی، شام کے وقت ان کے واسطے مکہ کی روٹیوں میں سے ایک روٹی اور ایک کوزہ میں پانی لایا جاتاتھا تو وہ روٹی کے چار طرف ایک ایک دفعہ منہ مارتے (اورچارلقمہ کھالیتے)پانی کے دوگھونٹ پیتے۔ ایک گھونٹ کھانے سے پہلے اور ایک گھونٹ کھانے کے بعد، پھر باقی ماندہ روٹی کو کوزہ کے اوپررکھ دیتے جو ان کے پاس سے اٹھالی جاتی تھی۔(بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۶)
خطیب بغدادیؒ نےتاریخ بغداد میں ابو عبدالرحمٰن بن حسین السلمیٰ سے روایت کیاہےکہ فارس بغدادی سے میں نے سنا کہ جب حسین بن منصورحلّاجؒ کو قید کیا گیاتو ٹخنوں سے گھٹنوں تک تیرہ بیڑیاں (لوہے کی) ان کے پیروں میں ڈالی گئیں اس کے باوجود بھی وہ رات دن میں ایک ہزار رکعتیں پڑھتے تھے۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۰)
قارئین کرام خوداس بات کا فیصلہ کریں کہ جوشخص مسجدحرام میں ہر وقت عبادات میں مشغول رہتا اور جیل کی سختیوں کے باوجودرات دن میں ہزار رکعتیں پڑھتاہواس کا یہ عقیدہ کیسے ہوسکتاہےکہ ’’رات میں شروع سےصبح تک دورکعتیں پڑھے تو اسکے بعدنماز کی ضرورت نہ رہےگی‘‘ یا ’’متواترروزے رکھے اورافطارکے وقت بجزقدرقلیل جوکی روٹی اورخالص نمک کے کچھ نہ کھائے توپھراس کوساری عمرعبادت کی ضرورت نہ رہےگی‘‘؟
اگرحسین بن منصورؒ کے اعقائدونظریات یہی تھے جووزیرحامدنے بیان کئے تو پھروہ دن رات مسجدحرام میں عبادت میں مشغول کیوں رہتے اورقیدکی سختیوں میں بھی دن رات ہزار رکعتیں کیوں پڑھتے؟
حسین بن منصورحلّاجؒ کے قتل کا فتویٰ قرآن و حدیث کے موافق تھا یا مخالف؟
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنْ كَانَ لَهُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِيلَهُ فَإِنَّ الإِمَامَ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعَفْوِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعُقُوبَةِ‏"‘‘۔ ’’حضرت عائشہ رضی اﷲعنہاروایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲﷺنےفرمایاجہاں تک ہوسکے مسلمانوں کو حد کی سزا سے بچاؤ اگر مسلمان (ملزم) کے لئے بچاؤ کا ذرا بھی کوئی موقع نکل آئے تو اس کی راہ چھوڑ دو یعنی اس کو بری کر دو کیونکہ امام یعنی حاکم ومنصف کا معاف کرنے میں خطا کرنا، سزا دینے میں خطاکرنےسےبہترہے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۳، كتاب الحدود عن رسول اللهﷺ، باب مَا جَاءَ فِی دَرْءِ الْحُدُودِ، رقم الحدیث۱۴۲۴)
رسول اﷲﷺنے خود فرمایا کہ شبہات سے حدودکودفع کرواورمسلمانوں کو حد کی سزاسے بچاؤ اگرذرابھی موقع نکل آئے تو اس کو بری کردومگریہاں سب سے بڑی حدیعنی قتل میں بھی ابن منصور ؒکو شبہہ کی بناپر بخشانہیں گیا۔حالانکہ انہوں نے خود اپنااعتقاد قرآن و سنت، صحابہؓ و ائمہ اربعہ کے موافق بتایامگر افسوس کے ان کی کسی نے نہ سنی۔
امام ابوعیسیٰ الترمذیؒ نے اس عنوان سے کہ (’’باب مَا جَاءَ فِي دَرْءِ الْحَدِّ عَنِ الْمُعْتَرِفِ إِذَا رَجَعَ‘‘ ’’اس بیان میں کہ جب کوئی مجرم اپنے بیان سے پھرجائے تواس سے حد دفع ہوجاتی ہے‘‘)مکمل باب باندھتے ہوئے حدیث نقل کی ہے کہ:
’’حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ جَاءَ مَاعِزٌ الأَسْلَمِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنَّهُ قَدْ زَنَى۔‏ فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّهِ الآخَرِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ زَنَى۔‏ فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّهِ الآخَرِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ زَنَى۔‏ فَأَمَرَ بِهِ فِي الرَّابِعَةِ فَأُخْرِجَ إِلَى الْحَرَّةِ فَرُجِمَ بِالْحِجَارَةِ فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ فَرَّ يَشْتَدُّ حَتَّى مَرَّ بِرَجُلٍ مَعَهُ لَحْىُ جَمَلٍ فَضَرَبَهُ بِهِ وَضَرَبَهُ النَّاسُ حَتَّى مَاتَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ فَرَّ حِينَ وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ وَمَسَّ الْمَوْتِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم"‏هَلاَّ تَرَكْتُمُوهُ‏"۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ۔‏ وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَ هَذَا‘‘۔ ’’ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی رضی الله عنہ نے رسول اللہ کے پاس آ کر اعتراف کیا کہ میں نے زنا کیا ہے، آپﷺنے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے: اللہ کے رسولﷺ! میں نے زنا کیا ہے، آپﷺنے پھر ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے زنا کیا ہے، پھر چوتھی مرتبہ اعتراف کرنے پر آپﷺنے رجم کا حکم دے دیا، چنانچہ وہ ایک پتھریلی زمین کی طرف لے جائے گئے اور انہیں رجم کیا گیا، جب انہیں پتھر کی چوٹ لگی تو دوڑتے ہوئے بھاگے، حتیٰ کہ ایک ایسے آدمی کے قریب سے گزرے جس کے پاس اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی، اس نے ماعز رضی الله عنہ کو اسی سے مارا اور لوگوں نے بھی مارا یہاں تک کہ وہ مر گئے، پھر لوگوں نے رسول اﷲﷺسے ذکر کیا کہ جب پتھر اور موت کی تکلیف انہیں محسوس ہوئی تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، رسول اللہنے فرمایا: تم لوگوں نے اسے کیوں نہیں چھوڑ دیا۔ امام ابوعیسیٰ الترمذیؒ کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے، ابوہریرہ رضی الله عنہ سے کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے، یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے، انہوں نے اسے بطریق: عن أبي سلمة عن جابر بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم سےاسی طرح روایت کیا ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۳، كتاب الحدود عن رسول اللهﷺ، باب مَا جَاءَ فِي دَرْءِ الْحَدِّ عَنِ الْمُعْتَرِفِ إِذَا رَجَعَ، رقم الحدیث۱۴۲۸)
کسی ضعیف روایت سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہوسکی کہ حسین بن منصورؒ نے اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ جن روایات کی بنیاد پران پہ خدائی کے دعوے کا الزام لگایا جاتا ہے ان روایات میں خود حسین بن منصورؒ نے اپنے خداہونے کے چھوٹے الزام کا انکار کیا اور اپنے عقیدہ کو قرآن و سنت اورخلفاءِراشدین وائمہ اربعہ کے موافق بتایا۔ بالفرض اگریہ مان بھی لیا جائےکہ انہوں نے ایساکوئی دعویٰ کیاتھاتوبھی رسول اﷲﷺکے فرمان کے مطابق حسین بن منصورؒ کو شبہہ کی بنیاد پراوراپنے اقرار سے پھرجانے کی بنیاد پراس حد کو دفع کردینا چاہیئے تھا۔ مگر وزیر حامد نے قاضی ابوعمرکے ایک جملہ کو پکڑلیااورفتویٰ لکھوالیا۔ حالانکہ یہ احتمال ہونا ضروری تھا کہ شاید ویسے ہی غصہ میں زبان سے نکل گیا ہو۔ اگربالفرض قاضی نے عمداًیہ بات کہی تھی تب بھی وزیرکو خود اس پراصرار کرنے کا حق نہیں تھا، بلکہ ٹالنا واجب تھا۔مگریہاں تو معاملہ ہی برعکس تھا۔قاضی اپنی بات کو ٹالنا چاہتا تھامگروزیرنےبضدہوکرقاضی کو اپنی بات سے ہٹنے نہ دیااورفتوے پر دستخط کروالیا۔
آگے ایک مختصر جائزہ وزیرحامدبن العباس کے مظالم اور خلیفہ المقتدرباﷲابوالفضل کی کم سنی، خلافت سےمعزولی اورحکمرانی سے لاتعلقی کالیتےہیں جن کے بارے میں رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایاکہ’’امام یعنی حاکم ومنصف کا معاف کرنے میں خطا کرنا، سزا دینے میں خطاکرنےسےبہترہے‘‘۔
وزیرحامدبن العباس کےمختصرحالات کا جائزہ
الامام ہمام علامہ عصرمفسرومحدث عظیم مورخ امام الحافظ جلال الدین عبدالرحمٰن ابن ابی بکرالسیوطیؒ لکھتے ہیں: ’’۳۰۸ھ میں بغدادمیں قحط اورغلہ کی کمیابی کاباعث یہ ہواتھاکہ حامدبن عباس سوادجوعراق کے بعض علاقوں کاعامل تھااس نے بغدادوالوں پربےپناہ مظالم ڈھائےتھے۔ جس کی وجہ سے رعیت میں بے چینی حدسےبڑھ گئی۔ فسادات اورغارت گردی شروع ہوگئی۔ تمام رعیت ادھرادھرمنتشرہوگئی، فسادات کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا، قیدخانے میں آگ لگادی گئی۔ جس کے نتیجہ میں تمام قیدی جیل سے فرارہوگئے‘‘۔ (تاریخ الخلفاءالامام الحافظ جلال الدین عبدالرحمٰن ابن ابی بکرالسیوطیؒ: اردو، ص۶۸۲)
 امام ذہبیؒ لکھتے ہیں: ’’وزیرحامد کے حکم سے ابن عطاءؒ کے دانت توڑدیئے گئے۔ ابن عطاءؒ نے چلاتے ہوئے وزیرحامد العباس کو بد دعا دی کہ اے اﷲ! اس کے ہاتھ پیرکٹوادے۔ اس واقعہ کے ۱۴ دن بعد ابن عطاءؒ کی وفات ہوگئی اورزیادہ دن نہ گزرے تھے کہ وزیرحامدبن العباس بھی قتل کیاگیا۔ قتل سے پہلے اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹے گئے۔ اس وقت لوگ کہتے ہیں کہ اس کو ابوالعباس بن عطاءؒ کی بددعالگئی‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۶، ص۲۵۵)
لوگ کہتے ہیں کہ اس کو ابوالعباس کی بددعا لگئی لیکن میں کہتاہوں یہ مکافات ِعمل ہے۔ وزیرحامد بن عباس نے جس طرح بے رحمی سے حسین بن منصورحلّاجؒ کو ناحق قتل کروایا تھا، چندہی دنوں بعدبالکل اسی طرح ان ہی سزاؤں کے ساتھ اﷲپاک نے اس کوقتل کروادیا۔
خلیفہ المقتدرباﷲابوالفضل کےمختصرحالات کا جائزہ
امام جلال الدین عبدالرحمٰن ابن ابی بکرالسیوطیؒ لکھتے ہیں: ’’مقتدرابھی صرف۱۳ سال کاتھاکہ اس کی تخت نشینی عمل میں آئی مقتدرسے پہلے اتنی کم سنی میں کوئی بھی (بنی عباسؒ سے) تخت سلطنت پرنہیں بیٹھاتھا۔ وزیردربارعباس بن حسین نے اس کی کم سنی کے باعث لوگوں سے استصواب کیااورخوداس کے خلع کی رائے دی اورلوگ اس بات پرمتفق بھی ہوگئےتھے کہ مقتدرکوتخت سے معزول کرکے اس کے بجائے عبداﷲبن معتزکوخلیفہ مقررکردیاجائے‘‘۔(تاریخ الخلفاءالامام الحافظ جلال الدین عبدالرحمٰن ابن ابی بکرالسیوطیؒ: اردو، ص۶۷۷)
’’مقتدر نے اپنی کم سنی (یااٹھتی جوانی) کے باعث تمام امورسلطنت ابوالحسن(ابن فرات)کے سپردکردیئے اورخودلہولعب میں مصروف ہوگیااس نے بہت جلدتمام خزانہ عیش وعشرت اوردادودھش میں خرچ کرڈالا‘‘۔ (تاریخ الخلفاءالامام الحافظ جلال الدین عبدالرحمٰن ابن ابی بکرالسیوطیؒ: اردو، ص۶۷۸)
’’ذہبی کہتے ہیں کہ مقتدرکے دورمیں اس کی کم سنی کے باعث نظام سلطنت میں زبردست خلل واقع ہوا‘‘۔ (تاریخ الخلفاءالامام الحافظ جلال الدین عبدالرحمٰن ابن ابی بکرالسیوطیؒ:اردو، ص۶۷۹)
’’مقتدر کاامورحکمرانی سے بے تعلقی کایہ عالم ہوگیا کہ اس سال سےشغب (مادرمقتدریعنی مقتدرکی والدہ)نے حکومت کے تمام امورکی نگرانی خودشروع کردی اورتمام امورسلطنت عورتوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔مقتدرکی ماں ایک حاکم کی فریادیوں کی دادرسی کرنے لگی، وہ رعیت کے معاملات کوخودطے کرتی، ہرجمعہ کوباقاعدہ اجلاس کرتی، قاضیوں اورعمائدسلطنت کی موجودگی میں فرامین جاری کرنے لگی‘‘۔ (تاریخ الخلفاءالامام الحافظ جلال الدین عبدالرحمٰن ابن ابی بکرالسیوطیؒ:اردو، ص۶۸۲)
’’۳۱۷ھ میں مونس الحازم نے جس کالقب مظفرتھا، مقتدرپرلشکرکشی کی کیونکہ مقتدرچاہتاتھاکہ اس کوہٹاکرہارون بن غریب کوامیرالامراءکامنصب عطاکردے۔ مونس تمام لشکرکوہمراہ لے کرجس میں عمائدوامراءسلطنت بھی شامل تھےشاہی محل پرحملہ آورہواجس کے نتیجہ میں مقتدرکے خاص سپاہ (ذاتی محافظ) بھی بھاگ کھڑے ہوئے، مقتدربےیارومددگاررہ گیا۔چنانچہ اسی رات کو (۱۴محرم الحرام) مقتدراپنی والدہ، خالہ اوراپنی بیویوں کوساتھ لے کرعشاءکے بعدچھپ کرنکل گیا۔ مقتدرکی والدہ(شغب) اپنے ساتھ چھ لاکھ دینارکی رقم چھپاکرلےگئی‘‘۔ (تاریخ الخلفاءالامام الحافظ جلال الدین عبدالرحمٰن ابن ابی بکرالسیوطیؒ:اردو، ص۶۸۳)
وزیرحامدبن العباس اور خلیفہ المقتدرباﷲابوالفضل کے حالات جاننے کے بعدیہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وزیرحامدالعباس ایک ظالم شخص تھاجس نے خلیفہ المقتدرباﷲکی نااہلی کاناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے قاضی ابوعمرسے زبردستی فتویٰ حاصل کیا اوراس فتوے میں خلیفہ المقتدرباﷲ سےمزید ترمیم کرواکرحسین بن منصورؒکو۱۰۰۰کوڑے لگائے جانے اوران کے ہاتھ پاؤں کاٹے جانے کی اضافی سزاؤں کا حکم جاری کیا جس کی شریعت میں دوردورتک کوئی مثال نہیں ملتی۔
ساتواں الزام: زندیقوں جیساکلام
خطیب بغدادیؒ نے محمدبن حسین نیشاپوری کے واسطہ سے ابوبکربن غالب سے روایت کیاہےکہ انہوں نے اپنے بعض دوستوں سے سناکہ جب حسین بن منصورکے قتل کاارادہ کیاگیاتوعلماءوفقہاءکوجمع کرکے ابن منصورکوبادشاہ (وقت خلیفہ مقتدرباﷲ) کے سامنے حاضرکیاگیا۔ علماء نے ان سے کہاکہ آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرناہے، ابن منصورنے کہا، پوچھو، علماءنے کہا، برہان کسے کہتےہیں؟ ابن منصورنے جواب دیا، برہان ان شواہد(دلائل) کوکہتے ہیں جواہل اخلاص کی صورتوں میں اﷲتعالیٰ پیداکردیتے ہیں۔ جنکی طرف لوگوں کے قلوب کوجاذب قبول کشش کرتاہے (یعنی ان کی صورت دیکھ کرقلوب ان کی طرف جاذب باطنی کی وجہ سے کشش ہوتی ہے۔ جیساکہ حدیث میں ان ہی حضرات کے متعلق واردہے ’’اذارأواذکرﷲ‘‘ کہ ان کی صورت دیکھ کرخدایاد آتاہے)۔ سب لوگوں نے بالاتفاق کہا، یہ توزندیقوں جیساکلام ہے۔ پھربادشاہ کوان کے قتل کامشورہ دیا۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۰۷)
جواب:
اس روایت کے بارے میں ہمیں خود کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ واقعہ بیان کرکےخودخطیب بغدادیؒ کوتنبہ ہواہےکہ اس جواب میں توکفروزندقہ کی کوئی بات نہیں تھی۔ خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں: ’’قُلْتُ: قد أحال هذا الحاكي عَنِ الفقهاء بأن هذا كلام أهل الزندقة، وهو رجل مجهول، وقوله غير مقبول، وإنما أوجب الفقهاء قتله بأمر آخر‘‘۔ ’’اس جواب میں تو کفروزندقہ کی کوئی بات نہیں تھی۔ اس قصہ کے راوی نے جو فقہاء کے فتوے کا حوالہ اس بات پرکیاہے، یہ راوی مجہول ہے، اس کی بات قابل قبول نہیں، بلکہ فقہاء نے دوسری وجہ سے اس کا قتل ضروری قراردیا تھا‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۰۷)
حقیقت یہ ہے کہ خطیب بغدادیؒ نے جتنے بھی اسباب کفر بیان کئے ہیں سب میں کوئی نہ کوئی راوی ضعیف یا مجہول یامجروح ضرور موجودہے۔ پھر ہرسبب کو الگ الگ دیکھاجائے تو ایک سبب بھی ایسا نہیں ملتاجس کو موجب قتل قراردیاجاسکے۔ اس لئے بظاہرابن خلکان ہی کا قول صحیح ہے کہ ابن منصورؒ کاقتل کسی ایسے سبب سے نہیں ہواجو(فی الواقع) موجب قتل ہو۔ بلکہ جیسااوپرمعلوم ہوچکا ہے کہ وزیرحامدالعباس کی ضد اور زبردستی کی وجہ سے یہ واقع رونما ہوا۔
آٹھواں الزام: بعض کفریہ اشعارکی نسبت
خطیب بغدادیؒ نےابن باکویہ شیرازی کے واسطہ سے بیان کیاہےکہ انہوں نے عیسیٰ بن بزول قزوینی سے سناکہ انہوں نےابوعبداﷲخفیف سے ان اشعارکے معنی دریافت کیئے:
سبحان من أظهر ناسوته                 سر سنا لاهوته الثاقب
ثم بدا فِي خلقه ظاهرا                      فِي صورة الآكل والشارب
حتى لقد عاينه خلقه                      كلحظة الحاجب بالحاجب
شیخ نے فرمایااس کے کہنے والے پرخداکی لعنت۔ عیسیٰ بن بزول نے کہا، یہ اشعارحسین بن منصورکے ہیں، فرمایا، اگراس کااعتقادیہی ہے(جوبظاہران اشعارسے مفہوم ہوتاہے) تووہ کافرہے، مگران اشعارکاان کی زبان سے نکلناپایٔہ صحت کونہیں پہنچا۔ ممکن ہے کسی نے غلط طورپران کی طرف منسوب کردیئے ہوں۔  (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۰۷-۷۰۸)
جواب:
۱۔ اس روایت کی سند میں بھی وہی ابن باکویہ شیرازی ہے جو محدثین کے نزدیک غیرثقہ ہے۔ (لسان المیزان: ج۷، ص۲۵۲)
۲۔ دوسرا راوی عیسیٰ بن بزول قزوینی بھی مجہول ہے۔ کتب اسماع الرجال میں اس کے حالات کاکہیں ذکرنہیں ملتا۔ لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف ثابت ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک المروزیؒ (متوفی ۱۸۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’الإسناد من الدین، ولولا الإسناد لقال من شاء ماشاء‘‘۔ ’’سند دین میں سے ہے، اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا‘‘۔ (مقدمہ صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: ۳۲ و سندہ صحیح)
اگر اس سند کو بھی جرح سے سالم مان لیا جائے تو بھی روایت کے الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ بن بزول نے حسین بن منصورؒ سے خود یہ اشعار نہیں سنے، بلکہ کسی سے سن کربیان کیئے اور ابوعبداﷲبن خفیفؒ سے اس کے معنیٰ دریافت کیئے۔ پس ایسی روایت سے حجت قائم کرنا عقل سے بالاتر ہے۔یہاں یہ بھی معلوم ہواکہ ابن منصورؒ کی طرف جو اشعار منسوب کیئے گئے ہیں سب کی نسبت ان کی طرف پایٔہ ثبوت کو نہیں پہنچی۔ پس اگرکسی کو ان کے بعض اشعار میں خلجان پیداہوتو اس کو شیخ ابوعبداﷲبن خفیف کی طرح یہی سمجھناچاہیئےکہ شایدکسی نے غلط طور پرابن منصورؒ کی طرف منسوب کردیئے ہیں۔
ابن منصورؒ کے ماننے والوں میں شیخ عبداﷲبن خفیف بھی ہیں جوابن منصورؒکے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’حسین بن منصورعالم ربانی ہیں‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۸)
نواں الزام: مریدوں کاابن منصورکوخداکہنا
خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں کہ: ’’مقتدرباﷲکے زمانے میں حسین بن منصوربغداد میں مقیم ہوکرصوفیہ کی صحبت میں رہے، ان ہی کی طرف اپنے کومنسوب کرتےتھے۔ اس وقت حامدبن العباس وزیرتھا۔ اس کوخبرپہنچی کہ ابن منصورنے محل شاہی کے چشم وخدم وربانوں اورنصرقشوری حاجب کے غلاموں کویہ پٹی پڑھائی ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے، جنات اس کی خدمت کرتے اورجوچاہتاہےحاضرکرتے ہیں۔ اوریہ بھی دعویٰ کیاہے کہ اس نے بہت سے پرندے زندہ کیئے ہیں۔ نیزابوعلی اوراجی نے عیسیٰ بن عیسیٰ(وزیر) کومطلع کیاکہ محمدبن قنائی جودربارکے منشیوں میں سے ہے حلّاج کی پرستش کرتااورلوگوں کواس کی اطاعت کی دعوت دیتاہے۔ علی بن عیسیٰ نے محمد بن علی قنائی کاگھرضبط کرنے اوراسے گرفتارکرنے کاحکم دیا، پھراس سے اقرارکرایاتواس نے اقرارکیاکہ میں حلّاج کے اصحاب میں سے ہوں، چنانچہ اس کے گھرسے بہت سی کتابیں اوررقعے ضبط کیئے گئےجوحلّاج کے لکھے ہوئے تھے۔ اس وقت حامدبن عباس نے (بواسطہ) مقتدرباﷲسے درخواست کی کہ حلّاج اوراس کے منادیوں کو اس کے سپردکیاجائے۔ نصرحاجب نے اس بات کوٹالااورحلّاج کی طرف سے جواب دہی کی۔ لوگوں میں یہ بات پھیلی ہوئی تھی کہ نصرحاجب حلّاج کی طرف مائل ہےتو اب وزیرحامد نے بلاواسطہ خلیفہ سے درخواست کی، چنانچہ حلّاج کو اسکے حوالہ کیاگیااوراس نے سختی کے ساتھ اس کی نگہداشت کی۔ ہرروز اس کو اپنی مجلس میں بلاتااوربیہودہ گفتگوکرتا، تاکہ ابن منصورکی زبان سے (غصہ میں) کوئی ایسی بات نکل جائے جس پرگرفت کرکے اس کے قتل کاراستہ ہموارکرے، مگرحلّاج مجلس میں آکربجز’’أَشْهَدُ أَنّ لَّا إِلَٰهَ إِلَّإ الله وأَشْهَدُ ان محمداً رسول الله‘‘ کہنے اورتوحیدوشرائع اسلام کو ظاہرکرنےکےکچھ نہ کہتا۔ اسی اثناءمیں حامدسے کسی مخبرنے کہاکہ بعض لوگ حلّاج کی خدائی کااعتقادرکھتے ہیں۔ وزیرحامدنے ان کوگرفتارکیااوران سے گفتگو کی، انہوں نے اقرارکیاکہ ہم حلّاج کے اصحاب اوراس کے منادی ہیں اوریہ بھی کہا کہ ہمارے نزدیک سچ مچ حلّاج خداہے، اورمردوں کوزندہ کرتا ہے۔ حلّاج سے اس معاملہ کی تحقیق کی گئی تو اس نے صاف انکارکیااوران لوگوں کو جھوٹابتلایااورکہا، خداکی پناہ، میں خدائی یانبوت کادعویٰ کیوں کرتا، میں تو اﷲکاایک بندہ ہوں، اس کی عبادت کرتااورنمازروزہ اورنیک کام کی کثرت کرتاہوں۔ اس کے سواکچھ نہیں جانتا‘‘۔  (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۱-۷۱۲)
نیزعریب بن سعدقرطبی نے لکھا ہے کہ: ’’بعض لوگوں نے سمری اوربعض منشیانِ دربارکے متعلق مخبری کی کہ یہ لوگ حلّاج کوخداکہتے ہیں، اورایک ہاشمی کی نسبت بھی مخبری کی کہ وہ اپنے کوحلّاج کانبی کہتاہے۔ حامدنے ان لوگوں سے گفتگوکی توانہوں نے حلّاج کی خدائی کااقرارکیا۔ جب خود حلّاج سے اس کی تحقیق کی گئی تواس نے دعویٰ خدائی سے انکارکیااوران لوگوں کی تکذیب کی، اورکہاخداکی پناہ ٔ حاشاوکلام، میں اورخدائی یانبوت کادعویٰ کروں، میں توایک (معمولی) آدمی ہوں، اﷲکی عبادت کرتاہوں نمازروزہ اوراعمال خیرکی کثرت کرتاہوں۔ اس کے سوا(میرا) کچھ کام نہیں۔ اس کے بعدحامدنے قاضی ابوعمراور قاضی ابوجعفرابن بہلول اورفقہائے عظام کی ایک جماعت کوبلاکران سے ابن منصورکی بابت استفتاءکیا۔ ان حضرات نے فرمایاکہ وہ اس کے قتل کافتویٰ اس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک کہ ان کے سامنے کوئی ایسی بات ثابت نہ ہوجواس پرقتل کوواجب کردےاوردوسروں نے اس کے متعلق جوکچھ دعویٰ کیاہےوہ اس پرحجت نہیں۔ جب تک دلیل سے اسکے منہ پرثابت نہ کیاجائے، یاوہ خوداقرارکرے۔ پس سب سے پہلے جس شخص نے حلّاج کی حالت کوظاہرکیا، بصرہ کا ایک شخص تھا(مگراس کا نام ونشان کچھ نہیں محض مجہول ہے) اس نے اپنے کوحلّاج کا خیرخواہ ظاہرکیا (گویاسرکاری گواہ بن گیا) اورکہامیں اس کے اصحاب کوپہچانتاہوں، جومختلف شہروں میں پھیلے ہوئے اوراس کی طرف سے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ میں نے بھی اس کی بات کو مان لیا تھا، پھر مجھے اس کی فریب کاری معلوم ہوگئی تواس کی جماعت سے علیحدہ ہوگیااوراس کی حقیقت منکشف ہوجانے پراﷲکاشکراداکیا (نفلیں پڑھیں) ابوعلی ہارون بن عبدالعزیزاوراجی دربارکامنشی اس کو مانتاہے اس نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس میں حلّاج کے خوارق اورحیلوں کوجمع کیاہےاوروہ اس کی جماعت کے پاس موجود ہے۔ حلّاج اس وقت بادشاہی محل میں نظربند تھا، ہرشخص کواس سے ملنے کی اجازت تھی۔ نصرحاجب اس کانگہبان تھا۔ اوروہ بھی اس کے پھندے میں پھنس گیا تھا۔ خدام شاہی میں اس کاذکرعظمت کے ساتھ ہوتاتھا۔ مقتدرنے اس کوعلی بن عیسیٰ کے حوالہ کیاکہ اس سے گفتگوکرکے معاملہ کی تحقیق کرے، چنانچہ علی بن عیسیٰ نے اپنی مجلس میں اسے طلب کیا اورسختی کے ساتھ گفتگوکی۔ کہاجاتاہے کہ اس وقت ابن منصورنے علی بن عیسیٰ سے آہستہ کہاکہ بس جس حدتک تم پہنچ چکے اس سے آگے نہ بڑھو، ورنہ تیرےاوپرزمین (کاتختہ) الٹ دونگا۔ نیزاس قسم کی اورکچھ بات کہی تو علی بن عیسیٰ اس کے ساتھ گفتگوکرنے سے ڈرگیااوراس معاملہ سے الگ ہوگیاتواس کوحامدبن العباس کے سپردکیاگیا۔ اس نے سمری کی بیٹی کوحلّاج کے پاس بھیجاوہ محل شاہی میں مدت تک اس کے پاس رہی پھراس لڑکی کوحامدکے پاس بھیجاگیاتاکہ اس کے سامنے جوحالات وواقعات پیش آئے ہوں ان کو معلوم کیاجائے۔ (تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۷۹-۸۰)
جواب:
تاریخ بغداداورتاریخ طبری کی مندرجہ بالادونوں روایات سے یہ بات واضح طور پرسمجھی جاسکتی ہے کہ وزیرحامدالعباس جب مختلف حیلوں بہانوں اوراصحاب حلّاج سےجھوٹی گواہیاں دلوانے کے باوجود بھی قاضی ابوعمر، قاضی ابوجعفرابن بہلول اورفقہائے عظام سے جوازقتل کا فتویٰ حاصل نہ کرسکاتوپھر اس نے بصرہ کے ایک گم نام (مجہول)شخص کو سرکاری گواہ بنالیالیکن جب اتناسب کچھ کرنے کے باوجود بھی وزیرحامداپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا تو پھر اس نے حلّاج کے مرید کی بیٹی بنت سمری کوحلّاج کے پاس بھیجاجومحل شاہی میں مدت تک ان کے پاس رہی پھراس لڑکی کوحامدکے پاس بھیجاگیاتاکہ اس کے سامنے جوحالات وواقعات پیش آئے ہوں ان کو معلوم کیاجائے۔ واہ سبحان اﷲکیسے کیسے گواہ منتخب کیئے گئے اورکس طرح سے خلاف شریعت نامحرم لڑکی کوابن منصورؒکےپاس تنہائی میں رکھا گیا۔ وہ غریب تو قیدمیں مجبورتھےکیونکہ محل شاہی سے کسی کونکالنے کی انہیں قدرت نہ تھی مگردوسرے تومجبورنہ تھے۔ پھربھی باوجوداس قدرکوششوں کے ابن منصورؒکی عفت وپاکدامنی پرحرف لگانے کی کسی کوجرأت نہ ہوئی جس سےان کابدرجہ غابت متقی ہوناواضح ہے۔
ان روایات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ا بن منصورؒ  نے کس طرح خدائی و نبوت کے دعوٰے کے اس الزام کا انکارکیا اوراﷲکابندہ ہونے کا اقرارکیااور ساتھ ہی اپنے آپ کو نماز، روزہ واعمال خیرکی کثرت کا پابندبتایا۔ یہی وجہ تھی کہ قاضی ابو عمر، قاضی ابو جعفر اوردیگرفقہائے عظام نے فرمایا کہ ’’وہ اس وقت تک حلّاج کے قتل کا فتویٰ نہیں دے سکتے جب تک کوئی ایسی بات ثابت نہ ہوجائےجوان کے قتل کو واجب کردےاور دوسروں نے ان کے متعلق جوکچھ دعویٰ کیا ہے وہ اس پرحجت نہیں جب تک دلیل سے اس کے منہ پرثابت نہ کیا جائے‘‘۔
’’ابوالقاسم بن زبخی کابیان ہے کہ جس وقت بنت سمری حامد العباس کے پاس آئی ہےمیں بھی مجلس میں حاضرتھااورابوعلی احمدبن نصربھی موجودتھا۔ یہ لڑکی فصیح گفتار، شیریں بیان اورقبول صورت تھی۔ اس لڑکی نے بیان کیاکہ حلّاج نے مجھ سے کہاکہ میں نے تیرانکاح اپنے بیٹے سلیمان سےجوتمام اولاد میں مجھے سب سے زیادہ عزیزہےاورنیشاپورمیں مقیم ہےکردیاہےاوریہ بھی کہاکہ میاں بیوی میں کبھی نہ کبھی کوئی بات ہوجاتی ہے، یاکوئی ناگوارواقعہ پیش آجاتاہے۔ توعنقریب اس کے پاس پہنچے گی اورمیں نےتیرے متعلق اس کو وصیت کردی ہے۔ اگرتجھے اس کے ساتھ کوئی ناگواربات پیش آئے تواس دن روزہ رکھنااوردن کے آخری حصہ میں چھت پرجاکرراکھ پرکھڑی ہونااورخالص نمک سےروزہ افطارکرکے میری طرف متوجہ ہونااورجوناگواری پیش آئی ہواس کاذکرکرنامیں اس کو سنوں گااورتجھے دیکھوں گا‘‘۔ (تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۸۰)
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روایت کا راوی ابو القاسم بن زبخی مجہول ہے جسکے ثقہ یا غیرثقہ ہونے کا کچھ علم نہیں اور یہ شخص وزیرحامد العباس کے درباریوں میں سے ہے، لہٰذا اس کی بات تو ویسے بھی قابل قبول نہیں ہونی چاہیئے۔ دوسری بات یہ کہ اس روایت سے بھی کوئی ایسی بات معلوم نہیں ہوتی جس سے  ابن منصورؒ کا کافروزندیق ہونا ثابت ہوتاہو۔ تیسری بات یہ کہ بنت سمری (نامحرم لڑکی) کو ابن منصورؒکے پاس تنہائی میں رکھنے کا کیا جواز بنتا تھا۔ کیا یہ غیرشرعی کام نہیں؟ ان باتوں سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وزیرحامد العباس ابن منصورؒ کی عفت وپاکدامنی پرحرف لگاناچاہتا تھا تاکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت حاصل کرکے قتل کا جواز پیدا کرسکے۔
دسواں الزام: بنت سمری کا ابن منصورؒکی طرف ایک کلمۂ کفرمنسوب کرنا
’’بنت سمری نے کہاکہ ایک دن صبح کے وقت میں چھت سے اتررہی تھی، حلّاج کی لڑکی میرےساتھ تھی اوروہ مکان کے صحن میں تھے۔ جب ہم زینے میں اس جگہ پہنچے جہاں سےوہ ہم کودیکھتے اورہم ان کودیکھتےتھےتوان کی لڑکی نے مجھ سے کہا۔ ان کے آگے سجدہ کرو۔ میں نے کہا، کیااﷲکےسوابھی کسی کوسجدہ کیاجاسکتاہے؟ میرایہ جواب حلّاج نے سن لیا، توکہا! نعم إله فِي السماء، وإله فِي الأرض لَّا إِلَٰهَ إِلَّإ الله وحدہ  (ترجمہ: ہاں آسمان میں بھی معبودہے، زمین میں بھی معبودہے، اﷲوحدہ کےسواکوئی معبودنہیں)‘‘۔ (تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۸۱)
’’بنت سمری نےیہ بھی کہا کہ ابن منصورنے ایک دن مجھے بلایااوراپناہاتھ آستین کے اندرڈال کرنکالاتو وہ مشک سے بھراہواتھا، وہ مشک مجھے دی، دوبارہ پھرآستین میں ہاتھ ڈالااور مشک سے بھراہوانکالا، وہ بھی مجھے دی۔ اسی طرح چندبارکیا اور کہااس کو اپنی خوشبومیں ڈال لے، کیونکہ عورت جب مردکے پاس پہنچتی ہے تو اسے خوشبوکی حاجت ہوتی ہے۔ پھر ایک دن وہ اپنے کمرہ میں بوریوں پر بیٹھے تھے، مجھے بلایااور کہا! فلاں جگہ سے بوریہ اٹھاؤاور اسکے نیچے سے جتنا چاہولےلو۔ میں نے اس جگہ سے بوریہ اٹھایاتو اس کے نیچے تمام گھرمیں دینا ربچھے ہوئے دیکھےجس سے میری آنکھوں میں چکا چوند ہونے لگی‘‘۔ (بحوالہ تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۸۱)
جواب:
اس روایت میں بنت سمری منفرد(اکیلی) بھی ہے اور مجہول بھی جس کے حالات کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ ثقہ ہے یا غیرثقہ لہٰذابنت سمری کی روایت پر نہ اعتماد کیا جاسکتاہے اور نہ اس کی روایت سے ابن منصورؒ پرکوئی الزام قائم ہوسکتا ہے۔ پھر ایک عورت کے بیان سے کوئی حجت قام نہیں ہوسکتی۔ دوسری بات یہ کہ اگربنت سمری کی پہلی روایت کو سچ مان لیا جائے تو پھر اس کی دوسری روایت کو بھی سچ ماننا پڑےگاجس سےابن منصورؒکےصاحبِ کرامت ہونےکاثبوت ملتاہے۔
تیسری بات یہ کہ ابن منصورؒ کے کلام میں اگر ’’لَّا إِلَٰهَ إِلَّإ الله وحدہ‘‘کے الفاظ نہ ہوتے توواقعی یہ کلمۂ کفرتھا، مگرآخری جملہ نے واضح کردیا کہ یہ کلمۂ کفر نہیں بلکہ کلمۂ توحیدہے۔ لہٰذا پہلے جملے کے معنیٰ بالکل ایسے ہیں جیسے قرآن کریم کی اس آیت میں ہے: ’’وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ‘‘۔ ’’اوروہی ہے اﷲ آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی‘‘۔ [سورۃ الانعام:۳]
گیارہواں الزام: ابوبکرصولی کا بیان
’’ابوبکرصولی کہتاہےکہ میں نے حلّاج کو دیکھاہے اس کی مجلس میں بیٹھاہوں۔ میری رائے میں وہ جاہل تھا مگرعاقل بنتاتھا، گفتگو سے عاجز تھامگریہ تکلف فصیح بنتاتھا، فاسق تھاجاہل بنتاتھا، ظاہرمیں عابد صوفی تھامگرجب کسی شہرکے آدمیوں کواعتزال کی طرف مائل دیکھتامعتزل بن جاتا۔ یا امامیہ کے مذہب پرپاتاتوامامیہ بن جاتااوران سے کہتاکہ مجھے تمہارے امام کی خبرہے۔ اورجس بستی کو اہل سنت کے طریقہ پردیکھتاوہاں سنی بن جاتااوراس کی حرکتیں خفیف تھیں فتنہ پروازتھاعلم طب بھی کچھ جانتا اورکیمیاکابھی تجربہ رکھتاتھا اورباوجودجہل کے خبیث تھاشہروشہرگھومتاتھا‘‘۔ (بحوالہ تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۹۰)
جواب:
ابوبکرصولی کا بیان ہرگزقابل قبول نہیں کیونکہ یہ کذاب راوی ہے۔ ابوبکرصولی کے بارے میں ابن سمعانی نے ابن مندہ کے تذکرہ میں لکھا ہےکہ اس نے ابوالقاسم سےسنا، اس نے ابوالحسین بن فارس سے سنا، اس نے ابواحمدبن ابی العشار سے سنا، کہ ابواحمدعسکری صولی پرجھوٹ بولتاہے جیساصولی غلابی پرجھوٹ بولتاتھا، جیساغلابی سب لوگوں پرجھوٹ بولتاتھا۔ (لسان المیزان: ج۷، ص۵۸۴)
شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک المروزیؒ (متوفی ۱۸۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’الإسناد من الدین، ولولا الإسناد لقال من شاء ماشاء‘‘۔ ’’سند دین میں سے ہے، اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا‘‘۔ (مقدمہ صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: ۳۲ و سندہ صحیح)
ابواحمدبن ابی العشارنےاس پرجوجرح کی ہےوہ بہت سخت جرح ہےکیونکہ کذب سےبڑھ کرمحدثین کےنزدیک کوئی جرح نہیں۔
احقرعرض کرتا ہے کہ خطیب کی عبارت سے اس کامقبول الروایت ہونامفہوم نہیں ہوتابلکہ خلفاءکے نزدیک مقبول القول ہونامعلوم ہوتاہے۔ انساب سمعانی کے الفاظ ملاحضہ فرمائیں: ’’وہ کئی خلفاءکاندیم رہا ہے۔ خوش اعتقاداچھے چال چلن کا اورمقبول القول تھا۔ اس کی بات مانی جاتی تھی اور بڑی عزت تھی۔ اس نے مدح اور غزل میں بہت سے اشعارکہے ہیں‘‘۔ اس عبارت سے ہرشخص سمجھ سکتاہےکہ مقبول القول کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ محدثین کے نزدیک اس کی روایت مقبول تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ جن خلفاء کاوہ ندیم تھاان کے یہاں اس کی بات مانی جاتی تھی۔ اس سے اس کا محدثین کے نزدیک ثقہ یامقبول ہونا مفہوم نہیں ہوتا۔
بہرحال ابوبکرصولی کی حیثیت شاعر، ادیب اورمورخ سےزیادہ نہیں لہٰذا اس کے قول سے ابن منصورؒ کومجروح نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جب وہ خود تسلئم کرتا ہے کہ ابن منصورظاہرمیں زاہدبنتے تھے تو اس کویہ کیسے معلوم ہواکہ ان کا زہدبناوٹی تھاحقیقی نہ تھا؟ پھر یہ اس کی تنہارائے ہے جو ابوالقاسم نصرآبادیؒ شیخ طریقت ومحدث،  ابو عبداﷲبن خفیف شیرازیؒ، ابوالعباس ابن عطاءؒاورشبلیؒ جیسے ثقات اولیاءکرام کے سامنے کچھ وقعت نہیں رکھتی۔
رہا یہ کہ ابن منصورجاہل وغبی اورفاجرفتنہ پروازخبیث تھےتوابوعبداﷲبن خفیفؒ کا قول اس کے معارض ہے کہ ابن منصورؒعالم ربانی تھے۔ نیزابوالقاسم نصرآبادیؒ کاقول بھی موجودہے کہ اگرانبیاءوصدیقین کے بعدکوئی موحد ہے تو حسین بن منصورحلّاج ہے۔ نیزان کے عارفانہ اقوال کاجونمونہ مختلف کتابوں میں رقم ہے وہ بھی ابوبکرصولی کے اس قول کی تردیدکرتاہے۔ کسی جاہل کی تو کیا کسی معمولی عالم کی بھی مجال نہیں کہ ایسے پرمغزجامع کلمات سےتکلم کرسکے۔ ابوبکرصولی نے الفاظ تو بہت کہہ دیئے مگراس کو ابن منصورکے فسق وفجوراورخبث وفتنہ پروازی کاایک واقعہ بیان کرنے کی بھی جرأت نہیں ہوئی، اس سے اندازہ کیاجاسکتاہےکہ یہ جرح کس درجہ کی ہے۔
’’ابوبکرصولی کہتاہےکہ وہ شروع شروع میں حضرت رضاکی طرف دعوت دیتا تھا لوگوں نے مخبری کی تو اس کوسزادی گئی۔ وہ جاہل آدمی کواول اپناکچھ شعبدہ دکھلاتاجب اس کو اعتمادہوجاتاتواپنی خدائی کی طرف دعوت دیتاتھا، چنانچہ ابوسہل بن نوبخت کوبھی اس کی دعوت دی تواس نے کہامیرےسرکے اگلے حصہ میں بال اگادےپھراس کی حالت ترقی پاتی گئی یہاں تک کہ نصرحاجب اس کاحامی بن گیاکیونکہ اس سے کہاگیاتھاکہ ابن منصوردراصل سنی ہے رافضی اس کوقتل کرناچاہتے ہیں۔
اس کے خطوط میں یہ بھی تھاکہ میں ہی قوم نوح کوغرق کرنے والاعادوثمودکوہلاک کرنے والاہوں اوراپنے اصحاب میں کسی سےکہتا تھاکہ تونوحؑ ہےکسی سے کہتاتوموسیٰؑ ہے، کسی سے کہتاتومحمدﷺ ہے، انکی روحیں تمہارے اجسام کی طرف واپس کردہ گئی ہیں‘‘۔ (بحوالہ تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۹۲)
جواب:
ابوبکرصولی کے کذاب اور ضعیف راوی ہونے کے ساتھ ساتھ اس روایت میں وہ بالکل منفرد ہے کیونکہ اس روایت کو اس نے سند کے ساتھ بیان نہیں کیا اور نہ ہی خود اپنا سماع ظاہرکیا ہے۔ پھر اس کی باتوں میں کافی تعارض نظرآرہا ہے۔ کبھی کہتاہے کہ حضرت رضا کی طرف دعوت دیتا تھا کبھی کہتا ہے وہ سنی تھا رافضی اس کے قتل کے درپے تھے۔ لہٰذا ایسے کذاب راوی کی بے سند اورمہمل روایات سے ایک ایسے شخص پرالزام لگاناجن کو بڑے بڑے ائمہ و بزرگان دین نے موحد کہا ہو،عقل سے بالاترہے۔
بارہواں الزام: ابن منصورکے دعوائے خدائی پرعلی رابسی کی جھوٹی شہادت
’’ابوبکرصولی کہتاہےکہ سب سے پہلے جس شخص نےحلّاج کوگرفتارکیاابوالحسین علی بن احمدرابسی تھااس نے حلّاج اوراس کے غلام کوربیع الآخر۳۰۱ھ میں بغدادپہنچایااوردواونٹوں پر سوارکرکے مشتہرکیااوران کے ہمراہ ایک کتبہ لگادیاکہ میرےپاس بینہ(شہادت) قائم ہوگئی ہے کہ حلّاج خدائی کا دعویٰ کرتااورحلول کاقائل ہے‘‘۔ (بحوالہ تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۹۱)
جواب:
اس روایت کا راوی بھی ابوبکرصولی ہے جومحدثین کے نزدیک کذاب راوی ہے۔ ابوبکرصولی کے بارے میں ابن سمعانی نے ابن مندہ کے تذکرہ میں لکھا ہےکہ اس نے ابوالقاسم سےسنا، اس نے ابوالحسین بن فارس سے سنا، اس نے ابواحمدبن ابی العشار سے سنا، کہ ابواحمدعسکری صولی پرجھوٹ بولتاہے جیساصولی غلابی پرجھوٹ بولتاتھا، جیساغلابی سب لوگوں پرجھوٹ بولتاتھا۔ (لسان المیزان: ج۷، ص۵۸۴)
ابواحمدبن ابی العشارنےاس پرجوجرح کی ہےوہ بہت سخت جرح ہےکیونکہ کذب سےبڑھ کرمحدثین کےنزدیک کوئی جرح نہیں۔
اس شہادت کاجھوٹاہونااسی سے ظاہرہےکہ اس شہادت کے بعدآٹھ نو سالوں تک علماءوفقہاءابن منصورکے قتل کا فتویٰ نہ دے سکے۔ ۳۰۹ھ میں جب وزیرحامد العباس کی چالبازیوں اورکوششوں سے حج کا مضمون ان کی کتاب میں نکلاتو قاضی نے بعدانکاربسیارمحض وزیرحامد کے اصرارپرمجبوراًقتل کا فتویٰ دیا۔
ابن منصورکے جاہل ہونے کی روایت اور اس کا جائزہ
’’طبری نے روایت کیاہے کہ سب سے پہلے ۳۰۱ھ میں علی بن احمدرابسی نے ابن منصورپرقبضہ کیااورعلی بن عیسیٰ وزیرکے سپردکردیااس نے فقہاءوعلماءکوبلاکرابن منصورسے گفتگوکی تواس کے الفاظ بیہودہ تھےقرآن بھی اچھی طرح نہ پڑھ سکتاتھانہ فقہ وحدیث وتاریخ اورشعرولغت سے کچھ زیادہ واقفیت تھی۔ وزیرنےاس کوذلیل کیااورگدّی پردھول لگائی اورحکم دیاکہ بغدادکی شرقی جانب سولی پربٹھلایاجائے پھرغربی جانب ایساہی کیاجائے تاکہ لوگ دیکھیں (اوراچھی طرح تشہیرہوجائے) پھرمحل شاہی میں قیدکردیاگیاتواس نے (اتباع) سنت سےخدام شاہی میں رسوخ پیداکرلیاوہ اس کی باتوں کوحق سمجھنے لگے۔
ابن الفرات نے بھی اپنی پہلی وزارت میں اس کو گرفتارکیاتھا۔ موسیٰ بن مخلف بھی اس کی تلاش میں تھامگروہ اوراس کاغلام اس کے ہاتھ سےچھوٹ گئےتواسی سال گرفتارہوکروزیرحامدکےسپردکیاگیا، وہ اس کوروزانہ اپنے دربارمیں بلاتاگدّی پردھول لگواتااوراس کی داڑھی نچواتاتھا‘‘۔ (بحوالہ تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۸۹)
جواب:
ابن منصورؒ کے متعلق یہ دعویٰ تو بالکل کھوکھلا اور بے بنیاد ہے کہ ان کو شعر ولغت سے بھی واسطہ نہ تھاکیونکہ ان ہی مورخین نے یعنی خطیب بغدادیؒ اور ابو جعفرمحمد بن جریرطبری نے جو اشعارحسین بن منصورؒ کی طرف منسوب کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں رقم کئے ہیں وہ فصاحت وبلاغت اور حسن بندش اور سلامت ومتانت میں کسی فصیح وبلیغ شاعرکے کلام سے کم نہیں۔ علم حدیث کے متعلق بھی کتاب السنن حسن بصریؒ کاذکران کی کتابوں کے تذکرہ میں موجودہےاور ابن منصورؒ کایہ قول بھی خطیب کی روایت میں موجودہےکہ ’’سنت کے بیان میں میری بہت کتابیں ہیں جو کتب فروشوں کے پاس موجودہیں‘‘۔
دوسری بات یہ کہ وہ مدت تک شیخ عمروبن عثمان مکیؒ، حضرت جنیدؒاورشیخ ابوالحسن نوری کی صحبت میں رہے ہیں جو علوم شریعت وطریقت میں امام اور حدیث وفقہ سے پورے واقف تھے۔ ظاہرہے کہ ان حضرات کی صحبت میں رہناکسی جاہل کا کام نہیں اور اگرجاہل بھی ہوئے تو ان بزرگوں کی صحبت میں مدت تک رہنے کے بعدوہ جاہل نہیں رہ سکتےتھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا شعبہ درس حدیث وفقہ نہیں تھابلکہ تصوف تھااس لئے ان سے کوئی روایت نہیں ملتی۔
تیرہواں الزام: دعوائے مہدویت
’’عریب بن سعدقرطبی لکھتے ہیں کہاجاتا ہے کہ حامدنے رابسی کے گھروں میں حلّاج کو گرفتار کیاتھا، کبھی تووہ اصلاح (وبزرگی) کادعویٰ کرتاتھاکبھی مہدی ہونے کا۔ حامدنے اس سے کہاکہ تواس کے بعدخداکیسے بن گیا؟ حلّاج کے اصحاب میں سمری بھی تھاجس کوحامدنے گرفتارکیااوراس سے پوچھاکہ تجھے حلّاج کی تصدیق پرکس بات نے آمادہ کیا، کہامیں اس کے ساتھ سردی کے موسم میں اصطخرگیاتھامیں نے اس کوبتلایاکہ مجھے ککڑی کابہت شوق ہے تواس نے پہاڑکے کنارے پرہاتھ مارااوربرف میں سے سبزککڑی برآمدکرکے میرےحوالے کی حامدنے کہاپھرتونے اسے کھایابھی تھا؟ کہاہاں۔ حامدنے کہااوہزاراورلاکھ زانی عورتوں کےبیٹے (حرام زادے) توجھوٹاہےاس کے بعد جبڑوں پرگھونسہ مارنے کاحکم دیا، غلاموں نے مارنا شروع کیاوہ چلّاتاتھاکہ ہم کواسی بات کااندیشہ تھا (کہ لوگ ہماری باتوں کوجھٹلائیں گے) حامد نے کہا، ہم نے بازیگروں کے شعبدے دیکھے ہیں وہ میوے بناکردکھلاتےتھے مگرجب کسی دوسرے آدمی کے ہاتھ میں وہ پہنچتےاونٹ کی مینگنیاں بن جاتےتھے۔ حامدنے محمودبن علی قنائی کوبھی گرفتارکیااوراس کے گھرسے ایک ڈبہ مہرلگاہوادستیاد کیاجس میں حلّاج کاپیشاب پاخانہ بوتلوں میں بندکیاگیاتھاجس سے وہ(امراض میں) شفاحاصل کرتاتھامگرحلّاج جب حامد کے سامنے آتایہی کہتاتھا۔
"سبحانك لا إله إِلا أنت عملت سوءا، وظلمت نفسي فاغفر لِي إِنَّهُ لا يغفر الذنوب إِلا أنت"۔ "اے اﷲآپ کے سواکوئی معبودنہیں، میں گنہگارہوں، اپنی جان پرمیں نے ظلم کیاہے، مجھے بخش دیجئےکہ آپ کے سواان گناہوں کوکوئی نہیں بخش سکتا"‘‘۔ (بحوالہ تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۸۵)
جواب:
اس روایت کے شروع میں جو دعوٰےمہدیت وغیرہ کی نسبت ابن منصورؒ کی طرف کی گئی ہے وہ محض حکایت کے طورپرہے سندکے ساتھ نہیں اس لئے توجہ کے لائق نہیں ہے۔ تمام روایات اورواقعات کے مطالعہ سے ایک ہی حقیقیت واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ بعض بے وقوف، جاہل اور نادان مریدوں نے کرامات دیکھ کران کوخدائی کا رتبہ دےدیا تھااوران سے منسوب ہرشئے کوتبرک کے طورپراستعمال کرنے لگے تھے۔ حالانکہ ابن منصورؒخودان سے بیزارتھے اوران کو جھوٹابتاتے اوراپنے عبدیت اورشرائع اسلام کا اقرارواظہار کرتے۔
اس روایت میں بھی حسین بن منصورؒ سے اقرار توحیدواستغفارموجودہے ۔ پس حقیقت میں مستحق قتل یہ لوگ تھے جو باوجودابن منصورؒ کے اقرارعبدیت کے ان کوخداکہتےہوئے کفروشرک میں مبتلاتھے۔ ابن منصورؒ کی ان سے بیزاری کی دلیل تاریخ بغدادصفحہ نمبر۶۹۷کی ایک روایت میں موجودہے۔
’’ابوالحسن محمدبن عمرقاضی فرماتے ہیں کہ ایک میرےماموں مجھے حسین بن منصورحلّاج کےپاس لےگئےجبکہ وہ بصرہ کی جامع مسجدمیں ریاضت وعبادت میں مشغول تھے۔ میں اس وقت بچہ تھااس لئے خاموش بیٹھ گیا۔ میرے ماموں نے ان سے باتیں کیں۔ ابن منصورنے کہاکہ میں نے اب ارادہ کرلیا ہےکہ بصرہ سے چلاجاؤں۔ ماموں نے کہا، کیوں؟ فرمایابصرہ والوں نے مجھے افسانہ بنادیاہےجس سے میرادل تنگ ہے۔ اب میں چاہتاہوں کہ ان سے دورکسی جگہ جاکررہوں۔ میرےماموں نے کہا، ایسی کیابات ہے؟ فرمایایہاں کے آدمیوں کی عادت یہ ہےکہ اپنے گمان میں بہت سےافعال واحوال میری طرف منسوب کرتے ہیں اوراعتقادکرلیتےہیں کہ میں نے فلاں فلاں کام کئے ہیں۔ نہ مجھ سے دریافت کرتے ہیں نہ واقعہ کی تحقیق کرتے ہیں اورخواہ مخواہ مشہورکردیتے ہیں کہ حلّاج مستجاب الدعوات اورصاحب کرامت ہے، حالانکہ میں کیاچیز ہوں جویہ درجہ مجھے حاصل ہو۔
ابھی کا تازہ واقعہ ہے کہ ایک شخص نے کچھ دراہم فقراءمیں تقسیم کرنے کومیرےپاس بھیجےتھے اس روزکوئی فقیرمیرےپاس نہ آیاتومیں نے ان دراہم کومسجدکے بوریہ کے نیچے ڈال دیا، اگلے دن مسجدمیں آیاتوچندفقراءمیرےپاس آگئے۔ میں نے نمازتوڑکربوریہ اٹھایااوراس کےنیچے سے دراہم نکال کرفقراءکودیدیئے۔ اب ان لوگوں نے مشہورکرناشروع کردیا کہ حلّاج مٹی پرہاتھ مارتاہےتودرہم بن جاتی ہے۔ اس کے بعدابن منصورنےاسی قسم کےاوربہت سےواقعات سنائے۔ میرے ماموں یہ سن کرکھڑے ہوگئےاوررخصتی ملاقات کرکے چلے آئے پھرکبھی ان کے پاس نہیں گئےاورفرمایااس شخص کاحال مشتبہ ہےاورعنقریب اس کی خاص شان ظاہرہوگی، چنانچہ زیادہ دن نہ گزرنےپائےکہ وہ بصرہ سے چلے گئے اوران کی حالت مشہورہوگئی‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۷)
تاریخ بغداد کی اس روایت سے اس بات کی واضح دلیل ملتی ہے کہ بصرہ کے لوگوں نے ا بن منصور ؒسے صادر ہونے والی کرامات کو دیکھ کرانہیں مشہور کردیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ابن منصورؒ اپنے معتقدوں سے خودعاجزاورپریشان تھے۔ جیساکہ ابن منصورؒ نے خود بیان کیا کہ’’یہاں کے آدمیوں کی عادت یہ ہےکہ اپنے گمان میں بہت سے افعال واحوال میری طرف منسوب کرتے ہیں‘‘۔
ابن منصورحلّاجؒ کا اقرار عبدیت اور دعوائے خدائی کے الزام سے براءت
’’بیان کیا جاتاہے کہ مقتدرباﷲنےحلّاج کے پاس اپنے خادم کوایک مردہ پرندہ دےکربھیجاکہ یہ طوطامیرےلڑکے کے ابوالعباس کاتھاجس سےاسے بہت محبت تھی۔ اب یہ مرگیاہے، اگرتیرادعویٰ صحیح ہے تواس کوزندہ کردے، یہ سن کرحلّاج گھرکے ایک گوشہ میں گیااورپیشاب کرنےلگا، اورکہاجس شخص کی یہ حالت ہو(کہ ہگتاموتتاہو) وہ مردہ کوزندہ نہیں کرسکتا۔ توخلیفہ کے پاس واپس جااورجوکچھ دیکھاسناہے اس سے بیان کردے۔ پھرکہا، ہاں یہ ضرورہے کہ میرے لئے ایک ایسابھی ہےجس کومیں ادنیٰ اشارہ کردوں تووہ پرندہ کواصلی حالت میں لوٹادےگا۔
خادم مقتدرکے پاس واپس گیااورجوکچھ دیکھاسنابیان کردیا۔ اس نے کہاتوپھرحلّاج کےپاس جااوراس سےکہہ کہ مقصودتواس پرندہ کازندہ ہوجاناہےتوجس کوچاہے اشارہ کردے۔ اس پرحلّاج نے کہاکہ پرندہ کومیرےحوالے کر۔ خادم نے مردہ پرندہ اس کے ہاتھ میں دیا، حلّاج نے اسے اپنے گھٹنے پررکھ کرآستین سے چھپالیاپھرکچھ پڑھااورآستین اٹھائی توپرندہ زندہ ہوچکا تھا۔ خادم اس کو(زندہ حالت میں) مقتدرکے پاس لایااورجوکچھ دیکھا تھاکہہ سنایا۔ مقتدرنے حامدبن عباس کے پاس آدمی بھیجاکہ حلّاج نے آج ایسا ایسا کیاہے، حامد نے کہاامیرالمومنین اس کوقتل ہی کردینا ٹھیک ہے، ورنہ لوگ اس کی وجہ سےفتنہ میں پڑجائیں گے۔ مگرمقتدرنے اس کے قتل میں توقف کیا‘‘۔ (بحوالہ تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۸۲-۸۳)
تاریخ طبری کی اس روایت سےبھی  اس بات کی واضح دلیل ملتی ہے کہ ابن منصورؒ پر لگایا گیادعوائے خدائی کا الزام بالکل جھوٹااور بے بنیاد تھا کیونکہ اس واقعہ میں ابن منصورؒ نے اپنی عبدیت اور عجزکاصاف اقرار کیاہے کہ بندۂ عاجز ہو ہگنے موتنے میں ملوث ہو وہ بھلا کسی کو کیسے زندہ کرسکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میرے لئے ایک ایسا بھی ہے(یعنی اﷲتعالیٰ) جسکو ادنیٰ اشارہ کروں تو وہ پرندہ کو اصلی حالت میں لوٹادے گا۔ اولیاء اﷲ کے ہاتھوں سے جو خوارق ظاہر ہوتے ہیں وہ حکم الٓہی سے ظاہر ہوتے ہیں۔
ابن منصورحلّاجؒ سےصادرہونے والےخوارق شعبدہ تھے یاکرامات؟
خطیب بغدادیؒ نے تاریخ بغدادصفحہ نمبر۷۰۰ سے ۷۰۲ تک دو طویل حکایات بیان کی ہیں جن میں ابن منصورؒکے حیل وشعبدہ وغیرہ کے متعلق بیان کیاہے۔  پہلی روایت کی سند میں احمدبن یوسف الارزق کہتاہے کہ مجھ سے میرےچندمعتبرساتھیوں نے بیان کیا (جوکہ مجہول ہیں)۔ کاش وہ ان معتبرساتھیوں میں سے کسی ایک کانام ذکرکردیتےتاکہ انکا موازنہ ابن عطاءؒ، ابوالقاسمؒ، ابوخفیفؒ اورشبلیؒ جیسےجلیل القدربزرگان دین وثقہ محدثین کےساتھکیاجاسکتا۔ اسی طرح دوسری روایت میں جسکامنتہائے سند’’فلان المنجم‘‘ ہے۔ اس راوی کا منجم ہوناخوداس کے مجروح ہونے کےلئے کافی ہےجبکہ اس کا نام بھی مجہول ہے۔
خطیب بغدادیؒ نے ابن باکویہ شیرازی کے واسطہ سے جودرج ذیل راویت بیان کی ہے اس سے خودخطیب بغدادیؒ کی اُن روایات کا رد ہوتا ہے جن کو خطیبؒ نے ابن منصورؒکے حیل وشعبدہ وغیرہ کے متعلق بیان کیاہے۔
اگرحسین بن منصورؒ حیلہ و شعبدہ بازہوتے تو اپنے بارے میں ایسا کیوں کہتے کہ ’’تم اس کو نہ(میری) کرامت سمجھو نہ شعبدہ‘‘۔
’’خطیب بغدادیؒ ابن باکویہ کے واسطہ سے بیان کرتےہیں، وہ ابوعبداﷲبن مفلح سے، وہ طاہربن احمدسےروایت کرتے ہیں کہ مجھے حلّاج کے معاملہ میں بہت تعجب تھااس لئے ہمیشہ حیلہ گروں کی تلاش وطلب میں رہااورشعبدہ گری سیکھتارہاتاکہ ابن منصورکی اصل حالت سے واقف ہوجاؤں۔ اسی عرصہ میں ایک دن ان کے پاس گیااورسلام کرکے بیٹھ گیاتوفرمایااے طاہر! تم اس مشقّت میں نہ پڑوکیونکہ جوکچھ تم(اس قسم کی باتیں) دیکھتے اورسنتے ہووہ دوسرے شخصوں کاکام ہے میرکام نہیں، تم اس کونہ (میری) کرامت سمجھونہ شعبدہ، طاہرکہتاہےکہ پھرمیرےنزدیک یہ بات پایٔہ ثبوت کوپہنچ گئی کہ جیساانہوں نے کہاتھامعاملہ اس کے موافق تھا‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۰۴)
تحقیق سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ابن منصورؒنہ اپنے آپ کو خداکہتے تھے نہ ہی انہوں نے نبوت یا خدائی کا دعویٰ کیا تھابلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کےبعض بے وقوف، جاہل اور نادان مریدان کی کرامات دیکھ کران کوخداکہنے لگےاوران کی کرامات کو افسانہ بناکرمشہورکردیامگرابن منصورؒ نے انہیں ہمیشہ جھوٹا کہااوران کی باتوں سے بیزاری ظاہرکرتے رہے۔ وہ  بارباراقرار کرتے کہ میں خدائی کامدعی نہیں ہوں نہ نبوت کامیں تو معمولی انسان ہوں، روزہ نمازاوراعمال خیربکثرت کرتا ہوں، اسکے سواکچھ نہیں جانتا۔ وزیر حامدالعباس نے بہت سے طریقوں اور کوششوں کے ذریعہ حسین بن منصورؒکو ۸سال سات مہینے آٹھ دن قیدمیں رکھنے کے بعدان کے ایک مریدکوسرکاری گواہ بنالیامگروہ اس کوشش میں تھاکہ ابن منصورؒ کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جائے جس پرگرفت کرکے علماءسے قتل کافتویٰ حاصل کرلے، چنانچہ حج کا مضمون ان کی کتاب میں نکل آیاجس پرقاضی کی زبان سے ابن منصورؒکے لئے ’’یاحلال الدم‘‘نکل گیااوروزیرحامد نے قاضی کے اس جملہ کو پکڑلیااورمجبورکرکےقتل پر فتویٰ حاصل کرلیا پھرخلیفہ نے بھی علماءکے فتوے پرقتل کی اجازت دے دی۔
چودھواں الزام: دوبارہ زندہ ہوجانے کادعویٰ
’’عریب بن سعدنے خطیب کے واسطے سے ابوعمروبن حیویہ سے روایت کیاہے کہ جب حلّاج کوقتل کے لئے باہرلایاگیاتومیں بھی لوگوں کے ساتھ وہاں پہنچا، لوگوں کے ساتھ ہجوم میں گھستاہواچلاگیا، یہاں تک کہ میں نے اس کو دیکھاکہ اپنے اصحاب سےکہہ رہاہے: تم کومیری اس حالت سےگھبرانانہ چاہیئےکیونکہ میں تیس دن کے بعدتمہارےپاس واپس آجاؤنگا‘‘۔ (بحوالہ تاریخ الطبری، الأبی جعفرمحمدبن جریزالطبری:ج۱۱، ص۹۳)
خطیب بغدادیؒ نے ابن منصورؒ کی جرح و طعن میں جتنی بھی روایات اپنی کتاب میں رقم کی ہیں کسی ایک کی سند کی تصحیح نہیں کی سوائے اس روایت کے، اوراس روایت کی بنا پرکسی ولی اﷲکو تو دور کی بات کسی عام مسلمان کو بھی کافروزندیق قرارنہیں دیا جاسکتا۔ لہٰذا جو لوگ ضعیف روایات کی بنیادپرحسین منصورؒ کو کافروزندیق قرار دیتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ انصاف کے ساتھ ان تمام روایات کو بھی قبول کریں جن سے حسین منصورؒ کا توحیدپرست، عبادت گزار، صاحبِ کرامت اور ولی اﷲہونا ثابت ہوتا ہے۔ ساتھ میں وزیرحامدالعباس کے مظالم، قاضی ابوعمرسے زبردستی فتویٰ لینااور ابن منصورؒکے ظالمانہ طریقہ قتل پربھی نظرثانی فرمائیں۔
اب اس صحیح سند سے جوکچھ ثابت ہوتا ہے اس پربھی توجہ کرنا چاہیئے۔ اس واقعہ کے ظاہری الفاظ اورظاہری مفہوم کا حاصل اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ابن منصورؒ نے اپنے اصحاب کو تسلی دی تھی تو ایسے موقع پردوستوں کوتسلی دینا جرم نہیں اور جس عنوان سے تسلی دی گئی ہے اس کو بھی کوئی عالم کفریازندقہ نہیں کہہ سکتاکیونکہ شہداءکی حیات برزخیہ مسلّم ہے۔ اور اس بات پربھی کوئی شک نہیں کہ ابن منصورؒاپنے آپ کو مظلوم اور(وزیرحامد) قاتلوں کو ظالم جانتے تھے۔ تو ان کو اپنی شہادت کایقین ہوناکچھ مستبعدنہیں اوراس یقین کے لئے حیات برزخیہ کا اعتقادلازم ہے توپھراسکوبیہودہ دعویٰ کس دلیل سے کہہ دیاگیا؟ جبکہ ان پرلگائے گئے الزامات بھی صحیح ثابت نہ ہوسکے اور ابن عطاءؒ، خفیف شیرازیؒ، ابوالقاسم نصرآبادیؒ اورامام شبلیؒ جیسے شیخ طریقت نے ان کی تائیدکررکھی ہو۔ لہٰذا ان کے اس کلام کی تاویل بھی شریعت کےعین مطابق ہونی چاہیئےجو ہم نے بیان کی۔
ابن منصورؒ کےقتل کی دستاویزپرخلیفہ(مقتدرباﷲ) کےدستخط حاصل کرنے کا واقعہ
’’خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں کہ: پھروزیرنےعلماءاورقاضیوں کوجمع کیااورابن منصورکے محضرقتل پرسب کے دستخط کرائےپھروہ محضرزبخی کےحوالہ کیاگیاکہ اس کوخلیفہ مقتدرباﷲتک پہنچاکرمجلس علماءکاساراحال اس کےگوش گزارکرےاورخلیفہ کی طرف سے اس کاجواب جلدحاصل کرکے اطلاع دے۔ زبخی نے خلیفہ کے نام دورقعے تحریرکئےاورفتویٰ علماء کوان کے اندررکھ کربھیج دیا۔ وہاں سے دودن تک کچھ جواب نہ آیاتووزیرحامدسخت پریشان ہوااوراپنی اس حرکت پرنادم بھی ہواکہ ایسانہ ہوخلیفہ کے نزدیک میری یہ کاروائی بےموقع سمجھی گئی ہومگرجوکھیل وہ بناچکا تھااس کوانتہاتک پہنچانے سےبھی چارہ نہ تھا (ورنہ بدنام ہوجاتاکہ وزیرہوکرایسی لچڑکاروائی کرتاہےجسکی خلیفہ کے یہاں شنوائی تک نہیں ہوتی) اس نے تیسرے دن زبخی کے قلم سے پھرایک خط خلیفہ کولکھوایاجس میں پہلے خط کے جواب کا تقاضاتھااوریہ بھی تحریرکیاگیاتھاکہ مجلس علماء میں جوکچھ طے پایاہے اس کی خبرعام طورسے پھیل چکی اورشائع ہوچکی ہے، اگراس کے بعدحلّاج کوقتل نہ کیاگیاتولوگ اس کے فتنہ میں مبتلاہوجائیں گےاوردوآدمی بھی اس کے متعلق اختلاف کرنیوالے باقی نہ رہیں گے۔
یہ خط مفلح کے ذریعہ بھیجاگیااوراس پرتقاضاکیاگیاکہ جلدخلیفہ کوپہنچاکراس کاجواب لائے۔ چنانچہ اگلے دن مفلح کے ذریعہ جواب صادرہواکہ جب قاضیوں نے اس کے قتل کافتویٰ دیدیا اورمباح الدم کہہ دیاہےتواس کو محمد بن عبدالصمدکوتوال کے حوالہ کردیاجائے۔
کوتوال اس کو اپنی نگرانی میں لے کرہزارتازیانہ لگائے اگراسی سے ہلاک ہوجائے بہترورنہ گردن ماردیجائے۔ وزیرحامد اس جواب سے بہت خوش ہوااوراس کااضطراب بھی جاتارہا۔
اب اس نے محمدبن عبدالصمدکوتوال کوبلاکرخلیفہ کا فرمان پڑھ کرسنایا اس نے اس حکم کی تعمیل سے انکارکیااورکہامجھے اندیشہ ہے کہ حلّاج کومجھ سےچھین لیاجائےگا (یعنی حلّاج کے اصحاب اورمعتقدین زبردستی حلّاج کو مجھ سے چھین لیں گے اورعام مسلمان بھی ان کاساتھ دینگےکیونکہ محضرقتل تیارہونے پرعوام بگڑگئے تھےاوروزیرکواپنی جان کاخطرہ ہوگیاتھا)۔
حامدنے کہامیں اپنے غلاموں کو تیرے ساتھ کردونگاوہ حلّاج کوکوتوالی کے جیل خانہ تک غربی جانب پہنچادیں گے۔ پھرسب اتفاق سے یہ طےپایاکہ عشاءکے بعدکوتوال حاضرہو، اپنی جماعت کوبھی ساتھ لائےجن میں کچھ آدمی سائیسوں کی طرح خچروں پرسوارہوں ان ہی میں ایک خچرپرحلّاج کوسوارکردیاجائےتاکہ غلاموں کے جمگھٹے میں اسے کوئی پہچان نہ سکےپھراس کو حکم دیاکہ حلّاج کے ایک ہزارتازیانہ لگائے، اگراسی سے ہلاک ہوجائےتوسرکاٹ کرمحفوظ رکھےاورلاش کوجلادے۔ حامدنے اس سےیہ بھی کہاکہ اگروہ تیرے سامنے دریائے فرات میں سوناچاندی بہتاہوابھی دکھادےجب بھی مارسےہاتھ نہ روکنا، چنانچہ اس قرارداد  کے موافق عشاءکےبعدمحمدبن عبدالصمداپنے آدمیوں اورخچروں کولے کرپہنچا، حامدنے اپنے غلاموں کواس کے ہمراہ سوارہونےکاحکم دیاتاکہ کوتوالی کے میدان تک حلّاج کوپہنچادیں۔
حلّاج کی نگرانی پرجوغلام مقررتھااسے حکم دیاکہ اس کوقیدخانہ سے باہرنکال لائےاورکوتوال کے سپردکردے۔ اس غلام کابیان ہے کہ جب میں نے دروازہ کھولااوراس کوباہرآنے کے لئے کہاتوچونکہ یہ وقت دروازہ کھولنے کا نہ تھاحلّاج نے پوچھاوزیرکے پاس کون ہے؟ میں نے کہامحمدبن عبدالصمدہےتواس کی زبان سے نکلا"ذھبناوﷲ"بخدااب ہم ہلاک ہوئے‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۷-۷۱۹)
اسے کہتے ہیں عذرگناہ بدترازگناہ۔ کوئی اس سے پوچھے کہ مجلس علماءمیں عوام کوشریک کرنے کے لئے تم سے کس نے کہا تھاجوان کافتویٰ خلیفہ کی منظوری سے پہلے ہی شائع اورمشہورہوگیاجس کے بعدخلیفہ کی منظوری کاوہی درجہ رہ جاتاہے جوپارلیمنٹ کی کاروائی کےبعدصدرمملکت کے دستخط کادرجہ رہ جاتاہے۔ اس سے ناظرین نے اندازہ کرلیاہوگاکہ وزیرنے علماءاورقضاءکوتومحضرقتل تیارکرنے پرمجبورکیا ہی تھاخلیفہ وقت کے سامنے بھی حالات کی ایسی منظرکشی کی کہ خلیفہ کےآگے دستخط منظوری کے سواکچھ چارہ ہی نہ رہا۔
سبحان اﷲ! کیسی کیسی مکاریوں اورچال بازیوں کے بعدقتل ابن منصورکامنصوبہ پوراہوا، کیاحدودشرعی کااجراءاسی طرح ہواکرتاہے؟
شہادت ابن منصورؒکےسانحہ کاواقعہ
’’خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: پھراس کو باہرلایاگیااورسائیسوں کی جماعت کےساتھ ایک خچرپرسوار کرکے حامدکےغلاموں اورکوتوال کےسپاہیوں کی حراست میں پُل تک پہنچادیاگیا، حامدکے غلام تووہاں سے واپس آگئے، محمد بن عبدالصمداوراس کے سپاہی صبح تک حلّاج کے گردکوتوالی کے میدان میں حلقہ ڈالے بیٹھے رہے۔ جب منگل کے دن ۴ذیقعدہ  ۳۰۹ھ کی صبح نمودارہوئی حلّاج کوجیلخانہ کےمیدان میں لایاگیاتووہ "حسب الواجد أفراد الواحد لَهُ"،  "پانے والے کیلئے یہی بس ہے کہ تنہاخدااس کا ہے(اورکوئی یارومددگارنہیں) "کہتے ہوئےبیڑیاں پہنے ہوئے تبخرانہ (مستانہ) چال سے باہرآئےاوریہ اشعارپڑھے:
نديمي غير منسوب إِلَى شيء من الحيف
سقاني مثل ما يشرب فعل الضيف بالضيف
فلما دارت الكأس دعا بالنطع والسيف
كذا من يشرب الراح مع التنين فِي الصيف
پھرسورۃ الشورٰی کی آیت نمبر۱۸ {يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ}کی تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہے کہ: "جولوگ قیامت پرایمان نہیں رکھتے وہ قیامت کو جلدی بلانا چاہتے ہیں اور جو اس پرایمان رکھتے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ یقینی(آنے والی) ہے" ‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۰-۷۱۱)
کیا یہ الفاظ کسی کافرو زندیق شخص کے ہوسکتے ہیں جوخدائی کادعوے دار ہو؟ ہرگزنہیں۔ ابن منصورؒ نے ’’حسب الواجد أفراد الواحد لَهُ‘‘ کہہ کراورسورۃ الشورٰی کی آیت پڑھ کران لوگوں کو خبردار کرنے کی کوشش کی جو لوگ ان کے ظالمانہ قتل میں پیش پیش تھے۔ غالباًاس آیت کی تلاوت کا مطلب یہ تھاکہ کثرت مظالم علامات قیامت میں سے ہےتوجولوگ ایسےمظالم پردلیری کررہے ہوتے ہیں وہ گویاقیامت کوجلدی بلاناچاہتےہیں۔
کیا شریعت مجرم کے ساتھ اس طرح کے وحشیانہ وظالمانہ سلوک کی اجازت دیتی ہے جس طرح کا سلوک ابن منصورکے ساتھ کیاگیا؟
’’سُلمِی مذکورعبدالواحدبن علی سے وہ فارس بغدادی سے روایت کرتےہیں کہ جس دن ابن منصورکوقتل کیاگیاہے، قتل سے پہلے ان کے ایک ایک عضوکوکاٹاگیا، مگران کارنگ بھی متغیرنہ ہوا‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۰)
’’سُلمِی ابوعبداﷲرازی سے وہ ابوبکرعطوفی سے روایت کرتےہیں کہ میں ابن منصورکے پاس سب سےزیادہ قربت تھا۔ ان کےاتنے اتنے کوڑے لگائےگئے(یعنی ایک ہزارتازیانہ جیساکہ دوسری روایات میں ہے) اوردونوں ہاتھ اوردونوں پاؤں کاٹے گئےمگران کی زبان سے کچھ بھی نہیں نکلا (یعنی اُف تک نہیں کی)‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۰)
’’خطیب بغدادیؒ ابن الفتح سے، وہ محمد بن حسین سے، انہوں نے سناحسین بن احمدالرازی سے، وہ ابوالعباس بن عبدالعزیزکےحوالہ سے روایت کیا ہےکہ وہ کہتےہیں کہ میں ابن منصورحلّاج کے بہت قریب تھا، جب ان کے کوڑے لگائےگئےتوہرکوڑے پراحداحداحدکہتے تھے‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۰)
’’خطیب بغدادیؒ ابن الفتح سے، وہ محمد بن حسین سے، انہوں نےعبداﷲبن علی کوکہتے سنا، وہ عیسیٰ القصارکےحوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ اخیرکلمہ جوابن منصورکی زبان سے قتل اورسولی کے وقت نکلاہےوہ یہ تھا"حسب الواجد أفراد الواحد لَهُ"، "پانے والے کیلئے یہی بس ہے کہ تنہاخدااس کا ہے (اورکوئی یارومددگارنہیں)"۔ اس جملے کومشائخ میں جس نے بھی سنااس پر رقّت طاری ہوگئی‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۱)
حسین بن منصورحلّاجؒ پراﷲکی محبت کا قوی حال غالب تھا کہ ایک ہزارکوڑےکھانےاور ہاتھ پیرکاٹے جانےکے بعد بھی انہوں نے اُف تک نہ کی، صرف احد احد ہی کہتے رہے۔ اس حال کے سامنے ہزاروں کرامات بھی بے حقیقت ہیں۔ اور سب سے آخری کلمہ جو زبان سے نکلاوہ تو سراسرتوحیدمیں ڈوباہواتھا، وہ یہ تھا’’حسب الواجد أفراد الواحد لَهُ‘‘، ’’پانے والےکے لئے یہی بس ہے کہ تنہاخدااس کا ہے (اورکوئی یارومددگارنہیں)۔ اس جملے کومشائخ میں جس نے بھی سنااس پر رقّت طاری ہوگئی۔
اگربالفرض ابن منصورؒ کی زبان سے کسی وقت ایسا کلمہ نکل بھی گیاہو جسکی بناءپرعلماءکوتکفیرکا فتویٰ دینا پڑاہوتو بھی ابن منصورؒ کی آخری حالت ان کے سچے موحدہونے کو اچھی طرح ظاہرکررہی ہےپس ان عبارات میں تاویل ضروری تھی جن سے علماءکو شبہ ہواتھا۔
سولی پرچڑھانے کے وقت کمالِ استقامت
’’خطیب بغدادیؒ نے ابوعبدالرحمٰن سُلمِی کےواسطہ سےابواسحٰق ابراہیم بن محمد قلانسی رازی سےروایت کیاہےکہ وہ کہتے ہیں کہ جب حسین بن منصورکوسولی دی گئی میں ان کے پاس کھڑاتھا۔ انہوں نے کہا: "إلهي أصبحت فِي دار الرغائب أنظر إِلَى العجائب إلهي إنك تتودد إِلَى من يؤذيك، فكيف لا تتودد إِلَى من يؤذى فيك"۔ "میرے معبود، میرے معبود، میں نے صبح کی مرغوبات کے گھرمیں اور عجائبات کو دیکھ رہاہوں۔ میرے معبود! آپ تو اس شخص سے بھی دوستی کا برتاؤ کرتےہیں جو آپ کو ایذا دیتاہے، تو آپ اس شخص سے دوستی کا برتاؤ کیوں نہ کریں گےجسکوآپ کی راہ میں ایذادی جاتی ہے"‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۰)
کیا یہ کلام کسی ساحروزندیق کا ہوسکتاہے؟ ہرگزنہیں۔ ایسا کلام صرف اور صرف ایک ولی کامل کا ہی ہوسکتاہےجو اپنے خالق حقیقی سے اپنی آخری سانس تک دوستی کے برتاؤ کی امید کا اظہار کررہاہے۔
حسین بن منصورؒ توحیدکےنشے سے سرشارہوکرمحبت وعشق الٓہی کا ایسا درد انگیزاظہارکرگئے کہ مشائخ وقت بھی نعٔرہ’’حسب الواجد أفراد الواحد لَهُ‘‘کو سنکررقت پذیرہوگئے۔ ابن منصورؒ کا واقعۂ قتل اور سانحۂ ان کےولی اﷲ، عاشق فافی محب سبحانی،صاحب استقلالِ لاثانی ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے۔
کسی ولی اﷲکی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ شدیدتکالیف ومصائب میں بھی محبت الٰہی پرقائم رہےاور اس میں ذرابرابرکمی نہ آئے۔ حسین بن منصورؒ کو اﷲتعالیٰ نے اس دولت سے بھرپورحصہ عطا فرمایاتھا، یہی وجہ تھی کہ سولی پرچڑھایاجارہا تھا اور ان کی زبان سےمحبت وعشق الٰہی کے شرارے نکل رہے تھے۔
ایسی سخت سزائیں اور سنگین مصیبت کو اس درجہ ضبرواستقلال اور خندہ پیشانی سے برداشت کرنا کسی عام انسان یاکسی ساحروزندیق سےنہیں بلکہ ایسا صبرو استقامت کسی ولی اﷲسے ہی ممکن ہے۔
’’اس کے بعدزبان سے کچھ نہ نکلایہاں تک کہ ہواجوکچھ ہوا۔ یعنی جلادکوتازیانہ لگانےکاحکم دیاگیااوراس وقت عوام کااس قدرمجمع تھاکہ ان کی شمارنہیں ہوسکتی تھی۔ پورےایک ہزارتازیانے لگائےگئےمگراس (اﷲکےبندہ) نے نہ معافی طلب کی نہ آہ کی (بس ہرتازیانہ پراحد احدہی کہتےرہے) جب چھ سوتازیانہ لگ چکے تومحمد بن عبدالصمدسے کہاکہ مجھے اپنے پاس بلاکرمیری ایک نصیحت سن لےجو(تیرےفائدےکی ہے) فتح قسطنطنیہ کی برابرہے، محمدبن عبدالصمدنےجواب دیاکہ مجھے پہلے ہی بتلادیاگیاہے کہ تم ایسی اوراس سےبھی بڑھ کرباتیں کروگےمگرمیں مارکوموقوف نہیں کرسکتا۔ جب ہزارتازیانے لگ چکے توان کاایک ہاتھ کاٹاگیاپھرایک پاؤں پھردوسراہاتھ کاٹاگیاپھردوسراپاؤںمگراُف تک نہ کی غرض ہاتھ پاؤں کاٹنے کے بعدان کاسرتن سےجداکردیاگیااورلاش کوجلادیاگیا، جب راکھ بن گئی دجلہ میں بہادی گئی، سرکودودن تک بغدادکے پُل پرنصب کیاگیاپھرخراساں بھیج دیاگیااوراطراف واکناف میں گھمایاگیا‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۱۹-۷۲۰)
اگرچند لمحوں کے لئے یہ سچ مان لیا جائے کہ ابن منصورؒ کافروزیدیق تھے توبھی اسلامی شریعت کے مطابق انہیں اس طرح کی اذیت ناک سزائیں دینے کا جواز نہیں بنتاتھا۔کیونکہ ایک کافروزندیق شخص کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ پرظلم کرتاہے۔ یعنی وہ الله سے بغاوت کرتا ہے اور دین اسلام سے نکل جاتا ہے ۔ اس لیے رسول الله ﷺکا حکم ہےکے کسی بھی شخص کو آگ میں نہ جلایا جائے سزا کے طور پر۔ اس لئے کہ آگ میں جلانے کا حق صرف اﷲتعالیٰ کے پاس ہے۔ اسی لئے کسی بھی زندیق کو آگ میں جلانے کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ ابن منصورؒ کو جو سزائیں دی گئیں کیا وہ شریعت کے پابندلوگوں کا کام تھا؟ ہرگزنہیں۔
’’حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْثٍ فَقَالَ ‏"إِنْ وَجَدْتُمْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا فَأَحْرِقُوهُمَا بِالنَّارِ‏"‏ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ أَرَدْنَا الْخُرُوجَ ‏"‏إِنِّي أَمَرْتُكُمْ أَنْ تُحْرِقُوا فُلاَنًا وَفُلاَنًا، وَإِنَّ النَّارَ لاَ يُعَذِّبُ بِهَا إِلاَّ اللَّهُ، فَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمَا فَاقْتُلُوهُمَا‏“۔ ’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مہم پر روانہ فرمایا اور یہ ہدایت  فرمائی کہ اگر تمہیں فلاں اور فلاں(دو قریشی ہبابن اسود اور نافع بن عبد عمر )مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا ‘ پھر جب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں اور فلاں کو جلا دینا۔ لیکن آگ ایک ایسی چیز ہے جس کی سزا صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔ اس لئے اگر وہ تمہیں ملیں تو انہیں قتل کرنا (آگ میں نہ جلانا)‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۴،  كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ، باب اللہ کے عذاب [آگ] سے کسی کو عذاب نہ کرنا، رقم الحدیث ۳۰۱۶)
ابن منصورکےبعض معتقدوں کاآپ سے ملاقات کادعویٰ
’’خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں کہ: ان کے اصحاب اپنے دلوں کویہ تسلی دیتے رہے کہ چالیس ۴۰ دن کے بعد(زندہ) واپس آئیں گے۔ اتفاق سے اس سال دجلہ کاپانی معمول سے زیادہ بڑھ گیاتوان کے مریدوں نے کہایہ ابن منصور (کی کرامت) کی وجہ سےہواہےکیونکہ ان کی راکھ پانی میں ڈالی گئی تھی۔ اوربعض معتقدوں نے دعویٰ کیاکہ انہوں نے اس دن (جس دن قتل کیاگیاتھا) یہ سب کچھ ہونے کے بعدنہروان کے راستے میں ان کو گدھے پرسواردیکھا، یہ لوگ ان کودیکھ کرخوش ہوئےتوفرمایاشایدتم بھی اُن بیلوں (بیوقوفوں) کی طرح یہ سمجھ رہے تھے کہ مضروب ومقتول میں ہی تھا(حالانکہ ایسانہ تھابلکہ ضرب وقتل کااثرصرف میرےجسم پرہواروح پراثرنہیں ہوا۔ روح ویسی ہی زندہ ودرخشندہ ہے جیسی پہلے تھی)‘‘۔ (بحوالہ تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۷۲۰)
ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ‘‘۔ ’’اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کئے گئے اُن کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں ان کی زندگی کا احساس نہیں ہوتا‘‘۔ [سورۃ البقرۃ: ۱۵۴]
اگر صحیح سند کے ساتھ ابن منصورؒ کا یہ قول منقول نہیں ہوتا کہ میں تیس دن کےبعد واپس آؤنگا تو تاریخ بغداد کی اس روایت کو موضوع و منگھڑت کہہ کر ردکیا جاسکتا تھامگراب اس کی صحت کا احتمال بھی ایک گونہ راجح نظرآتا ہے۔ ممکن ہے اﷲتعالیٰ نے ان کے وعدہ کو سچا کرنے کے لئے قتل کے دن ہی حالات برزخیہ کے تصرفات کا اذن دے دیا ہو۔
شہداءکا قتل کےبعد اپنے خاص دوستوں سے ملناان سے گفتگوکرنا بکثرت ثابت ہے۔ اگر ابن منصورؒ کو بھی اﷲکی عنایت ولطف سے یہ مقام حاصل ہوااور ان کو بھی شہداءکی طرح حیات اورتصرف فی الکون کا درجہ عطا ہواتواس میں حیرانگی اوراعتراض کرنے کی  بھلاکیا بات ہے۔ اگر یہ واقع کسی محدث یا فقیہ سے مرض الموت کے بعدمنسوب کیا گیا ہوتا تو لوگ اسے کرامت میں داخل کرلیتے مگرایک مظلوم وبدنام صوفی سے اس کے بے رحمانہ قتل کے بعدمنسوب کیا گیاتو لوگ اسے برا کہتےہیں۔سبحان اﷲکیا انصاف ہے۔
حسین بن منصورحلّاجؒ کی تائیدکرنے والے اورانہیں ولی اﷲقراردینے والےآئمہ محدثین وبزرگان دین
حسین بن منصورؒ کے حق میں ان ہی کے دورکے جلیل القدرمحدثین و بزرگان دین اوراولیاءکرام ابوالعباس بن عطاء بغدادیؒ،محمد بن خفیف شیرازیؒ اور ابراہیم بن محمدنصرآبادی نیشاپوریؒ کی گواہی ۔
خطیب بغدادیؒ تاریخ بغدادجلدنمبر۸ صفحہ نمبر۶۸۹ پرلکھتے ہیں: ’’متقدمین میں سےابوالعباس بن عطاء بغدادیؒ اورمحمد بن خفیف شیرازیؒ اور ابراہیم بن محمدنصرآبادی نیشاپوریؒ نے ان کو قبول کیا، ان کے حال کو صحیح مانا، اوران کو محققین میں سے قراردیا۔ محمد بن خفیفؒ  کا تو یہ قول ہے کہ حسین بن منصورعالم ربانی ہیں‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۸۹)
۱۔ ابن منصورؒکی تائیدکرنے والے سب سے پہلے بزرگ ابوالعباس بن عطاءؒ (متوفی۳۰۹ھ) ہیں
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: ’’پرہیزگارعبادت گزارابوالعباس احمد بن محمد بن سھل بن عطاء الأدمی البغدادی۔ روزانہ پورا قرآن ختم کرتے تھے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں: وہ حلّاج کے مذہب کے ہامی تھے اور اسے صحیح قرار دیتے تھے۔ سُلِمی فرماتے ہیں: وہ حلّاج کی ہمایت کے سبب آزمائش میں مبتلا ہوگئے تھے‘‘۔ (بیان تلبیس الجھمیۃ: ج۲، ص۱۱۰)
امام ذہبیؒ ابن عطاءؒکے بارے میں لکھتے ہیں: ’’پرہیزگارعبادت گزارابوالعباس احمد بن محمد بن سھل بن عطاء الأدمی البغدادی۔ روزانہ پورا قرآن ختم کرتے تھےاوررمضان المبارک میں ہردن تین بارختم کرتے تھے، اورفہم معانی قرآن کےلئےجوایک تلاوت شروع کی تھی اس میں چودہ برس کے اندرنصف قرآن تک بھی نہ پہنچے۔ حلّاج کا حال ان پرحاوی تھااور اسے صحیح قرار دیتے تھے۔ سُلِمی فرماتے ہیں: وہ حلّاج کی ہمایت کے سبب آزمائش میں مبتلا ہوگئے تھے۔ وزیرحامد نے انہیں طلب کیااورکہا کہ آپ حلّاج کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ابن عطاءؒ نے فرمایا! تم کو اس معاملہ سے کیا واسطہ؟ تم لوگوں کا مال لوٹتے رہو اورخون بہاتے رہو۔ وزیرحامد کے حکم سے ابن عطاءؒ کے دانت توڑدیئے گئے۔ ابن عطاءؒ نے چلاتے ہوئے وزیرحامد العباس کو بد دعا دی کہ اے اﷲ! اس کے ہاتھ پیرکٹوادے۔ اس واقعہ کے ۱۴ دن بعد ابن عطاءؒ کی وفات ہوگئی اورزیادہ دن نہ گزرے تھے کہ وزیرحامدبن العباس بھی قتل کیاگیا۔ قتل سے پہلے اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹے گئے۔ اس وقت لوگ کہتے ہیں کہ اس کو ابوالعباس بن عطاءؒ کی بددعالگئی‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۶، ص۲۵۵)
ابن ملقنؒ اپنی کتاب طبقات الاولیاء میں حضرت ابو العباس بن عطاءؒ کواولیاءاﷲمیں شمارکرتےہوئے لکھتے ہیں: ’’وہ حضرت جنیدبغدادیؒ اور ابراہیم مارستانیؒ وغیرہ کی صحبت میں رہے۔ حضرت جنیدبغدادیؒ اورابو سعیدخرازکی بہت تعظیم کرتے تھے‘‘۔ (طبقات الاولیاء: ص۵۹)
خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: ’’اس زمانے کے ان صوفیوں میں سے تھے جوعبادات و اجتہاداورکثرت سے قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔ انہوں نے یوسف بن موسیٰ القطان اور فضل بن زیادصاحب احمد بن حنبلؒ سے احادیث روایت کی‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۶، ص۱۶۵)
ابن منصورؒ کو قبول کرنے والے پہلے بزرگ ابوالعباس ابن عطاءؒ ہیں جنہوں نے ابن منصورؒ کی کھل کرتائید وموافقت کرتے ہوئے اپنی جان تک دیدی۔ وہ جس قدرابن منصورؒ کے معتقدتھے ان کے واقعہ وفات سے معلوم ہوتاہےکہ کس طرح صاف صاف الفاظ میں ابن منصورؒ کی تائید وحمایت کی اوروزیرحامدکوکیسےسخت الفاظ میں سنائی، حتیٰ کہ یہی ان کے قتل کاسبب ہوا۔
۲۔ امام محمد بن خفیف ضبی شیرازیؒ (متوفی۳۳۱ھ)بھی ابن منصورؒ کے معتقدین میں سے ہیں
’’محمد بن خفیفؒ  کا تو یہ قول ہے کہ حسین بن منصورعالم ربانی ہیں‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۸۹)
’’ابوعبداﷲمحمدبن خفیف شیرازی اہل فارس کے بزرگوں میں سےبڑے بزرگ تھے۔ تصوف اوراشارات ومعرفت میں مشہورتھےاورمقبول خاص وعام، صاحب کرامات امام تھے۔ حماد اورعبدالملک بن جنیدسےحدیث روایت کرتے ہیں۔ قومل جصاص اورہشام بن عبدان سےبھی ملاقات کی ہے۔ ان کے احوال وحکایات مشہور اورکتابوں میں مسطورہیں، رمضان ۳۷۷ھ میں وفات پائی‘‘۔ (الأنساب سمعانی: ص۳۴۴)
ابوعبداﷲمحمدبن خفیف شیرازیؒ کے مکمل حالات جاننے کے لئے کتاب سیرۃ الشیخ الکبیر’’أبی عبداﷲمحمدبن خفیف الشیرازی‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
’’محمد بن خفیف ضبیؒ شیرازمیں مقیم ہوگئےتھے، وہ اپنے وقت میں شیخ المشائخ اوریکتابزرگ تھے۔ علوم ظاہرکےبھی عالم تھے اورعلوم حقائق کےبھی۔ مقامات واحوال اورتمام اخلاق واعمال میں ان کی بہت اچھی حالت تھی‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ: ج۱، ص۲۱۷)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتےہیں: ’’صوفیاء کے جن اکابر مشایخ کاتذکرہ ابو عبد الرحمٰن سُلَمی نے "طبقات الصوفیہ" میں اور ابو القاسم قُشیری نے "الرسالہ" میں کیا ہے، یہ سب مذہب اہل السنہ والجماعہ اور مذہب اہل الحدیث پر تھے، مثلاً: فضیل بن عیاض، جنید بن محمد [بغدادی]، سہل بن عبد اللہ تستری، عمرو بن عثمان مکی، ابو عبد اللہ محمد بن خفیف شیرازی وغیرہ، انکا کلام سنت وعقائد صحیحہ کے مطابق ہے، اور انہوں نے اس بارے میں کتب بھی تصنیف کی ہیں‘‘۔ (کتاب الصفدیۃ: ج۱، ص۲۶۷)
دوسرے بزرگ جوابن منصورؒ کو ماننے والوں میں سے ہیں وہ محمد بن خفیف ضبیؒ شیرازی ہیں۔ پس محمدبن خفیف جیسے مسلم امام کاابن منصورؒ کامعتقد ہوناابن منصورؒ کےولی کامل اورمقبول ہونے کی کافی دلیل ہے۔
۳۔ امام ابوبکرشبلیؒ (متوفی۳۳۴ھ)بھی ابن منصورؒ کے معتقد ین میں سے ہیں
خطیب بغدادیؒ تاریخ بغدادجلدنمبر۸ صفحہ نمبر۶۹۹ پرلکھتے ہیں: ’’امام شبلیؒ فرماتے ہیں کہ میں اور ابن منصوردونوں ایک ہی ہیں (یعنی میرا بھی حال وہی ہے جو ان کاہے) مگر(فرق اتنا ہے کہ) انہوں نے (اپناحال)ظاہرکردیااورمیں نےچھپائے رکھا‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۹)
 امام ابن جوزیؒ لکھتے ہیں: ’’حضرت ابو بکر شبلیؒ حضرت جنید ؒ اوران کے طبقہ والوں کی صحبت میں رہے، مذہب مالکیہ میں فقہ حاصل کیا اور حدیثیں بہت لکھیں‘‘۔ (صفۃالصفوۃ: ص۴۸۵)
’’شبلی ؒ کے خادم خاص کا بیان ہے کی جب حضرت شبلیؒ پر موت کے آثار ظاہر ہو ئے، زبان بند ہو گئی اور پیشانی پر پسینے کے قظرے نمودار ہوئے تو مجھے اشارے سے بلایا اور وضو کرانے کے لیے فرمایا۔ چنانچہ میں نے وضو کرایا لیکن داڑھی میں خلال کرانا بھول گیا، انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور انگلی سے اپنی داڑھی میں خلال کرنے لگے۔ حضرت جعفر خلدیؒ جب یہ واقعہ بیان کرتے تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اور کہتے، لوگو بتاؤ تو سہی! یہ کیسا باکمال شخص تھا کہ جس نے زندگی کی آخری سانس تک شریعت کے آداب میں سے ایک ادب بھی فوت نہیں ہونے دیا‘‘۔ (صفۃالصفوۃ: ص۴۸۴-۴۸۵)
حضرت جنید ؒ نے ایک موقع پرفر مایا کہ: ’’فيقول الجنيد"لِکُلِّ قَوْمٍ تاجٌ، وَتاجُ هذَا القَوْمِ الشِّبْلی"‘‘۔  ’’ہر قوم کا ایک تاج ہو تاہے اور ہم اہل تصوف کے تاج شبلیؒ ہیں‘‘۔ (نفحات الأنس للجامی: ص۱۸۰)
’’حضرت ابوبکر محمد بن عمرؒ فرماتے ہیں کہ میں ابوبکر بن مجاہد کے پاس بیٹھا تھا تو شبلی آئے اور ابوبکر بن مجاہد ان کی تعظیم کیلئے کھڑےہوگئے اور ان سے معانقہ کیا اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا تو میں نے کہا‘ اے میرے سردار! آپ شبلی کے ساتھ ایسا کرتے ہیں حالانکہ بغداد والے اسے دیوانہ تصور کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے شبلی کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے جیسا کہ میں نے حضورﷺ کی مجلس میں دیکھاآپ ﷺاس کیلئے کھڑے ہوگئے اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ تو میں نے عرض کیا! یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ تو شبلی کے ساتھ ایسا کرتے ہیں؟ یہ تو دیوانہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ شبلی ہر نماز کے بعد پڑھتا ہے ’’لقدجاءکم رسول من انفسکم‘‘ آخر سورت تک اور پھر تین مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے، حضرت فرماتے ہیں کہ میں نے شبلی سے پوچھا تو انہوں نے تصدیق کی اور ویسے ہی بیان کیا‘ جیسے میں نے سنا تھا‘‘۔ (القول البدیع: ص۲۵۱-۲۵۲)
امام ابوبکرشبلیؒ جیسے شیخ طریقت اورمتبع سنت بزرگ کا ابن منصورؒ کے حال کو اپنے حال سے تعبیرکرناابن منصورؒ کی بے گناہی اور ان کے ولی کامل ہونے کی بہت بڑی گواہی ہے۔
۴۔ شیخ ابوالقاسم نصرآبادیؒ(متوفی۳۷۵ھ) نے ابن منصورؒ کو موحد تسلیم کیاہے
خطیب بغدادیؒ تاریخ بغدادجلدنمبر۸ صفحہ نمبر۶۹۹ پرلکھتے ہیں: ’’محمد بن حسین نے بیان کیاکہ میں نے ابراہیم بن محمدنصرآبادی سے سناجب کہ ان پرحلّاج کاایک کلام روح کے متعلق نقل کرنے پرعتاب کیاگیا۔ انہوں نے عتاب کرنے والے سے فرمایا، کہ انبیاءوصدیقین کے بعداگرکوئی موحدہے تو حلّاج ہی ہے‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۹)
شیخ ابو القاسم نصرآبادیؒ صوفی بزرگ بھی ہیں اوران کو ائمہ محدثین نے ثقات وحافظ حدیث میں بھی  شمار کیاہے۔
خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: ’’ابراہیم بن محمد بن احمد بن محمویہ، ابوالقاسم نصرآبادی نیساپوری صوفی ثقہ، حدیث کے بڑے عالم اورکثیرالروایت ہیں‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۷، ص۱۰۷)
امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: ’’امام المحدث، مبلغ، صوفیوں کے شیخ ابوالقاسم ابراہیم بن محمد بن احمد بن محمویہ الخراسانی نصرآبادی نیساپوری پرہیزگارعبادت گزارتھے‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۶، ص۲۶۳)
آگے لکھتے ہیں کہ: ’’ابراہیم بن محمدنصرآبادی کہتے ہیں انبیاءوصدیقین کے بعداگرکوئی موحدہے تو حلّاج ہی ہے‘‘۔(سیراعلام النبلاء: ج۱۶، ص۲۶۵)
ابوالقاسم نصرآبادیؒ کا حسین بن منصورؒ کو موحدکامل قرار دینااوران کے اقوالِ موحشہ موہمہ کوغلبٔہ انوارتوحیدسے سرشارسمجھنااس بات کی دلیل ہے کہ ان پرلگائے گئے تمام الزامات جھوٹے اور بے بنیادہیں اور ابن منصورؒ ولی اﷲمیں سےہیں۔
۵۔ امام ابوالقاسم عبدالکریم القشیریؒ(متوفی۴۶۵ھ) کی ابن منصورؒ کے بارے میں رائے
امام ابوالقاسم القشیریؒ نے اپنے رسالہ قشیریہ کے مقدمہ میں مشائخ صوفیہ کے عقائدکے متعلق دعویٰ کیاہے کہ وہ بالکل کتاب وسنت کے موافق اورسلف صالحین کے مطابق ہیں اور دلیل میں جہاں دیگراجلۂ صوفیہ وائمہ طریق کے اقوال بیان کئے ہیں وہیں حسین بن منصورؒ کے توحیدوصفات باری تعالیٰ کےبارے میں کہےگئےاقوال بھی نقل کئے ہیں۔ جس سے یہ بات واضح ہے کہ امام قشیریؒ کے نزدیک ابن منصورؒ بھی مشائخ صوفیہ میں سے ہیں۔
الإمام أبی المواهب عبد الوهاب بن أحمد بن علی الأنصاری الشافعی المشهور بالشعرانیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’امام قشیری نے ابن منصورکے تزکیہ (اورتبریہ) کی طرف اشارہ کردیاہے کیونکہ انہوں نے ابن منصورکے عقیدہ کوعقائداہلسنت کے ساتھ اپنی کتاب کے شروع میں بیان کرکے باب حسن ظن کاافتتاح کیاہے۔ پھرمروان طریق کے پیچھے بھی ان کاذکرکیاکیونکہ ان کے متعلق کچھ سے کچھ کہاگیاہے‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی:ج۱، ص۱۹۵)
امام قشیریؒ کا درجہ علم ظاہروباطن میں جس قدربلندہے۔ وہ صوفی بزرگ بھی ہیں اورمحدث بھی، عالم فاضل بھی ہیں اورعارف کامل بھی۔ ان کی ولادت ۳۷۶ھ میں ہوئی اور وفات ۴۶۵ھ میں، تو ان کازمانہ بھی ابن منصورؒ کے زمانے سے بہت قریب کاہے۔
حافظ ابن اثیرؒامام قشیریؒ کی جلالت شان میں یوں بیان کرتے ہیں کہ: ’’امام قشیری، فقیہ، اصولی، مفسر، کاتب اورگوناگواوصاف حسنہ سے متصف تھے‘‘۔ (ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ: بیروت، ج۱۰، ص۸۸)
فقروتصوف میں آپ کے مقام ومرتبہ کے حوالے سے امام ذہبیؒ لکھتے ہیں: ’’قشیری اپنے زمانے میں اقلیم تصوف کے بے تاج بادشاہ تھے۔ اﷲتعالیٰ نے آپ کو سخت ترین ریاضت ومجاہدہ کی ہمت ارزانی فرمائی۔ آپ پاکیزہ نفس، نفیس اشارات ونکات کے ذریعے معانی کی یہہ تک پہنچ جانے والے نکتہ رس تھے‘‘۔ (تاریخ اسلام للذھبی: ص۱۷۲)
امام ذہبیؒ خطیب بغدادیؒ کا قول رقم کرتے ہوئےلکھتےہیں: ’’آپ ثقہ اورواعظ خوش بیان تھے اورنفیس اشارات ونکات بیان کرتے‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۸، ص۲۳۰)
خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: ’’قشیری ۴۴۸ھ میں بغداد تشریف لائےاورحدیثوں کی روایت کی، ہم نے بھی ان سے حدیثیں لکھیں، آپ ثقہ تھے‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۱۲، ص۳۶۶)
امام سبکیؒ لکھتے ہیں: ’’آپ کی مجلس وعظ ونصیحت کے بارے میں آپ کے معاصرین کااجماع ہے کہ آپ اس فن میں عدیم النظیرتھے‘‘۔ (الطبقات شافعیۃ الکبریٰ: ج۳، ص۱۵۳)
۶۔ سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانیؒ (متوفی۵۶۱ھ)کی ابن منصورؒ کے بارے میں رائے
ابن منصورؒکومعذورماننے والے چھٹے بزرگ شیخ عبدالقادرجیلانیؒ ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’حسین بن منصورحلّاج کو(طریق میں) ایک دشواری پیش آگئی تھی توان کےزمانہ میں کوئی ایسا نہ تھاجوان کاہاتھ پکڑلیتا (اورسلامتی کےساتھ اس دشواری سےنکال دیتا)، اورمیں اپنے اصحاب ومریدین اورمحبین میں سے ہراس شخص کاہاتھ پکڑنے والاہوں جسکی سواری کو ٹھوکرلگ جائے‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی:ج۱، ص۲۲۷)
۷۔ شیخ فریدالدین عطاؒ(متوفی۵۴۰ھ) کی ابن منصورؒ کی ہمایت
ابن منصورؒ کوماننے والے ساتویں بزرگ حضرت شیخ فریدالدین عطاؒ ہیں جنہوں نے اپنی کتاب تذکرۃ الاولیاءمیں ان کا ذکرجمیل بہت عمدہ طریقے سے تفصیل کے ساتھ کیاہے۔
شیخ فریدالدین عطاؒکی جلالت شان اس سے ظاہر ہے کہ مولانا رومی آپ کی شان میں فرماتے ہیں:
ہفت شہرعشق راعطاگشت                                   ماہنوااندرغم یک کوچہ ایم
اورمثنوی مولوی معنوی میں ان کا کلام بطورحجت کے لاتے ہیں اور اس کی شرح فرماتے ہیں۔
۸۔ مولانارومیؒ (متوفی۶۷۲ھ) کی ابنمنصورکی مدح وثناکرنا
ابن منصورؒ کو ماننے والے آٹھویں بزرگ حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ ہیں۔ آپ نے مثنوی مولوی معنوی میں ان لوگوں کوبہت بُرابھلاکہاہے جنہوں نے ابن منصورؒ کو ناحق سولی دی، چنانچہ فرماتے ہیں:
چون قلم در دست غدارے بود                      لاجرم منصور بر دارے بود
جب قلم کسی غدار کے ہاتھ میں ہوگا                         تولامحالہ منصورسولی پرہوگا
اس میں غدار سے مراد وزیرحامدالعباس ہے جوابن منصورکادشمن ہوگیاتھا، جس نے علماءکوان کی تکفیرپرمجبورکیا۔ نیزابن منصورکی مدح میں مزید فرماتے ہیں کہ:
بود انا الحق در لب منصور نور                      بود انا الله در لب فرعون زور
’’اناالحق‘‘ منصورکے لب پرنورتھا                    ’’میں خداہوں‘‘فرعون کے لب پر جھوٹ تھا
آن انا منصور، رارحمت بُدہ                       ایں انا فرعون،را لعنت بُدہ
وہ انامنصورکےلئے(باعث)رحمت تھا                 یہ انافرعون کے لئے (موجب)لعنت تھا
گفت فرعونے "انا الحق"، گشت پست            گفت منصورے "انا الحق" و برَست
کسی فرعون نے اناالحق کہاوہ پست ہوا                  کسی منصورنے اناالحق کہاوہ بالاہے
آن انا را لعنه الله، در عقب                           ویں انا را رحمه الله، اے محب
اس اناکے لئے اﷲتعالیٰ کی لعنت درپےہے                 اوریہ انااےدوست! اﷲکی رحمت ہے
مولانا رومیؒ کی جلالت شان علمائے ظاہراورعلمائے باطن دونوں کے نزدیک مسلم ہے، ان کاابن منصورکوماننااورمدح وثناکرنا، ابن منصورؒکے صوفی ، عارف ومقبول ہونے کی کافی دلیل ہے۔
۹۔ شیخ الاکبر ابن عربیؒ (متوفی۶۳۸ھ)کی ابن منصورسے عقیدت
نویں بزرگ جنہوں نے ابن منصورؒ کی بڑی تعظیم کی وہ شیخ محی الدین ابن عربیؒ ہیں۔ لسان المیزان میں حافظ ابن حجرؒ کا تنقیدی قول اس کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ’’ابن عربیؒ صاحب الفصوص حسین بن منصورؒ کی بہت تعظیم کرتے اور اورجنید میں کلام کرتےتھے‘‘۔ (لسان المیزان: ج ۲، ص ۳۱۵)
شیخ ابن عربیؒ کا درجہ مشائخ صوفیہ کے نزدیک تو بہت بلندہے، علمائے ظاہربھی ان کی جلالت شان کے معترف ہیں۔ لسان المیزان میں حافظ ابن حجرؒنے حافظ ذھبیؒ کی جرح کوردکرکے بہت سے محدثین کے اقوال انکی توثیق وتعدیل میں نقل کئےہیں۔ حافظ ابن حجرؒنے ابن النجاروابن نقطہ وابن العدیم اورزکی مندری وابن الاباروغیرہم کے اقوال ان کی مدح وثنامیں چار صفحات کے اندربیان کئے ہیں۔ (لسان المیزان: ج۵، ص۳۱۲-۳۱۵)
فرقہ اہلحدیث کے عالم جناب نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب التاج المکلل میں شیخ ابن عربی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : ’’شیخ ابن عربی میں اتنی خوبیاں ہیں کہ جن کا احاطہ ممکن نہیں اور وہ اللہ کی مابین دلیل اور کھلی نشانی ہیں۔ اور ان کی اتنی کرامات ہیں جنہیں کئی جلدوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ (التاج المکلل: ص۱۶۸)
۱۰۔ شیخ عبدالوہاب شعرانیؒ (متوفی۹۷۳ھ)نےابن منصورؒکو اپنی کتاب میں اولیاءاﷲمیں شمارکیاہے
ابن منصورؒ کو ماننے والے دسویں  بزرگ شیخ عبدالوہاب شعرانیؒ شافعی ہیں جواپنے وقت میں علوم ظاہروباطن کے مسلم امام تھے۔ آپ نے اپنی کتاب طبقات الکبریٰ میں جو طبقات صوفیہ کے لئے مخصوص ہے ابن منصورؒ کواولیاءاﷲمیں شمارکیااور ان کے عارفانہ اقوال سے تصریح کردی ہے کہ صحیح قول یہ ہے کہ ابن منصورؒ صوفیائے کرام میں سے تھے۔
مندرجہ بالا دس بزرگ تووہ ہیں جوعلمائے ظاہروباطن سب کے نزدیک مسلم ہیں۔ عرب وعجم ان کی جلالت وشان کے معترف ہیں۔ ان حضرات میں سے ایک بزرگ کابھی کسی کوولی کامل کہہ دینااس کی سعادت وکامیابی کی بڑی دلیل ہے۔ پھرجس کویہ سب قبول کرلیں اس شخص کا کیا مقام ہوگا۔ ان کے علاوہ بھی مصر، شام اورہندوستان کے بڑے بڑے علماءکرام نے ابن منصورکوصوفیہ اوراولیاءاﷲمیں شمار کیاہےجن کی فہرست طویل ہے۔بہرحال ہم ان ہی دس ناموں پراکتفاءکرتے ہیں۔
حسین بن منصورحلّاجؒ پرمعترضین کی طرف سے کیئےجانے والے اعتراضات 
موجودہ دورکے ایک غیرمقلد عالم جناب زبیرعلی زئی صاحب جنہوں نے تقریباً اپنی ہرتصنیف میں عام اورلاعلم عوام کے سامنے جھوٹے وبے بنیاد دعووں، نہایت قلیل اورکھوکھلے دلائل پیش کرکے عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کی جان توڑکوشش کی ہے، بالکل ویسی ہی کوشش موصوف نے اپنے ایک رسالے ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ۲۱کے صفحہ نمبر۷ تا۱۰ میں حسین بن منصورحلّاجؒ بارے میں لکھے گئے سوال کےجواب میں صرف چارمحدثین کی جرحیں نقل کرتے ہوئے اورچند باطل اور کھوکھلے دعووں کے ساتھ کی ہے۔
زبیرعلی زئی صاحب اپنے رسالے ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ۲۱کے صفحہ نمبر۷ پرلکھتے ہیں:
"حسین بن منصور الحلاج، جسے جاہل لوگ منصور الحلاج کے نام سے یاد کرتے ہیں، کا مختصر و جامع تعارف درج ذیل ہے:
۱۔ حافظ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ: اسے زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے علم کی کوئی چیز روایت نہیں کی۔ اُس کی ابتدائی حالت (بظاہر) اچھی تھی، عبادت گزاری اور تصوف (کا اظہار کرتا تھا) پھر وہ دین (اسلام) سے نکل گیا، جادو سیکھا اور (استدراج کرتے ہوئے) خرق عادت چیزیں لوگوں کو دکھائیں، علماء کرام نے فتویٰ دیا کہ اس کا خون (بہانا) جائز ہے لہٰذا اسے ۳۱۱ھ میں قتل کیا گیا۔ (میزان الاعتدال: ج ۱،ص ۵۴۸)
۲۔ حافظ ابن حجر العسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ: لوگوں کا اس (حسین بن منصور الحلاج) کے بارے میں اختلاف ہے، اکثریت کے نزدیک و ہ زندیق گمراہ (تھا) ہے۔ (لسان المیزان: ج ۲، ص ۳۱۴، والنسخۃ المحققۃ ۵۸۲/۲)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ: میری رائے میں حلاج کی حمایت ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں کرتا جو اس کی اس بات کے قائل ہیں جس کو وہ عین جمع کہتے ہیں اور یہی اہل وحدت مطلقہ کا قول ہے اس لئے تم ابن عربی صاحب فصوص کو دیکھو گے کہ وہ حلاج کی تو تعظیم کرتے ہیں اور جنید کی تحقیر کرتے ہیں۔ (لسان المیزان: ج ۲، ص ۳۱۵)
۳۔ جلیل القدر امام ابو عمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا بن یحییٰ البغدادی (ابن حیویہ)ؒ فرماتے ہیں کہ: جب حسین (بن منصور) حلاج کو قتل کے لئے (جیل سے) نکالا گیا تو لوگوں کے ساتھ میں بھی (دیکھنے کے لئے) گیا، میں نے لوگوں کے رش کے باوجود اُسے دیکھ لیا، وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا:”تم اس سے نہ ڈرنا، میں تیس (۳۰) دنوں بعد تمہارے پاس دوبارہ (زندہ ہوکر) آجاؤں گا“ پھر وہ قتل کر دیا گیا۔ (تاریخ بغداد: ج ۸، ص ۱۳۱ ت ۴۲۳۲ و سندہ صحیح، المنتظم لابن الجوزی ۴۰۶/۱۳ وقال:”وھذا الإسناد صحیح لاشک فیہ“ لسان المیزان ۳۱۵/۲ وقال:’’وإسناد ھا صحیح‘‘)
۴۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ: جمہور مشائخِ تصوف اور اہلِ علم (علمائے حق) کے نزدیک حلاج نیک لوگوں میں سے نہیں تھا بلکہ زندیق (بہت بڑا ملحد و گمراہ) تھا۔ (مجموع فتاویٰ: ج ۸، ص ۳۱۸)
اللہ رب العالمین کا شکر ہے، حلاج کو زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیاگیاتھا۔ (مجموع فتاوی: ۱۰۸/۳۵)
شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں کہ: اور اسی طرح جو شخص حلاج کے قتل کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ (شخص) دینِ اسلام سے خارج ہے۔ (مجموع فتاویٰ: ج۲، ص ۴۸۶)
۵۔ حافظ ابن الجوزیؒ نے اس (حسین بن منصور) کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے ’’القاطع المحال اللجاج القاطع بمحال الحلاج‘‘۔ (المنتظم: ۲۰۴/۱۳)
ابن جوزی فرماتے ہیں: بے شک وہ جھوٹا باطل پرست تھا۔ (ایضاً: ۲۰۶/۱۳)"
زبیرعلی زئی صاحب کی پیش کردہ مبہم ومنقطع جرحوں اورباطل وکھوکھلے دعووں کے مدلل جوابات
۱۔ حافظ ذہبیؒ کی جرح کا جواب
حافظ ذہبیؒ نے اپنی جرح میں ابن منصورؒپرجتنے بھی الزامات لگائے ہیں ان میں سے ایک الزام بھی صحیح سندسےثابت نہیں ہےجبکہ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیاہے کہ ’’ابن منصورؒ کی ابتدائی حالت اچھی تھی، عبادت گزاری اورتصوف کا اظہارکرتاتھا‘‘۔
حافظ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’اسے زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔۔۔ علماء کرام نے فتویٰ دیا کہ اس کا خون (بہانا) جائز ہے‘‘ جبکہ تمام روایات کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وزیرحامدالعباس نے حج کے مضمون کوجواز بناتے ہوئے قاضی ابوعمرسے زبردستی فتویٰ لکھوایاتھا، حالانکہ حج کے مضمون میں ایسی کوئی بات نہ تھی جس سے کسی کوکافروزندیق قراردیاجاسکے۔
حافظ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’پھر وہ دین (اسلام) سے نکل گیا، جادو سیکھا اور (استدراج کرتے ہوئے) خرق عادت چیزیں لوگوں کو دکھائیں‘‘ جبکہ جادوسیکھنے والی پہلی روایت کی سند ابن باکویہ شیرازی، علی بن احمدشروانی اور اس کے باپ کی وجہ سے سخت ضعیف ہے اوردوسری روایت کی سند میں علی بن محمد بن مزین صوفی اور ابوعبدالرحمٰن السلمی صوفی ہیں، تو سند میں بجز اسماعیل بن احمدحیری شیخ الخطیب کے اور کوئی محل نظرنہیں۔ انساب سمعانی میں ان کا بہت مختصر تذکرہ ملتا ہےجبکہ جرح و تعدیل کچھ مذکورنہیں۔ پھر ابوعبدالرحمٰن السلمی کے بارے میں تو زبیرعلی زئی صاحب نے اپنی اسی تحریر میں خود اعتراف کیا ہے کہ ’’ابوعبدالرحمٰن السلمی غیرثقہ تھا‘‘ تو پھر موصوف نے کس منہ سے حافظ ذہبیؒ کی اس جرح کو دلیل کے طورپرپیش کردیا، جبکہ موصوف اپنی اسی تحریر میں ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ۲۱کے صفحہ نمبر۱۰ پر دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’الحدیث حضرو کا یہ امتیازہےکہ الحدیث میں صرف صحیح وثابت حوالہ ہی بطوراستدلال لکھاجاتاہے‘‘۔ الحمدﷲ! زبیرعلی زئی صاحب کا یہ باطل اورکھوکھلا دعویٰ تو ہم نے ابتداءمیں ہی غلط ثابت کردکھایا۔
حافظ ذہبیؒ کی مبہم، متشدداوربلادلیل جرح کی ایک اور اہم کمزوری یہ بھی ہے کہ آپ آٹھویں صدی ہجری کے درمیانی دورسے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حسین بن منصورؒ کے قتل کا واقعہ چوتھی صدی ہجری کے شروع میں رونماہوا، لہٰذا اس واقعہ کے چارسو سال بعد پیداہونے والے امام ذہبیؒ کی مبہم جرح ابن منصورؒکےدورکےجلیل القدرمحدثین و بزرگان دین اوراولیاءکرام ابوالعباس بن عطاء بغدادیؒ،محمد بن خفیف شیرازیؒ، ابراہیم بن محمدنصرآبادی نیشاپوریؒ اورامام ابوبکرشبلیؒ کی ابن منصورؒ کے حق میں دیگئی گواہی سے زیادہ معتبرکیسے ہوسکتی ہے؟
۲۔ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کی جرح کا جواب
حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کا یہ کہنا کہ ’’ اکثریت کے نزدیک و ہ زندیق گمراہ (تھا) ہے‘‘کسی ایک بھی مستند دلیل سے یہ بات ثابت نہ ہوسکی کہ ابن منصورؒزندیق اور گمراہ تھے۔ ان کے گمراہ ہونے سے متعلق جنتی بھی روایات ہیں سب کی سب سخت ضعیف ہیں اوران ضعیف روایات میں سے کسی ایک سےبھی براہِ راست ان سے کسی بھی قسم کا کلمہ کفرثابت نہیں ہوتا بلکہ صرف لوگوں کی سنی سنائی باتیں ملتی ہیں جن کے جوابات پہلے ہی دیئے جاچکے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگرابن منصورؒاکثریت کے نزدیک گمراہ ہوتے تو جب وزیرحامد نے قاضی ابوعمروقاضی ابوجعفربن بہلول اور بڑےبڑے فقہاءاورشہودکوجمع کرکے ان سے فتویٰ پوچھاتھاتو سب نے فتویٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے یہ کیوں کہاکہ جب تک ہمارے سامنے اس کی کوئی بات پایۂ ثبوت کونہ پہنچ جائےجوموجب قتل ہواس وقت تک اس کے متعلق فتویٰ نہیں دیاجاسکتااورلوگوں نے جن باتوں کادعویٰ ان کی طرف منسوب کیاہےبدون بینہ یااقرارکے قبول نہیں کی جاسکتیں۔ اوروزیرحامد بن عباس کو قاضی ابو عمرسے زبردستی فتویٰ لکھوانا کیوں پڑا؟
حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کی مبہم، متشدداوربلادلیل جرح کی ایک اور اہم کمزوری یہ بھی ہے کہ آپ آٹھویں صدی ہجری کے درمیانی دورسے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حسین بن منصورؒ کے قتل کا واقعہ چوتھی صدی ہجری کے شروع میں رونماہوا، لہٰذا اس واقعہ کے چارسو سال بعد پیداہونے والے حافظ ابن حجرؒکی مبہم جرح ابن منصورؒکےدورکےجلیل القدرمحدثین و بزرگان دین اوراولیاءکرام ابوالعباس بن عطاء بغدادیؒ،محمد بن خفیف شیرازیؒ، ابراہیم بن محمدنصرآبادی نیشاپوریؒ اورامام ابوبکرشبلیؒ کی ابن منصورؒ کے حق میں دیگئی گواہی سے زیادہ معتبرکیسے ہوسکتی ہے؟
۳۔ امام ابو عمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا بن یحییٰ البغدادی (ابن حیویہ)ؒ کی جرح کا جواب
امام ابوعمرابن حیویہ کی اس روایت کی بنا پرکسی ولی اﷲکو تو دور کی بات کسی عام مسلمان کو بھی کافروزندیق قرارنہیں دیا جاسکتا۔ اس واقعہ کے ظاہری الفاظ اورظاہری مفہوم کا حاصل اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ابن منصورؒ نے اپنے اصحاب کو تسلی دی تھی تو ایسے موقع پردوستوں کوتسلی دینا جرم تونہیں اور جس عنوان سے تسلی دی گئی ہے اس کو بھی کوئی عالم کفریازندقہ قرارنہیں دےسکتاکیونکہ شہداءکی حیات برزخیہ مسلّم ہے۔ اور اس بات پربھی کوئی شک نہیں کہ ابن منصورؒاپنے آپ کو مظلوم اور(وزیرحامد) قاتلوں کو ظالم جانتے تھے۔ تو ان کو اپنی شہادت کایقین ہوناکچھ مستبعدنہیں اوراس یقین کے لئے حیات برزخیہ کا اعتقادلازم ہے توپھراس جرح کو دلیل کے طورپرکیسے پیش کیاجاسکتاہے؟ جبکہ ان پرلگائے گئے الزامات بھی صحیح ثابت نہ ہوسکے اور ابن عطاءؒ، خفیف شیرازیؒ، ابوالقاسم نصرآبادیؒ اورامام شبلیؒ جیسے شیخ طریقت نے ان کی تائیدکررکھی ہو۔ لہٰذا ان کے اس کلام کی تاویل بھی شریعت کےعین مطابق ہونی چاہیئےجو ہم نے بیان کی۔
۴۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی جرح کا جواب
سیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اپنی جرح میں جتنے بھی الزامات لگائے ہیں کوئی ایک الزام بھی صحیح سند سےثابت نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگرابن منصورؒزندیق، ملحداورگمراہ ہوتے اور انہیں اسی وجہ سے قتل کیاگیا ہوتاپھرتو جب وزیرحامد نے قاضی ابوعمروقاضی ابوجعفربن بہلول اور بڑےبڑے فقہاءاورشہودکوجمع کرکے ان سے فتویٰ پوچھاتھاتو سب نے فتویٰ دینے سے انکارکیوں کردیاتھا؟
اگرابن منصورؒزندیق، ملحداورگمراہ ہوتے اور انہیں اسی وجہ سے قتل کیاگیا ہوتاپھرتو وزیرحامد بن عباس کو قاضی ابو عمرسے زبردستی فتویٰ لکھوانا پڑا؟
ابن تیمیہؒ کا یہ کہناکہ ’’جو شخص حلاج کے قتل کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ (شخص) دینِ اسلام سے خارج ہے‘‘ ان کے اپنے ہی قول میں تضادظاہرکرتاہے، کیونکہ آپ ایک طرف ایسے شخص کودین اسلام سے خارخ کہتے ہیں اور دوسری طرف اپنی کتاب تلبیس الجھمیہ اورکتابالصفدیۃ میں ابن منصورؒکی کھل کرہمایت کرنے والے ابوالعباس ابن عطاءؒاورانہیں عالم ربانی کہنےوالےابوعبداللہ محمدبن خفیف شیرازیؒ کو زاہداورعابد بھی تسلیم کرتے ہیں اوران کے کلام کوسنت وعقائدصحیحہ کے مطابق بھی قرار دیتے ہیں۔
ابوعبدالرحمٰن سُلمی نے ابن منصورؒکا تذکرہ اپنی کتاب"طبقات الصوفیہ" میں تفصیل سے بیان کیاہے اور ابو القاسم قُشیری نے اپنے رسالہ قشیریہ میں حسین بن منصورؒ کا مکمل عقیدہ توحیدبیان کیا ہےجسےاوپرنقل کیاجاچکاہے۔ جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب الصفدیۃمیں خوداس بات کا اعتراف کیاہےکہ ’’صوفیاء کے جن اکابر مشایخ کاتذکرہ ابو عبد الرحمٰن سُلَمی نے "طبقات الصوفیہ" میں اور ابو القاسم قُشیری نے "الرسالہ" میں کیا ہے، یہ سب مذہب اہل السنہ والجماعہ اور مذہب اہل الحدیث پر تھے‘‘۔ ابن تیمیہؒ کے اس بیان سےخودان ہی کی جرح کارد ہوتا ہےاورساتھ ہی زبیرعلی زئی صاحب کاابوعبدالرحمٰن سُلمی کی رسالہ قشیریہ والی روایت پرکیئے جانے والےاعتراض کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتےہیں: ’’صوفیاء کے جن اکابر مشایخ کاتذکرہ ابو عبد الرحمٰن سُلَمی نے "طبقات الصوفیہ" میں اور ابو القاسم قُشیری نے "الرسالہ" میں کیا ہے، یہ سب مذہب اہل السنہ والجماعہ اور مذہب اہل الحدیث پر تھے، مثلاً: فضیل بن عیاض، جنید بن محمد [بغدادی]، سہل بن عبد اللہ تستری، عمرو بن عثمان مکی، ابو عبد اللہ محمد بن خفیف شیرازی وغیرہ، انکا کلام سنت وعقائد صحیحہ کے مطابق ہے، اور انہوں نے اس بارے میں کتب بھی تصنیف کی ہیں‘‘۔ (کتاب الصفدیۃ: ج۱، ص۲۶۷)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ؒ کی مبہم، متشدداوربلادلیل جرح کی ایک اور اہم کمزوری یہ بھی ہے کہ آپ آٹھویں صدی ہجری کے درمیانی دورسے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حسین بن منصورؒ کے قتل کا واقعہ چوتھی صدی ہجری کے شروع میں رونماہوا، لہٰذا اس واقعہ کے چارسو سال بعد پیداہونے والے امام ابن تیمیہؒ کی مبہم جرح ابن منصورؒکےدورکےجلیل القدرمحدثین و بزرگان دین اوراولیاءکرام ابوالعباس بن عطاء بغدادیؒ،محمد بن خفیف شیرازیؒ، ابراہیم بن محمدنصرآبادی نیشاپوریؒ اورامام ابوبکرشبلیؒ کی ابن منصورؒ کے حق میں دیگئی گواہی سے زیادہ معتبرکیسے ہوسکتی ہے؟
۵۔ حافظ ابن الجوزیؒ کی جرح کاجواب
حافظ ابن الجوزیؒ کایہ کہناکہ ’’بے شک وہ جھوٹا باطل پرست تھا‘‘مبہم اوربلادلیل دعویٰ ہے کیونکہ کسی ایک ضعیف روایت سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ابن منصورؒجھوٹےتھے۔ لہٰذا جرح وتعدیل کے میدان میں اس جرح کی بھی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ محض صرف دعویٰ کردینے سے الزام ثابت نہیں ہوتاجب تک کہ صحیح سند سے وجوہ طعن ثابت نہ ہو۔ اگراس طرح سے کسی بھی مبہم جرح کو قبول کرلیاجائے تو پھر بڑے سے بڑے محدث امام کی ثقاہت وعدالت ثابت نہ ہوسکے گی۔
حافظ ذہبیؒ، حافظ ابن حجرؒ، امام ابن تیمیہؒ اورحافظ ابن الجوزیؒ کی جرحوں کی بہترین مثال کچھ اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ عکرمہ مولی ابن عباسؓ ونافع مولی ابن عمرؓپربھی بعض ائمہ نے سخت جرح کی ہیں مگردوسرے علماءکی توثیق وتعدیل سے ان کو مقبول قراردیاگیا ہےاورجرح مبہم پرالتفات نہیں کیاگیا۔ بالکل یہی معاملہ ابن منصورؒ کے ساتھ بھی کرناچاہیئےکیونکہ ابن منصورؒکی توثیق وتعدیل ابراہیم بن محمدنصرآبادیؒ جیسے حافظ الحدیث و متبع سنت، امام شبلی ؒجیسے امام طریق، ابوعبداﷲبن خفیفؒ جیسے شیخ طریقت اورابوالعباس بن عطاءؒجیسے ولی اﷲومحدث نے کررکھی ہے۔
زبیرعلی زئی صاحب مولانااشرف علی تھانویؒ کے دعوے پر اشکال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’تھانوی صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیاہےکہ ابن منصوراورجنیدکاعقیدۃ توحیدایک ہی تھا‘‘۔ مگرانہوں نے اس دعوی پرکوئی صحیح دلیل پیش نہیں کی‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۱۰)
اشکال کا جواب
زبیرعلی زئی صاحب کی علمی قابلیت وصلاحیات پرتعجب ہوتاہے کہ موصوف کومولانااشرف علی تھانویؒ کے دعوے کی دلیل ہی نظرنہ آسکی، حالانکہ امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیریؒ (متوفی: ۴۶۵)کےرسالۃ القشیریہ میں عقیدۃ توحید کے بیان میں جہاں حضرت جنیدبغدادیؒ کے اقوال درج ہیں، وہیں ابن منصورؒکے اقوال بھی درج ہیں لیکن موصوف نے انہیں پڑھنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی یاپھرپڑھے جانے کے باوجودبھی لاعلمی ظاہرکررہے ہیں تاکہ عام اورلاعلم مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں۔
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیریؒ (متوفی: ۴۶۵)لکھتے ہیں: ’’محمد بن احمداصفہانیؒ نے بتایاکہ ایک شخص حضرت حسین بن منصورؒکے قریب آکھڑاہوااورکہنے لگا، وہ حق کون ہے جس کی طرف صوفیہ اشارہ کرتے رہتے ہیں؟ فرمایاجوسب کوبنادینے والاہے مگراسے بنانے والاکوئی نہیں جسے اس کی علت قراردیاجائے‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۴۹۶)
’’حسین بن منصورؒ اﷲتعالیٰ سے اپنی محبت کا اظہاریوں فرماتے ہیں کہ: محبوب سے تمہاری محبت یہ ہے کہ اس کے سامنے اپنے تمام اوصاف بالائے طاق رکھ دو‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۵۲۳)
خطیب بغدادیؒ نے ابوالطیب محمدبن الفرخان کے حوالے سے روایت کیاہےکہ: ’’میں نے حسین بن منصورسے سناوہ فرماتے تھے کہ اولین وآخرین کے علوم کاخلاصہ چارباتوں میں ہے۔ (۱) رب جلیل کی محبت (۲) متاع قلیل (یعنی دنیا) سے نفرت (۳) کتاب منزل کااتباع (۴) تغیّرحال کاخوف‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۲)
زبیرعلی زئی صاحب کے دجل وفریب وکذب بیانیاںاورباطل وکھوکھلے دعووں کے مدلل جوابات
زبیرعلی زئی صاحب کاپہلا جھوٹ: زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں: ’’ان شدید جرحوں کے مقابلے میں حلّاج مذکور کی تعریف و توثیق ثابت نہیں ہے‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۸)
یہاں زبیرعلی زئی صاحب نے کتنی ڈھٹائی اوربے شرمی کے ساتھ اتنابڑاجھوٹ بولاہے، حالانکہ ابوالعباس ابن عطاؒ جیسے محدث بزرگ، ابوعبداﷲبن خفیف شیرازیؒ جیسے شیخ طریقت، امام شبلیؒ جیسے جلیل القدرامام ومتبع سنت، ابراہیم بن محمد نصرآبادیؒ جیسے حافظ الحدیث ومتبع سنت، امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن القشیری جیسےجلیل القدرمحدث ومفسر، سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانیؒ شیخ فریدالدین عطاؒ اورمولاناجلال الدین رومیؒ جیسےاولیاءاﷲنے ابن منصورؒ کی تعریف وتوثیق کررکھی ہے جنہیں ہم اوپرتفصیل کے ساتھ بحوالہ بیان کرچکے ہیں۔
زبیرعلی زئی صاحب کادوسراجھوٹ: زبیرعلی زئی صاحب تاریخ بغدادکے حوالے سےمحمد بن یوسف القطان کی مبہم جرح نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ابو عبدالرحمٰن السلمی اگر چہ اپنے عام شہر والوں اور اپنے مریدوں کے نزدیک جلیل القدر تھا مگر اسی شہر کے محدث محمد بن یوسف القطان النیسابوری فرماتے ہیں کہ: ’’کان أبو عبدالرحمٰن السلمي غیر ثقۃ۔۔۔۔۔وکان یضع للصوفیۃ الأحادیث“۔ ’’ابوعبدالرحمٰن السلمی غیر ثقہ تھا۔۔۔۔۔ اور صوفیوں کے لئے احادیث گھڑتا تھا‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۹)
زبیرعلی زئی صاحب کایہ دوسرابڑاجھوٹ ہے، کیونکہ ابوعبدالرحمٰن السلمی صرف اپنے عام شہروالوں اور مریدوں کے نزدیک جلیل القدر نہ تھے بلکہ ہرخاص و عام، موافق و مخالف، حکمراں و رعایا، سب کے درمیان اوران کے اپنے شہر میں اور بلاد اسلامیہ کے ہر شہر میں یکساں مقبول تھے۔
حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں: ”ان (ابوعبدالرحمٰن السلمی)کی تصنیفات بہت مقبول تھیں اور لوگ ان کو بہت پسند کرتے تھے اور بڑی گراں قیمت پر خریدتے تھے اور ان سے ان کی تصنیفات روایت کرتے تھے۔ وہ خاص و عام، موافق و مخالف، حکمراں و رعایا، سب کے درمیان اوران کے اپنے شہر میں اور بلاد اسلامیہ کے ہر شہر میں یکساں مقبول تھے اور اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۷، ص۲۴۷؛ سؤالات السجزی للحاکم: ص ۶۵)
آگے مزید لکھتے ہیں: ”حافظ عبدالغافر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہےکہ ابو عبدالرحمٰن اپنے عہد میں طریقہ تصوف کے شیخ تھے۔ ان کو تمام علوم کے حقائق اور طریقہ تصوف کی معرفت حاصل تھی۔ انھوں نے فن تصوف میں بڑی نادر ومشہور کتابیں لکھیں اور انھوں نے ایسا کتب خانہ تشکیل دیا تھا کہ ان سے قبل کوئی بھی ایسا کتب خانہ تیار نہ کر سکا حتیٰ کہ سوسے زیادہ کتابیں لکھیں اورچالیس سال سے زیادہ درس وتدریس کاکام کیااورنیساپور، مرو، عراق اورحجازمیں حدیثیں لکھیں اورحفاظ کواس پرمنتخب فرمایا‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۷، ص۲۴۹)
خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: ”ابو عبدالرحمٰن کا مقام و مرتبہ ان کے اہل شہر میں بہت بلند تھا اور صوفیہ کے درمیان ان کی بڑی حیثیت تھی۔ ساتھ ہی وہ حدیث کے بھی عالم تھے۔ انھوں نے مشائخ حدیث سے روایات جمع کیں اور کتابیں لکھیں۔ نیشا پور میں ان کا ایک دائرہ (خانقاہ) اب بھی ہے جس میں صوفیہ رہتے ہیں، میں خود وہاں گیاتھا اسی دائرہ میں ان کی قبر ہے میں نے قبر کی زیارت بھی کی‘‘۔ (تاریخ بغداد: ج۳، ص۴۳)
امام ذہبیؒ اور خطیب بغدادیؒ کے بیان سے اس بات کی واضح دلیل مل گئی کہ ابوعبدالرحمٰن السلمی نہ صرف اپنے عام شہروالوں میں مقبول تھے بلکہ بلاد اسلامیہ کے ہر شہر میں یکساں مقبول تھے۔
ابوعبدالرحمٰن السلمی پر زبیرعلی زئی کی تنقید کے حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ ان پر حدیث وضع کرنے کا الزام محمد بن یوسف القطان نے لگایا ہے، لیکن ان کا الزام بھی مبہم ہے۔ ان کی جرح ہے ”وکان یضع للصوفیہ احادیث“ اس طرح کی مبہم جرح کسی کو متہم کرنے کے لیے کافی نہیں ہےجبکہ اس جرح کے خلاف آئمہ حدیث کے اقوال بھی موجودہوں۔ اس لیے خطیب بغدادیؒ جنہوں نے یہ جرح سب سے پہلے نقل کی ہے، انھوں نے بھی کہا ہے کہ ’’وقدکان مع ذلک صاحب حدیث مجوداً‘‘۔ ’’تاہم وہ حدیث کےماہرتھے‘‘۔ (تاریخ بغداد: ج۳، ص۴۳)(سیراعلام النبلاء: ج۱۷، ص۲۵۰)
طبقات شافعیہ میں امام تاج الدین سبکیؒ (متوفی۷۷۱ھ)محمد بن یوسف القطان کی جرح نقل کرنے کے بعدخطیب بغدادیؒ کا قول رقم کرتےہوئےجواب میں لکھتے ہیں: ’’قول الخطیب فیہ ھوالصحیح، وابو عبدالرحمن ثقہ، ولاعبرة بھذا الکلام فیہ‘‘۔ ’’خطیب کا قول بالکل صحیح ہےاور ابو عبدالرحمٰن ثقہ ہیں اور اس قول (یعنی یوسف القطان کےقول) کا کوئی اعتبار نہیں‘‘۔ (الطبقات الشافعیہ: ج۵، ص۱۴۵؛ سؤالات السجزی للحاکم: ص ۶۵)
حافظ ابو یعلی الخلیلیؒ (المتوفی ۴۶۶ھ) فرماتے ہیں: ’’ثِقَةٌ، مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ‘‘۔ ’’ان (یعنی ابو عبدالرحمٰن سُلمی) کے ثقہ ہونے پرسب کااتفاق ہے‘‘۔ (الارشاد فی معرفۃ علماء اہلحدیث: ص۸۶۰)
زبیرعلی زئی صاحب کاتیسراجھوٹ: زبیرعلی زئی صاحب اپنے رسالےماہنامہ الحدیث حضرومیں تیسراجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس شدید جرح کے مقابلے میں سلمی مذکور کی تعدیل بطریقہِ محدثین ثابت نہیں ہے‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۹)
امام تاج الدین سبکیؒ کامحمد بن یوسف القطان کی جرح کورد کرتے ہوئے ابوعبدالرحمٰن السلمی کو ثقہ قراردینا اور ساتھ ہی حافظ ابویعلی الخلیلیؒ کاانہیں ’’ثِقَةٌ، مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ‘‘کہنااس بات کی واضح دلیل ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب نے یہاں بھی انتہائی جھوٹ اورکذب بیانی کی ہےاورکس ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہوئےعام اور لاعلم مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ کسی عالم کو اتنابڑاجھوٹ بولتے ہوئے شرم آنی چاہیے جبکہ یہ لوگ اپنے آپ کو اہلحدیث کہتے ہیں۔
امام ذہبیؒ ان کے ضعف کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’اگرچہ محمد بن یحییٰ المزکی، امام ابوبکربیہقی اور قاسم بن الفضل الثقفی نے ان سے روایات لی ہیں، لیکن حدیث کے معاملے میں وہ ضعیف ہیں‘‘۔  اس کے بعد خطیب بغدادیؒ کا قول نقل کرتے ہوئےامام ذہبی ؒنے ان کا دفا ع بھی کیا ہےاورمحمد بن یوسف القطان کے اس اعتراض کاجواب دیتےہوئےلکھا ہے کہ: ’’السلمی نے سوالات دارقطنی لکھی ہے جس میں رواة اور مشائخ کے بارے میں ماہرانہ سوالات کیے ہیں‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۷، ص۲۵۰، ۲۵۲؛ سؤالات السجزی للحاکم: ص ۶۵)
محمد بن یوسف القطان کی جرح کو اگرقبول بھی کرلیاجائے توبھی امام ذہبیؒ کے قول سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہےکہ وہ السلمی کوروایات حدیث میں ضعیف کہہ رہے ہیں تاریخی روایات میں نہیں اور ابوعبدالرحمٰن السلمی کاابن منصورؒکے حالات وواقعات نقل کرنا بھی تاریخی روایات ہیں۔
اصول جرح وتعدیل کی روسےایسا ممکن ہے کہ ایک آدمی ایک فن میں ماہر اور ثقہ نہ ہو لیکن دوسرے فن کا امام ہو۔ اسی حقیقت کے پیش نظر محدثین نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ بعض ائمہ فن حدیث میں تو ناقابل اعتبار ہیں لیکن فن تفسیریافن مغارزی میں ان کی روایات قابل قبول ہوتی ہیں۔
’’قال الامام البیہقی: قال یحیی بن سعید یعنی القطان تساھلوا فی التفسیر عن قوم لایوثقونھم فی الحدیث ثم ذکر لیث بن ابی سلیم و جُوَيْبِرِ بن سعید والضحاک ومحمد بن السائب یعنی الکلبی وقال ھولاء لایحمد حدیثھم ویکتب التفسیر عنھم‘‘۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی: ج۱،ص۳۳؛ میزان الاعتدال للذہبی: ج۱، ص۳۹۱؛  التہذیب لابن حجر: ج۱، ص۳۹۸)
محدثین کے اس اصول کی بہترین مثال محمد بن اسحاق بن یسارراوی ہے جو جمہورمحدثین کے نزدیک ضعیف ہے لیکن مغارزی میں امام ماناجاتاہے۔ اسی بنیاد پرغیرمقلدین حضرات فاتحہ خلف الامام اورطلاق ثلاثہ جیسےموضوعات پرمحمدبن اسحاق بن یسارکی روایات کو دلیل کے طورپرپیش کرتےہیں۔
مشہورغیرمقلدمحدث علامہ ناصرالدین البانیؒ لکھتے ہیں: ’’محمد بن اسحاق مغارزی میں  حجت ہے احکام میں حجت نہیں خصوصاًجب وہ دوسرے ثقات کی مخالفت کرے‘‘۔ (ضعیف ابی داؤد: ج۲، ص۱۶۵)
محمد بن یوسف القطان نے السلمی پر دوسرا الزام یہ بھی لگایا ہے کہ وہ امام حاکم کی وفات کے بعد یحییٰ بن معین کی تاریخ سے اصم کی روایات بیان کرنے لگے۔ یہ جرح بھی مبہم ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل یا مثال نہیں ملتی۔
امام حاکم کا انتقال ۴۰۵ھ میں ہوا۔ اس وقت ابو عبدالرحمٰن السلمی کی عمر ۸۰سال تھی۔ کیا یہ توقع کی جا سکتی ہےکہ ایک شخص ساری زندگی زہد و تقویٰ کی زندگی گزارتا رہے اور بڑھاپے میں ایک معمولی بات کے ذریعے اپنے تمام نامہ اعمال کو سیاہ کر لے۔ اس لیے بظاہر السلمی کو وضع حدیث سے متہم کر نے یا دوسرے اعتراض سے قتہم کر نے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ (سیراعلام النبلاء: ج۷، ص۴۳۳)
امام ابو عبد اللہ الحاکمؒ فرماتے ہیں: ’’كثير السماع والطلب متقن فيه من بيت الحديث والزهد والتصوف‘‘۔ (سؤالات السجزی للحاکم: ص ۶۵)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتےہیں: ’’صوفیاء کے جن اکابر مشایخ کاتذکرہ ابو عبد الرحمٰن سُلَمی نے "طبقات الصوفیہ" میں اور ابو القاسم قُشیری نے "الرسالہ" میں کیا ہے، یہ سب مذہب اہل السنہ والجماعہ اور مذہب اہل الحدیث پر تھے، مثلاً: فضیل بن عیاض، جنید بن محمد [بغدادی]، سہل بن عبد اللہ تستری، عمرو بن عثمان مکی، ابو عبد اللہ محمد بن خفیف شیرازی وغیرہ، انکا کلام سنت وعقائد صحیحہ کے مطابق ہے، اور انہوں نے اس بارے میں کتب بھی تصنیف کی ہیں‘‘۔ (کتاب الصفدیۃ: ج۱، ص۲۶۷)
حافظ جمال الدین ابن الزکی المزیؒ نے اپنی کتاب تہذیب الکمال میں ابوعبدالرحمٰن سُلمی سے روایت نقل کرکے ان کی توثیق فرمائی ہے۔ ’’ابوعبدالرحمٰن محمد بن حسین السلمی صوفی کہتے ہیں کہ میں نے حافظ دار قطنی سے پوچھا کہ ابن خزیمہ اور نسائی جب کوئی حدیث روایت کریں تو آپ کس کو مقدم رکھیں گے؟ کہا: نسائی کو اس لیے کہ وہ بڑے مسندہیں، لیکن یہ بات بھی ہے کہ میں نسائی پر کسی کو بھی فوقیت نہیں دیتا گرچہ ابن خزیمہ بے مثال امام اور پختہ عالم ہیں‘‘۔ (تہذیب الکمال: ج۱، ص۳۳۴، ۳۳۵)
زبیرعلی زئی صاحب کاچوتھاجھوٹ: زبیرعلی زئی صاحب مولانا ظفراحمدعثمانیؒ کی کتاب ’’القول المنصور فی ابن المنصور، سیرت منصورحلّاج‘‘پراعتراض کرتےہوئےاپنےرسالے ماہنامہ الحدیث حضرومیں چوتھاجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عبدالکریم بن ہوازن نے رسالہ قشیریہ میں حسین الحلاج کو بطورِ ولی ذکر نہیں کیا۔ رسالہ قشیریہ اس کے ترجمہ سے خالی ہے۔ کسی دوسرے شخص کے حالات میں ذیلی طور پر اگر ایک موضوع روایت میں اُس کا نام آگیا ہے تو اس پر خوشی نہیں منانی چاہئے‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۹)
یہاں بھی زبیرعلی زئی صاحب نے کتنی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولا ہےکہ ’’کسی دوسرے شخص کے حالات میں ذیلی طور پر اگر ایک موضوع روایت میں اُس کا نام آگیا ہے تو اس پر خوشی نہیں منانی چاہئے‘‘، حالانکہ عبدالکریم بن ہوازن نے کسی دوسرے شخص کے حالات میں ذیلی طورپرنہیں بلکہ رسالہ قشیریہ کےمقدمہ میں حسین بن منصورحلّاجؒ کا مکمل عقیدہ توحید بیان کیااورساتھ ہی کتاب الشعب (توحیدسے واقفیت کے بیان) اورباب المحبۃ (عشق الہٰی کے بیان) میں بھی ان کا کلام درج کیاہے، جس سےاس بات کا واضح ثبوت ملتاہے کہ امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیریؒ نے حسین بن منصورؒ کا عقیدہ توحید اورعشق الہٰی کوصحیح تسلیم کیاہے۔
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیریؒ (متوفی: ۴۶۵) اپنی کتاب رسالۃ القشیریۃمیں روایت نقل کرتے ہیں کہ: ’’ہم کو شیخ ابوعبدالرحمٰن سلمیؒ نے خبردی کہ میں نے محمد بن غالب سے سناکہ انہوں نے ابو نصراحمدابن سعیدالاسفنجابی سے سناکہ حسین بن منصورنے فرمایاکہ اﷲتعالیٰ نے ہرچیزکے لئے حدوث لازم کردیا ہےکیونکہ قدیم ہونا اس کے لئے مخصوص ہے۔ پس جس چیز کاظہورجسم سے ہے اس کے لئے عرض لازم ہےاورجوچیزآلات واسباب سے مجتمع ہوئی ہے اس کی قوتیں اس کو تھامے ہوئے ہیں (یعنی وہ ان قوتوں کی محتاج ہے)اورجس چیزکوایک وقت مجتمع کرتاہےدوسراوقت اسکو متفرق کردیتاہےجسکواس کا غیرقائم کرتاہے۔ اس کو دوسرے کی احتیاج ہے جس پروہم کی دسترس ہوسکتی ہے، تصویرخیالی اس تک پہنچ سکتی ہے۔
اورجس کومحل اور مکان اپنے اندرلئے ہوئے ہےاس کوکیفیت مکانی محیط ہے جوکسی جنس کے تحت میں ہےاس کے لئے مکیف اورممیّزہونا لازم ہے۔ کیونکہ جنس کے تحت میں انواع ہوتی ہیں اورہرنوع دوسری نوع سے کسی فصل کے ذریعہ ممتازہوتی ہے۔ اﷲتعالیٰ پرنہ کوئی مکان قوق سایہ فگن ہے، نہ کوئی مکان تحت اس کواٹھائےہوئےہے، کوئی حداس کے سامنےنہیں اور کوئی قریب ونزدیک اس کامزاحم نہیں (یعنی اسکے نزدیک کوئی نہیں جو مزاحمت کااستعمال ہوسکے) نہ کوئی اس کواپنے پیچھے لے سکتاہےنہ سامنے ہوکراس کومحدودکرسکتاہے، نہ اولیّت نے اس کو ظاہرکیانہ بعدیت نے اس کی نفی کی، نہ لفظ کل نے اس کواپنے اندرلیا (کیونکہ نہ وہ کسی کل کا جزوہے نہ کلی کافردہے) نہ لفظ کان نے اس کو ایجادکیانہ لیس نے اس کومفقودکیا (یعنی جب یہ کہاجاتاہے کہ اﷲتعالیٰ ایساہےاورایسانہیں ہے تویہ مطلب نہیں کہ تمہارے بیان کے بعدوہ ایساہوگیااورتمہاری تزیہ کے بعدوہ ایسا نہیں رہا، بلکہ جن صفاتِ کمال سے وہ موصوف ہے ہمیشہ سے موصوف ہے اور جن عیوب سے وہ منزہ ہے ہمیشہ سے منزہ ہے)۔
اس کے وصف کے لئے کوئی تعبیرنہیں (اورجوتعبیرہے بھی وہ ناقص ہے) اسکے فعل کی کوئی علت نہیں، اسکے وجودکی کوئی نہایت نہیں (نہ ماضی میں نہ مستقبل میں کیونکہ وہ ازلی بھی ہے اور ابدی بھی)۔
وہ اپنی مخلوق کے احوال (وکیفیات)سے منزہ ہے اس کو اپنی مخلوق سے کسی قسم کا امتزاج (واختلاط) نہیں، نہ اس کے فعل میں آلات واسباب کی احتیاج، وہ اپنی قدامت کے سبب مخلوق سے الگ ہے، جیسامخلوق اپنے حدوث کے سبب اس سےالگ ہے (پس خالق مخلوق کے اندرنہ حلول کرسکتاہےنہ اس کے ساتھ متحدہوسکتاہے)۔
اگرتم کہوکہ وہ کب ہوا؟ تو اس کاوجودوقت (اورزمانہ سے) سابق ہےاگرتم ھوکہو(یعنی اس کی طرف ھویاوہ کہہ کراشارہ کرو) توہااورواؤاسی کے پیداکیئے ہوئے ہیں اور مخلوق سےخالق پراشارہ نہیں ہوسکتامحض یاد کے درجے ہیں یاتمام تصورہوسکتاہے۔ اگرتم کہووہ کہاں ہے؟ تو ہرمکان سے اس کاوجودمقدم ہے، حرف اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں)۔
اوراس کا وجودہی خوداس کا مثبت ہےاوراس کی معرفت یہ ہے کہ اس کوواحدجانو۔ اور توحیدیہ ہےکہ مخلوق سے اس کو ممتاز (اورالگ) سمجھو، جوکچھ وہم کے تصورمیں آتاہے وہ اس کے غیرکاہے۔
اور جوچیزاس (کےپیداکرنے) سے پیداہوئی وہ اس میں کیونکرحلول کرسکتی ہےکیونکہ حال ومحل میں اتحادہوتاہےاورحادث قدیم کے ساتھ متحدنہیں ہوسکتا، اور جس چیزکواس نے نشوونمادیا اس کی طرف کیونکرپہنچ سکتی ہے۔ آنکھیں اپنےاندراس کو نہیں لے سکتیں اور گمان اس کے پاس تک نہیں پہنچ سکتا۔
اس کا قرب یہ ہے کہ مکرم بناوے، اوربعدیہ ہےکہ ذلیل کردے۔
اسکی بلندی چڑھائی کے ساتھ نہیں، اس کاآنا بدون انتقال کےہے۔
وہ اوّل بھی ہے اور آخربھی، ظاہربھی ہےاور باطن بھی ہے، قریب بھی ہےاوربعید بھی، اسکی مثال مثل کوئی شئےنہیں، وہی سننے والادیکھنے والاہے‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۲۷-۲۸)
’’محمد بن احمداصفہانیؒ نے بتایاکہ ایک شخص حضرت حسین بن منصورؒکے قریب آکھڑاہوااورکہنے لگا، وہ حق کون ہے جس کی طرف صوفیہ اشارہ کرتے رہتے ہیں؟ فرمایاجوسب کوبنادینے والاہے مگراسے بنانے والاکوئی نہیں جسے اس کی علت قراردیاجائے‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۴۹۶)
’’حسین بن منصورؒ اﷲتعالیٰ سے اپنی محبت کا اظہاریوں فرماتے ہیں کہ: محبوب سے تمہاری محبت یہ ہے کہ اس کے سامنے اپنے تمام اوصاف بالائے طاق رکھ دو‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص۵۲۳)
اسی طرح خطیب بغدادیؒ نے ابوالطیب محمدبن الفرخان کے حوالےسےبھی روایت بیان کی ہے جس سے حسین بن منصورؒ کا صحیح العقیدہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔
خطیب بغدادیؒ نے ابوالطیب محمدبن الفرخان کے حوالے سے روایت کیاہےکہ: ’’میں نے حسین بن منصورسے سناوہ فرماتے تھے کہ اولین وآخرین کے علوم کاخلاصہ چارباتوں میں ہے۔ (۱) رب جلیل کی محبت (۲) متاع قلیل (یعنی دنیا) سے نفرت (۳) کتاب منزل کااتباع (۴) تغیّرحال کاخوف‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۲)
زبیرعلی زئی صاحب کاپانچواں جھوٹ: زبیرعلی زئی صاحب مولانا ظفراحمدعثمانیؒ کی کتاب ’’القول المنصور فی ابن المنصور، سیرت منصورحلّاج‘‘پراپنےدوسرےاعتراض میں پانچواں جھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’علمی میدان میں عبدالوہاب الشعرانی، خرافی صوفی بدعتی کے بے سند حوالوں سے کام نہیں چلتا بلکہ صحیح و ثابت سندوں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۱۰)
لگتاہے زبیرعلی زئی صاحب کے خودساختہ علمی میدان میں بے سند حوالوں سے توکام نہیں چلتا لیکن جھوٹ اورکذب بیانیوں سے ضرور کام چلتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف نے اپنی صرف چارصفحات پرمشتمل ناقص تحقیق کوصحیح ثابت کرنے کے لئےکتنی ڈھٹائی کے ساتھ پانچ جھوٹ بول ڈالے۔ زبیرعلی زئی صاحب کابلادلیل امام عبدالوہاب الشعرانیؒ کو خرافی صوفی بدعتی کہنا بہت بڑاجھوٹ اورصریح بہتان ہے۔
زبیرعلی زئی صاحب کے اس جھوٹے اوربے بنیادالزام کا مکمل رد امام عبدالوہاب الشعرانیؒ کی عقائد پرلکھی ہوئی کتاب ’’اليواقيت والجواهر فی بيان عقائد الأکابر‘‘سے ہوتا ہے، جس میں انہوں نے عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت، عقیدہ ختم نبوت، عقیدہ آخرت، عذاب قبر، جنت وجہنم اوردیگربنیادی عقائد کوقرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیاہے جس سے آپ کے صحیح العقیدہ ہونے کاواضح ثبوت ملتاہےاورساتھ ہی بدعت کی جامع ومعنیٰ تعریف قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرمائی ہے۔
امام عبد الوھاب الشعرانیؒ اپنی کتاب ’’الیواقیت و الجواہر فی بیان عقائد الاکابر‘‘ میں ایک استفتاء کے جواب میں بدعت حسنہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ’’(فإن قلت): فهل يلحق بالسنة الصحيحة في وجوب الإذعان لها ما ابتدعه المسلمون من البدعة الحسنة؟
(فالجواب): کما قاله الشيخ في الباب الثاني و الستين و مائتين: إنه يندب الإذعان لها ولا يجب کما أشار إليه قوله تعالي: ﴿وَرَهبَانِيّة أبْتَدَعُوها مَا کَتَبْنٰها عَلَيْهِم [الحديد:۲۷] وکما أشار إليها قوله صلي الله عليه وآله وسلم: ﴿من سن سنة حسنة فقد أجاز لنا ابتداع کل ما کان حسناً وجعل فيه الأجر لمن ابتدعه ولمن عمل به مالم يشق ذلک علي الناس، وأخبر أن العابد لله تعالى بما يعطيه نظره إذا لم يكن على شرع من الله تعالى معين يحشر أمة وحده، يعني بغير إمام يتبعه، فجعله خيرا ً وألحقه بالأخيار‘‘۔ ’’اگر تو اعتراض کرے کہ بدعت حسنہ میں سے جو نئی چیز مسلمانوں نے اختیار کی ہے کیا وہ وجوب اقرار میں سنت صحیحہ کے ساتھ (درجہ میں) مل جاتی ہے؟
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس نئی چیز یعنی بدعت حسنہ کا اقرار کرنا مندوب ہے نہ کہ واجب جیسا کہ اس چیز کی طرف اللہ تعالیٰ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے ﴿وَرَهبَانِيّة أبْتَدَعُوها مَا کَتَبْنٰها عَلَيْهِم[الحدید:۲۷] ، (انہوں نے اس رہبانیت کو از خود شروع کر لیا تھا یہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی) اور جیسا کہ اسی چیز کی طرف حضور نبی اکرمﷺکا یہ فرمان اشارہ کرتا ہے ﴿من سن سنة حسنة﴾(جس نے کوئی اچھا طریقہ شروع کیا) اور ہر وہ چیز جو اچھی ہو اسے شروع کرنا ہمارے لیے جائز ہے اور اس میں شروع کرنے والے کے لئے اور اس پر عمل کرنے والے کے لئے اجر رکھ دیا گیا ہے جب تک اس اچھی چیز پر عمل کرنا لوگوں کو مشقت میں نہ ڈالے‘‘۔ (الیواقیت و الجواہر فی بیان عقائد الاکابر: ج۲، ص۳۸۳)
جو شخص بدعت کی اتنی خوبصورت اورعمدہ تعریف قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کرے وہ خودبدعتی کیسے ہوسکتاہے، لہٰذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ زبیرعلی زئی صاحب کا بلادلیل بہتان جھوٹااوربے بنیادہے۔
زبیرعلی زئی صاحب کے اس بہتان کے جواب میں ضروری ہوگا کہ امام عبد الوھاب الشعرانیؒ کاسلسلہ نسب اورعلمی قابلیت کی مختصرتفصیل پیش کی جائے تاکہ قارئین کوان کے علمی مقام کاکچھ اندازہ ہوسکے۔
شیخ عبدالوھاب بن احمدبن علی الشعرانیؒ کےمختصرحالات
اِمام عبدالوہاب الشعرانیؒ کی وِلادت ۷۲ رمضان المبارک ۸۹۷ھ میں ہوئی اوروفات ۹۷۳ھ میں ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی اردو: ص۳۰) (المقاصد الحسنہ ،امام سخاوی: ص۲۷؛دارالکتب العربی)
آپ کا سلسلۂ نسب حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے: ’’آپ نے اپنا نسب یوں بیان فرمایاہےعبد الوہاب بن احمد بن علی بن احمد بن علی بن محمد بن زوفا ابن الشیخ موسیٰ جنہیں بہنساکے شہروں میں ابوعمران کی کنیت سے یاد کیاجاتاہے۔ آپ میرے چھٹے داداہیں۔ بن سلطان احمد بن سلطان سعید ابن سلطان قا شین ابن سلطان محیا بن سلطان زوفا بن ریان بن سلطان محمد بن موسیٰ ابن السیدمحمد بن الحنفیہ بن الامام علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی اردو: ص۲۹) (ارشاد الطالبین الامام عبدالوہاب الشعرانی: ص۱۱؛دارالکتب العلمیہ بیروت)
آپ اپنے سلسلۂ نسب وشرافت نسبی کی برکات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اگرچہ غالب طورپرتقویٰ کے بغیرنسبی شرافت نفع نہیں دیتی لیکن کبھی کچھ فائدہ حاصل ہوتاہےجیساکہ اﷲتعالیٰ نے اس کااشارہ اپنے اس ارشادمیں فرمایاہے ﴿وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا﴾[کہف: ۸۲] (جن دویتیم بچوں کی دیوارحضرت خضراورموسیٰ علیٰ نبیناوعلیہم الصلوٰۃ والسلام نے کھڑی کردی) ان دونوں کا باپ نیک تھا۔ اگریہ بات نہ ہوتی کہ ان کاباپ صالح تھاتووہ اس انعام میں داخل نہ ہوتےاوراس کی صفت صلاح کی تصریح فرمانے کاچنداں فائدہ نہ ہوتا۔ پس میں اﷲتعالیٰ کی حمدکرتا ہوں کہ اس نے مجھے نادرفی بادشاہوں کی اولاد میں سے کیا‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی اردو: ص۲۹)
کُتبِ احادیث کے معروف شارح و محدثینِ متاخرین کی سنَد حضرت امام عبدالرؤف المناویؒ (متوفی: ۱۰۳۱ھ) اپنی کتاب ’’الکواکب الدریہ فی تراجم السادۃ الصوفیہ الطبقات الکبریٰ‘‘ میں امام شعرانیؒ کی شان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عبدالوھاب بن احمد الشعرانی ہمارے شیخ ہیں، امام ہیں، عالم وعامل ہیں، لوگوں کی نظرمیں فضیلت رکھنے والے باعزت شخصیت ہیں اوروصیلہ رکھتے ہیں، عبادت گزارہیں، پرہیزگارہیں، فقیہہ ہیں، محدث ہیں، صوفی ہیں، بزرگ ہیں، صاحب نسبت ہیں اورامام محمدبن حنفیہ رضی اﷲعنہ کی اولادمیں سے ہیں‘‘۔ (طبقات الکبریٰ للمناوی: ج۳، ص۳۹۲؛ دار صادر بیروت)
امام شھاب الدین احمدبن محمد العکری حنبلی دمشقیؒ(متوفی۱۰۸۹ھ) اپنی کتاب ’’شذرات الذھب فی اخبارمن ذھب‘‘ میں امام شعرانیؒ کی شان کچھ اس طرح بیان کرتےہیں: ’’شیخ عبدالوھاب بن احمد الشعرانی شافعی کے بارے میں شیخ عبدالرؤف المناوی "طبقات الکبریٰ" میں بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ امام عالم وعامل ہیں، عبادت گزارہیں، پرہیزگارہیں، فقیہہ ہیں، محدث ہیں، صوفی ہیں، بزرگ ہیں، صاحب نسبت ہیں اورامام محمدبن حنفیہ رضی اﷲعنہ کی اولادمیں سے ہیں‘‘۔ (شذرات الذھب ابن عماد الحنبلی: ج۸، ص۵۴۴)
امام عبدالرؤف المناویؒ آپ کی کرامت کے بیان میں لکھتے ہیں: ’’جو کتب آپ نے حفظ فرمائیں ان میں سے صرف چند ایک کے نام یہ ہیں، المنہاج النووی، الفیتین، تو ضیح ابن ہشام، تلخیص المفتاح،شاطبیہ،اورقوائدابن ہشام، الرَّوض۔ میں نے تاریخ اور طبقات کی کتب میں آج تک کسی کے حالات میں یہ نہیں دیکھا کہ اسے اتنی(یعنی امام شعرانی کی طرح) کتابیں حفظ ہوں‘‘۔ (طبقات الکبریٰ للمناوی:  ج۳، ص۳۹۲؛ دار صادر بیروت)
حضرت امام شعرانی ؒ عالم اسلام کی عظیم وقدیم درس گاہ جامعہ الازہر الشریف میں داخل ہوئے اور مصر کے تقریباً پچاس مشائخ کے سامنے زانوئے تلمّذ تہ فرمایا اور علومِ منقولات و معقولات حاصل کیئے جن میں مشہور اساتذہ کے اسما گرامی یہ ہیں: ’’شیخ امین الدین جامع الغمری کے امام جن سے آپ نے المنھاج، جمع الجوامع، شرح الفیہ عراقی، الفیہ ابن مالک پڑھیں۔ شیخ شمس الدواخلی سے شرح الارشاد، الروض، شرح الفیہ ابن مصنف، شرح التوضیح، مطول، شرح جمع الجوامع، شرح الفیہ للعراقی۔ النورالمحلی سے شرح جمع الجوامع اور حاشیہ المعلقات السبع، شرح المقاصد۔ ملا علی عجمی سے نحو کی تمام کتب، الاشمعونی سے المنہاج، الفیہ، جمع الجوامع۔ شیخ الاسلام زکریا سے رسالہ قشیریہ، الروض، التحریر ، آداب البحث اوران کے علاوہ بھی بہت ساری کتب پڑھیں‘‘۔ (طبقات الکبریٰ للمناوی: ج۳، ص۳۹۳؛ دار صادر بیروت)
امام شعرانی ؒامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد تھے لیکن باقی ائمہ مجتہدین اور ان کی تحقیقات کے متعلق اس قدر عقیدت و محبت رکھتے تھے جس قدر ان کے مقلد ین کو اپنے امام کے ساتھ عقیدت و محبت ہوتی ہے۔ عبد الحی بن أحمد بن محمد ابن العماد العكری الحنبلیؒ لکھتے ہیں: ’’آپ خود فرماتے ہیں کہ میں اپنے مذہب کی کتابوں کی بہ نسبت باقی تین مذاہب کے ائمہ یعنی امام ابو حنیفہ، امام مالک، اور امام احمد بن حنبل رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی کتابوں کا مطالعہ زیادہ کرتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب امام شافعی ؒکے مذہب میں تبحر (مہارت)حاصل کرلیا تو مجھے ایسے مسائل کی معرفت کی ضرورت محسوس ہوئی جن پر چاروں ائمہ کرام کا اجماع ہو یا پھر تین ائمہ جن پر متفق ہوں تاکہ میں ان کے ممنوعات پر عمل سے پرہیز کر سکوں اور جس کا انہوں نے حکم دیا ہے اس پرعمل کر سکوں‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی اردو: ص۳۴) (شذرات الذھب ابن عماد الحنبلی: ج۸، ص۵۴۶)
آپ نےاپنے استاذ شیخ زکریا انصاری کی تصنیف ’’الروض‘‘ کا مطالعہ تیس بار کیا۔ اما م شافعیؒ کی کتاب ’’الأم‘‘کا مطالعہ تین بار کیا۔ شیخ محی الدین ابن عربی کی تیس جلدوں پر مشتمل کتاب ’’المختصر‘‘کا ایک بار، امام الماوردی کی کتاب ’’الحاوی‘‘اور’’الاحکام السلطانیہ‘‘ کا ایک ایک مرتبہ، شیخ ابو محمد الجوینی کی کتاب ’’المحیط‘‘ ایک بار، امام غزالیؒ کی’’الوسیط‘‘ ایک بار، شرح المہذب پچاس بار، شرح مسلم للنووی (اٹھارہ جلدیں) پندرہ مرتبہ، علامہ بدر الدین عینی کی شرح بخاری(۵۴جلدیں )دوبار۔
کتب تفسیر: تفسیر کواشی دس بار، تفسیر ابن نقیب المقدسی (۱۰۰جلدوں پرمشتمل ہے) کاایک بار، تفسیر جلالین تیس بار، تفسیر بغوی،تفسیر خازن،تفسیر ابن عادل،تفسیر ابن زہرہ، تفسیر قرطبی،تفسیر ابن کثیر،تفسیر بیضاوی۔
کتب احادیث: صحاح ستہ،صحیح ابن خزیمہ،صحیح ابن حبان، مسندامام احمد، مؤطا امام مالک، طبرانی، جامع الاصول، جامع کبیر، جامع صغیر، زیادات۔
کتب لغت:صحاح الجوہری، قاموس، نہایۃ ابن اثیر، نووی کی تہذیب الاسمائ اللغات۔
کتب اصول وکلام: شرح العضد، شرح منہاج البیضاوی، کتاب المستصفی، کتاب الامالی، شرح المقاصد، شرح عقائد۔
کتب فتاویٰ: فتاویٰ القفال، فتاویٰ القاضی الحسین، فتاویٰ الماوردی، فتاویٰ ابن ابی صباغ، فتاویٰ ابن الصلاح، فتاویٰ ابن السلام، فتاویٰ النووی، فتاویٰ السبکی، فتاویٰ البلقینی، فتاویٰ الشیخ زکریا۔
کتب قوائد: قواعد الشیخ عزالدین البکری والصغریٰ، قواعد العلائی، قواعد السبکی، قواعد الزرکشی۔
کتب سیرت: سیرت ابن ہشام، سیرۃ ابن اسحاق، سیرت الکلبی، سیرۃ ابی الحسن البکری، سیرت الطبری، سیرت الکلائی۔
کتب تصوف:قوت القلوب، حلیۃ الاولیائ، رسالہ قشیریہ، عوارف المعارف، احیائ العلوم، الفتوحات المکیۃ۔
امام شعرانیؒ فرماتے ہیں یہ ان چند کتابوں کا ذکر ہے جن کا مطالعہ کرنا مجھے یاد ہے۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی اردو: ص۳۲-۳۳) (المنن الکبریٰ الامام عبدالوہاب شعرانی: ص۷۰-۷۶؛ دارالکتب العلمیہ)
معروف مستشرق آر، اے، نکلسن نے اپنی شہرہ آفاق تحقیق ’’تاریخ ادبیاتِ عرب‘‘میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی علمی صحبت کے فوائد تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہمارے لئے مفید ہوگا کہ اگر ہم چندلمحات مسلمانوں کے آخری صوفی وعالم شیخ عبدالوہاب شعرانی کے ساتھ گزاریں۔ وہ(امام شعرانی) ایک ایسے محقق اورمفکر عالِم ہیں کہ اُن کے اَثرات موجودہ دور میں بھی نمایاں طریقے سے محسوس کئے جارہے ہیں‘‘۔ (Literary History of the Arabs, By R.A. Nicholson, Page # 464 Cambridge University Press)
ایسی جلیل القدرشخصیت جن کا سلسلۂ نسب حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہو، علم کا ایسا حریث جنہوں نے علم تفسیر، علم حدیث، فقہی علوم، علم لغات، اصول وقوائد، فتاوجات اورسیرت وتصوف کے تمام شعبہ جات میں مہارت حاصل کررکھی ہو، جن کی توثیق بڑےبڑے ائمہ دین سمیت معروف مستشرق آر، اے، نکلسن جیسے مغربی مورخ نے کررکھی ہو، ایسی جلیل القدرعلمی شخصیت کے بارے میں زبیرعلی زئی صاحب جیسے کذاب لوگوں کابلادلیل اعتراض کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
اس قدرجھوٹ بولنے کے بعدبھی زبیرعلی زئی صاحب کتنی بے شرمی کے ساتھ اپنے رسالہ میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’الحدیث حضروکایہ امتیاز ہے کہ الحدیث میں صرف صحیح وثابت حوالہ ہی بطوراستدلال لکھاجاتاہے‘‘۔ اس قدرجھوٹ اورکذب بیانی توکسی فرقے کے جہلا بھی نہیں کرتے جتنے جھوٹ وکذب بیانیاں غیرمقلدین کے شیخ الحدیث زبیرعلی زئی صاحب نے کیں ہیں۔ ان کذب بیانیوں کے ساتھ موصوف کے دعووں پرنظرثانی کی جائےتو افسوس کرنے کے بجائے ہنسی آنی شروع ہوجاتی ہےکہ موصوف کذب بیانیوں کے باوجود بھی کافی خوش فہم نظرآتے ہیں۔
زبیرعلی زئی صاحب کے حسین بن منصورحلّاجؒ پرلگائے گئے الزامات اورکیئے جانے والےکھوکھلے دعووں پران سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ کسی ایک صحیح صریح روایت سے حسین بن منصورحلّاجؒ کا کافروزندیق ہونا ثابت کردیں ورنہ اپنی ان تمام کذب بیانیوں اورجھوٹے دعووں سے رجوع فرمائیں اور اپنی عاقبت خراب ہونے سے بچائیں۔  جزاکم اﷲخیرً