-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Wednesday 21 June 2017

روزہ کھولنے سے پہلے کی دعا ’’اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ‘‘ کے صحیح ہونے کی جامع و مدلل تحقیق

اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم
روزہ کھولنے سے پہلے کی دعا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار فرماتےتو یہ دعا پڑھتے : ’’اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ‘‘۔ ”اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا“۔ (سنن ابی داؤد: كتاب الصوم، باب الْقَوْلِ عِنْدَ الإِفْطَارِ، رقم الحدیث ۲۳۵۸)
روزہ کھولنے کےبعد کی دعا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے : ’’ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ‘‘۔ ”پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا “۔ (سنن ابی داؤد، كتاب الصوم، باب الْقَوْلِ عِنْدَ الإِفْطَارِ، رقم الحدیث ۲۳۵۷)
روزہ کھولنے سے پہلے کی دعا’’اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ‘‘کی مکمل تحقیق
’’حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ،’’كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ‘‘۔ ’’نبی کریم ﷺ جب افطار کرتے تو فرماتے: اےاللہ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے رزق پر افطار کیا‘‘۔ (الزهدوالرقائق الاامام ابن المبارك المزوریؒ ۱۸۱ھ: ج۱،ص۴۹۵)(کتاب الدعاء امام محمد بن فضيل الضبیؒ ۱۹۵ھ: ج۱،ص۲۳۷) (السنن امام ابو داودؒ ۲۷۵ھ: ج۳، ص۱۴۸) (المصنف حافظ ابن ابی شیبہؒ ۲۳۵ھ: ج۶، ص۳۲۹) (السنن الکبریٰ امام بیہقیؒ ۴۵۸ھ: ج۸،ص۵۳۴) (شرح السنۃ امام البغویؒ ۵۱۶ھ: ج۶،ص۲۶۵)
مندرجہ بالا روایت کے مرکزی روای حضرت معاذ بن زہرہ رحمہ اﷲہیں جوکہ تابعی ہیں۔ اس روایت کی متابعت میں کئی دوسری روایات صحیح وضعیف اسنادسےموجودہیں جن میں سے ایک روایت جلیل القدر تابعی امام الربيع بن خثيمؒ ۶۵ھ سے مروی ہے: ’’قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ ‘‘۔ (طبقات ابن سعد: ج۸، ص۳۰۹، الربيع بن خثيم، یہ سند حسن ہے)
امام الربيع بن خثيمؒ نے نبی اکرم ﷺ کا زمانہ پایا ہے لیکن زیارت نہیں کی۔یعنی مخضرم ہیں۔ آپ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بڑے شاگردوں میں سے ہیں۔
امام شَقِيْقُ بنُ سَلَمَةَ أَبُو وَائِلٍ ۸۰ھ جو کہ خود بھی مُخَضْرَمٌ (أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا رَآهُ) ہیں۔ جن کے بارے میں یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں: ’’لاَ يُسْأَلُ عَنْ مِثْلِهِ‘‘ ان سے پوچھا گیا۔ ’’أَنْتَ أَكْبَرُ أَوِ الرَّبِيْعُ بنُ خُثَيْمٍ؟ قَالَ: أَنَا أَكْبَرُ مِنْهُ سِنّاً، وَهُوَ أَكْبَرُ مِنِّي عَقْلاً‘‘۔
امام ذہبیؒ امام الربیع بن خثیم ؒ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’الإِمَامُ، القُدْوَةُ۔ أَدْرَكَ زَمَانَ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَأَرْسَلَ عَنْهُ۔ قَالَ الشَّعْبِيُّ: مَا رَأَيْتُ قَوْماً قَطُّ أَكْثَرَ عِلْماً، وَلاَ أَعْظَمَ حِلْماً، وَلاَ أَكَفَّ عَنِ الدُّنْيَا مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللهِ، وَلَوْلاَ مَا سَبَقَهُمْ بِهِ الصَّحَابَةُ، مَا قَدَّمْنَا عَلَيْهِمْ أَحَداً‘‘۔ پھران کی انتہائی فضیلت کے لئے عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہ فرمان کافی ہے: ’’فَقَالَ لَهُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: يَا أَبَا يَزِيْدَ، لَوْ رَآكَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لأَحَبَّكَ، وَمَا رَأَيْتُكَ إِلاَّ ذَكَرْتُ المُخْبِتِيْنَ‘‘۔ امام ذہبی ؒ یہ نقل کر کے فرماتے ہیں: ’’فَهَذِهِ مَنْقَبَةٌ عَظِيْمَةٌ لِلرَّبِيْعِ‘‘۔ (سیر اعلام النبلا: ج۴، ص۲۵۸)
ایسے بڑی فضیلت والے مخضرم تابعی بالکل انہی اور ان جیسے الفاظ میں یہ دعا پڑھتے تھے ۔ اور یہ کوفہ کے رہنے والے ہیں جو اکثر مرفوع روایات کو بھی مرفوع بیان نہیں کرتے تھےتاکہ اگر الفاظ میں کوئی کمی بیشی ہو جائے تو اس کا انتساب نبی اکرمﷺ سے نہ ہو۔
حضرت معاذ بن زہرہؒ کی روایت کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہ روایت مرفوع بھی مروی ہےجواس کی متابعت میں امام الربیع بن خثیم کی روایت کے ساتھ ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اﷲعنہ اور حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ سےضعیف اسنادکے ساتھ مرفوع بھی مروی ہیں جو کہ اس کی تائید میں مزید تقویت بخشتی ہے۔
’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شَبِيبٍ الْعَسَّالُ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ الزِّبْرِقَانُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ، لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ» لَمْ يَرْوِهِ عَنْ شُعْبَةَ إِلَّا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ تَفَرَّدَ بِهِ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو، وَلَا كَتَبْنَاهُ إِلَّا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ‘‘۔ (المعجم الصغير للطبرانی: ج۲، ص۱۳۳- ۱۳۴)
’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا يُوسُفُ بْنُ قَيْسٍ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ»‘‘۔  (المعجم الکبیر للطبرانی: ج۱۲، ص۱۴۶)
مندرجہ بالا احادیث کی تائیدکی وجہ سےیہ روایت مرسل حسن درجے کوپہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو داودؒ نے بھی اس پر سکوت فرمایا ہے۔جو کہ ان کے نزدیک قابل احتجاج ہوتا ہے۔
حافظ ابن ملقنؒ۸۰۴ھ تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج للنووی میں فرماتے ہیں: ’’رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَلم يُضعفهُ وَهُوَ مُرْسل‘‘۔ ’’یعنی امام ابو داود نے اس کی تضعیف نہیں کی‘‘۔ (تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج للنووی: ج۲، ص۹۶)
دوسرے لفظوں میں وہ امام ابو داودؒ کے قاعدہ سے استدلال کر رہے ہیں ۔جو انہوں نے فرمایا ہے کہ جس حدیث پر وہ سکوت کریں گے وہ قابل احتجاج ہے۔ ابن الملقنؒ نے خود بھی اس کی سند کو مرسل حسن قرار دیا ہے۔ (بدر المنیر تخریج شرح الکبیر:ج٥، ص۵۵۸)
اسی طرح شیخ الاسلام زکریا الانصاریؒ ۹۲۶ھ نے بھی اس کو مرسل حسن فرمایا ہے۔ (فتح الوهاب شرح منہج الطّلاب: ج۱، ص۱۲۲)
حافظ ابن حجر العسقلانیؒ نےهداية الرواة إلى تخريج احاديث المصابيح والمشكاة، ج۲،ص۳۲۳ پہ سنن ابو داود کا حوالہ دے کر اس روایت پر سکوت کیا ہے جو ان کے نزدیک حسن ہونے کی علامت ہے۔
کتاب کے مقدمہ ج۱، ص۵۸ میں ابن حجرؒ اپنا منہج یوں بیان کرتے ہیں کہ: ’’منہج الحکم علی الاحادیث :
فا لتزمت فی ھذا التخریج ان ابین حال کل حدیث من الفصل الثانی، من کونہ صحیحا، او ضعیفا، او منکرا، او موضوعا، وما سکت عن بیانہ فھو حسن‘‘۔ (هداية الرواة إلى تخريج احاديث المصابيح والمشكاة: ج۱،ص۵۸)
ابن حجر الهيتمي تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج میں فرماتے ہیں: ’’وَلَا يَضُرُّ إرْسَالُهُ؛ لِأَنَّهُ فِي الْفَضَائِلِ عَلَى أَنَّهُ وَصْلٌ فِي رِوَايَةٍ‘‘۔ (تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج: ج۳، ص۴۲۵)
علامہ ناصرالدین البانیؒ اپنی کتاب اروءالغلیل جلدنمبر۴، صفحہ نمبر۳۹-۳۸ پر اس حدیث کے بارے میں طویل بحث کے بعد آخرمیں لکھتے ہیں: ’’ومع ذلک صحیح حدیثھم جمیعاً‘‘ ’’اس کے باوجودیہ حدیث صحیح ہے‘‘۔ (اروءالغلیل جلدنمبر۴، صفحہ نمبر۳۹)
امام شوکانیؒ کی فقہ کی مشہورومعروف کتاب ’’الدُّررالبھیّہ‘‘جس کی تخریج و تحقیق مشہورعرب عالم ومحقق علامہ ناصرالدین البانیؒ نے کی اور اس کا ترجمہ وتشریح حافظ عمران ایوب لاہوریؒ نے ’’فقہ الحدیث‘‘ نامی کتاب میں کی۔ اس کتاب میں افطاری کی دعاکے باب میں یہ دعانقل کرنے کے بعدنیچے لکھتے ہیں: ’’شیخ ناصرالدین البانیؒ بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث شواہد کی بناپرقوی ہوجاتی ہے‘‘۔ (فقہ الحدیث: ج۱، ص۷۲۷بحوالہ المشکاۃ المصابیح البانیؒ)
مرسل حدیث کے حجت ہونے کی تائید میں علماء دین کے مختلف مذاہب اور اقوال
۱۔ ’’(وَاحْتَجَّ) الْإِمَامُ (مَالِكٌ) هُوَ ابْنُ أَنَسٍ فِي الْمَشْهُورِ عَنْهُ وَ (كَذَا) الْإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ (النُّعْمَانُ) بْنُ ثَابِتٍ (وَتَابِعُوهُمَا) الْمُقَلِّدُونَ لَهُمَا، وَالْمُرَادُ الْجُمْهُورُ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ، بَلْ وَجَمَاعَةٌ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ، وَالْإِمَامُ أَحْمَدُ فِي رِوَايَةٍ حَكَاهَا النَّوَوِيُّ وَابْنُ الْقَيِّمِ وَابْنُ كَثِيرٍ وَغَيْرُهُمْ۔ وَحَكَاهُ النَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ عَنْ كَثِيرِينَ مِنَ الْفُقَهَاءِ أَوْ أَكْثَرِهِمْ‘‘۔’’(حجت ہے) امام (مالکؒ )ابن انس سےمشہورہےاور(ان کے ساتھ ساتھ) امام ابوحنیفہؒ (نعمان) بن ثابت(اوران کے پیروکاروں)مقلدین سے، یعنی دونوں فریقوں کے جمہورناظرین اور جماعت محدثین سےاورامام احمدؒ کی ایک روایت سےجسے حکایت کیا ہے امام نوویؒ نے، ابن القیمؒ ، ابن کثیرؒوغیرہ سے۔ اور اس بات کو حکایت کیاہے شرح المہذب میں امام نوویؒ نے اکثرفقہاءسے‘‘۔ (فتح المغیث بشرح الفیۃالحدیث: ص۲۴۶)
۲۔ امام ابوداؤدؒ اپنے رسالہ میں فرماتے ہیں کہ: ’’وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ فِي رِسَالَتِهِ: وَأَمَّا الْمَرَاسِيلُ فَقَدْ كَانَ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ يَحْتَجُّونَ بِهَا فِيمَا مَضَى، مِثْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكٍ، وَالْأَوْزَاعِيّ حَتَّى جَاءَ الشَّافِعِيؒ فَتكلم فِي ذَلِك، وَتَابعه علىہ أَحْمد بن حَنْبَل وَغَيره‘‘۔ ’’مراسیل روایات سےگذشتہ زمانوں میں اکثر علماءدلیل لیاکرتے تھے۔ مثلاً(امام سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ )جب امام شافعیؒ آئے توانہوں نےاس میں کلام کیا اوراسی طرح احمدبن حنبلؒ وغیرہ کے بعدوالوں سے‘‘۔ ( فتح المغیث بشرح الفیۃالحدیث: ص۲۴۶)
۳۔ ’’الْمَرَاسِيلُ حُجَّۃَ مُطْلِقاً، فَقَدْ نُقِلَ عَنْ مَالِكٌ، وَأَبِی حَنِيفَةَ، وَأَحْمَدُ فِي رِوَايَةٍ حَكَاهَا النَّوَوِيُّ، وَابْنُ الْقَيِّمِ، وَابْنُ كَثِيرٍ وَغَيْرُهُمْ۔ وَحَكَاهُ النَّوَوِيُّ أیضاً فِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ عَنْ كَثِيرِينَ مِنَ الْفُقَهَاءِ أَوْ أَكْثَرِهِمْ‘‘۔’’مرسل مطلقاًحجت ہے۔ یہ بات منقول ہے امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام احمدؒ کی ایک روایت سےجسے حکایت کیا ہے امام نوویؒ نے، ابن القیمؒ ، ابن کثیرؒوغیرہ سے۔ اور اس کے علاوہ حکایت کیاہے شرح المہذب میں امام نوویؒ نے اکثرفقہاءسے‘‘۔(المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۲۷)

۴۔ حافظ ابن رجب حنبلیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’وَاحْتَجَّ بالْمَرَاسِيلُ أَبُوحَنِيفَةَ وَأصْحَاْبَہ، وَمَالِكٍ وَأصْحَاْبَہ، وَکَذَا الشَّافِعِي وَأَحْمَدُ وَأصْحَاْبَہما‘‘۔’’مرسل روایات سے دلیل پکڑتے ہیں امام ابوحنیفہؒ اوران کے اصحاب، امام مالکؒ اوران کے اصحاب، امام شافعیؒ اورامام احمدؒ اور ان کے اصحاب بھی‘‘۔(المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۳۹)
۵۔ ’’وَقاَأما الْمَرَاسِيل فقد كَانَ يحْتَج بهَا الْعلمَاء فِيمَا مضى مثل سُفْيَان الثَّوْريّ وَمَالك بن أنس وَالْأَوْزَاعِيّ حَتَّى جَاءَ الشَّافِعِي فَتكلم فِيهَا وَتَابعه على ذَلِك أَحْمد بن حَنْبَل وَغَيره رضوَان الله عَلَيْهِم ‘‘۔ ’’مراسیل روایات سےگذشتہ زمانوں میں علماءاحتجاج کیا کرتے تھے۔ مثلاً(امام سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ )جب امام شافعیؒ آئے توانھوں نےمرسل کی حجیّت میں کلام کیا اوراسی طرح احمدبن حنبلؒ وغیرہ کے بعدوالوں سے‘‘۔ (المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۲۵)
۶۔ تمام تابعین کرامؒ بھی اس کی حجیت کے قائل ہیں چنانچہ علامہ ابن جریر ؒ فرماتے ہیں : ’’وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَأَجْمَعَ التَّابِعُونَ بِأَسْرِهِمْ عَلَى قَبُولِ الْمُرْسَلِ، وَلَمْ يَأْتِ عَنْهُمْ إِنْكَارُهُ، وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ إِلَى رَأْسِ الْمِائَتَيْنِ۔ قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: كَأَنَّهُ يَعْنِي أَنَّ الشَّافِعِيَّ أَوَّلُ مَنْ رَدَّهُ‘‘۔ ’’تابعین سب کے سب اس امر پر متفق تھے کہ مرسل قابل احتجاج ہے ۔ تابعین سے لے کر دوسری صدی کے آخر تک ائمہ میں سےکسی شخص نے مرسل کے قبول کرنے کا انکار نہیں کیا ۔ امام ابن عبدالبرؒفرماتے ہیں کہ گویاامام شافعیؒ ہی وہ پہلےبزرگ ہیں جنہوں نے مرسل کے ساتھ احتجاج کا انکار کیاہے‘‘۔(تدریب الراوی: ص۲۲۳؛ منیۃالالمعی: ص۲۷؛ توجیہہ النظر: ص۲۴۵؛ ومقدمہ فتح الملھم: ص۳۴)
۷۔ ’’ومذهب مالك وأبى حنيفة وأحمد وأكثر الفقهاء أنه يحتج به ومذهب الشافعى أنه اذا انضم إلى المرسل ما يعضده احتج به وذلك بأن يروى أيضا مسندا أو مرسلا من جهة أخرى أو يعمل به بعض الصحابة أو أكثر العلماء‘‘۔ ’’امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام احمدؒ اور اکثرفقہاءکامذہب ہے کہ مرسل قابل احتجاج ہے اورامام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگرمرسل کے ساتھ کوئی تقویت کی چیزمل جائے تو وہ حجت ہوگا، مثلاًیہ کہ وہ مسنداًبھی مروی ہویادوسرےطریق سے وہ مرسل روایت کیا گیاہویا بعض حضرات صحابہ کرامؓ یا اکثرعلماءنے اس پرعمل کیاہو‘‘۔ (مقدمہ نووی برشرح مسلم: ج۱، ص۲۹)
۸۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ مراسیل سےاحتجاج اورعدم احتجاج کےبارےمیں بحث کرتےہوئےلکھتےہیں: واماالمراسیل قدتنازع الناس فی قبولھاوردّھاواصحّ الاقوال ان منھاالمقبول والمردودمنھاالموقوف فمن علم من حالہ افہ لایرسل الاعن ثقہ قبل مرسلہ ومن عرف انہ یرسل عن الثقۃوغیرالثقۃ کان ارسالہ روایۃ عن من لایعرف حالہ فھذاموقوف وماکان من المراسیل مخالفاً لمارواہ الثقات کان مردوداً واذاکان المرسل من وجھین کل من الراویین اخذالعلم عن شیوخ اٰخرفھٰذا یدل علیٰ صدقہ فان مثل ذٰلک لایتصورفی العادۃ تماثل الخطأفیہ وتعمدالکذب“۔ ’’بہرحال مراسیل کے قبول اورردکرنے میں لوگوں نے اختلاف کیاہےاور صحیح ترقول یہ ہے کہ مراسیل میں مقبول ومردوداور موقوف سبھی اقسام ہیں سوجس کے حال سے یہ معلوم ہواکہ وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہے تواس کامرسل قبول کیاجائے گااور جو ثقہ اور غیرثقہ سب سے ارسال کرتا ہےاور جس سے اس نے حدیث مرسل روایت کی ہے اس کا علم نہیں تو ایسی مرسل حدیث موقوف ہوگی اور جو مراسیل ثقات کی روایت کے خلاف ہوں تو وہ مردود ہوں گے اور جب مرسل دو طریقوں سے مروی ہو ایک مرسل الگ شیوخ سے اور دوسراالگ سےتو یہ اس کے صدق پر دلالت کرتا ہے کیونکہ عادتاً اس میں خطاء اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کا تصورنہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (منہاج السنۃ: ج۴،  ص۱۱۷)
۹۔ موجودہ دور کے محقق علامہ زاہد الکوثریؒ(متوفی۱۳۷۲ھ) لکھتے ہیں: ’’والاحتجاج بالمرسل کان سنۃ متوارثۃ جرت علیہ الامۃ فی القرون الفاضلۃ حتیٰ قال ابن جریرؒردالمرسل مطلقاًبدعۃ حدثت فی رأس المأتین۔ کماذکرہ الباجیؒ فی اصولہ وابن عبدالبرؒ فی التمھیدوابن رجبؒ فی شرح علل الترمذی“۔ ’’مرسل کے ساتھ احتجاج کرناایک ایسا متوارث طریق تھا جس پر قرون فاضلہ میں امت عمل پیرارہی ہے۔ امام ابن جریرؒنےتویہاں تک کہاہے کہ مطلقاًمرسل کو رد کرنا بدعت ہے جو دوسری صدی کے آخرمیں ایجاد ہوئی جیساکہ علامہ باجیؒ نے اپنے اصول میں اور ابن عبدالبرؒنے تمہیدمیں اور ابن رجب ؒنے شرح علل ترمذی میں ذکرکیاہے‘‘۔ (تانیب الخطیب: ص۱۵۲، طبع مصر)
۱۰۔ مشہورغیرمقلدعالم نواب صدیق حسن خان صاحبؒ اور علامہ جزائریؒ لکھتے ہیں: ’’واماالمراسیل فقدکان یحتج بھاالعلماءفیما مضیٰ مثل سفیان الثوریؒ ومالک بن أنسؒ والاوزاعیؒ حتیٰ جاءالشافعیؒ فتکلم فیھا‘‘۔ ’’مراسیل کے ساتھ گذشتہ زمانوں میں علماءاحتجاج کیا کرتے تھے۔ مثلاً(امام سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ )جب امام شافعیؒ آئے توانھوں نےمرسل کی حجیّت میں کلام کیا‘‘۔ (الحطۃفی ذکرانصحاح السنۃ: ص۱۰۶؛ وتوجیہ النظر: ص۲۴۵)
۱۱۔ حضرت امام شافعیؒ نے مراسیل کی بحث اپنی کتاب الرسالۃ فی اصول فقہ صفحہ نمبر۶۳طبع بولاق میں کی ہے۔ چنانچہ امام شافعیؒ کا مشہورقول یہ بتایا گیاہے کہ: ’’قال الشافعیؒ: وارسال ابن المسیب عندنا حسن‘‘۔ ’’امام شافعیؒ فرماتے ہیں: ابن المسیب کا ارسال حسن درجے کاہے‘‘۔(المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۳۳)
۱۲۔’’اشْتُهِرَ عَنِ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ لَا يَحْتَجُّ بِالْمُرْسَلِ، إِلَّا مَرَاسِيلَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ‘‘۔ ’’امام شافعیؒ کامشہور قول یہ بتایاگیا ہےکہ ان کے نزدیک سعیدبن المسیب کی مراسیل کے علاوہ مرسل حجت نہیں‘‘۔(تدریب الراوی: ص۲۲۴)
جلیل القدرمحدثین اس دعا کے استحباب کے قائل ہیں
امام بیہقی رحمہ اﷲ ۴۵۸ھ:
امام بیہقیؒ بھی اس دعا کے استحباب کے قائل ہیں۔ انہوں نے اپنی کئی کتب مثلاًشعب الایمان، دعوات الکبیر، فضائل الاوقات، السنن الکبریٰ، السنن الصغریٰ۔ میں یہ روایت نقل کی ہے۔ امام بیہقیؒ کی عادت ہے کہ وہ ناقابل استدلال روایت پر خاموش نہیں رہتے۔ انہوں نے خود اپنا طرز عمل دلائل النبوۃ: ج۱، ص۴۷میں بتایا ہےکہ: ’’وعادتي- في كتبي المصنّفة في الأصول والفروع- الاقتصار من الأخبار على ما يصح منها دون ما لا يصح، أو التمييز بين ما يصح منها وما لا يصح، ليكون الناظر فيها من أهل السنة على بصيرة مما يقع الاعتماد عليه، لا يجد من زاغ قلبه من أهل البدع عن قبول الأخبار مغمزا فيما اعتمد عليه أهل السنة من الآثار‘‘۔ (دلائل النبوۃ: ج۱، ص۴۷)
اگرچہ اس قاعدہ پر وہ ہرجگہ ۱۰۰ فیصد قائم نہ رہے ہوں ۔لیکن افطار کی اس دعا سے انہوں نے استحباب ہی ثابت کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ السنن الکبریٰ: ج۴، ص۴۰۳ میں انہوں نے اس روایت پر باب قائم کیا ہے۔ ’’بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ‘‘ اور اس کے ضمن میں صرف یہی دو روایات نقل کی ہیں۔ ایک’’ذَهَبَ الظَّمَأُ ‘‘ والی اور دوسری ’’اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ‘‘۔ اور السنن الصغریٰ جو کہ اس کے بعد کی تصنیف ہے۔اور اس میں احادیث کا مزید احتیاط اور انتخاب کیا ہے،  اس میں ج۲ص۱۱ پہ بھی یہی دونوں دعائیں ذکر کی ہیں اور اس پر استحباب کا باب بھی قائم کیا ہے۔ ’’بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يُفْطِرَ عَلَيْهِ وَمَا يَقُولُ‘‘ اسی طرح فضائل الاوقات ج۱، ص۳۰۰ میں بھی استحباب کا باب باندھا ہے۔ ’’بَابُ اسْتِحْبَابِ الدُّعَاءِ عِنْدَ الْفِطْرِ‘‘۔
امام بغوی رحمہ اﷲ ۵۱۶ھ
مصابیح السنۃ ج۲، ص۷۶ ،کتاب الصوم میں احادیث من الحِسان کے تحت روزہ افطار کی دونوں دعاؤں کی احادیث لکھی ہیں۔یعنی’’ذَهَبَ الظَّمَأُ‘‘اور’’اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ‘‘۔ مصابیح السنۃ کے مقدمہ ج ،۱، ص ۱۱۰میں انہوں نے اپنا منہج بھی بتایا ہے کہ من الحسان سے کیا مراد ہے۔
’’وأعني بـ (الحِسان) ما أورده أبو داودوالترمذي وغيرهما من الأئمة في تصانيفهم رحمهم اللَّه وأكثرها صحاح بنقل العدل عن العدل غير أنها لم تبلغ غاية شرط الشيخين في علو الدرجة من صحة الإسناد إذ أكثر الأحكام ثبوتها بطريق حسن۔ وما كان فيها من ضعيف أو غريب أشرت إليه وأعرضت عن ذكر ما كان منكرًا أو موضوعًا‘‘۔
یعنی منکر اور موضوع روایات سے تو وہ اعراض کریں گے اور جو ضعیف ہے اس کو بیان کر دیں گے۔ اور اس روایت پر انہوں نے سکوت فرمایا ہے۔ اور اسی طرح دوسری مشہور کتاب شرح السنۃ ج۶، ص۲۶۵ میں’’بَابُ مَا يَقُولُ عِنْدَ الْفِطْرِ‘‘کے تحت صرف ان ہی دونوں دعاؤں کی احادیث پوری سند سے بیان کی ہیں۔ اور اپنی تیسری کتاب التھذیب فی الفقہ الامام الشافعی ج۳، ص۱۸۳ میں واضح اس کا استحباب بیان کیا ہے۔
’’ويستحب أن يقول عند الفطر ما روي عن معاذ: قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إذا أفطر قال: "اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت"‘‘۔ (التھذیب فی الفقہ الامام الشافعی: ج۳، ص۱۸۳)
شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اﷲ ۵۶۱ھ
شیخ عبدالقادرجیلانیؒ نے اپنی کتاب غنیۃالطّالبین ص۱۱۱میں افطار کی دعا کے لئے صرف اس دعا کو ہی نقل کیاہے۔
امام ابن قدامہ رحمہ اﷲ ۶۲۰ھ
امام ابن قدامہؒ نے اگرچہ المغنی میں اس کا ذکر نہیں کیا لیکن دوسری کتاب الهادی أو عمدة الحازم فی الزوائد على مختصر الخرقی ص۱۷۲میں اس کا استحباب بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور تصنیف المقنع فی فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيبانی ص ۱۰۴ اور ۱۰۵ پہ بھی اس دعا کے استحباب کا ذکر کیا ہے۔
’’ويستحب تعجيل الإِفطار وتأخير السحور، وأن يفطر على التمر فإِن لم يجد فعلى الماء. وأن يقول عند فطره: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت سبحانك اللهم وبحمدك۔ اللهم تقبل مني إِنك أنت السميع العلم۔
ويستحب التتابع في قضاء رمضان ولا يجب‘‘۔ (المقنع فی فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيبانی: ص
۱۰۴ -۱۰۵)
حافظ ضیاء المقدسی رحمہ اﷲ   ۶۴۳ھ (صاحب المختارہ):
حافظ ضیاء المقدسیؒ نے اپنی احادیث احکام پر مشتمل کتاب السنن والأحكام عن المصطفى ج۳، ص۴۳۵ پہ 
’’باب ما یقال عند الافطار و فضل الدعاء عندہ‘‘کے تحت یہ روایت بیان کی ہے۔اور سکوت کیاہے۔
اس کتاب میں ان کا منہج یہی ہے کہ وہ ضعیف اور ناقابل استدلال روایت پر خاموش نہیں رہتے۔ ایسا ہی اس کتاب پر مقدمہ التحقیق لکھنے والے عالم کے اسلوب سے ظاہر ہے جنہوں نے ان کے منہج کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔ (السنن والأحكام عن المصطفى: مقدمہ، ص ۱۶۷)
اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس بارے میں جو دوسری مرفوع روایت ہے اس کا ضعف بیان کیا ہے۔ لیکن ابو داود والی روایت پر سکوت۔
امام مجد الدین ابن تيمية رحمہ اﷲ  ۶۵۲ھ 
یہ بہت بڑے محدث اور فقیہ ہیں اورشیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے دادا ہیں۔ امام ذہبیؒ ان کو الشیخ الامام العلامہ فقیہ العصر کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ ان کی احادیث احکام پر ایک کتاب مشہور ہےجس کا نام منتقی الاخبارہے۔ علامہ شوکانیؒ نے اس کی مشہور شرح نیل الاوطار کے نام سے لکھی۔ اس میں جلد ۱صفحہ ۳۹۴ (ط دار ابن الجوزی) پہ’’بَابُ آدَابِ الْإِفْطَارِ وَالسُّحُورِ‘‘کے تحت صرف ’’اللھم لک صمت‘‘والی دعاسنن ابوداودسےنقل کی ہے۔
العز بن عبد السلام سلطان العلماء رحمہ اﷲ   ۶۶۰ھ
العز بن عبد السلام سلطانؒ نے اپنی کتاب مقاصد الصوم ص ۲۰ پرروزہ کے آداب میں اس دعا کا ذکر کرکے استحباب ظاہرکیا ہے۔
امام نووی رحمہ اﷲ ۶۷۶ھ
امام نوویؒ اپنی کتاب المجموع شرح المهذب ج۶، ص ۴۰۸ میں جمہور شوافع سے اس دعاءکا استحباب ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں: ’’والمستحب أن يقول عِنْدَ إفْطَارِهِ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ‘‘ پھراس کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’رَوَاهُ أَبُو دَاوُد عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا وَرَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ مِنْ رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ مُسْنَدًا مُتَّصِلًا بِإِسْنَادٍ ضَعِيفٍ۔ قال المصنف وسائر الاصحاب يستحب ان يدعوا عِنْدَ إفْطَارِهِ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ وَفِي سُنَنِ أَبِي دَاوُد وَالنَّسَائِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا أَفْطَرَ قَالَ ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى" وَفِي كِتَابِ ابْنِ مَاجَهْ عَنْ ابْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ "إنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ دَعْوَةً ما ترد" وكان ابْنُ عَمْرٍو إذَا أَفْطَرَ يَقُولُ "اللَّهُمَّ بِرَحْمَتِكَ التي وسعت كل شئ اغْفِرْ لِي"۔
(الثَّالِثَةُ) يُسْتَحَبُّ أَنْ يَدْعُوَ الصَّائِمَ وَيُفَطِّرَهُ فِي وَقْتِ الْفِطْرِ وَهَذَا لَا خِلَافَ فِي اسْتِحْبَابِهِ لِلْحَدِيثِ‘‘۔ (المجموع شرح المهذب: ج۶، ص ۴۰۸)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ    ۷۲۸ھ
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے شرح عمدۃ الفقہ، کتاب الصیام ص۵۱۳ میں تمام دعا ئیں نقل کرنےکے بعدان الفاظ میں استحباب کا باب قائم کیا ہے: ’’ويستحب لہ أن يدعو عند فطره‘‘۔ سب پہلے’’ذهب الظمأ‘‘ والی روایت، پھر سنن ابو داؤدکی روایت ’’اللھم لک صمت‘‘، پھر اس کے دونوں شاہد ابن عباسؓ اور انسؓ کی روایات پھر الربیع بن خثیمؒ کا اثر۔
حافظ ابن قیم رحمہ اﷲ     ۷۵۱ھ
حافظ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب زاد المعادج۲، ص۴۹ میں’’فصل في هديه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في الفطر‘‘کے بام سے پورا باب قائم کرکے اس میں یہ روایت نقل کی ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ ابن قیمؒ نے اس روایت کی تضعیف کی ہے، حالانکہ انہوں نے ابوداؤد کی روایت پر کوئی جرح نہیں کی بلکہ دوسری روایت کی تضعیف کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’وَيُذْكَرُ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ «كَانَ يَقُولُ عِنْدَ فِطْرِهِ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، فَتَقَبَّلْ مِنَّا، إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ»۔ وَلَا يَثْبُتُ۔ وَرُوِيَ عَنْهُ أَيْضًا أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ»۔ ذَكَرَهُ أبو داود عَنْ معاذ بن زهرة أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ ذَلِكَ۔ وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ «كَانَ يَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ: (ذَهَبَ الظَّمَأُ)‘‘۔ (زاد المعاد: ج۲، ص۴۹)
امام ابن کثیر رحمہ اﷲ      ۷۷۶ھ
امام ابن کثیرؒ نے الشیرازیؒ کی کتاب التنبیہ کی تخریج کی اوراس میں ان کی عبارت’’ويستحب أن يدعو على الافطار بدعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم "اللهم لك صمت" ‘‘کی تخریج میں یہ روایت بیان کی ہے: ’’عن أبي زُهْرةَ: مُعاذِ بنِ زُهْرَةَ، أنهُ بلَغَهُ: "أنَّ النبيَّ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ كانَ إذا أفطَرَ قالَ: "اللهُمَّ لكَ صُمْتُ، وعلى رزقِكَ أَفطرتُ"، رواهُ أبو داود هكذا، وهو مُرْسَلٌ۔
ورَوى الدارَقُطنيُّ من حديثِ ابنِ عباس نحوَهُ ، ولا يَصحُّ سنَدُهُ‘‘۔ (إرشاد الفقيه إلى معرفة أدلة التنبيه: ج۱، ص۲۸۹)
امام ابن کثیرؒ نے اس کتاب کے مقدمہ میں اپنے منہج کی یوں وضاحت فرمایاہے: ’’وشَرَطْتُ فيهِ أنّي أذْكُرُ دَليلَ المَسأَلةِ مِن حَديثٍ أو أثَرٍ يُحْتَجُّ بِهِ، وأعْزو ذلك إلى الكُتُبِ السِّتِّةِ، كالبُخارِيِّ، ومُسْلِم، وأَبي داودَ، والنَّسائِيِّ، والتِّرْمِذِيِّ، وابنِ ماجَةَ، أَو غيرِها، فإنْ كانَ الحَديثُ في الصَّحيحينِ، أو أحَدِهِما، اكتَفَيْتُ بعَزْوِهِ إلَيْهِما، أو إلى أحَدِهِما، وإلاّ ذكَرْتُ مَنْ رواهُ مِن أهْل ِ الكُتُبِ المَشهورَةِ، وبيَّنْتُ صِحَّتَهُ مِن سقَمِهِ،
ولَسْتُ أَذْكُرُ جَميعَ ما وَرَدَ في المَسْأَلَةِ مِن الأحاديثِ خَشْيَةَ الإطالَةِ، 
بَلْ إن كانَ الحَديثُ أَو الأَثَرُ وافياً بالدِّلالَةِ عَلى المَسْأَلَةِ، اكْتَفَيْتُ بِهِ، 
عَمّا عَداهُ، وإلاّ عَطَفْتُ عَلَيْهِ ما يُقوّي سَنَدَهُ أَو مَعْناهُ
‘‘۔ اس عبارت سے واضح ہوگیاکہ وہ ان کے نزدیک یہ روایت قابل احتجاج ہے۔
ابن الملقن رحمہ اﷲ      ۸۰۴ھ
ابن ملقنؒ نے اپنی کتاب بدر المنیرج٥، ص٧١٠ میں’’اللَّهُمَّ لَك صمت‘‘والی روایت کی تخریج میں ابن عباسؓ کی متصل روایت کاضعف بیان کرتے ہوئےابوداؤد والی روایت کو مرسل حسن قرار دیا ہے۔ اسی طرح مختصر بد المنیر رقم۱۱۲۶ میں بھی اس کو مرسل حسن قراردیاہے۔
شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمہ اﷲ       ۹۲۶ھ
یہ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کے مشہور شاگرد ہیں اور حافظ حدیث ہیں۔ آج کل اکثر کتب احادیث کی حافظ ابن حجر عسقلانیؒ سے متصل مشہور عالی سند انہی کے ذریعے سے ہے۔ انہوں نے امام نوویؒ کی کتاب منہاج الطالبین کو منهج الطلاب فی فقه الإمام الشافعی کے نام سے اختصار کیا ہےپھر خود ہی اس کی شرح فتح الوهاب بشرح منهج الطلاب کے نام سے لکھی جس میں روزہ سے متعلق سنتوں میں اس دعا کا ذکر کیا ہے: ’’وسن تسحر وتأخيره وتعجيل فطر۔ ويقول عقب فطره: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت‘‘۔ (منهج الطلاب فی فقه الإمام الشافعی: ج۱، ص۴۰)
اسی طرح اس کی شرح میں فرمایا ہے: ’’وَ "أَنْ يقول عقب" هُوَ أَوْلَى مِنْ قَوْلِهِ عِنْدَ "فِطْرِهِ اللَّهُمَّ لَك صُمْت وَعَلَى رِزْقِك أَفْطَرْت "لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ ذَلِكَ رَوَاهُ أَبُو دَاوُد بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ لَكِنَّهُ مُرْسَلٌ‘‘۔ (فتح الوهاب بشرح منهج الطلاب: ج۱، ص۱۴۲)
یعنی ان نے نزدیک اس روایت کی سند مرسل حسن ہےاور یہ دعاپڑھنا مسنون ہے۔
امام الشوکانی رحمہ اﷲ        ۱۲۵۰ھ
امام شوکانیؒ نے نیل الاوطار ج۴، ص۲۶۲میں اس سے دلیل پکڑتے ہوئے لکھا ہے: ’’وَحَدِيثُ مُعَاذٍ مُرْسَلٌ لِأَنَّهُ لَمْ يُدْرِكْ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَقَدْ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالدَّارَقُطْنِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِسَنَدٍ ضَعِيفٍ۔ وَرَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارَقُطْنِيّ وَالْحَاكِمُ وَغَيْرُهُمْ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ، وَزَادَ: «ذَهَبَ
الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إنْ شَاءَ اللَّهُ» قَالَ الدَّارَقُطْنِيّ: إسْنَادُهُ حَسَنٌ۔ وَعِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إذَا أَفْطَرَ قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ» وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ لِأَنَّهُ فِيهِ دَاوُد بْنُ الزِّبْرِقَانِ وَهُوَ مَتْرُوكٌ۔ وَلِابْنِ مَاجَهْ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مَرْفُوعًا: «إنَّ لِلصَّائِمِ دَعْوَةً لَا تُرَدُّ» وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا أَفْطَرَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي۔ وَحَدِيثُ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ يُشْرَعُ لِلصَّائِمِ أَنْ يَدْعُوَ عِنْدَ إفْطَارِهِ بِمَا اشْتَمَلَ عَلَيْهِ مِنْ الدُّعَاءِ‘‘۔ (نیل الاوطار: ج۴، ص۲۶۱-۲۶۲)
ان تمام ائمہ کرامؒ کے اقوال کے بعد یہ بات کہنا ضروری ہے کہ اس دعا سے متعلق جو بھی کلام کیاگیاہے، مثلا ًیہ روایت مرسل ہے، اس لئے کہ حضرت معاذؒ تابعی ہیں اورانھوں نے نبی کریمﷺ کا زمانہ نہیں پایا، اوراس کے دوسرے مرفوع شواہد ضعیف ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب انکشافات کوئی نئےنہیں ہیں جو ان ائمہ کرامؒ پر مخفی تھےاور آج کے علما پر واضح ہو گئے ہیں بلکہ ان سب باتوں سے یہ تمام ائمہ کرامؒ بھی واقف تھے۔اس کے باوجود بھی سب اس دعا کے استحباب کے قائل ہیں۔ اس پرمزید دلائل کے لئے ہر دور کے علماءاور فقہا کی کتب کےحوالے پیشِ خدمت ہیں جن میں ’’اللھم لک صمت‘‘کے استحباب کا ثبوت ملتاہے۔
حنبلی علماءِ کرامؒ سے استحباب کاثبوت
مشہور کتب حنابلہ کے حوالے ذیل میں درج ہیں جن میں اس دعا کا استحباب بیان کیا گیا ہے:
۱۔ القاضي محمد أبو يعلى ابن الفراء الحنبلیؒ ۴۵۸ھ: (ان سے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے شرح عمدہ،کتاب الصیام ج۱،  ص۵۱۳ میں استحباب نقل کیا ہے۔)
۲۔ حافظ ابن الجوزیؒ ۵۹۷ھ: (التبصرہ: ج۲، ص۷۵)
۳۔ أبو الخطاب الكلوذانیؒ۵۱۰ھ : (الهداية على مذهب الإمام أحمد: ج۱، ص۱۶۱)
۴۔ شیخ عبد القادر جیلانیؒ ۵۶۱ھ: (الغنية لطالبين: ج۱، ص۱۰)
۵۔ يوسف بن عبد الرحمنؒ ۶۵۶ھ (یہ ابن الجوزیؒ کے بیٹے ہیں): (المذهب الاحمد في مذهب الامام احمد: ص۵۴)
۶۔ شمس الدين ابن قدامة المقدسيؒ ۶۸۲ھ: (الشرح الكبير على متن المقنع: ج۳، ص۷۶-۷۸)
۷۔ علی بن سليمان المرداوی الحنبلیؒ ۸۸۵ھ: (الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف: ج۳، ص۳۳۲)
۸۔ مرعی بن يوسف الكرمى المقدسی الحنبلىؒ۱۰۳۳ھ: (دليل الطالب لنيل المطالب: ج۱، ص۹۳)
۹۔ عبد القادر التغلبی الشیبانیؒ۱۱۳۵ھ: (نيل المآرب بشرح دليل الطالب: ج۱، ص۲۷۵)
۱۰۔  مصطفى الرحيبانى الدمشقی الحنبلیؒ ۱۲۴۳ھ: (مطالب أولی النهى فی شرح غاية المنتهى: ج۲، ص۲۰۷)
۱۱۔ ابن ضويان، إبراهيم بن محمد بن سالمؒ۱۳۵۳ھ: (منار السبیل شرح الدلیل: ج۱، ص۲۲۱)
شافعی علماءِ کرامؒ سے استحباب کاثبوت
مشہور کتب شافعیہ کے حوالے درج ذیل یہ ہیں جن میں اس دعا کا استحباب بیان کیا گیا ہے:
۱۔ أبو اسحاق الشيرازی ۴۷۶ھ: (المهذب فی فقة الإمام الشافعی: ج۲، ص۶۲۳)
۲۔ أبو اسحاق الشيرازی ۴۷۶ھ: (التنبية فی الفقه الشافعی: ج۱، ص۶۷)
۳۔ الرویانیؒ ۵۰۲ھ: (بحر المذهب فی فروع المذهب الشافعی: ج۳، ص۲۷۱)
۴۔ ابوحامدالغزالیؒ ۵۰۵ھ: (الوسيط فی المذهب: ج۲، ص۵۳۶)
۵۔ یحییٰ العمرانی اليمنی الشافعی:۵۵۸ھ: (البيان فی مذهب الإمام الشافعی: ج۳، ص۵۳۹)
۶۔ عبد الكريم الرافعی القزوينیؒ۶۲۳ھ: (فتح العزيز بشرح الوجيز والشرح الكبير: ج۶، ص۴۲۵)
۷۔تقی الدين السبكیؒ ۷۵۶ھ: (الابتهاج فی شرح المنها: ص۲۲۶)
۸۔ كمال الدين الدميریؒ ٨٠٨ھ(صاحب حیاۃ الحیوان): (النجم الوهاج فی شرح المنهاج: ج۳، ص۳۲۴)
۹۔ جلال الدین المحلی ؒ ۸۶۴ھ (صاحب جلالین): (كنز الراغبين شرح منهاج الطالبين: ج۱، ص۴۲۱، ۴۲۲)
۱۰۔ أبن حجر الهيتميؒ ۹۷۴ھ: (تحفة المحتاج فی شرح المنهاج: ج۳، ص۴۲۵)
۱۱۔ ابن علانؒ ۱۰۵۷ھ: (الفتوحات الربانية شرح الاذكار النواوية: ج۴، ص۲۳۴،۲۳۵)
مفتی شیخ ابن العثیمین رحمہ اﷲ       
سعودی عرب کے  مفتی شیخ ابن العثیمینؒ نے ایک سوال کے جواب میں ان دونوں دعاؤں ’’اللھم لک صمت‘‘اور ’’ذھب الظمأ‘‘کو مستحب قرار دیا ہے۔
س۴۳۶: هل هناك دعاء مأثور عند الإفطار؟
الجواب: إن الدعاء عند الإفطار موطن إجابة للدعاء، والدعاء المأثور: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت، ومنه أيضاً قول النبي صلى الله عليه وسلم حين أفطر قال: (ذهب الظمأ، وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله) هذان الحديثان وإن كان فيهما ضعف لكن بعض أهل العلم حسنهما۔ (فتاوی ارکان الاسلام: ص ۴۸۶)
شيخ محمد صالح عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا: كيا افطارى كے وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى دعاء كرنى ثابت ہے؟ اور اس دعا كا وقت كيا ہے، اور كيا روزے دار مؤذن كى اذان كا جواب دے يا كہ افطارى كرنے ميں مشغول رہے؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:" اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت"۔ ’’اے اللہ ميں نے تيرے ليے روزہ ركھا اور تيرے رزق پر ہى افطار كيا‘‘۔
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے افطارى كے وقت درج ذيل دعاء بھى ثابت ہے: " ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله "۔ ’’پياس چلى جائے، اور رگيں تر ہو گئيں، اور ان شاء اللہ اجروثواب بھى ثابت ہو گيا‘‘۔
ان دونوں حديثوں ميں اگرچہ كچھ ضعف ہے، ليكن بعض اہل علم نے انہيں حسن كہا ہے۔ (فتاوی ارکان الاسلام: ص ۴۸۶)
سعودی عرب کے  مفتی شیخ صالح الفوزانؒ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
سؤال: ما هو الدعاء المأثور عن النبي صلى الله عليه وسلم عند الإفطار وعند السحور؟
الجواب: قد ورد عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا أفطر يقول: «ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله»، وورد عن بعض الصحابة أنه إذا أفطر قال: «اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت فاغفر لي إنك أنت الغفور الرحيم» وأما السحور فلم يرد فيما أعلم دعاء مخصوص يقال عند ذلك، والله أعلم۔ (مجموع فتاوى فضيلة الشيخ صالح بن فوزان: ج۲،ص۳۹۵)
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے افطارى كے وقت درج ذيل دعاء بھى ثابت ہے: " ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله "۔ ’’پياس چلى جائے، اور رگيں تر ہو گئيں، اور ان شاء اللہ اجروثواب بھى ثابت ہو گيا‘‘۔
اور بعض صحابہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ:" اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت"۔ ’’اے اﷲ! میں نے تیرے لئےروزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا ‘‘۔ اوراس کے علاوہ آپ جو مناسب سمجھیں وہ دعا بھی کر سکتے ہیں۔ (مجموع فتاوى فضيلة الشيخ صالح بن فوزان: ج۲،ص۳۹۵)
یہی حوالہ شیخ صالح المنجدؒ نے بھی دیا ہے
وكذلك ورد عن بعض الصحابة أنه كان يقول: (اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت) فأنت ادع الله بالدعاء المناسب الذي ترى أنك محتاج إليه۔
اسی طرح بعض صحابہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ:" اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت"۔ ’’اے اﷲ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا‘‘۔ اوراس کے علاوہ آپ جو مناسب سمجھیں وہ دعا بھی کر سکتے ہیں۔  (اللقاء الشهري:ج٨،ص٢٥)
علماءِ اہلحدیث بھی اس دعاکے سے استحباب کے قائل ہیں
اہلحدیث عالم حافظ عبداﷲروپڑی صاحب لکھتے ہیں: ’’اور افطاری کے وقت یہ لفظ (دعاکے لئے) آئے ہیں:" اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت"‘‘۔ (فتاویٰ اہلحدیث: ج۲، ص۵۵۳)
فتاویٰ علمائے اہلحدیث جس کو اہلحدیث مکتبہ فکرکے جید علماء کی تصدیق حاصل ہے اس میں لکھا ہے: ’’اور افطاری کے وقت یہ لفظ (دعاکے لئے) آئے ہیں:" اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت"‘‘۔ (فتاویٰ علمائے اہلحدیث: ج۶، ص۹۴)
علامہ ناصرالدین البانیؒ اپنی کتاب اروءالغلیل جلدنمبر۴، صفحہ نمبر۳۹-۳۸ پر اس حدیث کے بارے میں طویل بحث کے بعد آخرمیں لکھتے ہیں: ’’ومع ذلک صحیح حدیثھم جمیعاً‘‘ ’’اس کے باوجودیہ حدیث صحیح ہے‘‘۔ (اروءالغلیل جلدنمبر۴، صفحہ نمبر۳۹)
امام شوکانیؒ کی فقہ کی مشہورومعروف کتاب ’’الدُّررالبھیّہ‘‘جس کی تخریج و تحقیق مشہورعرب عالم ومحقق علامہ ناصرالدین البانیؒ نے کی اور اس کا ترجمہ وتشریح حافظ عمران ایوب لاہوری نے ’’فقہ الحدیث‘‘ نامی کتاب میں کی۔ اس کتاب میں افطاری کی دعاکے باب میں یہ دعانقل کرنے کے بعدنیچے لکھتے ہیں: ’’شیخ ناصرالدین البانیؒ بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث شواہد کی بناپرقوی ہوجاتی ہے‘‘۔ (فقہ الحدیث: ج۱، ص۷۲۷بحوالہ المشکاۃ المصابیح البانیؒ)
مندرجہ بالا تمام دلائل، جلیل القدرمحدثین اور تمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے ائمہ کرامؒ کے استحباب کے باوجود بھی اگر کوئی شخص اس حدیث کو مرسل کہہ کراس دعا کے پڑھنے کا انکار کرتا ہے تو ایسے شخص کے لئے یہی کہا جائیگاکہ وہ لاعلم، متعصب اورصحیح حدیث کا منکرہے۔