-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Monday 6 July 2020

Ertuğrul Ghazi–ارطغرل غازی

اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم
قارئین کرام جیساکہ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ موجودہ دورمیں میڈیا کاکردار اس قدر مضبوط، پُراَثراوربرق رفتار ہے کہ شاید ہی کسی دوسرے ذرائع کاہوگا۔ اس کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ ایک عالم یامفتی مسجد کے ممبر پربیٹھ کرجب کوئی مسئلہ بیان کرتاہے تو اس بیان سے مستفید ہونے والوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ سینکڑوں یا ہزاروں لوگوں پرمشتمل ہوتی ہےاوربیان ایک مخصوص علاقے کے لوگوں تک ہی محدود رہتا ہے جبکہ اس کے برعکس اسی بیان کویوٹیوب پرلائیو نشرکیاجائے تو سننے والوں کی تعداد پوری دنیاکےلاکھوں اورکروڑوں لوگوں تک جاپہنچتی ہے اورلوگوں کے پاس اس بیان کو دوسروں تک پہنچانے کی سہولت بھی میسررہتی ہے۔ یہاں میں اس مسلئے کوزیربحث لائے بغیرکہ میڈیاکااستعمال جائز یاناجائز ہے، میں قارئیں کویہ سمجھانا چاہتاہوں کہ کسی بھی چیزکےاستعمال کا طریقہ کاراور اس سے حاصل ہونے والے مقاصد اگردرست ہیں اورشریعت کے اصولوں کے عین مطابق ہیں تو پھراس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس کااستعمال نص قطعی سے ناجائز ثابت نہ ہو۔ لہٰذا میڈیا کے استعمال کے جائزیاناجائزہونے پرمیرارجحان ان علمائے کرام کی طرف ہے جنہوں نے دینی امورپرمیڈیاکے استعمال کوجائز قراردیاہے۔
اب میں اصل موضوع کی طرف آپ سب کی توجہ دلاناچاہتاہوں جس کوسمجھانے کے لئے میں یہ تحریرلکھ رہاہوں۔ جیساکہ ہم سب مسلمان اس بات پرمتفق ہیں کہ ڈرامہ یافلمیں دیکھناحرام ہےکیونکہ ڈراموں اورفلموں میں ناچ گانااوربے حیائی کے تقریباً تمام کام ہورہے ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاایسے ڈرامے جن میں ناچ گانااور بےحیائی دکھائے بغیرہمیں  ہمارے شاندار ماضی اورنسہری تاریخ کے حقیقی کرداروں کے حالات دکھائے گئے ہوں، دیکھناجائزہے یاناجائز؟
اس سوال کاجواب ہمارے موجودہ دورکے جیدعالم دین اوراسکالرزمیں سےمحترم جناب ڈاکڑذاکرنائیک صاحب اورجناب مفتی طارق مسعودصاحب دامت برکاتہم یہ دیتے ہیں کہ اگرکوئی ڈرامہ یا فلم موسیقی، ناچ گانوں اوربے حیائی سےپاک ہے اور جس میں مردوعورت کی قربت اوربے پردگی کودکھانے سے گریزکیاگیاہو۔ ایسے ڈرامے یافلمیں کسی بہترمقصد کے تحت دیکھناجائزہے۔
اب ہم اپنے اگلے اوراہم تریں سوال کی طرف بڑھتے ہیں کہ کیا کسی مسلمان کے لئے موجودہ دور میں ترکی کی تاریخ پربننے والاڈرامہ ارطغرل غازی دیکھناجائزہے؟
اس سوال کےجواب میں محترم جناب ڈاکڑذاکرنائیک صاحب اورجناب مفتی طارق مسعودصاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ ’’کیونکہ ارطغرل ڈرامے میں موسیقی، نامہرم مردوعورت کی تھوڑی بہت قربت اور عورتوں کوچہرے کے حجاب کے بغیردکھایاگیاہے لہٰذا مسلمانوں کے لئے یہ ڈرامہ دیکھنا جائز نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اس ڈرامے میں عورتوں کو مکمل اسلامی لباس میں دکھایا گیا ہے جس میں کسی قسم کی عریانیت، بے حیائی  اورناچ گانا موجودنہیں ہے لہٰذا یہ ڈرامہ ان ڈراموں اورفلموں کی طرح حرام نہیں ہے جن میں ناچ گانا، برحنہ عورتیں اوربے حیائی کے تمام کام دکھائے جاتے ہیں‘‘۔ آپ دونوں عالم دین نے ان لوگوں کو اس ڈرامے کودیکھنے سے منع فرمایاجولوگ کسی بھی طرح کے ڈراموں اور فلموں کے دیکھنے کے عادی نہیں، لیکن ایسے لوگوں کواس ڈرامے کے دیکھنے کی گنجائش دی جو لوگ پہلے سے انڈین اورہالی ووڈ کی فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کے عادی ہیں۔ تاکہ ایسے لوگوں کو بڑے گناہ سے کم درجے کی برائی تک محدود رکھاجاسکےاورچونکہ موجودہ دور کا مسلمان کتا بیں پڑھنے سے بہت دور اورہمارے اسلامی تاریخ اورشاندار ماضی سے نآشناہے، لہٰذااِسے ان ڈراموں کے ذریعے سےہمارے اسلامی اخلاقی اقداراوردین اسلام کی خاطردی گئی قربانیوں کاعلم ہوسکےگا۔ اس طرح ہم آج کے مسلم نوجوانوں کو نہ صرف غیرمسلم میڈیاکی یلغار اورگمراہیت سے محفوظ کرسکیں گے بلکہ اس کے دل میں جہاد کاجذبہ اوراسلام سے محبت کوبھی جگانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ اورساتھ ہی غیرمسلموں اوراسلام دشمن عناصر کایہ پروپگینڈاکہ اسلام ایک دہشت گرد مذہب ہے اور صرف دہشت گردی کی تعلیم دیتاہے، اس پروپگینڈے کے خلاف بھی ارطغرل غازی جیسے ڈراموں کے ذریعہ غیرمسلم دنیاکواسلام کاحقیقی پہلودکھایاجاسکتاہے۔
اکیسویں صدی عیسوی کے اس ترقی یافتہ دور میں ہمیں اسلام دشمن عناصر کا مقابلہ موجودہ دور کےجدید تقاضوں کے عین مطابق ہی کرنا پڑے گا۔ جس طرح اسلام دشمنوں نے اپنے سازشی میڈیاکے ذریعہ اسلام کوبدنام کرنے کی کوششیں کیں بالکل اسی طرح سے ہمیں اپنے میڈیا کے ذریعہ اسلام کاشاندار، پُروقاراورحقیقی منظرپیش کرکے غیرمسلم دنیاکواسلام کی خوبصورتیوں سے آگاہ کرناہوگا۔
موجودہ دور میں ۹۹ فیصد لوگ موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں اس لئے اگر ہم یہ چاہیں کہ آج کے مسلمانوں کو ڈرامے اور فلموں سے بالکل روک لیں ایسا کرنا اب ناممکن ہےلہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اس کا متبادل راستہ اختیار کریں۔ اس کے لئے میں موجودہ دورکےپاکستانی میڈیا (ڈرامہ و فلم انڈسٹری) کے لوگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ بے کار و بے مقصداوراخلاقیات سے گرے ہوئے  ڈرامےاور فلمیں بنانے کے بجائے ہماری اسلامی تاریخ میں گزرے حقیقی کرداروں مثلاً: محمدبن قاسم، سلطان صلاح الدین ایوبی، ارطغرل غازی، عثمان غازی، اورخان، سلطان محمد فاتح، ظہیرالدین بابر، قطب الدین ایبک اور ٹیپوسلطان جیسے اسلامی ہیروز پرڈرامے اور فلمیں بناکردنیاکو اسلام کا حقیقی رُخ پیش کریں۔
رہا سوال اس بات کا کہ موسیقی، ناچ گانوں اور عریاں عورتوں کے بغیرڈرامہ یا فلمیں لوگوں میں مقبول نہیں ہونگی، تومیرے بھائیوں اس اشکال کا بہترین جواب خود ارطغرل غازی ڈرامہ ہے جو بغیر ناچ گانے، برحنہ عورتوں اوربے حیائی کے بغیر بھی پوری دنیاخاص طورپرپاکستان میں اس قدر مقبول ہوچکاہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے اپنے چینل پر دکھاجانے کے باوجود بھی یوٹیوب پرصرف دیڑھ ماہ کے کم عرصے میں ارطغرل ڈرامے کے ۷ ملین سبسکرائیبرز ہوچکے ہیں۔
اب ہم اس موضوع کے آخری حصہ کی طرف بڑھتے ہیں۔ ارطغرل غازی کولےکراس وقت پوری دنیا میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ ارطغرل غازی کون تھا۔ کیاارطغرل غازی واقعی کوئی حقیقی کردار ہے یا پھر ایک فرضی کردار ہے۔ کیا واقعی دنیا کی سب سے عظیم شان سلطنت خلافت عثمانیہ کا حقیقی بانی ارطغرل غازی تھاجس نے عالم اسلام کو متحد کرنے کا خواب دیکھا تھا اور بعدمیں اس کے بیٹے عثمان غازی نے اس کے خواب کو پوراکردکھایا؟ کیا واقعی ایک خانہ بدوش قبیلہ کےسردار نےدنیاکی دو اہم ترین طاقتوں منگلولوں اور صلیبیوں سے جنگ کرکے ان دونوں کو شکست دی اورمسلمانوں کی عظمت رفتہ بحال کی تھی۔ موجودہ دور میں یہ بحث اس لئے ہورہی ہے کہ یہ ڈرامہ دیکھ کرمسلم دنیا خصوصاً پاکستان میں ایک تہلکہ مچ گیا ہےاورجولوگ پہلے انڈین اور ہالی ووڈ کی فحش فلمیں دیکھنے کے عادی تھے آج ارطغرل ڈرامہ دیکھ کراپنی شخصیت اورمزاج میں تبدیلی محسوس کررہے ہیں۔
حیرت انگیزبات یہ ہے کہ ارطغرل ڈرامے کاسب سے بڑامخالف وہ لبرل طبقہ ہے جس نے میڈیا اورعورتوں کی آزادی کےنام پر ڈراموں اورفلموں کی سب سے زیادہ ہمایت کی ہے اوراسلامی شریعت اوراخلاقی اقدار کی سب سے زیادہ مخالفت کی ہے۔ آخرکیا وجہ ہے کہ ایسے آزاد خیال لوگ آج ایک ڈرامے کے خلاف آوازاٹھا رہے ہیں؟ ذرا سوچئے۔۔۔
اب ہم کچھ باتیں اس ڈرامے کی کہانی پرکرتے ہیں۔ ارطغرل ڈرامہ میں بہت سلیقے کے ساتھ منگلولوں کا ظلم وستم، صلیبیوں کی سازش اور اپنوں کی غداری دیکھا ئی گئی ہے۔ ڈرامہ میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح آج مسلم دنیاکے حالات ہیں بالکل اسی طرح تیرہویں صدی عیسوی میں بھی مسلمانوں کے حالات بدتر تھے۔ چنگیز خان اورہلاکوخان کی فوجیں مسلمانوں کو تباہ و برباد کررہی تھی۔ صلیبی مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں لگے ہوئے تھے اور مسلمان بھی اندرونی اختلافات کی وجہ سےکم ہمتی کا شکار تھے۔ وہ صلیبیوں اور منگلولوں کی سازشوں کا شکار ہوکر اپنوں کے ساتھ ہی غداری کرتے تھے۔ ان مشکل حالات میں ارطغرل غازی نے عالم اسلام کو متحد کرنے اور انہیں ذلت و رسوائی سے نکالنے کا خواب دیکھا اور اس کو سچ ثابت کرنے کیلئے انہوں نے جدو جہد شروع کردی۔ صلیبیوں اور منگلولوں میں اپنا خوف قائم کردیا۔ ان کی وفات کے دس سال بعد ان کے بیٹے عثمان غازی نے۱۲۹۹میں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلطنت تین بر اعظموں پر پھیل گئی اور دنیا کی سب سے لمبی مدت تک قائم رہنے والی اور سب سےبڑی اور مضبوط سلطنت بن گئی جو ۳ مارچ ۱۹۲۴ تک قائم رہی۔ ڈرامہ میں بہت خوبصورتی کے ساتھ اسلامی تہذیب و ثقافت کو پیش کیا گیا ہے جس کو دیکھنے کے بعد دنیا کا ہر مسلمان ارطغرل کو اپنا ہیرو، محسن اور عظیم مجاہد سمجھنےلگاہے۔ علاقائیت اور نسل و نسب کی بنیاد پر ذرہ برابر بھی تعصب کا خیال نہیں آتا ہے عرب وعجم ، قبیلہ اور علاقائیت کے بنیاد پر پایا جانے والا آپسی تعصب کو یہ ڈرامہ مٹا رہا ہے۔
موجودہ دور میں اس ڈرامے کولے کریہ بحث بھی ہورہی ہےکہ ڈرامہ میں جو کچھ دکھا گیا ہے، کیا وہ تاریخ میں موجودہے؟ حال ہی میں بی بی سی نے ایک مضمون لکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہےکہ ارطغرل ڈرامہ میں جو کچھ دکھا یاگیا ہے وہ حقیقت کےخلاف اور تاریخ کے برعکس ہے۔ کئی یورپین اور امریکی دانشوروں نے بھی اس ڈرمہ پر سوال اٹھاتےہوئےکہا ہے کہ ارطغرل ایک گمنام شخصیت ہے جسے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے زبردستی ہیرو بناکر پیش کردیا ہے۔
ہم اس تحریرکے آخر میں ارطغرل غازی کی شخصیت اور کردار کی حقیقت تاریخ کے اوراق میں سے مورخ اسلام جناب اکبرشاہ خاں نجیب آبادی (المتوفی: ۱۹۳۸ء) کی لکھی ہوئی کتاب ’’تاریخ اسلام‘‘ سےاور انگریزتاریخ دانوں کی کتابوں کےحوالوں سےپیش کریں گےجنہیں ۱۹۳۹ءمیں جناب ڈاکٹر محمد عزیر، سابق رفیق دارالمصنفین، اعظم گڑھ نے اپنی کتاب ’’دولتِ عثمانیہ‘‘ میں رقم کیا۔
 عثمانی دستاویزات میں ارطغرل کا نسب کچھ یوں ملتا ہے: ’’ارطغرل بن سلیمان شاہ بن کندز الپ بن قایا الپ بن کوک الپ بن صارقوق الپ بن قایی الپ‘‘۔ قائی قبیلہ انہی سے منسوب ہے۔
مورخ اسلام جناب اکبرشاہ خاں نجیب آبادی (المتوفی: ۱۹۳۸ء) لکھتے ہیں: ’’ ۶۲۱ھ میں جب مغلوں نے علاء الدین کیقباد کی ریاست پر حملہ کیا تو سلیمان خاں اور اس کے بیٹے ارطغرل نے اپنے ہم قوم ترکوں کو لے کر مغلوں کے خلاف علاء الدین کیقباد کی مدد کی، یہ مدد عین وقت پر پہنچی اور اس سے مغلوں کو شکست کھا کر فرار ہونا پڑا لہٰذا علاء الدین کیقباد سلجوقی نے سلیمان کو خلعت دے کر اپنی فوج کا سپہ سالار بنایا اور اس کے بیٹے ارطغرل کو شہر انگورہ کے قریب ایک وسیع جاگیر عطا کی۔
علاء الدین سلجوقی کا داراسلطنت اس زمانہ میں شہر قونیہ تھا، ارطغرل کی جاگیر اور ریاست قیصر روم کے علاقے کی سرحد پر واقع تھی۔ ارطغرل نے اپنے باپ کے فوت ہونے پر اپنی ریاست کو وسیع کیا، کچھ علاقہ سلطان قونیہ سے انعام و اکرام کے طور پر حاصل کیا اور کچھ عیسائی علاقے کو دبایا، اس طرح ارطغرل کی ایک قابل تذکرہ ریاست قائم ہو گئی‘ مغلوں نے ایشیائے کوچک کے ان چھوٹے رئوساء سے کچھ زیادہ تعرض نہیں کیا اور ان کو ان کے حال پر قائم رہنے دیا۔ ۶۴۱ھ میں علاء الدین کیقباد سلجوقی کے بیٹے غیاث الدین کیخسرو کو مغلوں کا خراج گذار ہونا پڑا۔  ۶۵۷ھ میں ارطغرل کا بیٹا عثمان خان پیدا ہوا۔  ۶۸۷ھ میں ارطغرل فوت ہوا اور اس کا بیٹا عثمان خان بعمر تیس سال باپ کی جگہ ریاست کا مالک و فرماں روا ہوا۔ شاہ قونیہ یعنی غیاث الدین کیخسرو سلجوقی نے اپنی بیٹی کی شادی عثمان خان سے کر دی اور اس کو اپنی فوج کی سپہ سالاری کا عہدہ بھی عطا کیا۔  ۶۹۹ھ میں غیاث الدین کیخسرو سلجوقی جب مقتول ہوا تو تمام سلجوقی ترکوں نے سلطنت قونیہ کے تخت پر عثمان خان کو بھٹایا اور اس طرح اپنی قدیمی ریاست کے علاوہ قونیہ کا علاقہ بھی عثمان خان کے زیر تصرف آ گیا۔ عثمان خان نے اپنے آپ کو سلطان کے لقب سے منسوب کیا۔ یہی پہلا سلطان ہے جس کے نام سے اس کے خاندان میں سلطنت عثمانیہ قائم ہوئی‘‘۔ (تاریخ اسلام: جلد۲، صفحہ نمبر۳۹۱-۳۹۲)
جناب ڈاکٹر محمد عزیرنےاپنی کتاب ’’دولتِ عثمانیہ‘‘ میں ارطغرل کے بارے میں جوکچھ لکھا ہے وہ درج ذیل اسکین صفحات میں پیش خدمت ہے۔
یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ارطغرل کے حوالے سے تاریخ میں زیادہ تذکرہ نہیں ملتالیکن تاریخی کتب میں ارطغرل کے حوالے سے جتناکچھ لکھا گیا ہےوہ ہوبہوویسا ہی ہے جیساڈرامے میں دکھایا گیاہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ ارطغرل ایک گم نام شخصیت ہیں، جھوٹ اوردھوکہ دہی پرمبنی ہے۔ اس سے ڈرامہ کے اکثر کردار میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ تاریخ پڑھنے اور ڈرامہ دیکھنے کے بعد آپ یقینی طور پر یہی کہیں گے کہ ڈرامہ میں جو کچھ دکھاگیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے اور اس وقت کے یہی حالات تھے جیسا ڈرامہ میں بتایا گیا ہے۔
اب اگرکوئی عقلمند انسان ہم سے یہ سوال کرے کہ ارطغرل کی تاریح تو صرف پانچ سے دس صفحات پر لکھی ہوئی ہے تو پھر آپ نے اس کو بڑھا چڑھاکرپانچ سوا قساط پرمشتمل ڈرامہ سیریل کیسے بنالیا؟ اس اشکال کے جواب میں ہم یہی کہیں گےکہ تاریخ میں جب کسی شخصیت کے بارے میں لکھا جاتاہے تواس کی پیدائش سے لیکروفات تک صرف اسی کے بارے میں بیان کیاجاتاہے اوروہ بھی سب کچھ نہیں  بلکہ چندمخصوص ومشہورباتیں جبکہ ڈرامے یا فلم میں اس کردار کےبقیہ معاملات کوبہت تفصیل سے دکھایا جاتاہے اور ساتھ میں اس کردار سے جڑے دوسرے لوگوں کے حالات وواقعات کی بھی منظرکشی کرنی پڑتی ہےاورساتھ میں بہت سے ایسے فرضی کردار بھی شامل کرنے پڑتے ہیں جن کا تاریخ میں کہیں ذکرنہیں ملتا۔ کیونکہ ہزارسالہ تاریخ میں ہرانسان اورہرکردار کا ذکرہوناممکن نہیں، لہٰذا یہ اعتراض ہی بالکل بے بنیاد ہے۔
کیاارطغرل بت پرست تھا؟
آج کل ارطغرل ڈرامے کو لیکر یہ بحث بھی چھڑی ہوئی ہے کہ کیا حقیقت میں ارطغرل ایسا ہی تھاجیسا ڈرامے میں دکھایا گیا ہے یاان سب باتوں کے بالکل برعکس وہ ایک بت پرست تھا؟
اس اشکال کی اصل وجہ  ڈاکٹر محمد عزیرصاحب کی لکھی ہوئی کتاب ’’دولت عثمانیہ‘‘ میں در ج برطانوی مصنف مسٹر ہربرٹ گینس کی ایک تازہ ترین تحقیق ہےجس کے بارے میں لکھتے ہوئے ڈاکٹر محمد عزیرصاحب فرماتے ہیں کہ: ’’اب سے بائیس سال قبل تک یہ امر عموماً مورخین کے نزدیک مسلم تھا کہ ارطغرل اور اس کے ساتھی ایشیائے کوچک میں داخل ہونے سے پہلے ہی مسلمان تھے۔ لیکن ۱۹۱۶ءمیں مسٹر ہربرٹ گینس نے اپنی مستند تالیف ‏"اساس سلطنت عثمانیہ" کو شائع کر کے یہ تازہ تحقیق پیش کی کہ سغوت میں بودوباش اختیار کرتے وقت عثمان اور اس کے قبیلے کے لوگ بت پرست تھے۔ مسٹرگینس کے دلائل حسب ذیل ہیں‘‘:
اسی طرح کے ایک اور شبہ کا اظہار مولوی محمد عزیر صاحب نے ایک اور برطانوی مصنف ڈاکٹر جولیس گرمانی کی کتاب ’’ترکوں کی اسلامی خدمات‘‘ کا حوالہ دے کر بھی لکھا ہےجو کہ ۱۹۳۲ءمیں لکھی گئی تھی:
مسٹرگینس اور ڈاکٹر جولیس گرمانی کے اعتراض کا جواب دینے سے پہلے ہم چاہیں گےکہ اس اشکال کی اصل حقیقت سے بھی قارئین واقف ہو جائیں۔ مسٹرگینس اور ڈاکٹر جولیس گرمانی کے اشکال کاجواب درج کرنے سے پہلے ڈاکٹر محمد عزیرصاحب خود اس بات کا اقرارکرتے ہیں کہ: ’’اب سے بائیس سال قبل تک یہ امر عموماً مورخین کے نزدیک مسلم تھا کہ ارطغرل اور اس کے ساتھی ایشیائے کوچک میں داخل ہونے سے پہلے ہی مسلمان تھے۔ لیکن ۱۹۱۶ءمیں مسٹر ہربرٹ گینس نے اپنی مستند تالیف ‏"اساس سلطنت عثمانیہ" کو شائع کر کے یہ تازہ تحقیق پیش کی کہ سغوت میں بودوباش اختیار کرنے کے وقت عثمان اور اس کے قبیلے کے لوگ بت پرست تھے‘‘۔
ڈاکٹر محمدعزیر صاحب نے تو صرف اپنی معلومات کو باقاعدہ تمام حوالوں سے مزین کرنےکے لئے مسٹرہربرٹ اور ڈاکٹر جولیس گرمانی کے حوالےاپنی کتاب میں شامل کئے لیکن اس سے یہ مطلب اخذ کرلینا کہ اب یہ معلومات حتمی ہیں اور ان پر ایمان لے آنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ایک سمجھدار اوربافہم شخص کسی طرح بھی ان معلومات کو قطعاً سچ تسلیم نہیں سکتاکیونکہ ضروری یہ ہے کہ ان معلومات کا حالات و واقعات کی ترتیب اور دیگر مورخین کی دی گئی معلومات سے موازنہ بھی کیا جائے اور اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ ہم یہاں چند دلائل سے اپنا موقف ثابت کرتے ہیں کہ ارطغرل غازی پیدائشی مسلمان تھے۔
۱۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مسٹرہربرٹ کے اس بے بنیاد دعویٰ سے ۲۲سال قبل تک پوری دنیاکے تمام مورخین اس بات پرمتفق تھے کہ ارطغرل اور اس کے ساتھی ایشیائے کوچک میں داخل ہونے سے پہلے ہی مسلمان تھے۔ تو پھراچانک ۱۹۱۶ء میں مسٹرہربرٹ کوایسی کونسی دلیل مل گئی جس کی بنیاد پرانہوں نے ایسابھونڈادعویٰ کیا۔
قارئین کرام ذراغورفرمائیےکہ یہ نئی تحقیق خاص طورپراس وقت پیش کی گئی جب خلافت عثمانیہ اپنے آخری دور سے گزر رہی تھی اور اس کی ساکھ بچانے کے لئے اس وقت کے عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید نے مسلمانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے سغوت میں ارطغرل غازی کے مزار کی تعمیر نو کی اور ان کے ساتھی مجاہدین کا ایک علامتی قبرستان بھی آباد کیا جس کا مقصد ترکوں کو ان کے آبا و اجداد کی طرف راغب کرنا تھا۔ ایسےوقت میں جبکہ اسلام دشمن عناصر سلطنت عثمانیہ کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں اور عربوں کو ترکوں کی مخالفت پر اکسانے میں مصروف تھے، انگریز اور برطانوی مصنفین کا ترک مسلمان ہیروز کو کافر یا بت پرست ظاہر کرنے کی کوشش کرنا کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔
۲۔ ڈاکٹر محمدعزیر صاحب خوداپنی کتاب میں اس بات کا اقرارکرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ: ’’حضرت عمر بن عبدالعزیز جو کہ ۷۱۷ھ سے ۷۲۰ھ تک خلیفہ رہے ان کے دور سے ہی ماورا النہر کے ترک بادشاہوں کو باقاعدہ اسلام کی دعوتیں دی جا چکی تھیں اور ان میں سے اکثر اسلام قبول بھی کر چکے تھے۔ اور دسویں صدی تک ماورا النہر کی ترک قوم کے دس ہزار خیمے اسلام قبول کر چکے تھے جو ساغون اور کاشغر کے علاقوں میں آباد تھے۔ اسی دوران اسلام ترکوں میں اتنی تیزی سے پھیل رہا تھا کہ دو لاکھ سے زائد ترک خیمے مسلمان ہو چکے تھے‘‘۔
خود آخری عباسی خلیفہ کی ماں بھی ترک النسل تھی اور اسی وجہ سے معتصم باللہ نے سامرا میں بہت سے ترکوں کو آباد کر کے اس کو اپنا پایہ تخت بنایا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ چنگیز خان کے پوتے برقائی خان اپنی فوج سمیت مسلمان ہو چکے تھے ایسے میں تیرہویں صدی تک تاتاریوں سے برسر پیکار رہنے والے ارطغرل اور ان کے قبیلے کا اسلام نہ لانے کا سوال اٹھانا بلا جواز اور غیر منطقی بات ہے۔
۳۔ مورخ اسلام جناب اکبرشاہ خاں نجیب آبادی اورڈاکٹرمحمد عزیر دونوں ہی اپنی کتابوں میں یہ بات لکھتے ہیں کہ: ’’۶۲۱ھ میں جب مغلوں نے علاء الدین کیقباد کی ریاست پر حملہ کیا تو سلیمان خاں اور اس کے بیٹے ارطغرل نے اپنے ہم قوم ترکوں کو لے کر مغلوں کے خلاف علاء الدین کیقباد کی مدد کی، یہ مدد عین وقت پر پہنچی اور اس سے مغلوں کو شکست کھا کر فرار ہونا پڑا لہٰذا علاء الدین کیقباد سلجوقی نے سلیمان کو خلعت دے کر اپنی فوج کا سپہ سالار بنایا اور اس کے بیٹے ارطغرل کو شہر انگورہ کے قریب ایک وسیع جاگیر عطا کی‘‘۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ سلطان علاء الدین کیقباد ایک طرف بت پرست تاتاریوں اور صلیبیوں کے ساتھ نبرد آزما بھی ہوں اور دوسری طرف ایک بت پرست (یعنی سلیمان خاں اور اسکے بیٹے ارطغرل) سے جنگی امداد بھی لیں اور پھران کو اپنی فوج کا سپہ سالار بھی بنالیں اور ساتھ ہی اس کو شہر انگورہ کے قریب ایک وسیع جاگیر بھی عطا کردیں۔ یہ بات بھی عقل تسلیم نہیں کرتی۔
۴۔ ۱۳۰۱ءمیں اچانک ارطغرل کے بیٹےعثمان کی قیادت میں عثمانی سپاہیوں کی بازنظینیوں کے ساتھ شدید جنگ اور شہنشاہ تک کی فوج کو شکست دینا ایک معجزے سے کم نہیں تھاجس کی منطق ڈاکٹر ہربرٹ گینس کے نزدیک عثمان کی فوج کا نو مسلم ہونا بتایا جانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کھسیانی بلی کا کھمبا نوچنا۔ ۔ ۔ یعنی عثمانی فوج نے اپنے سے کئی گنا بڑی اور منظم فوج کو صرف اس لئے شکست دے دی کہ وہ سب کے سب تازہ تازہ جذبہ ایمانی سے منور ہوئے تھے۔ یہ بات بھی عقل سے آری ہے۔ الحمداللہ مسلمان نیا ہو یا پرانا لیکن جب بھی بات دین کی اور اسلام کی بقا وسلامتی کی آتی ہے تو مسلمان واقعی ایسی تاریخیں رقم کر جاتا ہے کہ اس کے دشمنوں کی آہ و بکا صدیوں تک سنی جا سکتی ہے۔
۵۔ اس کے علاوہ ارطغرل کی ایک مسلمان سلجوقی شہزادی حلیمہ خاتون سے شادی اور ارطغرل کے والد سلیمان شاہ کا نام بذات خود ایک دلیل ہے۔ کیا کسی بت پرست نے آج تک اپنا نام سلیمان رکھا یا شہزادی حلیمہ تودورکسی عام لڑکی کا نکاح ایک بت پرست سے ہوناممکن ہے؟ اس کے علاوہ  مسلمان مورخین میں سےابن اثیر، علامہ شبلی نعمانی، حسرت موہانی اور نجیب اکبر آبادی کی کتب میں ارطغرل اور ان کے اجداد کے مسلمان ہونے کا تفصیل سے تذکرہ ملتا ہے۔
۶۔ ساتھ ہی عرب کے معروف تاریخ نگارڈاکٹرعلی محمدمحمد الصلابی اپنی کتاب ’’الدولۃالعثمانیہ‘‘ میں ارطغرل اوراس کے قبیلے کے مسلمان ہونے کا اعتراف کچھ اس طرح کرتے ہیں: ’’عثمان کاوالد ارطغرل جب اپنے قبیلہ کولے کرمنگولیوں کے خطرے سے بچنے کے لئے بھاگاتھاتو اس کی تعدادچارسوخاندانوں سےزیادہ نہیں تھی۔ راستے میں ایک مقام پراچانک شوروغوغابلندہوا۔ ارطغرل جب قریب پہنچاتودیکھاکہ مسلمانوں اورنصرانیوں کے درمیان جنگ کامیدان گرم ہےاوربیزنطی عیسائی مسلمانوں کوپیچھے دھکیل رہے ہیں۔ ارطغرل کے پاس اس کے علاوہ اورکوئی چارہ کارنہیں تھاکہ وہ پوری شجاعت وبہادری کے ساتھ آگے بڑھے اوراپنے ہم مذہب وہم عقیدہ بھائیوں کواس مشکل سے نکالے‘‘۔ (الدولۃالعثمانیہ کااردوترجمہ بنام سلطنت عثمانیہ ’ترکوں کی مفصل سیاسی ، تمدنی، تہذیبی تاریخ‘: ص۹۵)
موجودہ دورکے مغربی مورخین کاارطغرل کے بارے میں بیان
۱۔ برطانوی مؤرخ کیرولائن فنکل اپنی کتاب ’’عثمان کا خواب: سلطنت عثمانیہ کی تاریخ‘‘ میں لکھتی ہیں کہ: ’’عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل نامی ایک قبائلی سردار شمال مغربی اناطولیہ میں آ کر سلجوق اور بازنطینی سلطنتوں کے بیچ کے علاقے میں آباد ہوا اور اس روایت کے مطابق سلجوق سلطان نے ارطغرل کو سغو ت میں کچھ علاقہ عطا کیا تھا۔ لیکن ارطغرل کا عثمان سے کیا تعلق تھا‘‘۔
فنکل آگےلکھتی ہیں کہ: ’’عثمان کے دور سے ملنے والا واحد سکہ اگر اصلی ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ارطغرل یقیناً تاریخی شخصیت تھے۔ اس سکے پر درج ہے "جاری کردہ برائے عثمان ولد ارطغرل" درج ہے‘‘۔
فنکل مزید لکھتی ہیں کہ: ’’عثمان کا اپنے نام پر سکہ جاری کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ اس وقت صرف ایک قبائلی سردار نہیں تھے بلکہ اناطولیہ میں اپنے آپ کو سلجوق منگول سلطنت کے سائے سے باہر ایک خود مختار امیر سمجھنا شروع ہو چکے تھے۔ عثمانیوں کا پہلی بار ذکر سنہ ۱۳۰۰ءکے قریب ملتا ہے۔ اس وقت کے ایک بازنطینی مؤرخ نے لکھا کہ سنہ ۱۳۰۱ءمیں بازنطینی فوج کا سامنا عثمان نامی ایک شخص کی فوج سے ہوا۔ "جنگ بافیوس" کہلانے والی یہ لڑائی قسطنطنیہ (استنبول) کے قریب لڑی گئی تھی اور اس میں بازنطینی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔ لیکن عثمانیوں کا بازنطینی سلطنت کی برابری کرنے میں ابھی بہت وقت تھا۔ اور جب ایسا ہوا تو اس کے ساتھ ہی ایک خاندان کا اچانک گمنامی سے نکل کر اتنا آگے آنے کے بارے میں کئی کہانیوں نے بھی جنم لیا۔ مؤرخ کہتے ہیں کہ عثمانی اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کا علاقہ قسطنطنیہ کے قریب تھا جس سے کبھی بھی کامیابی کی صورت میں بڑا انعام یقینی تھا‘‘۔
فنکل یہ بھی لکھتی ہیں کہ: ’’ابتدائی عثمانی سلطانوں کو اپنے آغاز کی تاریخ معلوم کرنے سے زیادہ دلچپسی دوسروں پر حکومت کے اپنے حق کو ثابت کرنے میں تھی اور ان کے نزدیک ان کی سلطنت کا آغاز ایک خواب سے ہوا تھا جو عثمان نے ایک بزرگ درویش کے گھر میں قیام کے دوران دیکھا تھا۔ اس خواب کی کہانی کے حق میں دستاویزی ثبوت بھی تاریخ میں ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی دور کے زمینوں کے کاغذات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عثمان کے دور میں ادیبالی نامی بزرگ موجود تھے اور اس بات کی بھی کچھ شہادت ہے کہ ان کی بیٹی عثمان کی دو بیویوں میں سے ایک تھی‘‘۔ (Osman’s Dream: The History of the Ottoman Empire: Page # 2, 7,8, 12)
۲۔ امریکی مؤرخ اسٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب ’’سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اور جدید ترکی‘‘ میں اسی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سلطنت عثمانیہ کی شروعات تاریخ کے طالب علموں کے لیے ہمیشہ سے اہم سوال رہا ہے لیکن اس دور کے ذرائع کی کمی اور بعد کے ادوار میں لکھی گئی روایات میں تضاد کی وجہ سے پورے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔عثمانیوں کا جد امجد سلمان شاہ تھے جو قائی قبیلے کے سردار تھے اور ۱۲ ویں صدی کے آخر میں شمالی ایران کے ایک علاقے میں آباد رہے۔ عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اوّل کے والد تھے۔ روایت کے مطابق منگول حملوں کے پیش نظر دیگر بہت سے ترک قبائل کی طرح یہ قبیلہ بھی غلامی اور تباہی سے بچنے کے لیے نئے علاقوں کی طرف روانہ ہوا‘‘۔
جے شا کے مطابق: ’’سلیمان شاہ شام میں داخل ہوتے ہوئے دریائے فرات میں ڈوب گئے اور اس کے بعد ان کے دو بیٹے واپس چلے گئےجبکہ ارطغرل نے مغرب کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور اناطولیہ کے علاقے میں داخل ہوگئے جہاں سلجوق حکمرانوں نے ان کی مدد کے بدلے انھیں اناطولیہ کے مغربی علاقے میں زمین دے دی‘‘۔
جے شااس روایت کے مطابق مزید لکھتے ہیں: ’’ارطغرل ۱۲۸۰ءمیں انتقال کرگئےاور قبیلے کی قیادت ان کے بیٹے عثمان کو مل گئی‘‘۔ (History of the Ottoman Empire and Modern Turkey: Page # 13)
امریکی پروفیسر لیسلی پی پیرس اپنی کتاب ’’دی امپیریل حرم: ویمن اینڈ سوورینٹی اِن دی اوٹومن ایمپائر‘‘ میں لکھی ہیں: ’’سلطنت عثمانیہ کے آغاز کے بارے میں سب سے زیادہ سنی جانے والی روایت کے مطابق عثمان نے اپنی ابتدائی کامیابیوں کے بعد ایک خواب دیکھا تھا۔ اس خواب میں انھوں نے دیکھا کہ ایک درویش شیخ ادیبالی کے سینے سے چاند نمودار ہوتا ہے اور اس کے اپنے سینے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کےپیٹ سے ایک بہت بڑا درخت نکلتا ہے جس کا سایہ پوری دنیا پر چھا جاتا ہے۔ اس درخت کی شاخوں کے نیچے چشمے بہتے ہیں جن سے لوگ پانی پیتے ہیں اور کھیت سیراب ہوتے ہیں۔ عثمان نے جب شیخ ادیبالی سے تعبیر پوچھی تو انھوں نے کہا کہ خدا نے عثمان اور اس کی اولاد کو دنیا کی حکمرانی کے لیے چن لیا ہے اور انھوں نے کہا کہ ان کے سینے سے نکل کر عثمان کے سینے میں داخل ہونے والا چاند ان کی بیٹی ہے جو اس خواب کے بعد عثمان کی اہلیہ بن گئیں‘‘۔ (The Imperial Harem: Women and Sovereignty in the Ottoman Empire: Page # 16)
معتبر تاریخی حوالوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ارطغرل کا قبیلہ عقیدتاً اہل سنت و الجماعت سے منسلک اور مسلکاً حنفی تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں ارطغرل کی زندگی کے احوال اور ان کی سرگرمیوں سے متعلق زیادہ معلومات نہیں ملتیں، البتہ سات صفحات پر ایک قدیم دستاویز آج بھی ترکی میں موجود ہے جس میں ارطغرل غازی کی منگلولوں اور صلیبیوں کے خلاف جدوجہد کا تذکرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بیٹے عثمان اوّل کے ڈھالے ہوئے سکوں سے تاریخی طور پر ان کے وجود کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان سکوں میں عثمان اوّل نے اپنے والد کا نام ارطغرل ضرب کروایا تھا۔
کئی مورخین نے لکھا ہے کہ ارطغرل غازی اسلام کی سربلندی کی خاطر جدو جہد کررہے تھے اور اس وقت کے موجود ترک قبائل سے ان کی سوچ بالکل الگ تھی۔ ایک عظیم مشن اور مقصد کے تحت وہ ترک قبائل کو متحد کررہے تھے اور صلیبیوں اور منگولوں کے ساتھ لڑرہے تھے۔ ان کی آرزو تھی کہ ایک عظیم اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں آئے۔ وفات کے دس سال بعد ان کے سب سے بڑےبیٹے عثمان اوّل نے ان کا یہ خواب پورا کیا اور ایک عظیم الشان سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔ ترکی کے شہر سغوت میں ارطغرل کے نام کی ایک مسجد اور ایک مزار ہے۔ ارطغرل کے بیٹے عثمان نے اس کی تعمیر کی تھی اور پھر عثمان کے بیٹے اورخان غازی نے اس میں اضافہ کیا۔ اسی مقبرہ کے احاطے میں ارطغرل کی زوجہ حلیمہ سلطان، ان کے جانشین ترغوت اوربقیہ ساتھیوں کی قبریں موجودہیں۔
مندرجہ بالاتمام بحث سے حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ارطغرل غازی اور ان کے اجداد نہ صرف مسلمان بلکہ عظیم ترین مجاہدین بھی تھے۔ جنہوں نے کمزور پڑتی ملت اسلامیہ کا بھرپور دفاع کر کے ناصرف تاتاریوں، صلیبیوں اور بازنطینیوں کو شکست دی بلکہ اپنی مسلسل اور ان تھک جدوجہد سے ایک نئی اسلامی خلافت کی بنیاد بھی رکھی جس نے بلا مقابلہ تقریباً ۶۰۰ سال تک مسلمانوں پر متفقہ حکومت بھی کی۔
ایسے میں ارطغرل غازی کے مسلمان ہونے پر سوال ایک ایسا ہی شوشہ ہے جس کی مثالیں اس سے پہلے بھی کئی جگہ مل چکی ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پایا کہ آج کے اس کانٹینٹ وار کے دور میں ہم پر مسلط قوموں کی پالیسی ہی یہی رہی ہے کہ ہم سے ہمارے ہیروز اور رہنماچھین لئے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ محمد بن قاسم ہوں یا محمود غزنوی، ٹیپو سلطان ہوں یا صلاح الدین ایوبی حتیٰ کہ قائد اعظم محمد علی جناح تک سب کے کرداروں کو مشکوک بنا نے کے لئے ہر ماہ دو ماہ بعد کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور ہمارے نام نہاد لبرل دانشور اس کو سچ مان کر انگریز مصنفین کی بات کو حرف آخر مان لیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان حقائق کا تحقیقی جائزہ لین تو ہمیں کھرے اورکھوٹے کی پہچان کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو۔
میں اپنی اس تحریر کا اختتام شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اﷲکے ایک فقرہ پرکرونگاجس سے حق اور باطل کی پہچان کرنے میں ہمیں بہت مدد ملے گی۔ انشاءاﷲ
’’حق کی پہچان کرنی ہو تو باطل کے تیروں کا رخ دیکھو جہاں لگیں وہ حق ہے‘‘