-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Monday, 21 September 2020

کیا سیدنا حضرت علی رضی اﷲعنہ سیدنا حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ سے افضل ہیں؟

اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم

خطیب بغدادی رحمہ اﷲ (المتوفی: ۴۶۳ھ)’’تاریخ بغداد‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سےاورحافظ فخر الدين ابن عساکررحمہ اﷲ (المتوفی: ۵۷۱ھ) ’’تاريخ دمشق‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سےروایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’لَمَّا وُلِدَ أبو بكرٍ الصديقُ أقبلَ اللهُ تعالَى على جنةِ عدنٍ، فقال: وعزَّتي وجلالي لا يدخُلُك إلا من يُحبُّ هذا المولودَ - يعني أبا بكرٍ‘‘۔ ’’جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو اللہ تعالیٰ جنت عدن سے مخاطب ہوکر فرمایا: مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم! ائے جنت! تجھ میں صرف ان ہی لوگوں کو داخل کروں گا جو اس نومولود سے محبت رکھیں گے‘‘۔ (مختصر تاريخ دمشق لابن عساكر: ج۱۳، ص۶۹)

موجودہ دور میں جہاں نِت نئے فتنے جنم لے چکے ہیں وہاں ایک اورنئے فتنے کوعام ولاعلم مسلمانوں کے سامنے پیش کرکے عوام الناس کواس نئے فتنے میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جیساکہ آپ سب لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ماضی میں چندجاہل ونام نہاد عالموں نے ائمہ مجتہدین وبزرگان دین کے باہمی اختلافات اورایک دوسرے پرکیئے گئے مبہم اعتراضات کولاعلم مسلمانوں کے سامنے پیش کرکے ائمہ مجتہدین وبزرگان دین کی اعظمت و احترام کو عوام الناس کے دلوں سے ختم کرنے کی ناکام کوششیں کیں، بالکل ویسے ہی آج کل چند جاہل اور فتنہ پرورلوگ دشمنانِ صحابہؓ کی ہمایت حاصل کرنے کے لیےصحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کے مقام ومرتبےکوچنداحادیث سےکیئےگئےخود ساختہ استدلال کے ذریعہ کم کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ جس طرح یہود ونصریٰ حضرت موسیٰ ؑاورحضرت عیسیٰ ابن مریمؑ کواﷲرب العزت کی طرف سے دیئے گئے اعلیٰ معجزات کی بنیاد پران کے سچے نبی ہونے کادعویٰ کرتے ہیں اورہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺکی نبوت کاانکارکرتے ہیں، بالکل اسی طرح دشمنانِ صحابہؓ اہل بیت کوحاصل ہونے والی فضیلت میں بیان ہونے والی احادیث کوعوام الناس کے سامنے پیش کرکےجلیل القدرصحابہ کرام رضی اﷲعنہم اجمعین کی عظمت، شان اوربلندمقام ومرتبے کوکم کرنے کی کوششیں کررہے ہیں تاکہ جب مسلمانوں کے دلوں میں ان عظیم وشان ہستیوں کی عزت واحترام میں کمی واقع ہوجائے گی توپھردشمنانِ صحابہؓ اوردشمنانِ اسلام کوصحابہ کرامؓ کو تنقید کانشانہ بنانے اور ان پرتبرہ کرنے کاکھلا اور بھرپورموقع مل جائے گا، جس سے یہ لوگ اپنے مضموم مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔

قرآن مجید میں اﷲتبارک وتعالیٰ کاارشادپاک ہےکہ:

’’مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنْ اللَّهِ وَرِضْوَاناً سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمْ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِيماً‘‘۔ ’’محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھی کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔ اے مخاطب توانہیں دیکھے گا کہ وہ رکوع و سجدہ کرتے ہوئے اللہ کا فضل اور رضا تلاش کرنے میں مشغول ہیں۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں، یہ ہے ان کی صفت۔ تورات میں اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک فصل ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط بنایا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنےپھولنے پر جلیں۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نےنیک عمل کیئےہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایاہے‘‘۔ [سورۃ الفتح: آية ۲۷-۲۹]

میں جب بھی ان آیات کی تلاوت کرتاہوں، مجھے اس قدرلطف آتاہےکہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ عقل والوں کے لئے ان آیات میں صحابہ کرامؓ کی عظمت اوربلندمقام ومرتبہ کی کتنی بڑی دلیل ہے۔ اﷲتبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کوکتنی واضح اورخوبصورت مثالوں اورتورات وانجیل کے حوالوں سے سمجھایاہےکہ صحابہ کرامؓ کفار پرنہایت سخت اورآپس میں رحم دل تھے اورنمازوں میں اﷲرب العزت کافضل ورضاتلاش کرنےمیں مشغول رہتے تھے۔ پھرآخرمیں رب کائنات نےصحابہ کرامؓ کی پوری زندگی کی جدوجہدکوفصل کے تیارہونے کے تمام مراحل سے تشبیح دیتے ہوئے ان سےمحبت کرنےوالوں اوران سے جلنے والوں کاذکرفرمایاہےاورصحابہ کرامؓ کی مغفرت واجرعظیم کاوعدہ فرمایاہے۔

اسی طرح قرآن مجید میں دوسری جگہ اﷲتبارک وتعالیٰ کاارشادپاک ہے:

’’وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ‘‘۔ ’’مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے آگے بڑھ کر [ایمان لانے والے] اور وہ جنہوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور اس سے۔ اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔ [سورۃ التوبہ: آية ۱۰۰]

مشہورومعروف شیعہ عالم دین اور مفسر قرآن فضل بن حسن طبرسی(المتوفی: ۵۴۸ ھ) اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں: ’’وقيل: إن أول من أسلم بعد خديجة أبو بكر‘‘۔ ’’تحقیق حضرت خدیجہؓ کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابوبکرؓہیں‘‘۔ (مجمع البیان فی تفسیر القرآن: ج۵، ص۸۷، [سورۃ التوبہ: آية ۱۰۰  ])

امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (المتوفی: ۹۱۱ھ)نقل کرتے ہیں کہ: ’’امام ابن مرویہ رحمہ اﷲنے ذکرکیاہے کہ "وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ"کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہما نے فرمایاکہ یہ لوگ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت سلمان اورحضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہم ہیں‘‘۔ (تفسیرالدر المنثوراردو: ج۳، ص۸۱۸)
جس مسلمان کااﷲاور کتاب اﷲپرایمان ہوگاوہ صحابہ کرامؓ خصوصاً حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کی فضیلت میں بیان کردہ ان آیات کوہرگزجھٹلانے کی جرئت نہیں کرسکتااوراگرکوئی شخص یا مسلک ایسا کرنے کی ہمت کرتاہے تووہ اہل ایمان میں سے نہیں ہوسکتا۔

مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والےحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ

’’حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الطَّيِّبِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُجَالِدٍ، حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ وَبَرَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ هَمَّامٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَمَّارًا، يَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَا مَعَهُ إِلاَّ خَمْسَةُ أَعْبُدٍ وَامْرَأَتَانِ وَأَبُو بَكْرٍ‘‘۔ ’’حضرت عمار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (اسلام لانے والوں میں صرف) پانچ غلام، دو عورتوں اور ابوبکر رضی اللہ عنہم کے سوا اور کوئی نہ تھا‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً"‏ قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ، ص۱۲۶، رقم الحدیث۳۶۶۰)

’’حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَلَسْتُ أَحَقَّ النَّاسِ بِهَا أَلَسْتُ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ أَلَسْتُ صَاحِبَ كَذَا أَلَسْتُ صَاحِبَ كَذَا‘‘۔ ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ نے فرمایا کیا میں سب لوگوں سے زیادہ اس کا مستحق نہیں ہوں، شایدخلافت مراد ہو،کیا میں اوّل سب لوگوں سے ایمان نہیں لایا ہوں، یعنی احرارلوگوں میں نہیں ہوں، صاحب فلانی فضیلت کاکیا نہیں ہوں، صاحب فلانی فضیلت کا‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲،  كِتَاب الدَّعَوَاتِ،أبوابُ الْمَنَاقِبِ، بَاب فِي مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ، ص۱۰۴۲، رقم الحديث۳۶۶۷)

’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، يَقُولُ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ۔‏ قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ فَأَنْكَرَهُ وَقَالَ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔‏ وَأَبُو حَمْزَةَ اسْمُهُ طَلْحَةُ بْنُ زَيْدٍ‘‘۔ ’’زید بن ارقم رضی اﷲعنہ سے کہا کہ اوّل جو اسلام لائے علی رضی اﷲعنہ ہیں، عمروبن مرہ نے کہاکہ میں نے اس کاذکر ابراہیم نخعی سے کیا توانہوں نے اس کومنکرجانااورکہاکہ اوّل جو اسلام لائے ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ، یعنی لڑکوں میں اوّل حضرت علیؓ اوربوڑھے مردوں میں حضرت ابوبکرصدیقؓ ہیں۔ ابوعیسیٰ الترمذیؒ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲،  كِتَاب الدَّعَوَاتِ،أبوابُ الْمَنَاقِبِ، بَاب فِي مَنَاقِبِ عَلِيّ رَضِيَ اللَّهُ، ص۱۰۸۲، رقم الحديث۳۷۳۵)

مندرجہ بالااحادیث سے یہ بات سورج کی روشنی کی طرح واضح ہوگئی کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہیں لہٰذا آپؓ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۱۰۰کاحقیقی مصداق ثابت ہوئے جن سے اﷲتعالیٰ نےجنت کا وعدہ فرمایاہے۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کاواضح ذکر قرآن مجید میں

۱۔ ’’اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّـٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِىَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِى الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّـٰهَ مَعَنَا ۖ فَاَنْزَلَ اللّـٰهُ سَكِـيْنَتَه‘‘۔ ’’اگر تم رسول کی مدد نہ کرو گے تو اس کی اللہ نے مدد کی ہے جس وقت اسے کافروں نے نکالا تھا کہ وہ دو میں سے دوسرا تھا جب وہ دونوں (یعنی حضورﷺ اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ) غار میں تھے جب وہ (یعنی حضورﷺ)اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا تو غم نہ کھا بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے اپنی طرف سے اس پر تسکین اتاری‘‘۔ [سورۃ التوبہ: آية ۴۰]

’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَنَا فِي الْغَارِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ تَحْتَ قَدَمَيْهِ لأَبْصَرَنَا۔ فَقَالَ "‏مَا ظَنُّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا‏"‘‘۔ ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ جب ہم غار ثور میں چھپے تھے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر مشرکین کے کسی آدمی نے اپنے قدموں پر نظر ڈالی تو وہ ضرور ہم کو دیکھ لے گا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! ان دوکا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، كتاب فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، باب مَنَاقِبِ الْمُهَاجِرِينَ وَفَضْلِهِمْ، ص۱۲۳، رقم الحدیث۳۶۵۳)

’’حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَمَّادٍ ثنا عَلِيُّ بْنُ مُجَاهِدٍ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ قَالَ: عَلَى أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ- صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لَمْ تَزَلْ السَّكِينَةُ مَعَهُ‘‘۔ ’’حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا: ابوبکرؓ کوہمیشہ سکون واطمینان رہےگاکیونکہ اﷲنے ان پرسکینہ وسکون نازل ولازم کردیاہے‘‘۔ (تفسير ابن أبی حاتم: ج۱، ص۱۸۰۱، [سورة التوبة ۹ : آية ۴۰] ، رقم الحدیث۱۰۰۴۷)

’’حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، فِي قَوْلِهِ }فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ{ قَالَ: عَلَى أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: فَأَمَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ كَانَتِ السَّكِينَةُ عَلَيْهِ قَبْلَ ذَلِكَ‘‘۔ ’’حضرت عبدالعزیزبن سیاہؒ فرماتے ہیں کہ حضرت حبیب بن ابی ثابتؒ نے اﷲرب العزت کےاس قول }فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ{ ترجمہ: پس اﷲنے اس پرسکینہ نازل فرمائی۔ کے بارے میں فرمایا: کہ حضرت ابوبکرؓ مرادہیں۔ فرمایا: باقی نبی کریم ﷺ پرتوسکینہ ورحمت اس سے قبل تھی ہی‘‘۔ (مصنّف ابن أبي شيبة [اردو]: ج۹،  كِتَابُ الْفَضَائِلِ مَا ذُكِرَ فِي أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ص۴۶۲، رقم الحدیث ۳۲۶۰۱)

امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (المتوفی: ۹۱۱ھ) فرماتے ہیں: ’’پھراﷲنے ان پرسکینہ نازل فرمائی۔ تمام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آیت میں "صاحب"سے مراد حضرت ابوبکرصدیقؓ ہیں جیساکہ نفس واقعہ سےبھی ظاہرہے‘‘۔ (تاریخ الخلفاء اردو: ۵۷)

معتبر شیعہ مفسرعلی بن ابراہیم قمی (المتوفی: ۳۰۷ھ) اپنی قدیم تفسیر القمی میں اس آیت ’’اذهما فى الغار‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’حدثني أبي، عن بعض رجاله رفعه إلى أبي عبد الله عليه السلام، قال: لما كان رسول الله صلى الله عليه وآله في الغار قال لأبي بكر: كأني أنظر إلى سفينة جعفر في أصحابه يعوم في البحر، وأنظر إلى الأنصار محتبين في أفنيتهم۔ فقال أبو بكر: وتراهم يا رسول الله؟ قال: نعم۔ قال: فأرنيهم، فمسح على عينيه فرآهم، فقال في نفسه: الآن صدقت أنك ساحر، فقال له رسول الله صلى الله عليه وآله: أنت الصديق‘‘۔ ’’غار کے اندر نبی علیہ السلام نے حضرت جعفر بن ابی طالب کو بمعہ رفقاء کشتیوں میں سوار بجانبِ حبشہ جاتے ہوئے دیکھ لیا اور انصارِ مدینہ کو ان کے گھروں میں دیکھ لیا۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بھی نظارہ دیکھنے کی تمنا کی۔ نبی کریم علیہ السلام نے اپنا دستِ مبارک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں پر پھیر دیا۔ فوراً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی یہ مناظر دیکھنے لگے۔ فرمایا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، میں نے ان کو دیکھ لیا ہے"۔ تو نبی علیہ السلام نے فرمایا: "تم واقعی صدیق ہو"‘‘۔ (تفسير القمی: ج۲، ص۴۱۴-۴۱۵، سورۃ التوبہ: ۴۰)

بالکل یہی روایت مشہورشیعہ محدث السيد هاشم البحرانی (المتوفی: ۱۱۰۹ھ) اپنی کتاب تفسیرالبرہان میں بھی نقل کرتے ہیں:

۲۔ ’’وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ‘‘۔ ’’اور جو سچی بات لایا اور جس نے اس کی تصدیق کی، وہی پرہیزگار ہیں‘‘۔ [سورۃ الزمر: آية ۳۳]

’’قوله تعالى: والذي جاء بالصدق في موضع رفع بالابتداء، وخبره أولئك هم المتقون واختلف في الذي جاء بالصدق وصدق به، فقال علي - رضي الله عنه: الذي جاء بالصدق النبي - صلى الله عليه وسلم - وصدق به أبو بكر - رضي الله عنه‘‘۔ ’’اﷲتعالیٰ کےفرمان عالیشان: "اور جو سچی بات لایا اور جس نے اس کی تصدیق کی، وہی پرہیزگار ہیں" کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ سچ لے کر تشریف لانے والے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور ا س کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہُ ہیں‘‘۔ (الجامع لأحكام القرآن للقرطبی: ج۱۸،  ص ۲۷۸، سورۃالزمر۵۲: آية ۳۳)

’’وقال آخرون: الذي جاء بالصدق: رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم، والذي صدّق به: أبو بكر رضي الله عنه۔ ذكر من قال ذلك: حدثني أحمد بن منصور، قال: ثنا أحمد بن مصعد المروزي، قال: ثنا عمر بن إبراهيم بن خالد، عن عبد الملك بن عمير، عن أسيد بن صفوان، عن عليّ رضي الله عنه، في قوله: (وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ) قال: محمد صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم، وصدّق به، قال: أبو بكر رضي الله عنه‘‘۔ ’’حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ سچ لے کر تشریف لانے والے رسولِ کریم ﷺ ہیں اور ا س کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ ہیں‘‘۔ (فتح الباری بشرح صحيح البخاری: ج۸، ص۴۲۰: جامع البيان ابن جرير الطبری: ؛ تفسیر الخازن: ص۶۶؛ الدر المنثورجلال الدين السيوطی: ج ٥، ص٣٢٨)

امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ (المتوفی: ۶۰۶ ھ) فرماتے ہیں: ’’أن المراد شخص واحد فالذی جاء بالصدق محمد، والذی صدق بہ ہو أبو بکر، وہذا القول مروی عن علی بن أبی طالب علیہ السلام وجماعۃ من المفسرین رضی اللہ عنہم‘‘۔ ’’اس سے مراد ایک ہی ہستی ہیں، تو جو سچی بات لے کر آئے وہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ اور یہ روایت حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور مفسرین کرام رحمہم اللہ کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے حضرت ابوبکر کا مراد ہونا بالکل واضح ہے، کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعویٰ نبوت کی تصدیق کی تھی اور جو سب سے پہلے تصدیق کرنے والا ہو وہی سب سے افضل ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہ نسبت حضرت ابوبکر کو اس آیت سے مراد لینا زیادہ راجح ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت حضرت علیؓ کمسن تھے جیسے گھر میں کوئی بچہ ہوتا ہے اور حضرت علیؓ کے کمسنی میں اسلام لانے سے اسلام کو کوئی زیادہ قوت اور شوکت حاصل نہیں ہوئی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی عمر کے تھے اور معاشرہ میں ان کی بہت عزت اور وجاہت تھی اور جب انہوں نے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی تو اس سے اسلام کو بہت زیادہ قوت اور شوکت حاصل ہوئی، اس وجہ سے اس آیت میں"صَدَّقَ بہ" سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مراد لینا زیادہ راجح ہے‘‘۔ (تفسیر کبیر للرازی: ج۲۶، ص ۲۷۹، سورۃالزمر۵۲: آية ۳۳)

معروف شیعہ مفسر قرآن فضل بن حسن طبرسی(المتوفی: ۵۴۸ ھ) اپنی مستندتفسیر’’مجمع البیان فی تفسیر القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’الذي جاء بالصدق النبي - صلى الله عليه وسلم - وصدق به أبو بكر - رضي الله عنه‘‘۔ ’’جو صدق لے کرآئے وہ رسول اﷲﷺ ہیں اور جس نے ان کی تصدیق کی وہ ابوبکررضی اﷲعنہ ہیں‘‘۔ (مجمع البیان فی تفسیر القرآن: ج۸، ص۳۰۳، [سورۃ الزمر۳۹: آية ۳۳  ])

امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (المتوفی: ۹۱۱ھ)نے بھی اس آیت کی یہی توضیح فرمائی ہے: ’’وَالَّذِيْ جَآءَ بِالصِّدْقِ ۔ النبي صلي الله عليه وآله وسلم وَصَدَّقَ بِه أبو بکر رضي الله عنه‘‘۔ ’’ "یعنی اَلَّذِيْ"سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور "صَدَّقَ بہ" سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں‘‘۔ (تفسیرالدر المنثور: ج۷، ص۲۲۸)

۳۔ ’’وَلَا يَأْتَلِ أُوْلُوا الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُوْلِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ‘‘۔ ’’اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اور صاحب) وسعت ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے‘‘۔ [سورۃ النور: آية ۲۲]

شیعہ عالم دین اور مفسر قرآن فضل بن حسن طبرسی(المتوفی: ۵۴۸ ھ) اس آیت کے شان نزول کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’الآية نزلت في أبي بكر ومسطح بن أثاثة‘‘۔ ’’یہ آیت حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ اورمسطح بن اثاثہ رضی اﷲعنہ کےبارےمیں نازل ہوئی‘‘۔ (مجمع البیان فی تفسیر القرآن: ج۷، ص۱۷۱، [سورۃ النور: آية ۲۲  ])

مسلمانوں میں جتنے بھی مکاتب فکرہیں ان تمام میں ایک بات مشترکہ ہے کہ وہ سب کےسب قرآن پرمفتق ہیں اوراگرکوئی ایک مکتبہ فکربھی صحابہ کرامؓ کی عظمت وبلندمقام ومرتبہ کاانکارکرتاہے تویہ قرآن کی مندرجہ بالاآیات کاانکارکرنے کےمترادف سمجھاجائےگا۔ اورقرآن کی کسی ایک آیت کابھی انکارکرناپورے قرآن کاانکارہےاورقرآن کاانکارکفرہے۔

آپؓ کالقب صدیق اﷲنے آسمان سے نازل فرمایا

’’أَخْبَرَنِي مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَلَدِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: "لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ"، فَارْتَدَّ نَاسٌ فَمَنْ كَانَ آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَسَمِعُوا بِذَلِكَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَلْ لَكَ إِلَى صَاحِبِكَ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ: أَوَ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَئِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ، قَالُوا: أَوَ تُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنِّي لَأَصُدِّقُهُ فِيمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ فِي غَدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ، فَلِذَلِكَ سُمَيَّ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقَ۔ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»‘‘۔ ’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اﷲﷺ کو معراج کرائی گئی تو صبح کے وقت یہ خبر سن کرکچھ لوگ مرتد ہوگئے اور اہل ایمان نے تصدیق کی۔ کچھ لوگ یہ خبر حضرت ابوبکر ؓکے پاس لے کرگئے اور کہا، کیاآپ کو اپنے ساتھی کی اس بات کا یقین ہے؟ انہوں نے دعوٰی کیا ہے "راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرآئے ہیں"حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دریافت کیا: کیایہ بات انہوں (یعنی رسولﷺ) نے کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ آپؓ نے فرمایا: "اگرانہوں (نبیﷺ)نے یہ فرمایاہے تو یہ بالکل سچ ہے، انہوں نے کہا! کیا تم اس بات پریقین رکھتے ہوکہ وہ رات ہی رات میں بیت المقدس تک گئے بھی ہیں اورصبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا! جی ہاں۔ میں تو اس سے بھی بڑی بات کو تسلیم کرتاہوں۔ صبح وشام ان کے پاس آسمان سے آنے والی خبروں کی بھی تصدیق کرتا ہوں۔ اس واقعہ کے بعدسے آپؓ کا نام "ابوبکرصدیقؓ" مشہور ہوگیا۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاریؒ اورامام مسلمؒ نے اس کو نقل نہیں کیا‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین اردو: ج۴، کتاب معرفۃ الصحابۃ، باب الاحادیث المشعرۃ بتسمیۃ ابی بکر صدیقا، ص ۱۴۷، رقم الحدیث ۴۴۰۷)

’’حَدَّثَنَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمْدَانَ الْجَلَّابُ، ثنا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ، ثنا أَبُو سِنَانٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ، ثنا النَّزَّالُ بْنُ سَبْرَةَ، قَالَ: وَافَقَنَا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ طَيِّبَ النَّفْسِ وَهُوَ يَمْزَحُ، فَقُلْنَا: حَدَّثَنَا عَنْ أَصْحَابِكَ، قَالَ: كُلُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابِي، فَقُلْنَا: حَدَّثَنَا عَنْ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: «ذَاكَ امْرَؤٌ سَمَّاهُ اللَّهُ صِدِّيقًا عَلَى لِسَانِ جِبْرِيلَ وَمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا»‘‘۔ ’’حضرت نزال بن سبرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم لوگ امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑے تھے اور آپ خوش طبعی فرمارہے تھے، ہم نے ان سے عرض کیا: اپنے دوستوں کے بارے میں کچھ ارشادفرمائیے؟ فرمایا: "رسول اللہ ﷺکے تمام اصحاب میرے دوست ہیں"۔  ہم نے عرض کی: حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بتائیے؟  فرمایا: "ان کے تو کیا کہنے! یہ تو وہ شخصیت ہیں جن کا نام اللہ تعالیٰ نے جبریل امین اور رسول اﷲﷺکی زبان سے صِدِّیْق رکھا ہے"۔ (المستدرک علی الصحیحین اردو: ج۴، کتاب معرفۃ الصحابۃ، باب الاحادیث المشعرۃ بتسمیۃ ابی بکر صدیقا، ص ۱۴۶، رقم الحدیث ۴۴۰۶)

’’وأخرج الدراقطني والحاكم عن أبي يحيى قال لا أحصي كم سمعت علياً يقول على المنبر: إن الله سمى أبا بكر على لسان نبيه صديقاً‘‘۔ ’’دار قطنی نے ابو یحییٰ سے روایت کیا کہ میں شمار نہیں کرسکتا کتنی مرتبہ میں نے علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبرسرِمنبر یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر ابو بکر کا نام صدیق رکھا‘‘۔ (بحوالہ الاكمال فی اسماء الرجال علیٰ مشكاة المصابيح للخطيب التبريزی: ج۱۱، ص۱۶)

’’وأخرجه الطبراني بسند جيد صحيح عن حكيم بن سعد قال: سمعت عليا يحلف بالله أُنْزِلَ اِسْمُ أَبِيْ بَكْرٍ مِنَ السَّمَاءِ الصِّدِّيْق‘‘۔ ’’طبرانی نے بسندِ جید صحیح حکیم بن سعد رضی اﷲعنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحلف فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کا نام صدیق آسمان سے نازل فرمایا‘‘۔ (المعجم الکبیرللطبرانی اردو: ج۱، نسبۃ ابی بکر الصدیق واسمہ، رقم الحدیث۱۴، ص۹۲)

’’عن حكيم بن سعد قال: سمعت عليا يحلف لَاَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اسْمَ اَبِی بَکْرٍ مِنَ السَّمَاءِ  الصِّدِّیقَ‘‘۔ ’’سیدناحضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو بحلف ارشاد فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام صدیق آسمان سے نازل فرمایا ہے‘‘۔ (مختصر تاريخ دمشق لابن عساكر: ج۱۳، ص۵۲)

سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کی پاک سیرت، تقویٰ اورزہدوعفت کی گواہی اہل تشیع کتب سے

۱۔ مشہورومعروف شیعہ امام المورخین ابولحسن بن حسین بن علی المسعودی(المتوفی:۳۴۶ھ) اپنی شہرہ آفاق عربی کتاب ’’مروج الذہب و معادن الجوہر‘‘میں اور ادشاہِ ایران چاہ قاچارکے وزیراعظم محمد تقی لسان الملک سپهر (المتوفی: ۱۲۹۷ھ) نے اپنی عمدۃ ترین تصنیف’’ناسخ التواریخ‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’رأي أهل البيت في أبي بكر الصدّيق: قال ابن عبّاس وهو يذكر الصدّيق: (رحم الله أبا بكر، كان والله للفقراء رحيماً، وللقرآن تالياً، وعن المنكر ناهياً، وبدينه عارفاً، ومن الله خائفاً، وعن المنهيات زاجراً، وبالمعروف آمراً، وبالليل قائماً، وبالنهار صائماً، فاق أصحابه ورعاً وكفافاً، وسادهم زهداً وعفافاً)‘‘۔ ’’عبداﷲبن عباسؓ معاویہؓ کے پاس گئے توان کے پاس سرداران قریش بیٹھے تھے۔ جب آپؓ سلام کرکے بیٹھ گئے تومعاویہؓ نے انہیں کہا! میں آپ سے کچھ مسائل دریافت کرنا چاہتاہوں۔ انہوں نے کہاجوپوچھناہے پوچھو! معاویہؓ نے کہاتوابوبکرؓ کے متعلق کیاکہتاہے؟ اس نے کہااﷲتعالیٰ ابوبکرؓ پررحم فرمائے خداکی قسم وہ قرآن کی تلاوت کرنے والاتھا اوربُری باتوں سےروکنے والاتھا اوراپنے گناہوں کوجانتاتھااورخداتعالیٰ سے خائف تھااورشبہات سے ڈانٹنے والاتھااورنیکی کاحکم دینے والاتھااورقائم اللیل اورصائم النہارتھااور اپنے ساتھیوں سے تقویٰ میں بڑھ کرتھا اورزہدوعفت میں ان کاسردارتھا۔ پس اس شخص پراﷲکاغضب ہوجواس پرطعن کرے‘‘۔ (مروج الذہب و معادن الجوہرتاریخ المسعودی [اردو]: ج۲، ص۷۸؛ ناسخ التواريخ: ج۵، كتاب۲،ص۱۴۳-۱۴۴، ط طهران)

۲۔ مشہورومعروف شیعہ عالم ابوالقاسم السيد علی بن حسين بن موسی المعروف بالشريف المرتضى (المتوفی: ۴۳۶ھ) اپنی کتاب ’’الشافی فی الامامة‘‘ میں حضرت علی رضی اﷲعنہ سے روایات نقل کرتے ہیں کہ:

’’فرجع إلى علي عليه السلام فأخبره، ثم كذلك حتى ذكر عمر بعده، وفي حديث سفينة (۱) مولى رسول الله صلى الله عليه وآله (إن الخلافة بعدي ثلاثون سنة) وإنه صلى الله عليه وآله ذكر أبا بكر وعمر وعثمان بالخلافة، وقد روى أن أبا بكر قال: يا رسول الله صلى الله عليه وآله رأيت كأن علي برد حبرة وكأن فيه رقمين (۲) فقال صلى الله عليه وآله (تلي الخلافة بعدي سنتين إن صدقت رؤياك) وقال: وقد روي أنه قال صلى الله عليه وآله في أبي بكر وعمر (هذان سيدا كهول أهل الجنة) والمراد بذلك أنهما سيدا من يدخل الجنة من كهول الدنيا كما قال صلى الله عليه وآله في الحسن والحسين عليهما السلام (أنهما سيدا شباب أهل الجنة) يعني سيدا من يدخل الجنة من شباب الدنيا، وروي أنه قال صلى الله عليه وآله في أبي بكر (ادعوا لي أخي وصاحبي صدقني حيث كذبني الناس) وقال: (اقتدوا باللذين بعدي أبي بكر وعمر) وروى جعفر بن محمد عن أبيه أن رجلا من قريش جاء إلى أمير المؤمنين عليه السلام فقال سمعتك تقول في الخطبة آنفا: (اللهم أصلحنا بما أصلحت به الخلفاء الراشدين) فمن هم، قال: (حبيباي وعماي أبو بكر وعمر إماما الهدى وشيخا الاسلام ورجلا قريش، والمقتدى بهما بعد رسول الله صلى الله عليه وآله من اقتدى بهما عصم، ومن اتبع آثارهما هدي إلى صراط مستقيم)‘‘۔ ’’ایک شخص حضرت علی علیہ السلام کے پاس آیا، آپؑ نے اسے کچھ بتایاپھرکچھ دیربعدحضرت عمررضی اﷲعنہ کاذکرہوا اورآپؑ نے حدیث سفینہ بیان فرمائی کہ: رسول اﷲﷺ نے فرمایا (خلافت میرے بعد تیس سال تک رہےگی) اورحضرت ابوبکر، عمراورعثمان رضی اﷲعنہما کی خلافت کاذکرفرمایا۔ اورروایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: یارسول اﷲﷺمیں نے خواب میں علی کوایک کاغذ پرروشنائی سے دوعدد لکھتے دیکھا ہے، اس پررسول اﷲﷺنے فرمایا: (اگر تم اپنے خواب پر یقین رکھتے ہوتو خلافت دو سال بعد ہوگی)۔ اورروایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: ابو بکراور عمررضی اﷲعنہما (دونوں سردارہیں جنت کے اڈھیر عمر یا بوڑھوں کے)۔ اس سے مراداہل جنت میں سے ان لوگوں کےجن حضرات کا انتقال دنیامیں پختہ عمر میں ہوا۔ جیساکہ رسول ﷺنے فرمایا: (حسنؓ اور حسینؓ جوانانِ جنت کے سردار ہیں)۔ یعنی ان لوگوں کےجن کا دنیامیں جوانی میں انتقال ہوا۔ اورروایت ہے کہ رسول ﷺ نے ابوبکرؓ کے بارے میں فرمایا: (میرے بھائی اورمیرےدوست نے مجھ پراس وقت یقین کیاجب لوگوں نے مجھے جھوٹاکہا)۔ اورآپﷺ نے فرمایا: (میرے بعدابوبکروعمررضی اﷲعنہما کی پیروی کرنا)۔ امام جعفربن محمداپنے والد سےروایت کرتے ہیں کہ قریش کے ایک آدمی نےامیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کوخطبہ میں فرماتے سناکہ: (اےاﷲ! ہماری اس طرح اصلاح فرماجیسے تونے خلفاءِ راشدین کی اصلاح فرمائی تھی) سب نے پوچھاوہ کون ہیں؟ آپؑ نے فرمایا: ( وہ حضرت ابوبکروعمررضی اﷲعنہما دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام ہیں اور حضورﷺ کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ بُرائی سے بچ گیا)‘‘۔ (الشافی فی الامامة: ج۳، ص۹۳)

۳۔ ابوالقاسم السيد علی بن حسين بن موسیٰ کے شاگر محدث ومفسرإبو جعفر محمد بن الحسن بن علی بن الحسن الطوسی(المتوفی: ۴۶۰ھ) اپنی کتاب ’’تلخيص الشافی‘‘ میں یہ روایت کچھ اس طرح نقل کرتے ہیں کہ:

’’وروى عن جعفر بن محمدؑ عن أبيه: أن رجلا من قريش جاء إلى أمير المؤمنين عليه السلام فقال: سمعتہ یقول في الخطبة – أنفآ – : اللهم أصلحنا بما أصلحت به الخلفاء الراشدين، قلت فمن هم؟ قال: حبيباي وعماي أبو بكر وعمر إماما الهدى، وشيخا الاسلام ورجلا قريش، والمقتدى بهما بعد رسول الله صلى الله عليه وآله من اقتدى بهما عصم، ومن اتبع آثارهما هدي إلى صراط مستقيم‘‘۔ ’’امام جعفربن محمداپنے والد سےروایت کرتے ہیں کہ قریش کے ایک آدمی نےامیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کوخطبہ میں فرماتے سناکہ: اےاﷲ! ہماری اس طرح اصلاح فرماجیسے تونے خلفاءِ راشدین کی اصلاح فرمائی تھی، سب نے پوچھاوہ کون ہیں؟ آپؑ نے فرمایا:  وہ حضرت ابوبکروعمررضی اﷲعنہما دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام ہیں اور حضورﷺ کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ بُرائی سے بچ گیا‘‘۔ (تلخيص الشافی: ج۳-۴، ص۲۱۸)

۴۔ مشہورومعروف شیعہ عالم دین اور مفسر قرآن فضل بن حسن طبرسی(المتوفی: ۵۴۸ ھ) اپنی مستندتفسیر’’مجمع البیان فی تفسیر القرآن‘‘ میں سورۃ الزمرآیت نمبر۳۳  ’’وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ‘‘ کی تفسیرمیں لکھتے ہیں: 

’’الذي جاء بالصدق النبي - صلى الله عليه وسلم - وصدق به أبو بكر - رضي الله عنه‘‘۔ ’’جو صدق لے کرآئے وہ رسول اﷲﷺ ہیں اور جس نے ان کی تصدیق کی وہ ابوبکررضی اﷲعنہ ہیں‘‘۔ (مجمع البیان فی تفسیر القرآن: ج۸، ص۳۰۳، [سورۃ الزمر۳۹: آية ۳۳  ])

۵۔ زیدی شیعہ عالم ابو سعيد بن نشوان الحميری (المتوفى: ۵۷۳ھ) اپنی کتاب ’’الحور العین‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’وسميت الرافضة من الشيعة: رافضة، لرفضهم زيد بن علي بن الحسين بن علي ابن أبي طالب، وتركهم الخروج معه، حين سألوه البراءة من أبي بكر وعمر، فلم يجبهم على ذلك۔ وروى عوانة بن الحكم قال: لما استتب الأمر لزيد بن علي عليه السلام جمع أصحابه فخطبهم وأمرهم بسيرة علي بن أبي طالب في الحرب۔ فقالوا: قد سمعنا مقالتك، فما تقول في أبي بكر وعمر؟ فقال: وما عسيت أن أقول فيهما؟ صحبا رسول االله صلى االله عليه وآله وسلم بأحسن الصحبة، وهاجرا معه، وجاهدا في االله حق جهاده، ما سمعت أحداً من أهل بيتي تبرأ منهما، ولا يقول فيهما إلا خيراً۔ فقال لهم زيد: إنما وليا علينا وعلى الناس، فلم يألوا العمل بكتاب االله وسنة رسوله۔ قالوا: فلم يظلمك بنو أمية إذاً، إن كان أبو بكر وعمر لم يظلماك! فلم تدعونا إلى قتال بني أمية، وهم ليسوا لكم ظالمين، لأن هؤلاء إنما تبعوا في ذلك سنة أبي بكر وعمر؟ فقال لهم زيد: إن أبا بكر وعمر ليسا كهؤلاء، هؤلاء ظالمون لكم ولأنفسهم، ولأهل بيت نبيهم، وإنما أدعوكم إلى كتاب االله ليعمل به، وإلى السنة أن يعملا، وإلى البدع أن تطفأ، وإلى الظلمة من بني أمية أن تخلع وتنفى، فإن جبتم سعدتم، وإن أبيتم خسرتم، ولست عليكم بوكيل۔ قالوا: إن برئت منهما وإلا رفضناك!! فقال زيد: االله أكبر، حدثني أبي أن رسول االله صلى االله عليه وآله وسلم قال لعلي عليه السلام: "إنه سيكون قوم يدعون حبنا لهم نبز يعرفون به، فإذا لقيتموهم فاقتلوهم فإم مشركون"۔ اذهبوا فإنكم الرافضة‘‘۔ ’’شیعوں کو رافضی کہا جانے لگا: کیوں کہ انہوں نے جب زیدبن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب سے کہا ابو بکر اور عمر سے برا ت کا اعلان کرو، ورنہ ہم آپ کی امامت کا انکار کر دیں گے۔ عوانہ بن الحکم بیان کرتے ہیں کہ: جب زید بن علی عليه السلام کے لئے معاملہ طے ہوا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور انہیں خطبہ دیا اور جنگ میں علی بن ابی طالب کی زندگی کی پیروی کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا: آپ ابوبکر اور عمر کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ زیدنے فرمایا: میں ان کے بارے میں کچھ بھی کہنا نہیں چاہتا؟ انہوں نے رسول اﷲﷺکی صحبت اٹھائی، اور ان کابہترین ساتھ دیا، اور آپ ﷺکے ساتھ ہجرت کی، اور اﷲکی راہ میں جہاد حق کیا۔ میں نے کبھی نہیں سنا کہ (اہل بیت) میرے گھر والوں میں سےکسی نے اس بات کاانکار کیا ہو، اور ان کے بارے میں خیرکے کلمات کے علاوہ کچھ کہاہو۔ انہوں نے کہا: آپ نے اپنے گھر والوں کے خون اوران کی تکلیفوں کاحساب نہیں لیا، آپ نے انہیں اپنے ہاتھوں سے سنبھالااور انہیں اپنےکندھوں پر اٹھا لیا، اب تک وہ آپ کو مار چکے ہوتے۔ زیدؒ نے جواب میں کہا: وہ ہمارےلوگوں کےنگہبان ہیں، اور انہوں نے کتاب اﷲاور رسول اﷲکی سنت پر عمل کیا۔ انہوں نے کہا: بنو امیہ نے آپ پر ظلم نہیں کیا، پھر اگر ابوبکر اور عمر نے آپ پر ظلم نہیں کیا تو! آپ نے ہمیں امیوں سے لڑنے کے لئے کیوں بلایا، اور وہ آپ کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتے، کیوں کہ یہ لوگ صرف ابوبکر اور عمر کی سنت کی پیروی کرتے ہیں؟ زیدؒ نے ان سے کہا: ابوبکر اور عمر اِن جیسے نہیں ہیں، وہ اپنے نبی کے گھر والوں کے ساتھ بے انصاف نہیں ہیں۔ اور اگر تم لوگوں نےمیری بات کاانکار کیاتوتم ہار گئے، کیونکہ تمہارا کوئی وکیل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: آپ ان سے برا ت کا اعلان کریں، ورنہ ہم آپ کی امامت کا انکار کر دیں گے۔ توزیدؒ نے فرمایا: اللہ اکبر! مجھے میرے والد محترم نے بیان کیا تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا: ’’بے شک عنقریب ایک قوم آئے گی جو ہماری محبت کا دعویٰ کرے گی، وہ اپنے بُرے لقب سے پہچانے جائیں گے۔ پھر جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کر دو کیونکہ وہ مشرک ہوں گے۔ جاؤ چلے جاؤ، تم رافضہ ہو‘‘۔ (الحور العین للحميری: ۱۸۴-۱۸۵)

۶۔ شیعہ عالم سیدجمال الدین ابن عنبہ (المتوفی: ۸۲۸ھ) اپنی کتاب ’’عمدة الطالب فی أنساب آل أبی طالب‘‘ میں یہی روایت ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:

’’وكان أصحاب زيد لما خرج سألوه: «ما تقول في أبي بكر وعمر؟» فقال: «ما أقول فيهما إلاّ الخير وما سمعت من أهلي فيهما إلاّ الخير»۔ فقالوا :لست بصاحبنا ذهب الإمامـ يعنون محمّد الباقر عليه ‌السلامـ وتفرّقوا عنه فقال: «رفضونا القوم» فسمّوا بالرافضة‘‘۔ ’’جب امام زیدکے ساتھی باہر آئے تو انہوں نے آپ سے پوچھا: "آپ ابوبکر اور عمر کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟" امام زیدنےکہا: "میں ان دونوں کے بارے میں اچھائی کے علاوہ کوئی اور رائے نہیں رکھتا، جیساکہ میں نے ان دونوں کے بارے میں اپنےگھروالوں (اہل بیتؑ) سے صرف اچھائی کے کلمات سنے ہیں"۔ انہوں نے کہا: "ہم تمہارے امام کے ساتھ نہیں ہیں یعنی امام محمد باقرؑ۔ اور امام زیدان لوگوں سے الگ ہوگئے اور فرمایا: "ان لوگوں نے ہماری امامت کاانکار کردیاہے"۔ اس وجہ سے امام زید نے انہیں رافضی کہا‘‘۔ (عمدة الطالب فی أنساب آل أبی طالب: ص۲۳۸، تحت الاخبار زید شہید)

۷۔ محمد تقی لسان الملک سپهر (المتوفی: ۱۲۹۷ھ) اپنی کتاب’’ناسخ التواریخ‘‘ میں یہی روایت ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
’’و عن زید بن علی اخو الباقر و عم الصادق ان ناساً من رؤساء الکوفة و اشرافهم الذین بایعوا زیداً حضروا یوماً عنده، و قالوا له: رحمک الله، ماذا تقول فی حق ابی بکر و عمر؟ قال: ما اقول فیهما الا خیراً کما اسمع فیهما من اهل بیتی الا خیرا، ما ظلمانا و لا احد غیرنا، و عملا بکتاب الله و سنة رسوله۔ ويقول: لما سمع أهل الكوفة منه هذه المقالة رفضوه، ومالوا إلى الباقر، فقال زيد: رفضونا اليوم، ولذلك سموا هذه الجماعة بالرافضة"‘‘۔ ’’امام زید بن علیؑ نے اپنے بھائی امام باقرؑاور اپنے بھتیجے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ کوفہ کے سرداروں اورمال و قدرت رکھنے والوں میں سے جنہوں نے جناب زید کے ہاتھوں بیعت کی تھی وہ ایک دن جناب زید کے پاس جمع ہوئے اور ان سے پوچھا: اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ ابو بکر اور عمر کے حق میں کیا کہتے ہیں؟ جناب زید نے کہا: میں ان دونوں کے بارے میں خیر کے علاوہ کوئی اور رائے نہیں رکھتا، جیساکہ میں نے ان دونوں کے بارے میں اپنے اہل بیتؑ سے صرف خیر کے کلمات سنے ہیں، ان دونوں نے نہ ہم پر کوئی ظلم کیا اور نہ ہمارے علاوہ کسی اور پر انہوں نے ظلم کیا اور دونوں اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت پر عمل پیرا ہوئے۔ اہل کوفہ نے جب ان کی باتیں سنی توان کی امامت کاانکار کردیااورامام باقرکی طرف رجوع کیا، تو امام زیدنے کہا: تم لوگوں نے آج ہماری امامت کاانکار کردیاہے، اوراسی وجہ سے انہوں نےاس جماعت کے لوگوں کو رافضی کہا‘‘۔ (ناسخ التواریخ: ج۲، ص۵۹۰، تحت عنوان "أحوال الإمام زين العابدين"؛ کتاب البدء والتاریخ المقدسی: ج ۶، ص ۵۰؛ تاریخ مختصر الدول الابن العبری: ص ۱۱۶)

۸۔ ساتویں صدی ہجری کے شیعہ محدّث ومورّخ بہاءالدین علی بن عیسیٰ اربلی (المتوفی: ۶۹۲ھ) اپنی کتاب ’’کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَمْزَةَ السُّلَمِيُّ، أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ أَحْمَدَ أَجَازَ لَهُمْ ثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُبَيْشٍ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ شَرِيكٍ الْأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ، ثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجُعْفِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ "عَنْ حِلْيَةِ السُّيُوفِ، فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ، قَدْ حَلَّى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ سَيْفَهُ، قَالَ: قُلْتُ: وَتَقُولُ الصِّدِّيقَ! قَالَ: فَوَثَبَ وَثْبَةً وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، ثُمَّ قَالَ: نَعَمِ الصِّدِّيقُ، نَعَمِ الصِّدِّيقُ، فَمَنْ لَمْ يَقُلْ لَهُ: الصِّدِّيقُ، فَلَا صَدَّقَ اللَّهُ لَهُ قَوْلًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"‘‘۔  ’’حضرت عروہ بن عبد اللہ رضی اﷲعنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا امام باقر ابوجعفر محمد بن علی بن حسین رضی اﷲعنہم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے استفسار کیا: تلوار کو آراستہ کرنے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خود حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ نےبھی اپنی تلوار کو آراستہ کیا۔ میں نے کہا: آپ نے انہیں صدیق کہا؟ یہ سننا تھا کہ آپ رضی اﷲعنہ جلال فرماتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور قبلے کی طرف منہ کر کے ارشاد فرمایا: ہاں! وہ صدیق ہیں، ہاں! وہ صدیق ہیں،ہاں! وہ صدیق ہیں۔ اور جو انہیں صدیق نہ کہے تو اللہ تعالیٰ اس کے قول کی تصدیق نہیں فرماتانہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں۔ (کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ: ج۳، ص۱۳۷، ترجمہ الإمام الباقرؑ)

۹۔ شیعہ محدّث ومورّخ بہاءالدین علی بن عیسیٰ اربلی اپنی اسی کتاب میں روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’عليّ بن الحسين بن عليّ، فقد روي عنه أنّه جاء إليه نفر من العراق، فقالوا في أبي بكر وعمر وعثمان (رضي الله عنهم)، فلمّا فرغوا من كلامهم قال لهم: ألا تخبروني أنتم: المُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخرِجُوا مِن دِيَارِهِم وَأَموَالِهِم يَبتَغُونَ فَضلاً مِنَ اللَّهِ وَرِضوَاناً وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ؟ [سورۃ الحشر:۸] قالوا: لا، قال: فأنتم: وَالَّذِينَ تَبَوَّأُوا الدَّارَ وَالأِيمَانَ مِن قَبلِهِم يُحِبُّونَ مَن هَاجَرَ إِلَيهِم وَلا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِم حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِم وَلَو كَانَ بِهِم خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ المُفلِحُونَ؟ [سورۃ الحشر:۹] قالوا: لا، قال: أمّا أنتم قد تبرّأتم أن تكونوا من أحد هذين الفريقين، وأنا أشهد أنّكم لستم من الذين قال الله فيهم: يَقُولُونَ رَبَّنَا اغفِر لَنَا وَلإِخوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالأِيمَانِ وَلا تَجعَل فِي قُلُوبِنَا غِلاًّ لِلَّذِينَ آمَنُوا۔ [سورۃ الحشر:۱۰]، أخرجوا عنّي فعل الله بكم‘‘۔ ’’عراق سے کچھ لوگ حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور انہوں نے حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی شان میں نازیبا باتیں کیں۔ جب وہ اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے ان سے فرمایا کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ کیا تم اولین مہاجرین میں سے ہو جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ان مہاجر فقراء کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنی جائیدادوں سے نکالے گئے ہیں وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا ڈھونڈتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں؟ [سورۃالحشر: ۸]، وہ عراقی کہنے لگے نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا تو تم ان لوگوں میں شامل ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اور ان کے لیے جنہوں نے (مدینہ کو) گھر بنا لیا تھا اور ان (مہاجرین) سے پہلے ایمان لا چکے تھے، وہ (انصار) ان سے محبت کرتے ہیں جو ان کی طرف ہجرت کرے اور وہ اپنے دلوں میں اس (مال) کی کوئی حاجت نہیں پاتے جو ان (مہاجرین) کو دیا جائے اور اپنی ذات پر (ان کو) ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود انہیں سخت ضرورت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں؟ [سورۃالحشر: ۹]، عراقی گروہ نے جواب دیا: نہیں۔ ہم ان میں بھی شامل نہیں۔ تو حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے فرمایا خبردار! تم نے ان دو گروہوں سے لاتعلقی کا اظہار خود ہی کر دیا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں بھی شامل نہیں ہو جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور ان کے لیے ہے جو ان (مہاجرین و انصار) کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنہوں نے ایمان میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ۔ اے ہمارے رب! بے شک تو بہت نرمی والا، نہایت رحم والا ہے۔[سورۃالحشر: ۱۰]، اے عراقیوں! میرے پاس سے چلے جائو، اللہ تمہیں برباد کرے‘‘۔ (کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ: ج۳، ص۱۵-۱۶، ترجمہ الإمام السجادؑ؛ الصوارم المهرقة: ص ۲۴۹-۲۵۰، نمبر۸۳)

۱۰۔ معروف شیعہ عالم شيخ علی بن يونس العاملی النباطی البياضی(المتوفی: ۸۷۷ھ) اپنی کتاب ’’الصراط المستقيم‘‘ میں حضرت علی رضی اﷲعنہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’ومنها: ما رووه أن عليا عليه السلام قال في خطبته: اللهم أصلحنا بما أصلحت به الخلفاء الراشدين: قيل: منهم؟ قال: أبو بكر وعمر إماما الهدى، من اقتد بهما عصم، ومن تبع آثارهما هدي إلى صراط مستقيم‘‘۔ ’’حضرت علی علیہ السلام نےاپنے خطبے کے دوران میں فرمایا: اے اللہ! ہماری اسی طرح اصلاح فرما جیسی تم نے خلفائے راشدین کی اصلاح فرمائی تھی۔ ان سے پوچھا گیا وہ خلفاء کون ہیں؟ فرمایا وہ ابو بکر اور عمر ہیں جو ہدایت یافتہ امام تھے۔ جس نے ان کی اقتدا کی وہ بچ گیا اور جس نے ان کے نقش قدم کی پیروی کی وہ سیدھی راہ پا گیا‘‘۔ (الصّراط المستقيم إلى مستحقّی التقديم: ج۳، ص۱۴۹-۱۵۰)

۱۱۔ اکبر دور کے مشہورو معروف شیعہ عالم قاضی نور اللہ شوشتری (المتوفی: ۱۰۱۹ھ) اپنی کتاب ’’الصوارم المهرقة‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’وأخرج أيضا عن جعفر الصادق عن أبيه محمد الباقر "أن رجلا جاء إلى أبيه زين العابدين علي بن الحسين رضي الله عنهم فقال أخبرني عن أبي بكر فقال عن الصديق؟ فقال وتسميه الصديق، فقال ثكلتك أمك قد سماه صديقا رسول الله صلى الله عليه وسلم والمهاجرون والأنصار ومن لم يسمه صديقا فلا صدق الله عز وجل قوله في الدنيا والآخرة اذهب فأحب أبا بكر وعمر رضي الله عنهما"۔ وأخرج أيضا عن عروة عن عبد الله "سألت أبا جعفر الباقر عن حلية السيف قال لا بأس به قد حلى أبو بكر الصديق رضي الله عنه سيفه قال: قلت تقول الصديق؟ قال نعم الصديق نعم الصديق نعم الصديق فمن لم يقل الصديق فلا صدق الله قوله في الدنيا وفي الآخرة"‘‘۔ ’’ابوجعفر الباقر سے تلوار کو سونے چاندی سے منقش کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں، ابو بکر الصدیق رضی اللہ نے اپنی تلوار کو منقش کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا آپ انہیں صدیق کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں۔ جو شخص انہیں صدیق نہ کہے اللہ دنیا اور آخرت میں اس کے کسی قول و اقرار کی تصدیق نہ فرمائے‘‘۔ (الصوارم المهرقة: ص ۲۳۵)

۱۲۔ شیعہ عالم قاضی نور اللہ شوشتری اپنی اسی کتاب میں امام جعفرصادقؒ کاقول نقل کرتے ہیں کہ:

’’أنه سأل رجل من المخالفين عن مولانا جعفر الصادق عليه السلام وقال: يا بن رسول الله صلى الله عليه وآله ما تقول في أبي بكر وعمر؟ فقال عليه السلام: هما إمامان عادلان قاسطان كانا على الحق وماتا عليه فرحمة الله عليهما يوم القيامة‘‘۔ ’’مخالف گروہ کے ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے خلافت صدیق وعمر رضی اللہ عنہما کے متعلق سوال کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا۔ "وہ دونوں امام عادل تھے، مصنف تھے، حق پر تھے اور حق پر انہوں نے وفات پائی، ان دونوں پر قیامت تک اللہ کی رحمت نازل ہو"‘‘۔ (الصوارم المهرقة: ص ۱۵۵؛ إحقاق الحق للشوشتری: ج۱، ص۴۴)

۱۳۔ شیعہ عالم قاضی نور اللہ شوشتری اپنی دوسری کتاب ’’مجالس المومنين‘‘ میں نقل کرتے ہیں کہ:

’’ما سبقكم ابوبكر بصوم ولا صلوة ولكن بشئي وقر في قلبه‘‘۔ ’’آنحضرت ﷺہمیشہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی جماعت میں فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سبقت وفضیلت نماز ر وز ہ سے نہیں بلکہ یہ ان کے دل کی عقیدت مندی اوراخلاص کا ثمرہ ہے‘‘۔ (مجالس المومنين: ص ۸۸)

میری اس تحریر کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اہلسنت والجماعت حضرت علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ کی فضیلت کے قائل نہیں یا آپؓ کے بلندمقام ومرتبے میں کسی قسم کی کمی کےقائل ہیں (نعوذباﷲ)۔ بلکہ ہمارااصل مقصد ایسےلوگوں کوبے نقاب کرناہے جواہلسنت والجماعت کالبادہ اوڑھ کرچنداحادیث سے اپنا باطل استدلال پیش کرکےصحابہ کرامؓ سےاپنے بغض وعداوت کااظہارکرتے ہیں اورعام ولاعلم مسلمانوں کوصحابہ کرامؓ سے بدگمان کرتے ہیں۔

موجودہ دورمیں صحابہ کرامؓ کے متعلق مسلمانوں میں بدگمانی پھیلانے میں سب سے نمایانام انجنیئرعلی مرزاصاحب کاہے، جنہوں نے اجماعِ امت کوبالائےطاق رکھتے ہوئے دشمنانِ صحابہؓ کی ہمایت میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کی افضلیت کابھی انکار کرڈالا۔

انجنیئرعلی مرزاصاحب صحیح بخاری کی ایک حدیث سے اپنا قیاسی استدلال پیش کرتے ہوئے، اہلسنت والجماعت کے تمام مکاتب فکرسمیت صحابہ کرامؓ کے درمیان ہونے والے اجماع امت سے اختلاف کرتے ہوئےدشمنانِ صحابہؓ کی تائید میں فرماتے ہیں: ’’حضرت علی رضی اﷲعنہ حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ سے افضل ہیں‘‘۔

اس تحریر کی ابتداء میں انجنیئرعلی مرزا صاحب کے اس کھوکھلےنعرے کوبےنقاب کرتےہوئے کرنا چاہوں گاجس سے موصوف لاعلم مسلمانوں کوبیوقوف بناکراپنی چُورن پھکی کی دکان چمکانے میں مصروف ہیں وہ یہ کہ ’’نہ میں بابی، نہ میں وہابی، میں ہوں مسلم علمی کتابی‘‘۔ آئیں ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ موصوف کتنے علمی اور کتابی ہیں۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کا افضل البشربعدالانبیاءؑ (یعنی مردوںمیں انبیاءؑ کے بعد تمام انسانوں میں افضل ترین) ہونے پرتمام مسلمانوں کااجماع ہے اوریہ اجماع صحابہ کرامؓ کے زمانے سے چلاآرہاہے۔ جس پرانگنت دلائل وشواہداحادیث نبویﷺ میں موجودہیں جن کوذیل میں تفصیل سے بسند بیان کیاجارہاہے۔

سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کا افضل البشربعدالانبیاءؑ ہونے کاثبوت حضرت عمربن خطاب، حضرت علی بن ابوطالب اوراجماع صحابہ رضی اﷲعنہم اجمعین سے

۱۔ ’’حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَاتَ وَأَبُو بَكْرٍ بِالسُّنْحِ ـ قَالَ إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي بِالْعَالِيَةِ ـ فَقَامَ عُمَرُ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم۔ قَالَتْ وَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ مَا كَانَ يَقَعُ فِي نَفْسِي إِلاَّ ذَاكَ وَلَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ فَلَيَقْطَعَنَّ أَيْدِيَ رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ۔ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَبَّلَهُ قَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا۔ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ أَيُّهَا الْحَالِفُ عَلَى رِسْلِكَ۔ فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ جَلَسَ عُمَرُ۔ فَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ أَلاَ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَىٌّ لاَ يَمُوتُ۔ وَقَالَ ‏}‏إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ‏{ ‏وَقَالَ }‏وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ‏{ قَالَ فَنَشَجَ النَّاسُ يَبْكُونَ ـ قَالَ ـ وَاجْتَمَعَتِ الأَنْصَارُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ فَقَالُوا مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَذَهَبَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، فَذَهَبَ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ فَأَسْكَتَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَكَانَ عُمَرُ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِذَلِكَ إِلاَّ أَنِّي قَدْ هَيَّأْتُ كَلاَمًا قَدْ أَعْجَبَنِي خَشِيتُ أَنْ لاَ يَبْلُغَهُ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَتَكَلَّمَ أَبْلَغَ النَّاسِ فَقَالَ فِي كَلاَمِهِ نَحْنُ الأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ۔ فَقَالَ حُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ لاَ وَاللَّهِ لاَ نَفْعَلُ، مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ۔‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لاَ، وَلَكِنَّا الأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ دَارًا، وَأَعْرَبُهُمْ أَحْسَابًا فَبَايِعُوا عُمَرَ أَوْ أَبَا عُبَيْدَةَ۔ فَقَالَ عُمَرُ بَلْ نُبَايِعُكَ أَنْتَ، فَأَنْتَ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم۔‏ فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ، وَبَايَعَهُ النَّاسُ، فَقَالَ قَائِلٌ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ۔ فَقَالَ عُمَرُ قَتَلَهُ اللَّهُ‘‘۔ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ اس وقت مقام سنح میں تھے، اسماعیل نے کہا یعنی عوالی کے ایک گاؤں میں۔ آپ کی خبر سن کر حضرت عمر اٹھ کریہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم اس وقت میرے دل میں یہی خیال آتا تھا اور میں کہتاتھا کہ اللہ آپ کو ضرور اس بیماری سے اچھا کر کے اٹھائے گا اور آپ ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے (جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں) اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور اندر جا کر آپ کی نعش مبارک کے اوپر سے کپڑا اٹھایا اور بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور وفات کے بعد بھی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر دو مرتبہ موت ہرگز طاری نہیں کرے گا۔ اس کے بعد آپ باہر آئے اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے اے قسم کھانے والے! ذرا تامل کر۔ پھر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموش بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پوجتا تھا (یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔ (پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سورۃ الزمر کی یہ آیت پڑھی) "اے پیغبر! توبھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے"اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکرگزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے" راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کررونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہو گا (دونوں مل کر حکومت کریں گے) پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کر لی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈرتھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم (قریش) امراء ہیں اور تم (جماعت انصار) وزارء ہو۔ اس پر حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو (وجہ یہ ہے کہ) قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کاملک (یعنی مکہ) عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو یا ابوعبیدہ بن جراح کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو تم لوگوں نے مارڈالا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: انہیں اللہ نے مارڈالا‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً"‏ قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ، ص۱۳۱-۱۳۲، رقم الحدیث۳۶۶۷، ۳۶۶۸)

۲۔ ’’حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رضى الله عنهم‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمابیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، باب فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، ص۱۲۴، رقم الحدیث۳۶۵۵)

۳۔ ’’حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيغٍ، حَدَّثَنَا شَاذَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كُنَّا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لاَ نَعْدِلُ بِأَبِي بَكْرٍ أَحَدًا ثُمَّ عُمَرَ ثُمَّ عُثْمَانَ، ثُمَّ نَتْرُكُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لاَ نُفَاضِلُ بَيْنَهُمْ۔‏ تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کونہیں قرار دیتے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر ہم کوئی بحث نہیں کرتے تھے اور کسی کوایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے، اس حدیث کو عبداللہ بن صالح نے بھی عبدالعزیز سے روایت کیا ہے۔ اس کو اسماعیلی نے وصل کیا ہے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، باب مَنَاقِبُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ رضى الله عنه، ص۱۵۲-۱۵۳، رقم الحدیث۳۶۹۸)

صحیح بخاری کی متفقن علیہ احادیث سے یہ مسئلہ سورج کی روشنی کی طرح واضح ہوگیاکہ رسول اﷲﷺ کے حیات طیبہ میں ہی تمام صحابہ کرامؓ کا اس بات پراجماع تھاکہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کامقام و مرتبہ تمام صحابہ کرامؓ میں سب سے افضل ہےاور کسی دوسرے صحابیؓ کوان کے برابرقرارنہیں دیاجاتاتھا۔ اتنے واضح دلائل کے بعد بھی اگرکوئی حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کامقام ومرتبہ کسی دوسرے صحابیؓ سے کم کرتاہے توہم یہ کہنے پرمجبورہونگے کہ اس شخص کے دل میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ سے بغض وعداوت ہے یاپھر ایسا شخص دشمنانِ صحابہؓ کاپیروکارہے۔

۴۔ ’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ أَبِي رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ قُلْتُ لأَبِي أَىُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ أَبُو بَكْرٍ۔‏ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ عُمَرُ۔‏ وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ عُثْمَانُ قُلْتُ ثُمَّ أَنْتَ قَالَ مَا أَنَا إِلاَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ‘‘۔ ’’حضرت محمد بن حنفیہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (علی رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد ؟ تو) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس لیے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً"‏ قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ، ص۱۳۳، رقم الحدیث۳۶۷۱)

یہ حدیث میں جب بھی پڑھتاہوں، میری آنکھیں حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲوجہہ کی عاجزی وانکساری اورحق گوئی کی شہادت دیتے ہوئے اشکبارہوجاتی ہیں۔ میں سمجھتاہوکہ حضرت علی رضی اﷲعنہ کاموازنہ کسی دوسرے صحابیؓ سے کرناہی غلط ہےکیونکہ جو خصوصیات حضرت علی رضی اﷲعنہ میں پائی جاتی ہیں وہ کسی دوسرے صحابیؓ میں نہیں ملتی اور جوشرف وعزت اورمقام ومرتبہ اﷲتعالیٰ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کوبخشاوہ کسی اورکونصیب نہ ہوسکا۔ اس کی زندہ مثال رسول اﷲﷺ کاساتھ ہے جوکہ دنیامیں بلکہ قبرمیں بھی آپؓ کوحاصل ہے۔ میں اپنی اس بات کی تائید میں حضرت عمرؓاورحضرت علی ؓ سے پیش کرتاہوں۔

’’حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحُسَيْنِ الْمَكِّيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ إِنِّي لَوَاقِفٌ فِي قَوْمٍ، فَدَعَوُا اللَّهَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَقَدْ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ، إِذَا رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي قَدْ وَضَعَ مِرْفَقَهُ عَلَى مَنْكِبِي، يَقُولُ رَحِمَكَ اللَّهُ، إِنْ كُنْتُ لأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ، لأَنِّي كَثِيرًا مِمَّا كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ كُنْتُ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَفَعَلْتُ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَانْطَلَقْتُ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ۔‏ فَإِنْ كُنْتُ لأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَهُمَا۔‏ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتےہیں کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے دعائیں کر رہے تھے، اس وقت ان کا جنازہ چارپائی پر رکھا ہوا تھا، اتنے میں ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آ کر میرے شانوں پر اپنی کہنیاں رکھ دیں اور (عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے) کہنے لگے اللہ آپ پر رحم کرے۔ مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ (دفن) کرائے گا، میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ"میں اورابوبکر اور عمر تھے"، "میں نے اور ابوبکر اور عمر نے یہ کام کیا"، "میں اور ابوبکر اور عمر گئے" اس لیے مجھے یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان ہی دونوں بزرگوں کے ساتھ رکھے گا۔ میں نے جو مڑکر دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً"‏ قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ، ص۱۳۹، رقم الحدیث۳۶۷۷)

’’أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أُنَبَّأْ مُوسَى بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَبَّادٍ، ثنا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، ثنا السَّرِيُّ بْنُ يَحْيَى، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، قَالَ: ذَكَرَ رِجَالٌ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَكَأَنَّهُمْ فَضَلُّوا عُمَرَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَلَيْلَةٌ مِنْ أَبِي بَكْرٍ خَيْرٌ مِنْ آلِ عُمَرَ، وَلَيَوْمٌ مِنْ أَبِي بَكْرٍ خَيْرٌ مِنْ آلِ عُمَرَ، لَقَدْ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَنْطَلِقَ إِلَى الْغَارِ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَجَعَلَ يَمْشِي سَاعَةً بَيْنَ يَدَيْهِ، وَسَاعَةً خَلْفَهُ حَتَّى فَطِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: »يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا لَكَ تَمْشِي سَاعَةً بَيْنَ يَدَيْ وَسَاعَةً خَلْفِي؟« فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَذَكُرُ الطَّلَبَ فَأَمْشِي خَلْفَكَ، ثُمَّ أَذَكَرُ الرَّصْدَ، فَأَمْشِي بَيْنَ يَدَيْكَ، فَقَالَ: »يَا أَبَا بَكْرٍ، لَوْ كَانَ شَيْءٌ أَحْبَبْتَ أَنْ يَكُونَ بِكَ دُونِي؟ «قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا كَانَتْ لِتَكُونَ مِنْ مُلِمَّةٍ إِلَّا أَنْ تَكُونَ بِي دُونَكَ، فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الْغَارِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍمَكَانَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَتَّى أَسْتَبْرِئَ لَكَ الْغَارَ، فَدَخَلَ وَاسْتَبْرَأَهُ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي أَعْلَاهُ ذَكَرَ أَنَّهُ لَمْ يَسْتَبْرِئِ الْحُجْرَةَ، فَقَالَمَكَانَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَتَّى أَسْتَبْرِئَ الْحُجْرَةَ، فَدَخَلَ وَاسْتَبْرَأَ، ثُمَّ قَالَانْزِلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَنَزَلَ، فَقَالَ عُمَرُوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لِتِلْكَ اللَّيْلَةُ خَيْرٌ مِنْ آلِ عُمَرَ »هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، لَوْلَا إِرْسَالٌ فِيهِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ« صحيح مرسل‘‘۔ ’’حضرت محمد ابن سیرین ؒفرماتے ہیں کہ: صبح سویرے کچھ لوگ بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے، ان باتوں میں ایک بات یہ تھی کہ وہ حضرت عمرؓ، کو حضرت ابوبکرؓ پر فوقیت اور فضیلت دے رہے تھے، یہ بات اڑتی ہوئی امیر المومنین حضرت عمرؓ تک پہنچ گئی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ دوڑتے ہوئے آئے اور لوگوں کے ایک بھرے مجمع میں کھڑے ہو کر فرمایا: خدا گواہ ہے کہ ابوبکرؓ کی ایک رات، عمرؓ کی تمام زندگی سے بہتر ہے، اور ابوبکرؓ کا ایک دن، عمرؓ کی پوری زندگی سے بہتر ہے۔ پھر آپؓ نے لوگوں کے سامنے حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسے عظیم انسان کا ایک واقعہ بیان کیا تاکہ ان کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کا مقام و مرتبہ معلوم ہو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ایک رات رسول کریم ﷺغار کی طرف جانے کے لئے نکلے، آپ ﷺکے ہمراہ ابوبکر صدیقؓ بھی تھے، ابوبکرؓ راستہ میں چلتے وقت کبھی آنحضورﷺ کے پیچھے پیچھے چلتے اور کبھی حضور ﷺکے آگے آگے چلتے، یہاں تک رسول اللہ ﷺکو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے پوچھا: ابوبکرؓ! کیا وجہ ہے کہ تم کبھی میرے پیچھے چلتے ہو اور کبھی میرے آگے چلتے ہو؟ حضرت ابوبکرؓ نے بڑے غمزدہ لہجہ میں عرض کیا: یارسول اللہ! میں کبھی آپ کے پیچھے چلتا ہوں تاکہ دیکھوں کہ کہیں کوئی آپ کو تلاش تو نہیں کر رہا ہے! اور کبھی آپ کے گے آگے چلتا ہوں تاکہ دیکھوں کہ کہیں کوئی گھات لگا کر آپ کا انتظار تو نہیں کر رہاہے، اس پر آنحضرت ﷺنے فرمایا: اے ابوبکرؓ! اگر کوئی چیز ہوتی، خطرہ درپیش ہوتا تو میں پسند کرتا کہ تم ہی میرے آگے ہوتے۔ ابوبکرؓ نے شوق سے عرض کیا: جی ہاں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ ﷺکو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ جب دونوں غار ثور میں پہنچ گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے حضور اکرم کو یہ عرض کرتے ہوئے ٹھہرایا کہ یارسول اللہ! آپ ٹھہریئے! مجھے پہلے اس غار میں جانے دیں، اگر کوئی سانپ یا مضر جانور ہو تو وہ مجھے نقصان پہنچائے، آپ کو نہ پہنچائے۔ ابوبکر ؓ غار کے اندر گئے اور اپنے ہاتھ سے سوراخوں کو ٹٹولنے لگے اور ہر سوراخ کو کپڑے سے بند کیا، جب سارا کپڑا اس میں لگ گیا تو تو دیکھا کہ ایک سوراخ باقی رہ گیا ہے، اس میں اپنا پاؤں رکھ دیا، پھر نبی اکرم ﷺاس غار میں داخل ہوئے، جب صبح ہوئی اور ہر طرف روشنی پھیل گئی تو آنحضرت ﷺکی صدیق اکبرؓ پر نظر پڑی تو دیکھا کہ ان کے بدن پر کپڑا نہیں ہے، آپ ﷺنے متعجب ہو کر پوچھا: اے ابوبکرؓ! تمہارا کپڑا کہاں ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے سارا واقعہ بتایا تو نبی کریم ﷺنے اپنے دست مبارک اٹھائے اور یہ دعا فرمائی: اے اللہ! قیامت کے دن ابوبکرؓ کو میرے ساتھ میرے درجہ میں کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اللہ جل جلالہ، نے آپ کی دعا قبول فرما لی ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر بن الخطابؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ابوبکر صدیقؓ کی وہ رات، عمر کی ساری زندگی (کی تمام نیکیوں) سے زیادہ بہتر ہے۔ یہ حدیث امام بخاریؒ ومسلمؒ کی شرط پر صحیح الاسنادہے، اگرچہ اس میں ارسال ہے۔ لیکن شیخینؒ نے اس کونقل نہیں کیا‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم [اردو]: ج۴، كتاب الهجرة وقد صح أكثر أخبارها عند الشيخين وأخرجا جميعا اختلاف الصحابة رضي الله عنهم في مقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة، ص۴۸، رقم الحدیث۴۲۶۸)

انجنیئرعلی مرزاصاحب نے اس صحیح الاسنادحدیث کو مرسل ہونے کی بنیاد پرضعیف کہہ کرردکردیا۔ حالانکہ تمام محدثین کااس بات پراتفاق ہے کہ مرسل حدیث کلی طورپرضعیف نہیں ہوتی کیونکہ اس کوروایت کرنے والے جلیل القدرثقہ تابعی ہوتے ہیں۔ جبکہ اس حدیث کوبیان کرنے والے جلیل القدرتابعی محمد بن سیرینؒ ہیں۔ جن کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں کہ ابن سیرینؒ صرف ثقات سے حدیث روایت کرتے تھے۔ اگرانجنیئرصاحب واقعی علمی کتابی ہوتے توانہیں اس بات کابخوبی علم ہوتالیکن حقیقت تو یہ ہے کہ صرف نعرے لگانے سے کوئی علمی کتابی نہیں ہوجاتا، اس کے لئے علماء کے سامنے دوزانو بیٹھ کرعلم حاصل کرنا ضروری ہے۔

’’قال أبو عمر: أجمع أهل العلم بالحديث أن ابن سيرين أصح التابعين مراسل وأنه كان لا يروي ولا يأخذ إلا عن ثقة وأن مراسله صحاح كلها ليس كالحسن وعطاء في ذلك والله أعلم‘‘۔ ’’ابوعمر ؒ فرماتے ہیں: تمام اہل علم محدثین کا اس بات پراجماع ہے کہ ابن سیرینؒ کی مراسیل سب سے صحیح ہیں کیونکہ ابن سیرینؒ ہمیشہ ثقہ راوی سے روایت لیتے ہیں لہٰذا ان کی تمام مراسیل صحیح ہیں، وہ حسن اور عطا کی طرح نہیں ہیں‘‘۔ (التمهيد: ج۸، ص۳۰۱)

’’قال الزركشي في النكت على مقدمة ابن الصلاح ما نصه "قال ابو عمر في التمهيد "جمع أهل العلم بالحديث أن ابن سيرين أصح التابعين مراسيل، وانه كان لا يروي ولا يأخذ الا عن ثقة، وان مراسيله صحاح كلها ليس كالحسن وعطاء في ذلك‘‘۔ ’’علامہ الزرکشیؒ اپنی کتاب النکت کے مقدمہ میں ابن الصلاحؒ سے بیان کرتے ہیں کہ "ابوعمر ؒالتمہیدمیں فرماتے ہیں": تمام اہل علم محدثین کا اس بات پراجماع ہے کہ ابن سیرینؒ کی مراسیل سب سے صحیح ہیں کیونکہ ابن سیرینؒ ہمیشہ ثقہ راوی سے روایت لیتے ہیں لہٰذا ان کی تمام مراسیل صحیح ہیں، وہ حسن اور عطا کی طرح نہیں ہیں‘‘ ۔ (النكت: ج۱، ص۵۱۱)

’’قال ابن عبد البر في التمهيد: مراسيل سعيد بن المسيب، ومحمد بن سيرين، وإبراهيم النخعي، عندهم صحاح۔ وقالوا: مراسيل عطاء والحسن لا يحتج بهما، لأنهما يأخذان عن كل أحد۔ وكذلك مراسيل أبي العالية وأبي قلابة‘‘۔ ’’علامہ ابن عبدالبرؒالتمہیدمیں فرماتے ہیں: سعید بن المسیب، محمد ابن سیرین اور ابراہیم نخعی کی مراسیل انکے نزدیک صحیح ہیں اور فرماتے ہیں کہ عطاء اور حسن کی مراسیل حجت نہیں ہیں۔ اس لئے کہ وہ دونوں ہرایک سے حدیث لے لیتےہیں اور یہی حال ابو قلابہ اور ابو عالیہ کاہے‘‘۔ (التمهيد: ج۱، ص۳۰، مقدمة كتاب المراسيل:۴۶)

’’وقد ذكر ابن عبد البر ما يقتضي أن ذلك إجماع، فإنه قال: ( كل من عرف بالأخذ عن الضعفاء والمسامحة في ذلك لم يحتج بما أرسله كان أو من دونه، وكل من عرف أنه لا يأخذ إى عن ثقة فتدليسه ومرسله مقبول، فمراسيل سعيد بن المسيب، ومحمد بن سيرين، وإبراهيم النخعي عندهم صحاح‘‘۔ ’’علامہ ابن عبدالبرؒ اس بات پراجماع کاذکرکرتے ہوئےفرماتے ہیں: جو شخص ضعیف اور کمزور راویوں سے روایت لیتا ہے تو ایسے شخص کی مرسلات قابل قبول نہیں ہونگی اورایسا شخص جس کے بارے معلوم ہوکہ وہ صرف ثقہ راوی سے ہی روایت لیتا ہےتو ایسے شخص کی تدلیس بھی مقبول ہے اورحدیث مرسل بھی مقبول ہے‘‘۔ (فی شرح العلل: ج۱، ص۵۵۶)

’’احناف اورمالکیہ کے نزدیک مرسل حدیث حجت ہے اورحنابلہ بھی اسکوحجت مانتے ہیں۔ اس کی دلیل ہمارے پاس اجماع صحابہؓ ہے، کیونکہ صحابہؓ اورتابعینؒ کااس بات پراجماع ہے کہ مرسل حدیث حجت ہے۔ صحابہؓ نے حضرت عبداﷲبن عباسؓ کی احادیث کوقبول کیاحالانکہ انہوں نے خودآنحضرتﷺ سے براہ راست صرف چار احادیث سنی ہیں اورباقی تمام مرسل ہیں اورحضرت البراءبن عازبؓ توصاف ارشاد فرماتے تھےکہ ہم جوحدیثیں آپ لوگوں کو بیان کرتے ہیں وہ ساری ہم نے نبی پاک ﷺ سے نہیں سنیں بلکہ اور لوگوں سے سن کرحضورﷺسے روایت کردیتے ہیں۔ اوریہی حال تابعینؒ کاتھا۔ وہ بہت ارسال کرتے تھے۔ اوراجماع کی نقلی دلیل کے علاوہ عقلی دلیل یہ ہےکہ جب ایک تابعی نےایک بات پورے یقین کے ساتھ نبی پاکﷺکی طرف منسوب کردی، تواس کامطلب یہ ہےکہ اس کویقین یاظنِ غالب حاصل ہےکہ یہ حضورﷺسےثابت ہےاوراگراس نےمحض ایک جھوٹ حضورپاکﷺکی طرف منسوب کردیاتوایسے شخص کی دیگرمسنداحادیث بھی حجت نہ رہیں گی کیونکہ جونبی پاکﷺ پرجھوٹ بول سکتاہےوہ اپنے استاد پربھی بطریق اولیٰ جھوٹ بول سکتاہے۔ اس لئے جب تابعی نے آپﷺکی طرف نسبت کردی تواُس کوثابت ماناجائے گا‘‘۔ (مقدمہ اعلاءالسنن قواعدفی علوم الحدیث: ص۳۹؛ احیاءالسنن: ج۱، ص۴۵-۴۶)

’’وعن عائشة قالت: بينا رأس رسول الله صلى الله عليه و سلم في حجري ليلة ضاحية إذ قلت: يا رسول الله هل يكون لأحد من الحسنات عدد نجوم السماء؟ قال: "نعم عمر"۔ قلت: فأين حسنات أبي بكر؟ قال: "إنما جميع حسنات عمر كحسنة واحدة من حسنات أبي بكر"‘‘۔ ’’اور حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک چاندنی رات میں جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری گود میں تھا میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا کسی کی اتنی نیکیاں بھی ہیں جتنے آسمان پر ستارے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ہاں وہ عمر ہیں (جن کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں) پھر میں نے عرض کیا کہ ابوبکر کی نیکیوں کا کیا حال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عمر کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی کے برابر ہیں‘‘۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: ج۱۱، کتاب المناقب، باب حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے مناقب کا بیان، ص۲۱۷، رقم الحدیث ۶۰۶۸)

ایک نیکی کے برابر ہونے کامطلب یہ ہےکہ ابوبکرؓ کی نیکیاں عمر ؓکی نیکیوں سے کہیں زیادہ ہیں اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ عمر ؓکی نیکیاں ابوبکر ؓکی نیکیوں سے کہیں زیادہ ہیں تو بھی ابوبکر ؓافضل ہیں کیونکہ ان کو کمال اخلاص اور شہود معرفت کا جو خصوصی مرتبہ حاصل ہے اس نے ان کی نیکیوں کو کیفیت وحیثیت کے اعتبار سے سب سے زیادہ گرانقدر اور بلند مرتبہ بنادیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے ابوبکر ؓکو تم پر فضیلت وبرتری حاصل ہے وہ اس بناء پر نہیں ہے کہ ان کی نمازیں تمہاری نمازوں سے زیادہ ہیں اور ان کی روزے تمہارے روزوں سے زیادہ ہیں بلکہ اس جو ہر کی بناء پر ہے جو ان کے دل میں رکھا گیا ہے۔

۵۔ ’’حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الأَسْفَاطِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ أَبُو بَكْرٍ سَيِّدَنَا وَخَيْرَنَا وَأَحَبَّنَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ‘‘۔ ’’حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: حضرت ابوبکرؓہم سب کے سردار، ہم سب سے بہتراورہم سب سے زیادہ رسول اﷲﷺسے محبت کرنے والےتھے۔ یہ حدیث امام بخاریؒ اورامام مسلمؒ کے معیار کے مطابق صحیح ہےلیکن شیخینؒ نے اس کونقل نہیں کیا‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم [اردو]: ج۴، ص۱۵۳، رقم الحدیث۴۴۲۱)

۶۔ ’’أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ السَّمَّاكِ، بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزِّبْرِقَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَأَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِيعِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ قَيْسِ الْحَارِثِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: سَبَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَثَنَّى أَبُو بَكْرٍ، وَثَلَّثَ عُمَرُ، ثُمَّ خَطَبَتْنَا فِتْنَةٌ، وَيَعْفُو اللَّهُ عَمَّنْ يَشَاءُ۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ‘‘۔ ’’حضرت علیؓ فرماتے ہیں: رسول اﷲﷺسب سے آگےہیں۔ دوسرے نمبرپرحضرت ابوبکرصدیقؓ اور تیسرے نمبرپرحضرت عمرؓہیں۔ پھرہمیں فتنوں نے آگھیرا، اوراﷲتعالیٰ جسے چاہے معاف فرمادیتاہے۔ یہ حدیث صحیح الاسنادہےلیکن شیخینؒ نے اس کونقل نہیں کیا‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم [اردو]: ج۴، ص۱۵۶، رقم الحدیث۴۴۲۶)

حضرت علیؓ کے اپنے اقرار کے بعد کسی بھی صاحب عقل و فہم شخص کے لئے کسی قسم کاکوئی شبہ باقی نہیں رہا جواس بات پراب بھی حجت کرے کہ حضرت علیؓ حضرت ابوبکرؓ سے افضل ہیں۔ اگراب بھی کوئی ہٹدھرم شخص ایسا کرتاہے تو ہم یہ کہنے پرحق بجانب ہونگے کہ یہ شخص صحابہ کرامؓ کے درمیان ہونے والے اجماع کا منکرہے اورصحابہ کرامؓ کادشمن ہے۔

۷۔ ’’حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مَخْلَدٍ الْجَوْهَرِيُّ، بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِي أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الْخَلِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: سَأَلْتُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَوْ سُئِلَ مَنْ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ؟ فَقَالَ: أَمَا سَمِعْتَ قَوْلَ حَسَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:

إِذَا تَذَكَّرْتَ شَجْوًا مِنْ أَخِي ثِقَةٍ                  فَاذْكُرْ أَخَاكَ أَبَا بَكْرٍ بِمَا فَعَلاَ

خَيْرُ الْبَرِيَّةِ أَتْقَاهَا وَأَعْدَلَهَا                        بَعْدَ النَّبِيِّ وَأَوْفَاهَا بِمَا حَمَلاَ

الثَّانِي التَّالِي الْمَحْمُودُ مَشْهَدُهُ                   وَأَوَّلُ النَّاسِ مِنْهُمْ صَدَّقَ الرُّسَلاَ‘‘۔

’’حضرت شعبیؒ فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ سے پوچھایاان سے کسی اورنے پوچھاکہ سب سے پہلے اسلام کون لایا۔ انہوں نے فرمایا: کیاتم نے حضرت حسانؓ کا یہ قول نہیں سنا؟

"جب تم اپنے کسی پرہیزگاربھائی کی تکلیف کاتذکرہ کروتواپنے بھائی ابوبکرؓ اوران کے کارناموں کوبھی یاد کرو، وہ نبی اکرمﷺ کے بعدتمام مخلوق سے بہتر، سب سے زیادہ پرہیزگاراورسب سے زیادہ انصاف کرنے والے ہیں۔ اوران پرجوذمہ داری ڈالی گئی اس کوسب سے احسن طریقے سے نبھانے والے ہیں۔ (حضورﷺکے ہمراہ ہمیشہ) دوسرے وہی ہوتے تھےاوروہ آپ کے متبع تھے، ان کامشہدپسندیدہ تھااورآپ رسول ﷺ کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں"‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم [اردو]: ج۴، ص۱۵۰، رقم الحدیث۴۴۱۴)

۸۔ ’’حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحَافِظُ بِهَمْدَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا غَالِبُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْقَرْفَسَانِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ حَبِيبِ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ: قُلْتُ فِي أَبِي بَكْرٍ شَيْئًا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْ حَتَّى أَسْمَعَ، قَالَ: قُلْتُ:

وَثَانِي اثْنَيْنِ فِي الْغَارِ الْمَنِيفِ وَقَدْ                       طَافَ الْعَدُوُّ بِهِ إِذْ صَاعَدَ الْجَبَلاَ

وَكَانَ حِبَّ رَسُولِ اللهِ قَدْ عَلِمُوا                        مِنَ الْخَلاَئِقِ لَمْ يَعْدِلْ بِهِ بَدَلاَ،

فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘۔

’’غالب بن عبداﷲالقرفسانی اپنے والد سے، وہ ان کے داد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتےہیں کہ: میں رسول اﷲﷺکی خدمت میں موجودتھاکہ آپ نے حسان بن ثابتؓ سے فرمایا: تم نے حضرت ابوبکرؓ (کی شان) میں کچھ کہاہے؟ انہوں نے کہاجی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے سناؤ، حضرت حسانؓ نے کہا:

"وہ بلندپہاڑ کے غار میں دومیں سے دوسرے تھے، اورجب پہاڑپرچڑھ رہے تھے تودشمن ان کا گھیراؤکررہاتھا، وہ رسول اﷲﷺ کے محبوب تھے اوریہ بات سب جانتے ہیں کہ مخلوقات میں سے کوئی بھی ان کاہم پلہ نہیں ہے۔ (یہ سن کر) رسول اﷲﷺ مسکرادیئے"‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم [اردو]: ج۴، ص۱۵۰، رقم الحدیث۴۴۱۳)

۹۔ ’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ الْحَنَفِيَّةِ: أَبُو بَكْرٍ كَانَ أَوَّلَ الْقَوْمِ إِسْلَامًا، قَالَ: «لَا»، قُلْتُ: فِيمَا عَلَا أَبُو بَكْرٍ وَسَبَقَ حَتَّى لَا يُذْكَرَ غَيْرُ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: «كَانَ أَفْضَلَهُمْ إِسْلَامًا حِينَ أَسْلَمَ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ»‘‘۔ ’’حضرت سالمؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن حنفیہؒ سے پوچھا: کیا حضرت ابوبکرؓ لوگوں میں سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلام قبول کیاتھا؟ انہوں نے کہا: نہیں! میں نے عرض کیا! کیوں پھرحضرت ابوبکرؓ بلنددرجہ والے اور شہرت یافتہ ہوگئے یہاں تک کہ ابوبکرؓ کے علاوہ کسی اور کاذکرہی نہیں ہوتا؟ توآپؒ نے فرمایا: جب آپؓ اسلام لائے توآپؓ لوگوں میں سب سے افضل تھے اسلام کے اعتبار سے یہاں تک کہ آپؓ اﷲ سے جاملے‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة اردو: ج۹،  کتاب الفضائل، ص۴۶۰، رقم الحدیث ۳۲۵۹۳)

۱۰۔ ’’حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أُسَيْدَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "كَانُوا يَقُولُونَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ النَّاسِ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ»‘‘۔ ’’حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریمﷺ کے زمانے میں کہاکرتے تھے: لوگوں میں سب سے بہترین حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ہیں‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة اردو: ج۹،  کتاب الفضائل، ص۴۶۱، رقم الحدیث ۳۲۵۹۸)

۱۱۔ ’’حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: «حُبُّ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَمَعْرِفَةُ فَضْلِهِمَا مِنَ السُّنَّةِ»‘‘۔ ’’حضرت شعبیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت مسروقؒ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ سے محبت کرنااوران دونوں کے افضل ہونے کو پہچانناسنت میں سے ہے‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة اردو: ج۹،  کتاب الفضائل، ص۴۶۲، رقم الحدیث ۳۲۶۰۰)

۱۲۔ ’’حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ عُمَرُ، وَلَوْ شِئْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ بِالثَّالِثِ لَفَعَلْتُ»‘‘۔ ’’حضرت ابوجحیفہؒ فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا: نبی کریمﷺ کے بعد اس امت کے بہترین شخص حضرت ابوبکرؓ ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ ہیں، اوراگرمیں چاہوں کہ تیسرے شخص کے بارے میں بتاؤں تو میں ایساکرسکتاہوں‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة اردو: ج۹،  کتاب الفضائل، ص۴۶۶، رقم الحدیث ۳۲۶۱۳)

بالکل یہی حدیث درج ذیل سند سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نےاپنی مسند میں روایت کیا ہے اورشیخ شعیب ارناؤوط نے اس کی سند کوقوی قرار دیا ہے۔

۱۳۔ ’’حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ثَنَا خَالِدٌ الزَّيَّاتُ حَدَّثَنِي عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ: كَانَ أَبِي مِنْ شُرَطِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَكَانَ تَحْتَ الْمِنْبَرِ، فَحَدَّثَنِي أَبِي: أَنَّهُ صَعِدَ الْمِنْبَرَ يَعْنِي عَلِيَّاً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَحَمِدَ اللهَ تَعَالَى وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: خَيْرُ هَذِهِ الأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَالثَّانِي عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَقَالَ: يَجْعَلُ اللهُ تَعَالَى الْخَيْرَ حَيْثُ أَحَبَّ‘‘۔ ’’حضرت عون بن ابی جحیفہؒ سے فرماتے ہیں کہ: میرے والد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پہرہ داروں میں سے تھے، وہ منبر کے قریب بیٹھے تھے، میرے والدابوجحیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اورنبی ﷺپر درود وسلام کے بعد کہنے لگے: نبی ﷺکے بعد اس اُمت میں سب سے بہتر اور افضل ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے نمبر پرعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، اورپھر یہ کہا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں پسند کرے بہتری اورخيررکھتا ہے‘‘۔ (المسندالامام احمد بن محمدبن حنبل: ج۱، ص۵۲۹-۵۳۰، رقم الحدیث ۸۳۷)

۱۴۔ ’’حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ، لِعُمَرَ: يَا خَيْرَ النَّاسِ، فَقَالَ: «إِنِّي لَسْتُ بِخَيْرِ النَّاسِ»، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ قَطُّ رَجُلًا خَيْرًا مِنْكُ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: "لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَعَاقَبْتُكَ"، قَالَ، وَقَالَ عُمَرُ: «مَنْ لَهُمْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي بَكْرٍ، يَوْمٌ مِنْ أَبِي بَكْرٍ خَيْرٌ مِنْ آلِ عُمَرَ»‘‘۔ ’’حضرت حسنؒ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عمرؓ کویوں پکارا: اے لوگوں میں سے بہترین شخص! توحضرت عمرؓ نے فرمایا: یقیناً میں لوگوں میں سے سب سے بہترین نہیں ہوں۔ پھراس آدمی نے کہا! اﷲ کی قسم میں نے تو کبھی بھی آپؓ سے بہترشخص نہیں دیکھا! حضرت عمرؓ نے فرمایا: کیا تونے ابوبکرؓ کونہیں دیکھا؟ اس نے کہا: نہیں! آپؓ نے فرمایا: اگرتوکہتا: جی ہاں! تو میں تجھے ضرور سزا دیتا۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ابوبکرؓکی زندگی کاایک دن عمرکی ساری آل کے اعمال سے بہترہے‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة اردو: ج۹،  کتاب الفضائل، ص۴۶۸، رقم الحدیث ۳۲۶۲۰)

۱۵۔ ’’حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ»‘‘۔ ’’حضرت عبداﷲبن سلمہؒ فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا: کیامیں تمہیں رسول اﷲﷺ کے بعداس امت کے بہترین شخص کے متعلق خبرنہ دوں؟ پس وہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمربن خطابؓ ہیں‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة اردو: ج۹،  کتاب الفضائل، ص۴۷۰، رقم الحدیث ۳۲۶۲۶)

۱۶۔ ’’حدثنا عبد الله قال حدثني أبو صالح الحكم بن موسى قثنا شهاب ابن خراش قال حدثني الحجاج بن دينار عن أبي معشر عن إبراهيم النخعي قال ضرب علقمة بن قيس هذا المنبر قال: خطبنا عليؓ علٰی ھذا المنبر، فحمد اللّٰہَ وذکرہٗ ماشاء اللّٰہ أن یذکرٗ قال: وإن خیر الناس بعد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  أبوبکر ثم عمر ثم أحدثنا بعدهما احداثا يقضي الله فيها‘‘۔ ’’حضرت علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ ایک دن خطبہ کے لیے منبر پر تشریف لائے اور اﷲ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ: بے شک لوگوں میں سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی ذاتِ گرامی ہے‘‘۔ (کتاب فضائل الصحابۃؓ: ج۱، ص۳۱۷-۳۱۸، رقم الحدیث۴۳۸)

۱۷۔ ’’حدثنا عبد الله قال حدثني عثمان بن محمد بن أبي شيبة قثنا هشيم قال أنا حصين عن عمرو بن مرة عن عبد الله بن سلمة عن علي: أنه خطب فقال إن خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ومن بعد أبي بكر عمر ولو شئت أن اسمي الثالث لسميته‘‘۔ ’’حضرت علی رضی اﷲعنہ نےلوگوں سے خطاب کرتےہوئےارشاد فرمایا: نبی ﷺکے بعد اس امت کے بہترین شخص حضرت ابوبکرؓ ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ ہیں، اوراگرمیں چاہوں کہ تیسرے شخص کے بارے میں بھی بتاسکتاہوں‘‘۔ (کتاب فضائل الصحابۃؓ: ج۱، ص۳۱۸، رقم الحدیث۴۳۹)

۱۸۔ ’’حدثنا عبد الله قال حدثني إسماعيل أبو معمر قثنا عبد الله بن جعفر عن سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة: أنه خطب الناس فقال خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲعنہ نےلوگوں سے خطاب کرتےہوئےارشاد فرمایا: نبی ﷺ کے بعد اس امت کے بہترین شخص حضرت ابوبکرؓ ہیں اور ان کے بعد حضرت عمرؓ ہیں‘‘۔ (کتاب فضائل الصحابۃؓ: ج۱، ص۳۱۸، رقم الحدیث۴۴۰)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی مندرجہ بالا حدیث اگرچہ سندکےلحاظ سے ضعیف ہےلیکن اس حدیث کو حضرت علیؓ سے مروی صحیح احادیث کی تائید حاصل ہے جنہیں ہم اوپربیان کرچکے ہیں لہٰذامحدثین کے اصولوں کے مطابق جب کسی ضعیف حدیث کواسی جیسی صحیح حدیث کی تائید حاصل ہوجائے تو وہ ضعیف حدیث درجہ حسن کوپہنچ کرقابل قبول ہوجاتی ہے۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کا افضل البشربعدالانبیاءؑ ہونے پرارشادِنبویﷺ

إمام المحدث احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی: ۲۴۱ھ) اپنی کتاب’’فضائل الصحابۃؓ‘‘میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ کی افضلیت کے بارے میں رسول اﷲﷺ کےفرمانِ عالیشان پرمبنی درج ذیل فرفوع احادیث نقل کرتے ہیں:

۱۹۔ ’’حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ قثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ بِمَكَّةَ - وَأَثْنَى عَلَيْهِ خَيْرًا - عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْشِي أَمَامَ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ: أَتَمْشِي أَمَامَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ خَيْرٍ، أَوْ قَالَ: أَفْضَلَ، مِنْ أَبِي بَكْرٍ‘‘۔ ’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اﷲﷺ نے مجھے حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ  کے آگے چلتے ہوئےدیکھا تو آپ ﷺنے ارشادفرمایا کہ ایسے شخص کے آگے چل رہے ہو جو انبیاء ؑکے بعد رہتی دنیا تک سب سے افضل ہے‘‘۔ (کتاب فضائل الصحابۃؓ: ج۱، ص۴۲۳، رقم الحدیث۶۶۲)

۲۰۔’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قثنا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ الْوَاسِطِيُّ قثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُفْيَانَ الْوَاسِطِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْشِي أَمَامَ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، أَتَمْشِي أَمَامَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَلَا غَرَبَتْ، عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ أَفْضَلَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ‘‘۔ ’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اﷲﷺ نے مجھے حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ  کے آگے چلتے ہوئےدیکھا تو آنحضرتﷺنے فرمایا کہ ایسے شخص کے آگے چل رہے ہو جو انبیاء ؑکے بعد رہتی دنیا تک سب سے افضل ہے‘‘۔ (کتاب فضائل الصحابۃؓ: ج۱، ص۱۵۲-۱۵۳، رقم الحدیث۱۳۵)

۲۱۔ ’’حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفِرْيَابِيُّ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُصَفَّى الْحِمْصِيُّ قثنا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: رَآنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَمْشِي أَمَامَ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ: لِمَ تَمْشِي أَمَامَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ؟ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ خَيْرُ مَنْ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، أَوْ غَرَبَتْ‘‘۔ ’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اس حال میں کہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چل رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس کے آگے کیوں چل رہا ہے جو تم سے بہتر ہے؟ (اس کے بعد فرمایا) جتنے لوگوں پر سورج طلوع ہوتا ہے ان تمام میں حضرت ابوبکر ؓسب سے افضل ہیں‘‘۔ (کتاب فضائل الصحابۃؓ: ج۱، ص۱۵۴، رقم الحدیث۱۳۷)

۲۲۔ ’’حَدَّثَنَا عَلِيٌّ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ، نا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ أَبُو حَفْصٍ قثنا أَبُو بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ عَلَى أَحَدٍ أَفْضَلَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيُّ‘‘۔ ’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا: انبیاء ؑکے بعد رہتی دنیا تک جتنے لوگوں پر سورج طلوع ہوگاان تمام میں حضرت ابوبکر ؓسب سے افضل ہیں‘‘۔ (کتاب فضائل الصحابۃؓ: ج۱، ص۳۵۲، رقم الحدیث۵۰۸)

إمام المحدث ابو محمد عبد الحميد بن حميد بن نصر الكسی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی:۲۴۹ھ) اپنی کتاب ’’المنتخب من مسند عبد بن حميد‘‘میں یہ روایت اس سندکے ساتھ رقم کرتے ہیں:

۲۳۔’’حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ، ثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْبَكْرِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلَى أَحَدٍ أَفْضَلَ أَوْ أَخْيَرَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيٌّ‘‘۔ ’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا: انبیاء ؑکے بعد رہتی دنیا تک جتنے لوگوں پر سورج طلوع ہوگاان تمام میں حضرت ابوبکر ؓسب سے افضل ہیں‘‘۔ (المنتخب من مسند عبد بن حميد: ج۱، ص۲۰۰، رقم الحدیث۲۱۲)

إمام المحدث ابوبکر ابن ابی عاصم الشیبانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی:۲۸۷ھ) اپنی کتاب ’’کتاب السنۃ‘‘میں یہی روایت اس سندکے ساتھ درج کرتے ہیں:

۲۴۔’’حدثنا ابن مصفی حدثنا بقية الواسطي عن ابن جريج عن عطاء عن أبي الدرداء قال: رأٰني رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم وأنا أمشي بین یدي أبي بکر، قال: لِمَ تمشي أمام من ھو خیر منک؟ إن أبابکر خیر من طلعت علیہ الشمس و غربت‘‘۔ ’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اس حال میں کہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چل رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس کے آگے کیوں چل رہا ہے جو تم سے بہتر ہے؟ (اس کے بعد فرمایا) جتنے لوگوں پر سورج طلوع ہوتا ہے ان تمام میں حضرت ابوبکر ؓسب سے افضل ہیں‘‘۔ (کتاب السنۃ: ص۵۷۶، رقم الحدیث۱۲۲۴)

إمام المحدث أبی بكر محمد بن الحسين الآجری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی: ۳۶۰ھ) اپنی کتاب ’’کتاب الشریعۃ‘‘ میں اس حدیث پرباقائدہ باب رقم کرکے کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں:

۲۵۔’’حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُفْيَانَ الْوَاسِطِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: رَآنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْشِي أَمَامَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، أَتَمْشِي أَمَامَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ أَفْضَلَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ‘‘۔ ’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اﷲﷺ نے مجھے حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ  کے آگے چلتے ہوئےدیکھا تو آنحضرتﷺنے فرمایا کہ ایسے شخص کے آگے چل رہے ہو جو انبیاء ؑکے بعد رہتی دنیا تک سب سے افضل ہے‘‘۔ (كتاب الشريعة للإمام المحدث أبی بكر محمد بن الحسين الآجری: ج۱،  كِتَابُ الْإِيمَانِ وَالتَّصْدِيقِ بِأَنَّ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ مَخْلُوقَتَانِ، ص۱۸۴۴، رقم الحدیث۱۳۰۹)

۲۶۔’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصَفًّى الْحِمْصِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ يَعْنِي ابْنَ الْوَلِيدِ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: رَآنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْشِي بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، لِمَ تَمْشِي بَيْنَ يَدَيْ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ؟ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ خَيْرُ مَنْ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ أَوْ غَرَبَتْ‘‘۔ ’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اس حال میں کہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چل رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس کے آگے کیوں چل رہا ہے جو تم سے بہتر ہے؟ (اس کے بعد فرمایا) جتنے لوگوں پر سورج طلوع ہوتا ہے ان تمام میں حضرت ابوبکر ؓسب سے افضل ہیں‘‘۔ (كتاب الشريعة للإمام المحدث أبی بكر محمد بن الحسين الآجری: ج۱،  كِتَابُ الْإِيمَانِ وَالتَّصْدِيقِ بِأَنَّ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ مَخْلُوقَتَانِ، ص۱۸۴۵، رقم الحدیث۱۳۱۰)

إمام هبة الله بن الحسن بن منصور الطبری اللالكائی أبو القاسم رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی:۴۱۸ھ) اپنی کتاب ’’شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة‘‘میں یہ روایت اس سندکے ساتھ رقم کرتے ہیں:

۲۷۔’’أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغَوِيُّ، قَالَ: نا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُفْيَانَ الْوَاسِطِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْشِي أَمَامَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ أَتَمْشِي أَمَامَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟ مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ وَلَا غَرَبَتْ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ أَفْضَلَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ‘‘۔ ’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اس حال میں کہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چل رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس کے آگے کیوں چل رہا ہے جو تم سے بہتر ہے؟ (اس کے بعد فرمایا) جتنے لوگوں پر سورج طلوع ہوتا ہے ان تمام میں حضرت ابوبکر ؓسب سے افضل ہیں‘‘۔ (شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة للالكائی: ص۱۰۹۹-۱۱۰۰، رقم الحدیث ۲۴۳۳)

أمام ابو نعيم الأصبهانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی:۴۳۰ھ) اپنی کتاب ’’حلية الأولياء وطبقات الأصفياء‘‘میں یہ روایت اس سندکے ساتھ رقم کرتے ہیں:

۲۸۔’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ سَهْلٍ، ثنا الْقَاسِمُ بْنُ أَحْمَدَ الْخَطَّابِيُّ، ثنا هَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ، ثنا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: رَآنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَمْشِي أَمَامَ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ: أَتَمْشِي أَمَامَ أَبِي بَكْرٍ، مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ بَعْدَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ عَلَى أَحَدٍ أَفْضَلَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، تَفَرَّدَ بِهِ عَنْهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، وَرَوَاهُ عَنْهُ بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ وَغَيْرُهُ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ‘‘۔ ’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا: انبیاء ؑکے بعد رہتی دنیا تک جتنے لوگوں پر سورج طلوع ہوگاان تمام میں حضرت ابوبکر ؓسب سے افضل ہیں‘‘۔ (حلية الأولياء وطبقات الأصفياء: ج۳، ص۳۲۵، رقم الحدیث۴۳۹۴)

إمام ابو بكر احمد بن مہدی الخطيب البغدادی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی:۴۶۳ھ) اپنی کتاب ’’الرحلة فی طلب الحديث‘‘میں یہ روایت اس سندکے ساتھ رقم کرتے ہیں:

۲۹۔’’أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنْبَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقَطَّانُ، ثَنَا عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ الْهَيْثَمِ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ، ثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمِّي، عَنْ جَدِّي عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَلْقِ فِيهِ إِلَى أُذُنِي هَذِهِ، وَرَآنِي أَمْشِي بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَقَالَ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ أَتَمْشِي بَيْنَ يَدَيْ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ فَقُلْتُ: وَمَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ خَيْرٍ مِنْ أَبِي بَكْرٍ‘‘۔ ’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اس حال میں کہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چل رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس کے آگے کیوں چل رہا ہے جو تم سے بہتر ہے؟ (اس کے بعد فرمایا) جتنے لوگوں پر سورج طلوع ہوتا ہے ان تمام میں حضرت ابوبکر ؓسب سے افضل ہیں‘‘۔ (الرحلة فی طلب الحديث للخطيب البغدادی: ص۱۸۱، رقم الحدیث۸۱)

إمام الحافظ عز الدين عبد الرازق الرسعنی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی: ۶۶۱ھ) اپنی تفسیر ’’تفسير رموز الكنوز فی تفسير الكتاب العزيز‘‘میں سورۃ الحجرات کی پہلی آیت کی تاویل میں اسی حدیث دلیل لیتےہیں:

۳۰۔ ’’[يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُقَدِّمُواْ بَيْنَ يَدَيِ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ]۔ [اے ایمان والوں! اللہ اور اس کے رسول ﷺسے آگے نہ بڑھو، اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سننے وا، جاننے وا ہے]۔

ودليل هذا التأويل: ما روى عطاء عن أبي الدرداء قال: "رآني النبي صلى الله عليه وسلم أمشي أمام أبي بكر، فقال: تمشي أمام من هو خير منك في الدنيا والآخرة، وما طلعت شمس ولا غربت على أحد بعد النبيين والمرسلين خير وأفضل من أبي بكر رضي الله عنه"‘‘۔ (تفسير رموز الكنوز فی تفسير الكتاب العزيز: ج۷، سورۃ الحجرات۴۹، ص۳۳۰-۳۳۱)

حضرت ابودرداءؓسے مروی مندرجہ بالا تمام احادیث ابن جریج کی تدلیس کی وجہ سے اگرچہ ضعیف قرارپاتی ہیں لیکن ان احادیث سے اس بات کی واضح دلیل ملتی ہے کہ ’’حضرت عمربن خطاب، حضرت علی بن ابوطالب اورتمام صحابہ کرام رضی اﷲعنہم اجمعین کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت اورسب سےبہترہونےپرمتفق ہونا، رسول اﷲﷺ کے کسی فرفوع قول پرمبنی ہےجوصحیح سند سے ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ بہرحال ہمارے لئے حضرت عمرو حضرت علی رضی اﷲعنہم اجمعین کے اقوال سمیت اجماع صحابہؓ ہی کافی ہے۔

حضرت ابوبکرصدیق وحضرت عمربن خطاب رضی اﷲعنہم اجمعین کی فضیلت کا اقرار بحوالہ شیعہ کتب

۱۔ شیعہ عالم أبو منصور أحمد بن علی بن أبی طالب الطبرسی (المتوفی: ۶۲۰ھ) اپنی کتاب ’’الاحتجاج‘‘ میں امام باقرؒکاقول نقل کرتے ہیں کہ: ’’و عن الباقر (علیه‌السّلام) قال: "و لست بمنكر فضل أبي بكر، ولست بمنكر فضل عمر، و لكن أبابكر أفضل من عمر"‘‘۔ ’’امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں: مجھے ابوبکرؓ کی فضیلت سے انکارنہیں ہےاور نہ مجھے عمربن خطابؓ کی فضیلت سے انکار ہے، لیکن ابوبکرؓ عمرؓ سے افضل ہیں‘‘۔ (الاحتجاج للطبرسی: ج۲، ص۲۱۲، تحت عنوان - احتجاج أبی جعفر بن علی الثانی فی الأنواع الشتی من العلوم الدينية)

۲۔ اکبر دور کے مشہورو معروف شیعہ عالم قاضی نور اللہ شوشتری (المتوفی: ۱۰۱۹ھ) اپنی کتاب ’’الصوارم المهرقة‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ: ’’قال: وأخرج أيضا عن أبي هريرة كنا معشر أصحاب رسول الله ونحن متوافرون نقول: أفضل هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي ثم نسكت والترمذي عن جابر أن عمر قال لأبي بكر: يا خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال أبو بكر۔ أما إنك إن قلت ذلك فلقد سمعته يقول: ما طلعت الشمس علي خير من عمر. ومر أنه تواتر عن علي: خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وعمر. وأنه قال: لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر لأجلدته حد المفتري‘‘۔ ’’اوراصحاب رسولﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے بہترین افراد ابو بکر ان کے بعدعمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ عنہم اجمعین  ہیں اور الترمذی میں حضرت جابررضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ عمررضی اﷲعنہ نے فرمایاکہ: ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ سے اے بہترلوگوں کے بعد رسول اﷲﷺ کے توابوبکررضی اﷲعنہ نے کہاکہ تم یوں کہتے ہواورمیں نے سناہے رسول اﷲﷺ سے کہ فرماتے تھے سورج نہیں نکلاکسی مردپرجوحضرت عمرسے بہتر۔ یعنی بعدانبیاءؑ کے‘‘۔ (الصوارم المهرقة: ص ۳۲۳، رقم الحدیث ۱۱۱)

مندرجہ بالاتمام احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے افضل ہیں، اس بات کے نہ صرف ہم متبعینِ اہلسنت والجماعت اور تمام صحابہ کرامؓ معترف ہیں، بلکہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ اور امام باقرؒ  بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو افضل الخلائق بعد الأنبیاء تصور کرتے تھے۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم ا للہ وجہہ اوراہل بیت سےعقیدت ومحبت کے دعویداروں کو اُن کے اس فرمان کوبھی کُھلے دل سے قبول کرناچاہیئے۔

حضرت عمربن خطاب  رضی اﷲعنہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ پرخود کوفضیلت دینے پرکوڑے مارتےتھے

۱۔ ’’حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَامِرٍ، أَنَّ عُمَرَ، قَالَ: لَا أَسْمَعُ بِأَحَدٍ فَضَّلَنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ إِلَّا جَلَدْتُهُ أَرْبَعِينَ‘‘۔ ’’حضرت عامرؒفرماتے ہیں کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے ارشادفرمایا: میں کسی کوبھی یوں نہ سنوں کہ اس نے مجھے حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ پرفضیلت دی ہے ورنہ میں اسے چالیس (۴۰) کوڑے ماروں گا‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة اردو: ج۹،  کتاب الفضائل، ص۴۶۲، رقم الحدیث ۳۲۶۰۳)

۲۔ ’’حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ، لِعُمَرَ: يَا خَيْرَ النَّاسِ، فَقَالَ: «إِنِّي لَسْتُ بِخَيْرِ النَّاسِ»، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ قَطُّ رَجُلًا خَيْرًا مِنْكُ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: "لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَعَاقَبْتُكَ"، قَالَ، وَقَالَ عُمَرُ: «مَنْ لَهُمْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي بَكْرٍ، يَوْمٌ مِنْ أَبِي بَكْرٍ خَيْرٌ مِنْ آلِ عُمَرَ»‘‘۔ ’’حضرت حسنؒ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عمرؓ کویوں پکارا: اے لوگوں میں سے بہترین شخص! توحضرت عمرؓ نے فرمایا: یقیناً میں لوگوں میں سے سب سے بہترین نہیں ہوں۔ پھراس آدمی نے کہا! اﷲ کی قسم میں نے تو کبھی بھی آپؓ سے بہترشخص نہیں دیکھا! حضرت عمرؓ نے فرمایا: کیا تونے ابوبکرؓ کونہیں دیکھا؟ اس نے کہا: نہیں! آپؓ نے فرمایا: اگرتوکہتا: جی ہاں! تو میں تجھے ضرور سزا دیتا۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ابوبکرؓکی زندگی کاایک دن عمرکی ساری آل کے اعمال سے بہترہے‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة اردو: ج۹،  کتاب الفضائل، ص۴۶۸، رقم الحدیث ۳۲۶۲۰)

حضرت علی رضی اﷲعنہ کاحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ پرخود کوفضیلت دینے پر حدِ افتراءکی سزادینا (بحوالہ شیعہ کتب)

۱۔ مشہورومعروف شیعہ محدث أبو جعفر محمد بن علی بن بابويه القمی المعروف بالشيخ الصدوق (المتوفی: ۳۸۱ھ) اپنی کتاب ’’عيون أخبار الرضا‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’فَإِنَّ عَلِيّاً (ع) قَالَ مَنْ فَضَّلَنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَ عُمَرَ جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي‘‘۔ ’’حضرت علی علیہم السلام نے فرمایا: جس نے بھی مجھے ابوبکروعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پرفضيلت دی تومیں اسے حد افتراء(جھوٹا بہتان لگانے والے کی سزا) لگاؤں گا‘‘۔ (عيون أخبار الرضا: ج۲، ص۲۰۲)

۲۔ مشہورومعروف شیعہ عالم الشيخ علی بن محمد الخزاز الرازی القمی (المتوفی: ۴۰۰ھ) اپنی کتاب ’’كفاية الأثر‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’وتروون عن الواحد والاثنين كما حكت العامة عن أمير المؤمنين عليه السلام أنه قال "من سمعته يقدمني على أبي بكر وعمر جلدته حد المفتري"، "وخير الناس بعد نبيها أبو بكر وعمر"‘‘۔ ’’امیرالمومنین حضرت علی علیہم السلام نے فرمایا: میں نے جس کسی سے بھی سناکہ اس نے مجھے ابوبکروعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پرفضيلت دی تومیں اسے حد افتراء(جھوٹا بہتان لگانے والے کی سزا) لگاؤں گا۔ اورانبیاءؑ کے بعد لوگوں میں سب سے بہترابوبکروعمررضی اﷲعنہما ہیں‘‘۔ (كفاية الأثر:  ص۴۲۹)

۳۔ مشہورومعروف شیعہ عالم محمَّد بن النعمان بن عبد السَّلام الحارثی المذحجی العكبری المعروف الشیخ المفيد (المتوفی: ۴۱۳ھ) اپنی کتاب ’’الفصول المختارة‘‘ میں یہی روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’فصل ومن حكايات الشيخ أدام الله عزه قال: سئل الفضل بن شاذان رحمه الله تعالى عما روته الناصبة عن أمير المؤمنين - عليه السلام - أَنَّهُ قَالَ: "لَا أوتى بِرَجُلِ يُفَضِّلُنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ : إلَّا جَلَدْته حَدَّ الْمُفْتَرِي"‘‘۔ ’’امیرالمومنین حضرت علی علیہم السلام نے فرمایا: اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے افضل قرار دیتا ہو تو میں اسے بہتان بازی کی سزا دوں گا‘‘۔ (الفُصول المُختارة مِن العُيون والمحاسن:  ص۱۶۷)

۴۔ مشہورومعروف شیعہ محدث ومفسرإبو جعفر محمد بن الحسن بن علی بن الحسن الطوسی(المتوفی: ۴۶۰ھ) اپنی مشہورکتاب ’’إختيار معرفة الرجال المعروف بہ رجال الكشی‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’فقال له أبو عبد اللّه (عليه السلام): زدنا قال: حدثني سفيان الثوري، عن محمد بن المنكدر، أنه رأى عليا (عليه السلام) على منبر الكوفة و هو يقول: لئن اتيت برجل يفضلني على أبي بكر و عمر لأجلدنه حد المفتري۔ فقال أبوعبدالله (عليه السلام): زدنا فقال: حدثني سفيان، عن جعفر، أنه قال حب أبي بكر وعمر ايمان وبغضهما كفر‘‘۔ ’’حضرت علی علیہم السلام نے کوفہ میں منبرپرفرمایا: جس نے بھی مجھے ابوبکروعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پرفضيلت دی تومیں اسے حد افتراء(جھوٹا بہتان لگانے والے کی سزا) لگاؤں گا۔ پھرفرمایا: ابوبکروعمررضی اﷲعنہ سے محبت کرناایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا کفرعلامت ہے‘‘۔ (إختيار معرفة الرجال المعروف بہ رجال الكشی: ج۲، ماروی فی سفيان الثورى، ص۴۴۶)

۵۔ معروف شیعہ عالم شيخ علی بن يونس العاملی النباطی البياضی(المتوفی: ۸۷۷ھ) اپنی کتاب ’’الصراط المستقيم‘‘ میں یہی روایت ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں کہ:

’’ومنها: قوله عليه السلام: لا أوتي برجل يفضلني على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري‘‘۔ ’’حضرت علی علیہم السلام نے فرمایا: مجھے ابوبکر و عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما پرفضيلت دینے والا جوبھی (گرفتار ہوکر)  کر میرے پاس لایا گیا، تومیں اسے حد افتراء (بہتان طرازی کی سزا) لگاؤں گا‘‘۔ (الصراط المستقيم: ج۳، ص۱۵۲)

۶۔ اکبر دور کے مشہورو معروف شیعہ عالم قاضی نور اللہ شوشتری (المتوفی: ۱۰۱۹ھ) اپنی کتاب ’’الصوارم المهرقة‘‘ میں یہی روایت ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں کہ:

’’عن علي عليه السلام أيضا من أنه "لَا أجد أَحَدٌ فَضِّلُنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي" وما رواه في الفصل الثاني الآتي عن علي عليه السلام أيضا حيث قال "إنه لَا يُفَضِّلُنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي"‘‘۔ ’’حضرت علی علیہم السلام نےفرمایا: جس نے بھی مجھے ابوبکروعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پرفضيلت دی تومیں اسے حد افتراء(جھوٹا بہتان لگانے والے کی سزا) لگاؤں گا‘‘۔ (الصوارم المهرقة: ص۲۷۷، ۲۹۲، ۳۲۳)

۷۔ شیخ محمد باقرالمجلسی(المتوفی: ۱۱۱۰ھ)  جنہیں اہل تشیع حضرات کے ہاں علم حدیث میں بلندمقام ومرتبہ حاصل ہے، وہ اپنی کتاب ’’بحار الأنوار‘‘ میں یہ روایت ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں کہ:

’’عن أمير المؤمنين (عليه السلام) أنه قال: "لَا يُفَضِّلُنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي"‘‘۔ ’’امیرالمومنین حضرت علی علیہم السلام نےفرمایا: جس نے بھی مجھے ابوبکروعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پرفضيلت دی تومیں اسے حد افتراء(جھوٹا بہتان لگانے والے کی سزا) لگاؤں گا‘‘۔ (بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الائمة الأطهار الشيخ محمد باقر المجلسی: ج۱۰، ص۴۶۵)

۸۔ السيد أبو القاسم الخوئی (المتوفی:۱۴۱۳ھ)   اپنی کتاب ’’معجم رجال الحديث‘‘ میں یہ روایت ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں کہ:

’’لكن في الفصول المختارة للسيد المرتضى الصفحة (۱۱۳) من الطبعة الثانية، ومن حكايات الشيخ (المفيد) -  دام عزه - قال: سئل الفضل بن شاذان عما روته الناصبة عن أمير المؤمنين عليه السلام أنه قال: لا أوتي برجل يفضلني على أبي بكر وعمر إلا جلدته جلد المفتري‘‘۔ ’’امیرالمومنین حضرت علی علیہم السلام نے فرمایا: اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے افضل قرار دیتا ہو تو میں اسے بہتان بازی کی سزا دوں گا‘‘۔ (معجم رجال الحديث: ج۹، ص۳۴۱)

۹۔ إمام المحدث ابوبکر ابن ابی عاصم الشیبانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی:۲۸۷ھ) اپنی کتاب ’’کتاب السنۃ‘‘میں یہی روایت اس سندکے ساتھ درج کرتے ہیں:

’’حدثنا أبو موسى، ثنا حبان بن هلال، ثنا محمد بن طلحة، عن أبي عبيد ابن الحكم عن الحكم بن جحل قال قال علي: لا يفضلني عن أبي بكر وعمر أو لا أجد أحدا يفضلني على أبي بكر وعمر إلا وجلدته جلد حد المفتري‘‘۔ ’’سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: مجھے ابوبکر و عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما پرفضيلت دینے والا جوبھی (گرفتار ہوکر) کر میرے پاس لایا گیا، تومیں اسے حد افتراء (بہتان طرازی کی سزا) لگاؤں گا‘‘۔ (کتاب السنۃ: ص۵۷۵، رقم الحدیث۱۲۱۹)

۱۰۔ شيخ الإسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی: ۷۴۸ھ) اپنی کتاب’’مجموعۃ الفتاوى‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ثَبَتَ عَنْ عَلِيٍّ مِنْ وُجُوهٍ كَثِيرَةٍ أَنَّهُ قَالَ: لَا أوتى بِرَجُلِ يُفَضِّلُنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ: إلَّا جَلَدْته حَدَّ الْمُفْتَرِي‘‘۔ ’’سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بات کئی اسانید کےساتھ ثابت ہے کہ وہ فرماتے تھے مجھے ابوبکر و عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما پرفضيلت دینے والا جوبھی (گرفتار ہوکر) کر میرے پاس لایا گیا، تومیں اسے حد افتراء (بہتان طرازی کی سزا) لگاؤں گا‘‘۔ (مجموعۃ الفتاوى: ج۴، ص۲۹۲)

سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کے جنتی ہونے کی بشارت

۱۔ ’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ النَّضْرِ الأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَدِّي مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: مَشَيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى امْرَأَةٍ فَذَبَحَتْ لَنَا شَاةً، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيَدْخُلَنَّ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثُمَّ قَالَ: لَيَدْخُلَنَّ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: لَيَدْخُلَنَّ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَاجْعَلْهُ عَلِيًّا، قَالَ: فَدَخَلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ‘‘۔ ’’حضرت جابربن عبداﷲرضی اﷲعنہ فرماتے ہیں: میں نبی اکرمﷺکے ہمراہ ایک خاتون کے پاس گئے، اس نے ہماری خاطرایک بکری ذبح کی، رسول اﷲﷺنے فرمایا: (ابھی عنقریب) تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔ چنانچہ حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ تشریف لے آئے، پھرآپﷺنے فرمایا: (ابھی) تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔ چنانچہ حضرت عمررضی اﷲعنہ تشریف لے آئے، آپﷺنےپھرفرمایا: (ابھی) تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔ اے اﷲ! اگرتوچاہے تو اس کوعلی بنادے (حضرت جابربن عبداﷲرضی اﷲعنہ) فرماتے ہیں: چنانچہ (اب کی بار) حضرت علی رضی اﷲعنہ ہی تشریف لائے۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاریؒ اورامام مسلمؒ نے اس کونقل نہیں کیاہے‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم [اردو]: ج۴، ص۲۴۹، رقم الحدیث۴۶۶۱)

بالکل ایسی ہی ایک اورحدیث صحیح بخاری میں درج ذیل الفاظ میں درج ہے:

۲۔ ’’حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي حَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَاسْتَفْتَحَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"۔ فَفَتَحْتُ لَهُ، فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ، فَبَشَّرْتُهُ بِمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَاسْتَفْتَحَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم "افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"۔ فَفَتَحْتُ لَهُ، فَإِذَا هُوَ عُمَرُ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ، فَقَالَ لِي "افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ"۔ فَإِذَا عُثْمَانُ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ‘‘۔ ’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مدینہ کے ایک باغ (بئراریس) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ایک صاحب نے آ کر دروازہ کھلوایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو، میں نے دروازہ کھولا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے مطابق جنت کی خوشخبری سنائی تو انہوں نے اس پر اللہ کی حمد کی، پھر ایک اور صاحب آئے اور دروازہ کھلوایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بھی یہی فرمایا کہ دروازہ ان کے لیے کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو، میں نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے، انہیں بھی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اطلاع سنائی تو انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر ایک تیسرے اور صاحب نے دروازہ کھلوایا۔ ان کے لیے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو ان مصائب اور آزمائشوں کے بعد جن سے انہیں (دنیا میں) واسطہ پڑے گا۔ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ جب میں نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اطلاع دی تو انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً"‏ قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ، ص۱۳۶-۱۳۷-۱۴۹، رقم الحدیث۳۶۷۴، ۳۶۹۳)

مندرجہ بالا احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جنت کی بشارت حاصل کرنے والے تمام صحابہ کرامؓ میں بھی حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کانام سرِفہرست ہے۔

سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ جنت میں بوڑھوں کے سردارہیں

۱۔ ’’حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ ذَكَرَ دَاوُدُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ "أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ مَا خَلاَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ لاَ تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ"‘‘۔ ’’حضرت انس رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابو بکراور عمررضی اﷲعنہم اجمعین کےلئے فرمایا: "اولین اور آخرین میں انبیاء اور مرسلین کو چھوڑ کر یہ دونوں جنت کے اڈھیر عمر یا بوڑھوں کے سردار ہیں۔ ائے علی ان دونوں کو یہ نہ بتانا"۔ ابو عیسٰی ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲،  كِتَاب الدَّعَوَاتِ،أبوابُ الْمَنَاقِبِ، بَاب فِي مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ، ص۱۰۴۱، رقم الحديث۳۶۶۵)

۲۔ ’’حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ ذَكَرَ دَاوُدُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ "أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ مَا خَلاَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ لاَ تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ"‘‘۔ ’’حضرت علی رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "ابو بکراور عمررضی اﷲعنہم اجمعین دونوں سردارہیں جنت کے اڈھیر عمر یا بوڑھوں کےاگلے ہوں یاپچھلے مگرانبیاء اور مرسلین کو چھوڑ کر۔ اے علی ان دونوں کو یہ نہ بتانا"‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲،  كِتَاب الدَّعَوَاتِ،أبوابُ الْمَنَاقِبِ، بَاب فِي مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ، ص۱۰۴۱، رقم الحديث۳۶۶۶)

۳۔ ’’حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ "أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ إِلاَّ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ لاَ تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ مَا دَامَا حَيَّيْنِ"‘‘۔ ’’حضرت علی رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "ابو بکراور عمررضی اﷲعنہم اجمعین دونوں سردارہیں جنت کے اڈھیر عمر یا بوڑھوں کے اگلے ہوں یاپچھلے مگرانبیاء اور مرسلین کو چھوڑ کر۔ ائے علی ان دونوں کو یہ نہ بتانا"‘‘۔ (سنن ابن ماجہ:ج۱، کتاب السنۃ، ص۸۲یا۱۶۴، رقم الحدیث ۹۵)

۴۔ ’’حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ يَعْنِي الْيَمَامِيَّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْيَمَامِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ حَسَنٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: "يَا عَلِيُّ، هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَشَبَابِهَا بَعْدَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ"‘‘۔ ’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مرودی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھا پس ابوبکرؓ اور عمرؓ تشریف لائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "ائے علی یہ دونوں انبیاء اور مرسلین کے بعد جنت کے بوڑھوں اور اُس کے جوانوں کے سردار ہیں"‘‘۔ (مسند أحمد بن حنبل اردو: ج۱، مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ، مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، وَمِنْ مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ص۳۲۰، رقم الحديث۶۰۲)

۵۔ ’’حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو مُعَاذٍ، عَنْ خَطَّابٍ - أَوْ أَبِي الْخَطَّابِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَقَالَ: يَا عَلِيُّ، هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلَّا مَا كَانَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَلَا تُخَيِّرْهُمَا‘‘۔ ’’حضرت علی رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ اس درمیان کہ میں رسول اﷲﷺکے پاس بیٹھاتھاکہ حضرت ابوبکراورحضرت عمررضی اﷲعنہم اجمعین تشریف لائےتوآپﷺنے ارشاد فرمایا: اے علی! یہ دونوں جنت میں سے بوڑھوں کے سردارہیں، سوائے انبیاءکے۔ پس تم ان دونوں کوخبرمت دینا‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة اردو: ج۹،  کتاب الفضائل، ص۴۶۲، رقم الحدیث ۳۲۶۰۴)

مندرجہ بالاحدیث پیش کردہ حوالوں کے علاوہ دیگرکتب احادیث میں سے(صحيح ابن حبان، فضائل الصحابة لابن حنبل، مُشكِل الآثار للطحاوی، المعجم الكبير للطبرانی، المعجم الصغير للطبرانی، المعجم الأوسط للطبرانی، معجم ابن الأعرابی، مسند أبی يعلى الموصلی، شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، كنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، أسد الغابة فی معرفة الصحابة، کتاب السنة، الشريعة للآجری، مسانيد فراس المكتب اورمسند البزار) میں مختلف اسناد کے ساتھ موجودہےجنہیں محدثین نےصحیح قرار دیا ہے۔ لیکن مخالفین کی طرف سے درایتاً اس حدیث پرایک بہت اہم اشکال یہ کیاجاتاہے کہ:

’’اگر حدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے تو صاف الفاظ میں لکھاہےکہ حضرت ابوبکرؓوعمرؓجنت کے اڈھیر عمر یا بوڑھوں کے سردار ہونگے۔ حالانکہ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ جنت میں کوئی اڈھیر عمر، بوڑھا یا بچہ نہیں ہو گابلکہ جنت میں صرف نوجوان ہونگے۔ اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور یہ بات صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے۔ لہٰذا متن کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘۔

الجواب: بظاہردیکھاجائے تویہ اعتراض بالکل درست معلوم ہوتاہےلیکن اس اعتراض سے جڑے دوسرے پہلوپرنظرثانی کی جائے توحق بات کوعوام الناس کے سامنے واضح طورپرپیش کرنے میں آسانی ہوگی۔

جواعتراض مخالفین کی طرف سے حضرت ابوبکروعمررضی اﷲعنہم اجمعین کے جنت کے بوڑھوں کے سردارہونے کے حوالے سے وارداحادیث پرکیاجاتاہے بالکل ویساہی اعتراض حضرت حسن و حسین رضی اﷲعنہم اجمعین کے نوجوانوں کے سردار ہونے کے حوالے سے وارد احادیث پربھی کیاجاتاہےجیساکہ:

’’"الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة"‘‘یہ حدیث متن کے لحاظ سے صحیح نہیں ہے، ورنہ اہل جنت میں تو رسول اﷲﷺ، تمام انبیاء کرام اورحضرت علی رضی اﷲعنہ بھی ہوں گے، توکیا حضرت حسنؓ و حسینؓ ان سب کے بھی سردار ہوں گے؟‘‘

اسی طرح جویہ کہاجاتاہے کہ ’’جنت میں کوئی اڈھیر عمر، بوڑھا یا بچہ نہیں ہو گابلکہ جنت میں صرف نوجوان ہونگے‘‘ تویہاں یہ اشکال بھی ہوتاہے کہ جب جنت میں سب کے سب نوجوان ہونگے توپھررسول اﷲﷺنے اپنے فرمانِ عالیشان میں نوجوانوں کاذکرہی کیوں کیا؟

اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ ایک اسکول میں صرف پہلی جماعت کے طلبہ پڑھتے ہیں اورکسی دوسری جماعت کاسرے سے کوئی تصورہی نہیں پایاجاتا۔ اب اگراس اسکول کا پرنسپل اسکول کے اساتذہ کاتعارف یہ کہہ کرکروائے کہ یہ پہلی جماعت کے طلبہ کے اساتذہ ہیں تویہ بات عجیب لگے گی، کیونکہ پہلی جماعت کے علاوہ کسی دوسری جماعت کا وجودہی نہیں ہےتوپھرپہلی جماعت کانام لیکراساتذہ کومتعارف کروانے کی کیاضرورت۔

بالکل یہی اشکال اس حدیث پربھی کیاجاتاہے کہ’’حضرت فاطمہ رضی اﷲعنہا جنت کی خواتین کی سردار ہیں‘‘۔ 

 اس روایت پر بھی ایسا ہی اعتراض کیاجاتاہے کہ کیا فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت حدیجہ رضی اﷲعنہاسمیت دیگرازواج مطہرات، اور حضرت مریمعلیہم السلام کی بھی سردارہونگی؟

قارئین کرام سے گزارش ہے کہ ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ اگرکسی کو حدیث کا مفہوم سمجھ میں نہ آئے تو اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ وہ حدیث ضعیف یاموضوع ہے۔ بلکہ اسکا یہ مطلب ہے کہ بیان کردہ حدیث ہماری عقل سے بالاترہے۔ کیونکہ جنت کے حالات ومعاملات کوہم میں سے کوئی بہترطریقے سے نہیں جانتااورہم سب جنت کے حالات ومعاملات کودنیوی حالات ومعاملات پرقیاس کرنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی ناقص عقل کے مطابق فیصلے کرکے تشویش میں مبطلع ہوجاتے ہیں۔ اب میں آپ کے سامنے ان تینوں اشکالات کے جوابات ترتیب سے پیش کرتاہوں، جنہیں آئمہ دین نے اپنی ذہانت وفراست سے حل کرکے ہم تک پہنچایاہے۔

یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بھی احادیث کتب میں واردہوئی ہیں:

’’أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ الْبُخَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ابْنَايَ هَذَانِ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا‘‘۔ ’’ابن عمررضی اﷲعنہ روایت کرتے ہیں کہ: رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: حسنؓ اور حسینؓ جوانانِ جنت کے سردار ہیں اور ان کے والدین ان سے افضل ہیں‘‘۔ (مجمع الزوائد الهیثمی: ج۹، ص۱۸۳)

’’الحسنُ و الحُسَينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنَّةِ؛ إلا ابنَي الخالةِ عيسى ابنَ مريمَ و يحيي بنَ زكريا، و فاطمةُ سيدةُ نساءِ أهلِ الجنَّةِ؛ إلا ما كان من مريمَ بنتِ عِمرانَ‘‘۔ ’’حسنؓ اور حسینؓ جوانانِ جنت کے سردار ہیں، سوائے دو خلیرے بھائیوں عیسیٰ ابن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کے اور فاطمہؓ خواتین جنت کی سردار ہیں، سوائے مریم بنت عمرانؑ کے‘‘۔ (أخرجه الترمذی: ۳۷۶۸؛ مسند أحمد ۱۱۶۳۶؛ النسائی فی الكبرىٰ۸۱۱۳؛ وابن حبان ۶۹۵۹)

۱۔ شیعہ عالم ابوالقاسم السيد علی بن حسين بن موسی المعروف بالشريف المرتضى (المتوفی: ۴۳۶ھ) اپنی کتاب ’’الشافی فی الامامة‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’وقال: وقد روي أنه قال صلى الله عليه وآله في أبي بكر وعمر (هذان سيدا كهول أهل الجنة) والمراد بذلك أنهما سيدا من يدخل الجنة من كهول الدنيا كما قال صلى الله عليه وآله في الحسن والحسين عليهما السلام (أنهما سيدا شباب أهل الجنة) يعني سيدا من يدخل الجنة من شباب الدنيا‘‘۔ ’’حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: ابو بکراور عمررضی اﷲعنہما (دونوں سردارہیں جنت کے اڈھیر عمر یا بوڑھوں کے)۔ اس سے مراداہل جنت میں سے ان لوگوں کےجن حضرات کا انتقال دنیامیں پختہ عمر میں ہوا۔ جیساکہ رسول ﷺنے فرمایا: (حسنؓ اور حسینؓ جوانانِ جنت کے سردار ہیں)۔ یعنی ان لوگوں کےجن کا دنیامیں جوانی میں انتقال ہوا‘‘۔ (الشافی فی الامامة: ج۳، ص۹۳)

۲۔ بالکل یہی روایت ان ہی الفاظ کے ساتھ مشہورشیعہ محدث ومفسرإبو جعفر محمد بن الحسن بن علی بن الحسن الطوسی(المتوفی: ۴۶۰ھ) اپنی کتاب ’’تلخيص الشافی‘‘ میں نقل کرتے ہیں کہ: ’’بماروي عن النبی صلى الله عليه وآله أنہ قال في بكر وعمر: (هذان سيدا كهول أهل الجنة) والمراد بذلك أنهما سيدا من يدخل الجنة من كهول الدنيا كما قال صلى الله عليه وآله في الحسن والحسين عليهما السلام (أنهما سيدا شباب أهل الجنة) يعني سيدا من يدخل الجنة من شباب الدنيا‘‘۔ ’’حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: ابو بکراور عمررضی اﷲعنہما (دونوں سردارہیں جنت کے اڈھیر عمر یا بوڑھوں کے)۔ اس سے مراداہل جنت میں سے ان لوگوں کےجن حضرات کا انتقال دنیامیں پختہ عمر میں ہوا۔ جیساکہ رسول ﷺنے فرمایا: (حسنؓ اور حسینؓ جوانانِ جنت کے سردار ہیں)۔ یعنی ان لوگوں کےجن کا دنیامیں جوانی میں انتقال ہوا‘‘۔ (تلخيص الشافی: ج۳-۴، ص۲۱۸)

۳۔ شیعہ عالم دین بہاءالدین علی بن عیسیٰ اربلی (المتوفی: ۶۹۳ھ) اپنی مشہور کتاب کشف الغمہ میں لکھتےہیں: ’’وعنالنبي (صلى الله عليه وآله) في رواية رواها في كشف الغمة انه قال: حسبك من نساء العالمين مريم بنت عمران، وخديجة بنت خويلد، وفاطمة بنت محمد (صلى الله عليه وآله)، وآسية امرأة فرعون وفي الخبر عن عائشة انها قالت يوما لفاطمة (عليها السلام): ألا ابشرك؟ اني سمعت النبي (صلى الله عليه وآله) يقول: سيدات نساء أهل الجنة أربع: مريم بنت عمران، وفاطمة بنت محمد (صلى الله عليه وآله)، وخديجة بنت خويلد، وآسية بنت مزاحم امرأة فرعون‘‘۔ ’’نبیﷺ نے فرمایا: کافی ہے تجھ کو جہاں کی عورتوں سے حضرت مریم بنت عمران، حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت فاطمہ بنت محمدﷺ اور حضرت آسیہ زوجہ فرعون ۔ یعنی یہ چاروں سارے جہاں سے افضل ہیں۔ اورحضرت عائشہ رضی اﷲعنہ نے رسول اﷲﷺکی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲعنہ سے کہا: کیامیں تمہیں خوشی کی بات بتاؤں؟ میں نے رسول اﷲﷺکویہ فرماتے ہوئے سناہے"جتنی عورتوں کی سردار چار خواتین ہیں۔ حضرت مریم بنت عمران رضی اﷲعنہ، حضرت فاطمہ بنت رسول اﷲﷺ، حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اﷲعنہ، اور حضرت آسیہ رضی اﷲعنہ زوجہ فرعون‘‘۔ (کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ: ج۱،ص۷۹)

’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ زَنْجُويَهْ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، رضى الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ‏"حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ"۔ ‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ‘‘۔’’حضرت انس رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: کافی ہے تجھ کو جہاں کی عورتوں سے حضرت مریمؑ بنت عمران، حضرت خدیجہؓ بنت خویلد، حضرت فاطمہؓ بنت محمدﷺ اور حضرت آسیہؑ زوجہ فرعون۔ یعنی یہ چاروں سارے جہان سے افضل ہیں۔ امام ابو عیسیٰ الترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲،  كِتَاب الدَّعَوَاتِ،أبوابُ الْمَنَاقِبِ، ص۱۱۴۵، رقم الحديث۳۸۷۸)

’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ ابْنِ عَثْمَةَ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ وَهْبِ بْنِ زَمْعَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دَعَا فَاطِمَةَ عَامَ الْفَتْحِ فَنَاجَاهَا فَبَكَتْ ثُمَّ حَدَّثَهَا فَضَحِكَتْ قَالَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سَأَلْتُهَا عَنْ بُكَائِهَا وَضَحِكِهَا۔‏ قَالَتْ أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ يَمُوتُ فَبَكَيْتُ ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلاَّ مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ۔‏ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ‘‘۔ ’’ام المومنین اُم سلمہ رضی اﷲعنہما فرماتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے جس سال مکہ فتح ہوا سیدہ حضرت فاطمہ رضی اﷲعنہماکوبلایااوران کے کان میں کچھ کہاکہ وہ رودیں، پھرکچھ کہاکہ وہ ہنس دیں، پھرجب آپ کی وفات ہوئی میں نے پوچھا ان کے رونے اور ہنسنے کاسبب تو انہوں نے کہامجھے آپﷺ نے اپنی وفات کی خبردی تو میں رونے لگی، پھرخبردی کہ میں جنت کی سب عورتوں کی سردار ہوں سوامریمؑ کے تومیں ہنس پڑی‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲،  كِتَاب الدَّعَوَاتِ،أبوابُ الْمَنَاقِبِ، ص۱۱۵۲، رقم الحديث۳۸۹۳)

’’من حديث أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها أنها قال لِفَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَلَا أُبَشِّرُكَ ، أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "سَيِّدَاتُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَرْبَعٌ: مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَآسِيَةُ"‘‘۔ ’’ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲعنہ نے رسول اﷲﷺکی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲعنہ سے کہا: کیامیں تمہیں خوشی کی بات بتاؤں؟ میں نے رسول اﷲﷺکویہ فرماتے ہوئے سناہے"جتنی عورتوں کی سردار چار خواتین ہیں۔ حضرت مریم رضی اﷲعنہمابنت عمران، حضرت فاطمہ رضی اﷲعنہمابنت رسول اﷲﷺ، حضرت خدیجہ رضی اﷲعنہمابنت خویلد، اور حضرت آسیہ رضی اﷲعنہما‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم [اردو]: ج۴، ص۳۵۹-۳۶۰، رقم الحدیث۴۸۵۳)

۴۔ شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں: ’’وهما - يعني الحسن والحسين - رضي الله عَنْهُمَا وَإِنْ كَانَا سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَهَذَا الصِّنْفُ أَكْمَلُ مِنْ ذَلِكَ الصِّنْفِ‘‘۔ ’’حسن وحسین رضی اﷲعنہما جنت میں نوجوانوں کے سردار ہونگے، ابوبکر و عمر ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہونگے۔ اور یہ صنف زیادہ کامل ہے‘‘۔ (منهاج السنة النبوية: ج۴، ص۲۱۵)

۵۔ ملاعلی القاریرحمه الله فرماتے ہیں: ’’الْكُهُولُ: جَمْعُ الْكَهْلِ، وَهُوَ - عَلَى مَا فِي الْقَامُوسِ - مَنْ جَاوَزَ الثَّلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ إِلَى إِحْدَى وَخَمْسِينَ، فَاعْتَبَرَ مَا كَانُوا عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا حَالَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَإِلَّا لَمْ يَكُنْ فِي الْجَنَّةِ كَهْلٌ، وَقِيلَ: سَيِّدَا مَنْ مَاتَ كَهْلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَدَخَلَ الْجَنَّةَ، لِأَنَّهُ لَيْسَ فِيهَا كَهْلٌ، بَلْ مَنْ يَدْخُلُهَا ابْنُ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ، وَإِذْ كَانَا سَيِّدَيِ الْكُهُولِ، فَأَوْلَى أَنْ يَكُونَا سَيِّدَيْ شَبَابِ أَهْلِهَا‘‘۔ ’’کھول بضم کاف جمع ہےکھل کی اورکھل عربی میں اس شخص کوکہتے ہیں جومردتیس یا چونتیس برس کی عمرسے تجاوزکرگیاہواوراکاون سال تک پہنچاہواورآنحضرت ﷺنے ان کوادھیڑفرمایاباعتبار دنیاکے کہ وہ دنیامیں ادھیڑعمرکےتھےاس لئے کہ جنت میں کوئی ادھیڑعمرکانہیں ہوگاسب نوجوان ہم عمر ہوں گے تومرادیہ ہوئی کہ جومسلمان ادھیڑعمر ہوکرانتقال کرتے ہیں یہ ان کے سردار ہوں گے‘‘۔ (مرقاة المفاتيح: ج۹، ۳۹۱۳)

زیربحث حدیث میں حضرات شیخین رضی اﷲعنہما کے کہول (یعنی ادھیڑ عمر) اہل جنت کے سردار ہونے کے ساتھ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے استثناء کی تصریح کے واضح الفاظ موجودہیں، ان احادیث کے پیش نظر یہ کہا جائے گا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ اہل جنت میں سے جن حضرات کا انتقال پختہ عمر میں ہوا، ان کے سردار حضرات شیخین رضی اللہ عنہما ہوں گے اور جن کا جوانی میں انتقال ہوا ان کے سردار حضرات حسن وحسین رضی اللہ عنہما ہوں گے۔ حدیث میں نوجوانوں سے مراد وہ حضرات ہیں جو دنیا میں جوانی کی حالت میں فوت ہوئے ہیں، اورحسن وحسین رضی اللہ عنہماانہیں کے سردار ہوں گے۔ ورنہ جنت میں تو سبھی جوان ہوں گے۔ رہا یہ کہ اہل جنت میں تو انبیاء کرام علیہم السلام بھی ہوں گے، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اس سے مستثنیٰ ہیں، اسی طرح حضرات خلفائے راشدین اور وہ حضرات جن کا انتقال پختہ عمر میں ہوا وہ بھی اس میں شامل نہیں۔

الحمدﷲ! متبعین اہلسنت والجماعت جس طرح حضرت ابوبکروعمررضی اﷲعنہماکی فضیلت میں بیان کردہ احادیث پرمن عن ایمان رکھتے ہیں بالکل اسی طرح حضرت حسن وحسین رضی اﷲعنہمااورحضرت فاطمہ رضی اﷲعنہاکی فضیلت میں بیان کردہ احادیث پربھی من عن ایمان رکھتے ہیں اوران میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے۔

رسول اﷲﷺمردوں میں سب سے زیادہ سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ سے محبت کرتے تھے

’’حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، قَالَ خَالِدٌ الْحَذَّاءُ حَدَّثَنَا عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعَثَهُ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السَّلاَسِلِ، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ أَىُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ ‏"عَائِشَةُ"۔‏ فَقُلْتُ مِنَ الرِّجَالِ فَقَالَ ‏"أَبُوهَا"۔‏ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ ‏"ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ"۔‏ فَعَدَّ رِجَالاً‘‘۔ ’’حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ ذات السلاسل کے لیے بھیجا (عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے پوچھا کہ سب سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس سے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے میں نے پوچھا، اور مردوں میں؟ فرمایا کہ اس کے باپ سے، میں نے پوچھا، اس کے بعد؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی آدمیوں کے نام لئے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً"‏ قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ، ص۱۲۸، رقم الحدیث۳۶۶۲؛ صحیح مسلم: ج۶، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم، باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رضى الله عنه، رقم الحدیث۶۱۷۷)

حضرت ابوسعیدرضی اﷲعنہ سے مروی ہےکہ رسول اﷲﷺنےارشادفرمایااگرمیں کسی کوجانی دوست بناتاتوحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کوبناتا

’’حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ "وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُ، أَبَا بَكْرٍ وَلَكِنْ أَخِي وَصَاحِبِي"‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اپنی امت کے کسی فرد کو اپنا جانی دوست بنا سکتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے دینی بھائی اور میرے ساتھی ہیں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً"‏ قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ، ص۱۲۵، رقم الحدیث۳۶۵۶)

سیدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کااحسان

’’حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، قَالَ حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم النَّاسَ وَقَالَ "إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ ذَلِكَ الْعَبْدُ مَا عِنْدَ اللَّهِ"۔‏ قَالَ فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ، فَعَجِبْنَا لِبُكَائِهِ أَنْ يُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ عَبْدٍ خُيِّرَ۔ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم هُوَ الْمُخَيَّرُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَىَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبَا بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً غَيْرَ رَبِّي لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ، وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الإِسْلاَمِ وَمَوَدَّتُهُ، لاَ يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِد ِباب إِلاَّ سُدَّ، إِلاَّ باب أَبِي بَكْرٍ"‘‘۔ ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کودنیا میں اور جو کچھ اللہ کے پاس آخرت میں ہے ان دونوں میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے وہ اختیار کر لیا جو اللہ کے پاس تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے۔ ابوسعید کہتے ہیں کہ ہم کو ان کے رونے پر حیرت ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو کسی بندے کے متعلق خبردے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا تھا، لیکن بات یہ تھی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ بندے تھے جنہیں اختیار دیا گیا تھا اور (واقعتاً) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پر ابوبکر کا سب سے زیادہ احسان ہے اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو جانی دوست بناسکتاتو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور اسلام کی محبت ان سے کافی ہے۔ دیکھو مسجد کی طرف تمام دروازے (جو صحابہ کے گھروں کی طرف کھلتے تھے) سب بند کر دیئے جائیں۔ صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دروازہ رہنے دو‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏"قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، ص۱۲۴، رقم الحدیث۳۶۵۴؛ صحیح مسلم: ج۶، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم، باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رضى الله عنه، رقم الحدیث۶۱۷۰)

سیدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کی شان

’’حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحَافِظُ بِهَمْدَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا غَالِبُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْقَرْفَسَانِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ حَبِيبِ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ: قُلْتُ فِي أَبِي بَكْرٍ شَيْئًا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْ حَتَّى أَسْمَعَ، قَالَ: قُلْتُ: وَثَانِي اثْنَيْنِ فِي الْغَارِ الْمَنِيفِ وَقَدْ طَافَ الْعَدُوُّ بِهِ إِذْ صَاعَدَ الْجَبَلاَ وَكَانَ حِبَّ رَسُولِ اللهِ قَدْ عَلِمُوا مِنَ الْخَلاَئِقِ لَمْ يَعْدِلْ بِهِ بَدَلاَ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘۔ ’’غالب بن عبداﷲالقرفسانی اپنے والد سے، وہ ان کے داد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتےہیں کہ: میں رسول اﷲﷺکی خدمت میں موجودتھاکہ آپ نے حسان بن ثابتؓ سے فرمایا: تم نے حضرت ابوبکرؓ (کی شان) میں کچھ کہاہے؟ انہوں نے کہاجی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے سناؤ، حضرت حسانؓ نے کہا: "وہ بلندپہاڑ کے غار میں دومیں سے دوسرے تھے، اورجب پہاڑپرچڑھ رہے تھے تودشمن ان کا گھیراؤکررہاتھا، وہ رسول اﷲﷺ کے محبوب تھے اوریہ بات سب جانتے ہیں کہ مخلوقات میں سے کوئی بھی ان کاہم پلہ نہیں ہے۔ (یہ سن کر) رسول اﷲﷺ مسکرادیئے"‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم [اردو]: ج۴، ص۱۵۰، رقم الحدیث۴۴۱۳)