-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Wednesday 25 January 2017

جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ سے ترک رفع الیدین کی حدیث پر زبیر علی زئی صاحب کےاعتراضات کا تحقیقی جائزہ

اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم
۱۔ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ إبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ لاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ الصَّلاَةِ إلَّا فِي الِافْتِتَاحِ۔ ’’حضرت ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نماز کے کسی بھی جزءمیں رفع الیدین نہیں کرتے تھے سوائے ابتداءِنماز کے‘‘۔(شرح المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۷، رقم الحدیث ۱۳۶۳؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۶، رقم ۱۷۳۰)
۲۔ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَا يَسْتَفْتِحُ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا۔ ’’حضرت ابراہیم نخعی ؒ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (رواۃ ابن أبی شیبۃ فی المصنف وسندصحیح علی شرط الشیخین: ج۲ ،ص۵۹)
۳۔ ’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْمُغِيرَةِ قَالَ: قُلْت لِإِبْرَاهِيمَ (حَدِيثُ وَائِلٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ إذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ؟) فَقَالَ إنْ كَانَ وَائِلٌ رَآهُ مَرَّةً يَفْعَلُ ذَلِكَ، فَقَدْ رَآهُ عَبْدُ اللَّهِ خَمْسِينَ مَرَّةً، لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ۔ ’’سفیان مغیرہ سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی سے کہاکہ وائل بن حجرکی روایت میں ہےکہ میں نے جناب رسول اﷲﷺ کو نماز شروع کرتےاوررکوع میں جاتےاوررکوع سےسراٹھاتےہوئےرفع یدین کرتےدیکھاتوابرہیم نے جواب دیا، اگروائلؓ نے آپﷺ کو ایک مرتبہ ہاتھ اٹھاتے دیکھا ہے تو ابن مسعودؓ نے جناب رسول اﷲﷺ کو پچاسوں مرتبہ ہاتھ نہ اٹھاتے دیکھا‘‘۔ (شرح المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۵، رقم الحدیث ۱۳۵۱)
۴۔ ’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: دَخَلْت مَسْجِدَ حَضْرَمَوْتَ، فَإِذَا عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ، وَبَعْدَهُ۔ فَذَكَرْت ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ فَغَضِبَ وَقَالَ رَآهُ هُوَ وَلَمْ يَرَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ رضي الله عنه وَلاَ أَصْحَابُهُ۔ ’’عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ میں’’حضر موت‘‘ کی مسجد میں گیا، وہاں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت علقمہ اپنے والد گرامی کے حوالے سے یہ حدیث سنا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے قبل ،اور بعد از رکوع رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ تو یہ حدیث سن کر میں ابراہیم النخعی کے پاس آیا اور یہ حدیث سنا کر اس کے متعلق ان سے پوچھا۔ تو وہ یہ حدیث سن کر غصہ میں آگئے۔ اور کہنے لگے کہ: وائل بن حجر ؓ نےرسول اﷲﷺ کو دیکھ لیا اورعبد اللہ بن مسعود ؓ اوران کے ساتھی نہ دیکھ سکے۔ (شرح المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۵، رقم الحدیث ۱۳۵۲)
’’بسندیھما من طریق زید بن انیسۃ، عن حماد بن زید، عن ابراھیم، عن ابن مسعود قال، سندہ حسن کما قال الالبانی فی احکام الجنائز: ص۱۲۷؛ وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد: ج۳، ص۳۴؛ رواہ الطبرانی ورجالہ ثقات؛ وقال النووی فی المجموع: ج۵، ص۲۳۵، اسناد جید؛ وقال المحقق زھیر شاویش وشعیب ارناؤط  فی ھامش شرح السنۃ للبغوی: ج۵، ص۳۴۶–۳۴۷، حدیث حسن؛ وقال المحققان شعیب أرناؤط وعبد القادر ارناؤط فی حاشیۃ زاد المعاد: ج۱، ص۴۹۱، اسنادہ حسن؛ وقال الدکتور محمد ضیاء الرحمن اعظمی فی المنۃ الکبری: ج۳، ص۶۵، ھذا الحدیث حسن وللحدیث شواھد أخری؛ کما قال بہ جماھیر المحدثین‘‘۔
ان محققین علمائے کرام کے تحقیقی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم نخعیؒ سے حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲ عنہ کی حدیث کم ازکم حسن درجہ میں ہے اور حدیث حسن سے استدلال درست ہے۔
مندرجہ بالا احادیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور ان میں سے کسی ایک راوی پربھی آج تک کسی محدث نے کلام نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب نے بھی ان احادیث کے کسی ایک راوی پرکسی طرح کا کوئی کلام نہیں کیا سوائےاس کے کہ یہ سند ابراہیم نخعیؒ سےمنقطع ہے۔
زبیرعلی زئی صاحب کے اعتراضات و اشکالات کے جوابات دینے سے پہلے ابراہیم نخعیؒ(متوفی۹۶ھ) کے بارے میں بیان کرنا نہایت ضروری ہوگا تاکہ قارئین کرام کو فقیہ العراق وجلیل القدرتابعی حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ کامقام اورعلمی حیثیت معلوم ہوسکے۔
فقیہ العراق وجلیل القدرتابعی حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲتعالیٰ
نام و نسب:
۱۔ ’’إبراهيم بن يزيد بن قیس بن الأسود بن عمرو بن ربيعة بن ذهل بن سعد بن مالك بن النخع النخعی الکوفی رحمہ اللہ تعالی ققیہ اُھل الکوفۃ‘‘۔ (تہذیب الاسماءواللغات: ج۱، ص۱۰۴، رقم۳۶)
۲۔ ’’الإِمَامُ، الحَافِظُ، فَقِيْهُ العِرَاقِ، أَبُو عِمْرَانَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ يَزِيْدَ بنِ قَيْسِ بنِ الأَسْوَدِ بنِ عَمْرِو بنِ رَبِيْعَةَ بنِ ذُهْلِ بنِ سَعْدِ بنِ مَالِكِ بنِ النَّخَعِ، النَّخَعِيُّ، اليَمَانِيُّ، ثُمَّ الكُوْفِيُّ، أَحَدُ الأَعْلاَمِ‘‘۔ (سیر اعلام النبلاء: ج۴، ص۵۲۰)
اس خاندان سے تعلق رکھنے والے چند باکمال اہل علم کے نام ملاحظہ فرما ئیں:
۱۔ علقمة بن قيس رحمہ اللہ
۲۔ أسود بن يزيد رحمہ اللہ
۳۔ حفص بن غياث بن طلق رحمہ اللہ جو کوفہ کے قاضی رہے۔
۴۔ حجاج بن أرطاة رحمہ اللہ جو بصرہ اور بعد ازاں خراسان کے قاضی رہے۔
۵۔ شريك بن عبد الله رحمہ اللہ جو واسط اور بعد ازاں کوفہ کے قاضی رہے۔
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ ۳۸ہجری میں پیدا ہوئے جس زمانے میں کبار صحابہ کرامؓ بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔
’’وَقَدْ دَخَلَ عَلَى أُمِّ المُؤْمِنِيْنَ عَائِشَةَ وَهُوَ صَبِيٌّ ‘‘۔ ’’قَالَ أَحْمَدُ بنُ عَبْدِ اللهِ العِجْلِيُّ: لَمْ يُحَدَّثْ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ أَدْرَكَ مِنْهُم جَمَاعَةً، وَرَأَى عَائِشَةً‘‘۔ ’’احمد بن عبداﷲ العجلیؒ فرماتے ہیں: آپ کوام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہے اور متعدد کبار صحابہ کرامؓ کی زیارت سے سعادت افروز ہوئے ہیں‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج۱،  ص۷۴) (تہذیب الاسماءواللغات: ج۱، ص۱۰۴، رقم۳۶) (سیر اعلام النبلاء : ج۴، ص۵۲۱)
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲکے بارے میں جلیل القدرتابعین، تبع تابعین اور ائمہ محدثین فرماتےہیں:
۱۔ حضرت سعید بن جبیررحمہ اﷲ(متوفی۹۵ھ) جن کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ فرماتے تھے کیا تم میں سعید بن جبیرؒ نہیں ہیں؟ (یعنی ان کے ہوتے ہوئے تم مجھ سے مسائل پوچھتے ہو؟) وہی سعید بن جبیررحمہ اﷲ فرماتے ہیں:  ’’وَقَالَ سَعِيْدُ بنُ جُبَيْرٍ: أَتَسْتَفْتُوْنِي وَفِيْكُم إِبْرَاهِيْمُ ‘‘۔ ’’تم مجھ سے مسائل پوچھتے ہو؟ اور تم میں ابراہیم نخعیؒ موجود ہیں‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج۱،  ص ۷۴) (سیر اعلام النبلاء : ج۴، ص۵۲۳)
۲۔ علامہ شعبی رحمہ اﷲ آپ کی وفات پرفرماتے ہیں: ’’ما خلف بعدہ مثلہ‘‘۔ ’’آپ نے اپنے بعد کوئی اپنا مثل نہیں چھوڑا‘‘۔(تذکرۃ الحفاظ، ج۱، ص ۷۴)
’’روينا عن الشعبى أنه قال حين توفى النخعى: أَمَا إِنَّهُ مَا تَرَكَ أَحَداً أَعْلَمَ مِنْهُ، أَوْ أَفْقَهَ مِنْهُ، قُلْتُ: وَلاَ الحَسَنَ، وَلاَ ابْنَ سِيْرِيْنَ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلاَ مِنْ أَهْلِ البَصْرَةِ، وَلاَ مِنْ أَهْلِ الكُوْفَةِ، وَلاَ مِنْ أَهْلِ الحِجَازِ، وَلاَ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ‘‘۔ ’’لوگوں نے کہاکہ: ’’حسن بصریؒ اور ابن سیرینؒ بھی نہیں؟ تو امام شعبیؒ نے فرمایاکہ: نہ صرف حسن بصریؒ اور ابن سیرینؒ بلکہ اہل بصرہ، کوفہ، حجازاور شام میں کوئی بھی نہیں‘‘۔(تہذیب الاسماءواللغات: ج۱، ص۱۰۴، رقم۳۶) (سیر اعلام النبلاء : ج۴، ص۵۲۷)
۳۔ ابووائلؒ کے پاس جب کوئی مستفتی آتاتو اس کو ابراہیمؒ کے پاس بھیج دیتےاور اس سے کہہ دیتے۔ جب وہ جواب دیں مجھے بتانا۔ (طبقات ابن سعد: ج۶، ص۱۸۹)
۴۔ آپ کے شاگرداعمش رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:’’رَوَى: أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: كَانَ إِبْرَاهِيْمُ صَيْرَفِيَّ الحَدِيْثِ وکان یتوقی الشھرۃ ولایجلس الی الاسطوانۃ‘‘۔ ’’ ابراہیم حدیث کے سنار تھےاورشہرت سے دوررہتے تھےاورگمنامی کی زندگی کوبہت پسندکرتےتھے‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج۱، ص ۷۴؛ العلل و معرفۃ الرجال لاحمد:ج۱، ص۴۲۸؛ تہذیب الاسماءواللغات: ج۱، ص۱۰۵، رقم۳۶) (سیر اعلام النبلاء : ج۴، ص۵۲۱)
۵۔ ابوزرعہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:’’وقال أبو زرعة: النخعى علم من أعلام أهل الإسلام‘‘۔ ’’ نخعی اہل اسلام کی علامتوں میں سے ایک علامت ہیں‘‘۔(تہذیب الاسماءواللغات: ج۱، ص۱۰۵، رقم۳۶)
۶۔ العجلی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:’’وَكَانَ مُفْتِيَ أَهْلِ الكُوْفَةِ هُوَ وَالشَّعْبِيُّ فِي زَمَانِهِمَا، وَكَانَ رَجُلاً صَالِحاً، فَقِيْهاً، مُتَوَقِّياً، قَلِيْلَ التَّكَلُّفِ‘‘۔ ’’وہ کوفہ کے مشہورِزمانہ مفتی تھے۔ نیک شخص، فقیہہ، متقی اورتکلف سے دور رہنے والے تھے‘‘۔(تہذیب الاسماءواللغات: ج۱، ص۱۰۵، رقم۳۶) (سیر اعلام النبلاء : ج۴، ص۵۲۱)
۷۔ امام بخاری رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:’’ابن ثمان وخمسين سنة‘‘۔ ’’ انہوں نے ۵۸ سال کی عمر پائی‘‘۔(تہذیب الاسماءواللغات: ج۱، ص۱۰۵، رقم۳۶)
۸۔ مغیرہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:’’قَالَ مُغِيْرَةُ: كُنَّا نَهَابُ إِبْرَاهِيْمَ هَيْبَةَ الأَمِيْرِ‘‘۔ ’’ہم ابراہیم سے ایسے ڈرتے ہیں جیسے امیرسے ڈراجاتا ہے‘‘۔(تذکرۃ الحفاظ، ج۱، ص ۷۴) (سیر اعلام النبلاء : ج۴، ص۵۲۲)
۹۔ ابراہیمؒ کی زوجہ ھنیدہ رحمہ اﷲ فرماتی ہیں:’’حَمَّادُ بنُ زَيْدٍ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بنُ الحَبْحَابِ، حَدَّثَتْنِي هُنَيْدَةُ امْرَأَةُ إِبْرَاهِيْمَ: أَنَّ إِبْرَاهِيْمَ كَانَ يَصُوْمُ يَوْماً، وَيُفْطِرُ يَوْماً‘‘۔ ’’ابراہیم ایک دن روزہ رکھا کرتے تھے اور ایک دن افطارکیاکرتےتھے (یعنی ایک دن روزہ ترک کردیاکرتے تھے)‘‘۔(تذکرۃ الحفاظ، ج۱، ص ۷۴)  (سیر اعلام النبلاء : ج۴، ص۵۲۳)
۱۰۔ ابن عون رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:’’وروی ابن عون عن ابراھیم قال: کانوایکرھون اذااجتمعوا ان یخرج الرجل احسن ماعندہ‘‘۔ ’’ابن عون ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ لوگ ناپسند کرتے تھے جب وہ جمع ہوتے تھے کہ کوئی ابراہیم سے بہتربات کہے‘‘۔(تذکرۃ الحفاظ، ج۱، ص ۷۴)
۱۱۔ امام ذہبی رحمہ اﷲ لکھتےہیں:’’وجاءمن وجوہ عن ابراھیم، انہ کان لایتکلم فی العلم الاان یسئل‘‘۔ ’’کئی وجوہ سے حضرت ابراہیم کے بارے میں آتا ہے کہ وہ علم کے بارے میں کلام نہیں کرتے تھےجب تک ان سے سوال نہ کیا جائے‘‘۔(تذکرۃ الحفاظ، ج۱، ص ۷۴)
۱۲۔ امام ذہبی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں: ’’الإِمَامُ، الحَافِظُ، فَقِيْهُ العِرَاقِ، ثُمَّ الكُوْفِيُّ، أَحَدُ الأَعْلاَمِ‘‘۔ ’’ امام، حافظ، فقیہ العراق اور صاحب اخلاص کوفہ کےبلندپایہ علماءمیں سےتھے‘‘۔ (سیر اعلام النبلاء : ج۴، ص۵۲۰)
غیرمقلدعالم حافظ زبیر علی زئی صاحب کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ اور ان کا رد
اعتراض نمبر۱: زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۶پر اپنااعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’سیدنا ابن مسعودرضی اﷲعنہ ۳۲یا ۳۳ ہجری کو فوت ہوئے ہیں اور ابراہیم بن نخعیؒ۳۷ ہجری کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ لہٰذا یہ سند منقطع ہے‘‘۔(نورالعینین:ص۱۶۶)
جواب نمبر۱: زبیر علی زئی صاحب کا اس سند کو منقطع کہنا باطل و مردود ہے۔ کیونکہ اصطلاحات حدیث کے مطابق اس سند پرمرسل کا اطلاق ہوتا ہےلہٰذا اس سندپرمنقطع کا حکم لگانا زبیرعلی زئی صاحب کی علمی بدیانتی وخیانت ہے۔
لغت کے لحاظ سے المنقطع کی تعریف
لغت کے لحاظ سے المنقطع، انقطع، ینقطع، انقطاعاًسے اسم فاعل ہے۔ انقطاع اتصال کی ضد ہےیعنی کٹ کرالگ ہوجانا۔
اصطلاح کے لحاظ سےالمنقطع کی تعریف
اصطلاح میں اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سندمتصل نہ ہواور یہ بہ انقطاع خواہ کسی بھی وجہ سے ہو۔
المنقطع کی تعریف کی توضیح
کوئی سند کسی جگہ سے بھی منقطع ہوجائے خواہ یہ انقطاع  شروع سند سے ہو، درمیان سے ہو یا آخرسے ہو۔ اس لحاظ سے اس میں مرسل، معلق اور معضل سب داخل ہوجاتی ہیں۔لیکن اصطلاحات حدیث کے متاخرین نے اس کی ایسی تعریف کی ہے جس پر مرسل، معلق اور معضل کی تعریفات صادق نہیں آتیں۔ علمائے متقدمین بھی اکثراسی تعریف کو منقطع کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے امام نوویؒ فرماتے ہیں: ’’اس تعریف کا اطلاق اس روایت پر ہوتا ہے جو تابعی کو چھوڑ کرصحابی سے روایت کردی جائے جیساکہ مالک کی روایت ابن عمرؓسے‘‘۔
لغت کے لحاظ سےمرسل کی تعریف
ارسل، یرسل، ارسالاً (یعنی کھلاچھوڑدینا)سے اسم مفعول مرسل آتا ہے، گویاکہ مرسل حدیث کے روایت کرنے والے نے اسنادکو کھلاچھوڑدیا، اورا سے کسی معین راوی کے ساتھ مقیدہی نہیں کیا۔
اصطلاح کے لحاظ سےمرسل کی تعریف
اصطلاح حدیث میں مرسل وہ حدیث ہے جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپرکا راوی ساقط ہو۔ صور ت اس کی یہ ہے کہ تابعی، خواہ وہ نابالغ ہو یا بالغ یہ کہےکہ: ’’حضورﷺنے کہایا آپ کے سامنے یہ ہوا‘‘ محدثین کے نزدیک مرسل کی یہی صورت ہے۔
مندرجہ بالاتعریفات و اصطلاحات سے یہ ثابت ہوگیا کہ منقطع اور مرسل روایت میں بہت فرق ہےاور زیربحث روایت کی سندپرمنقطع کا اطلاق نہیں بلکہ مرسل کا حکم عائد ہوتا ہے کیونکہ اس سند میں تابعی حضرت ابراہیم نخعیؒ سے اوپرکا آخری راوی ساقط ہےلہٰذا زبیرعلی زئی صاحب کا اس سند پرمرسل کے بجائے منقطع کا حکم لگاناعام اور لاعلم مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہے۔
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲتعالیٰ کا حضرت ابن مسعودرضی اﷲعنہ سےمرسل حدیث بیان کرنے کی وجہ
دارالخلافہ کوفہ میں پندرسو سے زائد صحابۂ کرامؓ سکونت پذیرتھےاورسب کے سب ترکِ رفع یدین بعدالافتتاح پرعامل تھے
۱۔ ’’قال الامام الحفاظ المحدث قتادۃ بن دعامۃ(متوفی۱۱۸ھ) نزل الکوفۃ الف وخمسون رجلاًمن اصحاب النبیﷺواربعۃ وعشرون من اھل بدر‘‘۔ (الکنی والاسماء للدولابی: ج۱، ص۳۸۵، رقم ۱۳۵۹)
۲۔’’قال الامام الحفاظ المحدث الفقیۃ ابراھیم(متوفی۹۶ھ) قال ھبط الکوفۃ ثلاثمائۃمن اصحاب الشجرۃ وسبعون من اھل بدر‘‘۔ (طبقات لابن سعد: ج۶، ص۴)
۳۔ ’’قال الامام الحفاظ المحدث احمدالعجلی الکوفی(متوفی۲۶۱ھ) فی تاریخہ نزل الکوفۃ الف وخمسمائۃ من اصحاب النبیﷺ‘‘۔ (تاریخ الثقاب للعجلی: ص۵۱۷، باب قیمن نزل الکوفۃ وغیرھا من الصحابۃ، بیروت؛ فتح القدیرلابن ھمام: ج ۱، ص۹۱؛ وشرح النقایۃلعلی القاری: ج۱، ص۲۰)
۴۔ امام الحافظ و محدث حاکم نیشاپوری الشافعیؒ(متوفی۴۰۵ھ) نے یوں لکھا: ’’ذکر من سکن الکوفۃ من اصحاب رسول ﷲﷺ‘‘ اور یہ لکھنے کے بعد ۴۹ صحابۂ کرامؓ کے نام ذکر کئےہیں۔ (معرفت علوم الحدیث للحاکم: ص۱۹۱)
۵۔’’قال الامام الحفاظ المحدث ابو الخیرمحمد السخاوی الشافعی(متوفی۹۰۲ھ) والکوفۃ ونزلھاالی ان قال وخلق من اصحابۃؓ‘‘۔ (الاعلان بالتوبیخ للسخاوی:ص۲۹۵)
۱۔ ’’قال الامام الحافظ المحدث ابوعیسیٰ الترمذی شافعیؒ (متوفی۲۷۹ھ) وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الكُوفَةِ ‘‘۔ (جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱،ص ۱۸۵)
۲۔’’والامام الحافظ المحدث ابوعبدﷲالمزوری السمرقندی الشافعیؒ (متوفی۲۹۴ھ) فی کتابہ فی رفع الیدین من الکتاب الکبیرلایعلم مصراً من الامصارینسب الی اھلہ العلم قدیما(ای الصحابۃ التابعین وغیرھما) ترکواباجماعھم رفع الیدین عند الخفض والرفع فی الصلوۃ الا اھل الکوفۃ۔۔۔ وفی مقام آخر فکلھم لایرفع الافی الاحرام‘‘۔ (التمہیدلابن عبدالبر: ج ۴، ص ۱۸۷؛ والاستذکارلابن عبدالبر: ج۱، ص۴۰۸)
۳۔ ’’قدروی الامام الحافظ المحدث ابوبکربن ابی شیبۃ ؒھوشیخ البخاری و مسلم الکوفی (متوفی۲۳۵ھ) قال حدثنا وکیع ابو اسامہ عن شعبۃعن ابی اسحاق(ھو عمروبن عبدﷲالبیھقی الکوفی(متوفی۱۲۹) قال کان اصحاب عبدﷲ ابن مسعودواصحاب علی لایرفعون ایدیھم الافی افتتاح الصلوۃ۔ قال وکیع ثم لایعودون‘‘۔ (المصنف ابن ابی شیبہ: ج ۱، ص ۲۶۷، قال ابوشعیب : اسنادصحیح علی شرط البخاری و مسلم)
۴۔ مولانا عبدالحی لکھنوی نے لکھا ہے: ’’قول ابی حنیفۃ ووافقہ فی عدم الرفع الامرۃ الثوری والحسن بن حیی وسائرفقھا ء الکوفۃ قدیما وحدیثاوھو قول ابن مسعود واصحابہ۔۔۔الخ‘‘۔ ’’ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کامؤقف ہے کہ رفع یدین صرف ایک بار کرنا چاہیئے۔اور امام سفیان ثوری ،حسن بن حییٰ اور تمام متقدمین اور متاخرین فقہائے کوفہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲعنہ اور آپ کے اصحاب کا بھی یہی مؤقف ہے‘‘۔(التعليق الممجد على موطأ محمد: ج۱، ص۳۸۴)
۵۔ ’’وقال أبو عبد الله محمد بن نصر المَرْوزي: لا نعلم مصراً من الأمصار تركوا بإجماعهم رفعَ اليدين عند الخفض والرفع إلا أهل الكوفة‘‘۔ ’’امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے استاذ محمد بن نصر مرزوی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم کوئی ایسا شہر نہیں جانتے کہ جس کے سب باشندوں نے جھکتےاور اٹھتے وقت رفع یدین چھوڑ دی ہو، سوائے اہل کوفہ کے‘‘۔ (التعليق الممجد على موطأ محمد: ج۱، ص۳۸۴)
مندرجہ بالاتحقیق اور ائمہ محدثین کے اقول سے پتہ چلا کہ صرف کوفہ شہر میں پندرہ سو(۱۵۰۰) سے زائد صحابہ کرامؓ سکونت پذیرتھے، جن میں سے ستر(۷۰) بدری اور تین سو(۳۰۰) بیعت رضوان والے صحابہ کرامؓ تھے۔ امام سخاویؒ تو فرماتے ہیں کہ ان سے بھی زیادہ صحابہ کرامؓ کوفہ میں موجود تھے۔ امام ترمذیؒ اور امام ابو عبداﷲالمزوریؒ تو فرماتے ہیں کہ (بے شمارصحابہ کرامؓ) جوکہ پہلے سے کوفہ میں آباد تھے ترکِ رفع الیدین عندالرکوع والسجودکے قائل تھے۔ یعنی کوفہ شہرمیں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو نمازمیں تکبیراولیٰ کے بعد والے رفع یدین کرتا تھا۔ تمام اہل علم صحابہؓ وتابعینؒ سب کے سب ترکِ رفع یدین کے قائل تھے۔ ان تمام اشخاص کے نزدیک رفع یدین منسوخ ہوگیا تھا اور اس منسوخیت کی سب سے بڑی دلیل حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ جیسے جلیل القدر اور فقیہہ صحابہ کی بیان کردہ احادیث اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ سمیت پندرہ سو(۱۵۰۰) صحابہ کرامؓ کا اپنا عمل تھا جوترکِ رفع الیدین عندالرکوع والسجودکے قائل تھے۔
 حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ کا حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ سے حدیث مرسل بیان کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ اور۱۵۰۰ پندرہ سو سے زائدصحابہ کرامؓ کا ترکِ رفع سے نماز پڑھنے کےعمل پرتمام اہل کوفہ مطلع تھااور کوفہ کا ہرشخص اس بات کو جانتا تھااور دوسروں تک پہنچاتاتھا۔ لہٰذایہ خبرخبرِواحد نہ تھی جسے حضرت ابراہیم نخعیؒ کسی مخصوص راوی سے بیان کرتے بلکہ تمام اہل کوفہ اس خبرکے برحق ہونے کا گواہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابراہیم نخعیؒ نے کسی مخصوص راوی کے بجائے بناکوئی نام لیئے بڑے وثوق سے یہ احادیث بیان کیں۔
اس کی مثال کچھ اس طرح بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس پرپوری دنیا مطلع ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیاتھا۔ اب اگر کوئی سچاشخص امریکہ کے افغانستان پرحملہ کرنے سے ۵پانچ سال بعد پیدا ہواہواور لوگوں میں بلا واسطہ (بغیرکسی شخص کا حوالہ دیئے) اس حملے کے بارے میں بیان کرے توکیا اس کی بات جھوٹ سمجھ کرردکردی جائے گی؟ ہرگز نہیں! کیونکہ امریکہ کا افغانستان پرحملہ کرنا ایک تاریخی حقیقت ہے جس پر اس وقت پوری دنیا مطلع ہوئی اورآج بھی لاکھوں لوگ موجودہیں جواس خبرکے عینی شاہدہیں اور آج بھی افغانستان میں امریکی افواج موجودہیں لہٰذا ایسی خبر بیان کرنے کے لیے کسی واسطے کا حوالہ دینا بالکل بھی ضروری نہیں۔
بالکل اسی طرح حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ کا ترکِ رفع سے نماز ادا کرنا حضرت ابراہیم نخعیؒ کے لئے ایک تاریخی حقیقت تھی کیونکہ ۱۵۰۰ پندرہ سو سے زائدصحابہ کرامؓ کا ترکِ رفع سے نماز اداکرنےپرحضرت ابراہیمؒ سمیت تمام اہل کوفہ مطلع تھےاور کوفہ کا تقریباًہرشخص اس خبرکا عینی شاہد تھا۔ لہٰذاحضرت ابراہیم نخعیؒ کاکسی مخصوص راوی کا نام لے کرحدیث بیان کرنا ضروری نہ تھاکیونکہ تمام اہل کوفہ اس خبرکے برحق ہونے کا گواہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابراہیم نخعیؒ نے کسی مخصوص راوی کے بجائے بناکوئی نام لیئے بڑے وثوق سے یہ احادیث بیان کیں۔
مرسل حدیث سے احتجاج اور رد میں علماءِدین کے مختلف مذاہب اور اقوال
’’فأما القابلون له المحتجون به فهم مالك وأبو حنيفة وجمهور أصحابهما وأكثر المعتزلة وهو أحد الروايتين عن أحمد بن حنبل رحمه الله وهؤلاء لهم في قبوله أقوال‘‘۔
’’وثانيها: قبول مراسيل التابعين واتباعهم مطلقا إلا أن يكون المرسل عرف بلإرسال عن غير الثقات فإنه لا يقبل مرسله وأما بعد العصر الثالث فإن كان المرسل من أئمة النقل قبل مرسله وإلا فلا وهو قول عيسى بن إبان واختيار أبي بكر الرازي والبزدوي وأكثر المتأخرين من الحنفية وقال القاضي عبد الوهاب المالكي هذا هو الظاهر من المذهب عندي‘‘۔
’’وثالثهما: اختصاص القبول بالتابعين فيما أرسلوه على اختلاف طبقاتهم وهذا هو الذي يقول به مالك وجمهور أصحابه وأحمد بن حنبل وكل من يقبل المرسل من أهل الحديث ثم من ألحق بالمرسل ما سقط في أثناء إسناده رجل واحد غير الصحابي يقبله أيضا كما يقبل المرسل وهو مقتضى مذهب المالكية في احتجاجهم ببلاغات الموطأ ومنقطعاته وهو الذي أضافه أبو الفرج القاضي إلى مالك ونصره
ورابعها: اختصاص القبول بمراسيل كبار التابعين دون صغارهم الذين تقل روايتهم عن الصحابة كما حكاه ابن عبد البر فيما تقدم‘‘۔
’’ثم اختلف هؤلاء القائلون له في طبقته فمنهم من بالغ فيه حتى قال هو أعلى من المسند وأرجح منه لأن من أسند الحديث فقد أحالك على إسناده والنظر في أحوال رواته والبحث عنهم ومن أرسل منهم حديثا مع علمه ودينه وإمامته وثقته فقد قطع لك على صحته وكفاك النظر فيه وهذا قول كثير من الحنفية وبعض المالكية فيما حكى ابن عبد البر عنهم‘‘۔
’’وقال آخرون: لا فرق بين المرسل والمسند بل هما سواء في وجوب الحجة والاستعمال وهو قول محمد بن جرير الطبري وأبي الفرج المالكي وأبي بكر الأبهري أحد أئمة المالكية أيضا وعند هؤلاء أنه متى تعارض مدلول حديثين واحدهما مرسل والآخر مسند فلا ترجيح بالإسناد على الإرسال بل بأمر آخر وهو غلو قريب من الذي قبله‘‘۔
’’وقال أكثر المالكية والمحققون من الحنفية كأبي جعفر الطحاوي وأبي بكر الرازي بتقديم المسند على المرسل عند التعارض وإن المرسل وإن كان يحتج به ويوجب العمل ولكنه دون المسند‘‘۔
’’قال ابن عبد البر وشبهوا ذلك بالشهود يكون بعضهم أفضل حالا من بعض وأقعد وأتم معرفة وإن كان الكل عدو لا جائزين الشهادة قال أنه لا يرسل إلا عن ثقة مشهور أو من هو من الصحابة رضي الله عنهم وهو الغالب وحسبك أن ابن عمر رضي الله عنهما كان يسأله عن قضايا أبيه مع طول صحبته له وملازمته إياه وابن المسيب لم يسمع منه‘‘۔
’’بقي النظر في أن ذلك هل هو مختص بابن المسيب أم يتعدى إلى من كان مثله والذي يظهر ولا بد أن من كان مثل ابن المسبي وعرف من عادته أنه لا يرسل إلا عن عدل مشهور فمراسليه يحتج بها وإن لم يعتضد كما تقدم من قول الإمام أبي نصر بن الصباغ وهذا هو اختيار المحققين كما تقدم ولا شك أن القول بقصر هذا الحكم على ابن المسيب ظاهرية محضة لا وجه له‘‘۔
’’وقد تحصل من جميع ما تقدم نقله في الحديث المرسل مذاهب متعددة أحدها رده مطلقا حتى مراسيل الصحابة وهذا قول الأستاذ أبي اسحاق‘‘۔
’’وثانيها: قبول مراسيل الصحابة ورد ما عداها مطلقا‘‘۔
’’وثالثها: قبول مراسيل كبار التابعين مطلقا ورد ما عداها‘‘۔
’’ورابعها: قبول مراسيل التابعين كلهم على اختلاف طبقاتهم دون من بعدهم‘‘۔
’’وخامسها: قبول مراسيل التابعين وأتباعهم دون من بعدهم وهذا اختيار أكثر الحنفية‘‘۔
’’وسادسها: قبول المرسل مطلقا وإن كان من أهل هذه الأعصار وهو توسع بعيد جدا غير مرض‘‘۔
’’وسابعها: إن كان المرسل عرف من عادته أنه لا يرسل إلا عن ثقة مشهور قبل وإلا فلا وهو المختار كما سنقرره إن شاء الله تعالى‘‘۔(جامع التحصیل فی احکام المراسیل: الباب الثانی فی ذكر مذاهب العلماء فی قبول الحديث المرسل والاحتجاج به أو رده، ص۳۳، ۳۴، ۴۸)
مرسل حدیث کے حجت ہونے کی تائید میں علماء دین کے مختلف مذاہب اور اقوال
۱۔ امام ابن الجوزیؒ اپنی کتاب التحقیق میں اور محدث خطیب بغدادیؒ اپنی تالیف الجامع فی اداب الراوی والسامع میں امام احمد بن حنبلؒ سے نقل کرتے ہیں: ’’رِبَمَا کَانَ المُرْسَلُ أَقْوَى مِنَ الْمُسْنَدِ‘‘۔ ’’بسااوقات حدیث مرسل مسند سےقوی ترہوتی ہے‘‘۔ ’’وَرُبَّمَا كَانَ الْمُنْقَطِعُ أَقْوَى إِسْنَادًا وَأَكْبَرُ‘‘۔ ’’بسااوقات منقطع اسنادقوی ترہوتی ہیں‘‘۔ (شرح نقایہ: ج۱،  ص۲،۱،طبع ہند) (الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع للخطيب البغدادی: ج۲، باب وَأَمَّا الْأَحَادِيثُ الْمُرْسَلَاتُ عَنِ النَّبِيّﷺ، ص۲۸۰)
۲۔ ’’(وَاحْتَجَّ) الْإِمَامُ (مَالِكٌ) هُوَ ابْنُ أَنَسٍ فِي الْمَشْهُورِ عَنْهُ وَ (كَذَا) الْإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ (النُّعْمَانُ) بْنُ ثَابِتٍ (وَتَابِعُوهُمَا) الْمُقَلِّدُونَ لَهُمَا، وَالْمُرَادُ الْجُمْهُورُ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ، بَلْ وَجَمَاعَةٌ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ، وَالْإِمَامُ أَحْمَدُ فِي رِوَايَةٍ حَكَاهَا النَّوَوِيُّ وَابْنُ الْقَيِّمِ وَابْنُ كَثِيرٍ وَغَيْرُهُمْ۔ وَحَكَاهُ النَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ عَنْ كَثِيرِينَ مِنَ الْفُقَهَاءِ أَوْ أَكْثَرِهِمْ‘‘۔’’(حجت ہے) امام (مالکؒ )ابن انس سےمشہورہےاور(ان کے ساتھ ساتھ) امام ابوحنیفہؒ (نعمان) بن ثابت(اوران کے پیروکاروں)مقلدین سے، یعنی دونوں فریقوں کے جمہورناظرین اور جماعت محدثین سےاورامام احمدؒ کی ایک روایت سےجسے حکایت کیا ہے امام نوویؒ نے، ابن القیمؒ ، ابن کثیرؒوغیرہ سے۔ اور اس بات کو حکایت کیاہے شرح المہذب میں امام نوویؒ نے اکثرفقہاءسے‘‘۔ (فتح المغیث بشرح الفیۃالحدیث: ص۲۴۶)
۳۔ امام ابوداؤدؒ اپنے رسالہ میں فرماتے ہیں کہ: ’’وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ فِي رِسَالَتِهِ: وَأَمَّا الْمَرَاسِيلُ فَقَدْ كَانَ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ يَحْتَجُّونَ بِهَا فِيمَا مَضَى، مِثْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكٍ، وَالْأَوْزَاعِيّ حَتَّى جَاءَ الشَّافِعِيؒ فَتكلم فِي ذَلِك، وَتَابعه علىہ أَحْمد بن حَنْبَل وَغَيره‘‘۔ ’’مراسیل روایات سےگذشتہ زمانوں میں اکثر علماءدلیل لیاکرتے تھے۔ مثلاً(امام سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ )جب امام شافعیؒ آئے توانہوں نےاس میں کلام کیا اوراسی طرح احمدبن حنبلؒ وغیرہ کے بعدوالوں سے‘‘۔ (فتح المغیث بشرح الفیۃالحدیث: ص۲۴۶)
۴۔ ’’الْمَرَاسِيلُ حُجَّۃَ مُطْلِقاً، فَقَدْ نُقِلَ عَنْ مَالِكٌ، وَأَبِی حَنِيفَةَ، وَأَحْمَدُ فِي رِوَايَةٍ حَكَاهَا النَّوَوِيُّ، وَابْنُ الْقَيِّمِ، وَابْنُ كَثِيرٍ وَغَيْرُهُمْ۔ وَحَكَاهُ النَّوَوِيُّ أیضاً فِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ عَنْ كَثِيرِينَ مِنَ الْفُقَهَاءِ أَوْ أَكْثَرِهِمْ‘‘۔’’مرسل مطلقاًحجت ہے۔ یہ بات منقول ہے امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام احمدؒ کی ایک روایت سےجسے حکایت کیا ہے امام نوویؒ نے، ابن القیمؒ ، ابن کثیرؒوغیرہ سے۔ اور اس کے علاوہ حکایت کیاہے شرح المہذب میں امام نوویؒ نے اکثرفقہاءسے‘‘۔(المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۲۷)
۵۔ حافظ ابن رجب حنبلیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’وَاحْتَجَّ بالْمَرَاسِيلُ أَبُوحَنِيفَةَ وَأصْحَاْبَہ، وَمَالِكٍ وَأصْحَاْبَہ، وَکَذَا الشَّافِعِي وَأَحْمَدُ وَأصْحَاْبَہما‘‘۔’’مرسل روایات سے دلیل پکڑتے ہیں امام ابوحنیفہؒ اوران کے اصحاب، امام مالکؒ اوران کے اصحاب، امام شافعیؒ اورامام احمدؒ اور ان کے اصحاب بھی‘‘۔(المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۳۹)
۶۔ حافظ ذہبیؒ نے امام اوزاعیؒ کے متعلق لکھا کہ: ’’قُلْتُ: يُرِيْدُ: أَنَّ الأَوْزَاعِيَّ حَدِيْثُه ضَعِيْفٌ مِنْ كَوْنِهِ يَحتَجُّ بِالمَقَاطِيْعِ، وَبِمَرَاسِيْلِ أَهْلِ الشَّامِ‘‘۔ ’’وہ مقطوعات اور اہل شام کے مراسیل سے استدلال کرتے تھے‘‘۔ (سیر اعلام النبلاء : ج۷، ص۱۱۴)
۷۔ حسن بصریؒ سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں: ”اذا اجتمع اربعة من الصحابة علی حدیث ارسلتہ“۔ ’’جب صحابہ میں چار لوگ کسی حدیث پر جمع ہوجائیں تو اسے مرسل رکھتاہوں‘‘۔ (مالک حیاتہ وعصرہ وآراء ہ وفقہہ، ص۲۹۶، ابوزہرہ، قاہرہ)
۸۔ حسن بصریؒ ہی سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب میں تم سے کہوں کہ مجھ سے بیان کیا فلاں نے تو وہ حدیث ہے اور کچھ نہیں اور جب میں کہوں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو میں نے اسے ۷۰ یا اس سے زیادہ لوگوں سے سنا ہے۔(ایضاً)
۹۔ ’’وَقاَأما الْمَرَاسِيل فقد كَانَ يحْتَج بهَا الْعلمَاء فِيمَا مضى مثل سُفْيَان الثَّوْريّ وَمَالك بن أنس وَالْأَوْزَاعِيّ حَتَّى جَاءَ الشَّافِعِي فَتكلم فِيهَا وَتَابعه على ذَلِك أَحْمد بن حَنْبَل وَغَيره رضوَان الله عَلَيْهِم ‘‘۔ ’’مراسیل روایات سےگذشتہ زمانوں میں علماءاحتجاج کیا کرتے تھے۔ مثلاً(امام سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ )جب امام شافعیؒ آئے توانھوں نےمرسل کی حجیّت میں کلام کیا اوراسی طرح احمدبن حنبلؒ وغیرہ کے بعدوالوں سے‘‘۔ (المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۲۵)
۱۰۔ تمام تابعین کرامؒ بھی اس کی حجیت کے قائل ہیں چنانچہ علامہ ابن جریر ؒ فرماتے ہیں : ’’وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَأَجْمَعَ التَّابِعُونَ بِأَسْرِهِمْ عَلَى قَبُولِ الْمُرْسَلِ، وَلَمْ يَأْتِ عَنْهُمْ إِنْكَارُهُ، وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ إِلَى رَأْسِ الْمِائَتَيْنِ۔ قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: كَأَنَّهُ يَعْنِي أَنَّ الشَّافِعِيَّ أَوَّلُ مَنْ رَدَّهُ‘‘۔ ’’تابعین سب کے سب اس امر پر متفق تھے کہ مرسل قابل احتجاج ہے ۔ تابعین سے لے کر دوسری صدی کے آخر تک ائمہ میں سےکسی شخص نے مرسل کے قبول کرنے کا انکار نہیں کیا ۔ امام ابن عبدالبرؒفرماتے ہیں کہ گویاامام شافعیؒ ہی وہ پہلےبزرگ ہیں جنہوں نے مرسل کے ساتھ احتجاج کا انکار کیاہے‘‘۔(تدریب الراوی: ص۲۲۳؛ منیۃالالمعی: ص۲۷؛ توجیہہ النظر: ص۲۴۵؛ ومقدمہ فتح الملھم: ص۳۴)
۱۱۔ ’’ومذهب مالك وأبى حنيفة وأحمد وأكثر الفقهاء أنه يحتج به ومذهب الشافعى أنه اذا انضم إلى المرسل ما يعضده احتج به وذلك بأن يروى أيضا مسندا أو مرسلا من جهة أخرى أو يعمل به بعض الصحابة أو أكثر العلماء‘‘۔ ’’امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام احمدؒ اور اکثرفقہاءکامذہب ہے کہ مرسل قابل احتجاج ہے اورامام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگرمرسل کے ساتھ کوئی تقویت کی چیزمل جائے تو وہ حجت ہوگا، مثلاًیہ کہ وہ مسنداًبھی مروی ہویادوسرےطریق سے وہ مرسل روایت کیا گیاہویا بعض حضرات صحابہ کرامؓ یا اکثرعلماءنے اس پرعمل کیاہو‘‘۔ (مقدمہ نووی برشرح مسلم: ج۱، ص۲۹)
۱۲۔ حافظ بلقینی ؒنے فرمایا:”ان التابعین أجمعوا بأمرہم علی قبول المراسیلِ ولم یأت عنہم انکارہ ولا عن أحد من الأئمة بعدہم الی رأس المئین“۔ ’’تمام تابعین متفقہ طور پر مرسل روایات کو قبول کرتے تھے؛ بلکہ تابعین کے بعد بھی دوسری صدی ہجری تک ائمہ میں سے کسی کی طرف سے مراسیل قبول کرنے سے انکار ثابت نہیں‘‘۔ (محاسن الاصطلاح وتضمین کتاب ابن صلاح:ص۱۴۱، سراج الدین بلقینی، دارالکتب)
۱۳۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ مراسیل سےاحتجاج اورعدم احتجاج کےبارےمیں بحث کرتےہوئےلکھتےہیں: واماالمراسیل قدتنازع الناس فی قبولھاوردّھاواصحّ الاقوال ان منھاالمقبول والمردودمنھاالموقوف فمن علم من حالہ افہ لایرسل الاعن ثقہ قبل مرسلہ ومن عرف انہ یرسل عن الثقۃوغیرالثقۃ کان ارسالہ روایۃ عن من لایعرف حالہ فھذاموقوف وماکان من المراسیل مخالفاً لمارواہ الثقات کان مردوداً واذاکان المرسل من وجھین کل من الراویین اخذالعلم عن شیوخ اٰخرفھٰذا یدل علیٰ صدقہ فان مثل ذٰلک لایتصورفی العادۃ تماثل الخطأفیہ وتعمدالکذب“۔ ’’بہرحال مراسیل کے قبول اورردکرنے میں لوگوں نے اختلاف کیاہےاور صحیح ترقول یہ ہے کہ مراسیل میں مقبول ومردوداور موقوف سبھی اقسام ہیں سوجس کے حال سے یہ معلوم ہواکہ وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہے تواس کامرسل قبول کیاجائے گااور جو ثقہ اور غیرثقہ سب سے ارسال کرتا ہےاور جس سے اس نے حدیث مرسل روایت کی ہے اس کا علم نہیں تو ایسی مرسل حدیث موقوف ہوگی اور جو مراسیل ثقات کی روایت کے خلاف ہوں تو وہ مردود ہوں گے اور جب مرسل دو طریقوں سے مروی ہو ایک مرسل الگ شیوخ سے اور دوسراالگ سےتو یہ اس کے صدق پر دلالت کرتا ہے کیونکہ عادتاً اس میں خطاء اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کا تصورنہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (منہاج السنۃ: ج۴،  ص۱۱۷)
۱۴۔ موجودہ دور کے محقق علامہ زاہد الکوثریؒ(متوفی۱۳۷۲ھ) لکھتے ہیں: ’’والاحتجاج بالمرسل کان سنۃ متوارثۃ جرت علیہ الامۃ فی القرون الفاضلۃ حتیٰ قال ابن جریرؒردالمرسل مطلقاًبدعۃ حدثت فی رأس المأتین۔ کماذکرہ الباجیؒ فی اصولہ وابن عبدالبرؒ فی التمھیدوابن رجبؒ فی شرح علل الترمذی“۔ ’’مرسل کے ساتھ احتجاج کرناایک ایسا متوارث طریق تھا جس پر قرون فاضلہ میں امت عمل پیرارہی ہے۔ امام ابن جریرؒنےتویہاں تک کہاہے کہ مطلقاًمرسل کو رد کرنا بدعت ہے جو دوسری صدی کے آخرمیں ایجاد ہوئی جیساکہ علامہ باجیؒ نے اپنے اصول میں اور ابن عبدالبرؒنے تمہیدمیں اور ابن رجب ؒنے شرح علل ترمذی میں ذکرکیاہے‘‘۔ (تانیب الخطیب: ص۱۵۲، طبع مصر)
۱۵۔ مشہورغیرمقلدعالم نواب صدیق حسن خان صاحبؒ اور علامہ جزائریؒ لکھتے ہیں: ’’واماالمراسیل فقدکان یحتج بھاالعلماءفیما مضیٰ مثل سفیان الثوریؒ ومالک بن أنسؒ والاوزاعیؒ حتیٰ جاءالشافعیؒ فتکلم فیھا‘‘۔ ’’مراسیل کے ساتھ گذشتہ زمانوں میں علماءاحتجاج کیا کرتے تھے۔ مثلاً(امام سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ )جب امام شافعیؒ آئے توانھوں نےمرسل کی حجیّت میں کلام کیا‘‘۔ (الحطۃفی ذکرانصحاح السنۃ: ص۱۰۶؛ وتوجیہ النظر: ص۲۴۵)
۱۶۔ حضرت امام شافعیؒ نے مراسیل کی بحث اپنی کتاب الرسالۃ فی اصول فقہ صفحہ نمبر۶۳طبع بولاق میں کی ہے۔ چنانچہ امام شافعیؒ کا مشہورقول یہ بتایا گیاہے کہ: ’’قال الشافعیؒ: وارسال ابن المسیب عندنا حسن‘‘۔ ’’امام شافعیؒ فرماتے ہیں: ابن المسیب کا ارسال حسن درجے کاہے‘‘۔(المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۳۳)
۱۷۔’’اشْتُهِرَ عَنِ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ لَا يَحْتَجُّ بِالْمُرْسَلِ، إِلَّا مَرَاسِيلَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ‘‘۔ ’’امام شافعیؒ کامشہور قول یہ بتایاگیا ہےکہ ان کے نزدیک سعیدبن المسیب کی مراسیل کے علاوہ مرسل حجت نہیں‘‘۔(تدریب الراوی: ص۲۲۴)
مندرجہ بالا تفصیلی دلائل اور ائمہ کرامؒ کے اقوال سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مرسل حدیث صحیح اور قابل استدلال ہے۔ قرون اولیٰ میں دوسری صدی کے آخر تک تابعینؒ اورآئمہؒ دین میں سے کوئی بھی مرسل حدیث سے احتجاج کا منکر نہیں تھا۔ یہاں تک کہ دوسری صدی کے آخرمیں آنے والے امام شافعیؒ جنہوں نےمرسل روایات کی حجیّت میں سب سےپہلےکلام کیا، ان کے نزدیک بھی سعیدبن المسیب کی مرسل روایات صحیح اور قابل استدلال ہیں جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مرسل روایات کےقابل حجت اور قابل استدلال ہونےکےتو امام شافعیؒ بھی قائل تھے۔ لہٰذا جب امام شافعیؒ کے نزدیک سعیدبن المسیب کی مراسیل صحیح اور قابل استدلال ہوسکتی ہیں تو پھر امام ابوحنیفہؒ اور احناف کے نزدیک حضرت ابراہیم نخعیؒ کی مراسیل قابل حجت اور قابل استدلال کیوں نہیں ہوسکتیں؟
الحمدﷲدلائل سے یہ بات ثابت ہوگئی قرون اولیٰ میں دوسری صدی کے آخر تک تمام صحابہؓ وتابعینؒ اور آئمہؒ دین کا اس پر اجماع تھا کہ مرسل حدیث قابل قبول اورقابل استدلال ہے۔ مرسل حدیث کے حجت ہونے یانہ ہونے کاجھگڑادوسری صدی کے بعدسے چلا آرہاہےمگردوسری صدی تک مرسل روایات کو ساری امت حجت مانتی تھی۔ لہٰذا غیرمقلدین حضرات کامحض مرسل مرسل کی رٹ لگاکراپنی جان چھڑانا آسان نہیں ہے۔ حق بات یہ ہے کہ مرسل جبکہ اس کی سندصحیح ہواورکبار تابعی سے مروی ہواور کسی دوسری روایت سے اس کی تائید ہوتی ہو تو وہ بالکل صحیح اورقابل احتجاج ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ غیرمقلدین حضرات کے نزدیک خیرالقرون میں ہونے والااجماع تو حجت نہیں لیکن دوسری صدی کے بعد کے محدثین کا نظریہ قابل قبول ہے۔ جبکہ غیرمقلد عالم حافظ محمدصاحب گوندلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’اور امت کی اکثریت کا لحاظ قرنِ اوّل میں لیاجائے گا‘‘۔ (خیرالکلام فی وجوب الفاتحہ خلف الامام: ص۵۳۱)
بقول غیرمقلدین حضرات تقلیدِشخصی تو چوتھی صد ی کے بعد کی بدعت ہےمگرمطلقاًمرسل کو رد کرنا تو دوسری صدی کے بعد کی بدعت نکلی۔ غیرمقلدین حضرات کا عجیب وطیرہ ہے کہ ان کے نزدیک خیرالقرون کے جلیل القدر تابعین اورائمہ دین(حسن بصریؒ، سفیان بن عیینہؒ، امام اوزاعیؒ، امام سفیان ثوریؒ، امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدابن حنبلؒ)کی بات حجت نہیں لیکن بعد کےامام شافعیؒ ودیگرمحدثین کی بات حجت ہے۔
اصولی طورپرہونا یہ چاہیئےکہ مرسل روایات کی قبولیت اور رد میں ائمہؒ دین کے بنائے ہوئے اصولوں کی پیروی کرنی ہی ہے تو پھراس دور کے ائمہ دین کی پیروی کی جائے جن کے بارے میں رسول اﷲﷺنےبہترین لوگ ہونے کی گواہی دی ہے ناکہ اس دور کےائمہؒ دین کی پیروی کی جائے جن کے بارے میں رسول اﷲﷺ نے فرمایاہے کہ ان کی گواہی قسم سے پہلے ہوگی اور قسم گواہی سے پہلے۔ اس لئےغیرمقلدین حضرات سے درخواست ہے کہ مرسل روایات کی قبولیت و رد میں اگر تقلید کرنی ہی ہے توامام شافعیؒ اور ان کے بعدکے ائمہؒ دین کے بجائےزمانۂِ خیرالقرون کے جلیل القدرتابعینؒ وائمہ مجتہدین ؒکی کریں۔
حضرت ابراہیم نخعیؒ کی مرسل روایات کے حجت ہونے کی تائید میں علماء دین کےاقوال
۱۔’’عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ أَنَّهُ قَالَ: مَرَاسِيلُ إبْرَاهِيمَ صَحِيحَةٌ إلَّا حَدِيثَ: تَاجِرِ البحرين، وحديث القهقه، انْتَهَى۔ وَأَمَّا مَرَاسِيلُ النَّخَعِيِّ، فَقَالَ ابْنُ مَعِينٍ: مَرَاسِيلُ إِبْرَاهِيمَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مَرَاسِيلِ الشَّعْبِيِّ‘‘۔ ’’امام یحیٰ بن معینؒ فرماتے ہیں کہ: مراسیل ابراہیم صحیح ہیں سوائے تاجرالبحرین اور قہقہہ والی حدیث کے۔ اور ابراہیم نخعی کی مراسیل کے بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ: شعبی کی مراسیل سے زیادہ پسند مجھے ابراہیم کی مراسیل ہیں‘‘۔ (المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۴۴) (نصب الرایۃ: ج۱، ص۵۲، رقم ۲۴۷)

۲۔’’وَأَمَّا مَرَاسِيلُ النَّخَعِيِّ، فَقَالَ ابْنُ مَعِينٍ: مَرَاسِيلُ إِبْرَاهِيمَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مَرَاسِيلِ الشَّعْبِيِّ‘‘۔ ’’ ابن معینؒ فرماتے ہیں کہ: شعبی کی مراسیل سے زیادہ پسند مجھے ابراہیم کی مراسیل ہیں‘‘۔ (المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۳۶) (تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: ص۲۳۱) (سیر اعلام النبلاء: ج۴، ص۵۲۲)

حضرت ابراہیم نخعیؒ سے منقول زیربحث مرسل احادیث کی تائیدمیں امام یحییٰ بن معینؒ کے اقوال خاص اور مفسرہیں کیونکہ زبیرعلی زئی صاحب نے اپنی کتاب نورالعینین کے صفحہ نمبر۱۶۸ پرخودامام یحییٰ بن معینؒ کے قول سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس روایت پرامام ابن معینؒ کی جرح خاص اور مفسرہے۔ ابن معین ؒ کا نقادِ حدیث میں جو مقام ہےوہ حدیث کے ابتدائی طالب علموں پربھی پوشیدہ نہیں ہے‘‘۔ لہٰذا جس طرح زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین کے نزدیک امام ابن معینؒ کی جرح خاص اورمفسرہے بالکل اسی طرح ان کی تائید بھی خاص اور مفسر ہونی چاہیے۔ ورنہ زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین کا امام یحییٰ بن معینؒ سے صرف اپنے مطلب کی بات قبول کرنا اوراپنے مخالفت میں جانے والے اقوال کو رداورنظراندازکردیناان کی علمی بدیانتی اور عام مسلمانوں کودھوکہ دیناہے۔
۳۔’’وَقَالَ الْأَعْمَشُ: قُلْتُ لِإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ: أَسْنِدْ لِي، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ، عَنْ رَجُلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فَهُوَ الَّذِي سَمِعْتُ، وَإِذَا قُلْتُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَهُوَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ‘‘۔ ’’اعمشؒ فرماتے ہیں کہ:  ابراہیم نخعی نے بتلایاکہ عبداﷲسے میراارسال کرناوہ معینہ آدمی سے روایت ذکرکرنے سے زیادہ مضبوط ہے، یہ روایت اسی طرح کی مرسل ہے اور یہ اس متصل سے اعلیٰ ہے جو ایک معینہ آدمی سے نقل کی جائے اور عبداﷲکی طرف نسبت کی جائے‘‘۔ (تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: ص۲۳۱) (سیر اعلام النبلاء: ج۴، ص۵۲۷)
۴۔ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَإِنْ قَالُوا مَا ذَكَرْتُمُوهُ عَنْ إبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ غَيْرُ مُتَّصِلٍ۔ قِيلَ لَهُمْ كَانَ إبْرَاهِيمُ، إذَا أَرْسَلَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، لَمْ يُرْسِلْهُ إلَّا بَعْدَ صِحَّتِهِ عِنْدَهُ، وَتَوَاتُرِ الرِّوَايَةِ عَنْ عَبْدِ اللَّه، قَدْ قَالَ لَهُ الأَعْمَشُ: إذَا حَدَّثْتنِي فَأَسْنِدْ۔ فَقَالَ: إذَا قُلْت لَك قَالَ "عَبْدُ اللَّهِ" فَلَمْ أَقُلْ ذَلِكَ حَتَّى حَدَّثَنِيهِ جَمَاعَةٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَإِذَا قُلْت "حَدَّثَنِي فُلاَنٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ" فَهُوَ الَّذِي حَدَّثَنِي‘‘۔ ’’امام ابوجعفرطحاویؒ فرماتے ہیں: اگروہ کہیں کہ جو تم نے ابراہیم سے حضرت عبداﷲرضی اﷲعنہ سے نقل کیا وہ متصل نہیں، تو ان کویہ جواب دیا جائے گا کہ ابراہیم جب عبداﷲرضی اﷲعنہ سے ارسال کرتے ہیں تووہ روایت ان کے نزدیک تواتروصحت سے پہنچی ہوئی ہوتی ہے۔ اعمش نے ان کوکہامجھے روایت بیان کرتے ہوئے سند بیان کیا کروتو انہوں (ابراہیم نخعیؒ) نے فرمایا: جب میں تم سے کہوں کہ عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ نے فرمایا تو سمجھ لوکہ میں یہ بات اسی وقت کہتا ہوں جب وہ بات ایک جماعت مجھ سےبیان کرتی ہے۔ اور جب میں کہوں: "حدثنی فلان عن عبدﷲ" تو مجھے فقط اسی شخص نے بیان کی ہوتی ہے‘‘۔(المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۶-۲۲۷؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۵-۴۰۶، رقم ۱۷۲۴، ۱۷۳۰)
۵۔ ’’وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: مُرْسَلَاتُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَصَحُّ الْمُرْسَلَاتِ، وَمُرْسَلَاتُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ لَا بَأْسَ بِهَا، وَلَيْسَ فِي الْمُرْسَلَاتِ أَضْعَفُ مِنْ مُرْسَلَاتِ الْحَسَنِ، وَعَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، فَإِنَّهُمَا كَانَا يَأْخُذَانِ، عَنْ كُلِّ وَاحِدٍ، وَمَرَاسِيلُ الْحَسَنِ تَقَدَّمَ الْقَوْلُ فِيهَا عَنْ أَحْمَدَ‘‘۔ ’’ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ: صحیح ترین مرسلات سعید بن المسیب کی ہیں اور ابراہیم نخعی کی مرسلات میں کوئی حرج نہیں ہے، اور سب سے ضعیف ترین مرسلات حسن اور عطاء کی ہیں اسلئے کہ وہ ہرکسی سے حدیث لے لیتے ہیں‘‘۔ (تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: ص۲۳۰)
۶۔ ’’قال ابن عبد البر في التمهيد: مراسيل سعيد بن المسيب، ومحمد بن سيرين، وإبراهيم النخعي، عندهم صحاح۔ وقالوا: مراسيل عطاء والحسن لا يحتج بهما، لأنهما يأخذان عن كل أحد۔ وكذلك مراسيل أبي العالية وأبي قلابة‘‘۔ ابن عبدالبرؒالتمہیدمیں فرماتے ہیں: ’’سعید بن المسیب، محمد ابن سیرین اور ابراہیم نخعی کی مراسیل انکے نزدیک صحیح ہیں اور فرماتے ہیں کہ عطاء اور حسن کی مراسیل حجت نہیں ہیں۔ اس لئے کہ وہ دونوں ہرایک سے حدیث لے لیتےہیں اور یہی حال ابو قلابہ اور ابو عالیہ کاہے‘‘۔ (التمهيد: ج۱، ص۳۰، مقدمة كتاب المراسيل:۴۶)
ابراہیم نخعیؒ کی مرسل روایات کے قابل قبول اور قابل استدلال ہونے کی تائید میں امام اعمشؒ، امام یحییٰ بن معینؒ، امام احمدابن حنبلؒ، امام ابو جعفرالطحاویؒ اور علامہ ابن عبدالبرؒکے اقوال کافی ہیں جن سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت ابراہیم نخعیؒ کی حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ سےبیان کردہ ترک رفع الیدین کی روایات صحیح اورقابل استدلال ہیں۔
حضرت ابراہیم نخعیؒ سے مروی ترک رفع الیدین کی احادیث کے صحیح اور قابل استدلال ہونے پرمندرجہ بالا پیش کردہ دلائل ہی کافی ہیں لیکن ہم یہاں ان ہی پر اکتفاء نہیں کریں گے بلکہ یہ بھی ثابت کرکے دکھائیں گے کہ زیربحث احادیث امام شافعیؒ کے اصولوں پربھی پوری اترتی ہیں اوران کی بیان کردہ شرائط کے مطابق بھی صحیح اورقابل استدلال ہیں۔
۱۔ ’’ومذهب الشافعى أنه اذا انضم إلى المرسل ما يعضده احتج به، وذلك بأن يروى أيضا مسندا، أو مرسلا من جهة أخرى، أو يعمل به بعض الصحابة، أو أكثر العلماء‘‘۔ ’’اورامام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگرمرسل کے ساتھ کوئی تقویت کی چیزمل جائے تو وہ حجت ہوگا، مثلاًیہ کہ وہ مسنداًبھی مروی ہویادوسرےطریق سے وہ مرسل روایت کیا گیاہویا بعض حضرات صحابہ کرامؓ یا اکثرعلماءنے اس پرعمل کیاہو‘‘۔ (مقدمہ نووی برشرح مسلم: ج۱، ص۲۹)
۲۔ حضرت امام شافعیؒ نے مراسیل کی بحث اپنی کتاب الرسالۃ فی اصول فقہ صفحہ نمبر۶۳طبع بولاق میں کی ہے۔ چنانچہ امام شافعیؒ کا مشہورقول یہ بتایا گیاہے کہ: ’’قال الشافعیؒ: وارسال ابن المسیب عندنا حسن‘‘۔ ’’امام شافعیؒ فرماتے ہیں: ابن المسیب کا ارسال حسن درجے کاہے‘‘۔(المراسیل مع اسانیدللامام ابی داؤد: ص۳۳)
۳۔’’اشْتُهِرَ عَنِ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ لَا يَحْتَجُّ بِالْمُرْسَلِ، إِلَّا مَرَاسِيلَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ‘‘۔ ’’امام شافعیؒ کامشہور قول یہ بتایاگیا ہےکہ ان کے نزدیک سعیدبن المسیب کی مراسیل کے علاوہ مرسل حجت نہیں‘‘۔(تدریب الراوی: ص۲۲۴)
۴۔ جہاں تک موطا میں درج مرسل روایات اوراس کی صحت کی بات ہے ، خود امام شافعیؒ سے منقول ہےکہ: ”وقال شافعی: مافی الارض کتاب [فی العلم] اکثرصوابامن موطامالک“۔ ’’زمین پر[علم کے لحاظ سے]صحیح ترین کتاب موطا مالک ہے‘‘۔ ( تذکرة الحفاظ: ج۱، ص۲۰۸، ابوعبداللہ شمس الدین الذہبیؒ)
۵۔ امام زرقانی ؒلکھتے ہیں:”ما من مرسل فی الموطا الاّ ولہ عاضد أو عواضد فالصواب اطلاق الموطا صحیح لا یستثنیٰ منہ شيء وقد صنف ابن عبد البر کتابا فی وصل ما فی الموطا من المرسل والمنقطع والمعضل قال وجمیع ما فیہ من قولہ بلغنی ومن قولہ عن الثقة عندہ مما لم یسندہ أحد وستون کلہا مسند من غیر طریق مالک الاّ أربعة“۔ ’’موطا میں کوئی روایت مرسل نہیں؛ مگر اس کی تائیں کرنے والے اور معاون حدیث موجود ہے؛ لہٰذا بلا استثناء موطا پر صحیح کا اطلاق درست ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے ایک کتاب تصنیف کی جس میں موطا کی تمام مرسل، منقطع اور معضل روایات کی سندیں بیان کی ہیں اور فرمایا کہ موطا میں امام مالک نے جس قدر بلغنی‘‘اور”عن الثقة‘‘کہہ کر روایات بیان کی ہیں اور ان کی سندیں نہیں بیان کیں وہ کل ۶۱ ہیں، جن میں سوائے چار کے تمام روایات امام مالک کے علاوہ دوسرے طرق سے مسند ہیں‘‘۔ (مصفی: ج۱، ص۷)
۶۔ امام نووی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: ’’ثم الحسن کالصحیح فی الاحتجاج بہ وان کان دونہ فی القوۃ‘‘۔ ’’حسن حدیث دلیل حاصل کرنے میں صحیح کی طرح ہے، اگرچہ قوت میں اس سے کم ہے‘‘۔ اور اس عبارت کی شرح امام سیوطیؒ اس طرح کرتے ہیں کہ: ’’ولا بدع فی الاحتجاج بحدیث لہ طریقان لو انفرد کل منھما لم یکن حجۃ کما فی المرسل ، اذا ورد من وجہ آخر سندا او وافقہ مرسل آخر بشرطہ‘‘۔ ’’یعنی حدیث حسن بھی حدیث صحیح کی طرح قابل استدلال ہیں۔ اگر کسی حدیث کے دوطرق ہیں تو اس سے استدلال کرنے میں کوئی قباحت نہیں حالانکہ ہر ایک طریق قابل احتجاج نہیں، جس طرح مرسل حدیث ضعیف ہے لیکن یہ حدیث اگر کسی دوسرے طریق سے مسنداً یا مرسلاً مروی ہو تو وہ قابل احتجاج ہو جاتی ہے‘‘۔ (التقریب مع التدریب: ص۱۲۵)
۷۔ ’’الشَّافِعِيُّ فِي الرِّسَالَةِ: وَزَادَ فِي الِاعْتِضَادِ أَنْ يُوَافِقَ قَوْلَ صَحَابِيٍّ، أَوْ يُفْتِيَ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ بِمُقْتَضَاهُ، فَإِنْ فُقِدَ شَرْطٌ مِمَّا ذُكِرَ لَمْ يُقْبَلْ مُرْسَلُهُ‘‘۔ ’’امام شافعیؒ نے اعتصادکے لئے یہ شرط زائدبیان کی ہے کہ وہ کسی صحابی کے قول کے موافق ہویااکثرعلماءنے اس کی مقتضیٰ پرفتویٰ دیا ہو‘‘۔ (تدریب الراوی:ص۱۲۵)
مندرجہ بالا تحقیق سےمعلوم ہوا کہ مرسل روایات کے حجت ہونے کےتو امام شافعیؒ بھی قائل ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک سعیدبن المسیب کا ارسال حسن درجے کاہے۔ امام شافعیؒ بھی کبارِ تابعین ؒکی مراسلات کو قبول کرتے تھے، بشرطیہ کہ ان کی تائید دوسری حدیث وسند سے ہوجاتی۔ امام شافعیؒ کے نزدیک مرسل روایات کی قبولیت کی چند شرائط ہیں جن کا اختصارکے ساتھ امام نوویؒ نے تذکرہ فرمایا ہے:
یعنی یہ امام شافعیؒ اور دیگراہل علم کی رائے ہے۔ ان شرائط میں تین تو مرسل راوی کے بارےمیں ہیں اور ایک حدیث مرسل کے بارے میں ہے۔
۱۔ مرسل راوی کبار تابعین میں سے ہو۔
۲۔ جس سے اس نے ارسال کیااس کا نام لے تو اسے ثقہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
۳۔ جب اس کے ساتھ روایت میں دوسرےحفاظ شریک ہوجائیں تو اس سے اختلاف نہ کریں۔
۴۔ ان تین شرائط کے ساتھ ذیل کی شرائط میں سے ایک شرط بھی شامل ہو۔
۱)۔ یہ حدیث سند کے ساتھ کسی دوسرے طریقہ سے بھی مروی ہو۔
۲)۔ یہی روایت کسی دوسرے طریقہ سے بطورمرسل مروی ہواس کا ارسال ان لوگوں نے کیا ہوجنہوں نے اس کا علم ایسے لوگوں سے حاصل کیا ہو جن سے پہلے مرسل نے حاصل نہ کیا ہو۔
۳)۔ یہ حدیث کسی صحابی کے قول سے مطابقت رکھتی ہو۔
۴)۔ یا اکثر اہل علم اس کے مقتضاکے مطابق فتویٰ دیتے ہوں۔
اگریہ شرائط پوری ہوجائیں گی تو ان سے ظاہرہوجائے گا کہ یہ مرسل اور اس کی تائید کرنے والی دوسری مرسل کا مخرج صحیح ہے۔ نیزیہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ یہ دونوں صحیح ہیں اور اگران دونوں کے ساتھ صحیح جو ایک طریق سے مروی ہومتعارض ہوجائے اور ان کی تطبیق مشکل ہوجائے تو ہم ان دونوں کوتعددطرق کی بناپرصحیح پر ترجیح دیں گے۔
حضرت ابراہیم نخعیؒ سےترکِ رفع یدین کی مرسل احادیث امام شافعیؒ کی شرائط پربھی پوری اترتی ہیں
شرط نمبر۱: مرسل راوی کبار تابعین میں سے ہو۔
’’وَقَدْ دَخَلَ عَلَى أُمِّ المُؤْمِنِيْنَ عَائِشَةَ وَهُوَ صَبِيٌّ ‘‘۔ ’’قَالَ أَحْمَدُ بنُ عَبْدِ اللهِ العِجْلِيُّ: لَمْ يُحَدَّثْ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ أَدْرَكَ مِنْهُم جَمَاعَةً، وَرَأَى عَائِشَةً‘‘۔ ’’احمد بن عبداﷲ العجلیؒ فرماتے ہیں: آپ کوام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہے اور متعدد کبار صحابہ کرامؓ کی زیارت سے سعادت افروز ہوئے ہیں‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج۱،  ص۷۴) (تہذیب الاسماءواللغات: ج۱، ص۱۰۴، رقم۳۶) (سیر اعلام النبلاء : ج۴، ص۵۲۱)
اس بات پرتوکسی کو شک نہیں ہوگاکہ حضرت ابراہیم نخعیؒ کبار تابعین میں سےہیں۔ لہٰذا امام شافعیؒ کی مرسل راوی کے بارے میں بیان کردہ تین شرائط میں سے پہلی شرط پوری ہوگئی۔
شرط نمبر۲: جس سے اس نے ارسال کیااس کا نام لے تو اسے ثقہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
امام یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں:  "(أصح الأسانيد) الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله"۔ ’’اسانید میں سب سے صحیح اسناد اعمش عن ابراہیم عن علقمہ عن عبد اللہ (بن مسعود) ہے‘‘۔
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: "وهذا الإسناد مما ذكر أنه أصح الأسانيد وهي ترجمة الأعمش عن إبراهيم النخعي عن علقمة عن بن مسعود"۔ ’’یہ سند جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے تمام اسانید میں سے سب سے صحیح اسناد ہے یعنی اعمش عن ابراہیم النخعی عن علقمہ عن ابن مسعود‘‘۔ (فتح الباری: ج۹، ص۱۰۷)
’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ ‘‘۔ ’’حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمانےفرمایا: کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیسےنمازپڑھتےتھے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھی اورتکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا‘‘۔ (جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱،ص ۱۸۵؛ سنن النسائی: ج۱، ص۱۵۸؛ سنن ابی داؤد:ج۱،ص۱۱۶)
 ”حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ، وَعَلْقَمَةَ، أَنَّهُمَا كَانَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إِذَا افْتَتَحَا ثُمَّ لَا يَعُودَانِ۔ ’’ حضرت جابرؒسے مروی ہے کہ حضرت اسود یزید ؒ اور حضرت علقمہ ؒ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲ ،ص۶۱)
امام شافعیؒ کی مرسل راوی کے بارے میں بیان کردہ دوسری شرط کے مطابق حضرت ابراہیم نخعیؒ جلیل القدرتابعی اورثقہ راوی ہیں اور حضرت علقمہؒ اور حضرت اسودؒجیسے زبردست ثقہ تابعین کے شاگردہیں اورترکِ رفع یدین پر حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ سےحضرت علقمہؒ اور حضرت اسودؒ بھی بالکل ایسی ہی روایت بیان کرتے ہیں جیساکہ ابراہیم نخعیؒ سے منقول ہےاور ساتھ میں حضرت علقمہؒ اور حضرت اسودؒ کا اپناعمل بھی ترکِ رفع یدین ہی تھالہٰذا دوسری شرط کے مطابق ابراہیم نخعیؒ نے جن سے ارسال کیا ہے ان کا نام لیاجائے تو یقیناً وہ نام حضرت علقمہؒ اور حضرت اسودؒکا ہی ہوگا۔ اس طرح امام شافعیؒ کی مرسل راوی کے بارے میں بیان کردہ دوسری شرط بھی پوری ہوگئی۔
شرط نمبر۳: جب اس کے ساتھ روایت میں دوسرےحفاظ شریک ہوجائیں تو اس سے اختلاف نہ کریں۔
امام شافعیؒ کی مرسل راوی کے بارے میں بیان کردہ تیسری شرط کے مطابق حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ سے ترکِ رفع یدین پرمروی احادیث کئی حفاظ حدیث نے بیان کی ہیں اور کسی نے بھی حضرت ابراہیم نخعیؒ سے اختلاف نہیں کیا۔ لہٰذا حضرت ابراہیم نخعیؒ سے ترکِ رفع یدین پرمروی زیربحث مرسل روایات امام شافعیؒ کی بیان کردہ تیسری شرط پر بھی پوری اترتی ہیں۔
۱۔   ’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ ‘‘۔ ’’حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمانےفرمایا: کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیسےنمازپڑھتےتھے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھی اورتکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا‘‘۔ (جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱،ص ۱۸۵؛ سنن النسائی: ج۱، ص۱۵۸؛ سنن ابی داؤد:ج۱،ص۱۱۶)
۲۔’’حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَصْحَابُ عَلِيٍّ، لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، قَالَ وَكِيعٌ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ‘‘۔ ’’امام بخاریؒ کے استاذامام ابوبکربن ابی شیبہؒ(۲۳۵ھ) حضرت ابواسحاق السبیعی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ اور حضرت علی رضی اﷲعنہ  کے ساتھی نماز میں صرف پہلی تکبیرکے وقت رفع الیدین کرتے تھےاور وکیع کی روایت میں ہے کہ پھردوبارہ رفع الیدین نہ کرتے تھے‘‘۔ (رواۃ ابن أبی شیبۃ فی المصنف وسندصحیح علی شرط الشیخین:ج۲، ص۶۰) (المعانی الآثارللطحاوی: ج۱، ص۲۲۵)
۳۔ ”حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا۔ ’’امام شعبی رحمة اﷲ علیہ سے مروی ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہی رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲ ،ص۶۱)
۴۔ ”حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ، وَعَلْقَمَةَ، أَنَّهُمَا كَانَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إِذَا افْتَتَحَا ثُمَّ لَا يَعُودَانِ۔ ’’ حضرت جابرؒسے مروی ہے کہ حضرت اسود یزید ؒ اور حضرت علقمہ ؒ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲ ،ص۶۱)
۵۔’’وَلَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: ثِنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ: مَا رَأَيْت فَقِيهًا قَطُّ يَفْعَلُهُ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي غَيْرِ التَّكْبِيرَةِ الآُولَى‘‘۔ ’’ابن ابی داؤدؒ نے احمد بن یونسؒ سے انہوں نے امام ابوبکربن عیاش ؒ سےنقل کیاکہ میں نے کسی عالم فقیہ کو کبھی تکبیرافتتاح کے علاوہ رفع یدین کرتے نہیں پایا‘‘۔ (المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۹)
۶۔’’حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: كَانَ قَيْسٌ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَا يَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا۔ ’’اسماعیل یحییٰ بن سعیدسے بیان کرتے ہیں کہ قیس رحمة اﷲ علیہ جب نماز میں داخل ہوتےتوسب سےپہلے رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲ ،ص۶۰)
شرط نمبر۴: (۱) یہ حدیث سند کے ساتھ کسی دوسرے طریقہ سے بھی مروی ہو۔(۲) یا یہی روایت کسی دوسرے طریقہ سے بطورمرسل مروی ہواس کا ارسال ان لوگوں نے کیا ہوجنہوں نے اس کا علم ایسے لوگوں سے حاصل کیا ہو جن سے پہلے مرسل نے حاصل نہ کیا ہو۔(۳) یایہ حدیث کسی صحابی کے قول سے مطابقت رکھتی ہو۔(۴) یا اکثر اہل علم اس کے مقتضاکے مطابق فتویٰ دیتے ہوں۔
امام شافعیؒ کی مرسل حدیث کے بارے میں بیان کردہ چوتھی شرط میں چار (۴) مزید شرائط موجود ہیں جن میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری ہوجائے تو مرسل روایت امام شافعیؒ کے نزدیک بھی قابل قبول اور قابل احتجاج ہوجاتی ہے۔ جبکہ زیربحث احادیث ان میں سے کسی ایک شرط پرنہیں بلکہ چاروں شرائط پر پوری اترتی ہیں۔
(۱)۔ یہ حدیث سندکے ساتھ دوسرے طریقہ سے بھی مروی ہے جو درج ذیل ہیں:
۱۔   ’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ ‘‘۔ ’’حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمانےفرمایا: کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیسےنمازپڑھتےتھے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھی اورتکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا‘‘۔ (جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱،ص ۱۸۵؛ سنن النسائی: ج۱، ص۱۵۸؛ سنن ابی داؤد:ج۱،ص۱۱۶)
۲۔’’حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَصْحَابُ عَلِيٍّ، لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، قَالَ وَكِيعٌ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ‘‘۔ ’’امام بخاریؒ کے استاذامام ابوبکربن ابی شیبہؒ(۲۳۵ھ) حضرت ابواسحاق السبیعی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ اور حضرت علی رضی اﷲعنہ  کے ساتھی نماز میں صرف پہلی تکبیرکے وقت رفع الیدین کرتے تھےاور وکیع کی روایت میں ہے کہ پھردوبارہ رفع الیدین نہ کرتے تھے‘‘۔ (رواۃ ابن أبی شیبۃ فی المصنف وسندصحیح علی شرط الشیخین:ج۲، ص۶۰) (المعانی الآثارللطحاوی: ج۱، ص۲۲۵)
(۲)۔ یہی روایت کسی دوسرے طریقہ سے بطورمرسل مروی ہواس کا ارسال ان لوگوں نے کیا ہوجنہوں نے اس کا علم ایسے لوگوں سے حاصل کیا ہو جن سے پہلے مرسل نے حاصل نہ کیا ہو:
حضرت ابراہیم نخعیؒ سے ترکِ رفع یدین کی روایت دوسرے طریقہ سے بطورمرسل نہیں بلکہ متصل مروی ہےجو اس بات کی قوی دلیل ہےکہ حضرت ابراہیم نخعیؒ سےمروی زیربحث مرسل روایات امام شافعیؒ کی بیان کردہ تمام شرائط پربھی پوری اترتی ہیں۔ امام ابوجعفرالطحاویؒ نے حضرت ابراہیم نخعیؒ کی مرسل روایات کی تائیدمیں دوسرے طریق سے جو متصل روایت پیش کی ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبٌ أَوْ بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، شَكَّ أَبُو جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ بِذَلِكَ۔ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَأَخْبَرَ أَنَّ مَا أَرْسَلَهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، فَمَخْرَجُهُ عِنْدَهُ أَصَحُّ مِنْ مَخْرَجِ مَا ذَكَرَهُ عَنْ رَجُلٍ بِعَيْنِهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ۔ فَكَذَلِكَ هَذَا الَّذِي أَرْسَلَهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ لَمْ يُرْسِلْهُ إلَّا وَمَخْرَجُهُ عِنْدَهُ أَصَحُّ مِنْ مَخْرَجِ مَا يَرْوِيهِ عَنْ رَجُلٍ بِعَيْنِهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ۔ وَمَعَ ذَلِكَ فَقَدْ رَوَيْنَاهُ مُتَّصِلًا فِي حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ الأَسْوَدِ، وَكَذَلِكَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَفْعَلُ فِي سَائِرِ صَلاَتِهِ‘‘۔ ’’وہب یا بشر بن عمرنے بیان کیایہ ابوجعفرکوشک ہے انہوں نے شعبہ اورانہوں نے اعمش سے اس کو نقل کیا۔ ابوجعفرکہتا ہےکہ ابراہیم نخعی نے بتلایاکہ عبداﷲسے میراارسال کرناوہ معینہ آدمی سے روایت ذکرکرنے سے زیادہ مضبوط ہے، یہ روایت اسی طرح کی مرسل ہے اور یہ اس متصل سے اعلیٰ ہے جو ایک معینہ آدمی سے نقل کی جائے اور عبداﷲکی طرف نسبت کی جائے۔ ان تمام خوبیوں کے باوجودیہ روایت عبدالرحمٰن بن اسودکی سندسے متصل بھی منقول ہے اور حضرت عبداﷲاپنی تمام نمازوں میں اسی طرح کرتے تھے‘‘۔(المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۶-۲۲۷؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۵-۴۰۶، رقم ۱۷۲۴، ۱۷۳۰)
مع ذلک سے دوسرے جواب کی طرف اشارہ کررہے ہیں ان سب روایتی خوبیوں کے باوجود متصل سند کے ساتھ بھی یہ روایت منقول ہے، ملاحضہ فرمائیں:
كَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ إبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ لاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ الصَّلاَةِ إلَّا فِي الِافْتِتَاحِ۔ وَقَدْ رُوِيَ مِثْلُ ذَلِكَ أَيْضًا عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، كَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَال: حَدَّثَنَا الْحِمَّانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، قَالَ: رَأَيْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَة، ثُمَّ لاَ يَعُودُ، قَالَ: وَرَأَيْت إبْرَاهِيمَ، وَالشَّعْبِيَّ يَفْعَلاَنِ ذَلِكَ‘‘۔ ’’ حضرت ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نماز کے کسی بھی جزءمیں رفع الیدین نہیں کرتے تھے سوائے ابتداءِنماز کے۔ حاصل روایت یہ ہے کہ جناب رسول اﷲﷺ تکبیرافتتاح کے علاوہ نماز میں کہیں رفع الیدین نہ فرماتے تھے۔ پس ابراہیم نخعیؒ کے ارسال کی وضاحت کے بعد ابن ان کے ارسال پراعتراض بے جاہےاور حضرت عمررضی اﷲعنہ سے بھی عدم رفع کی روایت ملاحضہ ہو۔ حضرت ابراہیم نے اسود سے نقل کی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ وہ پہلی تکبیرمیں صرف ہاتھ اٹھاتے پھر دوبارہ ہاتھ نہ اٹھاتے اور میں نے ابراہیم نخعیؒ اور شعبی ؒ کو اسی طرح کرتے دیکھا۔ امام طحاویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عمررضی اﷲعنہ جو اس روایت کے مطابق صرف پہلی تکبیرمیں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یہ روایت صحیح ہے۔ کیونکہ اس کا دارمدار حسن بن عیاش راوی پر ہے۔ اور وہ قابل اعتماد وپختہ راوی ہے۔ جیساکہ یحییٰ بن معینؒ وغیرہ نے بیان کیا ہے‘‘۔ (المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۷-۲۲۸؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۵-۴۰۶، رقم ۱۷۲۴، ۱۷۳۰)
(۳)۔ یہ حدیث کسی صحابی کے قول سے مطابقت رکھتی ہو:
۱۔حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْحَنَّاطُ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عِيسَى بْنِ أَبِي حَيَّةَ قَالَا: نا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي إِسْرَائِيلَ، نا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَّا عِنْدَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ۔ قَالَ إِسْحَاقُ: بِهِ نَأْخُذُ فِي الصَّلَاةِ كُلِّهَا‘‘۔ ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ،حضرت ابوبکررضی اﷲ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کے ساتھ نماز پڑھی۔ ان سب نے رفع یدین نہیں کیا مگر پہلی تکبیر کے وقت نماز کے شروع میں۔ محدث اسحٰق بن ابی اسرائیل ؒ کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو اپناتے ہیں پوری نماز میں‘‘۔ (سنن دار قطنی: ج۱، ص۵۲، رقم الحدیث ۱۱۳۳؛ سنن الکبریٰ للبیہقی: ج۲، ص۷۹)
۲۔’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ۔‏ قَالَ وَفِي الْبَابِ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالتَّابِعِينَ۔‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ‘‘۔ ’’حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمانےفرمایا: کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیسےنمازپڑھتےتھے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھی اورتکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا۔ اس باب میں براءبن عازب رضی اﷲعنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ فرماتے ہیں حدیث ابن مسعودؓ حسن صحیح ہےاور یہی قول ہے صحابہؓ و تابعینؒ میں اہل علم کا سفیان ثوریؒ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے‘‘۔(جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱،ص ۱۸۵؛ سنن النسائی: ج۱، ص۱۵۸؛ سنن ابی داؤد:ج۱،ص۱۱۶)
مندرجہ بالااحادیث اس بات کی قوی دلیل ہیں کہ حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲکی بیان کردہ ترکِ رفع یدین کی حدیث جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قول سے مطابقت رکھتی ہےلہٰذا امام شافعیؒ کی یہ شرط بھی پوری ہوگئی۔
(۴)۔ یا اکثر اہل علم اس کے مقتضاکے مطابق فتویٰ دیتے ہوں:
۱۔’’حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ۔‏ قَالَ وَفِي الْبَابِ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالتَّابِعِينَ۔‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ‘‘۔ ’’حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمانےفرمایا: کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیسےنمازپڑھتےتھے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھی اورتکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا۔ اس باب میں براءبن عازب رضی اﷲعنہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ فرماتے ہیں حدیث ابن مسعودؓ حسن صحیح ہےاور یہی قول ہے صحابہؓ و تابعینؒ میں اہل علم کا سفیان ثوریؒ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے‘‘۔(جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱،ص ۱۸۵؛ سنن النسائی: ج۱، ص۱۵۸؛ سنن ابی داؤد:ج۱،ص۱۱۶)
۲۔ ”حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا۔ ’’امام شعبی رحمة اﷲ علیہ سے مروی ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہی رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲ ،ص۶۰)
۳۔ ”حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ، وَعَلْقَمَةَ، أَنَّهُمَا كَانَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إِذَا افْتَتَحَا ثُمَّ لَا يَعُودَانِ۔ ’’حضرت جابرؒسے مروی ہے کہ حضرت اسود یزید ؒ اور حضرت علقمہ ؒ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲ ،ص۶۱)
۴۔’’وَلَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: ثِنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ: مَا رَأَيْت فَقِيهًا قَطُّ يَفْعَلُهُ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي غَيْرِ التَّكْبِيرَةِ الآُولَى‘‘۔ ’’ابن ابی داؤدؒ نے احمد بن یونسؒ سے انہوں نے امام ابوبکربن عیاش ؒ سےنقل کیاکہ میں نے کسی عالم فقیہ کو کبھی تکبیرافتتاح کے علاوہ رفع یدین کرتے نہیں پایا‘‘۔ (المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۸)
۵۔’’حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: كَانَ قَيْسٌ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَا يَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا۔ ’’اسماعیل یحییٰ بن سعیدسے بیان کرتے ہیں کہ قیس رحمة اﷲ علیہ جب نماز میں داخل ہوتےتوسب سےپہلے رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲ ،ص۶۰)
۶۔’’قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: وَرَأَيْتُ الشَّعْبِيَّ، وَإِبْرَاهِيمَ، وَأَبَا إِسْحَاقَ، لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا حِينَ يَفْتَتِحُونَ الصَّلَاةَ‘‘۔ ’’حضرت عبدالملک بن ابجرؒ فرماتے ہیں:میں نے امام شعبی ،امام ابواسحاق اورامام ابراہیم نخعی کو دیکھا یہ تینوں صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے‘‘۔(ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲ ،ص۶۱)
۷۔’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، وَمُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لَا تَرْفَعْ يَدَيْكَ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلَاةِ إِلَّا فِي الِافْتِتَاحَةِ الْأُولَى ‘‘۔ ’’حضرت حصین اور حضرت مغیرہ فرماتے ہیں: ’’ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صرف نمازکے شروع میں رفع یدین کرے اس کے علاوہ پوری نماز میں دوبارہ رفع یدین نہ کرے‘‘۔(ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲ ،ص۶۰)
۸۔’’حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، وَمُغِيرَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: إِذَا كبَّرْتَ فِي فَاتِحَةِ الصَّلَاةِ فَارْفَعْ يَدَيْكَ، ثُمَّ لَا تَرْفَعْهُمَا فِيمَا بَقِيَ‘‘۔ ’’حضرت حصین اور حضرت مغیرہ فرماتے ہیں: ’’ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایانمازی صرف نمازکے شروع میں رفع یدین کرے اس کے بعد پوری نماز میں دوبارہ رفع یدین نہ کرے‘‘۔(ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲ ،ص۶۰)
۹۔’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ خَيْثَمَةَ، وَإِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَا لَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إِلَّا فِي بَدْءِ الصَّلَاةِ۔ ’’ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ ابتداءنماز کے علاوہ  رفع یدین نہیں کرتے تھے ‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۲،ص۶۰)
امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ کا بیان اورجلیل القدرتابعین وائمہ دین کے اقوال اس بات پر دلالت کرتےہیں کہ اکثر اہل علم حضرت ابراہیم نخعیؒ کی ترکِ رفع یدین کی ان روایات کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے اور خود بھی ترکِ رفع الیدین سے ہی نماز ادا کرتے تھے۔
مندرجہ بالا تفصیلی دلائل اور تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ حضرت ابراہیم نخعیؒ سے مروی ترک رفع الیدین کی تمام مرسل روایات امام شافعیؒ و دیگرمحدثین کی شرائط کے عین مطابق ہیں اور ان کے بنائے ہوئے تمام اصول و قوائد پرپوری اترتی ہیں۔ لہٰذا ترکِ رفع الیدین کی تمام زیربحث روایات بالکل صحیح اور قابل استدلال ہیں۔
اعتراض نمبر۲: زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۶پر حضرت ابراہیم نخعیؒ سے منقول ترک رفع یدین کی احادیث پرمزید اشکالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ عبارت مرویات ابراہیم کے قابل حجت ہونے پر دال نہیں ہےاس لئے کہ ممکن ہے دو تین کوفی جمع ہوکراسے حدیث سنائیں اور تینوں ضعیف الحافظ ہوں۔
پتہ نہیں سلسلہ اسناد عبدا ﷲ تک کتنے واسطوں سے پہنچتاہے۔
ممکن ہے ابراہیم کے نزدیک وہ ثقہ ہوں مگردیگرائمہ فن کے ہاں ضعیف ہوں‘‘۔(نورالعینین:ص۱۶۶)
جواب نمبر۲: زبیر علی زئی صاحب کے تمام اشکالات صرف ممکنات کے سمندر میں غوطے لگاتے نظر آتے ہیں جن میں دلیل نام کی کوئی چیز موجود نہیں لیکن ہم یہاں ان کو تسلی بخش جوابات دیں گے تاکہ قارئیں مکمل طور پر مطمئن ہوسکیں۔
جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ مرسل صحابی تمام محدثین کے نزدیک صحیح ہے اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں:"وامامرسل الصحابی وھوروایۃ مالم یدرکہ اویحضرہ کقول عائشۃ رضی اللہ عنہا اول مابدیٔ بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فمذہب الشافعی والجماھیر انہ یحتج بہ وقال الاستاذ الامام ابواسحاق الاسفراینی الشافعی انہ لایحتج بہ الاان یقول انہ لایروی الاعن صحابی والصواب الاول"۔’’ اوررہا معاملہ مرسلاتِ صحابہ کا اور وہ ایسی روایات ہیں جن کا زمانہ اس راوی نے نہ پایا ہو یازمانہ پایا ہومگراس مجلس میں اس نے حاضری نہ پائی ہو توامام شافعی ؒاور جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑی جاسکتی ہے؛ البتہ امام ابواسحاق اسفرائنیؒ کہتے ہیں اس قسم کی روایات سے استناد صحیح نہیں، ہاں اگر وہ کہے کہ وہ صحابی، صحابی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں لیتا توپھر اسے اُن کے ہاں بھی قبول کیا جاسکے گا اور صحیح بات پہلی ہے (کہ مرسلاتِ صحابہ مطلقاً لائقِ قبول ہیں)‘‘۔ (مقدمہ صحیح مسلم للنووی:ص۱۷، طبع ہند)
امام نوویؒ مزیدفرماتے ہیں:"ھذا الحدیث من مراسیل الصحابۃ وہوحجۃ عندالجماھیر"۔ ’’یہ حدیث صحابہؓ کی مرسل روایات میں سے ہے اور وہ جمہور علماءِ اسلام کے نزدیک حجت ہے‘‘۔ (شرح مسلم للنووی: ج۲،ص۲۸۴)
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک بحث میں لکھتے ہیں: "ویستفاد من الحکم بصحۃ ماکان ذلک سبیلہ صحۃ الاحتجاج بمراسیل الصحابۃ"۔ ’’اس طرح کی باتوں پر صحیح کا حکم لگانے سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑنا قانونی طور پر صحیح ہے‘‘۔ (فتح الباری:باب قول المحدث حدثنا وأخبرنا وأنبأنا، ج۱،ص۱۴۴، شاملہ،الناشر: دار المعرفة،بيروت،۱۳۷۹ھ)
خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں: "ان عدالۃ الصحابۃ ثابتۃ معلومۃ بتعدیل اللہ لھم.... فلایحتاج احدمنہم مع تعدیل اللہ لہم المطلع علی بواطنہم الی تعدیل احد من الخلق لہ"۔ ’’صحابہ کی عدالت اللہ کی تعدیل سے معلوم اور ثابت ہے؛ سوصحابہ میں سے کوئی بھی کیوں نہ ہو وہ کسی کی تعدیل کا محتاج نہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی تعدیل حاصل ہے جوان کے بواطن امور پر پوری طرح مطلع ہے اور انہیں عادل قرار دے رہا ہے‘‘۔(الکفایہ فی علوم الروایہ:ص۴۸،۴۶)
مشہور محقق عالم مولانا عبد العزیز الفرہاروی اپنی کتاب کوثر النبیﷺمیں فرماتے ہیں: اذا روی الصحابی مالم یشاہدہ فحدیثہ یسمی مرسل الصحابی کروایة احداث الصحابة کالسبطین وابن عباس وابن الزبیر۔ والصحیح انہ موصول اذا غالب ان الصحابی لایروی الا عن مثلہ اھ‘‘۔”جب صحابی ایسا واقعہ روایت کرے جس کا مشاہدہ نہ کیا ہو تو یہ روایت مرسل صحابی کہلاتی ہے، جیسے چھوٹے صحابہ مثلاً حضرات حسنین، ابن عباساور ابن زبیرکی روایت۔صحیح بات یہ ہے کہ یہ متصل ہے جب کہ یقین غالب ہو کہ صحابی ہی سے روایت کررہا ہے‘‘۔
 مولانا ظفر احمد تھانویفرماتے ہیں: اما الاجماع: فہو ان الصحابة والتابعین اجمعوا علی قبول المراسیل من العدل ،اما الصحابة فانہم قبلوا اخبار عبد الله بن عباس مع کثرة روایتہ وقد قیل انہ لم یسمع من رسول الله سوی اربعة احادیث لصغر سنہ‘‘۔ ”باقی رہا اجماع: تو صحابہ وتابعین کا عادل شخص کی مرسل کو قبول کرنے پر اجماع ہے،صحابہ کرامؓ نے ابن عباس ؒکی روایات کو بکثرت ہونے کے باوجود قبول کیا، حالانکہ کہا جاتاہے کہ انہوں نے چھوٹی عمر کی وجہ سے براہ راست صرف چار حدیثوں کو رسول خدا سے سنا‘‘۔
اس تفصیل سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے دور میں قبولیت روایت کا مدار اعتماد اور وثوق پر ہی رہا ہے، روایت کا متصل ہونا ضروری نہ تھا۔ لہٰذا جس طرح صحابہ کی عدالت معلوم اور ثابت ہونے کی بنیاد پران کی مرسلات قابل حجت ہیں  بالکل اسی طرح کبارثقہ تابعین کی عدالت و توثیق ثابت ہونے کی بنیاد پران کی مرسلات بھی قابل حجت وقابل استدلال ہیں۔
زبیرعلی زئی صاحب نے اپنے اشکالات میں جن ممکنات کا ذکر کیاہے اگران کی بات کوحق مان لیا جائے تو پھر صحابہ کرامؓ کی مرسل روایات کوبھی ضعیف قرار دینا پڑے گاکیونکہ ممکن ہے کہ صحابیؓ نے حدیث کسی تابعی سے سنی ہواوردو تین لوگ جمع ہوکرصحابیؓ کوحدیث سنائیں اور تینوں ضعیف الحافظ ہوں۔ پتہ نہیں سلسلہ اسناد رسول اﷲﷺتک کتنے واسطوں سے پہنچتاہے۔ اورممکن ہے صحابیؓ کے نزدیک وہ ثقہ ہوں مگردیگرائمہ فن کے ہاں ضعیف ہوں۔
زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین سے گزارش ہے کہ یا تو اپنے ممکنات کے علم کے مطابق تابعین کی روایات کے ساتھ ساتھ صحابہ کرامؓ کی مرسل روایات کوبھی ضعیف تسلیم کرتے ہوئے ائمہ حدیث کی مکمل مخالفت فرمائیں یاپھراپنے ممکنات کے علم کو اپنے تک محدود رکھتےہوئے ہمیں اس علم سے دورہی رکھیں اور عام عوام کو گمراہ کرنے سے بعض آجائیں۔
اعتراض نمبر۳: زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۷پر امام ذہبیؒ اور امام شافعیؒ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ: ’’ابراہیم نخعیؒ اگرعلی ؓاور عبداﷲ(بن مسعودؓ) سے روایت کریں توقبول نہیں کی جائے گی کیونکہ ابراہیم کی ان میں سے کسی ایک سے بھی ملاقات نہیں ہوئی ہے‘‘۔(نورالعینین:ص۱۶۷)
جواب نمبر۳: زبیر علی زئی صاحب اور ان کے متبعین صبح شام لوگوں کو تقلیدچھوڑنے اور دلیل پیش کرنے کا درس دیتے رہتے ہیں لیکن جب ان سے اپنے مؤقف کی دلیل طلب کی جائے تو دلیل بھول کرفوراًتقلیدکرنے لگ جاتے ہیں۔ زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین سے گزارش ہے کہ امام ذہبیؒ اورامام شافعیؒ کی بلا دلیل بات پیش کرنے کے بجائے قرآن و حدیث یا صحابہ کرامؓ کے اقوال سے دلیل پیش کریں یا پھر اپنے مؤقف سے رجوع فرمائیں۔ کیونکہ ثقہ (قابل بھروسہ)تابعین کی خبرکے برحق ہونے کی دلیل ہمیں حضرت ابن عباسؓ کے قول سے ملتی ہے۔
’’فقد روى بن سعد بِإِسْنَاد صَحِيح عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ إِذَا حَدَّثَنَا ثِقَةٌ عَنْ عَلِيٍّ بِفُتْيَا لم نتجاوزها سابعا حَدِيث سعد‘‘۔ ’’حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب کوئی ثقہ (قابل بھروسہ) آدمی ہم سے حضرت علیؓ کا فتوی بیان کرے تو ہم اس سے ذرا بھی پس و پیش نہیں کریں گے‘‘۔ (فتح الباری لابن حجر العسقلانی: جلد نمبر۷،  صفحہ نمبر۷۱، صحیح)
حضرت ابن عباسؓ کاقول اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ حضرت ابراہیم نخعیؒ نے حضرت عبداﷲبن مسعودؓ کے حوالے سےہم تک جوخبرپہنچائی وہ ۱۰۰فیصد درست اور قابل اعتماد ہے کیونکہ حضرت ابراہیم نخعیؒ ایک جلیل القدر تابعی اور نہایت ثقہ راوی ہیں اور ثقہ(قابل اعتماد) شخص کی گواہی جب صحابہ کرامؓ قبول کرنے میں ذرابھی پس و پیش نہیں کرتے تھے تو پھرامام ذہبیؒ اور امام شافعیؒ کے قول کی کیاحیثیت کہ ہم صحابہ کرامؓ کو چھوڑ کران کے اقوال کی پیروی کریں۔
حضرت ابراہیم نخعیؒ کے اقوال سےاستدلال کرنےمیں احناف اکیلے نہیں ہیں بلکہ بڑے بڑے محدثین نے بھی حضرت ابراہیم نخعیؒ کے اقوال کو دلیل کے طور پراپنی صحیحین میں رقم کیاہے جن میں قابل ذکرنام امام بخاریؒ کا ہے۔ امام بخاریؒ کا مذہب ہے کہ جنابت کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز ہے۔ اپنے اس مؤقف کی دلیل میں امام بخاریؒ اپنی صحیح میں سب سے پہلےحضرت ابراہیم نخعیؒ کے قول سے آغاز کرتے ہیں جسے بلاسند ہونے کے باعث حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے تعلیقات بخاری میں رقم کیاہے۔
وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ لاَ بَأْسَ أَنْ تَقْرَأَ الآيَةَ‘‘۔ ’’ابراہیم نے کہاکہ آیت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۱، کتاب الحیض، باب تَقْضِي الْحَائِضُ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلاَّ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ)
حالانکہ حضرت ابراہیم نخعیؒ کا یہ مذہب نہیں ہےجو امام بخاریؒ نے ان سے بلا سند نقل کیا ہے امام بخاریؒ کے استاد ابوبکر بن ابی شیبہؒ نے ابراہیم نخعیؒ سے باسندِ صحیح مذہب مصنف ابن ابی شیبہ میں اس طرح نقل کیا ہے:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: تَقْرَأُ مِمَّا دُونَ الْآيَةِ، وَلَا تَقْرَأُ آيَةً تَامَّةً‘‘۔ ’’حضرت ابراہیم ؒ نے فرمایا کہ قرآن مجید کی پوری آیت نہیں پڑھی جاسکتی البتہ آیت سے کم پڑھی جاسکتی ہے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۱،مَنْ رَخَّصَ لِلْجُنُبِ أَنْ يَقْرَأَ مِنَ الْقُرْآنِ، ص۱۷۶)
جب امام بخاریؒ جیسے جلیل القدرمحدث حضرت ابراہیم نخعیؒ کے قول سے دلیل پکڑتے ہوئے بلاسند اپنی صحیح میں رقم کرسکتے ہیں تو پھر احناف پر کس بات کی پابندی ہے کہ وہ ابراہیم نخعیؒ کی مرسل روایات سے استدلال نہیں کرسکتے جبکہ ان کی مرسل روایات کےقابل حجت ہونے کی تائید امام اعمشؒ، امام یحییٰ بن معینؒ، امام احمدابن حنبلؒ، امام ابو جعفرالطحاویؒ اور علامہ ابن عبدالبرؒجیسے جلیل القدرمحدثین نے کررکھی ہے۔
مندرجہ بالا تحقیقی دلائل سے واضح طور پرثابت ہوگیا کہ حضرت ابراہیم نخعیؒ کی مرسل روایات قابل حجت اور قابل استدلال ہیں اور زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین کے تمام دلائل و اشکالات کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں لہٰذا ثابت ہوگیا کہ احناف کا ترکِ رفع یدین کا دعویٰ بالکل درست اور صحیح سند سے ثابت ہے۔