-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Friday, 11 January 2019

مسئلہ تراویح : بیس رکعات تراویح کی ابتداءاوراس پراُمتِ مسلمہ کا چودہ سوسالہ اجماع

بسم الله الرحمن الرحیم

بیس(۲۰) رکعات تراویح کی ابتداءاوراس پراُمت مسلمہ کا (۱۴۰۰)چودہ سوسالہاتفاق واجماع
رسول اﷲﷺنے رمضان المبارک کی راتوں میں باقاعدہ خاص اہتمام کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھی اورصحابہ کرامؓ نے آپﷺکی امامت میں زمضان المبارک کی ۲۳، ۲۵اور۲۷ویں شب یہ نماز پڑھی۔ مگرآپﷺنے اس خوف سے جماعت سے تراویح پڑھانا ترک کردیا کہ کہیں یہ نمازامت پرفرض نہ ہوجائےاورلوگوں کو یہ نماز گھروں میں پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ کسی صحیح روایت سے یہ بات ثابت نہیں کہ آپ ﷺنے جو تین دن نمازِتراویح پڑھائی وہ کتنی رکعت تھی۔ ہاں البتہ چندضعیف روایات سے پتہ چلتا ہےکہ آپﷺنے جو تین دن نمازِتراویح پڑھائی وہ ۲۰ رکعات تھی۔ جیساکہ مصنف ابن ابی شیبہ، سنن بیہقی اورتاريخ جرجان کی درج ذیل روایات سے پتہ چلتاہے۔
امام ابن أبی شيبة رحمه الله (المتوفى۲۳۵ھ)روایت نقل کرتےہیں: ’’حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ (فِي غَيْرِ جَمَاعَةٍ) عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہما فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺرمضان میں بیس رکعات تراویح اوروترپڑھتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن أبي شيبة:ج۲، ص۳۵۵، رقم الحدیث۷۷۷۵؛ السنن الكبرى للبیہقی: ج۲، ص۴۹۶؛ تاريخ بغداد: ج۱۳، ص۵۰۱؛ التمهيد لابن عبد البر:ج۸، ص۱۱۵؛ التلخيص الحبير فی تخريج أحاديث الرافعی الكبير: ج۲، ص۴۵؛ المعجم الکبیرللطبرانی: ج۱۱، ص ۳۹۳، رقم الحدیث ۱۲۱۰۲؛ واخرجہ ایضا عبدبن حمید فی ’’المنتخب من المسند‘‘؛ ص۲۱۸، رقم الحدیث۶۵۳؛ و ابن ابی ثابت فی ’’الجزء الأول والثاني من حديث ابن أبي ثابت، مخطوط‘‘: ج۱، ص۱۲)
امام يوسف بن إبراهيم السهمی القرشی الجرجانی رحمه الله (المتوفى۴۲۷ھ)روایت نقل کرتےہیں:’’حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْقَصْرِيُّ الشَّيْخُ الصَّالِحُ رَحِمَهُ اللَّهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُحُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحنازِعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَتِيكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النبي صلى اللَّه عليه وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى النَّاسُّ أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَأَوْتَرَ بِثَلاثَةٍ‘‘۔ ’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺرمضان میں ایک رات تشریف لائے اورلوگوں کوچار(فرض)بیس رکعت(تراویح) اورتین وترپڑھائے‘‘۔ (تاريخ جرجان حمزة السهمی: ص۳۱۷، فی نسخۃ ۱۴۲)
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله (المتوفى: ۸۵۲ھ) التلخيص الحبيرمیں امام رافعی رحمه الله کے واسطےسےروایت نقل کرتےہیں کہ: ’’حَدِيثُ: «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - صَلَّى بِالنَّاسِ عِشْرِينَ رَكْعَةً لَيْلَتَيْنِ، فَلَمَّا كَانَ فِي اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ اجْتَمَعَ النَّاسُ فَلَمْ يَخْرُجْ إلَيْهِمْ، ثُمَّ قَالَ مِنْ الْغَدِ: خَشِيت أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ فَلَا تُطِيقُوهَا»۔ مُتَّفَقٌ عَلَى صِحَّتِهِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ دُونَ عَدَدِ الرَّكَعَاتِ‘‘۔ ’’رسول اﷲﷺنے دو رات بیس بیس رکعتیں پڑھائیں۔ جب تیسری رات ہوئی تولوگ جمع ہوئے مگرآپﷺتشریف نہ لائے پھرصبح کوفرمایا: مجھے خیال ہوگیاکہ تم پرفرض ہوجائے گی توتم اس کونبھاءنہ سکوگے‘‘۔ (التلخيص الحبير فی تخريج أحاديث الرافعی الكبير: ج۲، ص۴۵، رقم الحدیث۵۴۰-[۳۹])
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله یہ حدیث نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں: ’’مُتَّفَقٌ عَلَى صِحَّتِهِ‘‘۔ ’’اس کی صحت پرتمام محدثین کااتفاق ہے‘‘۔
امام جلال الدين السيوطی رحمه الله(المتوفى: ۹۱۱ھ) تاريخ الخلفاءمیں امام حاکم رحمه الله سےنقل کرتے ہیں کہ: ’’قال الزهري: استخلف عمر يوم توفي أبو بكر، وهو يوم الثلاثاء لثمانٍ بقين من جمادى الآخرة أخرجه الحاكم، فقام بالأمر أتم قيام وكثرت الفتوح في أيامه ففي سنة أربع عشرة فتحت دمشق ما بين صلح وعنوة، وحمص، وبعلبك صلحًا، والبصرة والأبلة، كلاهما عنوة۔ وفيها جمع عمر الناس على صلاة التراويح، قاله العسكري في الأوائل‘‘۔ ’’امام زہری فرماتے ہیں: آپ (حضرت عمرؓ) کے دورخلافت میں بے حد فتوحات ہوئیں چنانچہ ۱۴ھ؁میں دمشق، صلح اورجنگ سے فتح ہوا، اس کے بعدحمص، بعلبک پربذریعہ صلح قابض ہوئے اوراسی سال بصری اورایلہ فتح ہوئے، اسی سال آپؓ نے لوگوں کوجماعت کے ساتھ تراویح پڑھائی‘‘۔ (تاریخ الخلفاء:  [عربی] ۱۰۷، [اردو] ۳۰۲؛ تاریخ ابن اثیر: ص۱۸۹)
اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کے دورخلافت کے تقریباً ڈھائی سال تک یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا اور لوگ رمضان المبارک میں گھروں اور مسجدوں میں ٹولیوں کی شکل میں نمازِتراویح پڑھاکرتے تھے۔ پھر حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہما خلیفہ ہوئے توان کے دور خلافت میں تقریباً  ۱۴ھ ؁سے نمازِتراویح کا باقاعدہ جماعت کے ساتھ آغازہوااورآپؓ نے حضرات صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں مسجد نبوی میں بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا اوران کے حکم سے بیس (۲۰) رکعات تراویح ہوتی رہی اور تقریباً تمام صحابہ کرامؓ سمیت پوری امت مسلمہ کا اس پراتفاق واجماع ہوگیا اورکسی نے اس کا انکار نہ کیا۔
’’بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ العِلْمِ، وَمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الحَرَمَانِ مَكَّةُ، وَالمَدِينَةُ، وَمَا كَانَ بِهَا مِنْ مَشَاهِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمُهَاجِرِينَ، وَالأَنْصَارِ، وَمُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمِنْبَرِ وَالقَبْرِ‘‘۔ ’’باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان، اورمدینہ میں جو آنحضرتﷺ اور مہاجرین انصارکے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرتﷺ کے نمازگاہ اورمنبراورقبرکابیان‘‘۔ (صحیح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، ج۹، ص۲۷۹)
حافظ ابن حجرعسقلانیؒ عالموں کے اجماع کے باب میں لکھتے ہیں: ’’وَقَالَ مَالِكٌ إِجْمَاعُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ حُجَّةٌ قَالَ وَعِبَارَةُ الْبُخَارِيِّ مُشْعِرَةٌ بِأَنَّ اتِّفَاقَ أَهْلِ الْحَرَمَيْنِ كِلَيْهِمَا إِجْمَاعٌ قُلْتُ لَعَلَّهُ أَرَادَ التَّرْجِيحَ بِهِ لَا دَعْوَى الْإِجْمَاعِ‘‘۔ ’’امام مالکؒ نے اہل مدینہ کااجماع بھی حجت رکھاہے۔ امام بخاریؒ کے کلام سے یہ نکلتاہے کہ اہل مکہ اوراہل مدینہ دونوں کااجماع بھی حجت ہے، امام بخاریؒ کایہ مطلب نہیں ہے کہ اہل مدینہ اوراہل مکہ کااجماع حجت ہے بلکہ ان کامطلب یہ ہے کہ اختلاف کے وقت اس جانب کوترجیح ہوگی جس پراہل مکہ اورمدینہ اتفاق کریں‘‘۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، قَوْلُهُ بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ،ج۱۲، ص۳۰۶)
۱۔ امام محمد بن الحسن الشيبانیؒ (المتوفی: ۱۸۹ھ) فرماتے ہیں: ’’قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالصَّلاةِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ تَطَوُّعًا بِإِمَامٍ، لأَنَّ الْمُسْلِمِينَ قَدْ أَجْمَعُوا عَلَى ذَلِكَ وَرَأَوْهُ حَسَنًا‘‘۔ ’’حضرت عمرؓ نے ابی بن کعبؓ کورمضان میں امام بناکرتراویح پڑھانے کاحکم دیاہے۔ اسی کوہم اختیارکرتے ہیں۔ اس لئے کہ مسلمانوں (صحابہؓ) نے اس (بیس رکعات) پراجماع کیاہے اوراس کوپسندکیاہے اورآنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ مسلمان (صحابہؓ) جسے پسندکریں وہ خداکے نزدیک بھی پسندیدہ ہے‘‘۔ (موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيبانی:  باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل، رقم الحديث ۲۱۴)
۲۔ امام أبوعیسیٰ الترمذیؒ (المتوفی: ۲۷۹ھ) بیس رکعات یا اس سے زائد تراویح پرائمہ کرام کا اجماع بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ: ’’وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ: أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالمَدِينَةِ۔ وَأَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ۔ وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’ تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، بعض وتر سمیت اکتالیس رکعت کے قائل ہیں، اہلِ مدینہ کا یہی قول ہے اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل ہے، اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲، أبواب الصوم، بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، ص۱۵۹)
۳۔ امام أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاسانیؒ (المتوفی: ۵۸۷ھ) لکھتے ہیں: ’’وَالصَّحِيحُ قَوْلُ الْعَامَّةِ لِمَا رُوِيَ أَنَّ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - جَمَعَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي شَهْرِ رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَصَلَّى بِهِمْ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَلَمْ يُنْكِرْ أَحَدٌ عَلَيْهِ فَيَكُونُ إجْمَاعًا مِنْهُمْ عَلَى ذَلِكَ‘‘۔ ’’صحیح عام علماءہی کاقول ہے، اس لئے کہ یہ روایت کی گئی ہے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے اصحاب رسول اﷲﷺکورمضان المبارک میں حضرت ابی بن کعب رضی اﷲعنہ کی امامت میں جمع کیا، انہوں نے ان کوہررات بیس رکعات پڑھائیں اوراس پرکسی نے انکارنہیں کیا۔ پس یہ صحابہ کرامؓ کی طرف سے بیس رکعات  پراجماع ہے‘‘۔ (کتاب بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع: ج۱، ص۲۸۸)
۴۔ امام ابن رشد قرطبی المالکیؒ (المتوفی: ۵۹۵ھ)فرماتے ہیں: ’’وَاخْتَلَفُوا فِي الْمُخْتَارِ مِنْ عَدَدِ الرَّكَعَاتِ الَّتِي يَقُومُ بِهَا النَّاسُ فِي رَمَضَانَ: فَاخْتَارَ مَالِكٌ فِي أَحَدِ قَوْلَيْهِ، وَأَبُو حَنِيفَةَ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَداود: الْقِيَامَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ‘‘۔ ’’رمضان میں کتنی رکعات پڑھنا مختار ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام داؤد ظاہری کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس رکعات تراویح سنت ہے‘‘۔ (بداية المجتهد ونهاية المقتصد: ج۱، ص۲۱۰)
۵۔ فقہ حنبلی کے مشہورامام علامہ موفق الدین ابن قدامہؒ (المتوفی: ۶۲۰ھ) امت مسلمہ کے اس اتفاق کوبیان کرتےہوئے لکھتےہیں: ’’وَالْمُخْتَارُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، رَحِمَهُ اللَّهُ، فِيهَا عِشْرُونَ رَكْعَةً۔ وَبِهَذَا قَالَ الثَّوْرِيُّ، وَأَبُو حَنِيفَةَ، وَالشَّافِعِيُّ۔ أَنَّ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَقَدْ رَوَى الْحَسَنُ أَنَّ عُمَرَ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَرَوَاهُ السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، وَرُوِيَ عَنْهُ مِنْ طُرُقٍ۔ وَرَوَى مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً۔ وَعَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔ وَهَذَا كَالْإِجْمَاعِ۔ وَأَجْمَعَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ فِي عَصْرِهِ، أَوْلَى بِالِاتِّبَاعِ‘‘۔ ’’ امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور سفیان ثوری، ابوحنیفہ اورشافعی بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب عمر فاروق نے صحابہٴ کرام کو ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے، نیز امام احمد ابن حنبل کا استدلال یزید بن رومان وعلی کی روایات سے ہے‘‘۔ ابن قدامہؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ: ’’یہ بمنزلہ اجماع کے ہے‘‘۔ آگےفرماتے ہیں کہ: ’’جس چیز پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ عمل پیرا رہے ہوں، وہی اتباع کے لائق ہے‘‘۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۲، ص۶۰۴)
۶۔ فقہ حنبلی کے دوسرےامام شمس الدین عبدالرحمٰن  ابن قدامہ المقدسیؒ(المتوفی: ۶۸۲ھ) لکھتےہیں: ’’وعددها عشرون ركعة وبه قال الثوري وابو حنيفة والشافعي، وقال مالك: ست وثلاثون، وزعم أنه الأمر القديم وتعلق بفعل أهل المدينة، فإن صالحا مولى التوأمة قال: أدركت الناس يقومون بإحدى وأربعين ركعة يوترون منها بخمس ولنا أن عمر رضي الله عنه لما جمع الناس على أبي بن كعب كان يصلي بهم عشرون ركعة۔ وروى السائب بن يزيد نحوه، وروى مالك عن يزيد بن رومان قال: كان الناس يقومون في زمن عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعة، وعن أبي عبد الرحمن السلمي عن علي رضي الله عنه أنه أمر رجلا يصلي بهم في رمضان عشرين ركعة، وهذا كالإجماع، وأما ما روى صالح فإن صالحا ضعيف، ثم لا يدري من الناس الذين أخبر عنهم وليس ذلك بحجة، ثم لو ثبت أن أهل المدينة كلهم فعلوه لكان ما فعله عمر وعلي وأجمع عليه الصحابة في عصرهم أولى بالاتباع ‘‘۔ ’’اورتراویح کی رکعتوں کی تعداد بیس ہے، یہی بات کہی ہے سفیان ثوری، ابوحنیفہ اورشافعی نےاور مالک کہتےہیں کہ تراویح چھتیس رکعات ہے، اورمالک یہ سمجھتے ہیں کہ یہی اصل قدیم حکم ہے۔ اوریہی اہل مدینہ کے فعل سے متعلق ہے۔ اسلئے کہ صالح جوکہ توامہ کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو پایا ہے کہ قیام کرتے ہیں اکتالیس رکعتوں کے ساتھ جن میں سے پانچ وترپڑھتے ہیں۔ اور ہماری دلیل یہ ہے کہ جب عمر رضی اﷲعنہ نے صحابہٴ کرامؓ کو ابی بن کعب کی امامت پرجمع کیا تھاتو وہ ان کوبیس رکعتیں پڑھاتے تھے، اورسائب بن یزید نے اس طرح کا واقعہ بیان کیاہے۔ اورمالک نے یزید بن رومان سے روایت کیاہےکہ لوگ حضرت عمربن الخطابؓ کے زمانے میں رمضان میں تئیس رکعتوں کے ساتھ قیام کرتے تھے۔ اور ابوعبدالرحمٰن السلمی سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اﷲعنہ نے ایک شخص کوحکم دیاتھا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات پڑھائےاور یہ حکم بمنزلہ اجماع کے ہے۔ البتہ صالح کی روایت کا حکم تو صالح ضعیف ہے۔ پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے بارے میں صالح نے خبردی ہے۔ چنانچہ یہ بات حجت نہیں ہوسکتی۔ پھر اگربالفرض ثابت بھی ہوجائے کہ تمام اہل مدینہ ایسا کرتے تھے توبھی جوکام حضرت عمراورحضرت علی رضی اﷲعنہم نے کیااورجس پرصحابہ کرامؓ نے اپنے زمانے میں اجماع کرلیا تھا، وہی اتباع کے زیادہ لائق ہے‘‘۔ (المغنی الشرح الکبیر: ج۱، ص۷۴۸، برحاشیہ المغنی)
۷۔ شارح مسلم امام نوویؒ(المتوفی: ۶۷۶ھ) لکھتے ہیں: ’’فَصَلَاةُ التَّرَاوِيحِ سُنَّةٌ بِإِجْمَاعِ الْعُلَمَاءِ وَمَذْهَبُنَا أَنَّهَا عِشْرُونَ رَكْعَةً بِعَشْرِ تَسْلِيمَاتٍ وَتَجُوزُ مُنْفَرِدًا وَجَمَاعَةً‘‘۔ ’’علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں، ان کی ادائیگی باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں‘‘۔ (کتاب المجموع شرح المهذب للشیرازی للنووی: ج۳، ص۵۲۶)
۸۔ شارح مسلم امام نوویؒ(المتوفی: ۶۷۶ھ) یہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’اعلم أن صلاة التراويح سُنّة باتفاق العلماء، وهي عشرون ركعة‘‘۔ ’’جان لیں کہ نمارِتراویح باتفاق (اجماع)علماءسنت ہے اوریہ بیس رکعتیں ہیں‘‘۔ (کتاب الاذکارالنوویہ: ص۳۵۵)
۹۔ شیخ الاسلام امام تقی الدین ابن تیمیہ الحرانیؒ(المتوفی: ۷۲۸ھ) فرماتےہیں: ’’فَإِنَّهُ قَدْ ثَبَتَ أَنَّ أبي بْنَ كَعْبٍ كَانَ يَقُومُ بِالنَّاسِ عِشْرِينَ رَكْعَةً فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَيُوتِرُ بِثَلَاثِ. فَرَأَى كَثِيرٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ أَنَّ ذَلِكَ هُوَ السُّنَّةُ؛ لِأَنَّهُ أَقَامَهُ بَيْن الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَلَمْ يُنْكِرْهُ مُنْكِرٌ‘‘۔ ’’یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نےلوگوں (صحابہ)کو قیام رمضان (نماز تراویح)میں بیس رکعات پڑھاتے اورتین رکعات وتر پڑھاتے تھے، اکثرت علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ بیس رکعات ہی سنت ہیں کیوں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اور انصار صحابہ کرام کے درمیان بیس رکعات تراویح پڑھائی اور ان میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا‘‘۔ (مجموعہ فتاویٰ شیخ الاسلام احمد بن تیمیہ: ج۲۳، تَنَازُعُ الْعُلَمَاءِ فِي مِقْدَارِ الْقِيَامِ فِي رَمَضَانَ، ص۱۱۲)
۱۰۔ شیخ الامام علامہ بدرالدین عینیؒ(المتوفی: ۸۵۵ھ) لکھتے ہیں: ’’وَقَالَ ابْن عبد الْبر: وَهُوَ قَول جُمْهُور الْعلمَاء، وَبِه قَالَ الْكُوفِيُّونَ وَالشَّافِعِيّ وَأكْثر الْفُقَهَاء، وَهُوَ الصَّحِيح عَن أبي بن كَعْب من غير خلاف من الصَّحَابَة‘‘۔ ’’علامہ ابن عبدالبرمالکیؒ فرماتے ہیں: بیس رکعات تراویح جمہورعلماءکاقول ہےاوریہی قول اہل کوفہ، امام شافعی اوراکثرفقہاءکرام کاہےاورحضرت ابی ابن کعب سے بھی یہی قول صحت سے مروی ہے، صحابہ میں سےکسی نے بھی اختلاف نہیں کیا‘‘۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۷)
۱۱۔ كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسی المعروف ابن الهمامؒ (المتوفی: ۸۶۱ھ) لکھتے ہیں: ’’لِلصَّحِيحِ! نَعَمْ ثَبَتَتْ الْعِشْرُونَ مِنْ زَمَنِ عُمَرَ فِي الْمُوَطَّإِعَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ "كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً"۔ وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ، قَالَ النَّوَوِيُّ فِي الْخُلَاصَةِ إسْنَادُهُ صَحِيحٌ۔ وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِأَنَّهُ وَقَعَ أَوَّلًا ثُمَّ اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ عَلَى الْعِشْرِينَ فَإِنَّهُ الْمُتَوَارِثُ‘‘۔ ’’سند صحیح سے ثابت ہوچکاہے کہ حضرت عمرؓ کے مبارک دور میں صحابہؓ وغیرہ (تابعین) بیس ۲۰ رکعت پڑھتے تھے جو یزید بن رومان سے مؤطا امام مالک میں مروی ہےاوربیہقی نے حضرت سائب بن یزید سے روایت کیاہےکہ حضرت عمرؓ کے مبارک دور میں ہم بیس ۲۰ رکعت اوروترپڑھتے تھے جس کی سند صحیح ہونے کی تحقیق امام نووی نے خلاصہ میں کی ہے۔ بالآخر بیس رکعت پراتفاق ہوااوریہی متوارث ہے‘‘۔ (فتح القدير للكمال ابن الهمام: ج۱، ص۴۸۵)
۱۲۔ علامہ ابراہیم بن محمد بن ابراہیم حلبیؒ(المتوفی: ۹۵۶ھ) طویل بحث کے بعدلکھتے ہیں کہ: ’’علم من ھذہ المسئلۃ ان التراویح عندنا عشرون رکعۃً بعشر تسلیمات وھو مذھب الجمھور وعند مالک ستۃ وثلثون رکعۃ احتجاجاً بعمل اھل المدینۃ وللجمھور مارواۃٔ البیھقیؒ باسناد صحیح عن السائب ابن یزید قال کانو یقومون علی عھد عمررضی ﷲ عنہ بعشرین رکعۃً وعثمان رضی ﷲ عنہ وعلی رضی ﷲ عنہ مثلہ وھذا، کالاجماع‘‘۔ ’’معلوم ہوا کہ بےشک ہمارے نزدیک تراویح بیس رکعت ہے، دس تسلیمات سے اوریہی جمہورکامذہب ہےاورامام مالکؒ کے نزدیک چھتیس رکعت ہے۔ وہ اہل مدینہ کے تعامل سے استدلال کرتے ہیں اورجمہور کی دلیل وہ روایت ہے جس کوامام بیہقیؒ نے بسند صحیح روایت کیاکہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے دور میں ۲۰ رکعت پڑھتے تھے، نیزحضرت عثمان وعلی رضی اﷲعنہم اجمعین کے دورمیں۔ اورمؤطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے دورمیں لوگ رمضان میں وترسمیت تئیس ۲۳ رکعت پڑھاکرتےتھے اور کتاب المغنی میں حضرت علی رضی اﷲعنہ کے متعلق روایت ہے کہ آپ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ رمضان میں لوگوں کوبیس ۲۰ رکعتیں پڑھائیں۔ یہ مثل اجماع کے ہے‘‘۔ (کبیری: صلوٰۃ تراویح تحت قولہ والصحیح انھم یصلون فرادی، ص۳۸۸، بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ، ج۶، کتاب اصلوٰۃ، مسائل تراویح، ص۱۹۳)
۱۳۔ زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصریؒ(المتوفی: ۹۷۰ھ) لکھتے ہیں: ’’وَهُوَ قَوْلُ الْجُمْهُورِ لِمَا فِي الْمُوَطَّإِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَعَلَيْهِ عَمِلَ النَّاسُ شَرْقًا وَغَرْبًا‘‘۔ ’’تراویح بیس رکعات ہیں یہ اس کی مقدار (یعنی تعداد رکعات) کا بیان ہے اور یہ جمہور کا قول ہے کیونکہ موطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمربن خطاب کے زمانے میں تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے اور اس پر لوگوں کا مشرق سے لے کر مغرب تک (یعنی پوری اسلامی دنیا کا) عمل ہے‘‘۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوری: ج۲، ص۷۱-۷۲)
۱۴۔ نور الدين ابی الحسن الهروی المعروف ملا علی القاریؒ(المتوفی: ۱۰۱۴ھ) لکھتے ہیں کہ: ’’لَكِنْ أَجْمَعَ الصَّحَابَةُ عَلَى أَنَّ التَّرَاوِيحَ عِشْرُونَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’تمام صحابہ کرام رضی اﷲعنہم نے بیس رکعت تراویح ہونے پراجماع کیاہے‘‘۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: ج۳، ص۳۴۶)
۱۵۔ ملا علی القاریؒ(المتوفی: ۱۰۱۴ھ) شرح النقايةمیں یہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’فصار إجماعاً۔ لماروی البیھقی بإسناد صحیح: أنھم کانوا یقیمون علی عھد عمر بعشرین رکعۃ، وعلی عھد عثمان وعلی رضی اللہ عنہم‘‘۔ ’’پس(بیس رکعت) پر اجماع ہوگیا کیونکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے سند صحیح کے ساتھ روایت کی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے، ایسے ہی خلافت عثمان اورخلافت علی رضی اللہ عنہما میں بھی‘‘۔ (فتح باب العناية بشرح النقاية: ج۱، ص۳۴۲)
۱۶۔ شیخ حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی المصریؒ (المتوفی: ۱۰۶۹ھ)  لکھتے ہیں: ’’"وهي عشرون ركعة" بإجماع الصحابة رضي الله عنهم"بعشر تسليمات" كما هو المتوارث ‘‘۔ ’’تراویح اجماع صحابہؓ کے بموجب اس کی بیس ۲۰ رکعتیں ہیں دس سلاموں سے، جیساکہ زمانہ سلف سے سلسلہ واربرابرچلاآرہاہے‘‘۔ (مراقی الفلاح شرح متن نور الإيضاح ونجاۃ الارواح: کتاب الصلاۃ، باب التراویح، ص۱۶۰)
۱۷۔ محمد بن محمد الحسينی الزبيدیؒ(المتوفی: ۱۲۰۵ھ)  لکھتے ہیں: ’’وبالاجماع الذی وقع فی زمن عمررضی ﷲتعالیٰ عنہ أخذ أبوحنیفہ والنووی والشافعی وأحمد والجمھور واختارہ ابن عبدالبر‘‘۔ ’’اورجواجماع حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانہ میں ہوااسی کو امام اعظم ابوحنیفہؒ، امام نوویؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ اورجمہورعلماءنے اپنایااورابن عبدالبرؒنے بھی اسی کواختیارکیا‘‘۔ (إتحاف السادة المتقين بشرح إحياء علوم الدين: ج۳، ص۴۲۲)
۱۸۔ امام محمد بن أحمد بن عرفة الدسوقی المالكیؒ(المتوفی: ۱۲۳۰ھ)  لکھتے ہیں: ’’وَهِيَ (ثَلَاثٌ وَعِشْرُونَ) رَكْعَةً بِالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ كَمَا كَانَ عَلَيْهِ الْعَمَلُ (ثُمَّ جُعِلَتْ) فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ (سِتًّا وَثَلَاثِينَ) بِغَيْرِ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِ لَكِنَّ الَّذِي جَرَى عَلَيْهِ الْعَمَلُ سَلَفًا وَخَلَفًا الْأَوَّلُ‘‘۔ ’’اور تراویح وتر سمیت تئیس رکعتیں ہیں، جیسا کہ اسی کے مطابق (صحابہؓ اورتابعین ؒکا) عمل تھا، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں وتر کے علاوہ چھتیس کردی گئیں، لیکن جس تعداد پر سلف و خلف کا عمل ہمیشہ جاری رہا وہ اوّل ہے(یعنی تئیس رکعات)‘‘۔ (الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشية الدسوقی: ج۱، ص۳۱۵)
۱۹۔ احمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاویؒ (المتوفی: ۱۲۳۱ھ)  لکھتے ہیں: ’’"وهي عشرون ركعة" بإجماع الصحابة رضي الله عنهم"بعشر تسليمات" كما هو المتوارث‘‘۔ ’’تراویح اجماع صحابہؓ کے بموجب اس کی بیس ۲۰ رکعتیں ہیں دس سلاموں سے، جیساکہ زمانہ سلف سے سلسلہ واربرابرچلاآرہاہے‘‘۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإيضاح: کتاب الصلاۃ، باب التراویح، ص۴۱۴)
۲۰۔ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ(المتوفی: ۱۲۳۹ھ)  لکھتے ہیں: ’’من بعد عددبیست وسہ رآ اختیار کروند وبرین عدد اجماع شدہ بود بعداز تحقیق اجماع‘‘۔ ’’(یعنی) صحابہ کرام نے تئیس رکعت (بیس رکعات تراویح اورتین رکعت وتر) اختیارفرمائی اس عددپرصحابہ کااجماع ہوچکاہے‘‘۔ (فتاویٰ عزیزے: ج۱، ص۱۲۰)
۲۱۔ خاتمہ المحققین وسیع النظرعالم علامہ ابن عابدین الشامیؒ(المتوفی: ۱۲۵۲ھ)  لکھتے ہیں: ’’"وهي عشرون ركعة" ھو قول الجمھور، وعلیہ عمل الناس شرقاً وغرباً‘‘۔ ’’بیس رکعت ہی جمہورکاقول ہےاوراسی پرمشرق ومغرت پوری امت کاعمل ہے‘‘۔ (ردالمختارعلیٰ الدر المختار شرح تنویرالأبصاروحاشية ابن عابدين: ج۲، کتاب الصلاۃ، باب الوتروالنوافل، ص۴۹۵)
۲۲۔ مولاناقطب الدین خان محدث دہلویؒ(المتوفی: ۱۲۸۹ھ)  فرماتے ہیں: ’’حضرت عمرؓنے اپنے دور خلافت میں تراویح کی بیس رکعتیں متعین فرمادیں اس کے بعد تمام صحابہؓ کااسی پرعمل رہا، حضرت عثمانؓ اورحضرت علیؓ نے بھی اپنے اپنے زمانہ خلافت میں اس کاانتظام رکھا۔ آنحضرتﷺکاارشاد ہے کہ میری سنت اورمیرے خلفاءِ راشدین کی سنت اپنے اوپرلازم قراردو، اسے اپنے دانتوں سے پکڑو۔ لہٰذا اگرکوئی شخص آنحضرتﷺ کے اس حکم کی موجودگی میں تراویح بیس رکعتوں کے اس لئے قائل نہیں ہوتاکہ ان کا ثبوت قطعی آنحضرتﷺسے نہیں ہے تواس کے بارہ میں سوائے اس کے اورکیاکہاجاسکتاہے کہ وہ منشاءِ نبوت اورحقیقت، سنت کی صریح خلاف ورزی کررہاہے‘‘۔ (مظاہرحق: ج۱، ص۸۲۲)
۲۳۔ غیرمقلدعالم مولاناغلام رسولؒ (المتوفی: ۱۲۹۱ھ) لکھتے ہیں: ’’میں کہتاہوں کہ اس حدیث کے مطابق جس میں آتاہے کہ تم میں سے ہرگز کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے ہاں باپ اوراولاد اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں یہی علامت آنحضرت ﷺسے زیادہ محبت کی ہے کہ ہم آپ کے خلفاءِ راشدینؓ کی سنت کی پیروی بھی کریں اور ’’ فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ‘‘۔ ’’یعنی ان کی سنت کومضبوطی سے پکڑواوراس کو ڈاڑھوں سے مضبوط کرو‘‘ کوآنکھوں کے سامنے رکھیں نہ یہ کہ ہم کم ہمتی کی وجہ سے صرف گیارہ رکعات پراکتفاکرتے ہوئے حضرات صحابہ کرامؓ کے عمل کوبدعت قراردیں اوران کے اجماع پرطعن کریں اورتئیس رکعات پڑھنے والوں پرفعل مشرکین اوراپنے آباؤاجداد کی تقلید کرنے کی چوٹ کریں‘‘۔ (رسالہ تراویح ازحضرت مولاناغلام رسول قلعہ میاں سنگھ، ضلع گوجرانوالہ[اردو]: ص۲۸)
۲۴۔ مشہورغیرمقلد عالم نواب صديق حسن خان القِنَّوجی(المتوفی: ۱۳۰۷ھ)  لکھتے ہیں: ’’وفی سنن البیھقی باسناد صحیح کما قال ابن عراقی فی شرح التقریب عن السائب بن یزید رضی ﷲ عنہ قال: کانو ایقومون علی عھد عمر بن الخطاب فی شہر بعشرین رکعۃً وفی الموطا عن یزید بن رومان قال: کان الناس یقومون فی زمن عمر رضی ﷲ عنہ بثلاث وعشرین، کانوا یقومون بإحدی عشرۃ ثم قاموا بعشرین وأوتروا بثلاث۔ وقد عدوا ماوقع فی زمن عمررضی ﷲعنہ کالاجماع‘‘۔ ’’سنن بیہقی میں صحیح سندسےروایت ہےجیساکہ امام ابن عراقی شرح تقریب میں فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اﷲعنہ کے زمانہ میں اپنے شہرمیں ۲۰ رکعت پڑھتے تھے، اورمؤطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے دورمیں لوگ رمضان میں وترسمیت تئیس ۲۳ رکعت پڑھاکرتےتھے۔ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے دورسے جوطریقہ بیس رکعات کا ہوااس کوعلماءنے اجماع کے مثل شمارکیا‘‘۔ (عون الباری لحل أدلة البخاری: ج۳، کتاب صلاۃالتراویح، ص۸۶۱)
۲۵۔ شیخ الہند علامہ انورشاہ کشمیریؒ (المتوفی: ۱۳۵۲ھ) فرماتے ہیں: ’’أي التراويح، لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة في التراويح، وإليه جمهور الصحابة رضوان الله عنهم، وقال مالك بن أنس: بستة وثلاثين ركعة فإن تعامل أهل المدينة أنهم كانوا يركعون أربع ركعات انفراداً في الترويحة، وأما أهل مكة فكانوا يطوفون بالبيت في الترويحات‘‘۔ ’’ائمہ اربعہ (یعنی چاروں اماموں)میں سے کوئی بهی بیس رکعات سے کم تراویح کا قائل نہیں ہے اور جمہور صحابه کرام کا عمل بهی اسی پر ہے۔ امام مالکؒ بیس سے بھی زیادہ چھتیس رکعات کے قائل ہیں۔ امام مالک کے مسلک کے بموجب جماعت کے ساتھ تراویح کی بیس رکعتیں ہی پڑھی جائیں گی مگراہل مدینہ کاتعامل اورعام طریقہ یہ تھاکہ وہ ترویحہ میں یعنی چار رکعت پڑھ کرامام صاحب بیٹھتے تھے تو اس وقفہ میں چاررکعت اورپڑھ لیاکرتے تھے۔ جوحضرات مکہ معظمہ میں حرم شریف میں تراویح پڑھتے تھے، وہ اس ترویحہ کے وقفہ میں خانہ کعبہ کا طواف کرلیا کرتے تھے۔ اہل مدینہ خانہ کعبہ کاطواف نہیں کرسکتے تھے تووہ اس کا تدارک اس طرح کرتے تھے کہ چار ترویحوں میں سولہ رکعتیں پڑھ لیاکرتے تھے‘‘۔ آگے فرماتے ہیں: ’’أقول: إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث: «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ» فيكون فعل الفاروق الأعظم أيضاً سنة‘‘۔ ’’میں کہتا ہوں کہ خلفائے راشدین کی سنت بھی شریعت ہی کی سنت شمار ہوگی کیونکہ اصول حدیث میں ہے کہ سنت سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء کا طریقہ ہے اورصحیح حدیث میں آنحضرت ﷺکا ارشاد وارد ہے کہ «تم  میری سنت اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو» تو اس کی رو سے فاروق اعظم کا فعل بھی سنت ہوگا اوران سب کے بعد کیا بیس رکعت کا اتصال صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم تک ضروری ہے یا پھر فعل عمررضی اللہ عنہ کافی ہے اور اسےصاحب شریعت تک پہنچانےکا مطالبہ نہیں کیا جائے گا اسی بیس رکعات تراویح پر ہی عمل برقرار رہا ہے‘‘۔ شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں: ’’ففي التاتار خانية: سأل أبو يوسف أبا حنيفة: أن إعلان عمر بعشرين ركعة هل كان له عهد منه؟ قال أبو حنيفة ما كان عمر مبتدعاً، أي لعله يكون له عهد فدل على أن عشرين ركعة لا بد من أن يكون لها أصل منه وإن لم يبلغنا بالإسناد القوي، وعندي أنه يمكن أن يكون عمر نقل عشراً إلى عشرين بتخفيف القراءة وتضعيف الركعات‘‘۔ ’’تاتارخانیہ میں ہے کہ امام ابویوسف نے امام صاحب سے پوچھا کہ حضرت عمر کا بیس رکعت تراویح کا فیصلہ پیغمبر سے کسی خاص وصیت یا حکم (عہد) کے سبب تھا ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ عمر بدعتی نہیں تھا یعنی امام صاحب کا مطلب یہ تھا کہ ہو سکتا ہے پیغمبر کی طرف سے ان کو یہ حکم تھا پس بیس رکعت کی ضرور کوئی اصل پیغمبر سے موجود ہے اگر چہ ہمیں صحیح اسناد سے نہیں پہنچ سکا ہے‘‘۔ (العرف الشذی شرح سنن الترمذی: ج۲، ص۲۰۸-۲۰۹)
امام مالکؒ اوراہل مدینہ کاچھتیس رکعات تراویح پڑھنے کی اصل وجہ کیاتھی؟
۱۔ امام موفق الدین ابن قدامہؒ (المتوفی: ۶۲۰ھ) فرماتے ہیں: ’’قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إنَّمَا فَعَلَ هَذَا أَهْلُ الْمَدِينَةِ لِأَنَّهُمْ أَرَادُوا مُسَاوَاةَ أَهْلِ مَكَّةَ، فَإِنَّ أَهْلَ مَكَّةَ يَطُوفُونَ سَبْعًا بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ، فَجَعَلَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مَكَانَ كُلِّ سَبْعٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَمَا كَانَ عَلَيْهِ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَوْلَى وَأَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ‘‘۔ ’’بعض اہل علم کابیان ہے کہ اہل مدینہ نے یہ عمل (یعنی سولہ رکعات اضافی پڑھنے کا) اس لئے کیاکہ انہوں نے اہل مکہ کی برابری کرنی چاہی، کیونکہ اہل مکہ ہرترویحہ کے درمیان (۷)سات چکر(یعنی طواف کعبہ) لگایاکرتے تھے، پس اہل مدینہ ہرچکرکی جگہ چاررکعت نفل پڑھ لیاکرتے تھے‘‘۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۲، ص۶۰۴)
۲۔ شارح مسلم امام أبو زكريا محيی الدين يحيى بن شرف النوویؒ(المتوفی: ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں: ’’وَأَمَّا مَا ذَكَرُوهُ مِنْ فِعْلِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ أَصْحَابُنَا سَبَبُهُ أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ كَانُوا يَطُوفُونَ بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ طَوَافًا وَيُصَلُّونَ رَكْعَتَيْنِ وَلَا يَطُوفُونَ بَعْدَ التَّرْوِيحَةِ الْخَامِسَةِ فَأَرَادَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مُسَاوَاتَهُمْ فَجَعَلُوا مَكَانَ كُلِّ طَوَافٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَزَادُوا سِتَّ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَأَوْتَرُوا بِثَلَاثٍ فَصَارَ الْمَجْمُوعُ تِسْعًا وَثَلَاثِينَ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ‘‘۔ ’’امام مالکؒ اوردیگراہل مدینہ کاچھتیس رکعات پڑھنے کاسبب یہ ہے کہ اہل مکہ ہردوترویحوں (یعنی چاررکعت)کے درمیان کعبۃ اﷲ کاطواف کرتے تھے جبکہ پانچویں ترویحہ کے بعدطواف نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا اہل مدینہ نے ان کے ساتھ برابری کےلئے ہرطواف کی جگہ چاررکعت (نفل) زیادہ پڑھنامقررکرلیااورسولہ رکعات کااضافہ کرلیااورتین رکعت وترپڑھتے تھے‘‘۔ (کتاب المجموع شرح المهذب للشیرازی للنووی: ج۳، ص۵۲۷)
۳۔ شیخ الامام علامہ بدرالدین عینیؒ(المتوفی: ۸۵۵ھ) فرماتے ہیں: ’’وَالْجَوَاب عَمَّا قَالَه مَالك أَن أهل مَكَّة كَانُوا يطوفون بَين كل ترويحتين وَيصلونَ رَكْعَتي الطّواف وَلَا يطوفون بعد الترويحة الْخَامِسَة فَأَرَادَ أهل الْمَدِينَة مساواتهم فَجعلُوا مَكَان كل طواف أَربع رَكْعَات فزادوا سِتّ عشرَة رَكْعَة وَمَا كَانَ عَلَيْهِ أَصْحَاب رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - أَحَق وَأولى أَن يتبع‘‘۔ ’’امام مالکؒ اوردیگراہل مدینہ کاچھتیس رکعات پڑھنے کاجواب یہ ہے کہ اہل مکہ ہرترویحہ کے درمیان وقفہ میں طواف کرتے تھے اورطواف کی دورکعت نفل بھی پڑھتے تھےلیکن پانچویں ترویحہ کے درمیان طواف نہیں کرتےتھے۔ پس اہل مدینہ ان کی برابری کے خیال سے ہرطواف کی جگہ چاررکعت نفل اداکیاکرتےتھے۔ اس طرح انہوں نے سولہ رکعات کااضافہ کرلیا‘‘۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۸؛ البناية شرح الهداية: ج۲، ص۵۵۱)
۴۔ امام جلال الدين السيوطیؒ(المتوفی: ۹۱۱ھ) بھی بالکل یہی بات بیان فرماتے ہیں: ’’أَنَّهَا تُسْتَحَبُّ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ سِتًّا وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً تَشْبِيهًا بِأَهْلِ مَكَّةَ، حَيْثُ كَانُوا يَطُوفُونَ بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ طَوَافًا وَيُصَلُّونَ رَكْعَتَيْهِ وَلَا يَطُوفُونَ بَعْدَ الْخَامِسَةِ، فَأَرَادَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مُسَاوَاتَهُمْ فَجَعَلُوا مَكَانَ كُلِّ طَوَافٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَلَوْ ثَبَتَ عَدَدُهَا بِالنَّصِّ لَمْ تَجُزِ الزِّيَادَةُ عَلَيْهِ، وَلَأَهْلُ الْمَدِينَةِ وَالصَّدْرُ الْأَوَّلُ كَانُوا أَوْرَعَ مِنْ ذَلِكَ‘‘۔ ’’اہل مدینہ چھتیس رکعات اس لئے پڑھاکرتےتھے کہ اہل مکہ کی مشابہت ہوجائے کیونکہ اہل مکہ ہردوترویحہ کے درمیان وقفہ میں طواف کرتے تھے اورطواف کی دورکعت نفل بھی پڑھتے تھےلیکن پانچویں ترویحہ کے درمیان طواف نہیں کرتےتھےتواہل مدینہ ان کی برابری کے خیال سے ہرطواف کی جگہ چاررکعت نفل اداکیاکرتےتھے۔ اس طرح انہوں نے سولہ رکعات کااضافہ کیا‘‘۔ (المصابيح فی صلاة التراويح: ص۳۲)
۵۔ امام أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلانی ؒ(المتوفی: ۹۲۳ھ) فرماتے ہیں: ’’إن عليه العمل بالمدينة وقد قال المالكية كانت ثلاثًا وعشرين ثم جعلت تسعًا وثلاثين أي بالشفع والوتر فيهما۔۔۔ وإنما فعل أهل المدينة هذا لأنهم أرادوا مساواة أهل مكة فإنهم كانوا يطوفون سبعًا بين كل ترويحتين فجعل أهل المدينة مكان كل سبع أربع ركعات‘‘۔ ’’اہل مکہ کہتے ہیں کہ تراویح وترکے ساتھ تئیس رکعات ہی تھیں، پھرسولہ رکعات (بطورنفل بڑھاکر) انتالیس رکعات (یعنی چھتیس رکعات تراویح اورتین رکعت وتر)کردی گئی‘‘۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام القسطلانیؒ فرماتے ہیں: ’’مکہ کے لوگ دو ترویحوں کے درمیان خانہ کعبہ کاطواف کیاکرتےتھےتواہل مدینہ نے ثواب میں ان کی برابری کرنے کے خیال سے ہرطواف کےبدلے میں چاررکعت نفل کااضافہ کرلیا۔ چنانچہ اہل مکہ طواف کرتے تھےتواہل مدینہ نے سولہ رکعات اضافی ادا کرلیاکرتےتھے‘‘۔ (إرشاد الساری لشرح صحيح البخاری: ج۳، ص۴۲۶)
۶۔ شیخ الہند مولانا انورشاہ کشمیریؒ (المتوفی: ۱۳۵۲ھ) فرماتے ہیں: ’’أي التراويح، لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة في التراويح، وإليه جمهور الصحابة رضوان الله عنهم، وقال مالك بن أنس: بستة وثلاثين ركعة فإن تعامل أهل المدينة أنهم كانوا يركعون أربع ركعات انفراداً في الترويحة، وأما أهل مكة فكانوا يطوفون بالبيت في الترويحات‘‘۔ ’’ائمہ اربعہ (یعنی چاروں اماموں)میں سے کوئی بهی بیس رکعات سے کم تراویح کا قائل نہیں ہے اور جمہور صحابه کرام کا عمل بهی اسی پر ہے۔ امام مالکؒ بیس سے بھی زیادہ چھتیس رکعات کے قائل ہیں۔ امام مالک کے مسلک کے بموجب جماعت کے ساتھ تراویح کی بیس رکعتیں ہی پڑھی جائیں گی مگراہل مدینہ کاتعامل اورعام طریقہ یہ تھاکہ وہ ترویحہ میں یعنی چار رکعت پڑھ کرامام صاحب بیٹھتے تھے تو اس وقفہ میں چاررکعت اورپڑھ لیاکرتے تھے۔ جوحضرات مکہ معظمہ میں حرم شریف میں تراویح پڑھتے تھے، وہ اس ترویحہ کے وقفہ میں خانہ کعبہ کا طواف کرلیا کرتے تھے۔ اہل مدینہ خانہ کعبہ کاطواف نہیں کرسکتے تھے تووہ اس کا تدارک اس طرح کرتے تھے کہ چار ترویحوں میں سولہ رکعتیں پڑھ لیاکرتے تھے‘‘۔ (العرف الشذی شرح سنن الترمذی: ج۲، ص۲۰۸)
مندرجہ بالا ائمہ کرام کے اقوال سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اہل مدینہ بھی جماعت سے بیس رکعات تراویح ہی پڑھاکرتے تھےاورسولہ رکعات الگ سے انفرادی طورپرنفل نمازکی نیت سے پڑھاکرتےتھےجس کی وجہ اہل مکہ سے ثواب میں برابری کاجذبہ تھا۔ چنانچہ اہل مدینہ کے عمل کی وجہ سے امام مالکؒ کی طرف چھتیس رکعات تراویح کاقول منسوب ہوگیا۔ لہٰذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ ائمہ ثلاثہ (یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ اورامام احمدبن حنبلؒ) کی طرح امام مالکؒ کےنزدیک بھی تراویح کی صحیح تعدادبیس رکعات ہی ہیں اوربقہ سوالہ رکعات کادرجہ نوافل کاہے۔
بیس رکعات تراویح  پراجماع کی مخالفت میں غیرمقلدعالم زبیرعلی زئی صاحب کےجھوٹ
زبیرعلی زئی صاحب کاپہلاجھوٹ اوراس کا جواب
بیس رکعات تراویح پرامت مسلمہ کے تقریباً ۱۴۰۰چودہ سوسالہ اجماع پرمندرجہ بالا جلیل القدرائمہ کرام کے پیش کردہ اقوال کے خلاف فرقہ غیرمقلدین کے ایک نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب تعدادرکعات قیام رمضان کےصفحہ نمبر۸۴پرلکھتے ہیں کہ:  ’’بیس تراویح پراجماع کادعویٰ باطل ہے‘‘۔ اوراپنے اس جھوٹے دعوےٰ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے امام مالکؒ کاقول پیش کرتے ہیں کہ: ’’امام مالک فرماتے ہیں: میں اپنے لئے قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعتیں اختیارکرتاہوں، اسی پرعمربن الخطابؓ نے لوگوں کوجمع کیاتھااوریہی رسول ا ﷲﷺکی نمازہے، مجھے پتانہیں کہ لوگوں نے یہ بہت سی رکعتیں کہاں سےنکالی ہیں؟ اسے ابن مغیث مالکی نے ذکرکیاہے‘‘۔ (کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۰، دوسرا نسخہ تصنیف عبدالحق اشبیلی[المتوفی: ۵۸۱ھ]بحوالہ تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۴)
زبیرعلی زئی صاحب کی اس کھوکھلی اوربے بنیاددلیل پرہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ موصوف عبدالحق اشبیلیؒ(المتوفی: ۵۸۱ھ)اورابن مغیث القرطبیؒ(المتوفی: ۴۲۹ھ) کے درمیان ملاقات ثابت کریں اورساتھ ہی ابن مغیث القرطبیؒ(المتوفی: ۴۲۹ھ)اورامام مالکؒ(المتوفی: ۱۷۹ھ)کی بھی آپس میں ملاقات ثابت کرکے دکھائیں۔ کیونکہ امام مالکؒ وفات اورابن مغیثؒ کی پیدائش کےدرمیان تقریباً۱۵۹ سال کافاصلہ ہے اورابن مغیثؒ کی وفات اورعبدالحق اشبیلیؒ کی پیدائش کے درمیان تقریباً۱۷۶ سالوں کا فاصلہ ہے لہٰذا ان تینوں کا آپس میں سماع ثابت نہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب بیس رکعات تراویح پرجلیل القدرتابعین فشتیربن شکل، ابن ابی ملیکہ، حارث الھمدانی، عطاءبن ابی رباح، ابوالبختری، سعیدبن ابی الحسن البصری جوالحسن کے بھائی ہیں، عبدالرحمٰن ابن ابی بکراورعمران العبدی کی بیان کردہ روایات کو منقطع کہہ کرضعیف قراردیدتے ہیں، حالانکہ ان تمام ثقہ تابعین کازمانہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانے سےصرف چندسالوں کے فاصلے پرہےاوراس زمانے میں صحابہ کرامؓ بکثرت موجودتھے، اس کے باوجودبھی تابعین کی بیان کردہ روایات زبیرعلی زئی صاحب کے نزدیک منقطع ہیں اورابن مغیث ؒاورعبدالحق اشبیلیؒ کے درمیان دیڑھ  سو سالوں سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہونے کے باوجود بھی امام مالکؒ کاقول ان کے نزدیک صحیح ہے۔ زبیرعلی زئی صاحب کے اس باطل اوردوہرے اصول سے ہی قارئین کواس بات کابخوبی اندازہ ہوگیاہوگاکہ فرقہ غیرمقلدین کے شیوخ اپنے باطل فرقے کو حق پرثابت کرنے کے لئے کیسی کیسی چالبازیاں اختیارکرتےہیں تاکہ عام اورلاعلم مسلمانوں کو بیوقوف بناسکیں۔
زبیرعلی زئی صاحب کادوسرادجل وفریب یہ ہے کہ موصوف نے عبدالحق اشبیلیؒ کی کتاب التہجد سے امام مالکؒ کا پہلاقول تو بیان کردیالیکن اسی کے نیچے امام مالکؒ کے ثقہ مامون شاگردامام ابن القاسمؒ سے مروی امام مالکؒ کا دوسرا قول حذف کردیا، تاکہ عام اورلاعلم مسلمانوں کوان کے مکروفریب کاعلم نہ ہوسکے۔
عبدالحق اشبیلیؒ کتاب التہجدمیں لکھتے ہیں: ’’وَ قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ: کرہ مالک رحمہ ﷲ تعالیٰ أن ینقص الناس من عدد الرکوع الذی جری نہ العمل فی مسجد رسول ﷲ ﷺ وھی تسع وثلاثون رکعۃ بالوتر، والوتر ثلاثً، واختار ھو لنفسہ احدی عشرۃ رکعۃ‘‘۔ ’’امام ابن القاسمؒ فرماتے ہیں کہ: امام مالکؒ نےناپسند کیاکہ رسول اﷲﷺکی مسجد (یعنی مسجدنبوی) میں لوگوں کارکوع کی تعداد میں جوعمل چلاآرہاہے اس میں کمی کریں اوروہ وترکے ساتھ انتالیس رکعات ہیں، اوراس میں تین رکعات وترہے، اورخود اپنے لئے گیارہ رکعات اختیارکیا‘‘۔ (کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۱)
عبدالحق اشبیلیؒ امام مالکؒ کے قول کے بعدلکھتے ہیں: ’’ویروی أن الناس اشتد علیھم طول القیام فشکوا ذلک الی عمر بن الخطاب، قأمر القارئین أن یُخففا من طول القیام ویزیدا فی عدد الرکوع، فکانا یقومان بثلاث وعشرین رکعۃ، ثم شکوا فنقصوا من طول القیام وزیدا فی الرکوع حتیٰ أتموا ستاً وثلاثین، والوتر ثلاث، فاستقر الأمر علی ھذا‘‘۔ ’’اوریہ روایت کیاگیاہے کہ لوگوں پرگراں تھا قیام کا لمباہوناجس کی وجہ سےانہوں نے حضرت عمررضی اﷲعنہ سے اس کی شکایت کی توحضرت عمررضی اﷲعنہ نے قرأت کرنے والوں (یعنی تراویح پڑھانے والوں) کوحکم دیاکہ وہ قرأت کے لمباہونے میں کمی کریں اوررکعات کی تعداد بڑھادیں، لہٰذا جودوامام تھے انہوں نےتئیس رکعات کے ساتھ قیام شروع کردیا، لوگوں نےپھرسےشکایت کی تو پھرایسی صورت میں انہوں نے قیام کے لمبا ہونے کومزید کم کیااوررکعات کی تعدادمیں مزید اضافہ کیاپھر اس کو انتالیس رکعات پرتمام کیا، ان میں تین رکعات وترکی تھیں، اب اسی پرعمل چلاآرہاہے‘‘۔ (کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۲)
عبدالحق اشبیلیؒ یہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’وکان علی بن ابی طالب رضی ﷲ عنہ یؤم الناس فی رمضان یعنی فی القیام، واختار أحمد بن حنبل الصلاۃ مع الناس فی قیام رمضان لقول النبیﷺ: اذا قام الرجل مع الأمام حتیٰ یصلی کتب لہ بقیۃ لیلۃ، وکذلک اللیث بن سعد، ویحییٰ بن سعد، وأبو البختری، وزاذان‘‘۔ ’’حضرت علی رضی اﷲعنہ رمضان میں لوگوں کی امامت کیاکرتے تھےیعنی کہ تراویح میں، امام احمدبن حنبلؒ نے بھی یہی پسند کیا ہے کہ تراویح لوگوں کے ساتھ پڑھیں، اس کی وجہ نبیﷺکایہ فرمان ہے کہ جب کوئی آدمی امام کے ساتھ کھڑاہوتاہےیہاں تک کے اس کےساتھ نماز مکمل کرلےتواس کے لئے پوری رات عبادت کاثواب لکھاجاتاہے، اوریہی بات لیث بن سعد، یحییٰ بن سعید، ابوالبختری اورزاذان کے نزدیک ہے‘‘۔ (کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۳)
زبیرعلی زئی صاحب اوران کے متبعین سے گزارش ہے کہ وہ عبدالحق اشبیلیؒ کی نقل کردہ تمام باتوں کو قبول فرمائیں، یہ کیاکہ اپنے مطلب کی ایک بات توعوام الناس میں بیان کردی اوراپنے مؤقف کے خلاف جانے والی بقیہ تین باتوں کوحذف کردیا۔
اسی طرح فقہ مالکی کی سب سے معتبرکتاب المدونۃ الکبریٰ میں ہےکہ: ’’قَالَ مَالِكٌ: بَعَثَ إلَيَّ الْأَمِيرُ وَأَرَادَ أَنْ يُنْقِصَ مِنْ قِيَامِ رَمَضَانَ الَّذِي كَانَ يَقُومُهُ النَّاسُ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ: وَهُوَ تِسْعَةٌ وَثَلَاثُونَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ سِتٌّ وَثَلَاثُونَ رَكْعَةً وَالْوِتْرُ ثَلَاثٌ‘‘۔ ’’امام مالک فرماتے ہیں کہ امیرنے مجھے حکم دیاکہ مدینہ میں لوگ  جو تراویح پڑھاکرتے ہیں اس میں کچھ کمی کی جائے۔ ابن قاسم فرماتے ہیں کہ وہ وترسمیت انتالیس رکعات ہیں جن میں چھتیس رکعات تراویح اورتین وترکے ہیں‘‘۔ (المدونة الكبرى: ج۱، ص ۲۸۷)
اسی طرح امام مالکؒ کے سب سے قریبی اورمعتبرثقہ شاگرد ابن وھبؒ فرماتے ہیں کہ: ’’قَالَ ابْنُ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ: لَمْ أُدْرِكْ النَّاسَ إلَّا وَهُمْ يَقُومُونَ تِسْعَةً وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً يُوتِرُونَ مِنْهَا بِثَلَاثٍ‘‘۔ ’’نافع عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں لوگوں کونہیں پایا سوائے اس کے کہ وہ انتالیس رکعات پڑھتے تھےجن میں تین رکعت وترکی ہوتی تھیں(یعنی چھتیس رکعات تراویح)‘‘۔ (المدونة الكبرى: ج۱، ص ۲۸۸)
زبیرعلی زئی صاحب یہاں ایک اورجھوٹ اوربہتان لگاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امام مالک سے ابن القاسم کانقلِ قول: مرودوہے۔ (دیکھئے کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی: ص۵۳۴)‘‘۔ (تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۵)
زبیرعلی زئی صاحب کے اس مکروفریب اورکذب بیانی پرسب سے پہلےہم انہیں اِن ہی کے قلم سے منہ توڑالزامی جواب دیتے ہیں۔ زبیرعلی زئی صاحب نے جنوری ۲۰۰۹ میں مؤطا امام مالک کا اردوترجمہ شایع کیاجس پرکتاب کا عنوان ان الفاظ میں رکھا ’’مؤطا امام مالک روایۃ ابن القاسم‘‘۔ اب حیرت انگیزبات یہ ہے کہ اگر بقول زبیرعلی زئی صاحب کے امام ملکؒ سے ابن القاسمؒ کا نقل قول مردود ہے تو پھر انہوں مؤطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی تخریج وتشریح کرکےتمام مردوداقوال جمع کیوں کیئے؟
اس الزامی  جواب کے بعدہم زئی صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی کی وہ عبارت نقل کردیں جس میں ابن القاسمؒ کےقول کومرودکہاگیاہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ زبیرعلی زئی صاحب اوران کے متبعین قیامت تک یہ عبارت پیش نہیں کرسکتےکیونکہ ابن القاسمؒ کے متعلق کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی میں ایسی کوئی بھی بات لکھی ہی نہیں ہے۔ زبیرعلی زئی صاحب کے اس جھوٹ کو واضح کرنے کے لئے ہم انہیں کے پیش کردہ کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی کی اصل کتاب کے اسی صفحہ نمبر۵۳۴کاحوالہ پیش کیئے دیتے ہیں تاکہ قارئین کو زبیرعلی زئی صاحب کی علمی حیثیت، کذب بیانیوں اور بہتان تراشیوں کاصحیح علم ہوسکے۔
زبیرعلی زئی صاحب نے یہاں بھی انتہائی کذب بیانی کامظاہرہ کرتے ہوئے امام مالکؒ کےبراہِ راست ثقہ مامون شاگرامام ابن القاسمؒ (المتوفی: ۱۹۲ھ) پراتنی بڑی تہمت لگائی ہے کہ جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ امام مالکؒ سے مروی سب سے معتبرروایات وہی سمجھی جاتی ہیں جنہیں ابن وھبؒ یاابن القاسمؒ نے روایت کیاہو۔ زبیرعلی زئی کے اس جھوٹ اوربہتان کے جواب میں ہم ان ہی کی تحریج وتشریح کردہ کتاب مؤطا امام مالک روایۃ ابن القاسم میں رقم جلیل القدرائمہ محدثین کے حوالوں سے امام ابن القاسمؒ کی تائید پیش کیئے دیتے ہیں۔
۱۔ امام بخاریؒ نے بذریعہ سعید بن تلید آپ سے روایت بیان کی ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری: ۴۶۹۴)
۲۔ امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں: ’’قال أحمد بن حنبل: عبد الرحمن بن القاسم [ثقة قلت ثقة؟ قال ثقة ثقة۔ سألت أبي عن عبد الرحمن بن القاسم - ۲] فقال ثقة‘‘۔ ’’ثقہ ہیں‘‘۔ (الجرح والتعدیل: ج۵، ص۲۷۹)
۳۔ امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں: ’’قال الدارقطني: ابن القاسم صاحب مالك من كبار المصريين وفقهائهم‘‘۔ ’’ابن القاسم (امام) مالک کے اصحاب میں مصرکے کبارعلماءاورفقہاءمیں سے ہیں‘‘۔ (ترتيب المدارك وتقريب المسالك: ج۳، ص۲۴۵)
۴۔ امام ابن معینؒ فرماتے ہیں: ’’وقال ابن معين هوثقة‘‘۔ ’’ثقہ سچے آدمی تھے‘‘۔ (سوالات ابن الجنید: ص۶۶۴؛ ترتيب المدارك وتقريب المسالك: ج۳، ص۲۴۵)
۵۔ امام نسائیؒ فرماتے ہیں: ’’قَالَ النَّسَائِيُّ: ثِقَةٌ، مَأْمُوْنٌ رجل صالح سبحان الله ما أحسن حديثه وأصحه عن مالك ليس يختلف في كلمة ولم يرو الموطأ عن مالك أثبت منه وليس أحد من أصحاب مالك عندي مثله قيل له فأشهب قال ولاأشهب ولاغيره وهو عجب من العجب في الفضل والزهد وصحة الرواية وحسن الدراية وحسن الحديث‘‘۔ ’’ثقہ سچے آدمی تھے‘‘۔ (منهج الإمام النسائی فی الجرح والتعديل: ج۱، ص۲۰۲۲، رقم ۲۵۶)
۶۔ امام حاکمؒ فرماتے ہیں: ’’وقال الحاكم أبوعبد الله هوثقة مأمون‘‘۔ ’’امام حاکم نے بھی انہیں ثقہ سچے آدمی کہا‘‘۔
۷۔ امام ابوزرعہ الرازیؒ فرماتے ہیں: ’’وقال أبوزرعة هوثقة رجل صالح وكان سحنون يقول عليكم بالمدونة فإنها كلام رجل صالح وروايته أفرغ الرجال فيها عقولهم وشرحوها وبينوها‘‘۔ ’’ثقہ سچے آدمی تھے۔ لوگ عبدالرحمٰن بن القاسم کے (امام) ملک سے مسائل میں کلام کرتے ہیں‘‘۔ (الجرح والتعدیل: ج۵، ص۲۷۹)
۸۔ حافظ ابن حبانؒ نے انہیں ثقہ راویوں میں ذکرکیاہے۔ (الثقات لابن حبان: ج۸، ص۳۷۴)
۹۔ أبو يعلى الخليلی القزوينیؒ (المتوفی: ۴۴۶ھ) فرماتے ہیں: ’’وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ مِمَّنْ يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ، رَوَى الْمُوَطَّأُ عَنْ مَالِكٍ، رَوَى عَنْهُ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، وَعِيسَى بْنُ مَثْرُودٍ، وَكَانَ يُحْسِنُ الرِّوَايَةَ، وَرَوَى عَنْ مَالِكٍ مِنْ مَسَائِلِ الْفِقْهِ مَا لَا يُوجَدُ عِنْدَ غَيْرِهِ مِنْ أَصْحَابِ مَالِكٍ‘‘۔ ’’ان کی حدیث سے حجت پکڑی جاتی ہے، انہوں نے (امام) مالک سے موطأروایت کی۔۔۔ آپ اچھی رواتی کرتےتھےاورآپ نے مالک سے ایسے مسائلِ فقہ بیان کیئے ہیں جوان کے دوسرےشاگردوں کے پاس نہیں ہیں‘‘۔ (الإرشاد فی معرفة علماء الحديث للخليلی: ص۴۰۶)
۱۰۔ امام ذہبیؒ فرماتےہیں: ’’صدوق‘‘۔ ’’سچےآدمی تھے‘‘۔ (الکاشف: ج۲، ص۱۲۰، ت۳۳۳۳؛ سيرأعلام النبلاء: ج۹، ص۱۲۱)
۱۱۔ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ فرماتے ہیں: ’’الفقیہ صاحب مالک، ثقۃ‘‘۔ ’’سمجھدار(امام) مالک کے اصحاب اورسچےتھے‘‘۔ (تقریب التہذیب: ۳۹۸۰)
۱۲۔ محمد بن وضاحؒ فرماتے ہیں: ’’مُحَمَّدُ بنُ وَضَّاحٍ: أَخْبَرَنِي ثِقَةٌ ثِقَةٌ، عَنْ عَلِيِّ بنِ مَعْبَدٍ‘‘۔ ’’نہایت ہی سچی خبردینے والے تھے‘‘۔ (سيرأعلام النبلاء: ج۹، ص۱۲۱)
۱۳۔ حافظ ابن عبدالبرمالکیؒ فرماتے ہیں: ’’وَكَانَ فَقِيهًا قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الرَّأْيُ وَكَانَ رَجُلا صَالِحًا مقلا صَابِرًا وَرِوَايَته الْمُوَطَّأ عَنْ مَالِكٍ رِوَايَةٌ صَحِيحَةٌ قَلِيلَةُ الْخَطَأِ وَكَانَ فِيمَا رَوَاهُ عَنْ مَالِكٍ مِنْ مُوَطَّئِهِ ثِقَةً حَسَنَ الضَّبْطِ مُتْقِنًا‘‘۔ ’’آپ فقیہ تھے جن پررائے کاغلبہ تھا، آپ نیک آدمی اورتھوڑے پرصبرکرنےوالے تھے، آپ کی مؤطا مالک والی روایت صحیح ہےجس میں غلطیاں تھوڑی ہیں، آپ موطأمالک کی روایت میں ثقہ متقن (اور) اچھے طریقے سے یادرکھنے والے تھے‘‘۔ (الانتقاء فی فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء: ص۵۰)
۱۴۔ ابوالقاسم حمزہ بن محمد الکنانیؒ (المتوفی: ۳۵۷ھ) فرماتے ہیں: ’’اِذا اختلف الناس عن مالک فالقول ما قال ابن القاسم‘‘۔ ’’جب لوگوں کا(امام) مالک سے (روایت میں)اختلاف ہوتوابن القاسم کاقول لیناچاہیئے‘‘۔ (مقدمۃ الملخص: ص۴، وسندہ صحیح)
۱۵۔ ابوسعیدعبدالکریم بن محمدالسمعانیؒ فرماتے ہیں: ’’من کبراء المصريين وفقهائهم‘‘۔ ’’مصرکے کبارعلماءاورفقہاءمیں سےہیں‘‘۔ (الانساب للسمعانی: ج۴، ص۱۵۲)
۱۶۔ ابن وھبؒ فرماتےہیں: ’’فقال ابن وهب عالم وابن القاسم فقيه‘‘۔ ’’ابن القاسم علم والے اورسمجھدارتھے‘‘۔
۱۷۔ ابن وھبؒ فرماتے ہیں: ’’وقال ابن وهب حين مات ابن القاسم كان أخي وصاحبي في هذا المسجد منذ أربعين سنة مارحت رواحا ولاغدوت غدوا قط إلى هذا المسجد إلاوجدته سبقني إليه‘‘۔
۱۸۔ ابواسحاق شیرازیؒ فرماتے ہیں: ’’وقال أبوإسحاق الشيرازي جمع بين الفقه والورع صحب مالكا عشرين سنة‘‘۔
۱۹۔ امام ابن حارثؒ فرماتے ہیں: ’’وقال ابن حارث هوأفقه الناس بمذهب مالك‘‘۔ ’’وقال عبد الله ابن أبي صبرة لم يقعد إلى مالك مثله وذكر ابن القاسم عند مالك فقال عافاه الله مثله كمثل جراب مملوء مسكا‘‘۔
۲۰۔ امام ابن حارثؒ فرماتے ہیں: ’’وقال الحارث ابن مسكين كان في ابن القاسم الزهد والعلم والسخاء والشجاعة والإجابة وقال أيضا كان ابن القاسم في الورع والزهد شيئا عجيبا سمعته يقول اللهم امنع الدنيا مني وامنعني منها بما منعت به صالحي عبادك وسئل أشهب عن ابن القاسم وابن وهب فقال لوقطعت رجل ابن القاسم لكانت أفقه من ابن وهب‘‘۔ (سير أعلام النبلاء: ج۹، ص۱۲۱-۱۲۴)
الحمدﷲ! ہم نے اﷲرب العزت کے فضل وکرم سے زبیرعلی زئی صاحب کے اپنے ہی قلم سے عبدالرحمٰن بن القاسم المصریؒ کی توثیق ثابت کرکے زبیرعلی زئی صاحب کاجھوٹااورمکارہوناثابت کردیا۔ یہاں تمام غیرمقلدین حضرات کے لئے عبرت حاصل کرنےکا مقام ہے کہ جس شخص کووہ شیخ العرب والعجم کہتےہیں وہ شخص اپنے باطل فرقے کوسچا ثابت کرنے کے لئے کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پرائمہ مجتہدین ومحدثین پرجھوٹ بولاکرتاتھا۔ تمام غیرمقلدین حضرات کویہ سوچنا چاہیے کہ کیاوہ ایک جھوٹے اورمکارشخص پراندھااعتماد کرکےاسے اپناشیخ کہہ کرمخاطب کرتےہیں؟ ذراسوچیئے۔۔۔
فقہ مالکی کے مشہورامام ابن رشد قرطبی المالکیؒ (المتوفی: ۵۹۵ھ)فرماتے ہیں: ’’وَاخْتَلَفُوا فِي الْمُخْتَارِ مِنْ عَدَدِ الرَّكَعَاتِ الَّتِي يَقُومُ بِهَا النَّاسُ فِي رَمَضَانَ: فَاخْتَارَ مَالِكٌ فِي أَحَدِ قَوْلَيْهِ، وَأَبُو حَنِيفَةَ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَداود: الْقِيَامَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ، وَذَكَرَ ابْنُ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ كَانَ يَسْتَحْسِنُ سِتًّا وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ ثَلَاثٌ‘‘۔ ’’رمضان میں کتنی رکعات پڑھنا مختار ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام داؤد ظاہری کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس رکعات تراویح سنت ہے اور ابنِ قاسمؒ نے امام مالکؒ سےنقل کیا ہے کہ وہ تین وتر اور چھتیس رکعات تراویح کو پسند فرماتے تھے‘‘۔ (بداية المجتهد ونهاية المقتصد: ج۱، ص۲۱۰)
زبیرعلی زئی صاحب کادوسراجھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب امام محمد بن الحسن الشيبانیؒ کے حوالےسےامام ابوحنیفہؒ پرجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امام ابوحنیفہ سے بیس رکعات تراویح باسندصحیح ثابت نہیں ہیں، اس کے برعکس حنفیوں کے ممدوح محمد بن الحسن الشيبانی کی الموطأسے ظاہرہوتاہے کہ امام ابوحنیفہ گیارہ رکعات کے قائل تھے‘‘۔ (تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۵)
اس کےبرعکس امام محمد بن الحسن الشيبانیؒ الموطأ میں بیس رکعات تراویح پر اجماع کا دعویٰ کرتے ہوئےفرماتے ہیں: ’’قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالصَّلاةِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ تَطَوُّعًا بِإِمَامٍ، لأَنَّ الْمُسْلِمِينَ قَدْ أَجْمَعُوا عَلَى ذَلِكَ وَرَأَوْهُ حَسَنًا‘‘۔ ’’حضرت عمرؓ نے ابی بن کعبؓ کورمضان میں امام بناکرتراویح پڑھانے کاحکم دیاہے۔ اسی کوہم اختیارکرتے ہیں۔ اس لئے کہ مسلمانوں (صحابہؓ) نے اس (بیس رکعات) پراجماع کیاہے اوراس کوپسندکیاہے اورآنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ مسلمان (صحابہؓ) جسے پسندکریں وہ خداکے نزدیک بھی پسندیدہ ہے‘‘۔ (موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيبانی:  باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل، رقم الحديث ۲۱۴)
ذرابھی عقل وشعور رکھنے والاشخص اس بات کوبآسانی سمجھ سکتاہے کہ اگرامام ابوحنیفہؒ بیس کے بجائے گیارہ رکعات کے قائل ہوتے توامام محمدؒ الموطأ میں بیس رکعات تراویح پراجماع کادعویٰ کبھی نہ کرتے۔ لہٰذا ثابت ہوگیا کہ زبیرعلی زئی صاحب نے امام ابوحنیفہؒ اورامام محمدؒ دونوں پرجھوٹ بولاہے کہ امام صاحبؒ گیارہ رکعات کے قائل تھے۔
زبیرعلی زئی صاحب کاتیسراجھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب امام شافعیؒ کےحوالےسےجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’معلوم ہوا امام شافعی نے بیس رکعات تراویح سے رجوع کرلیاتھااوروہ آٹھ اوربیس دونوں کوپسند کرتے اورآٹھ کوزیادہ بہترسمجھتےتھے‘‘۔ (تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۵)
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ امام شافعی کے بیس رکعات تراویح سے رجوع پرصحیح سند کے ساتھ کوئی ایک دلیل پیش کردیں۔ ورنہ ہم یہ سمجھنے پرمجبورہونگے کے شاید آپ نے غیب دانی کا دعویٰ کررکھاہے یاپھر شاید آپ یہ کہناچاہتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے خودآکرآپ کواپنے اس رجوع کی خبردی۔ زبیرعلی زئی صاحب کے اس جھوٹے دعوےٰ پرہم امام ترمذیؒ سے دلیل پیش کیئے دیتے ہیں جوائمہ کرام کے مذاہب نقل کرنے میں سب سے معتبرشخصیت سمجھےجاتےہیں۔
امام أبوعیسیٰ الترمذیؒ امام شافعیؒ کے بارے میں فرماتےہیں: ’’وَأَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ۔ وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲، أبواب الصوم، بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، ص۱۵۹)
زبیرعلی زئی صاحب کاچوتھاجھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب امام احمدبن حنبلؒ کےحوالےسےجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’راوی کہتے ہیں "ولم یقض فیہ بشیٔ"امام احمد نے اس میں کوئی فیصلہ نہیں کیا‘‘۔ (تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۶)
زبیرعلی زئی صاحب نے یہاں بھی انتہائی کذب بیانی سے کام لیاہے کیوں کہ عبدالحق اشبیلیؒ(المتوفی: ۵۸۱ھ) کی جس کتاب التہجدسے موصوف نے امام مالکؒ سے آٹھ رکعت تراویح کا قول ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس کتاب کے اسی صفحہ نمبر۱۷۶، فقرہ نمبر۸۹۳پرلکھا ہےکہ: ’’وکان علی بن أبی طالب رضی ﷲ عنہ یؤم الناس فی رمضان یعنی فی القیام۔ واختار أحمد بن حنبل الصلاۃ مع الناس فی قیام رمضان ‘‘۔ ’’اورعلی بن ابی طالب رضی اﷲعنہ زمضان میں لوگوں کے ساتھ قیام کیاکرتے تھے۔ اوراسے اختیارکیااحمد بن حنبل نےکہ وہ رمضان میں لوگوں کے ساتھ تراویح پڑھتے‘‘۔ (کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۳)
اب ہم زبیرعلی زئی صاحب اوران کے متبعین سے گزارش کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے عبدالحق اشبیلیؒ کی کتاب التہجد سے امام مالکؒ کاقول قبول کیاہے ویسے ہی امام احمدؒکاقول بھی قبول فرمائیں۔ ورنہ یہ توآپ کے کھلی منافقت کہلائے گی کہ اپنے مطلب کاقول لے لیااوراپنے خلاف جانے قول کوحذف کرتے ہوئے چھوڑدیا۔
زبیرعلی زئی صاحب کے اس جھوٹ کاردہم فقہ حنبلی کے مشہورامام علامہ موفق الدین ابن قدامہؒ سے پیش کیئے دیتے ہیں: ’’وَقَدْ جَاءَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي الْجَمَاعَةِ۔ وَبِهَذَا قَالَ الْمُزَنِيّ،  وَابْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ، وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ، قَالَ أَحْمَدُ: كَانَ جَابِرٌ، وَعَلِيٌّ وَعَبْدُ اللَّهِ يُصَلُّونَهَا فِي جَمَاعَةٍ‘‘۔ ’’حضرت عمررضی اﷲعنہ (تراویح کی) نماز جماعت کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ اسی طرح مزنی کہتے ہیں کہ ابن عبدالحکم اورابوحنیفہ کے اصحاب کا ایک گروہ بھی (تراویح کی) نماز جماعت سےادا کرتاتھا۔ امام احمد بن حنبل فرماتےہیں کہ حضرت جابر، حضرت علی اورحضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہم اجمعین تراویح جماعت کے ساتھ اداکرتےتھے‘‘۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۲، ص۶۰۵)
علامہ موفق الدین ابن قدامہؒ یہ بھی فرماتےہیں کہ: ’’وَالْمُخْتَارُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، رَحِمَهُ اللَّهُ، فِيهَا عِشْرُونَ رَكْعَةً۔ وَبِهَذَا قَالَ الثَّوْرِيُّ، وَأَبُو حَنِيفَةَ، وَالشَّافِعِيُّ۔ أَنَّ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَقَدْ رَوَى الْحَسَنُ أَنَّ عُمَرَ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَرَوَاهُ السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، وَرُوِيَ عَنْهُ مِنْ طُرُقٍ۔ وَرَوَى مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً۔ وَعَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور سفیان ثوری، ابوحنیفہ اورشافعی بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب عمر فاروق نے صحابہٴ کرام کو ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے، نیز امام احمد ابن حنبل کا استدلال یزید بن رومان وعلی کی روایات سے ہے‘‘۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۲، ص۶۰۴)
زبیرعلی زئی صاحب کاپانچواں جھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں: ’’معلوم ہواکہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ بیس رکعات تراویح سند مؤکدہ ہیں‘‘۔ (تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۶)
زبیرعلی زئی صاحب نے اپنے اس دعوےٰ میں مسئلہ تراویح پراپنے بولے گئے جھوٹوں میں سب سے بڑاجھوٹ بولاہے جس کوواضح کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ چاروں مکاتب فکرکے ائمہ کرام کی کتابیں اورائمہ اربعہ کے متبعین کا ۱۴۰۰ سوسالہ عمل اس بات کی سب سےبڑی دلیل ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی بیس رکعات سے کم تراویح ثابت نہیں جیساکہ امام أبوعیسیٰ الترمذیؒ فرماتےہیں کہ: ’’وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ: أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالمَدِينَةِ۔ وَأَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ۔ وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’ تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، بعض وتر سمیت اکتالیس رکعت کے قائل ہیں، اہلِ مدینہ کا یہی قول ہے اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل ہے، اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۲، أبواب الصوم، بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، ص۱۵۹)
اگرگیارہ رکعات پرکسی ایک امام یا ان کے متبعین کاعمل ہوتاتوامام ترمذی اسے ضرور بیان کرتے۔ مسئلہ تراویح میں امام ابوعیسیٰ الترمذیؒ سے معتبرقول کسی کا نہیں ہوسکتااوروہ فرماتے ہیں کہ جمہوراہل علم بیس رکعت کے قائل ہیں۔
زبیرعلی زئی صاحب کاچھٹاجھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب علامہ عینی حنفیؒ، علامہ جلال الدین سیوطیؒ، ابن حمام حنفیؒ، اورامام ترمذیؒ کے ایک جملے: ’’وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ‘‘، ’’ تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے‘‘ سےعوام الناس کویہ دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بیس اورآٹھ رکعت تراویح میں علماء کا اختلاف ہے، حالانکہ علماء کا بیس اورآٹھ رکعت تراویح پرنہیں بلکہ بیس یابیس سے زیادہ (یعنی چھتیس یا اکتالیس) رکعات پراختلاف ہے۔ جبکہ کم ازکم بیس رکعات پرتوتمام علماء سمیت پوری امت مسلمہ ہردورمیں متفق رہی ہے سوائے انگریزکے دورمیں پیداہونے والے فرقہ غیرمقلدین کے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ عینی حنفیؒ، علامہ جلال الدین سیوطیؒ اور ابن حمام حنفیؒ فرماتے ہیں:
علامہ بدرالدین عینیؒ فرماتے ہیں: ’’وَهُوَ قَول جُمْهُور الْعلمَاء، وَبِه قَالَ الْكُوفِيُّونَ وَالشَّافِعِيّ وَأكْثر الْفُقَهَاء، وَهُوَ الصَّحِيح عَن أبي بن كَعْب من غير خلاف من الصَّحَابَة‘‘۔ ’’بیس رکعات تراویح جمہورعلماءکاقول ہےاوریہی قول اہل کوفہ، امام شافعی اوراکثرفقہاءکرام کاہےاورحضرت ابی ابن کعب سے بھی یہی قول صحت سے مروی ہے، صحابہ میں سےکسی نے بھی اختلاف نہیں کیا‘‘۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۷)
ابن الهمامؒ فرماتےہیں: ’’وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِأَنَّهُ وَقَعَ أَوَّلًا ثُمَّ اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ عَلَى الْعِشْرِينَ فَإِنَّهُ الْمُتَوَارِثُ‘‘۔ ’’بالآخر بیس رکعت پراتفاق ہوااوریہی متوارث ہے‘‘۔ (فتح القدير للكمال ابن الهمام: ج۱، ص۴۸۵)
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتےہیں: ’’وَفِي سُنَنِ الْبَيْهَقِيِّ وَغَيْرِهِ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ الصَّحَابِيِّ قَالَ: كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘۔ ’’سنن بیہقی وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ صحابی رسول حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ميں لوگ ماه رمضان ميں بيس ركعت پڑھا کرتے تھے‘‘۔ (الحاوی للفتاوی: ج۱، ص۳۳۶)
زبیرعلی زئی صاحب کے دجل وفریب اورکذب بیانیوں کی تصدیق غیرمقلد عالم جناب ابو الفوزان كفايت اللہ السنابلی صاحب کی زبانی
داعی اسلامک انفارمیشن سینٹر، ممبئی، انڈیا،جناب ابو الفوزان كفايت اللہ السنابلی صاحب اپنی کتاب ’’کیایزید بن معاویہ رحمہ اﷲسنت کوبدلنے والے تھے؟‘‘ میں پہلے لکھتے ہیں کہ: ’’الحمدللہ ہم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور ان کی تحریروں سے بکثرت استفادہ کرتے ہیں اور ان کے رسالہ الحدیث کو ممتاز رسالوں میں شمار کرتے ہیں اور عموماً احادیث کے سلسلے میں ہم حافظ موصوف ہی کے فیصلہ کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔ کفایت اﷲسنابلی صاحب اس عبارت کے حاشیئے میں لکھتے ہیں: ’’زبیر علی زئی صاحب پر ہمارا یہ اعتماد قطعاً باقی نہیں ہے، ہماری اس بات کو منسوخ سمجھا جائے جس طرح محدثین بعض رواۃ کی توثیق کردیتے ہیں اور بعد میں اصل حقائق سے آگاہی کے بعداسے مجروح قرار دیتے ہیں کچھ اسی طرح کا معاملہ ہمارے ساتھ پیش آیا ہے۔ دراصل ہم نے حسن ظن کی بنیاد پر یہ باور کیا تھا کہ زبیر علی زئی صاحب محدثین وائمہ کےحوالے سے جو کچھ نقل کرتے ہیں ان سب میں پوری امانت ودیانت کا ثبوت دیتے ہوں گے اسی طرح تحقیق حدیث میں جن قواعد و اصول کو بنیاد بناتے ہیں وہ بھی محدثین سے ثابت ہوں گے۔ لیکن جب ہمارا ان سے مناقشہ ہوااور ہم نے ضرورت محسوس کی کہ ان کی پیش کردہ باتوں کو اصل مراجع سے دیکھا جائے تو اس مرحلہ میں یہ اوجھل حقیقت منکشف ہوئی کہ زبیرعلی زئی صاحب اپنے اندر بہت ساری کمیاں رکھتے ہیں مثلاًخود ساختہ اصولوں کو بلا جھجھک محدثین کا اصول بتاتے ہیں، بہت سارے مقامات پر محدثین کی باتیں اور عربی عبارتیں صحیح طرح سے سمجھ نہیں پاتے، اور کہیں محدثین کی غلط ترجمانی کرتے ہیں یابعض محدثین و اہل علم کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن سے وہ بری ہوتے ہیں، اور کسی سے بحث کے دوران مغالطہ بازی کی حد کر دیتے ہیں۔ اور فرق مخالف کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں نقل کرتے ہیں یا اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتیں۔
ان تمام کوتاہیوں کے با وجود زبیر علی زئی صاحب کے اندرایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ جرح و تعدیل کے اقوال کی بھی چھان بین ضروری سمجھتے ہیں کہ آیا وہ ناقدین سے ثابت ہیں کہ نہیں یہ ایک اہم خوبی ہے اور محض اسی امتیاز نے راقم السطورکو ان کی تحریروں کی طرف راغب کیا لیکن افسوس کہ اس بابت بھی آنجناب کی تحقیقات پر اس لحاظ سے سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ مبادا یہاں بھی موصوف نے وہی طرز عمل اختیار کیا ہوگا جس کی طرف سطور بالا میں اشارہ کیا گیا ہے‘‘۔ (زبیر علی زئی کے رد میں دوسری تحریر۔ کیایزید بن معاویہ رحمہ اﷲسنت کوبدلنے والے تھے؟: ص۲)
غیرمقلد عالم جناب ابو الفوزان كفايت اللہ السنابلی صاحب اپنی دوسری تحریر میں زبیرعلی زئی صاحب کے اندھے مقلدین کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’لیکن کیا معلوم کہ زبیرعلی زئی صاحب کے حمایتی انہیں یزید سے بھی بہترسمجھتے ہوں، بلکہ ان کے ایک حمایتی نے تویہاں تک لکھ دیا: "میرے نزدیک حافظ زبیرعلی رح کامقام امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے کہیں بڑھ کرہے۔ ۲۔ فیس بک پرایک شخص کاتبصرہ عکس دیکھیں"‘‘۔ (زبیرعلی زئی صاحب کی تہمت تراشیوں اورافتراءپردازیوں کاجواب، حدیث یزید محدثین کی نظر میں: ص۵)
جناب كفايت اللہ السنابلی صاحب آگے لکھتے ہیں: ’’یہ تحریر(حدیث یزید محدثین کی نظر میں) ہمارے خلاف زبیرعلی زئی صاحب کی لکھی گئی آخری تحریر(کفایت اللہ سنابلی ہندی کے دس جھوٹ)کاجواب ہے۔ زبیر علی زئی صاحب نے اپنی اس تحریر میں ناچیز کے لئے جو زبان استعمال کی ہے اس کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
یہ صرف چند نمونے ہیں ورنہ موصوف کی پوری تحریر اسی لب ولہجے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اور حد ہوگئی کہ زبیرعلی زئی صاحب نے صرف ناچیز ہی پربس نہیں کیابلکہ بعض ان شخصیات پربھی جملے کس دئیے ہیں جن سے ہم نے اپنی تائیدمیں کچھ نقل کیا مثلاً: امام ابن الصلاح، امام سیوطی، امام محمدبن طاھر المقدسی، مورخ ابن طولون رحمھم اللہ تعالیٰ‘‘۔ (تفصیل کے لئے اصل کتاب زبیرعلی زئی صاحب کی تہمت تراشیوں اورافتراءپردازیوں کاجواب، حدیث یزید محدثین کی نظر میں کا اسکین صفحہ  نمبر ۶ اور ۷ ملاحضہ فرمائیں)
زباں جل جائے گر میں نے کچھ کہا ہو
تمہاری تیغ کے چھینٹے تمہارا نام لیتے ہیں