-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Monday, 20 November 2017

اَلقَوْلُ المنصُوْرفِی اِبنِ المنصُوْر - سیرتِ منصورحلّاج رحمہ اﷲ پرزبیرعلی زئی صاحب کی طرف سے کیئےجانے والے اعتراضات کے مدلل جوابات

اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم
’’اَلقَوْلُ المنصُوْرفِی اِبنِ المنصُوْر-سیرتِ منصورحلّاج رحمہ اﷲ‘‘پرزبیرعلی زئی صاحب کی طرف سے کیئےجانے والے اعتراضات
موجودہ دورکے ایک غیرمقلد عالم جناب زبیرعلی زئی صاحب جنہوں نے تقریباً اپنی ہرتصنیف میں عام اورلاعلم عوام کے سامنے جھوٹے وبے بنیاد دعووں، نہایت قلیل اورکھوکھلے دلائل پیش کرکے عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کی جان توڑکوشش کی ہے، بالکل ویسی ہی کوشش موصوف نے اپنے ایک رسالے ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ۲۱کے صفحہ نمبر۷ تا۱۰ میں حسین بن منصورحلّاجؒ بارے میں لکھے گئے سوال کےجواب میں صرف چارمحدثین کی جرحیں نقل کرتے ہوئے اورچند باطل اور کھوکھلے دعووں کے ساتھ کی ہے۔
زبیرعلی زئی صاحب اپنے رسالے ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ۲۱کے صفحہ نمبر۷ پرلکھتے ہیں:
"حسین بن منصور الحلاج، جسے جاہل لوگ منصور الحلاج کے نام سے یاد کرتے ہیں، کا مختصر و جامع تعارف درج ذیل ہے:
۱۔ حافظ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ: اسے زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے علم کی کوئی چیز روایت نہیں کی۔ اُس کی ابتدائی حالت (بظاہر) اچھی تھی، عبادت گزاری اور تصوف (کا اظہار کرتا تھا) پھر وہ دین (اسلام) سے نکل گیا، جادو سیکھا اور (استدراج کرتے ہوئے) خرق عادت چیزیں لوگوں کو دکھائیں، علماء کرام نے فتویٰ دیا کہ اس کا خون (بہانا) جائز ہے لہٰذا اسے ۳۱۱ھ میں قتل کیا گیا۔ (میزان الاعتدال: ج ۱،ص ۵۴۸)
۲۔ حافظ ابن حجر العسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ: لوگوں کا اس (حسین بن منصور الحلاج) کے بارے میں اختلاف ہے، اکثریت کے نزدیک و ہ زندیق گمراہ (تھا) ہے۔ (لسان المیزان: ج ۲، ص ۳۱۴، والنسخۃ المحققۃ ۵۸۲/۲)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ: میری رائے میں حلاج کی حمایت ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں کرتا جو اس کی اس بات کے قائل ہیں جس کو وہ عین جمع کہتے ہیں اور یہی اہل وحدت مطلقہ کا قول ہے اس لئے تم ابن عربی صاحب فصوص کو دیکھو گے کہ وہ حلاج کی تو تعظیم کرتے ہیں اور جنید کی تحقیر کرتے ہیں۔ (لسان المیزان: ج ۲، ص ۳۱۵)
۳۔ جلیل القدر امام ابو عمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا بن یحییٰ البغدادی (ابن حیویہ)ؒ فرماتے ہیں کہ: جب حسین (بن منصور) حلاج کو قتل کے لئے (جیل سے) نکالا گیا تو لوگوں کے ساتھ میں بھی (دیکھنے کے لئے) گیا، میں نے لوگوں کے رش کے باوجود اُسے دیکھ لیا، وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا:”تم اس سے نہ ڈرنا، میں تیس (۳۰) دنوں بعد تمہارے پاس دوبارہ (زندہ ہوکر) آجاؤں گا“ پھر وہ قتل کر دیا گیا۔ (تاریخ بغداد: ج ۸، ص ۱۳۱ ت ۴۲۳۲ و سندہ صحیح، المنتظم لابن الجوزی ۴۰۶/۱۳ وقال:”وھذا الإسناد صحیح لاشک فیہ“ لسان المیزان ۳۱۵/۲ وقال:’’وإسناد ھا صحیح‘‘)
۴۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ: جمہور مشائخِ تصوف اور اہلِ علم (علمائے حق) کے نزدیک حلاج نیک لوگوں میں سے نہیں تھا بلکہ زندیق (بہت بڑا ملحد و گمراہ) تھا۔ (مجموع فتاویٰ: ج ۸، ص ۳۱۸)
اللہ رب العالمین کا شکر ہے، حلاج کو زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیاگیاتھا۔ (مجموع فتاوی: ۱۰۸/۳۵)
شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں کہ: اور اسی طرح جو شخص حلاج کے قتل کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ (شخص) دینِ اسلام سے خارج ہے۔ (مجموع فتاویٰ: ج۲، ص ۴۸۶)
۵۔ حافظ ابن الجوزیؒ نے اس (حسین بن منصور) کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے ’’القاطع المحال اللجاج القاطع بمحال الحلاج‘‘۔ (المنتظم: ۲۰۴/۱۳)
ابن جوزی فرماتے ہیں: بے شک وہ جھوٹا باطل پرست تھا۔ (ایضاً: ۲۰۶/۱۳)"
زبیرعلی زئی صاحب اپنی تحریر کے آغاز میں ہی نہایت نامناسب اورغیرجانبدارانہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’حسین بن منصور الحلاج، جسے جاہل لوگ منصور الحلاج کے نام سے یاد کرتے ہیں‘‘۔ لگتا ہے زبیرعلی زئی صاحب ’’جاہل لوگ‘‘ کے الفاظ استعمال کرنے سے پہلے شایدیہ بھول گئے کہ خطیب بغدادیؒ، امام محمد بن جریرالطبریؒ، امام ابن اثیرؒ، ابن الملقنؒ، امام قشیریؒ، امام جلال الدین سیوطیؒ اوردیگربڑے بڑے ائمہ محدثین ومورخین نے اپنی کتابوں میں حسین بن منصورحلّاجؒ کومنصورالحلاج کے نام سے ہی مخاطب کیاہے، لہٰذا زبیرعلی زئی صاحب کے ان نازیباالفاظ کی زدمیں یہ تمام ائمہ دین ومحدثین اورمورخین بھی آجاتے ہیں جس سے زبیرعلی زئی صاحب کی جہالت اوران بزرگان دین کی شان میں گستاخی کرنے کی واضح دلیل ملتی ہے۔ ایسے نازیباالفاظ موصوف ماضی میں امام ابوحنیفہؒ اورامام محمد بن حسن شیبانیؒ کے خلاف بھی استعمال کرچکے ہیں جس سے ان کاعلمی نسب اورمتعصب ذہنیت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ بہرحال ہم انشاءاﷲتعالیٰ ان کی طرف سے کیئے گئے باطل اعتراضات اورکھوکھلے دعووں کے تسلی بخش جوابات دیکرقارئین کومطمئن کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔
حسین بن منصورحلّاجؒ کی تائیدکرنے والے اورانہیں ولی اﷲقراردینے والےآئمہ محدثین وبزرگان دین
حسین بن منصورؒ کے حق میں ان ہی کے دورکے جلیل القدرمحدثین و بزرگان دین اوراولیاءکرام ابوالعباس بن عطاء بغدادیؒ،محمد بن خفیف شیرازیؒ اور ابراہیم بن محمدنصرآبادی نیشاپوریؒ کی گواہی ۔
خطیب بغدادیؒ تاریخ بغدادجلدنمبر۸ صفحہ نمبر۶۸۹ پرلکھتے ہیں: ’’متقدمین میں سےابوالعباس بن عطاء بغدادیؒ اورمحمد بن خفیف شیرازیؒ اور ابراہیم بن محمدنصرآبادی نیشاپوریؒ نے ان کو قبول کیا، ان کے حال کو صحیح مانا، اوران کو محققین میں سے قراردیا۔ محمد بن خفیفؒ  کا تو یہ قول ہے کہ حسین بن منصورعالم ربانی ہیں‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۸۹)
۱۔ ابن منصورؒکی تائیدکرنے والے سب سے پہلے بزرگ ابوالعباس بن عطاءؒ (متوفی۳۰۹ھ) ہیں
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: ’’پرہیزگارعبادت گزارابوالعباس احمد بن محمد بن سھل بن عطاء الأدمی البغدادی۔ روزانہ پورا قرآن ختم کرتے تھے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں: وہ حلّاج کے مذہب کے ہامی تھے اور اسے صحیح قرار دیتے تھے۔ سُلِمی فرماتے ہیں: وہ حلّاج کی ہمایت کے سبب آزمائش میں مبتلا ہوگئے تھے‘‘۔ (بیان تلبیس الجھمیۃ: ج۲، ص۱۱۰)
امام ذہبیؒ ابن عطاءؒکے بارے میں لکھتے ہیں: ’’پرہیزگارعبادت گزارابوالعباس احمد بن محمد بن سھل بن عطاء الأدمی البغدادی۔ روزانہ پورا قرآن ختم کرتے تھےاوررمضان المبارک میں ہردن تین بارختم کرتے تھے، اورفہم معانی قرآن کےلئےجوایک تلاوت شروع کی تھی اس میں چودہ برس کے اندرنصف قرآن تک بھی نہ پہنچے۔ حلّاج کا حال ان پرحاوی تھااور اسے صحیح قرار دیتے تھے۔ سُلِمی فرماتے ہیں: وہ حلّاج کی ہمایت کے سبب آزمائش میں مبتلا ہوگئے تھے۔ وزیرحامد نے انہیں طلب کیااورکہا کہ آپ حلّاج کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ابن عطاءؒ نے فرمایا! تم کو اس معاملہ سے کیا واسطہ؟ تم لوگوں کا مال لوٹتے رہو اورخون بہاتے رہو۔ وزیرحامد کے حکم سے ابن عطاءؒ کے دانت توڑدیئے گئے۔ ابن عطاءؒ نے چلاتے ہوئے وزیرحامد العباس کو بد دعا دی کہ اے اﷲ! اس کے ہاتھ پیرکٹوادے۔ اس واقعہ کے ۱۴ دن بعد ابن عطاءؒ کی وفات ہوگئی اورزیادہ دن نہ گزرے تھے کہ وزیرحامدبن العباس بھی قتل کیاگیا۔ قتل سے پہلے اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹے گئے۔ اس وقت لوگ کہتے ہیں کہ اس کو ابوالعباس بن عطاءؒ کی بددعالگئی‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۶، ص۲۵۵)
ابن ملقنؒ اپنی کتاب طبقات الاولیاء میں حضرت ابو العباس بن عطاءؒ کواولیاءاﷲمیں شمارکرتےہوئے لکھتے ہیں: ’’وہ حضرت جنیدبغدادیؒ اور ابراہیم مارستانیؒ وغیرہ کی صحبت میں رہے۔ حضرت جنیدبغدادیؒ اورابو سعیدخرازکی بہت تعظیم کرتے تھے‘‘۔ (طبقات الاولیاء: ص۵۹)
خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: ’’اس زمانے کے ان صوفیوں میں سے تھے جوعبادات و اجتہاداورکثرت سے قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔ انہوں نے یوسف بن موسیٰ القطان اور فضل بن زیادصاحب احمد بن حنبلؒ سے احادیث روایت کی‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۶، ص۱۶۵)
ابن منصورؒ کو قبول کرنے والے پہلے بزرگ ابوالعباس ابن عطاءؒ ہیں جنہوں نے ابن منصورؒ کی کھل کرتائید وموافقت کرتے ہوئے اپنی جان تک دیدی۔ وہ جس قدرابن منصورؒ کے معتقدتھے ان کے واقعہ وفات سے معلوم ہوتاہےکہ کس طرح صاف صاف الفاظ میں ابن منصورؒ کی تائید وحمایت کی اوروزیرحامدکوکیسےسخت الفاظ میں سنائی، حتیٰ کہ یہی ان کے قتل کاسبب ہوا۔
۲۔ امام محمد بن خفیف ضبی شیرازیؒ (متوفی۳۳۱ھ)بھی ابن منصورؒ کے معتقدین میں سے ہیں
’’محمد بن خفیفؒ  کا تو یہ قول ہے کہ حسین بن منصورعالم ربانی ہیں‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۸۹)
’’ابوعبداﷲمحمدبن خفیف شیرازی اہل فارس کے بزرگوں میں سےبڑے بزرگ تھے۔ تصوف اوراشارات ومعرفت میں مشہورتھےاورمقبول خاص وعام، صاحب کرامات امام تھے۔ حماد اورعبدالملک بن جنیدسےحدیث روایت کرتے ہیں۔ قومل جصاص اورہشام بن عبدان سےبھی ملاقات کی ہے۔ ان کے احوال وحکایات مشہور اورکتابوں میں مسطورہیں، رمضان ۳۷۷ھ میں وفات پائی‘‘۔ (الأنساب سمعانی: ص۳۴۴)
ابوعبداﷲمحمدبن خفیف شیرازیؒ کے مکمل حالات جاننے کے لئے کتاب سیرۃ الشیخ الکبیر’’أبی عبداﷲمحمدبن خفیف الشیرازی‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
’’محمد بن خفیف ضبیؒ شیرازمیں مقیم ہوگئےتھے، وہ اپنے وقت میں شیخ المشائخ اوریکتابزرگ تھے۔ علوم ظاہرکےبھی عالم تھے اورعلوم حقائق کےبھی۔ مقامات واحوال اورتمام اخلاق واعمال میں ان کی بہت اچھی حالت تھی‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ: ج۱، ص۲۱۷)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتےہیں: ’’صوفیاء کے جن اکابر مشایخ کاتذکرہ ابو عبد الرحمٰن سُلَمی نے "طبقات الصوفیہ" میں اور ابو القاسم قُشیری نے "الرسالہ" میں کیا ہے، یہ سب مذہب اہل السنہ والجماعہ اور مذہب اہل الحدیث پر تھے، مثلاً: فضیل بن عیاض، جنید بن محمد [بغدادی]، سہل بن عبد اللہ تستری، عمرو بن عثمان مکی، ابو عبد اللہ محمد بن خفیف شیرازی وغیرہ، انکا کلام سنت وعقائد صحیحہ کے مطابق ہے، اور انہوں نے اس بارے میں کتب بھی تصنیف کی ہیں‘‘۔ (کتاب الصفدیۃ: ج۱، ص۲۶۷)
دوسرے بزرگ جوابن منصورؒ کو ماننے والوں میں سے ہیں وہ محمد بن خفیف ضبیؒ شیرازی ہیں۔ پس محمدبن خفیف جیسے مسلم امام کاابن منصورؒ کامعتقد ہوناابن منصورؒ کےولی کامل اورمقبول ہونے کی کافی دلیل ہے۔
۳۔ امام ابوبکرشبلیؒ (متوفی۳۳۴ھ)بھی ابن منصورؒ کے معتقد ین میں سے ہیں
خطیب بغدادیؒ تاریخ بغدادجلدنمبر۸ صفحہ نمبر۶۹۹ پرلکھتے ہیں: ’’امام شبلیؒ فرماتے ہیں کہ میں اور ابن منصوردونوں ایک ہی ہیں (یعنی میرا بھی حال وہی ہے جو ان کاہے) مگر(فرق اتنا ہے کہ) انہوں نے (اپناحال)ظاہرکردیااورمیں نےچھپائے رکھا‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۹)
 امام ابن جوزیؒ لکھتے ہیں: ’’حضرت ابو بکر شبلیؒ حضرت جنید ؒ اوران کے طبقہ والوں کی صحبت میں رہے، مذہب مالکیہ میں فقہ حاصل کیا اور حدیثیں بہت لکھیں‘‘۔ (صفۃالصفوۃ: ص۴۸۵)
’’شبلی ؒ کے خادم خاص کا بیان ہے کی جب حضرت شبلیؒ پر موت کے آثار ظاہر ہو ئے، زبان بند ہو گئی اور پیشانی پر پسینے کے قظرے نمودار ہوئے تو مجھے اشارے سے بلایا اور وضو کرانے کے لیے فرمایا۔ چنانچہ میں نے وضو کرایا لیکن داڑھی میں خلال کرانا بھول گیا، انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور انگلی سے اپنی داڑھی میں خلال کرنے لگے۔ حضرت جعفر خلدیؒ جب یہ واقعہ بیان کرتے تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اور کہتے، لوگو بتاؤ تو سہی! یہ کیسا باکمال شخص تھا کہ جس نے زندگی کی آخری سانس تک شریعت کے آداب میں سے ایک ادب بھی فوت نہیں ہونے دیا‘‘۔ (صفۃالصفوۃ: ص۴۸۴-۴۸۵)
حضرت جنید ؒ نے ایک موقع پرفر مایا کہ: ’’فيقول الجنيد"لِکُلِّ قَوْمٍ تاجٌ، وَتاجُ هذَا القَوْمِ الشِّبْلی"‘‘۔  ’’ہر قوم کا ایک تاج ہو تاہے اور ہم اہل تصوف کے تاج شبلیؒ ہیں‘‘۔ (نفحات الأنس للجامی: ص۱۸۰)
’’حضرت ابوبکر محمد بن عمرؒ فرماتے ہیں کہ میں ابوبکر بن مجاہد کے پاس بیٹھا تھا تو شبلی آئے اور ابوبکر بن مجاہد ان کی تعظیم کیلئے کھڑےہوگئے اور ان سے معانقہ کیا اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا تو میں نے کہا‘ اے میرے سردار! آپ شبلی کے ساتھ ایسا کرتے ہیں حالانکہ بغداد والے اسے دیوانہ تصور کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے شبلی کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے جیسا کہ میں نے حضورﷺ کی مجلس میں دیکھاآپ ﷺاس کیلئے کھڑے ہوگئے اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ تو میں نے عرض کیا! یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ تو شبلی کے ساتھ ایسا کرتے ہیں؟ یہ تو دیوانہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ شبلی ہر نماز کے بعد پڑھتا ہے ’’لقدجاءکم رسول من انفسکم‘‘ آخر سورت تک اور پھر تین مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے، حضرت فرماتے ہیں کہ میں نے شبلی سے پوچھا تو انہوں نے تصدیق کی اور ویسے ہی بیان کیا‘ جیسے میں نے سنا تھا‘‘۔ (القول البدیع: ص۲۵۱-۲۵۲)
امام ابوبکرشبلیؒ جیسے شیخ طریقت اورمتبع سنت بزرگ کا ابن منصورؒ کے حال کو اپنے حال سے تعبیرکرناابن منصورؒ کی بے گناہی اور ان کے ولی کامل ہونے کی بہت بڑی گواہی ہے۔
۴۔ شیخ ابوالقاسم نصرآبادیؒ(متوفی۳۷۵ھ) نے ابن منصورؒ کو موحد تسلیم کیاہے
خطیب بغدادیؒ تاریخ بغدادجلدنمبر۸ صفحہ نمبر۶۹۹ پرلکھتے ہیں: ’’محمد بن حسین نے بیان کیاکہ میں نے ابراہیم بن محمدنصرآبادی سے سناجب کہ ان پرحلّاج کاایک کلام روح کے متعلق نقل کرنے پرعتاب کیاگیا۔ انہوں نے عتاب کرنے والے سے فرمایا، کہ انبیاءوصدیقین کے بعداگرکوئی موحدہے تو حلّاج ہی ہے‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۹)
شیخ ابو القاسم نصرآبادیؒ صوفی بزرگ بھی ہیں اوران کو ائمہ محدثین نے ثقات وحافظ حدیث میں بھی  شمار کیاہے۔
خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: ’’ابراہیم بن محمد بن احمد بن محمویہ، ابوالقاسم نصرآبادی نیساپوری صوفی ثقہ، حدیث کے بڑے عالم اورکثیرالروایت ہیں‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۷، ص۱۰۷)
امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: ’’امام المحدث، مبلغ، صوفیوں کے شیخ ابوالقاسم ابراہیم بن محمد بن احمد بن محمویہ الخراسانی نصرآبادی نیساپوری پرہیزگارعبادت گزارتھے‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۶، ص۲۶۳)
آگے لکھتے ہیں کہ: ’’ابراہیم بن محمدنصرآبادی کہتے ہیں انبیاءوصدیقین کے بعداگرکوئی موحدہے تو حلّاج ہی ہے‘‘۔(سیراعلام النبلاء: ج۱۶، ص۲۶۵)
ابوالقاسم نصرآبادیؒ کا حسین بن منصورؒ کو موحدکامل قرار دینااوران کے اقوالِ موحشہ موہمہ کوغلبٔہ انوارتوحیدسے سرشارسمجھنااس بات کی دلیل ہے کہ ان پرلگائے گئے تمام الزامات جھوٹے اور بے بنیادہیں اور ابن منصورؒ ولی اﷲمیں سےہیں۔
۵۔ امام ابوالقاسم عبدالکریم القشیریؒ(متوفی۴۶۵ھ) کی ابن منصورؒ کے بارے میں رائے
امام ابوالقاسم القشیریؒ نے اپنے رسالہ قشیریہ کے مقدمہ میں مشائخ صوفیہ کے عقائدکے متعلق دعویٰ کیاہے کہ وہ بالکل کتاب وسنت کے موافق اورسلف صالحین کے مطابق ہیں اور دلیل میں جہاں دیگراجلۂ صوفیہ وائمہ طریق کے اقوال بیان کئے ہیں وہیں حسین بن منصورؒ کے توحیدوصفات باری تعالیٰ کےبارے میں کہےگئےاقوال بھی نقل کئے ہیں۔ جس سے یہ بات واضح ہے کہ امام قشیریؒ کے نزدیک ابن منصورؒ بھی مشائخ صوفیہ میں سے ہیں۔
الإمام أبی المواهب عبد الوهاب بن أحمد بن علی الأنصاری الشافعی المشهور بالشعرانیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’امام قشیری نے ابن منصورکے تزکیہ (اورتبریہ) کی طرف اشارہ کردیاہے کیونکہ انہوں نے ابن منصورکے عقیدہ کوعقائداہلسنت کے ساتھ اپنی کتاب کے شروع میں بیان کرکے باب حسن ظن کاافتتاح کیاہے۔ پھرمروان طریق کے پیچھے بھی ان کاذکرکیاکیونکہ ان کے متعلق کچھ سے کچھ کہاگیاہے‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی:ج۱، ص۱۹۵)
امام قشیریؒ کا درجہ علم ظاہروباطن میں جس قدربلندہے۔ وہ صوفی بزرگ بھی ہیں اورمحدث بھی، عالم فاضل بھی ہیں اورعارف کامل بھی۔ ان کی ولادت ۳۷۶ھ میں ہوئی اور وفات ۴۶۵ھ میں، تو ان کازمانہ بھی ابن منصورؒ کے زمانے سے بہت قریب کاہے۔
حافظ ابن اثیرؒامام قشیریؒ کی جلالت شان میں یوں بیان کرتے ہیں کہ: ’’امام قشیری، فقیہ، اصولی، مفسر، کاتب اورگوناگواوصاف حسنہ سے متصف تھے‘‘۔ (ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ: بیروت، ج۱۰، ص۸۸)
فقروتصوف میں آپ کے مقام ومرتبہ کے حوالے سے امام ذہبیؒ لکھتے ہیں: ’’قشیری اپنے زمانے میں اقلیم تصوف کے بے تاج بادشاہ تھے۔ اﷲتعالیٰ نے آپ کو سخت ترین ریاضت ومجاہدہ کی ہمت ارزانی فرمائی۔ آپ پاکیزہ نفس، نفیس اشارات ونکات کے ذریعے معانی کی یہہ تک پہنچ جانے والے نکتہ رس تھے‘‘۔ (تاریخ اسلام للذھبی: ص۱۷۲)
امام ذہبیؒ خطیب بغدادیؒ کا قول رقم کرتے ہوئےلکھتےہیں: ’’آپ ثقہ اورواعظ خوش بیان تھے اورنفیس اشارات ونکات بیان کرتے‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۸، ص۲۳۰)
خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: ’’قشیری ۴۴۸ھ میں بغداد تشریف لائےاورحدیثوں کی روایت کی، ہم نے بھی ان سے حدیثیں لکھیں، آپ ثقہ تھے‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۱۲، ص۳۶۶)
امام سبکیؒ لکھتے ہیں: ’’آپ کی مجلس وعظ ونصیحت کے بارے میں آپ کے معاصرین کااجماع ہے کہ آپ اس فن میں عدیم النظیرتھے‘‘۔ (الطبقات شافعیۃ الکبریٰ: ج۳، ص۱۵۳)
۶۔ سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانیؒ (متوفی۵۶۱ھ)کی ابن منصورؒ کے بارے میں رائے
ابن منصورؒکومعذورماننے والے چھٹے بزرگ شیخ عبدالقادرجیلانیؒ ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’حسین بن منصورحلّاج کو(طریق میں) ایک دشواری پیش آگئی تھی توان کےزمانہ میں کوئی ایسا نہ تھاجوان کاہاتھ پکڑلیتا (اورسلامتی کےساتھ اس دشواری سےنکال دیتا)، اورمیں اپنے اصحاب ومریدین اورمحبین میں سے ہراس شخص کاہاتھ پکڑنے والاہوں جسکی سواری کو ٹھوکرلگ جائے‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی:ج۱، ص۲۲۷)
۷۔ شیخ فریدالدین عطاؒ(متوفی۵۴۰ھ) کی ابن منصورؒ کی ہمایت
ابن منصورؒ کوماننے والے ساتویں بزرگ حضرت شیخ فریدالدین عطاؒ ہیں جنہوں نے اپنی کتاب تذکرۃ الاولیاءمیں ان کا ذکرجمیل بہت عمدہ طریقے سے تفصیل کے ساتھ کیاہے۔
شیخ فریدالدین عطاؒکی جلالت شان اس سے ظاہر ہے کہ مولانا رومی آپ کی شان میں فرماتے ہیں:
ہفت شہرعشق راعطاگشت                                   ماہنوااندرغم یک کوچہ ایم
اورمثنوی مولوی معنوی میں ان کا کلام بطورحجت کے لاتے ہیں اور اس کی شرح فرماتے ہیں۔
۸۔ مولانارومیؒ (متوفی۶۷۲ھ) کی ابنمنصورکی مدح وثناکرنا
ابن منصورؒ کو ماننے والے آٹھویں بزرگ حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ ہیں۔ آپ نے مثنوی مولوی معنوی میں ان لوگوں کوبہت بُرابھلاکہاہے جنہوں نے ابن منصورؒ کو ناحق سولی دی، چنانچہ فرماتے ہیں:
چون قلم در دست غدارے بود                      لاجرم منصور بر دارے بود
جب قلم کسی غدار کے ہاتھ میں ہوگا                         تولامحالہ منصورسولی پرہوگا
اس میں غدار سے مراد وزیرحامدالعباس ہے جوابن منصورکادشمن ہوگیاتھا، جس نے علماءکوان کی تکفیرپرمجبورکیا۔ نیزابن منصورکی مدح میں مزید فرماتے ہیں کہ:
بود انا الحق در لب منصور نور                      بود انا الله در لب فرعون زور
’’اناالحق‘‘ منصورکے لب پرنورتھا                    ’’میں خداہوں‘‘فرعون کے لب پر جھوٹ تھا
آن انا منصور، رارحمت بُدہ                       ایں انا فرعون،را لعنت بُدہ
وہ انامنصورکےلئے(باعث)رحمت تھا                 یہ انافرعون کے لئے (موجب)لعنت تھا
گفت فرعونے "انا الحق"، گشت پست            گفت منصورے "انا الحق" و برَست
کسی فرعون نے اناالحق کہاوہ پست ہوا                  کسی منصورنے اناالحق کہاوہ بالاہے
آن انا را لعنه الله، در عقب                           ویں انا را رحمه الله، اے محب
اس اناکے لئے اﷲتعالیٰ کی لعنت درپےہے                 اوریہ انااےدوست! اﷲکی رحمت ہے
مولانا رومیؒ کی جلالت شان علمائے ظاہراورعلمائے باطن دونوں کے نزدیک مسلم ہے، ان کاابن منصورکوماننااورمدح وثناکرنا، ابن منصورؒکے صوفی، عارف ومقبول ہونے کی کافی دلیل ہے۔
۹۔ شیخ الاکبر ابن عربیؒ (متوفی۶۳۸ھ)کی ابن منصورسے عقیدت
نویں بزرگ جنہوں نے ابن منصورؒ کی بڑی تعظیم کی وہ شیخ محی الدین ابن عربیؒ ہیں۔ لسان المیزان میں حافظ ابن حجرؒ کا تنقیدی قول اس کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ’’ابن عربیؒ صاحب الفصوص حسین بن منصورؒ کی بہت تعظیم کرتے اور اورجنید میں کلام کرتےتھے‘‘۔ (لسان المیزان: ج ۲، ص ۳۱۵)
شیخ ابن عربیؒ کا درجہ مشائخ صوفیہ کے نزدیک تو بہت بلندہے، علمائے ظاہربھی ان کی جلالت شان کے معترف ہیں۔ لسان المیزان میں حافظ ابن حجرؒنے حافظ ذھبیؒ کی جرح کوردکرکے بہت سے محدثین کے اقوال انکی توثیق وتعدیل میں نقل کئےہیں۔ حافظ ابن حجرؒنے ابن النجاروابن نقطہ وابن العدیم اورزکی مندری وابن الاباروغیرہم کے اقوال ان کی مدح وثنامیں چار صفحات کے اندربیان کئے ہیں۔ (لسان المیزان: ج۵، ص۳۱۲-۳۱۵)
فرقہ اہلحدیث کے عالم جناب نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب التاج المکلل میں شیخ ابن عربی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : ’’شیخ ابن عربی میں اتنی خوبیاں ہیں کہ جن کا احاطہ ممکن نہیں اور وہ اللہ کی مابین دلیل اور کھلی نشانی ہیں۔ اور ان کی اتنی کرامات ہیں جنہیں کئی جلدوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ (التاج المکلل: ص۱۶۸)
۱۰۔ شیخ عبدالوہاب شعرانیؒ (متوفی۹۷۳ھ)نےابن منصورؒکو اپنی کتاب میں اولیاءاﷲمیں شمارکیاہے
ابن منصورؒ کو ماننے والے دسویں  بزرگ شیخ عبدالوہاب شعرانیؒ شافعی ہیں جواپنے وقت میں علوم ظاہروباطن کے مسلم امام تھے۔ آپ نے اپنی کتاب طبقات الکبریٰ میں جو طبقات صوفیہ کے لئے مخصوص ہے ابن منصورؒ کواولیاءاﷲمیں شمارکیااور ان کے عارفانہ اقوال سے تصریح کردی ہے کہ صحیح قول یہ ہے کہ ابن منصورؒ صوفیائے کرام میں سے تھے۔
مندرجہ بالا دس بزرگ تووہ ہیں جوعلمائے ظاہروباطن سب کے نزدیک مسلم ہیں۔ عرب وعجم ان کی جلالت وشان کے معترف ہیں۔ ان حضرات میں سے ایک بزرگ کابھی کسی کوولی کامل کہہ دینااس کی سعادت وکامیابی کی بڑی دلیل ہے۔ پھرجس کویہ سب قبول کرلیں اس شخص کا کیا مقام ہوگا۔ ان کے علاوہ بھی مصر، شام اورہندوستان کے بڑے بڑے علماءکرام نے ابن منصورکوصوفیہ اوراولیاءاﷲمیں شمار کیاہےجن کی فہرست طویل ہے۔بہرحال ہم ان ہی دس ناموں پراکتفاءکرتے ہیں۔
زبیرعلی زئی صاحب کی پیش کردہ مبہم ومنقطع جرحوں اورباطل وکھوکھلے دعووں کے مدلل جوابات
۱۔ حافظ ذہبیؒ کی جرح کا جواب
حافظ ذہبیؒ نے اپنی جرح میں ابن منصورؒپرجتنے بھی الزامات لگائے ہیں ان میں سے ایک الزام بھی صحیح سندسےثابت نہیں ہےجبکہ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیاہے کہ ’’ابن منصورؒ کی ابتدائی حالت اچھی تھی، عبادت گزاری اورتصوف کا اظہارکرتاتھا‘‘۔
حافظ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’اسے زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔۔۔ علماء کرام نے فتویٰ دیا کہ اس کا خون (بہانا) جائز ہے‘‘ جبکہ تمام روایات کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وزیرحامدالعباس نے حج کے مضمون کوجواز بناتے ہوئے قاضی ابوعمرسے زبردستی فتویٰ لکھوایاتھا، حالانکہ حج کے مضمون میں ایسی کوئی بات نہ تھی جس سے کسی کوکافروزندیق قراردیاجاسکے۔
حافظ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’پھر وہ دین (اسلام) سے نکل گیا، جادو سیکھا اور (استدراج کرتے ہوئے) خرق عادت چیزیں لوگوں کو دکھائیں‘‘ جبکہ جادوسیکھنے والی پہلی روایت کی سند ابن باکویہ شیرازی، علی بن احمدشروانی اور اس کے باپ کی وجہ سے سخت ضعیف ہے اوردوسری روایت کی سند میں علی بن محمد بن مزین صوفی اور ابوعبدالرحمٰن السلمی صوفی ہیں، تو سند میں بجز اسماعیل بن احمدحیری شیخ الخطیب کے اور کوئی محل نظرنہیں۔ انساب سمعانی میں ان کا بہت مختصر تذکرہ ملتا ہےجبکہ جرح و تعدیل کچھ مذکورنہیں۔ پھر ابوعبدالرحمٰن السلمی کے بارے میں تو زبیرعلی زئی صاحب نے اپنی اسی تحریر میں خود اعتراف کیا ہے کہ ’’ابوعبدالرحمٰن السلمی غیرثقہ تھا‘‘ تو پھر موصوف نے کس منہ سے حافظ ذہبیؒ کی اس جرح کو دلیل کے طورپرپیش کردیا، جبکہ موصوف اپنی اسی تحریر میں ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ۲۱کے صفحہ نمبر۱۰ پر دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’الحدیث حضرو کا یہ امتیازہےکہ الحدیث میں صرف صحیح وثابت حوالہ ہی بطوراستدلال لکھاجاتاہے‘‘۔ الحمدﷲ! زبیرعلی زئی صاحب کا یہ باطل اورکھوکھلا دعویٰ تو ہم نے ابتداءمیں ہی غلط ثابت کردکھایا۔
حافظ ذہبیؒ کی مبہم، متشدداوربلادلیل جرح کی ایک اور اہم کمزوری یہ بھی ہے کہ آپ آٹھویں صدی ہجری کے درمیانی دورسے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حسین بن منصورؒ کے قتل کا واقعہ چوتھی صدی ہجری کے شروع میں رونماہوا، لہٰذا اس واقعہ کے چارسو سال بعد پیداہونے والے امام ذہبیؒ کی مبہم جرح ابن منصورؒکےدورکےجلیل القدرمحدثین و بزرگان دین اوراولیاءکرام ابوالعباس بن عطاء بغدادیؒ،محمد بن خفیف شیرازیؒ، ابراہیم بن محمدنصرآبادی نیشاپوریؒ اورامام ابوبکرشبلیؒ کی ابن منصورؒ کے حق میں دیگئی گواہی سے زیادہ معتبرکیسے ہوسکتی ہے؟
۲۔ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کی جرح کا جواب
حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کا یہ کہنا کہ ’’ اکثریت کے نزدیک و ہ زندیق گمراہ (تھا) ہے‘‘کسی ایک بھی مستند دلیل سے یہ بات ثابت نہ ہوسکی کہ ابن منصورؒزندیق اور گمراہ تھے۔ ان کے گمراہ ہونے سے متعلق جنتی بھی روایات ہیں سب کی سب سخت ضعیف ہیں اوران ضعیف روایات میں سے کسی ایک سےبھی براہِ راست ان سے کسی بھی قسم کا کلمہ کفرثابت نہیں ہوتا بلکہ صرف لوگوں کی سنی سنائی باتیں ملتی ہیں جن کے جوابات پہلے ہی دیئے جاچکے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگرابن منصورؒاکثریت کے نزدیک گمراہ ہوتے تو جب وزیرحامد نے قاضی ابوعمروقاضی ابوجعفربن بہلول اور بڑےبڑے فقہاءاورشہودکوجمع کرکے ان سے فتویٰ پوچھاتھاتو سب نے فتویٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے یہ کیوں کہاکہ جب تک ہمارے سامنے اس کی کوئی بات پایۂ ثبوت کونہ پہنچ جائےجوموجب قتل ہواس وقت تک اس کے متعلق فتویٰ نہیں دیاجاسکتااورلوگوں نے جن باتوں کادعویٰ ان کی طرف منسوب کیاہےبدون بینہ یااقرارکے قبول نہیں کی جاسکتیں۔ اوروزیرحامد بن عباس کو قاضی ابو عمرسے زبردستی فتویٰ لکھوانا کیوں پڑا؟
حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کی مبہم، متشدداوربلادلیل جرح کی ایک اور اہم کمزوری یہ بھی ہے کہ آپ آٹھویں صدی ہجری کے درمیانی دورسے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حسین بن منصورؒ کے قتل کا واقعہ چوتھی صدی ہجری کے شروع میں رونماہوا، لہٰذا اس واقعہ کے چارسو سال بعد پیداہونے والے حافظ ابن حجرؒکی مبہم جرح ابن منصورؒکےدورکےجلیل القدرمحدثین و بزرگان دین اوراولیاءکرام ابوالعباس بن عطاء بغدادیؒ،محمد بن خفیف شیرازیؒ، ابراہیم بن محمدنصرآبادی نیشاپوریؒ اورامام ابوبکرشبلیؒ کی ابن منصورؒ کے حق میں دیگئی گواہی سے زیادہ معتبرکیسے ہوسکتی ہے؟
۳۔ امام ابو عمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا بن یحییٰ البغدادی (ابن حیویہ)ؒ کی جرح کا جواب
امام ابوعمرابن حیویہ کی اس روایت کی بنا پرکسی ولی اﷲکو تو دور کی بات کسی عام مسلمان کو بھی کافروزندیق قرارنہیں دیا جاسکتا۔ اس واقعہ کے ظاہری الفاظ اورظاہری مفہوم کا حاصل اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ابن منصورؒ نے اپنے اصحاب کو تسلی دی تھی تو ایسے موقع پردوستوں کوتسلی دینا جرم تونہیں اور جس عنوان سے تسلی دی گئی ہے اس کو بھی کوئی عالم کفریازندقہ قرارنہیں دےسکتاکیونکہ شہداءکی حیات برزخیہ مسلّم ہے۔ اور اس بات پربھی کوئی شک نہیں کہ ابن منصورؒاپنے آپ کو مظلوم اور(وزیرحامد) قاتلوں کو ظالم جانتے تھے۔ تو ان کو اپنی شہادت کایقین ہوناکچھ مستبعدنہیں اوراس یقین کے لئے حیات برزخیہ کا اعتقادلازم ہے توپھراس جرح کو دلیل کے طورپرکیسے پیش کیاجاسکتاہے؟ جبکہ ان پرلگائے گئے الزامات بھی صحیح ثابت نہ ہوسکے اور ابن عطاءؒ، خفیف شیرازیؒ، ابوالقاسم نصرآبادیؒ اورامام شبلیؒ جیسے شیخ طریقت نے ان کی تائیدکررکھی ہو۔ لہٰذا ان کے اس کلام کی تاویل بھی شریعت کےعین مطابق ہونی چاہیئےجو ہم نے بیان کی۔
۴۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی جرح کا جواب
سیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اپنی جرح میں جتنے بھی الزامات لگائے ہیں کوئی ایک الزام بھی صحیح سند سےثابت نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگرابن منصورؒزندیق، ملحداورگمراہ ہوتے اور انہیں اسی وجہ سے قتل کیاگیا ہوتاپھرتو جب وزیرحامد نے قاضی ابوعمروقاضی ابوجعفربن بہلول اور بڑےبڑے فقہاءاورشہودکوجمع کرکے ان سے فتویٰ پوچھاتھاتو سب نے فتویٰ دینے سے انکارکیوں کردیاتھا؟
اگرابن منصورؒزندیق، ملحداورگمراہ ہوتے اور انہیں اسی وجہ سے قتل کیاگیا ہوتاپھرتو وزیرحامد بن عباس کو قاضی ابو عمرسے زبردستی فتویٰ لکھوانا پڑا؟
ابن تیمیہؒ کا یہ کہناکہ ’’جو شخص حلاج کے قتل کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ (شخص) دینِ اسلام سے خارج ہے‘‘ ان کے اپنے ہی قول میں تضادظاہرکرتاہے، کیونکہ آپ ایک طرف ایسے شخص کودین اسلام سے خارخ کہتے ہیں اور دوسری طرف اپنی کتاب تلبیس الجھمیہ اورکتابالصفدیۃ میں ابن منصورؒکی کھل کرہمایت کرنے والے ابوالعباس ابن عطاءؒاورانہیں عالم ربانی کہنےوالےابوعبداللہ محمدبن خفیف شیرازیؒ کو زاہداورعابد بھی تسلیم کرتے ہیں اوران کے کلام کوسنت وعقائدصحیحہ کے مطابق بھی قرار دیتے ہیں۔
ابوعبدالرحمٰن سُلمی نے ابن منصورؒکا تذکرہ اپنی کتاب"طبقات الصوفیہ" میں تفصیل سے بیان کیاہے اور ابو القاسم قُشیری نے اپنے رسالہ قشیریہ میں حسین بن منصورؒ کا مکمل عقیدہ توحیدبیان کیا ہےجسےاوپرنقل کیاجاچکاہے۔ جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب الصفدیۃمیں خوداس بات کا اعتراف کیاہےکہ ’’صوفیاء کے جن اکابر مشایخ کاتذکرہ ابو عبد الرحمٰن سُلَمی نے "طبقات الصوفیہ" میں اور ابو القاسم قُشیری نے "الرسالہ" میں کیا ہے، یہ سب مذہب اہل السنہ والجماعہ اور مذہب اہل الحدیث پر تھے‘‘۔ ابن تیمیہؒ کے اس بیان سےخودان ہی کی جرح کارد ہوتا ہےاورساتھ ہی زبیرعلی زئی صاحب کاابوعبدالرحمٰن سُلمی کی رسالہ قشیریہ والی روایت پرکیئے جانے والےاعتراض کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتےہیں: ’’صوفیاء کے جن اکابر مشایخ کاتذکرہ ابو عبد الرحمٰن سُلَمی نے "طبقات الصوفیہ" میں اور ابو القاسم قُشیری نے "الرسالہ" میں کیا ہے، یہ سب مذہب اہل السنہ والجماعہ اور مذہب اہل الحدیث پر تھے، مثلاً: فضیل بن عیاض، جنید بن محمد [بغدادی]، سہل بن عبد اللہ تستری، عمرو بن عثمان مکی، ابو عبد اللہ محمد بن خفیف شیرازی وغیرہ، انکا کلام سنت وعقائد صحیحہ کے مطابق ہے، اور انہوں نے اس بارے میں کتب بھی تصنیف کی ہیں‘‘۔ (کتاب الصفدیۃ: ج۱، ص۲۶۷)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ؒ کی مبہم، متشدداوربلادلیل جرح کی ایک اور اہم کمزوری یہ بھی ہے کہ آپ آٹھویں صدی ہجری کے درمیانی دورسے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حسین بن منصورؒ کے قتل کا واقعہ چوتھی صدی ہجری کے شروع میں رونماہوا، لہٰذا اس واقعہ کے چارسو سال بعد پیداہونے والے امام ابن تیمیہؒ کی مبہم جرح ابن منصورؒکےدورکےجلیل القدرمحدثین و بزرگان دین اوراولیاءکرام ابوالعباس بن عطاء بغدادیؒ،محمد بن خفیف شیرازیؒ، ابراہیم بن محمدنصرآبادی نیشاپوریؒ اورامام ابوبکرشبلیؒ کی ابن منصورؒ کے حق میں دیگئی گواہی سے زیادہ معتبرکیسے ہوسکتی ہے؟
۵۔ حافظ ابن الجوزیؒ کی جرح کاجواب
حافظ ابن الجوزیؒ کایہ کہناکہ ’’بے شک وہ جھوٹا باطل پرست تھا‘‘مبہم اوربلادلیل دعویٰ ہے کیونکہ کسی ایک ضعیف روایت سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ابن منصورؒجھوٹےتھے۔ لہٰذا جرح وتعدیل کے میدان میں اس جرح کی بھی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ محض صرف دعویٰ کردینے سے الزام ثابت نہیں ہوتاجب تک کہ صحیح سند سے وجوہ طعن ثابت نہ ہو۔ اگراس طرح سے کسی بھی مبہم جرح کو قبول کرلیاجائے تو پھر بڑے سے بڑے محدث امام کی ثقاہت وعدالت ثابت نہ ہوسکے گی۔
حافظ ذہبیؒ، حافظ ابن حجرؒ، امام ابن تیمیہؒ اورحافظ ابن الجوزیؒ کی جرحوں کی بہترین مثال کچھ اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ عکرمہ مولی ابن عباسؓ ونافع مولی ابن عمرؓپربھی بعض ائمہ نے سخت جرح کی ہیں مگردوسرے علماءکی توثیق وتعدیل سے ان کو مقبول قراردیاگیا ہےاورجرح مبہم پرالتفات نہیں کیاگیا۔ بالکل یہی معاملہ ابن منصورؒ کے ساتھ بھی کرناچاہیئےکیونکہ ابن منصورؒکی توثیق وتعدیل ابراہیم بن محمدنصرآبادیؒ جیسے حافظ الحدیث و متبع سنت، امام شبلی ؒجیسے امام طریق، ابوعبداﷲبن خفیفؒ جیسے شیخ طریقت اورابوالعباس بن عطاءؒجیسے ولی اﷲومحدث نے کررکھی ہے۔
زبیرعلی زئی صاحب مولانااشرف علی تھانویؒ کے دعوے پر اشکال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’تھانوی صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیاہےکہ ابن منصوراورجنیدکاعقیدۃ توحیدایک ہی تھا‘‘۔ مگرانہوں نے اس دعوی پرکوئی صحیح دلیل پیش نہیں کی‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۱۰)
اشکال کا جواب
زبیرعلی زئی صاحب کی علمی قابلیت وصلاحیات پرتعجب ہوتاہے کہ موصوف کومولانااشرف علی تھانویؒ کے دعوے کی دلیل ہی نظرنہ آسکی، حالانکہ امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیریؒ (متوفی: ۴۶۵)کےرسالۃ القشیریہ میں عقیدۃ توحید کے بیان میں جہاں حضرت جنیدبغدادیؒ کے اقوال درج ہیں، وہیں ابن منصورؒکے اقوال بھی درج ہیں لیکن موصوف نے انہیں پڑھنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی یاپھرپڑھے جانے کے باوجودبھی لاعلمی ظاہرکررہے ہیں تاکہ عام اورلاعلم مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں۔
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیریؒ (متوفی: ۴۶۵)لکھتے ہیں: ’’محمد بن احمداصفہانیؒ نے بتایاکہ ایک شخص حضرت حسین بن منصورؒکے قریب آکھڑاہوااورکہنے لگا، وہ حق کون ہے جس کی طرف صوفیہ اشارہ کرتے رہتے ہیں؟ فرمایاجوسب کوبنادینے والاہے مگراسے بنانے والاکوئی نہیں جسے اس کی علت قراردیاجائے‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۴۹۶)
’’حسین بن منصورؒ اﷲتعالیٰ سے اپنی محبت کا اظہاریوں فرماتے ہیں کہ: محبوب سے تمہاری محبت یہ ہے کہ اس کے سامنے اپنے تمام اوصاف بالائے طاق رکھ دو‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۵۲۳)
خطیب بغدادیؒ نے ابوالطیب محمدبن الفرخان کے حوالے سے روایت کیاہےکہ: ’’میں نے حسین بن منصورسے سناوہ فرماتے تھے کہ اولین وآخرین کے علوم کاخلاصہ چارباتوں میں ہے۔ (۱) رب جلیل کی محبت (۲) متاع قلیل (یعنی دنیا) سے نفرت (۳) کتاب منزل کااتباع (۴) تغیّرحال کاخوف‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۲)
زبیرعلی زئی صاحب کے دجل وفریب وکذب بیانیاںاورباطل وکھوکھلے دعووں کے مدلل جوابات
زبیرعلی زئی صاحب کاپہلا جھوٹ: زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں: ’’ان شدید جرحوں کے مقابلے میں حلّاج مذکور کی تعریف و توثیق ثابت نہیں ہے‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۸)
یہاں زبیرعلی زئی صاحب نے کتنی ڈھٹائی اوربے شرمی کے ساتھ اتنابڑاجھوٹ بولاہے، حالانکہ ابوالعباس ابن عطاؒ جیسے محدث بزرگ، ابوعبداﷲبن خفیف شیرازیؒ جیسے شیخ طریقت، امام شبلیؒ جیسے جلیل القدرامام ومتبع سنت، ابراہیم بن محمد نصرآبادیؒ جیسے حافظ الحدیث ومتبع سنت، امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن القشیری جیسےجلیل القدرمحدث ومفسر، سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانیؒ شیخ فریدالدین عطاؒ اورمولاناجلال الدین رومیؒ جیسےاولیاءاﷲنے ابن منصورؒ کی تعریف وتوثیق کررکھی ہے جنہیں ہم اوپرتفصیل کے ساتھ بحوالہ بیان کرچکے ہیں۔
زبیرعلی زئی صاحب کادوسراجھوٹ: زبیرعلی زئی صاحب تاریخ بغدادکے حوالے سےمحمد بن یوسف القطان کی مبہم جرح نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ابو عبدالرحمٰن السلمی اگر چہ اپنے عام شہر والوں اور اپنے مریدوں کے نزدیک جلیل القدر تھا مگر اسی شہر کے محدث محمد بن یوسف القطان النیسابوری فرماتے ہیں کہ: ’’کان أبو عبدالرحمٰن السلمي غیر ثقۃ۔۔۔۔۔وکان یضع للصوفیۃ الأحادیث“۔ ’’ابوعبدالرحمٰن السلمی غیر ثقہ تھا۔۔۔۔۔ اور صوفیوں کے لئے احادیث گھڑتا تھا‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۹)
زبیرعلی زئی صاحب کایہ دوسرابڑاجھوٹ ہے، کیونکہ ابوعبدالرحمٰن السلمی صرف اپنے عام شہروالوں اور مریدوں کے نزدیک جلیل القدر نہ تھے بلکہ ہرخاص و عام، موافق و مخالف، حکمراں و رعایا، سب کے درمیان اوران کے اپنے شہر میں اور بلاد اسلامیہ کے ہر شہر میں یکساں مقبول تھے۔
حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں: ”ان (ابوعبدالرحمٰن السلمی)کی تصنیفات بہت مقبول تھیں اور لوگ ان کو بہت پسند کرتے تھے اور بڑی گراں قیمت پر خریدتے تھے اور ان سے ان کی تصنیفات روایت کرتے تھے۔ وہ خاص و عام، موافق و مخالف، حکمراں و رعایا، سب کے درمیان اوران کے اپنے شہر میں اور بلاد اسلامیہ کے ہر شہر میں یکساں مقبول تھے اور اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۷، ص۲۴۷؛ سؤالات السجزی للحاکم: ص ۶۵)
آگے مزید لکھتے ہیں: ”حافظ عبدالغافر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہےکہ ابو عبدالرحمٰن اپنے عہد میں طریقہ تصوف کے شیخ تھے۔ ان کو تمام علوم کے حقائق اور طریقہ تصوف کی معرفت حاصل تھی۔ انھوں نے فن تصوف میں بڑی نادر ومشہور کتابیں لکھیں اور انھوں نے ایسا کتب خانہ تشکیل دیا تھا کہ ان سے قبل کوئی بھی ایسا کتب خانہ تیار نہ کر سکا حتیٰ کہ سوسے زیادہ کتابیں لکھیں اورچالیس سال سے زیادہ درس وتدریس کاکام کیااورنیساپور، مرو، عراق اورحجازمیں حدیثیں لکھیں اورحفاظ کواس پرمنتخب فرمایا‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۷، ص۲۴۹)
خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: ”ابو عبدالرحمٰن کا مقام و مرتبہ ان کے اہل شہر میں بہت بلند تھا اور صوفیہ کے درمیان ان کی بڑی حیثیت تھی۔ ساتھ ہی وہ حدیث کے بھی عالم تھے۔ انھوں نے مشائخ حدیث سے روایات جمع کیں اور کتابیں لکھیں۔ نیشا پور میں ان کا ایک دائرہ (خانقاہ) اب بھی ہے جس میں صوفیہ رہتے ہیں، میں خود وہاں گیاتھا اسی دائرہ میں ان کی قبر ہے میں نے قبر کی زیارت بھی کی‘‘۔ (تاریخ بغداد: ج۳، ص۴۳)
امام ذہبیؒ اور خطیب بغدادیؒ کے بیان سے اس بات کی واضح دلیل مل گئی کہ ابوعبدالرحمٰن السلمی نہ صرف اپنے عام شہروالوں میں مقبول تھے بلکہ بلاد اسلامیہ کے ہر شہر میں یکساں مقبول تھے۔
ابوعبدالرحمٰن السلمی پر زبیرعلی زئی کی تنقید کے حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ ان پر حدیث وضع کرنے کا الزام محمد بن یوسف القطان نے لگایا ہے، لیکن ان کا الزام بھی مبہم ہے۔ ان کی جرح ہے ”وکان یضع للصوفیہ احادیث“ اس طرح کی مبہم جرح کسی کو متہم کرنے کے لیے کافی نہیں ہےجبکہ اس جرح کے خلاف آئمہ حدیث کے اقوال بھی موجودہوں۔ اس لیے خطیب بغدادیؒ جنہوں نے یہ جرح سب سے پہلے نقل کی ہے، انھوں نے بھی کہا ہے کہ ’’وقدکان مع ذلک صاحب حدیث مجوداً‘‘۔ ’’تاہم وہ حدیث کےماہرتھے‘‘۔ (تاریخ بغداد: ج۳، ص۴۳)(سیراعلام النبلاء: ج۱۷، ص۲۵۰)
طبقات شافعیہ میں امام تاج الدین سبکیؒ (متوفی۷۷۱ھ)محمد بن یوسف القطان کی جرح نقل کرنے کے بعدخطیب بغدادیؒ کا قول رقم کرتےہوئےجواب میں لکھتے ہیں: ’’قول الخطیب فیہ ھوالصحیح، وابو عبدالرحمن ثقہ، ولاعبرة بھذا الکلام فیہ‘‘۔ ’’خطیب کا قول بالکل صحیح ہےاور ابو عبدالرحمٰن ثقہ ہیں اور اس قول (یعنی یوسف القطان کےقول) کا کوئی اعتبار نہیں‘‘۔ (الطبقات الشافعیہ: ج۵، ص۱۴۵؛ سؤالات السجزی للحاکم: ص ۶۵)
حافظ ابو یعلی الخلیلیؒ (المتوفی ۴۶۶ھ) فرماتے ہیں: ’’ثِقَةٌ، مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ‘‘۔ ’’ان (یعنی ابو عبدالرحمٰن سُلمی) کے ثقہ ہونے پرسب کااتفاق ہے‘‘۔ (الارشاد فی معرفۃ علماء اہلحدیث: ص۸۶۰)
زبیرعلی زئی صاحب کاتیسراجھوٹ: زبیرعلی زئی صاحب اپنے رسالےماہنامہ الحدیث حضرومیں تیسراجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس شدید جرح کے مقابلے میں سلمی مذکور کی تعدیل بطریقہِ محدثین ثابت نہیں ہے‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۹)
امام تاج الدین سبکیؒ کامحمد بن یوسف القطان کی جرح کورد کرتے ہوئے ابوعبدالرحمٰن السلمی کو ثقہ قراردینا اور ساتھ ہی حافظ ابویعلی الخلیلیؒ کاانہیں ’’ثِقَةٌ، مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ‘‘کہنااس بات کی واضح دلیل ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب نے یہاں بھی انتہائی جھوٹ اورکذب بیانی کی ہےاورکس ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہوئےعام اور لاعلم مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ کسی عالم کو اتنابڑاجھوٹ بولتے ہوئے شرم آنی چاہیے جبکہ یہ لوگ اپنے آپ کو اہلحدیث کہتے ہیں۔
امام ذہبیؒ ان کے ضعف کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’اگرچہ محمد بن یحییٰ المزکی، امام ابوبکربیہقی اور قاسم بن الفضل الثقفی نے ان سے روایات لی ہیں، لیکن حدیث کے معاملے میں وہ ضعیف ہیں‘‘۔  اس کے بعد خطیب بغدادیؒ کا قول نقل کرتے ہوئےامام ذہبی ؒنے ان کا دفا ع بھی کیا ہےاورمحمد بن یوسف القطان کے اس اعتراض کاجواب دیتےہوئےلکھا ہے کہ: ’’السلمی نے سوالات دارقطنی لکھی ہے جس میں رواة اور مشائخ کے بارے میں ماہرانہ سوالات کیے ہیں‘‘۔ (سیراعلام النبلاء: ج۱۷، ص۲۵۰، ۲۵۲؛ سؤالات السجزی للحاکم: ص ۶۵)
محمد بن یوسف القطان کی جرح کو اگرقبول بھی کرلیاجائے توبھی امام ذہبیؒ کے قول سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہےکہ وہ السلمی کوروایات حدیث میں ضعیف کہہ رہے ہیں تاریخی روایات میں نہیں اور ابوعبدالرحمٰن السلمی کاابن منصورؒکے حالات وواقعات نقل کرنا بھی تاریخی روایات ہیں۔
اصول جرح وتعدیل کی روسےایسا ممکن ہے کہ ایک آدمی ایک فن میں ماہر اور ثقہ نہ ہو لیکن دوسرے فن کا امام ہو۔ اسی حقیقت کے پیش نظر محدثین نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ بعض ائمہ فن حدیث میں تو ناقابل اعتبار ہیں لیکن فن تفسیریافن مغارزی میں ان کی روایات قابل قبول ہوتی ہیں۔
’’قال الامام البیہقی: قال یحیی بن سعید یعنی القطان تساھلوا فی التفسیر عن قوم لایوثقونھم فی الحدیث ثم ذکر لیث بن ابی سلیم و جُوَيْبِرِ بن سعید والضحاک ومحمد بن السائب یعنی الکلبی وقال ھولاء لایحمد حدیثھم ویکتب التفسیر عنھم‘‘۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی: ج۱،ص۳۳؛ میزان الاعتدال للذہبی: ج۱، ص۳۹۱؛  التہذیب لابن حجر: ج۱، ص۳۹۸)
محدثین کے اس اصول کی بہترین مثال محمد بن اسحاق بن یسارراوی ہے جو جمہورمحدثین کے نزدیک ضعیف ہے لیکن مغارزی میں امام ماناجاتاہے۔ اسی بنیاد پرغیرمقلدین حضرات فاتحہ خلف الامام اورطلاق ثلاثہ جیسےموضوعات پرمحمدبن اسحاق بن یسارکی روایات کو دلیل کے طورپرپیش کرتےہیں۔
مشہورغیرمقلدمحدث علامہ ناصرالدین البانیؒ لکھتے ہیں: ’’محمد بن اسحاق مغارزی میں  حجت ہے احکام میں حجت نہیں خصوصاًجب وہ دوسرے ثقات کی مخالفت کرے‘‘۔ (ضعیف ابی داؤد: ج۲، ص۱۶۵)
محمد بن یوسف القطان نے السلمی پر دوسرا الزام یہ بھی لگایا ہے کہ وہ امام حاکم کی وفات کے بعد یحییٰ بن معین کی تاریخ سے اصم کی روایات بیان کرنے لگے۔ یہ جرح بھی مبہم ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل یا مثال نہیں ملتی۔
امام حاکم کا انتقال ۴۰۵ھ میں ہوا۔ اس وقت ابو عبدالرحمٰن السلمی کی عمر ۸۰سال تھی۔ کیا یہ توقع کی جا سکتی ہےکہ ایک شخص ساری زندگی زہد و تقویٰ کی زندگی گزارتا رہے اور بڑھاپے میں ایک معمولی بات کے ذریعے اپنے تمام نامہ اعمال کو سیاہ کر لے۔ اس لیے بظاہر السلمی کو وضع حدیث سے متہم کر نے یا دوسرے اعتراض سے قتہم کر نے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ (سیراعلام النبلاء: ج۷، ص۴۳۳)
امام ابو عبد اللہ الحاکمؒ فرماتے ہیں: ’’كثير السماع والطلب متقن فيه من بيت الحديث والزهد والتصوف‘‘۔ (سؤالات السجزی للحاکم: ص ۶۵)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتےہیں: ’’صوفیاء کے جن اکابر مشایخ کاتذکرہ ابو عبد الرحمٰن سُلَمی نے "طبقات الصوفیہ" میں اور ابو القاسم قُشیری نے "الرسالہ" میں کیا ہے، یہ سب مذہب اہل السنہ والجماعہ اور مذہب اہل الحدیث پر تھے، مثلاً: فضیل بن عیاض، جنید بن محمد [بغدادی]، سہل بن عبد اللہ تستری، عمرو بن عثمان مکی، ابو عبد اللہ محمد بن خفیف شیرازی وغیرہ، انکا کلام سنت وعقائد صحیحہ کے مطابق ہے، اور انہوں نے اس بارے میں کتب بھی تصنیف کی ہیں‘‘۔ (کتاب الصفدیۃ: ج۱، ص۲۶۷)
حافظ جمال الدین ابن الزکی المزیؒ نے اپنی کتاب تہذیب الکمال میں ابوعبدالرحمٰن سُلمی سے روایت نقل کرکے ان کی توثیق فرمائی ہے۔ ’’ابوعبدالرحمٰن محمد بن حسین السلمی صوفی کہتے ہیں کہ میں نے حافظ دار قطنی سے پوچھا کہ ابن خزیمہ اور نسائی جب کوئی حدیث روایت کریں تو آپ کس کو مقدم رکھیں گے؟ کہا: نسائی کو اس لیے کہ وہ بڑے مسندہیں، لیکن یہ بات بھی ہے کہ میں نسائی پر کسی کو بھی فوقیت نہیں دیتا گرچہ ابن خزیمہ بے مثال امام اور پختہ عالم ہیں‘‘۔ (تہذیب الکمال: ج۱، ص۳۳۴، ۳۳۵)
زبیرعلی زئی صاحب کاچوتھاجھوٹ: زبیرعلی زئی صاحب مولانا ظفراحمدعثمانیؒ کی کتاب ’’القول المنصور فی ابن المنصور، سیرت منصورحلّاج‘‘پراعتراض کرتےہوئےاپنےرسالے ماہنامہ الحدیث حضرومیں چوتھاجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عبدالکریم بن ہوازن نے رسالہ قشیریہ میں حسین الحلاج کو بطورِ ولی ذکر نہیں کیا۔ رسالہ قشیریہ اس کے ترجمہ سے خالی ہے۔ کسی دوسرے شخص کے حالات میں ذیلی طور پر اگر ایک موضوع روایت میں اُس کا نام آگیا ہے تو اس پر خوشی نہیں منانی چاہئے‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۹)
یہاں بھی زبیرعلی زئی صاحب نے کتنی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولا ہےکہ ’’کسی دوسرے شخص کے حالات میں ذیلی طور پر اگر ایک موضوع روایت میں اُس کا نام آگیا ہے تو اس پر خوشی نہیں منانی چاہئے‘‘، حالانکہ عبدالکریم بن ہوازن نے کسی دوسرے شخص کے حالات میں ذیلی طورپرنہیں بلکہ رسالہ قشیریہ کےمقدمہ میں حسین بن منصورحلّاجؒ کا مکمل عقیدہ توحید بیان کیااورساتھ ہی کتاب الشعب (توحیدسے واقفیت کے بیان) اورباب المحبۃ (عشق الہٰی کے بیان) میں بھی ان کا کلام درج کیاہے، جس سےاس بات کا واضح ثبوت ملتاہے کہ امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیریؒ نے حسین بن منصورؒ کا عقیدہ توحید اورعشق الہٰی کوصحیح تسلیم کیاہے۔
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیریؒ (متوفی: ۴۶۵) اپنی کتاب رسالۃ القشیریۃمیں روایت نقل کرتے ہیں کہ: ’’ہم کو شیخ ابوعبدالرحمٰن سلمیؒ نے خبردی کہ میں نے محمد بن غالب سے سناکہ انہوں نے ابو نصراحمدابن سعیدالاسفنجابی سے سناکہ حسین بن منصورنے فرمایاکہ اﷲتعالیٰ نے ہرچیزکے لئے حدوث لازم کردیا ہےکیونکہ قدیم ہونا اس کے لئے مخصوص ہے۔ پس جس چیز کاظہورجسم سے ہے اس کے لئے عرض لازم ہےاورجوچیزآلات واسباب سے مجتمع ہوئی ہے اس کی قوتیں اس کو تھامے ہوئے ہیں (یعنی وہ ان قوتوں کی محتاج ہے)اورجس چیزکوایک وقت مجتمع کرتاہےدوسراوقت اسکو متفرق کردیتاہےجسکواس کا غیرقائم کرتاہے۔ اس کو دوسرے کی احتیاج ہے جس پروہم کی دسترس ہوسکتی ہے، تصویرخیالی اس تک پہنچ سکتی ہے۔
اورجس کومحل اور مکان اپنے اندرلئے ہوئے ہےاس کوکیفیت مکانی محیط ہے جوکسی جنس کے تحت میں ہےاس کے لئے مکیف اورممیّزہونا لازم ہے۔ کیونکہ جنس کے تحت میں انواع ہوتی ہیں اورہرنوع دوسری نوع سے کسی فصل کے ذریعہ ممتازہوتی ہے۔ اﷲتعالیٰ پرنہ کوئی مکان قوق سایہ فگن ہے، نہ کوئی مکان تحت اس کواٹھائےہوئےہے، کوئی حداس کے سامنےنہیں اور کوئی قریب ونزدیک اس کامزاحم نہیں (یعنی اسکے نزدیک کوئی نہیں جو مزاحمت کااستعمال ہوسکے) نہ کوئی اس کواپنے پیچھے لے سکتاہےنہ سامنے ہوکراس کومحدودکرسکتاہے، نہ اولیّت نے اس کو ظاہرکیانہ بعدیت نے اس کی نفی کی، نہ لفظ کل نے اس کواپنے اندرلیا (کیونکہ نہ وہ کسی کل کا جزوہے نہ کلی کافردہے) نہ لفظ کان نے اس کو ایجادکیانہ لیس نے اس کومفقودکیا (یعنی جب یہ کہاجاتاہے کہ اﷲتعالیٰ ایساہےاورایسانہیں ہے تویہ مطلب نہیں کہ تمہارے بیان کے بعدوہ ایساہوگیااورتمہاری تزیہ کے بعدوہ ایسا نہیں رہا، بلکہ جن صفاتِ کمال سے وہ موصوف ہے ہمیشہ سے موصوف ہے اور جن عیوب سے وہ منزہ ہے ہمیشہ سے منزہ ہے)۔
اس کے وصف کے لئے کوئی تعبیرنہیں (اورجوتعبیرہے بھی وہ ناقص ہے) اسکے فعل کی کوئی علت نہیں، اسکے وجودکی کوئی نہایت نہیں (نہ ماضی میں نہ مستقبل میں کیونکہ وہ ازلی بھی ہے اور ابدی بھی)۔
وہ اپنی مخلوق کے احوال (وکیفیات)سے منزہ ہے اس کو اپنی مخلوق سے کسی قسم کا امتزاج (واختلاط) نہیں، نہ اس کے فعل میں آلات واسباب کی احتیاج، وہ اپنی قدامت کے سبب مخلوق سے الگ ہے، جیسامخلوق اپنے حدوث کے سبب اس سےالگ ہے (پس خالق مخلوق کے اندرنہ حلول کرسکتاہےنہ اس کے ساتھ متحدہوسکتاہے)۔
اگرتم کہوکہ وہ کب ہوا؟ تو اس کاوجودوقت (اورزمانہ سے) سابق ہےاگرتم ھوکہو(یعنی اس کی طرف ھویاوہ کہہ کراشارہ کرو) توہااورواؤاسی کے پیداکیئے ہوئے ہیں اور مخلوق سےخالق پراشارہ نہیں ہوسکتامحض یاد کے درجے ہیں یاتمام تصورہوسکتاہے۔ اگرتم کہووہ کہاں ہے؟ تو ہرمکان سے اس کاوجودمقدم ہے، حرف اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں)۔
اوراس کا وجودہی خوداس کا مثبت ہےاوراس کی معرفت یہ ہے کہ اس کوواحدجانو۔ اور توحیدیہ ہےکہ مخلوق سے اس کو ممتاز (اورالگ) سمجھو، جوکچھ وہم کے تصورمیں آتاہے وہ اس کے غیرکاہے۔
اور جوچیزاس (کےپیداکرنے) سے پیداہوئی وہ اس میں کیونکرحلول کرسکتی ہےکیونکہ حال ومحل میں اتحادہوتاہےاورحادث قدیم کے ساتھ متحدنہیں ہوسکتا، اور جس چیزکواس نے نشوونمادیا اس کی طرف کیونکرپہنچ سکتی ہے۔ آنکھیں اپنےاندراس کو نہیں لے سکتیں اور گمان اس کے پاس تک نہیں پہنچ سکتا۔
اس کا قرب یہ ہے کہ مکرم بناوے، اوربعدیہ ہےکہ ذلیل کردے۔
اسکی بلندی چڑھائی کے ساتھ نہیں، اس کاآنا بدون انتقال کےہے۔
وہ اوّل بھی ہے اور آخربھی، ظاہربھی ہےاور باطن بھی ہے، قریب بھی ہےاوربعید بھی، اسکی مثال مثل کوئی شئےنہیں، وہی سننے والادیکھنے والاہے‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۲۷-۲۸)
’’محمد بن احمداصفہانیؒ نے بتایاکہ ایک شخص حضرت حسین بن منصورؒکے قریب آکھڑاہوااورکہنے لگا، وہ حق کون ہے جس کی طرف صوفیہ اشارہ کرتے رہتے ہیں؟ فرمایاجوسب کوبنادینے والاہے مگراسے بنانے والاکوئی نہیں جسے اس کی علت قراردیاجائے‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص ۴۹۶)
’’حسین بن منصورؒ اﷲتعالیٰ سے اپنی محبت کا اظہاریوں فرماتے ہیں کہ: محبوب سے تمہاری محبت یہ ہے کہ اس کے سامنے اپنے تمام اوصاف بالائے طاق رکھ دو‘‘۔ (الرسالۃ القشیریۃالامام ابوالقاسم القشیری: ص۵۲۳)
اسی طرح خطیب بغدادیؒ نے ابوالطیب محمدبن الفرخان کے حوالےسےبھی روایت بیان کی ہے جس سے حسین بن منصورؒ کا صحیح العقیدہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔
خطیب بغدادیؒ نے ابوالطیب محمدبن الفرخان کے حوالے سے روایت کیاہےکہ: ’’میں نے حسین بن منصورسے سناوہ فرماتے تھے کہ اولین وآخرین کے علوم کاخلاصہ چارباتوں میں ہے۔ (۱) رب جلیل کی محبت (۲) متاع قلیل (یعنی دنیا) سے نفرت (۳) کتاب منزل کااتباع (۴) تغیّرحال کاخوف‘‘۔ (تاریخ مدینۃ السلام، الأمام خطیب بغدادیؒ: ج۸، ص۶۹۲)
زبیرعلی زئی صاحب کاپانچواں جھوٹ: زبیرعلی زئی صاحب مولانا ظفراحمدعثمانیؒ کی کتاب ’’القول المنصور فی ابن المنصور، سیرت منصورحلّاج‘‘پراپنےدوسرےاعتراض میں پانچواں جھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’علمی میدان میں عبدالوہاب الشعرانی، خرافی صوفی بدعتی کے بے سند حوالوں سے کام نہیں چلتا بلکہ صحیح و ثابت سندوں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ۲۱،ص۱۰)
لگتاہے زبیرعلی زئی صاحب کے خودساختہ علمی میدان میں بے سند حوالوں سے توکام نہیں چلتا لیکن جھوٹ اورکذب بیانیوں سے ضرور کام چلتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف نے اپنی صرف چارصفحات پرمشتمل ناقص تحقیق کوصحیح ثابت کرنے کے لئےکتنی ڈھٹائی کے ساتھ پانچ جھوٹ بول ڈالے۔ زبیرعلی زئی صاحب کابلادلیل امام عبدالوہاب الشعرانیؒ کو خرافی صوفی بدعتی کہنا بہت بڑاجھوٹ اورصریح بہتان ہے۔
زبیرعلی زئی صاحب کے اس جھوٹے اوربے بنیادالزام کا مکمل رد امام عبدالوہاب الشعرانیؒ کی عقائد پرلکھی ہوئی کتاب ’’اليواقيت والجواهر فی بيان عقائد الأکابر‘‘سے ہوتا ہے، جس میں انہوں نے عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت، عقیدہ ختم نبوت، عقیدہ آخرت، عذاب قبر، جنت وجہنم اوردیگربنیادی عقائد کوقرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیاہے جس سے آپ کے صحیح العقیدہ ہونے کاواضح ثبوت ملتاہےاورساتھ ہی بدعت کی جامع ومعنیٰ تعریف قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرمائی ہے۔
امام عبد الوھاب الشعرانیؒ اپنی کتاب ’’الیواقیت و الجواہر فی بیان عقائد الاکابر‘‘ میں ایک استفتاء کے جواب میں بدعت حسنہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ’’(فإن قلت): فهل يلحق بالسنة الصحيحة في وجوب الإذعان لها ما ابتدعه المسلمون من البدعة الحسنة؟
(فالجواب): کما قاله الشيخ في الباب الثاني و الستين و مائتين: إنه يندب الإذعان لها ولا يجب کما أشار إليه قوله تعالي: ﴿وَرَهبَانِيّة أبْتَدَعُوها مَا کَتَبْنٰها عَلَيْهِم [الحديد:۲۷] وکما أشار إليها قوله صلي الله عليه وآله وسلم: ﴿من سن سنة حسنة فقد أجاز لنا ابتداع کل ما کان حسناً وجعل فيه الأجر لمن ابتدعه ولمن عمل به مالم يشق ذلک علي الناس، وأخبر أن العابد لله تعالى بما يعطيه نظره إذا لم يكن على شرع من الله تعالى معين يحشر أمة وحده، يعني بغير إمام يتبعه، فجعله خيرا ً وألحقه بالأخيار‘‘۔ ’’اگر تو اعتراض کرے کہ بدعت حسنہ میں سے جو نئی چیز مسلمانوں نے اختیار کی ہے کیا وہ وجوب اقرار میں سنت صحیحہ کے ساتھ (درجہ میں) مل جاتی ہے؟
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس نئی چیز یعنی بدعت حسنہ کا اقرار کرنا مندوب ہے نہ کہ واجب جیسا کہ اس چیز کی طرف اللہ تعالیٰ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے ﴿وَرَهبَانِيّة أبْتَدَعُوها مَا کَتَبْنٰها عَلَيْهِم[الحدید:۲۷] ، (انہوں نے اس رہبانیت کو از خود شروع کر لیا تھا یہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی) اور جیسا کہ اسی چیز کی طرف حضور نبی اکرمﷺکا یہ فرمان اشارہ کرتا ہے ﴿من سن سنة حسنة﴾(جس نے کوئی اچھا طریقہ شروع کیا) اور ہر وہ چیز جو اچھی ہو اسے شروع کرنا ہمارے لیے جائز ہے اور اس میں شروع کرنے والے کے لئے اور اس پر عمل کرنے والے کے لئے اجر رکھ دیا گیا ہے جب تک اس اچھی چیز پر عمل کرنا لوگوں کو مشقت میں نہ ڈالے‘‘۔ (الیواقیت و الجواہر فی بیان عقائد الاکابر: ج۲، ص۳۸۳)
جو شخص بدعت کی اتنی خوبصورت اورعمدہ تعریف قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کرے وہ خودبدعتی کیسے ہوسکتاہے، لہٰذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ زبیرعلی زئی صاحب کا بلادلیل بہتان جھوٹااوربے بنیادہے۔
زبیرعلی زئی صاحب کے اس بہتان کے جواب میں ضروری ہوگا کہ امام عبد الوھاب الشعرانیؒ کاسلسلہ نسب اورعلمی قابلیت کی مختصرتفصیل پیش کی جائے تاکہ قارئین کوان کے علمی مقام کاکچھ اندازہ ہوسکے۔
شیخ عبدالوھاب بن احمدبن علی الشعرانیؒ کےمختصرحالات
اِمام عبدالوہاب الشعرانیؒ کی وِلادت ۷۲ رمضان المبارک ۸۹۷ھ میں ہوئی اوروفات ۹۷۳ھ میں ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی اردو: ص۳۰) (المقاصد الحسنہ ،امام سخاوی: ص۲۷؛دارالکتب العربی)
آپ کا سلسلۂ نسب حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے: ’’آپ نے اپنا نسب یوں بیان فرمایاہےعبد الوہاب بن احمد بن علی بن احمد بن علی بن محمد بن زوفا ابن الشیخ موسیٰ جنہیں بہنساکے شہروں میں ابوعمران کی کنیت سے یاد کیاجاتاہے۔ آپ میرے چھٹے داداہیں۔ بن سلطان احمد بن سلطان سعید ابن سلطان قا شین ابن سلطان محیا بن سلطان زوفا بن ریان بن سلطان محمد بن موسیٰ ابن السیدمحمد بن الحنفیہ بن الامام علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی اردو: ص۲۹) (ارشاد الطالبین الامام عبدالوہاب الشعرانی: ص۱۱؛دارالکتب العلمیہ بیروت)
آپ اپنے سلسلۂ نسب وشرافت نسبی کی برکات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اگرچہ غالب طورپرتقویٰ کے بغیرنسبی شرافت نفع نہیں دیتی لیکن کبھی کچھ فائدہ حاصل ہوتاہےجیساکہ اﷲتعالیٰ نے اس کااشارہ اپنے اس ارشادمیں فرمایاہے ﴿وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا﴾[کہف: ۸۲] (جن دویتیم بچوں کی دیوارحضرت خضراورموسیٰ علیٰ نبیناوعلیہم الصلوٰۃ والسلام نے کھڑی کردی) ان دونوں کا باپ نیک تھا۔ اگریہ بات نہ ہوتی کہ ان کاباپ صالح تھاتووہ اس انعام میں داخل نہ ہوتےاوراس کی صفت صلاح کی تصریح فرمانے کاچنداں فائدہ نہ ہوتا۔ پس میں اﷲتعالیٰ کی حمدکرتا ہوں کہ اس نے مجھے نادرفی بادشاہوں کی اولاد میں سے کیا‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی اردو: ص۲۹)
کُتبِ احادیث کے معروف شارح و محدثینِ متاخرین کی سنَد حضرت امام عبدالرؤف المناویؒ (متوفی: ۱۰۳۱ھ) اپنی کتاب ’’الکواکب الدریہ فی تراجم السادۃ الصوفیہ الطبقات الکبریٰ‘‘ میں امام شعرانیؒ کی شان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عبدالوھاب بن احمد الشعرانی ہمارے شیخ ہیں، امام ہیں، عالم وعامل ہیں، لوگوں کی نظرمیں فضیلت رکھنے والے باعزت شخصیت ہیں اوروصیلہ رکھتے ہیں، عبادت گزارہیں، پرہیزگارہیں، فقیہہ ہیں، محدث ہیں، صوفی ہیں، بزرگ ہیں، صاحب نسبت ہیں اورامام محمدبن حنفیہ رضی اﷲعنہ کی اولادمیں سے ہیں‘‘۔ (طبقات الکبریٰ للمناوی: ج۳، ص۳۹۲؛ دار صادر بیروت)
امام شھاب الدین احمدبن محمد العکری حنبلی دمشقیؒ(متوفی۱۰۸۹ھ) اپنی کتاب ’’شذرات الذھب فی اخبارمن ذھب‘‘ میں امام شعرانیؒ کی شان کچھ اس طرح بیان کرتےہیں: ’’شیخ عبدالوھاب بن احمد الشعرانی شافعی کے بارے میں شیخ عبدالرؤف المناوی "طبقات الکبریٰ" میں بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ امام عالم وعامل ہیں، عبادت گزارہیں، پرہیزگارہیں، فقیہہ ہیں، محدث ہیں، صوفی ہیں، بزرگ ہیں، صاحب نسبت ہیں اورامام محمدبن حنفیہ رضی اﷲعنہ کی اولادمیں سے ہیں‘‘۔ (شذرات الذھب ابن عماد الحنبلی: ج۸، ص۵۴۴)
امام عبدالرؤف المناویؒ آپ کی کرامت کے بیان میں لکھتے ہیں: ’’جو کتب آپ نے حفظ فرمائیں ان میں سے صرف چند ایک کے نام یہ ہیں، المنہاج النووی، الفیتین، تو ضیح ابن ہشام، تلخیص المفتاح،شاطبیہ،اورقوائدابن ہشام، الرَّوض۔ میں نے تاریخ اور طبقات کی کتب میں آج تک کسی کے حالات میں یہ نہیں دیکھا کہ اسے اتنی(یعنی امام شعرانی کی طرح) کتابیں حفظ ہوں‘‘۔ (طبقات الکبریٰ للمناوی:  ج۳، ص۳۹۲؛ دار صادر بیروت)
حضرت امام شعرانی ؒ عالم اسلام کی عظیم وقدیم درس گاہ جامعہ الازہر الشریف میں داخل ہوئے اور مصر کے تقریباً پچاس مشائخ کے سامنے زانوئے تلمّذ تہ فرمایا اور علومِ منقولات و معقولات حاصل کیئے جن میں مشہور اساتذہ کے اسما گرامی یہ ہیں: ’’شیخ امین الدین جامع الغمری کے امام جن سے آپ نے المنھاج، جمع الجوامع، شرح الفیہ عراقی، الفیہ ابن مالک پڑھیں۔ شیخ شمس الدواخلی سے شرح الارشاد، الروض، شرح الفیہ ابن مصنف، شرح التوضیح، مطول، شرح جمع الجوامع، شرح الفیہ للعراقی۔ النورالمحلی سے شرح جمع الجوامع اور حاشیہ المعلقات السبع، شرح المقاصد۔ ملا علی عجمی سے نحو کی تمام کتب، الاشمعونی سے المنہاج، الفیہ، جمع الجوامع۔ شیخ الاسلام زکریا سے رسالہ قشیریہ، الروض، التحریر ، آداب البحث اوران کے علاوہ بھی بہت ساری کتب پڑھیں‘‘۔ (طبقات الکبریٰ للمناوی: ج۳، ص۳۹۳؛ دار صادر بیروت)
امام شعرانی ؒامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد تھے لیکن باقی ائمہ مجتہدین اور ان کی تحقیقات کے متعلق اس قدر عقیدت و محبت رکھتے تھے جس قدر ان کے مقلد ین کو اپنے امام کے ساتھ عقیدت و محبت ہوتی ہے۔ عبد الحی بن أحمد بن محمد ابن العماد العكری الحنبلیؒ لکھتے ہیں: ’’آپ خود فرماتے ہیں کہ میں اپنے مذہب کی کتابوں کی بہ نسبت باقی تین مذاہب کے ائمہ یعنی امام ابو حنیفہ، امام مالک، اور امام احمد بن حنبل رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی کتابوں کا مطالعہ زیادہ کرتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب امام شافعی ؒکے مذہب میں تبحر (مہارت)حاصل کرلیا تو مجھے ایسے مسائل کی معرفت کی ضرورت محسوس ہوئی جن پر چاروں ائمہ کرام کا اجماع ہو یا پھر تین ائمہ جن پر متفق ہوں تاکہ میں ان کے ممنوعات پر عمل سے پرہیز کر سکوں اور جس کا انہوں نے حکم دیا ہے اس پرعمل کر سکوں‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی اردو: ص۳۴) (شذرات الذھب ابن عماد الحنبلی: ج۸، ص۵۴۶)
آپ نےاپنے استاذ شیخ زکریا انصاری کی تصنیف ’’الروض‘‘ کا مطالعہ تیس بار کیا۔ اما م شافعیؒ کی کتاب ’’الأم‘‘کا مطالعہ تین بار کیا۔ شیخ محی الدین ابن عربی کی تیس جلدوں پر مشتمل کتاب ’’المختصر‘‘کا ایک بار، امام الماوردی کی کتاب ’’الحاوی‘‘اور’’الاحکام السلطانیہ‘‘ کا ایک ایک مرتبہ، شیخ ابو محمد الجوینی کی کتاب ’’المحیط‘‘ ایک بار، امام غزالیؒ کی’’الوسیط‘‘ ایک بار، شرح المہذب پچاس بار، شرح مسلم للنووی (اٹھارہ جلدیں) پندرہ مرتبہ، علامہ بدر الدین عینی کی شرح بخاری(۵۴جلدیں )دوبار۔
کتب تفسیر: تفسیر کواشی دس بار، تفسیر ابن نقیب المقدسی (۱۰۰جلدوں پرمشتمل ہے) کاایک بار، تفسیر جلالین تیس بار، تفسیر بغوی،تفسیر خازن،تفسیر ابن عادل،تفسیر ابن زہرہ، تفسیر قرطبی،تفسیر ابن کثیر،تفسیر بیضاوی۔
کتب احادیث: صحاح ستہ،صحیح ابن خزیمہ،صحیح ابن حبان، مسندامام احمد، مؤطا امام مالک، طبرانی، جامع الاصول، جامع کبیر، جامع صغیر، زیادات۔
کتب لغت:صحاح الجوہری، قاموس، نہایۃ ابن اثیر، نووی کی تہذیب الاسمائ اللغات۔
کتب اصول وکلام: شرح العضد، شرح منہاج البیضاوی، کتاب المستصفی، کتاب الامالی، شرح المقاصد، شرح عقائد۔
کتب فتاویٰ: فتاویٰ القفال، فتاویٰ القاضی الحسین، فتاویٰ الماوردی، فتاویٰ ابن ابی صباغ، فتاویٰ ابن الصلاح، فتاویٰ ابن السلام، فتاویٰ النووی، فتاویٰ السبکی، فتاویٰ البلقینی، فتاویٰ الشیخ زکریا۔
کتب قوائد: قواعد الشیخ عزالدین البکری والصغریٰ، قواعد العلائی، قواعد السبکی، قواعد الزرکشی۔
کتب سیرت: سیرت ابن ہشام، سیرۃ ابن اسحاق، سیرت الکلبی، سیرۃ ابی الحسن البکری، سیرت الطبری، سیرت الکلائی۔
کتب تصوف:قوت القلوب، حلیۃ الاولیائ، رسالہ قشیریہ، عوارف المعارف، احیائ العلوم، الفتوحات المکیۃ۔
امام شعرانیؒ فرماتے ہیں یہ ان چند کتابوں کا ذکر ہے جن کا مطالعہ کرنا مجھے یاد ہے۔ (الطبقات الکبریٰ اللشعرانی اردو: ص۳۲-۳۳) (المنن الکبریٰ الامام عبدالوہاب شعرانی: ص۷۰-۷۶؛ دارالکتب العلمیہ)
معروف مستشرق آر، اے، نکلسن نے اپنی شہرہ آفاق تحقیق ’’تاریخ ادبیاتِ عرب‘‘میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی علمی صحبت کے فوائد تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہمارے لئے مفید ہوگا کہ اگر ہم چندلمحات مسلمانوں کے آخری صوفی وعالم شیخ عبدالوہاب شعرانی کے ساتھ گزاریں۔ وہ(امام شعرانی) ایک ایسے محقق اورمفکر عالِم ہیں کہ اُن کے اَثرات موجودہ دور میں بھی نمایاں طریقے سے محسوس کئے جارہے ہیں‘‘۔ (Literary History of the Arabs, By R.A. Nicholson, Page # 464 Cambridge University Press)
ایسی جلیل القدرشخصیت جن کا سلسلۂ نسب حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہو، علم کا ایسا حریث جنہوں نے علم تفسیر، علم حدیث، فقہی علوم، علم لغات، اصول وقوائد، فتاوجات اورسیرت وتصوف کے تمام شعبہ جات میں مہارت حاصل کررکھی ہو، جن کی توثیق بڑےبڑے ائمہ دین سمیت معروف مستشرق آر، اے، نکلسن جیسے مغربی مورخ نے کررکھی ہو، ایسی جلیل القدرعلمی شخصیت کے بارے میں زبیرعلی زئی صاحب جیسے کذاب لوگوں کابلادلیل اعتراض کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
اس قدرجھوٹ بولنے کے بعدبھی زبیرعلی زئی صاحب کتنی بے شرمی کے ساتھ اپنے رسالہ میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’الحدیث حضروکایہ امتیاز ہے کہ الحدیث میں صرف صحیح وثابت حوالہ ہی بطوراستدلال لکھاجاتاہے‘‘۔ اس قدرجھوٹ اورکذب بیانی توکسی فرقے کے جہلا بھی نہیں کرتے جتنے جھوٹ وکذب بیانیاں غیرمقلدین کے شیخ الحدیث زبیرعلی زئی صاحب نے کیں ہیں۔ ان کذب بیانیوں کے ساتھ موصوف کے دعووں پرنظرثانی کی جائےتو افسوس کرنے کے بجائے ہنسی آنی شروع ہوجاتی ہےکہ موصوف کذب بیانیوں کے باوجود بھی کافی خوش فہم نظرآتے ہیں۔
زبیرعلی زئی صاحب کے حسین بن منصورحلّاجؒ پرلگائے گئے الزامات اورکیئے جانے والےکھوکھلے دعووں پران سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ کسی ایک صحیح صریح روایت سے حسین بن منصورحلّاجؒ کا کافروزندیق ہونا ثابت کردیں ورنہ اپنی ان تمام کذب بیانیوں اورجھوٹے دعووں سے رجوع فرمائیں اور اپنی عاقبت خراب ہونے سے بچائیں۔ جزاکم اﷲخیرً