-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Saturday, 8 April 2017

امام ابوالحسن الکرخیؒ کی کتاب اصول کرخی کی عبارت پر کیئے جانے والے اعتراض کی اصل حقیقت دلائل کی روشنی میں


اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم
امام ابوالحسن الکرخیؒ کی عبارت پر کیئے جانے والے اعتراض کا جواب دینے سے پہلے بہتر ہوگا کہ ان کاایک مختصر تعارف پیش کیا جائے تاکہ قارئین کرام کو ان کےعلم اورتقوہ کا مقام معلوم ہوسکے۔
امام ابوالحسن الکرخیؒ (متوفی ۳۴۰ھ) کا مختصر تعارف
امام ابوالحسن الکرخیؒ (متوفی ۳۴۰ھ)فقہ حنفی کے معتبر ائمہ میں سے ہیں۔ وہ امام طحاویؒ کےہم عصر ہیں اورامام طحاویؒ کے شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیا۔
امام عبدالرحمٰن بن علی بن الجوزیؒ(متوفی۵۹۶ھ)نے مناقب معروف الکرخی واخبارہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں امام ابوالحسن الکرخیؒ کے مناقب بیان کیئے ہیں۔
امام ذہبی رحمہ اﷲاپنی کتاب سیر اعلام النبلاءمیں لکھتے ہیں: ’’الشيخ الإمام الزاهد، مفتي العراق، شيخ الحنفية أبو الحسن، عبيد الله بن الحسين بن دلال، البغدادي الكرخي الفقيه۔
سمع إسماعيل بن إسحاق القاضي، ومحمد بن عبد الله الحضرمي، وطائفة‘‘۔
’’حدث عنه: أبو عمر بن حيويه، وأبو حفص بن شاهين، والقاضي عبد الله بن الأكفاني، والعلامة أبو بكر أحمد بن علي الرازي الحنفي، وأبو القاسم علي بن محمد التنوخي، وآخرون۔ انتهت إليه رئاسة المذهب، وانتشرت تلامذته في البلاد، واشتهر اسمه، وبعد صيته، وكان من العلماء العباد ذا تهجد وأوراد وتأله، وصبر على الفقر والحاجة، وزهد تام، ووقع في النفوس، ومن كبار تلامذتهأبو بكر الرازي المذكور۔ وعاش ثمانين سنة‘‘۔ ’’امام کرخی کے شاگردوں میں بڑے با کمال اور نامورفقہاء ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ نہایت زاہد وعابد بھی تھے ۔ کئی مرتبہ کو ان کے علمی مرتبہ ومقام کی وجہ سے عہدہ قضاپیش کیاگیا لیکن انہوں نے باوجود تنگدستی کے انکار کردیا۔صرف اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے شاگردوں میں سے جوبھی فرد قضاء کا عہدہ قبول کرتاتھا۔ اس سے تعلقات ترک کردیتے تھے‘‘۔(سیر اعلام النبلاء: ج۱۵، ص۴۲۶)
امام ذہبی رحمہ اﷲاپنی کتاب سیر اعلام النبلاءمیں صحیح سند کے ساتھ امام ابوالحسن الکرخیؒ کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ: ’’كتب إلي المسلم بن محمد، أخبرنا زيد بن الحسن، أخبرنا أبو منصور الشيباني، أخبرنا أبو بكر الخطيب، قال: حدثني الصيمري قال: حدثني أبو القاسم بن علان الواسطي قال: لما أصاب أبا الحسن الكرخي الفالج في آخر عمره حضرته، وحضر أصحابه :أبو بكر الدامغاني، وأبو علي الشاشي، وأبو عبد الله البصري، فقالوا: هذا مرض يحتاج إلى نفقة وعلاج، والشيخ مقل ولا ينبغي أن نبذله للناس، فكتبوا إلى  سيف الدولة بن حمدان، فأحس الشيخ بما هم فيه، فبكى، وقال: اللهم لا تجعل رزقي إلا من حيث عودتني۔ فمات قبل أن يحمل إليه شيء، ثم جاء من سيف الدولة عشرة آلاف درهم، فتصدق بها عنه‘‘۔ ’’آخرعمر میں جب فالج کا حملہ ہواتوان کے شاگردوں نے یہ سوچ کرکہ اس بیماری کے علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے۔سیف الدولہ ابن حمدان کو خط لکھ کر ان کے حال کے تعلق سے واقف کرایا۔سیف الدولہ نے ان کیلئے دس ہزاردرہم بھیجا۔ان کو اس سے قبل پتہ چل چکاتھاکہ میرے شاگردوں نے ایساکیاہے۔انہوں نے بارگاہ الہی میں دعاکیاکہ اے اللہ اس رقم کے مجھ تک پہنچنے سے پہلے تومجھ کو اپنے پاس بلالے۔ایساہی ہوا۔سیف الدولہ کی رقم پہنچنے سے پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ (سیر اعلام النبلاء: ج۱۵، ص۴۲۶)
امام ابوالحسن الکرخیؒ کی کتاب اصول کرخی کی عبارت پر کیئے جانے والے اعتراض کی اصل حقیقت
امام ابوالحسن الکرخیؒ نے اصول فقہ پر ایک مختصر کتاب لکھی ہے۔ جس میں فقہ کے چند بنیادی قاعدے بیان کئے گئے ہیں۔
اس کتاب میں انہوں نے دوباتیں ایسی ذکر کی ہیں جن سے بظاہر قرآن کریم اوراحادیث رسولﷺکااستخفاف معلوم ہوتاہے۔ جس کی بنیاد پرعام اور لاعلم عوام حتیٰ کہ بہت سےاہل علم بھی اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر اورغوروفکر کئے بغیرفوراًتبراشروع کردیتے ہیں اورصرف امام ابوالحسن الکرخیؒ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتے بلکہ پورے جمعیت احناف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یہ ان کی روایتی قلت فہم کی نشانی ہے کہ کسی بات کو سمجھے اوراس کی حقیقت معلوم کئے بغیر فوراًطعن وتشنیع شروع کردینا۔ آئیں ہم اس عبارت کے اصل معنیٰ و مفہوم کو سمجھتے ہیں تاکہ قارئین کی رہنمائی اور اصل حقیقت معلوم ہوسکے ۔
امام ابوالحسن الکرخیؒ اصول کرخی میں لکھتے ہیں۔ ’’ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق‘‘۔ ’’ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے‘‘۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی: ص۳۷۴)
’’ان کل خبریجی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ اوعلی انہ معارض بمثلہ ثم صارالی دلیل آخر اوترجیح فیہ بمایحتج بہ اصحابنامن وجوہ الترجیح اویحمل علی التوفیق، وانمایفعل ذلک علی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالۃ النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالۃ علی غیرہ صرناالیہ‘‘۔ ’’ہروہ خبر جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو وہ نسخ پر محمول کی جائے گی، یاوہ اسی کے مثل دوسری حدیث کے معارض ہوگی توپھرکسی دوسرے دلیل سے کام لیاجائے گایاجس حدیث سے ہمارے اصحاب نے استدلال کیاہے اس میں وجوہ ترجیح میں سے کوئی ایک ترجیح کی وجہ ہوگی یاپھر دونوں حدیث میں تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار کیاجائے گا اوریہ دلیل کے لحاظ سے ہوگا۔ اگر دلیل معارض حدیث کے نسخ کی ہے تونسخ پر محمول کیاجائے گا یااس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر دلیل ملتی ہے تو وہی بات اختیار کی جائے گی‘‘۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی: ص۳۷۴)
یہی وہ عبارات ہیں جن کی حقیقت سمجھے بغیر آج کے لاعلم علماء و جہلافقہ حنفی پراعتراض کرتےرہتے ہیں اور فقہ حنفی کو قرآن و حدیث کے مخالف بیان کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والے زیادہ تروہ لوگ ہیں جن کا علم اردو کی کتابوں اورچند عربی کتابوں کے اردو ترجمہ کی حدتک محدود ہے۔ ایسے لوگ اپنے معمولی علم وفہم کو استعمال کرتے ہوئےکنویں کے مینڈک کی طرح یہی سمجھتے ہیں کہ جوکچھ میں نے سمجھاہے وہی حق و سچ ہے اوراس کے علاوہ کوئی دوسرانقطہ نظر قابل قبول ہی نہیں ہے۔
امام کرخیؒ کے قول کاصحیح مطلب کیاہے اس کا جواب ذیل میں وضاحت کے ساتھ پیش خدمت ہے
کسی بھی قول کاصحیح مطلب قائل خودسمجھاسکتاہے یااس کےشاگردوں کی زبانی سمجھاجاسکتاہے کیونکہ وہ قائل کے مراد اورمنشاء سے دوسروں کی بنسبت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو بات کہی گئی ہے یالکھی گئی ہے اس میں کیامطلق اورکیامقید ہے۔ کون سی بات ہے جو بظاہر تومطلق ہے لیکن وہ درحقیقت وہ مقید ہے۔
امام کرخیؒ کے شاگردوں کے شاگرد ابوحفص عمر بن محمد النسفیؒ (متوفی ۵۳۷ھ)جو اپنے علمی تبحر کیلئے مشہور ہیں اور ان کی کتابیں فقہ حنفی کا بڑا ماخذ سمجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے اصول کرخی کے اصولوں وقواعدکی تشریح کی ہےجس میں امام کرخیؒ کی اس عبارت کا صحیح معنیٰ و مطلب بھی بیان ہوتاہے۔ وہ ان تمام اصول وقواعدکی تشریح اور مثال بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں:
’’قال(النسفی)من مسائلہ ان من تحری عندالاشتباہ واستدبرالکعبۃ جاز عندنالان تاویل قولہ تعالیٰ فولوا وجوھکم شطرہ اذاعلمتم بہ، والی حیث وقع تحریکم عندالاشتباہ، اویحمل علی النسخ، کقولہ تعالیٰ ولرسولہ ولذی القربی فی الآیۃ ثبوت سھم ذوی القربی فی الغنیمۃ ونحن نقول انتسخ ذلک باجماع الصحابہ رضی اللہ عنہ او علی الترجیح کقولہ تعالیٰ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا ظاہریقتضی ان الحامل المتوفی عنھازوجھا لاتنقضی عدتھا بوضع الحمل قبل مضی اربعۃ اشھر وعشرۃ ایام لان الآیۃ عامۃ فی کل متوفی عنھازوجھا حاملااوغیرھا وقولہ تعالیٰ اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن یقتضی انقضاء العدۃ بوضع الحمل قبل مضی الاشھر لانھاعامۃ فی المتوفی عنھازوجھا وغیرھا لکنارجحناھذہ الآیۃ بقول ابن عباس رضی اللہ عنھما انھانزلت بعد نزول تلک الآیۃ فنسختھا وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع بین الاجلین احتیاطا لاشتباہ التاریخ‘‘۔ ’’امام نسفی ؒفرماتے ہیںاس کے مسائل میں سے یہ ہے کہ جس پر قبلہ مشتبہ ہوجائے اوروہ غوروفکر کے بعد ایک سمت اختیار کرلے توہمارے نزدیک اس کی نماز جائز ہے (اگر چہ اس نے قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہو)کیونکہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے قول کی تاویل "فولواوجوھکم شطرہ" کی یہ ہے کہ جب تم اس کے بارے میں واقف رہو، اوراشتباہ کی صورت میں غوروفکر کے بعد جو سمت اختیار کرو، یاوہ نسخ پر محمول ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے "ولرسولہ ولذی القربی الخ" آیت میں رشتہ داروں کیلئے بھی غنیمت کے مال میں حصہ کا ثبوت ہے اورہم کہتے ہیں کہ یہ صحابہ کرامؓ کے اجماع سے منسوخ ہے۔ ترجیح پر محمول کرنے کی صورت یہ ہے کہ آیت پاک "والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا" کا ظاہری تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کاشوہر مرجائے تو اس کی عدت وضع حمل سے نہیں ہوگی بلکہ اس کو چارماہ دس دن عدت کے گزارنے ہوں گے کیونکہ آیت ہرایک عورت کے بارے میں عام ہے خواہ و ہ حاملہ ہو یاغیرحاملہ ہو، اللہ تبارک وتعالیٰ کا دوسراارشاد ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہواس کا تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کے وضع حمل کے بعد عدت ختم ہوجائے گی خواہ چارماہ دس دن پورے نہ ہوئے ہوں۔ یہ آیت عام خواہ حاملہ عورت کا شوہر مراہو یانہ مراہو۔ لیکن اس آیت کو ہم نے اس لئے ترجیح دی کیونکہ حضرت ابن عباسؓ کا قول موجود ہے کہ یہ آیت "پہلی آٰت والذین یتوفون منکم" کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلی آیت منسوخ ہوگئی ہے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں قول میں جمع کی صورت اختیار کی ہے احتیاط کی بناء پر‘‘۔ (المصدرالسابق)
’’قال من ذلک ان الشافعی یقول بجواز اداء سنۃ الفجر بعد اداء فرض الفجر قبل طلوع الشمس لماروی عن عیسی رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصلی رکعتین بعد الفجر فقال ماھما فقلت رکعتاالفجر کنت الم ارکعھما فسکت قلت ھذا منسوخ بماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لاصلوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس ولابعد العصر حتی تغرب الشمس والمعارضۃ فکحدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ کان یقنت فی الفجر حتی فارق الدنیا فھو معارض بروایۃ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھراثم ترکہ فاذا تعارضا روایتاہ تساقطافبقی لنا حدیث ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھرین یدعو علی احیاء العرب ثم ترکہ واماالتاویل فھو ماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان اذارفع راستہ من الرکوع قال سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وھذا دلالۃ الجمع بین الذکرین من الامام وغیرہ ثم روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال اذاقال الامام سمع اللہ لمن حمدہ قولوا ربنالک الحمد والقسمۃ تقطع الشرکۃ فیوفق بینھما فنقول الجمع للمنفرد والافراد للامام والمتقدی وعن ابی حنیفۃ انہ یقول الجمع للمتنفل والافراد للمفترض‘‘۔ ’’اس  کی شرح یہ ہے کہ امام شافعی طلوع شمس سے پہلے فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے بعد فجر کی سنت پڑھنے کو جائز قراردیتے ہیں ان کی دلیل حضرت عیسٰیؓ سے منقول وہ حدیث ہے کہ رسول پاکﷺ نے مجھ کو فجر کے بعد دورکعت پڑھتے دیکھا، انہوں نے پوچھایہ تم کیاپڑھ رہے تھے۔ میں نے عرض کیاکہ فجر کی دو سنت رکعتیں جس کو میں نہیں پڑھ سکتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر سکوت اختیار کیا۔ میں کہتاہوں کہ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے منسوخ ہے کہ فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج طلوع ہوجائے اورعصر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج غروب ہوجائے۔معارضہ کی صورت یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ کی حدیث ہے کہ آپ فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے اوراسی معمول پر دنیا سے رخصت ہوجائے ۔یہ حدیث حضرت انس کے دوسری حدیث کے معارض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ فجر کی نماز میں قنوت پڑھاپھر اس کوچھوڑ دیا۔یہ دونوں روایت ایک دوسرے کے معارض ہونے کی بناء پر ساقط ہوگئیں ہم نے اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث پر عمل کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومہینہ فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جس میں عرب کے قبیلوں کیلئے بددعا کی گئی پھر اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑدیااورتاویل کی صورت یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ جب رکوع سے اپناسراٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد کہتے تھے ۔یہ دونوں ذکر کوجمع کرنے کی دلیل ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربناالک الحمد کہاکرو تقسم شرکت کے منافی ہے۔توان دونوں حدیث میں تطبیق اس تاویل کے ذریعہ دی جائے گی کہ دونوں ذکر سمع اللہ لمن حمدہ اورربنالک الحمد کہنے کی صورت منفرد کیلئے ہے اورتقسیم اس صورت میں ہے جب باجماعت نماز ہورہی ہو۔امام ابوحنیفہؒ سے منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے جمع نفل نماز پرھنے والے کیلئے ہے اورافراد فرض نماز پڑھنے والے کیلئے ہے‘‘۔ (المصدرالسابق)
امام کرخیؒ کے قاعدے کا صحیح معنیٰ و مطلب امام نسفی ؒکی بیان کردہ تشریح کی روشنی میں اتناواضح ہوگیاہے کہ جس سے صاف معلوم ہوتاہےکہ امام کرخیؒ کےقول کا ظاہری مطلب مراد یہ نہیں ہے کہ اگرکوئی قرآن کی آیت ہو یاکوئی حدیث ہو تواس کے مقابل میں صرف امام ابوحنیفہؒ کا قول کافی ہوگا۔ بلکہ یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امام کرخیؒ کاصحیح منشاء یہ ہے کہ وہ یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ آئمہ احناف نے اگرقرآن پاک کی کسی آیت کو ترک کیاہے یاکسی حدیث کوقابل عمل نہیں ماناہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں قرآن کی وہ آیت منسوخ ہے یاپھر اپنے ظاہر پر نہیں ہے جس کی دلیل دوسری آیت یا احادیث سے ملتی ہے۔ ائمہ احناف نے کسی مسئلہ میں جس پہلو کو اختیار کیاہے اس کیلئے بھی ان کے پاس قرآن وحدیث سےدلائل موجود ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اتنی بات سمجھنے میں کسی بھی صاحب عقل شخص کو تامل نہ ہوگا۔ امام کرخیؒ کی یہ بات کہ ائمہ احناف نے اگرآیت یاحدیث کو چھوڑاہے تواس لئے کہ یاتو وہ ان کی رائے میں منسوخ ہے، یااس کے معارض کوئی دوسری حدیث ہے یاپھروہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول نہیں ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں قرآن و حدیث کی واضح نص موجود ہونے کے باوجود ائمہ کرامؒ نے ان آیات و احادیث میں تاویلات کی ہیں۔ جن میں سے چند پیش خدمت ہیں:
’’حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، كِلاَهُمَا عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ "‏إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلاَةِ‏"‘‘۔ ’’آدمی اورکفرمیں فرق، نماز ترک کرنےکاہے‘‘۔ (صحیح مسلم: كتاب الإيمان، باب بَيَانِ إِطْلاَقِ اسْمِ الْكُفْرِ عَلَى مَنْ تَرَكَ الصَّلاَةَ، ج۱، رقم الحدیث ۱۵۳)
’’ أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "‏إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ"‘‘۔ ’’ہمارے اورتمہارے درمیان عہد نماز ہے، جونماز ترک کرےگا، کافر ہوگا‘‘۔ (سنن النسائی: كتاب الصلاۃ، باب الْحُكْمِ فِي تَارِكِ الصَّلاَةِ، ج۱، رقم الحدیث ۴۶۴)
مندرجہ بالا احادیث میں نبی کریمﷺ کے فرمان میں واضح نص موجود ہے کہ فرض نماز ترک کرنے والاکافرہے۔ چاہے جان بوجھ کرترک کرے یا سستی وکوتاہی کے سبب۔ اس کے باوجود بھی آج تقریباًتمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے علماء حضرات فرض نماز ترک کرنے والے کو مسلمان ہی تسلیم کرتے ہیں اورایسےشخص کانکاح بھی پڑھاتے ہیں اور نمازِ جنازہ بھی اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں ہی دفن کیا جاتا ہےاورایسے شخص کا ذبیحہ کھانا بھی جائز سمجھتے ہیں۔
آج کے اس پرفتن دور میں تقریباً ہر مسلک و مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ایسے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں جو صرف جمعہ، عیدین یا پھر رمضان میں نمازیں پڑھتے ہیں تو کیا ان تمام لوگوں کو کافرکہاجاتاہے؟
’’حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ، قَالَ كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلاَةِ‘‘۔ ’’اصحاب رسول اللہ ﷺ بجز نماز اور کسی عمل کےترک کرنے کوکفر نہیں جانتےتھے‘‘۔ (جامع الترمذی: كتاب الإيمان رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، باب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الصَّلاَةِ، ج۵، رقم الحدیث ۲۶۲۲)
مندرجہ بالا حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے واضح فرمان کے باوجود بھی تمام صحابہ کرامؓ نماز ترک کرنے والے کو کافرنہیں سمجھتے تھے۔ تو کیا کوئی مسلمان یہ کہنے کی جرٔت کرسکتا ہے کہ نعوذباﷲتمام صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ کے فرمان کی مخالفت کی؟ کیونکہ تمام صحابہ کرامؓ رسول اﷲﷺ کے فرمان کا حقیقی مطلب جانتے تھے اسی لئے اصحاب رسولﷺنے تارک نماز کو کافرنہیں سمجھا۔ امام کرخیؒ کی عبارت کا صحیح معنی و مفہوم بھی بالکل یہی ہےکہ جس طرح صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ کے واضح فرمان  کو اپنے ظاہرپرمحمول نہیں سمجھا، بالکل اسی طرح ائمہ احناف نے بعض آیات و احادیث کو اپنے ظاہرپرمحمول نہیں سمجھا۔
یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ امام کرخی ؒکی بات کاجومنشاء اورمقصد ہے وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اوریہی بات ہردور میں علماء اعلام نے ائمہ کرامؒ کی جانب سے کہی ہیں۔چاہے وہ ابن تیمیہؒ ہوں یاپھر حضرت شاہ ولی اللہؒ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابن تیمیہؒ نے رفع الملام عن ائمۃ الاعلام کے نام سےایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ ائمہ کرامؒ کے کسی حدیث یانص قرآنی کی مخالفت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’الأسباب التي دعت العلماء إلى مخالفة بعض النصوص، وجميع الأعذار ثلاثة أصناف‏:‏ أحدها‏:‏ عدم اعتقاده أن النبي صلى الله عليه وسلم قاله۔‏ الثاني‏:‏ عدم اعتقاده إرادة تلك المسألة ذلك القول۔‏ والثالث‏:‏ اعتقاده أن ذلك الحكم منسوخ۔‏ وهذه الأصناف الثلاثة تتفرع إلى أسباب متعددة‘‘۔ ’’ایسے تمام اسباب جن کی وجہ سے آئمہ کرام کا عمل بظاہر کسی حدیث کے مخالف نظر آتا ہے وہ تین قسم کے ہو سکتے ہیں۔ ایک تویہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کہا (یعنی حدیث کے ثبوت کا اختلاف)۔ دوسرایہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا مقصد وہ نہیں تھا جو لوگ اس حدیث سے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں (حدیث کے فہم کا اختلاف)۔ تیسرا یا وہ سمجھتے ہیں کہ حدیث ثابت بھی ہے اور اس سے مراد بھی ٹھیک لیا گیا ہے مگر اب یہ حکم منسوخ ہے (حدیث کے بلحاظ عمل قبولیت میں اختلاف) ‘‘۔(رفع الملام عن ائمۃ الاعلام:ص۹)
اس کے بعد ابن تیمیہؒ نے ان تینوں اعذار کی شرح لکھی ہے اور شرح میں وہ لکھتے ہیں: ’’السبب التاسع:‏ اعتقاده أن الحديث معارض بما يدل على ضعفه، أو نسخه، أو تأويله إن كان قابلا للتأويل بما يصلح أن يكون معارضا بالاتفاق مثل آية أو حديث آخر أو مثل إجماع‘‘۔ (المصدرالسابق: ص۳۰)
ابن تیمیہؒ کی بیان کردہ تشریح کو غورسے پڑھئے اوردیکھئے کہ امام کرخیؒ کے بیان میں اورامام ابن تیمیہؒ کے بیان میں کس درجہ مطابقت ہے۔ امام کرخیؒ کی بات اورابن تیمیہؒ کی بات میں بہت کم فرق ہے اوراگرکچھ فرق ہے توصرف اسلوب اورطرزاداء کا۔
امام کرخیؒ کا اسلوب بیان منفی ہے یعنی ہروہ آیت یاحدیث جوہمارے اصحاب کے قول کے مخالف ہو، جب کہ ابن تیمیہؒ کا بیان مثبت ہے۔ یعنی اگرکسی امام نے کسی حدیث پر عمل ترک کیاہے تواس کی وجہ اس کا منسوخ ہونا، کسی دوسرے حدیث کے معارض ہونا وغیرہ ہے۔ اسلوب بیان کے فرق کے علاوہ مزیدگہرائی سے دیکھیں اورپرکھیں تو دونوں میں کوئی فرق نہیں ملے گا۔
امام کرخیؒ کے بیان کردہ قاعدہ کاایک اور مطلب یہ نکلتا ہےکہ امام کرخیؒ نے اپنے بیان میں "ہمارے اصحاب"کا ذکر کیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کانام خاص طورپر نہیں لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے یانادرالوقوع ہے کہ ائمہ امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ،امام محمدؒ، امام زفرؒاوراسی طرح ائمہ متقدمین میں سے اورکچھ لوگ تمام کے تمام کسی ایسے قول کے قائل ہوں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو۔ ایسانہیں ہوسکتابلکہ عموماًایساہواہے کہ ائمہ احناف کے درمیان مختلف مسائل میں اختلاف رہاہے اوربعض کے ائمہ ترجیح نے دلائل کی بنیاد پر ایک قول کو دوسرے قول پر ترجیح دی ہے۔ حتیٰ کہ کئی مسائل میں صاحبین ؒنے امام ابوحنیفہؒ سے اختلاف کیاہے جس کی انگنت مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن یہاں چند مثالیں پیش خدمت ہیں تاکہ قارئین کو سمجھنے اور حق قبول کرنے میں آسانی ہو۔
امام ابو حنیفہؒ شیرخوار بچے کی مدت رضاعت ۲سال ۶ ماہ بتاتے ہیں اورقرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں: ’’حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا‘‘۔ ’’کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا، اور اس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں‘‘۔ [سورۃ الأحقاف: ۱۵]
اس کے برعکس فقہ حنفی میں اس مسئلے پرامام ابوحنیفہؒ کے قول کو چھوڑ کرامام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے قول پرفتویٰ دیا جاتاہےکیونکہ اس مسئلے پرصاحبینؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے فتویٰ سے اختلاف کیااور مدعت رضاعت ۲ سال بیان کی جس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے۔ ’’حَـمَلَتْهُ اُمُّهٝ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّفِصَالُـهٝ فِىْ عَامَيْنِ‘‘۔ ’’اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے‘‘۔ [سورۃ القمان: ۱۴]
 اگر چند لمحوں کے لئے امام کرخیؒ کی عبارت کا وہی مطلب لے لیا جائے جو مخالفین بیان کرتے ہیں توپھر صاحبینؒ نے امام ابوحنیفہؒ کےقول پر فتویٰ کیوں نہیں دیااور ۲ سال والی آیت کو منسوخ قرار کیوں نہیں دیاجبکہ قرآن میں ڈھائی سال والی آیت بھی موجود تھی۔
اسی طرح قرأت خلف الامام کے مسئلہ میں امام محمدؒ امام مالکؒ اورامام احمد بن حنبلؒ کی رائے کے قائل ہیں کہ جہری نمازوں میں نہ پڑھی جائے اور سری نمازوں میں پڑھی جائے۔ اب اگرایسے میں تمام ائمہ احناف نے قرآن و حدیث پر عمل نہ کیاہویاکسی صحیح حدیث کو چھوڑ کر امام ابوحنیفہؒ کے اقوال کی اندھی تقلید کی ہوجیسا کہ مخالفین نےاصول کرخیؒ کی عبارت سے لوگوں میں غلط تاثر ڈالا ہےتو کیا امام محمدؒ کبھی امام ابوحنیفہؒ کے قول کو چھوڑکرامام مالکؒ اور امام احمدابن حنبلؒ کی رائے کے قائل ہوتے؟ اگرانسان سنجیدگی اورانصاف سے سمجھنے کی کوشش کرے اوردل کو ائمہ احناف کی طرف سے عناد اورتعصب کی جذبات سے پاک کرلےتو امام کرخیؒ کی عبارت کو سمجھنے میں کچھ مشکل نہیں۔ ورنہ کسی کے عناد اورتعصب سے احناف کا توکچھ بگڑنے والانہیں ہے انشاء اللہ لیکن یہ غریب خسرالدنیاوالآخرۃ کا مصداق ضرور بن جائیں گے۔
اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ لاپتہ شوہرکی بیوی اس وقت  تک عقد نکاح سے فارغ نہیں ہوسکتی جب تک لاپتہ شوہر کی موت کایقینی علم نہ ہوجائے۔ ان دونوں فقہاء کرامؒ کا استدلال رسول اﷲﷺ کے اس فرمان سے ہے کہ ’’لاپتہ شوہرکی بیوی اس وقت تک اس کی بیوی ہی رہےگی جب تک گم شدہ آدمی کےمتعلق کوئی واضح اطلاع نہ موصول ہو جائے‘‘۔ (سنن دارقطنی: ج۳، ص ۳۱۲)
اگرچہ اس حدیث کی سندمیں محمدبن شرحبیل صمدانی نامی ایک راوی ضعیف ہے لیکن امام ابوحنیفہؒ کا ارشادہے کہ ’’الخبر الضعیف عن رسول اللہ ا اولیٰ من القیاس، ولایحل القیاس مع وجودہ‘‘۔ ’’یعنی باب میں اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو قیاس نہ کرکے اس سے استدلال کیا جائے گا‘‘۔ (المحلیٰ لابن حزم: ج ۳، ص۱۶۱)
احناف نے یہاں بھی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےمؤقف کو چھوڑ کرامام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مؤقف کی طرف رجوع کیا ہےاورلاپتہ ہونے والے شوہرکے لئےہم عمر لوگوں کی موت تک مدت مقرر نہیں کی بلکہ اس کا تعین حاکم کی رائے پرکیا ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیاگیا  کہ اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنےلاپتہ شوہرکا چار سال تک انتظار کرے تو اس مدت کا اعتبار کیا جائےگا؟ اما م مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیاکہ:’’اگر وہ اس طرح بیس سال بھی گزار دے تو اس کاکوئی اعتبار نہیں ہوگا‘‘۔ (المدونة الکبریٰ: ج۲، ص۹۳)
احناف کے نزدیک امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ کا موقف صحیح ہے کیوں کہ اسے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک فیصلے کی تائید حاصل ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کی بنیاد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فیصلہ ہے: ’’جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اس کاپتہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہا ں ہے۔ تو وہ  عورت چار سال تک انتظار کرے پھر چار ماہ دس دن عدت گزار کر چاہے تو دوسرا نکاح کرے‘‘۔ (موطا امام مالک: کتاب الطلاق)
اگرامام کرخیؒ کی عبارت کا وہی مطلب ہوتا جوعموماً مخالفیں کی طرف سے بیان کیا جاتاہے تو احناف یہاں بھی امام ابوحنیفہؒ کے مؤقف کو اپناتے لیکن یہاں بھی احناف نے امام ابوحنیفہؒ کے مؤقف کو چھوڑ کرامام مالکؒ کے مؤقف کو اپنایاجبکہ امام ابوحنیفہؒ کا استدلال نبی کریم ﷺ کے فرمان عالیشان سے تھا۔
اتنے واضح اور مضبوط دلائل کے بعد بھی اگر کوئی کم عقل و کم فہم شخص یا فرقہ امام کرخیؒ کی عبارت کو بنیاد بناکر احناف پر کیچڑاچھالنے کی کوشش کرتا ہے تو ایسا شخص قرآن کی اس آیت کا مصداق بنتا ہے۔’’وَالَّـذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْـرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا‘‘۔ ’’اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو ناکردہ گناہوں پر ستاتے ہیں سو وہ اپنے سر بہتان اور صریح گناہ لیتے ہیں‘‘۔ [سورۃ الاحزاب:۵۸]
امام کرخیؒ کے بیان کردہ قاعدہ کا صحیح مطلب حضرت شاہ ولی اللہؒ نے بھی یہی بیان کیاہے، چنانچہ آپؒ اپنی کتاب فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں: ’’عرضنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان فی المذہب الحنفی طریقۃ انیقۃ ھی اوفق الطرق بالسنۃ المعروفۃ التی جمعت ونقحت فی زمان البخاری واصحابہ وذلک ان یوخذمن اقوال الثلاثۃ قول اقبلھم بھا فی المسئلۃ ثم بعد ذلک یتبع اختیارات الفقہاء الحنفین الذی علماء الحدیث‘‘۔ ’’حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کوبتایاکہ مذہب حنفی میں ایک ایسابہترین طریقہ وپہلو ہے کہ جوتمام طرق میں سب سے زیادہ ان احادیث کے موافق ہے جن کی تدوین وتنقیح امام بخاری ؒاوران کے اصحاب کے دور میں ہوئی۔اور وہ طریقہ یہ ہے کہ علماء ثلاثہ (یعنی اما م صاحبؒ اورصاحبینؒ) کے اقوال میں سے جس کا قول حدیث کے معنیٰ سے زیادہ قریب ہو اسے اختیار کیاجائے۔ پھراس کے بعد ان حنفی فقہاء کے اختیارات پر عمل کیاجائے جو محدث بھی تھے‘‘۔(فیوض الحرمین : ص۴۸-۴۹)
اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’پھر فقہ حنفی کے ساتھ احادیث کو تطبیق دینے کا ایک نمونہ وصورت مجھ پر منکشف کیاگیا اوربتایاگیاکہ علماء ثلاثہ(امام ابوحنیفہؒ وصاحبینؒ)میں سے کسی ایک کے قول کو لے لیاجائے ،ان کے عام اقوال کو خاص قراردیاجائے، ان کے مقاصد سے واقف ہواجائے۔اوربغیرزیادہ تاویل سے کام لئے احادیث کے ظاہری الفاظ کا جومطلب سمجھ میں آتاہو اس پر اکتفاء کیاجائے۔ نہ تو احادیث کو ایک دوسرے سے ٹکرایاجائے، اورنہ ہی کسی صحیح حدیث کو امت کے کسی فرد کے قول کے پیش نظرترک کیاجائے‘‘۔ (فیوض الحرمین: ص۶۲-۶۳)
 اسی وجہ سے شیخ الھند شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب عقدالجید میں مکمل باب باندھ کرائمہ اربعہ کی ہی اتباع اورپیروی کوواجب قراردیاہےاوردیگرمجہتدین کی پیروی سےمنع کیاہے۔ چنانچہ شیخ الھند شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: ’’باب تَأْكِيد الْأَخْذ بِهَذِهِ الْمذَاهب الْأَرْبَعَة، التَّشْدِيد فِي تَركهَا وَالْخُرُوج عَنْهَا‘‘۔ ’’مذاہب اربعہ اختیار کرنے کی تاکید اور ان کو ترک کرنے کی ممانعت‘‘۔ ’’اعْلَم أَن فِي الْأَخْذ بِهَذِهِ الْمذَاهب الْأَرْبَعَة مصلحَة عَظِيمَة وَفِي الْإِعْرَاض عَنْهَا كلهَا مفْسدَة كَبِيرَة وَنحن نبين ذَلِك بِوُجُوه‘‘۔ ’’جان لینا چاہیئے کہ ان مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے میں عظیم مصلحت ہے اور ان کے چھوڑ دینے میں بہت بڑا فساد ہے‘‘۔ (عقد الجيد فی أحكام الاجتهاد والتقليد شاه ولی اﷲمحدث دہلویؒ: ص۴۰)
’’أَو مدونة فِي كتب مَشْهُورَة وَأَن تكون مخدومة بِأَن يبين الرَّاجِح من محتملاتها ويخصص عمومها فِي بعض الْمَوَاضِع ويقيد مُطلقهَا فِي بعض الْمَوَاضِع وَيجمع الْمُخْتَلف مِنْهَا وَيبين علل أَحْكَامهَا وَإِلَّا لم يَصح الِاعْتِمَاد عَلَيْهَا وَلَيْسَ مَذْهَب فِي هَذِه الْأَزْمِنَة الْمُتَأَخِّرَة بِهَذِهِ الصّفة إِلَّا هَذِه الْمذَاهب الْأَرْبَعَة اللَّهُمَّ إِلَّا مَذْهَب الإمامية والزيدية وهم أهل الْبِدْعَة لَا يجوز الِاعْتِمَاد على أقاويلهم‘‘۔ ’’اب بعد کے ادوار میں رائج شدہ فقہی مسالک کے علاوہ کوئی ایسا فقہی مسلک نہیں ہے جس کی تقلید کی جاسکے۔ لے دے کرمسلک امام میہ اور مسلک زیدیہ رہ جاتے ہیں۔ مگریہ فقہی مسالک اہل بدعت اور اہل تشیع کے ہیں، ان کے اقوال اور فتاویٰ پراعتماد نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ ’’وَثَانِيها قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم اتبعُوا السوَاد الْأَعْظَم وَلما اندرست الْمذَاهب الحقة إِلَّا هَذِه الْأَرْبَعَة كَانَ اتباعها اتبَاعا للسواد الْأَعْظَم وَالْخُرُوج عَنْهَا خُرُوجًا عَن السوَاد الْأَعْظَم‘‘۔ ’’رسول اﷲﷺ کا ارشادگرامی ہےکہ: سوادِ اعظم (بڑی جماعت) کی پیروی کرو۔ ان چار فقہی مسالک (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) کے علاوہ حق پر مبنی کوئی اور فقہی مسلک عملاً دنیا میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ان کی پیروی سواداعظم کی پیروی کہلائے گی۔ اور ان چاروں مسالک کو چھوڑدینااور ان سے باہرہوجانا، سوادِاعظم سے نکل جانے کے مترادف ہوگا‘‘۔ (عقد الجيد فی أحكام الاجتهاد والتقليد شاه ولی اﷲمحدث دہلویؒ: ص۴۱)
سمجھنےکی بات یہ ہے کہ اپنی کتاب فیوض الحرمین میں دونوں مقامات پر حضرت شاہ ولی اللہؒ ائمہ ثلاثہ(یعنی اما م ابوحنیفہؒ اورصاحبینؒ)  کا ہی ذکر کرتے ہیں کہ ان کے اقوال سے باہر نہ نکلاجائے ۔بالواسطہ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ میں سے تینوں کسی ایسے قول پرمتفق ہوجائیں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو ایسانہیں ہوسکتابلکہ ان میں سے کسی ایک کا قول قرآن وحدیث کی تائید سے متصف ہوگا۔ اگرمخالفین کواﷲتبارک و تعالیٰ نے عقل سلیم کی دولت سے نوازا ہے توامام کرخیؒ کے قول پرغورکریں۔ وہ بھی بالواسطہ طورپر یہی کہہ رہے ہیں لیکن ان کے طرز تعبیر نے ان کو بیجاملامت کا نشانہ بنادیاہے۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ ائمہ احناف نے بسااوقات ایساموہم طرز اپنی کتابوں میں اختیار کیاہے جس سے کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی اورکچھ لوگ جوپہلے سے جلے بھنے بیٹھے تھے انہوں نے اپنی روٹیاں سینکنے کا اسے اچھاموقع شمار کیا۔
مثلا احناف کاایک اصول ہے کہ کوئی آیت جب عام ہو تواس کی خبرواحد سے تخصیص نہیں ہوسکتی ۔ اس موقع پر احناف نے ایساطرز اسلوب اختیار کیاہے جس سے لگتاہے کہ خبرواحد کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہےکہ احناف کاکہناہے کہ قرآن کی آیت جب عام ہو توخبر واحد سے تخیص درجہ فرض میں نہیں ہوسکتی درجہ وجوب میں ہوسکتی ہے۔ اس کی بہترین وضاحت علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے فیض الباری کے مقدمہ میں کی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ان النص اذا جاء ساکتا عن شیء وجاء الخبر یثبتہ فھل تجوز تلک الزیادۃ وتزاد بہ علی القاطع ،فماذکرہ ساداتناالعظام رحمھہم اللہ تعالیٰ انہا لاتجوز لانہافی معنی النسخ وھولایجوز من خبرالواحد ومن اجل تلک المقالٰۃ شنع علیھم بعض المحدثین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فانہم فہمواان امامنا الھمام لایبالی بخبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مبالاۃ ولایہم بالاعمال ھما وھذاکماتری یبنی علی صورۃ التعبر فقط،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فلذا غیرت عنوانہم من السلب الی الایجاب وکم من مواضع فعلت فیمامثل صنیعی، فی ھذاالمقام غیرت العنوان وبقیت المسالۃ علی حالھا فانی اجد کثیرا من اعتراضاتھم علینا من ھذاالقبیل فاذا غیرالعنوان اندفعت وطاحت وھذاکماقیل: والحق قد یعتریہ سوء تعبیر، وبعض الاعتراضات تبنی علی سوء الفہم وفرط التعصب،وھذاایضا من باب: کم من عائب قولاصحیحا 
وآفتہ من الفہم السقیم فاقول مغیراکلامہم ان خبرالواحد تجوز منہ الزیادۃ لکن فی مرتبہ النقل فلایزاد بہ علی القاطع رکنا اوشرطا فماثبت من القاطع یکون رکنااوشرطاًوماثبت من الخبر یکون واجبا اورمستحبا حسب اقتضاء المقام ولیس ھذا من باب التغیرفی المسالۃ بل من باب التصرف فی التعبیر، فان الزیادۃ عندھم فی مرتبۃ الرکنیۃ والشرطیۃ ھی التی تسمی زیادۃ اصطلاحا وامامافی مرتبۃ الوجوب والاستحباب، فلایسمونھازیادۃ فحینئذ معنی قولھم لاتجوزالزیادۃ ای فی مرتبۃ الرکنیۃ والشرطیہ‘‘۔ ’’جب نص کسی مسلئے میں خاموش ہو اورخبرواحد اس کا اثبات کررہاہوتوکیااس خبرواحد کے ذریعہ نص پر اضافہ معتبر ہوگا۔ اوراس کے ذریعہ نص قطعی پراضافہ کیاجاسکے گا۔ ہمارے فقہاء نے ذکر کیاہے کہ خبرواحد کے ذریعہ نص پر اضافہ کرنا درست نہیں ہوگا۔کیونکہ وہ نسخ کے معنی میں ہوجائے گا اوریہ خبرواحد کے ذریعہ جائز نہیں ہے اوراسی بات کی وجہ سے بعض محدثین نے احناف پر تشنیع کی ہے۔ ان لوگوں نے یہ سمجھاکہ ہمارے امام صاحب رسول پاک کے فرمودات کو اہمیت نہیں دیتے اورنہ ہی اعمال کو ایمان کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اورجیساکہ آپ جانتے ہیں یہ کہ سب اسلوب بیان اورتعبیر کی وجہ سے ہواہے۔ اسی لئے میں نے اس عنوان کو منفی سے مثبت کردیاہے اوردیگر مقامات پر بھی یہاں کاہی عمل دوہرایاہے۔ اس مقام پر میں نے صرف عنوان بدلاہے۔ نفس مسئلہ سے کوئی تعرض نہیں کیاہے وہ اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ میں نے پایاہے کہ ہم پر محدثین کے بہت سارے اعتراضات اسی قبیل سے ہیں۔ لہٰذا جب تعبیر بدل دی جائے توان کے تمام اعتراضات ختم ہوجاتے ہیں اورہوامیں اڑجاتے ہیں۔ اورویساہی ہے جیساکہ کہاگیاہے۔ کبھی کبھار بری تعبیر کی وجہ سے حق بات بری معلوم ہونے لگتی ہے۔ ہاں بعض اعتراضات محدثین کے یااحناف پر اعتراض کرنے والوں کے سوء فہم اورتعصب کی وجہ سے ہیں۔ تومیں ان کی بات کو بدل کر کہتاہوں کہ خبرواحد سے اضافہ درست ہے لیکن گمان کے مرتبہ میں۔ تواب خبرواحد کے ذریعہ نص قطعی پر کسی رکن اورشرط کا اضافہ نہیں کیاجاسکتا جومسئلہ یاجوبات نص قطعی سے ثابت ہوگی تو وہ رکن اورشرط کے درجہ میں ہوگی اورجوچیز خبرواحد سے ثابت ہوگیاتو وہ تقاضائے کلام کے مطابق واجب یامستحب ہوگی۔ میری یہ بات مسئلہ میں ردوبدل نہیں ہے بلکہ صرف تعبیر میں فرق ہے۔ فقہاء احناف کے نزدیک اضافہ اس کو کہتے ہیں جو کہ رکن اورشرط کے درجہ میں ہواس سے کمتر درجہ میں(وجوب یااستحباب) اگرکوئی اضافہ ہورہاہے تووہ اس کو اصطلاحی طورپر اضافہ نہیں مانتے۔ تواب ان کے قول کا مطلب کہ خبرواحد کے ذریعہ نص پر اضافہ درست نہیں ہے یہ ہوا کہ رکنیت اورشرط کے مرتبہ میں اضافہ درست نہں ہے۔ اب ہم اسی طرز پر کہتے ہیں کہ حضرت امام کرخی کی بات کو آپ منفی سے مثبت کردیجئے اوران کی بات کو باقی رکھتے ہوئے یہ کہئے کہ ہمارے اصحاب نے اگرکسی آیت پرعمل کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتووہ آیت منسوخ ہوگی یاپھراس کے ظاہری طورپر معارض دوسری آیت پر عمل کیاگیاہوگااوراس کیلئے ان کے پاس وجہ ترجیح ہوگی بہتریہ ہے کہ دونوں آیتوں میں تطبیق کی صورت اختیار کی جائے۔ ہروہ حدیث جس پر ہمارے اصحاب نے عمل نہیں کیایااس کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتو وہ حدیث منسوخ ہوگی یااس کے معارض دوسری حدیث پر انہوں نے عمل کیاہوگاجس کے ترجیح کے دلائل ان کے پاس ہوں گے یاپھر دونوں حدیث میں تاویل کرکے تطبیق اورتوفیق کی صورت پیداکیاجائے۔ (فیض الباری مقدمہ: جلد اول)
اب دیکھئے کیااس بیان میں کوئی غلط بات ہے۔ کوئی ایسی بات جس پر کسی بھی گوشہ سے اعتراض کی زد پڑتی ہو حالانکہ نفس مسئلہ میں کوئی تغیرنہیں کیاگیاہے صرف تعبیر اوراسلوب بیان بدل دیاگیاہے۔
امام الکرخیؒ کی عبارت کا غلط مطلب بیان کرنے والوں پرمشہورمحقق اور شافعی عالم ڈاکٹرعبدالعظیم الدیب کارد
اﷲتعالیٰ جزائے خیر دے محقق و شافعی عالم ٖڈاکٹرعبدالعظیم الدیب کوجنہوں نے بڑے اخلاص کے ساتھ یہ بات محسوس کی کہ امام کرخیؒ کی عبارت کا صحیح مفہوم ہرگز وہ نہیں ہے جو عام طورپرشہرت یافتہ مصنفین یامقالہ نگارہزاروں کے مجمع میں اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور یونیورسٹیوں کے لیکچرہالوں میں بیان کرتےہیں۔ اس کے بعد آپ نے کمال امانت و شجاعت کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ اس پروپیگنڈے کے پیچھے غلط ذہنیت کام کررہی ہےجس کا مقصدعام لوگوں کو ائمہ احناف سے بدضن کرنا ہے۔
ڈاکٹرعبدالعظیم الدیب صاحب فرماتے ہیں: ’’أماأن تقرأھذہ العبارۃ تلک القراءۃ الشائ نۃ فذلک أثرمن آثارثقافۃ شوھاءنحوتاریخنابشفقۃ السیاسی والفکری‘‘۔ ’’جہاں تک اس عبارت کا اتنا غلط مفہوم نکالنےکا معاملہ ہے تو درحقیقت ہماری فکری وثقافتی تاریخ کی غلط اور بگڑی ہوئی خواندگی کا اثرہے‘‘۔
آپ نے ایسے عام اور خاص لوگوں کے بارے میں یہاں تک فرمایا کہ: ’’وکم أتمنی أن یعثر باحث علی أول من ردد ھذہ العبارۃ قرأھا ھذہ القراءۃ فانی أشم فیھا ذخرالمستشرقین، وقمامۃافکارھم‘‘۔ ’’میری بے پناہ خواہش ہے کہ کوئی ریسرچ اسکالراس حقیقت تک پہنچ پاتا کہ اس عبارت کو اس تشریح کے ساتھ سب سے پہلے کس نے نقل کیا؟ مجھے تو اس میں مشتشرقین کے منہ کی غلاظت اور ان کے افکار کے کوڑے دان کی بومحسوس ہورہی ہے‘‘۔ (مقدمہ نہایۃالمطلب: ص۹۱)
اس کے بعد اپنی تائید میں اپنے استاذ شیخ ابوزھرہ کی عبارت نقل کرتے ہیں: ’’ونحب أن تقررھناأنہ فی حال الأخذبالرأی عندمن یأخذون بہ فی مقابل الحدیث لایعدالحدیث صحیح النسبۃ الٔی النبی ﷺ، بل انھم ینکرون ھذہ النسبۃ ویعتبرون الخبرالمروی شاذامنہ اذأنہ یخالف القواعدالمقررۃ الثابتۃ المأخوذۃمن مقاصدالشریعۃالعامۃ، ونصوصھاالخاصۃ‘‘۔ (تاریخ المذہب الاسلامیۃ: ص۲۸۹)
امام کرخیؒ کے قول کی غلط تشریح سن کران کی کیفیت کیا ہوتی تھی اس کا اظہارکرتے ہوئے ڈاکٹرعبدالعظیم الدیب لکھتے ہیں: ’’بذأت أتململ حینماأسمع باحثامرموقایحکی ھذہ العبارۃ۔ بھذالفھم فی قاعۃالمؤتمرات والندوات أمام عشرات العلماءومیٔ ات الطلاب‘‘۔ ’’جب کسی ناموراسکالرسے کانفرنسوں اور سیمیناروں میں اس عبارت کی ایسی تشریح دسیوں علماءاور سینکڑوں طلبہ کے سامنے سنتا تو مجھے بے چینی ہونے لگتی تھی‘‘۔
پھرمزید فرماتے ہیں کہ: ’’ورحت اقرأھذہ العبارۃ قراءۃ أخری عکس ماتقرأوترددعلیہ رحت اقرأھذہ العبارۃ فی ضوءمعرفتی المتواصعۃ، بتاریخ أیٔ متنا، وأخلافھم وورعھم‘‘۔ ’’چنانچہ میں نےاس عبارت کو اس مفہوم کے برعکس پڑھنے کی کوشش کی جو عام طورپرپھیلایاجارہا ہے، میں نے اس عبارت کو اپنے ائمہ کی تاریخ، ان کے اخلاق اور انکے زہدورع کے بارے میں اپنی معلومات کی روشنی میں پڑھنے کی کوشش کی‘‘۔ (مقدمہ نہایۃالمطلب: ص۹۰)