-->

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ نے تمہیں تیں باتوں سے امان دی ہے: تمہارا نبی تم پر بددعا نہیں کرے گاکہ تم سب ہلاک ہوجاؤ، اور یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آسکیں گے(یعنی کلی اور مجموعی طور پر)اور یہ کہ تم لوگ گمراہی پر جمع نہیں ہو گے‘‘۔(سنن ابوداؤد: کتاب الفتن والملاحم، رقم الحدیث۴۲۵۳)

رسول اﷲﷺنے فرمایا: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، رقم الحدیث۳۱۱۶)

Tuesday, 25 October 2016

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترک رفع الیدین کی حدیث پر زبیر علی زئی صاحب کےاعتراضات کا تحقیقی جائزہ

اس تحریر کی Pdf فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں: 

بسم الله الرحمن الرحیم

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قِطَافٍ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ،’’أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُودُ‘‘۔ ’’امام ابوبکر بن ابی شیبہؒ روایت کرتے ہیں کہ ان سے وکیع بن الجراح نے اور ان سے ابوبکر بن عبداللہ بن قطاف النہشلی نے اور ان سے عاصم بن کلیب نے اور ان سے ان کے والد (کلیب بن شہاب)  روایت کرتے ہیں کہ بےشک حضرت علی کرم اللہ وجہہ نماز کی پہلی تکبیر کے ساتھ رفع یدین کیا کرتے تھے اس کے بعد (پھر) رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔ (الكتاب المصنف فی الأحاديث والآثار المؤلف: أبو بكر بن أبی شيبة، عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان بن خواستی العبسی[المتوفى: ۲۳۵ھ]، بابمَنْ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِی أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَا يَعُودُ، كِتَابُ الصَّلَوات، جلدنمبر۱، صفحہ نمبر۲۱۳، رقم الحدیث۲۴۴۱)(المعانی الآثارللطحاوی: ج۱، ص۲۲۵) (نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۶)
اس حدیث کے تمام راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم کےرجالوں میں سے ہیں سوائے کلیب بن شہاب کے جو کہ ثقہ تابعی ہیں جن کی تفصیل ذیل میں درج ہے:
۱۔ امام ابوبکر بن ابی شیبہ: اس حد یث کے پہلے راوی امام ابوبکر بن ابی شیبہ ہیں جوامام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کے استاذ ہیں اورثقہ ترین حافظ الحدیث ہیں جو خودکسی تعارف کے محتاج نہیں۔
۲۔ امام وکیع بن الجراح:  اس حدیث کے دوسرے راوی وکیع بن الجراح ہیں جوصحیح بخاری وصحیح مسلم کے رجالوں میں سے ہیں جن کے بارے میں محدثین کرامؒ فرماتے ہیں:
۱۔ امام عجلی ؒفرماتے ہیں: "ثقہ عابد"۔ (معرفۃ الثقات :رقم۱۹۳۸)
۲۔ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: "مطبوع الحفظ"۔ (الجرح والتعدیل : رقم۱۶۸)
۳۔ امام یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں: "ثقہ"۔ (الجرح والتعدیل: رقم۱۶۸)
۴۔ امام ذہبیؒ لکھتے ہیں: "حافظ الثبت محدث"۔ (تذکرۃ الحفاظ:ج۱،ص۲۲۳)
۵۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں: "ثقہ حافظ"۔ (تقریب التہذیب: رقم۷۴۱۴)
۶۔ امام الخزرمیؒ فرماتے ہیں: "الحافظ"۔ (خلاصہ تہذیب تہذیب الکمال:ج۱،ص۴۱۵)
۷۔ امام الکلا باذیؒ نے لکھا ہے: "فی رجال البخاری"۔ (رجال صحیح البخاری: رقم ۱۲۸۸)
۸۔ امام ابن منجویہؒ لکھتے ہیں: "فی رجال المسلم"۔ (رجال صحیح مسلم: رقم ۱۷۷۵)
۹۔ حافظ ابن حبانؒ فرماتے ہیں: "من الحفاظ المتقنین"۔ (مشاہیر علماء الامصار:ج۱، ص۲۷۲)
۱۰۔ امام ابراہیم بن شماسؒ فرماتے ہیں: "وکیع احفظ الناس"۔ (شرح علل الترمذی:ج۱، ص۱۷۰)
۱۱۔ امام سہل بن عثمان ؒفرماتے ہیں: "ما رایت احفظ"۔ (الجرح والتعدیل: رقم۱۶۸)
۳۔ ابوبکر بن عبداللہ بن قطاف النہشلی: اس حدیث کے تیسرے راوی ابوبکر بن عبداللہ بن قطاف النہشلی ہیں جو صحیح مسلم کے رجالوں میں سے ہیں جن کے بارے میں محدثین کرامؒ فرماتے ہیں:
۱۔ امام یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں: "ثقہ"۔ (تاریخ ابن معین:ج۱، ص۴۷)
۲۔ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: " ثقہ"۔ (العلل والمعرفۃ: رقم۴۳۷۱)
۳۔ امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں: "شیخ صالح"۔ (الجرح والتعدیل: رقم۱۵۳۶)
۴۔ امام ذہبیؒ لکھتے ہیں: "ثقہ"۔ (الکاشف: رقم۶۵۴۸)
۵۔ امام احمد بن یونسؒ فرماتے ہیں: "شیخا صالحا"۔ (تاریخ الدوری: رقم۹۴۳)
۶۔ امام ابن منجویہؒ لکھتے ہیں: "فی رجال المسلم"۔ (رجال صحیح مسلم: رقم۱۹۶۱)
۷۔ امام ابوداودؒ فرماتے ہیں: "ثقہ"۔ (تہذیب التہذیب: رقم۸۳۲۹)
۸۔ امام عجلیؒ فرماتے ہیں: "ثقہ"۔ (معرفۃ الثقات: رقم۲۱۰۲)
۹۔ امام ابن الحماد الحنبلیؒ لکھتے ہیں: "صدوق"۔ (شذرات الذہب:ج۱، ص۲۵۴)
۱۰۔ امام ابن مہدیؒ فرماتے ہیں: "ثقات مشیخۃ الکوفۃ"۔ (تہذیب التہذیب: رقم۸۳۲۹)
۱۱۔ حافظ ابن حجرعسقلانی ؒلکھتے ہیں: "صدوق"۔ (تقریب التہذیب :رقم۸۰۰۱)
۴۔ عاصم بن کلیب: اس حدیث کے چوتھے راوی عاصم بن کلیب ہیں جو صحیح مسلم کے رجالوں میں سے ہیں جن کے بارے میں محدثین کرامؒ فرماتے ہیں:
۱۔ امام عجلیؒ فرماتے ہیں: "ثقہ"۔ (معرفۃ الثقات العجلی: رقم ۸۱۵)
۲۔ امام ابو حاتمؒ لکھتے ہیں: "صالح"۔ (الجرح والتعدیل: رقم۱۹۲۹)
۳۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں: "لا باس بہ"۔ (الجرح والتعدیل: رقم۱۹۲۹)
۴۔ امام ابن شاہینؒ لکھتے ہیں: "ثقہ"۔ (تاریخ اسماء الثقات: رقم۸۳۳)
۵۔ امام احمد بن صالح المصریؒ فرماتے ہیں: "من الثقات"۔ (تاریخ اسماء الثقات: رقم۸۳۳)
۶۔ امام ابن منجویہؒ لکھتے ہیں: "فی رجال المسلم"۔ (رجال صحیح مسلم: رقم۱۲۴۵)
۷۔ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ لکھتے ہیں: "صدوق"۔ (تقریب التہذیب: رقم۳۷۰۵)
۸۔ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: "ثقہ"۔ (ذکر من تکلم: رقم۱۷۰)
۹۔ امام یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں: "ثقہ"۔ (من کلام ابی زکریا: رقم۶۳)
۱۰۔ حافظ ابن حبان ؒنے کہا: "متقنی الکوفین" ۔ (مشاہیر علماء الامصار :رقم۱۳۰۵)
۵۔ کلیب بن شہاب: اس حدیث کے پانچوے راوی کلیب بن شہاب ہیں جوتابعی ہیں جن کے بارے میں محدثین کرامؒ فرماتے ہیں:
۱۔ امام عجلیؒ فرماتے ہیں: "تابعی ثقہ"۔ (معرفۃ الثقات العجلی: رقم ۱۵۵۵)
۲۔ امام ابوزرعہؒ نے کہا: "ثقہ"۔ (الجرح والتعدیل: رقم۹۴۶)
۳۔ امام ابن سعدؒ فرماتے ہیں: "ثقہ"۔ (طبقات الکبریٰ: ج۶، ص۱۲۳)
۴۔ حافظ ابن حبانؒ نے بھی انہیں ثقات میں درج فرمایا۔ (الثقات لابن حبان: رقم۵۱۱۱)
۵۔ حافظ ابن حجرعسقلانی ؒلکھتے ہیں: "صدوق"۔ (تقریب التہذیب :رقم۵۶۶۰)
۶۔ امیر المومنین علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ: اس حدیث کے چھٹے راوی خود امیر المومنین علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ہیں جن کی صداقت و ثقات پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔
مندرجہ بالاتحقیق سے ثابت ہوگیاکہ اس حدیث کی سند بے غبار اور بالکل صحیح ہےجس پر کسی بھی طرح کے کلام کی گنجائش نہیں۔ آج تک کوئی بھی غیرمقلد محدث اس حدیث میں سے کسی ایک راوی کو بھی ضعیف ثابت نہ کر سکا اورنہ ہی قیامت تک کر سکے گا۔(انشاءاللہ)
غیرمقلدعالم حافظ زبیر علی زئی صاحب کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ اور ان کا رد
اعتراض نمبر۱: زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۵پر پہلا اعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’مروی ہے کہ سفیان ثوری نے اس اثر کا انکار کیا ہے‘‘۔ (جزءِرفع الیدین للبخاری:ص۱۱)
جواب نمبر۱: زبیر علی زئی صاحب نے یہ اعتراض تو نقل کردیا لیکن اس اعتراض کی سند نہ پیش کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی کیوں کہ موصوف جانتے تھے کہ اگر اس اعتراض کی سند پیش کردی تو قارئین ان کے دھوکے اور فریب میں نہیں آئیں گے۔ لہٰذا کچھ کہنے سے پہلے یہاں امام سفیان ثوریؒ کے اس قول کی سند پیش کردیتے ہیں تاکہ قارئین کو اصل حقیقت کا علم ہوسکے۔
وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ: ذَكَرْتُ لِلثَّوْرِيِّ حَدِيثَ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبِ، فَأَنْكَرَهُ۔ ’’اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے کہا: میں نے امام (سفیان) ثوری کے سامنے النہشلی عن عاصم بن کلیب کی حدیث بیان کی تو انہوں نے انکار کیا‘‘۔ (جزءِرفع الیدین للبخاری:ص۱۱)
۱۔ سب سے پہلااشکال تو یہ ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب نے سفیان ثوریؒ کا یہ قول جزءِ رفع الیدین للبخاری سے نقل کیاہے اور جزءِرفع الیدین للبخاری کا راوی محمود بن اسحٰق مجہول ہے اور جمہور محدثین کے نزدیک اس کا ثقہ ہونا ثابت نہیں ۔
۲۔ دوسرااشکال یہ ہے کہ اس جرح میں امام بخاری ؒکا سماع عبدالرحمٰن بن مہدی سے ثابت نہیں کیونکہ امام بخاری ؒکی پیدائش ۱۹۴ہجری میں ہوئی اور عبدالرحمٰن بن مہدی کی وفات ۱۹۸ہجری میں ہوئی۔حیرت کی بات ہےامام بخاری ؒنے صرف چار سال کی عمر میں یہ جرح پتہ نہیں کیسے سن لی جبکہ اس عمر میں آپ کو علم حدیث کی خبر تک نہ تھی۔لہٰذا اس جرح کی سندمنقطع ہےجوکہ اصولِ حدیث کے مطابق ضعیف ثابت ہوتی ہےاور ضعیف قول پر کسی صحیح حدیث کو رد کردینا انتہائی احمقانہ فعل ہے۔
۳۔ یہاں سب سے اہم اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ترک رفع یدین پربالکل اسی مفہوم کی روایات مختلف اسناد و متن کے ساتھ حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ سے امام سفیان ثوریؒ خود روایت کرتے ہیں لہٰذا ان کا حضرت علی رضی اﷲعنہ کی حدیث کا انکار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مثال کو طور پر زید کہتا ہےمیں نے گزشتہ کل بکرکو نمازِعشاء پڑھتے ہوئے دیکھا۔ بالکل یہی بات عمر بھی کہتا ہے کہ میں نے گزشتہ کل بکرکو نمازِعشاء پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اب اگر زید عمرکی کہی ہوئی بات کا انکار کردےتو پھرزید اپنی ہی کہی ہوئی بات پرجھوٹا ثابت ہوجائےگا۔تو کیا زید ایسی احمقانہ بات کرسکتا ہے جس سے اس کی خود کی کہی ہوئی بات کی نفی ہوتی ہو۔بالکل ایسی ہی مثال امام سفیان ثوریؒ کی ہےجن سےبالکل ایسی ہی روایت درج ذیل الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔
’’حَدَّثَنَاابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّه، عَنْ النَّبِيِّ أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، ثُمَّ لاَ يَعُودُ‘‘۔ ’’عبداﷲسے روایت ہے، انہوں نے کہاکیا میں تم کو رسول اﷲﷺکی نمازبتاؤں۔ پھروہ کھڑے ہوئےانہوں نےدونوں ہاتھ اٹھائےپہلی بارمیں (یعنی جب نماز شروع کی)پھر نہ اٹھائے‘‘۔ (المعانی الآثارأبو جعفر الطحاوی: جلد نمبر۱، بَابُ التَّكْبِيرِ لِلرُّكُوعِ وَالتَّكْبِيرِ لِلسُّجُودِ وَالرَّفْعِ مِنْ الرُّكُوعِ هَلْ مَعَ ذَلِكَ رَفْعٌ أَمْ لاَ)
مندرجہ بالا حدیث میں امام سفیان ثوریؒ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ سےبالکل وہی روایت بیان کررہے ہیں جو امام ابوبکرالنہشلیؒ نے حضرت علی رضی اﷲعنہ سے بیان کی ہے، لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ امام سفیان ثوریؒ اپنی ہی بیان کی کردہ روایت جیسی دوسری روایت کاانکارکردیں۔
مندرجہ بالا تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ زبیر علی زئی صاحب کا اعتراض عقلی اور نقلی دونوں طرح کےدلائل سے خالی ہے۔یہی وجہ ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب نے ایک ہی جملے میں اپنا اعتراض پیش کرنے پر اکتفاء کیا اور مکمل سند حذف کردی۔
اعتراض نمبر۲: زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۵پر دوسرا اعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امام عثمان بن سعید الدارمی نے اس کو واہی (کمزور) کہا‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ج۲، ص ۸۰-۸۱؛  معرفۃ السنن والآثار:ج۱، ص۵۵۰)
جواب نمبر۲: پہلی اہم بات تو یہ ہے کہ اصول حدیث کی رو سے کسی بھی حدیث کے ضعیف ہونے کا دارومداریا تو اس کی سند پر ہوتا ہےیا پھراس کےمتن پر ۔ اگر حدیث کی سند بالکل صحیح ہےاور متن پر بھی کوئی اعتراض نہیں تو پھر حدیث کو بنا کوئی مدلل جرح بیان کئےضعیف قرار دیناایک متشدد و متعنت عمل ہےاور محدثین کرام ؒکے نزدیک متشددومتعنت کی مبہم جرح قابل قبول نہیں ۔ (تذکرۃ الحفاظ: ج۲، ص۸)
مندرجہ بالا اسنادی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جمہور محدثین کے مطابق اس حدیث کا ایک راوی بھی ضعیف اورکمزورنہیں پھر امام دارمیؒ کااس روایت کوواہی (کمزور)کہنا خود ایک ضعیف قول ثابت ہوتاہے کیونکہ اس روایت میں نہ تو کوئی ضعیف راوی موجودہے اور نہ ہی اس کے متن پر کسی قسم کے شبہ کا اظہار کیا گیاہے۔
امام عثمان بن سعید الدارمیؒ کی جرح کا مکمل جائزہ لینے کے لئے بہتر یہ ہوگا کہ پہلے ان کی جرح کے مکمل الفاظ نقل کئے جائیں تاکہ جرح کی نوعیت کا اندازہ ہوسکے اور قارئین کو بھی سمجھنے میں آسانی ہو۔
’’قَالَ عُثْمَانُ الدَّارِمِيُّ: فَهَذَا قَدْ رُوِيَ مِنْ هَذَا الطَّرِيقِ الْوَاهِي، عَنْ عَلِيٍّ وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ الْأَعْرَجُ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يَرْفَعُهُمَا عِنْدَ الرُّكُوعِ وَبَعْدَمَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ" فَلَيْسَ الظَّنُّ بِعَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ يَخْتَارُ فِعْلَهُ عَلَى فِعْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘۔ ’’امام عثمان الدارمیؒ نے کہا: یہ حدیث اس سند سے کمزور ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور عبدالرحمٰن بن ہرمز الاعرج روایت کیا ہے عبیداللہ بن ابی رافع سے اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو رکوع اور رکوع کے بعد سر اٹھاتے رفع یدین کرتے دیکھا۔تو یہ نہیں ہوسکتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود نبی ﷺ سے رفع یدین کرنے کی روایت کریں پھر اس کی مخالفت کریں‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ج۲، ص ۸۰-۸۱)
امام دارمی ؒ کے اس اعتراض میں نہ تو اس حدیث کی سند پر کوئی کلام کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کے متن پر لہٰذا یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ امام دارمیؒ بھی اس حدیث کی سند اور متن کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ امام دارمیؒ نے اس حدیث پر صرف ایک شبہ کااظہارکیاہے جس کے دو جوابات ہیں، ایک عقلی اور دوسرا نقلی۔ نقلی دلیل ہم پہلے نقل کردیتے ہیں اس کے بعد عقلی دلیل سے جواب پیش کیاجائے گا۔
امام دارمیؒ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سےمروی رفع یدین کی جو حدیث بیان کرتے ہوئے اپنے شبہ کا اظہار کیا ہے وہ حدیث خود ضعیف ہے کیونکہ اس حدیث میں راوی عبدالرحمٰن بن ابی الزناد موجودہے جوکہ ایک ضعیف راوی ہے۔ امام ترمذی ؒنے یہ حدیث اس سند سےروایت کی ہے۔
’’حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو أَيُّوبَ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ـ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَإِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ‘‘۔  (جامع الترمذی: جلد نمبر۱، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها رقم الحدیث ۹۱۳)
اس سند میں عبدالرحمٰن بن ابی الزناد راوی موجود ہے جس کو امام دارمی نے نقل کیا ہے۔ عبدالرحمٰن بن ابی الزناد خطا کار، مضطرب الحدیث، ضعیف اور مجروح راوی ہے جس کے بارے میں محدثین کرامؒ فرماتے ہیں:
۱۔ امام احمد بن جنبلؒ فرماتے ہیں: ’’مضطرب الحديث‘‘، ’’ضعیف‘‘۔ (میزان لاعتدال فی نقدالرجال:ج۲، ص۵۰۸؛ الجرح و التعدیل : ج۵، ص۲۵۲)
۲۔ امام يحییٰ بن معینؒ فرماتےہیں: ’’ضعيف، لیس بشیءِ، لا يحتج بحديثه‘‘۔ (میزان لاعتدال فی نقدالرجال:ج۲، ص۵۰۸؛ الجرح و التعدیل: ج۵، ص۲۵۲؛ کتاب المجروحین لابن حبان: ج۲، ص ۵۶)
۳۔ امام نور الدین الہیثمیؒ فرماتے ہیں: ’’ضعفه الجمهور‘‘۔ ( مجمع الزوائد:ج۴، ص۴۰۶)
۴۔ امام ابو حاتم الرازیؒ فرماتے ہیں: ’’ضعفہ النسائی‘‘، ’’يكتب حديثه ولا يحتج به‘‘۔(میزان لاعتدال فی نقدالرجال:ج۲، ص۵۰۸؛ الجرح و التعدیل: ج۵ ، ص۲۵۲)
۵۔ امام النسائیؒ فرماتے ہیں: ’’ضعیف‘‘۔  (تاریخ مدینۃالسلام: ج۱۱، ص۴۹۷؛ الضعفاء والمتروكين للنسائی: ص۲۰۷)
۶۔ امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں: ’’كان ممن ينفرد بالمقلوبات عن الاثبات، وكان ذلك من سوء حفظه وكثرة خطئه‘‘۔ (کتاب المجروحین: ج۲، ص۵۶)
۷۔ امام علی بن المدینیؒ فرماتے ہیں: ’’كان عند أصحابنا ضعيفا‘‘، ’’وماحدث بہ بالعراق فھومضطرب‘‘۔ (تاریخ مدینۃالسلام: ج۱۱، ص۴۹۶؛ تاریخ بغداد: ج۱۰، ص۲۲۸)
۸۔ ابوحفص عمروبن علیؒ فرماتے ہیں: ’’عبدالرحمن بن أبي الزنادضعيف‘‘، ’’ کان عبد الرحمن لا یحدث عن عبدالرحمن بن أبي الزناد ‘‘۔ (تاریخ مدینۃالسلام: ج۱۱، ص۴۹۷)
۹۔ امام عبد الرحمٰن بن المہدیؒ فرماتے ہیں: ’’خطط على أحاديث عبد الرحمن بن أبي الزناد‘‘۔ (تاریخ بغداد: ج۱۰، ص۲۲۸)
۱۰۔ امام محمد بن سعدؒ فرماتے ہیں: ’’كان يضعف لروايته عن أبيه‘‘۔ (تاریخ مدینۃالسلام: ج۱۱، ص۴۹۷؛ تاریخ بغداد: ج۱۰، ص۲۲۸)
۱۱۔ امام صالح بن محمدؒ فرماتے ہیں: ’’قد روى عن أبيه أشياءَ لم يروها غيره‘‘۔(تاریخ مدینۃالسلام: ج۱۱، ص۴۹۷؛ تاریخ بغداد: ج۱۰، ص۲۲۸)
۱۲۔ امام زكريا بن يحيٰى الساجیؒ فرماتے ہیں: ’’فيه ضعف‘‘۔(تہذیب التہذیب: ج۲، ص۵۰۵؛ تاریخ بغداد: ج۱۰، ص۲۲۸)
۱۳۔ علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ’’صدوق، تغیر حفظہ لما قدم بغداد‘‘۔ (تقریب لابن حجر)
تعجب کی بات ہے کہ جس حدیث کے تمام راوی ثقہ، عادل اور حافظ الحدیث ہیں اس حدیث کو زبیرعلی زئی صاحب امام دارمیؒ کے بلادلیل قول پر واہی (کمزور)  کہہ رہے ہیں اورجس حدیث کا راوی(عبدالرحمٰن بن ابی الزناد) سخت ضعیف ہےاس حدیث کو صرف امام دارمیؒ کے قول پرائمہ محدثین کی تمام جرحوں کو نظرانداز کرتے ہوئےصحیح قرار دےرہے ہیں اور ان کے قول سے استدلال کررہے ہیں۔ اب اسے ان کی ناقص ومتعصب تحقیق کہا جائےیااندھی تقلید ، اس بات کا فیصلہ میں قارئین پرچھوڑتا ہوں۔
امام ابن ترکمانیؒ نے امام دارمیؒ کی جرح کا جواب کچھ اس طرح سے دیا ہے کہ:
’’قلت كيف يكون هذا الطريق واهيا ورجاله؟ ثقات فقد رواه عن النهشلي جماعة من الثقات ابن مهدى واحمد بن يونس وغيرهما واخرجه ابن ابى شيبة في المصنف عن وكيع عن النهشلي والنهشلي اخرج له مسلم والترمذي والنسائي وغيرهم ووثقه ابن حنبل وابن معين وقال أبو حاتم شيخ صالح يكتب حديثه ذكره ابن ابى حاتم وقال الذهبي في كتابه رجل صالح تكلم فيه ابن حبان بلا وجه وعاصم تقدم ذكره وابوه كليب بن شهاب اخرج له أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجة وقال محمد بن سعد كان ثقة‘‘۔ ’’میں (ابن ترکمانی) کہتا ہوں اس کی سند اور رجال کمزور کیسے ہو سکتے ہیں؟ جب کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اس کو نہشلی سے روایت کیا ہے ثقہ لوگوں کی جماعت نے ابن مہدی اور احمد بن یونس وغیرہم نےاور تخریج کی اس روایت کی امام ابن ابی شیبہ نے مصنف میں وکیع عن النہشلی سے۔ اور امام مسلم، امام ترمذی اور امام نسائی وغیرہم نے نہشلی سے روایت لی۔ امام احمد اور ابن معین نے توثیق کی ہے۔ اور امام ابوحاتم نے شیخ صالح کہا اور امام ابن ابی حاتم نے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کی حدیث لکھی جاتی ہے۔اور امام ذہبی نےاپنی کتاب میں کہا کہ نیک آدمی ہے ابن حبان نے بلاوجہ اس پر کلام کیا۔ عاصم کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اور اس کے باپ کلیب بن شہاب سے امام ابوداود، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایت لی اور امام محمدبن سعد نے ثقہ کہا‘‘۔ (الجوہر النقی: ج۲، ص۷۹)
امام ابن ترکمانیؒ مزید لکھتے ہیں:
’’فكيف يكون هذا الطريق واهيا بل الذى روى من الطريق الواهي هو ما رواه ابن ابى رافع عن على لان في سنده عبد الرحمن بن ابى الزناد وقد تقدم ذكره في الباب السابق‘‘۔  ’’یہ سند کیسے کمزور ہو سکتی ہے بلکہ کمزور سند وہ ہے جو کہ ابن ابی رافع نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔کیونکہ اس کی سند میں عبدالرحمٰن بن ابی الزناد( ضعیف) ہے ۔اس کا ذکر پچھلے باب میں گزر چکا ہے‘‘۔(الجوہر النقی: ج۲، ص۷۹)
امام ابن ترکمانیؒ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’قلت ابن ابى الزناد هو عبد الرحمن قال ابن حنبل مضطرب الحديث وقال هو وابو حاتم لا يحتج به وقال عمرو بن على تركه‘‘۔ ’’میں (ابن ترکمانی )کہتا ہوں کہ ابن ابی الزناد عبدالرحمٰن ہے اور امام احمد نے کہا کہ وہ مضطرب الحدیث ہے اور انہوں نے اور امام ابوحاتم نے کہا اس سے احتجاج (دلیل) نہیں کیا جا سکتا۔اور عمرو بن علی نےاسکو ترک کردیا‘‘ ۔  (الجوہر النقی: ج۲، ص۷۳)
امام طحاوی ؒامام دارمی ؒکی جرح کا جواب دیتےہوئے فرماتے ہیں:
’’فَحَدِيثُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، إِذَا صَحَّ، فَفِيهِ أَكْثَرُ الْحُجَّةِ لِقَوْلِ، مَنْ لَا يَرَى الرَّفْعَ‘‘۔ ’’پس جب حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ صحیح ہوچکی ہے تو اس میں تارکین رفع یدین کے لیے بھاری حجت ہے‘‘۔ (شرح معانی الآثار: ج۱، ص۲۵۵، رقم۱۳۵۶)
امام طحاوی ؒامام دارمیؒ کی پیش کردہ رفع یدین والی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’وَحَدِيثُ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ خَطَأٌ‘‘۔ ’’اور (عبدالرحمٰن) بن ابی الزناد کی( رفع یدین والی ) روایت (اس کے ضعیف ہونے کی وجہ سے) خطا ہے‘‘۔ (شرح معانی الآثار:ج۱، ص۲۵۵، رقم۱۳۵۶)
امام طحاویؒ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’أَنْ يَكُونَ فِي نَفْسِهِ سَقِيمًا‘‘۔ ’’کہ یہ روایت (امام دارمی کی رفع یدین کی پیش کردہ حدیث) خود اپنے آپ میں ضعیف ہے‘‘۔(شرح معانی الآثار:ج۱، ص۲۵۵، رقم۱۳۵۴)
امام دقیق بن العید شافعیؒ نےاپنی کتاب الامام میں امام دارمیؒ کی جرح کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وتعقبه ابن دقیق العید فی الامام بان مَا قَالَهُ ضَعِيفٌ، فَإِنَّهُ جَعَلَ رِوَايَةَ الرَّفْعِ۔مَعَ حُسْنِ الظَّنِّ بِعَلِيٍّ۔ فِي تَرْكِ الْمُخَالَفَةِ، دَلِيلًا عَلَى ضَعْفِ هَذِهِ الرِّوَايَةِ، وَخَصْمُهُ يَعْكِسُ الْأَمْرَ، وَيَجْعَلُ فِعْلَ عَلِيٍّ بَعْدَ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَلِيلًا عَلَى نَسْخِ مَا تَقَدَّمَ‘‘۔ ’’امام ابن دقیق نے اس کا تعاقب کیا اور فرمایا، امام دارمی نے جو کچھ کہا ہے وہ ضعیف ہے کیونکہ انہوں نے بقول خود رفع یدین کی روایت کو جو کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے ترک رفع یدین کے عمل کے ضعیف ہونے پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر حسن ظن کرتے ہوئے دلیل پکڑی ہے تو اس صورت میں مخالف (احناف) کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ معاملہ میں اس کے برعکس کرکے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ترک رفع یدین کے عمل کو رسول ﷺ کے بعد حسن ظن کرتے ہوئے دلیل کے طور پر رفع یدین کے لیے ناسخ بنا ڈالے ‘‘۔ (التعلیق الممجد: ص۹۲؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۱۳)
مندرجہ بالا تحقیقی دلائل اور ائمہ محدثین کے جوابا ت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عبدالرحمٰن بن ابی الزنادایک مجہول راوی ہے اور امام دارمیؒ کا حضرت علی رضی اﷲعنہ کی ترکِ رفع یدین والی حدیث (جس کے تمام راوی ثقہ ہیں) کے مقابلے میں اس مجہوم راوی کی حدیث کو فوقیت دینا اور اس سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
اب ہم آتے ہیں عقلی دلائل کہ طرف۔ اگر چند لمحوں کے لئے عبدالرحمٰن بن ابی الزنادکے ضعف کو بھلاکراس کی بیان کردہ رفع یدین والی حدیث کوصحیح تسلیم کرلیا جائےتو بھی امام دارمیؒ کا ترکِ رفع والی حدیث کو واہی (کمزور) کہنا غلط ہے کیونکہ اگر دو صحیح احادیث میں تعارض آجائے تواس بناء پر کسی ایک حدیث کو ضعیف نہیں کہاجاسکتا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ دونوں میں سے ایک حدیث ناسخ ہے اور دوسری منسوخ ہے۔
امام طحاویؒ(۳۲۱ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’اولاً تو رفع یدین والی حضرت علی رضی اﷲعنہ کی حدیث میں رفع یدین کا ذکر عبدالرحمٰن بن ابی الزناد کی خطاء ہے، ثانیاً حضرت علی رضی اﷲعنہ کے بارے میں یہ سوچابھی نہیں جاسکتا کہ ایک سنت کو وہ خودروایت بھی کریں اور پھرخود خلاف سنت نماز بھی پڑھیں۔ ایک دفعہ بھی وہ ایک نماز بھی سنت کے مطابق نہ پڑھیں۔ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ رفع یدین کی حدیث حضرت علی رضی اﷲعنہ کے نزدیک منسوخ تھی‘‘۔(شرح معانی الآثار:ج۱، ص۲۵۵، رقم۱۳۵۴)
امام طحاویؒ کی تحریر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رفع یدین کرنے والی حدیث منسوخ ہوئی ہے لیکن ہم امام طحاویؒ کے قول پر اکتفاء نہ کرتے ہوئ قارئین کرام کے لئے اس بات کی تحقیق کئے دیتے ہیں کہ کونسی حدیث ناسخ ہے اور کونسی منسوخ ۔ اس بات کا پتہ لگانا بھی کوئی مشکل بات نہیں ہےکیونکہ اس بات کا پتہ لگانے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ حضرت علی رضی اﷲعنہ کا آخری عمل رفع یدین تھا یا ترکِ رفع یدین۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ حضرت عمر فاروقکے عہد خلافت میں ملک عراق فتح ہونے کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ نے آپ کی اجازت سے ۱۷ہجری میں کوفہ شہر آباد کیا، قبائل عرب میں سے فصحاء کو آباد کیا گیا۔ حضرت عمر فاروقنے حضرت عبد اللہ بن مسعودجیسے جلیل القدر صحابی کو وہاں بھیجا، تاکہ وہ قرآن وسنت کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی فرمائیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بارے میں فرمایا کہ وہ علم سے بھرا ہوا ایک ظرف ہے۔ حضرت علی مرتضیکے عہد خلافت میں جب دارالخلافت کوفہ منتقل کردیا گیا تو کوفہ علم کا گہوارہ بن گیا۔ صحابہٴ کرامؓ اور تابعینؓ عظام کی ایک جماعت، خاص کر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓاور ان کے شاگردوں نے اس بستی کو علم وعمل سے بھر دیا۔ صحابہٴ کرامؓ کے درمیان فقیہ کی حیثیت رکھنے والے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا علمی ورثہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے مشہور استاذ حضرت حمادالکوفیؒ اور مشہور تابعین حضرت ابراہیم نخعیوحضرت علقمہکے ذریعہ امام ابوحنیفہتک پہنچا۔ حضرت حمادؒ صحابی رسول حضرت انس بن مالکؓ کے بھی سب سے قریب اور معتمد شاگرد ہیں۔ حضرت حماد ؒ کی صحبت میں امام ابوحنیفہؒ ۱۸سال رہے اورحضرت حماد ؒکے انتقال کے بعد کوفہ میں ان کی مسند پر امام ابوحنیفہؒ کو ہی بٹھایا گیا۔ غرضیکہ امام ابوحنیفہؒ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکے علمی ورثہ کے وارث بنے۔ اسی وجہ سے امام ابوحنیفہ ؒحضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایات اور ان کے فیصلہ کو ترجیح دیتے ہیں، مثلاً کتب احادیث میں وارد حضرت عبداللہ بن مسعودؓکی روایات کی بنا پر امام ابوحنیفہ ؒنے نماز میں رکوع سے قبل وبعد رفع یدین نہ کرنے کو راجح قرار دیا۔
کوفہ میں کتنے صحابۂ کرامؓ سکونت پذیرتھے
۱۔ ’’حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ،، قَالَ قَدِمْتُ الشَّأْمَ فَصَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلْتُ اللَّهُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا، فَأَتَيْتُ قَوْمًا فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ، فَإِذَا شَيْخٌ قَدْ جَاءَ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِي، قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا أَبُو الدَّرْدَاءِ۔‏ فَقُلْتُ إِنِّي دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُيَسِّرَ لِي جَلِيسًا صَالِحًا فَيَسَّرَكَ لِي، قَالَ مِمَّنْ أَنْتَ قُلْتُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ‏۔ قَالَ أَوَلَيْسَ عِنْدَكُمُ ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ صَاحِبُ النَّعْلَيْنِ وَالْوِسَادِ وَالْمِطْهَرَةِ وَفِيكُمُ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ مِنَ الشَّيْطَانِ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم أَوَلَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ سِرِّ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم الَّذِي لاَ يَعْلَمُ أَحَدٌ غَيْرُهُ ثُمَّ قَالَ كَيْفَ يَقْرَأُ عَبْدُ اللَّهِ ‏{‏وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى‏}، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ ‏{‏وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى * وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى * وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى‏}‏‏۔‏ قَالَ وَاللَّهِ لَقَدْ أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ‏‘‘۔ ’’حضرت علقمہؒ فرماتے ہیں کہ میں جب شام آیا تو میں نے دو رکعت نماز پڑھ کر یہ دعا کی، کہ اے اللہ! مجھے کوئی نیک ساتھی عطا فرما۔ پھر میں ایک قوم کے پاس آیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ گیا، تھوڑی ہی دیر بعد ایک بزرگ آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے، میں نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ ہیں، اس پر میں نے عرض کیا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ کوئی نیک ساتھی مجھے عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مجھے عنایت فرمایا۔ انہوں نے دریافت کیا، تمہارا وطن کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا کوفہ ہے۔ انہوں نے کہا کیا تمہارے یہاں ابن ام عبد، صاحب النعلین، صاحب وسادہ، و مطہرہ ( یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ) نہیں ہیں؟ کیا تمہارے یہاں وہ نہیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی شیطان سے پناہ دے چکا ہے کہ وہ انہیں کبھی غلط راستے پر نہیں لے جا سکتا۔ ( مراد عمار رضی اللہ عنہ سے تھی ) کیا تم میں وہ نہیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے بہت سے بھیدوں کے حامل ہیں جنہیں ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ ( یعنی حذیفہ رضی اللہ عنہ ) اس کے بعد انہوں نے دریافت فرمایا عبداللہ رضی اللہ عنہ آیت{ واللیل اذا یغشیٰ‏} کی تلاوت کس طرح کرتے ہیں ؟ میں نے انہیں پڑھ کر سنائی کہ { واللیل اذا یغشیٰ والنھار اذا تجلیٰ والذکر والانثی ‏} اس پر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان مبارک سے مجھے بھی اسی طرح یاد کرایا تھا‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، كتاب فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، باب مَنَاقِبُ عَمَّارٍ وَحُذَيْفَةَ رضى الله عنهما، رقم الحدیث ۳۷۴۲)
۲۔ ’’قال الامام الحفاظ المحدث قتادۃ بن دعامۃ(متوفی۱۱۸ھ) نزل الکوفۃ الف وخمسون رجلاًمن اصحاب النبیﷺواربعۃ وعشرون من اھل بدر‘‘۔ (الکنی والاسماء للدولابی: ج۱، ص۳۸۵، رقم ۱۳۵۹)
۳۔’’قال الامام الحفاظ المحدث الفقیۃ ابراھیم(متوفی۹۶ھ) قال ھبط الکوفۃ ثلاثمائۃمن اصحاب الشجرۃ وسبعون من اھل بدر‘‘۔ (طبقات لابن سعد: ج۶، ص۴)
۴۔ ’’قال الامام الحفاظ المحدث احمدالعجلی الکوفی(متوفی۲۶۱ھ) فی تاریخہ نزل الکوفۃ الف وخمسمائۃ من اصحاب النبیﷺ‘‘۔ (تاریخ الثقاب للعجلی: ص۵۱۷، باب قیمن نزل الکوفۃ وغیرھا من الصحابۃ، بیروت؛ فتح القدیرلابن ھمام: ج ۱، ص۹۱؛ وشرح النقایۃلعلی القاری: ج۱، ص۲۰)
۵۔ امام الحافظ و محدث حاکم نیشاپوری الشافعیؒ(متوفی۴۰۵ھ) نے یوں لکھا: ’’ذکر من سکن الکوفۃ من اصحاب رسول ﷲﷺ‘‘ اور یہ لکھنے کے بعد ۴۹ صحابۂ کرامؓ کے نام ذکر کئےہیں۔ (معرفت علوم الحدیث للحاکم: ص۱۹۱)
۶۔’’قال الامام الحفاظ المحدث ابو الخیرمحمد السخاوی الشافعی(متوفی۹۰۲ھ) والکوفۃ ونزلھاالی ان قال وخلق من اصحابۃؓ‘‘۔ (الاعلان بالتوبیخ للسخاوی:ص۲۹۵)
ترکِ رفع یدین بعدالافتتاح پر پندرسو صحابۂ کرامؓ سے زائد عامل تھے
۱۔ ’’قال الامام الحافظ المحدث ابوعیسیٰ الترمذی شافعیؒ (متوفی۲۷۹ھ) وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الكُوفَةِ ‘‘۔ (جامع ترمذی: باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ج ۱،ص ۱۸۵)
۲۔’’والامام الحافظ المحدث ابوعبدﷲالمزوری السمرقندی الشافعیؒ (متوفی۲۹۴ھ) فی کتابہ فی رفع الیدین من الکتاب الکبیرلایعلم مصراً من الامصارینسب الی اھلہ العلم قدیما(ای الصحابۃ التابعین وغیرھما) ترکواباجماعھم رفع الیدین عند الخفض والرفع فی الصلوۃ الا اھل الکوفۃ۔۔۔ وفی مقام آخر فکلھم لایرفع الافی الاحرام‘‘۔ (التمہیدلابن عبدالبر: ج ۴، ص ۱۸۷؛ والاستذکارلابن عبدالبر: ج۱، ص۴۰۸)
۳۔ ’’قدروی الامام الحافظ المحدث ابوبکربن ابی شیبۃ ؒھوشیخ البخاری و مسلم الکوفی (متوفی۲۳۵ھ) قال حدثنا وکیع ابو اسامہ عن شعبۃعن ابی اسحاق(ھو عمروبن عبدﷲالبیھقی الکوفی(متوفی۱۲۹) قال کان اصحاب عبدﷲ ابن مسعودواصحاب علی لایرفعون ایدیھم الافی افتتاح الصلوۃ۔ قال وکیع ثم لایعودون‘‘۔ (المصنف ابن ابی شیبہ: ج ۱، ص ۲۶۷، قال ابوشعیب : اسنادصحیح علی شرط البخاری و مسلم)
۴۔ مولانا عبدالحی لکھنوی نے لکھا ہے: ’’قول ابی حنیفۃ ووافقہ فی عدم الرفع الامرۃ الثوری والحسن بن حیی وسائرفقھا ء الکوفۃ قدیما وحدیثاوھو قول ابن مسعود واصحابہ۔۔۔الخ‘‘۔ ’’ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کامؤقف ہے کہ رفع یدین صرف ایک بار کرنا چاہیئے۔اور امام سفیان ثوری ،حسن بن حییٰ اور تمام متقدمین اور متاخرین فقہائے کوفہ اور حضور عبداللہ بن مسعود رضی اﷲعنہ اور آپ کے اصحاب کا بھی یہی مؤقف ہے‘‘۔(التعليق الممجد على موطأ محمد: ج۱، ص۳۸۴)
۵۔ ’’وقال أبو عبد الله محمد بن نصر المَرْوزي: لا نعلم مصراً من الأمصار تركوا بإجماعهم رفعَ اليدين عند الخفض والرفع إلا أهل الكوفة‘‘۔ ’’امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے استاذ محمد بن نصر مرزوی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم کوئی ایسا شہر نہیں جانتے کہ جس کے سب باشندوں نے جھکتےاوراٹھتے وقت رفع یدین چھوڑ دی ہو، سوائے اہل کوفہ کے‘‘۔ (التعليق الممجد على موطأ محمد: ج۱، ص۳۸۴)
مندرجہ بالاتحقیق اور ائمہ محدثین کے اقول سے پتہ چلا کہ صرف کوفہ شہر میں پندرہ سو(۱۵۰۰) سے زائد صحابہ کرامؓ سکونت پذیرتھے، جن میں سے ستر(۷۰) بدری اور تین سو(۳۰۰) بیعت رضوان والے صحابہ کرامؓ تھے۔ امام سخاویؒ تو فرماتے ہیں کہ ان سے بھی زیادہ صحابہ کرامؓ کوفہ میں موجود تھے۔ امام ترمذیؒ اور امام ابو عبداﷲالمزوریؒ تو فرماتے ہیں کہ (بے شمارصحابہ کرامؓ) جوکہ پہلے سے کوفہ میں آباد تھے ترکِ رفع الیدین عندالرکوع والسجودکے قائل تھے۔ یعنی کوفہ شہرمیں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو نمازمیں تکبیراولیٰ کے بعد والے رفع یدین کرتا تھاتو آخرکیا وجہ تھی کے علم کے شہرودارلخلافہ کوفہ کے تمام اہل علم صحابہ وتابعین سب کے سب ترکِ رفع یدین کے قائل تھے۔ اس کا جواب وہی ہے جو امام طحاویؒ نے دیا ہے کہ ان تمام اشخاص کے نزدیک رفع یدین منسوخ ہوگیا تھا اور اس منسوخیت کی سب سے بڑی دلیل حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ جیسے جلیل القدر اور فقیہہ صحابہ کی بیان کردہ احادیث اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ سمیت پندرہ سو(۱۵۰۰) صحابہ کرامؓ کا اپنا عمل تھا جوترکِ رفع الیدین عندالرکوع والسجودکے قائل تھے۔
اعتراض نمبر۳: ’’زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۵پر تیسرا اعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ امام شافعیؒ نے اسے غیرثابت کہاہے‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ج۲، ص۸۱)
جواب نمبر۳: زبیرعلی زئی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ امام شافعیؒ کی جرح کے مکمل الفاظ نقل کردیں تاکہ قارئین کو یہ اندازہ ہوسکے کہ امام شافعیؒ کی جرح کی کیا حیثیت ہے۔ کیونکہ مبہم الفاظ کی جرح و تعدیل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زبیر علی زئی صاحب نے اس جرح کو نقل کرنے میں ناانصافی سے کام لیا ہےکیونکہ انہوں نے اس جرح کی سند نقل نہیں کی۔ زبیرعلی زئی صاحب چونکہ یہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے سند نقل کردی تو ان کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوجائے گالہٰذا انہوں نے سند نقل نہ کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔اس جرح کی سند امام بیہقیؒ سےلے کر امام زعفرانی ؒتک نا معلوم ہے۔ لہٰذا زئی صاحب نامعلوم اسناد سے عام مسلمانوں کو گمراہ کر رہےہیں۔ امام بیہقیؒ نے اس جرح کی سند کو معلق اور منقطع نقل کیا ہے جو کہ جمہور کے نزدیک ضعیف اور مردود ہے۔
امام بیہقیؒ نے اس جرح کوان الفاظ میں نقل کیاہے: ’’قَالَ الزَّعْفَرَانِيُّ قَالَ: الشَّافِعِيُّ فِي الْقَدِيمِ: وَلَا يَثْبُتُ عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ، يَعْنِي مَا رَوَوْهُ عَنْهُمَا مِنْ أَنَّهُمَا كَانَا لَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلَاةِ إِلَّا فِي تَكْبِيرَةِ الِافْتِتَاحِ‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ج۲، ص۸۱)
اس جرح کی سند منقطع ہے کیونکہ امام بیہقیؒ اور امام حسن بن محمد بن الصباح الزعفرانى ؒکے درمیان ملاقات ثابت نہیں۔  امام زعفرانی ؒکی وفات ۲۵۹یا ۲۶۰ہجری میں ہوئی جبکہ امام بیہقیؒ کی پیدائش ۳۸۴ہجری کو ہوئی، یعنی اس وقت تو امام بیہقیؒ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب امام الزعفرانیؒ نے یہ بات کہی ہوگی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امام بیہقیؒ نے خود ان سے یہ بات سن لی ہو؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام بیہقی ؒاور امام زعفرانی ؒکے درمیان سند نامعلوم اور منقطع ہے۔ لہٰذا یہ جرح ضعیف اور مردود ہےاور زبیر علی زئی صاحب کا امام شافعیؒ کی جرح سے استدلال باطل و مردود ہے۔ اگر زبیرعلی زئی صاحب کی پیش کردہ اس جرح کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو بھی اعتراض باطل ہے کیونکہ امام شافعیؒ کایہ قول قدیم ہے جبکہ امام شافعیؒ کا بعد والا قول اس کے برعکس ہے۔
امام شافعیؒ کے جواب میں علامہ علاؤالدین الماردینیؒ فرماتے ہیں: ’’قلت تقدیم تصحیح الطحاوی ذلک عن والسندبذلک صحیح کمامروثبت مقدم علی النافی۔ قول الشافعی بعدذلک‘‘۔ ’’میں کہتا ہوں کہ پہلے امام طحاویؒ کی تصحیح گزرچکی ہےاور اس کی سند بھی صحیح ہے اور ثابت نفی پرمقدم ہوتا ہے۔ امام شافعیؒ کے بعد والا قول بھی یہی ہےکہ ان دونوں حضرات (یعنی حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ ) سے ترکِ رفع یدین ثابت ہے‘‘۔ (الجواہرالنقی: ج۲، ص۷۹)
 اعتراض نمبر۴: ’’زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۵پر چوتھا اعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امام احمد نے گویا اس کا انکار کیاہے‘‘۔ (المسائل احمد: ج۱، ص۳۴۳)
جواب نمبر۴: زبیرعلی زئی صاحب نے یہ اعتراض نقل کرنے میں بہت ناانصافی ومنافقت کا ثبوت دیا ہے۔امام احمدؒ نے نہ تو اس حدیث کی سند پرکلام کیا ہے اورنہ ہی متن کا انکار کیا مگر زبیر علی زئی صاحب نے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے اسے بھی اعتراض بناڈالا۔ اس اعتراض کی اصل حقیقت جاننے کے لئے سب سے پہلے امام احمدؒ کا قول نقل کردیتے ہیں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
امام عبداللہ بن احمدؒ اپنے والد امام احمد بن حنبلؒ سے نقل کرتے ہیں کہ: ’’قال ابی لم یروہ عن عاصم غیر ابی بکر النھشلی ما اعلمہ‘‘۔ ’’ میرے والد (امام احمد) نے کہا کہ عاصم (بن کلیب) سے ابوبکر نہشلی کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کی جو میں جانتا ہوں۔ (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ترک رفع یدین والی حدیث عاصم بن کلیب سے ابوبکر نہشلی نے روایت کی ہے)‘‘۔ (العلل و معرفۃ الرجال: رقم۷۱۷)
امام احمد بن حنبلؒ کے قول سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے اس حدیث کا انکار نہیں کیا بلکہ سند میں عاصم بن کلیب سے ابوبکر نہشلی کے (منفرد) اکیلےروایت کرنےکےبارےمیں کہاہے۔
اصول حدیث کی رو سے ثقہ راوی کی روایت قبول ہوتی ہے چاہے وہ (منفرد) اکیلا ہی کیوں نہ ہو ایک ہی سند میں۔ دوسری بات یہ کہ امام احمد ؒنے یہاں عاصم بن کلیب کا اس روایت میں(منفرد) اکیلاہونا یقینی طورپر نہیں کہا بلکہ "اعلمہ" کہا ہے یعنی "اپنےعلم کے مطابق" کہا ہے ورنہ ابو بکر نہشلی کی متا بعت محمد بن ابان (ضعیف راوی) نے کر رکھی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے اس حدیث کی سند میں ابوبکر نہشلی (منفرد) اکیلے راوی نہیں ہیں۔
اگرچہ اس روایت میں ابو بکر نہشلی (منفرد) اکیلے ہی کیونکہ نہ ہو ں پھر بھی اس کی روایت قبول کی جائے گی جب تک کوئی اس سے زیادہ اوثق راوی مخالفت نہ کرے اس کی روایت میں۔ اس کے برعکس یہ قول امام احمد ؒکا اپنا قول نہیں ہے بلکہ ان کے بیٹے عبداللہ بن احمد ؒکا ہے کیونکہ المسائل لاحمد ان سے روایت ہے۔اور ان کا فہم امام احمد ؒکے فہم سے زیادہ مضبوط نہیں۔
ایک عرب عالم ومشہور محدث بشیر علی عمر اس روایت میں امام احمدؒ کےقول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’و فی ھذہ الروایۃ ینفی الامام احمد العلم بوجود متابع لابی بکر النھشلی، و ھذا دون مطلق النفی و مع ذلک فہم ابنہ عبداللہ انہ ینکرہ، و ھذا لمعرفۃ بان من منھجۃ اطلاق الانکار علی الحدیث الذی تفرد بہ روایۃ۔ و ابو بکر النھشلی ھو ابوبکر بن عبداللہ بن قطاف و قد ثقۃ احمد و الصحیح ان ھذاالحدیث لم ینفرد بروایتہ عن عاصم بن کلیب، فقد تابعہ محمد بن ابان عن عاصم بمثلہ، اخرجہ محمد بن الحسن الشیبانی و ذکرہ الدارقطنی تعلیقا، و لعل من اجل ھذا لم یجزم امام احمد ینفی وجود المتابع لہ، بل نفی علمہ بذلک فحسب‘‘۔ ’’ اس روایت میں امام احمد اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ ان کے علم کے مطابق ابو بکر نہشلی کے لیےکوئی متابع نہیں ۔ اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی دوسرا متابع موجود نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ ان کے بیٹے نےیہ سمجھا کہ امام احمد نے متابع کی نفی کی لہذا یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتاکہ ان کا بیٹا جو سمجھے وہ صحیح بھی ہو۔ ابو بکر نہشلی سے مراد ابوبکر بن عبداللہ بن قطاف ہیں ان کوامام احمدؒ نے ثقہ قرار دیا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ عاصم بن کلیب سے یہ حدیث کلیب سے روایت کرنے میں منفرد نہیں بلکہ عاصم سے محمد بن ابان نے ان کی متابعت کی ہے۔ امام محمؒد نے اس کی تخریج کی اور امام دارقطنیؒ نے اسے تعلیقا ًذکر کیا۔اس لیے امام احمدؒنے یقینی طور پراس کی متابع کی نفی نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ میرے علم کے مطابق اس کا کوئی متابع نہیں۔ لہٰذا امام احمدؒ نے متابع کا انکار کیا ہے (حدیث کا نہیں )مگر اس کا متابع بھی ثابت ہوچکا ہے۔ اگر متابع نہ بھی ہوتا پھر بھی یہ روایت اصول حدیث کے مطابق صحیح ہے‘‘۔ (المنہج امام احمد: ج۲، ص۷۸۹)
اعتراض نمبر۵: ’’زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۵پر پانچواں اعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امام بخاری نے جرح کی ہے‘‘۔ (جزءِرفع الیدین للبخاری: ص۱۱)
جواب نمبر۵-۱: زبیرعلی زئی صاحب نےامام بخاریؒ کا نام لیکر بہت ہی بڑا جھوٹ بولا ہے۔ زبیرعلی زئی صاحب میں اگر علمی ذوق ہے اور وہ اپنے اس دعویٰ میں سچے ہیں تو ان سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی امام بخاریؒ کی جرح کے الفاظ نقل کردیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امام بخاریؒ نے نہ تو اس حدیث کی سند پر کوئی کلام کیاہے اور نہ ہی اس کے متن پرکوئی اعتراض کیا ہے بلکہ انہوں نے یہاں عبیداﷲ کی حدیث کو عاصم بن کلیب کی حدیث پرترجیح دی ہے۔
امام بخاریؒ کے الفاظ یہ ہیں: ’’قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَرَوَى أَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ بَعْدُ، وَحَدِيثُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَصَحُّ مَعَ أَنَّ حَدِيثَ كُلَيْبٍ هَذَا لَمْ يَحْفَظْ رَفْعَ الْأَيْدِي، وَحَدِيثُ عُبَيْدِ اللَّهِ هُوَ شَاهِد‘‘۔ ’’بخاری نے کہا: اور ابوبکرالنہشلی نے عاصم بن کلیب عن ابیہ (کی سند) سے روایت کیاکہ بے شک علیؓ نے تکبیرکے شروع میں رفع یدین کیا پھراس کے بعد اعادہ نہیں کیا۔ اور عبیداللہ کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔ ساتھ اس کے کلیب کی اس حدیث میں رفع یدین کو یاد نہیں رکھا گیا اور عبیداللہ کی حدیث گواہ ہے‘‘۔(جزءِرفع الیدین للبخاری: ص۱۱)
امام بخاریؒ کے الفاظ سے واضح ہوگیا کہ امام بخاریؒ نے اپنے مؤقف کی تائید میں اس حدیث پر عبیداﷲ کی حدیث کوترجیح دی ہے۔ لیکن یہاں خودامام بخاریؒ سے تساہل ہوگیا ہے۔ کیونکہ عبیداللہ کی حدیث کیسے صحیح ہو سکتی ہے جب کہ اس کی سند میں وہی عبدالرحمٰن بن ابی الزناد ضعیف راوی موجودہے جس کو ہم اوپر جمہور محدثین سے ضعیف ثابت کرچکےہیں۔ عبیداﷲ کی حدیث کی سند اور متن درج ذیل یہ ہیں:
’’حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْه، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَلَا يَرْفَعُ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ، وَهُوَ قَاعِدٌ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ كَذَلِكَ، وَكَبَّرَ‘‘۔  (جزءِ رفع الیدین للبخاری: ص۱۱)
مندرجہ بالا حدیث کے ایک راوی پر ہم پہلے ہی تبصرہ کرچکے ہیں اور اس کے راوی عبدالرحمٰن بن ابی الزنادکوجمہور محدثین کی جرحوں سے ضعیف ثابت کرچکے ہیں۔ لہٰذا اس پر مزید کلام کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ویسے بھی یہ کہاں کا انصاف اور عقل کی بات ہوئی کہ جس حدیث کے تمام راویوں پر جرح کاایک حرف بھی نہ ہواوراس کے تمام راوی ثقہ و عادل ہوں اس حدیث پرایک ضعیف اور مجروح راوی (جسے جمہورمحدثین نے ضعیف قرار دیاہو) کی حدیث کو ترجیح دی جائے۔ اب اگرزبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین صرف امام بخاریؒ کے قول پر ایک ضعیف حدیث کو صحیح حدیث پر ترجیح دیتے ہیں تو یہ امام بخاریؒ کی اندھی تقلید کے سواء اور کچھ نہیں۔
جواب نمبر۵-۲: دوسرا جواب یہ کہ اس جرح کی امام بخاری ؒتک سند صحیح نہیں ہے۔  حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نےاس سند کو اس طرح نقل کیاہے:
’’أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ الْإِمَامُ الْعَلَّامَةُ الْحَافِظُ الْمُتْقِنُ بَقِيَّةُ السَّلَفِ زَيْنُ الدِّينِ أَبُو الْفَضْلِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْعِرَاقِيِّ وَالشَّيْخُ الْإِمَامُ الْحَافِظُ نُورُ الدِّينِ عَلِيُّ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْهَيْثَمِيُّ بِقَرَاءَتِي عَلَيْهِمَا قَالَا: أَخْبَرَتْنَا الشِّيخَةُ الصَّالِحَةُ أُمُّ مُحَمَّدٍ سِتُّ الْعَرَبِ بِنْتُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ الْبُخَارِيِّ قَالَتْ: أَخْبَرَنَا جَدِّي الشَّيْخُ فَخْرُ الدِّينِ بْنُ الْبُخَارِيِّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا حَاضِرَةً وَإِجَازَةً لِمَا يَرْوِيهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَعْمَرِ بْنِ طَبَرْزَدَ سَمَاعًا عَلَيْةِ أَخْبَرَنَا أَبُو غَالِبٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ الْبِنَاءِ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَسْنُونَ النَّرْسِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى الْمَلَاحِمِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ مَحْمُودُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ مَحْمُودٍ الْخُزَاعِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْإِمَامُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْبُخَارِيُّ‘‘۔ (جزءِرفع الیدین: ص۱۱)
اس سند میں ابواسحاق محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی موجودہے جس کی جمہور محدثین سے توثیق ثابت نہیں۔باقی زبیر علی زئی صاحب کا یہ کہناکہ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے اس کی ایک روایت کو نقل کر کے اسے "حسن" کہا ہے اور یہ امام ابن حجرؒ کے نزدیک صدوق ہے۔یہ بھی زبیرعلی زئی صاحب کابہت بڑاجھوٹ ہے۔ کیونکہ ابن حجرعسقلانیؒ نے دو ضعیف روایت کی اسناد کو لکھا پھر متابع کو دیکھا تو اسی حدیث کی سند میں محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی کی متابعت ایک ضعیف راوی کر رہا تھا، اس لیے حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے اس حدیث کو حسن کہا وہ بھی حسن لغیرہ کی قسم میں۔ (حوالے کے لئے دیکھیں حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کی کتاب موافقۃ الخبرالخبر: ج۲، ص۴۱۷)
اگر کسی محدث نےجزءِرفع الیدین کی کسی روایت سے بطورحوالہ استدلال کیا ہے تو اس سے یہ کیسے لازم ہوگیا کہ ان کے نزدیک جزءِرفع الیدین کی پوری کتاب کی توثیق ثابت ہے۔ محدثین نے اگر جزءِ رفع یدین کی کسی حدیث سے استدلال کیا ہے تو وہ حدیث دوسری کتابوں میں بھی تو موجود ہیں اور اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ جزءِ رفع الیدین میں بہت سی ضعیف روایات بھی رقم ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر اس طرح سے کسی کتاب کی توثیق ثابت ہوتی ہے تو پھر تفسیرابن عباسؓ جس کا اصل نام ’’تنویرالمقباس‘‘ہے۔جوکہ تفسیر جمعه ابو طاہر محمد بن يعقوب الفيروز آبادى الشافعی (المتوفى : ۸۱۷ھ) کی تصنیف ہے۔"تنویر المقباس فی تفسير ابن عباس" کے صفحۂ اول پر درج ہے کہ یہ مکمل تفسیر ذیل کی سند سے مروی ہے: ’’محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس‘‘۔ اس کتاب کو صرف اس بنیاد پر درجہ صحت حاصل نہیں کیونکہ محمد بن مروان اگر اس سند (عن کلبی عن ابی صالح عن ابن عباس) سے روایت کرے تو یہ پوری سند "سلسلۃ الکذب (جھوٹ کا سلسلہ)" کہلاتی ہے۔حالانکہ اس کتاب میں بھی بہت سی ایسی روایات درج ہیں جن کی تصدیق دوسری کتابوں سے ہوتی ہیں جن سے بہت سے محدثین نے استدلال بھی کیا ہے تو کیا ان محدثین کے اس استدلال سے یہ کتاب صحیح تسلیم کی جاتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر محدثین کرام کاجزءِرفع الیدین سے کسی حدیث کا حوالہ نقل کرنے سے بھی اس کتاب کی توثیق ثابت نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ ثابت ہوگیا کہ کسی محدث کا کسی کتاب سے کچھ استفادہ کرنے سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ یہ پوری کی پوری کتاب ان کی نظر میں صحیح ہے۔
 ہیں: ’’دراحوال این ھردوکتاب تفصیلاًاطلاع نیست‘‘۔ ’’ان دونوں کتابوں (کتابُ رفع الیدین للبخاری وکتاب الجمعہ للنسائی)کے تفصیلی حالات کا کچھ پتہ نہیں چلا‘‘۔ (اردوفارسی بستان المحدثین: ص ۲۲۲)
ایک بریلوی عالم مولانا غلام مصطفےٰنوری صاحب لکھتے ہیں: ’’امام بخاریؒ سے اس رسالے کو روایت کرنے والامحمودبن اسحاق الخزاعی ہے جوکہ مجہول ہے بطریق محدثین اس کی تو ثیق ثابت نہیں ہے‘‘۔ (ترکِ رفع یدین: ص۴۱۳)
امام ابن حجرعسقلانیؒ نے اپنی کسی بھی کتاب میں محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی کو "صدوق" نہیں لکھا۔ لہٰذا یہ جرح ابواسحاق محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی کی وجہ سے ضعیف اور مردود ثابت ہوئی۔
ایک شبہ کا ازالہ: اکثرغیرمقلدین حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جزءِ رفع الیدین کی دوسری سند بھی موجود ہے جس میں ابواسحاق محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی موجود نہیں ہے۔ اور وہ سند محمد بن مقاتل المروزیؒ سے روایت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اول درجے کا جھوٹ اور کذب ہے کیونکہ محمد بن مقاتل تو امام بخاریؒ کے استاذ ہیں پھروہ جزءِ رفع الیدین کیسے روایت کر سکتے ہیں؟
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنی سند سے جزءِ رفع یدین کی دو اسناد لکھی ہیں۔ ان دونوں اسناد میں ابواسحاق محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی موجود ہے اور اس کا کوئی متابع بھی نہیں ہے۔ غیرمقلدین حضرات محمد بن مقاتل کی جس سند کادعویٰ کرتےہیں کہ اس سے دوسری سند بھی روایت ہے ،اس سندکا حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے کہیں ذکر تک نہیں کیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہےکہ یہ غیرمقلدین حضرات کا آئمہ محدثین پر جھوٹاالزام ہے ورنہ اس کا حقیقت میں سے دور دور کا تعلق بھی نہیں۔
ابھی حال ہی میں زبیر علی زئی صاحب نے جزءِ رفع یدین کی تعلیق وتخریج کی ہےلیکن انہوں نے بھی محمدبن مقاتل کی سند کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی یہ کہا کہ اس کی کوئی دوسری سند بھی موجود ہے۔اگر دوسری سند ہوتی تو زبیر علی زئی صاحب ضرور پیش کرتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسری کوئی سند موجود ہی نہیں ہے۔ یہ صرف اورصرف بےعقل لوگوں کا جھوٹ ہے۔
حافظ ابن حجرعسقلانی ؒکی وہ دو اسناد جن سے جزءِ رفع الیدین مروی ہے یہ ہیں:
۱۔ ’’كتاب رفع الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاة لَهُ قرأته على الحافظين أبي الْفضل وَأبي الْحسن بسماعهما لَهُ بِقِرَاءَة الأول على أم مُحَمَّد سِتّ الْعَرَب بنت مُحَمَّد بن عَليّ بن أَحْمد بن عبد الْوَاحِد قَالَت أَنبأَنَا جدي حضورا وإجازةح وَأخْبرنَا بِهِ الْكَمَال أَحْمد بن عَليّ بن عبد الْحق إِذْنا مشافهة أَنبأَنَا الحافظان أَبُو الْحجَّاج الْمزي وَأَبُو مُحَمَّد البرزالي قَالَا أَنبأَنَا أَبُو الْعَبَّاس أَحْمد ابْن شَيبَان وَزَيْنَب بنت مكي زَاد الْمزي وأنبأنا عَليّ بن أَحْمد بن عبد الْوَاحِد قَالَ الثَّلَاثَة أَنبأَنَا أَبُو حَفْص عمر بن مُحَمَّد بن طبرزذ أَنبأَنَا أَحْمد بن الْحسن ابْن الْبناء أَنبأَنَا أَبُو الْحُسَيْن مُحَمَّد بن أَحْمد بن حسنون أَنبأَنَا أَبُو نصر الملاحمي أَنبأَنَا الْخُزَاعِيّ أَنبأَنَا البُخَارِيّ‘‘۔
۲۔ ’’وقرأت سَنَده عَالِيا على مَرْيَم بنت الْأَذْرَعِيّ وإجازتي لجميعه عَن يُونُس بن أبي إِسْحَاق عَن أبي الْحسن بن المقير عَن أبي الْفضل بن نَاصِر عَن أبي الْقَاسِم ابْن أبي عبد الله بن مَنْدَه أَنبأَنَا أَحْمد بن مُحَمَّد بن الْحُسَيْن فِيمَا كتب إِلَيْنَا أَنبأَنَا مَحْمُود بن إِسْحَاق بن مَحْمُود بن مَنْصُور الْخُزَاعِيّ بِهِ‘‘۔ (الكتاب المعجم المفهرس أو تجريد أسانيد الكتب المشهورة والأجزاء المنثورة المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علی بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلانی [المتوفى:۸۵۲ھ]،ج۱، ص۶۱، رقم۱۰۶)
قارئین خود پڑھ سکتے ہیں کہ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ کی دونوں اسناد میں ابواسحاق محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی موجود ہے اور ان اسناد میں اس کاکوئی متابع بھی موجود نہیں۔ اور محمد بن مقاتل کی سند اور روایت کا نام و نشان تک نہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ محمد بن مقاتل المروزی ؒامام بخاریؒ کے حدیث کے استاد ہیں اور امام بخاریؒ خود ان سے روایت حدیث روایت کرتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے:
’’حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ قَالَ: حَدَّثَنَا الْبُخَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصَّلَاةِ رَكْعَةً وَاحِدَةً فَقَدْ أَدْرَكَهَا» قَالَ مُحَمَّدٌ الزُّهْرِيُّ: وَنَرَى لِمَا بَلَغَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْجُمُعَةِ رَكْعَةً وَاحِدَةً فَقَدْ أَدْرَكَ»‘‘۔ (جزء ِالقراءة خلف الإمام [المنسوب للبخاری]، ص۱۵۲، رقم۱۳۵)
اس سند کو آپ دیکھیں اس میں ابواسحاق محمود بن اسحاق الخزاعی مجہول راوی امام بخاریؒ سے روایت کر رہا ہے اور امام بخاریؒ محمد بن مقاتل سے روایت کر رہے ہیں۔
اس کتاب میں دوسری سند بھی کچھ اس طر ح سے موجودہے :
’’حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ قَالَ: حَدَّثَنَا الْبُخَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْمٍ كَانُوا يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ فَيَجْهَرُونَ بِهِ: «خَلَطْتُمْ عَلَيَّ الْقُرْآنَ»‘‘۔ (جزءِ القراءة خلف الإمام [المنسوب للبخاری]،
ص۶۰، رقم۱۶۶)
اس میں بھی وہی راوی موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد بن مقاتل امام بخاریؒ ؒکے استاد ہیں  اور انہوں نے امام بخاریؒؒ سے جزءِ رفع الیدین کی کتاب کی روایت نہیں کی۔ جزء ِرفع الیدین کی کتاب کا راوی صرف ایک ہے وہ ہے محمودبن اسحق جو کہ مجہول راوی ہے۔باقی دوسری سند آج تک کوئی غیرمقلد محدث ثابت نہیں کر پایاہےاور نہ ہی قیامت تک ثابت کر سکے گا۔ (انشاءاللہ)
محمد بن مقاتل المروزیؒ کا امام بخاریؒ کا حدیث کے استاد ہونےکے دلائل درج ذیل ہے:
۱۔ امام کلاباذیؒ لکھتے ہیں: ’’مُحَمَّد بن مقَاتل أَبُو الْحسن الْمروزِي المجاور بِمَكَّة سمع عبد الله بن الْمُبَارك ووكيعا وخَالِد بن عبد الله وأسباط بن مُحَمَّد وَالنضْر بن شُمَيْل وَالْحجاج الْأَعْوَر رَوَى عَنهُ البُخَارِيّ فِي (الْعلم) و (الْهِبَة) و (تَفْسِير النِّسَاء) مَاتَ سنة سِتّ وَعشْرين وَمِائَتَيْنِ قَالَه البُخَارِيّ‘‘۔ (الكتاب: الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد، المؤلف: أحمد بن محمد بن الحسين بن الحسن، أبو نصر البخاری الكلاباذی [المتوفى:۳۹۸ھ]، ج۲، ص۶۸۱، رقم۱۱۰۳)
۲۔ خطیب بغدادی شافعی ؒلکھتے ہیں: ’’محمد بن مقاتل، أبو الحسن المروزيّ الكسائيّ: نزل بَغْدَاد، وحدث بِهَا عَن: عَبْد اللَّه بن المبارك، وعباد بن العوام، ويحيى بن عبد الملك بن أبي غنية، وخلف بن خليفة، ووكيع بن الجراح، وأبي عاصم النبيل۔ روى عَنْهُ: أَحْمَد بْن حَنْبَل؛ وَمحمد بْن إسماعيل البخاري في صحيحه، ومحمد بن إسحاق الصغاني، وجعفر بن محمد بن شاكر الصائغ، وغيرهم‘‘۔ (الكتاب: تاريخ بغداد وذيوله المؤلف: أبو بكر أحمد بن علي بْن ثابت بْن أَحْمَد بْن مهدي الخطيب البغدادی[المتوفى:۴۶۳ھ]، الناشر: دار الكتب العلمية۔ بيروت، ج۴، ص۴۱، رقم۱۶۷۹)
۳۔ امام ذہبی ؒلکھتے ہیں: ’’محمد بن مقاتل، أبو الحَسَن المَرْوَزِيّ الكِسائيّ، ولقبه رخ۔ [الوفاة: ۲۲۱-۲۳۰ه] رَوَى عَنْ: ابن المبارك، وخالد بن عبد الله، وخَلَف بن خليفة، وأوس بن عبد الله بن بُرَيْدة، وابن عُيَيْنة، وابن وهب، ومبارك بن سعيد الثوري، وطائفة۔ وَعَنْهُ: البخاري، وإبراهيم الحربيّ، وأبو زرعة، ومحمد بن إسحاق الصغاني، وإسماعيل سمويه، وأحمد بن سيار المروزي، ومحمد بن عبد الرحمن السامي، ومحمد بن علي الصائغ، ومحمد بن أيوب بن الضريس، وخلق‘‘۔ (تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي [المتوفى:۷۴۸ھ] المحقق: الدكتور بشار عوّاد معروف، ج۵، ص۶۹۰، رقم۴۰۶)
۴۔ خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: ’’ومحمد بن مقاتل، أبو الحسن المروزي۔ سمع: عبد العزيز الدراوردي، وعبد الله بن المبارك، وعباد بن العوام، ويحيى بن عبد الملك بن أبي غنية، وهشيماً۔ روى عنه: أحمد بن حنبل، ومحمد بن إسماعيل البخاري، وأبو زرعة، وأبو حاتم الرازيان، وإسماعيل بن عبد الله العبدي الأصبهاني، ومحمد بن عبد الرحمن الشامي، وغيرهم‘‘۔ (تجريد الأسماء والكنى المذكورة فی كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادی، ج۲،  ص۲۲۲)
مندرجہ بالا تمام آئمہ حدیث کے اقوال سے ثابت ہو گیا کہ محمد بن مقاتلؒ امام بخاریؒ کےاستاد ہیں اور امام بخاریؒ نے ان سے احادیث نقل کی ہیں۔ اور محمد بن مقاتلؒ نام کا ایسا کوئی دوسراراوی موجود نہیں جو امام بخاریؒ کا شاگرد ہو اور اس نے امام بخاریؒ سے جزءِ رفع الیدین کتاب روایت کی ہو۔
اعتراض نمبر۶: ’’زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۵پر اپنا چھٹا اعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ابن ملقن نے اسے ضعیف لایصح عنہ کہا‘‘۔ (البدرالمنیر: ج۳، ص۴۹۹)
جواب نمبر۶: امام ابن ملقنؒ کی جرح کے الفاظ بالکل مبہم ہیں اورمبہم الفاظ کی جرح و تعدیل کے میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ اصول حدیث کی رو سےمحض حدیث کے ضعیف ہونے کا دعویٰ کردینے سے حدیث موضوع یا باطل نہیں ہوجاتی جب تک کہ وجوہِ طعن ثابت نہ ہو۔ اگر اس طرح سے کسی بھی محدث کی مبہم جرح کو قبول کرلیا جائے تو پھرکتب احادیث میں سےکوئی بھی حدیث اور کوئی بھی کتاب نہ بچ پائے گی، کیونکہ ہر حدیث پر یا احادیث کی کتابوں پرکسی نہ کسی  محدث کی جرح کے الفاظ ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری جیسی اصح الکتب پر بھی ائمہ محدثین سے جرح کے الفاظ منقول ہیں۔ ہم یہاں بطور مثال چندجرحین پیش کئے دیتے ہیں:
۱۔  میزان الاعتدال میں ہے: "کما امتنع ابو ذرعة و ابو حاتم من روایة عن تلمیذہ [أی ابن المدینی] محمد [أی البخاری] لاجل مسئلة اللفظ"۔ ‏’’جیسا کہ ابو ذرعہ اور ابو حاتم نے ان [علی بن المدینی] کے شاگرد [امام بخاری] سے الفاظ قرآن کے اختلاف کی بناء پر روایت کرنا ترک کردیا‘‘۔
‏"وقال عبد الرحمن بن ابی حاتم کان ابو ذرعة ترکه الروایة عند من اجل ما کان منه فی تلك المحنة"۔ ’’عبد الرحمٰن بن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ اس آزمائش کی بناء پر ابو ذرعہ نے امام بخاریؒ سے روایت کرنا ترک کردیا‘‘۔ (میزان الاعتدال)
۲۔ حافظ الحدیث ابوعبداللہ محمد بن مندہؒ (ولادت ۳۱۰ھ، وفات ۳۹۵ھ) نے بخاریؒ کو مدلسین میں شمار کیا ہے: "عدہ ابوعبداللہ محمد بن مندہ فی رسالة شروط الائمة من المدلسین حیث قال اخرج البخاری فی کتبه قال لنا فلان وھی اجازة و قال فلان وھی تدلیس"۔ ‏’’ابوعبداللہ محمد بن مندہؒ نے بخاریؒ کو اپنے رسالہ "شروط الائمہ" میں مدلسین میں شمار کیا ہے۔ چناچہ فرمایا کہ بخاری نے اپنی کتابوں میں اس طرح روایتیں بیان کی ہیں کہ ہم نے فلاں سے کہا "یہ اجازت ہے" اور فلاں نے کہا"یہ تدلیس ہے"‘‘۔ (شرح مختصر جرجانی: ص ۲۱۵)
۳۔ دارقطنیؒ اور حاکمؒ نے کہا ہے کہ اسحق بن محمد بن اسماعیلؒ سے بخاریؒ کا حدیث روایت کرنا معیوب سمجھا گیا ہے: "قال الدار قطنی والحاکم عیب علی البخاری اخراج حدیثه"۔ ‏’’دارقطنی اور حاکم نے فرمایا کہ روایت حدیث میں بخاری پر الزام لگایا گیا ہے‘‘۔ (مقدمہ فتح الباری :ص ۴۵۱)
۴۔ دارقطنیؒ اور حاکمؒ کا مطلب یہ ہے کہ اسحاق بن محمد کو بخاری ؒنے ثقہ خیال کرلیا حالانکہ وہ ضعیف ہیں۔ ثقہ اور ضعیف میں امتیاز نہ کرسکے اور اسماعیلؒ نے بخاری ؒکے اس فعل پر تعجب کیا ہے کہ ابو صالح جہنی کی منقطع روایت کو صحیح سمجھتے ہیں اور متصل کو ضعیف: "وقد عاب ذالك الاسماعیل علی البخاری وتعجب منه کیف یحتج باحادیثه حیث یقلقها فقال ھذا اعجب یحتج به اذا کان منقطعا ولا یحتج به اذا کان متصلا"۔ ‏’’اسماعیل نے بخاری پر اس کا الزام لگایا اور تعجب کیا کہ ابو صالح جہنی کی احادیث سے کیونکہ استدلال کرتے ہیں جب کہ وہ متصل نہیں ہیںفرمایا یہ اور زیادہ عجیب بات ہے کہ حدیث منقطع کو قابل حجت اور متصل کو ضعیف سمجھتے ہیں‘‘۔  (مقدمہ فتح الباری : ص ۴۸۳)
مندرجہ بالا ائمہ محدثین کی جرحوں کےمطابق تو صحیح بخاری کی احادیث ضعیف ثابت ہوتی ہیں لیکن آج ہم مسلمان صحیح بخاری کو قرآن کے بعد اصح الکتب کا درجہ دیتے ہیں حالانکہ امام بخاریؒ پر کی جانے والی جرحوں میں ائمہ محدثین نے وجوہِ طعن بھی بیان کیا ہے کہ امام بخاریؒ پر یہ الزام تھا کہ وہ قرآن کے الفاظ کو مخلوق قرار دیتے تھے۔
امام ابن ملقنؒ کی جرح کے الفا ظ یہ ہیں:
’’وأما الْآثَار فأثر عَلّي رَضِيَ اللَّهُ عَنْه ضَعِيف لَا يَصح عَنهُ، وَمِمَّنْ ضعفه البُخَارِيّ ثمَّ رُوِيَ تَضْعِيفه عَن سُفْيَان الثَّوْريّ، وَرَوَى الْبَيْهَقِيّ فِي سنَنه و خلافياته عَن عُثْمَان الدَّارمِيّ أَنه قَالَ: قد رُوِيَ هَذَا الحَدِيث عَن عَلّي من هَذَا الطَّرِيق الواهي‘‘۔ (البدرالمنیر: ج۳، ص۴۹۹)
امام ابن ملقنؒ کی جرح کے مکمل الفاظ کے مطالعےسے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن ملقنؒ نے اس حدیث پرتحقیق سے کا م نہیں لیا بلکہ خودکوئی تحقیق کرنے کے بجائے امام بخاریؒ اورسفیان ثوریؒ کی ضعیف الاسناد والی جرحوں پر اعتماد کیا۔ جبکہ امام بخاریؒ کی جرح کی سند میں محمود بن اسحاق مجہول راوی ہےاورامام سفیان ثوریؒ کی سند میں امام بخاریؒ کی ملاقات امام عبدالرحمٰن بن مہدی سے ثابت نہیں لہٰذا یہ سندمنقطع ہے اور امام دارمی کی جرح خود ضعیف ہے کیونکہ ان کی پیش کردہ روایت میں عبدالرحمٰن بن ابی الزناد ضعیف راوی موجود ہے اور امام شافعی کی جرح کی سند میں امام بیہقیؒ سے لے کر امام زعفرانیؒ تک سند نامعلوم اور منقطع ہے۔ امام ابن ملقن ؒان تمام ضعیف جرحوں سے دھوکہ کھا گئے اور خود ان سے دلیل لے بیٹھے۔ امام ابن ملقنؒ اگریہاں خودتحقیق کرتے اورراویوں کی چھان پھٹک کرتے تواس حدیث کوکبھی ضعیف نہ کہتے حا لانکہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی بھی ضعیف نہیں ہے۔ لہٰذا جب ثابت ہوگیا کہ یہ تمام جرحیں ضعیف ہیں تو امام ابن ملقن ؒکی جرح خود بخود ضعیف اور غیرمفسرثابت ہو گئی۔ اصول حدیث کے مطابق زبیرعلی زئی صاحب کاامام ابن ملقنؒ  کی مبہم جرح پیش کرنا بھی غلط ثابت ہوا۔
لہٰذا تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت علی رضی اﷲعنہ کی ترکِ رفع یدین والی حدیث پر زبیرعلی زئی صاحب کی پیش کردہ تمام جرحیں ضعیف اور مردود ہیں اور ترک رفع یدین کی حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے باسندصحیح ثابت ہے۔
اعتراض نمبر۷-۱: ’’زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۵پر اپنا ساتواں اعتراض نقل کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ: ’’جمہور محدثین کے نزدیک یہ اثر ضعیف و غیر ثابت ہے لہٰذا اس سے استدلال مردود ہے‘‘۔ (نور العینین: ص۱۲۵)
جواب نمبر۷-۱: زبیر علی زئی صاحب کےعلمی وتحقیقی معیار کا اندازہ ان کی تحریر سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ موصوف  صرف ۶محدثین کی مبہم اورضعیف ومنقطع جرحوں کو پیش کرکے کتنا بڑا جھوٹ بول رہے ہیں کہ جمہور محدثین کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ حالانکہ اس کا حقیقت سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔لگتا ہے زبیر علی زئی صاحب کے نزدیک صرف ۶محدثین کی مبہم اورضعیف ومنقطع جرحیں ہی جمہور ہیں۔ جس فرقے کے عالموں کا یہ حال ہے اس کے جہلا کا کیا حال ہوگا۔ اللہ بچائے ان جیسے متعصب عالموں کی ناقص تحقیق سے۔(آمین)
زبیرعلی زئی صاحب کے اس باطل دعویٰ پر ہم اس حدیث کی تصحیح کرنے والے ائمہ محدثین کے نام بمع حوالہ جات پیش کیئے دیتے ہیں:
۱۔ امام طحاوی ؒفرماتے ہیں: ’’فحدیث علی اذا صح‘‘۔ (شرح معانی الآثار:ج۱، ص۱۵۵، رقم۱۳۵۶)
۲۔ امام بدرالدین عینیؒ فرماتے ہیں: ’’صحیح علی شرط مسلم‘‘۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری: ج۵، ص۲۷۳)
۳۔ امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں: ’’موقوفا صوابا‘‘۔ (العلل الدرقطنی: ج۴، ص۱۰۶)
۴۔ امام ابن ترکمانیؒ فرماتے ہیں: ’’رجالہ ثقات‘‘۔ (الجوہر النقی: ج۲، ص۷۸)
۵۔ امام ابن دقیق العیدؒ فرماتے ہیں: ’’مائل بہ تصحیح‘‘۔ (نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۱۳)
۶۔ امام زیلعیؒ فرماتے ہیں: ’’و ھو اثر صحیح‘‘۔ (نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۶)
۷۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں: ’’رجالہ ثقات‘‘۔ (الدرایۃ: ج۱، ص۱۵۳)
۸۔ امام مغلطائیؒ فرماتے ہیں: ’’مائل بہ تصحیح‘‘۔ (شرح ابن ماجہ: ج۱، ص۱۴۷۳)
۹۔ امام قاسم بن قطلوبغا لکھتے ہیں: ’’سندہ ثقات‘‘۔ (التعریف والاخبار: ص۳۰۹)
۱۰۔ ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں: ’’ مائل بہ تصحیح‘‘۔  (اسرار المرفوعۃ:ج۱، ص۴۹۴)
اعتراض نمبر۷-۲: ’’زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۵پر اپنا ساتواں اعتراض نقل کرتے ہوئے مزیدلکھتے ہیں: ’’اس حدیث میں رکوع کا ذکر نہیں ہے، یعنی یہ عام ہے اور رفع الیدین والی روایات (من جملہ حدیث علیؓ) خاص ہیں اوریہ اصول ہے کہ خاص عام پر مقدم ہوتا ہے‘‘۔ (نور العینین: ص۱۲۵)
جواب نمبر۷-۲: زبیر علی زئی صاحب کےعلمی وتحقیقی معیار کا اندازہ ان کی تحریر سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ موصوف  اس حدیث میں رکوع کے رفع یدین کاذکر نہ ہونے کی نشاندہی فرمارہے ہیں جبکہ غیرمقلدین حضرات کی طرف سے رفع یدین کرنے پرپیش کی جانے والی صحیح بخاری کی احادیث میں رکوع کے رفع یدین کا ذکر تو ملتاہے لیکن تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے ہوئے کیئے جانے والےرفع یدین کا ذکرنہیں ملتا جبکہ غیرمقلدین حضرات تیسری رکعت کے رفع یدین کو بھی فرض قراردیتے ہیں۔تو پھر زبیرعلی زئی صاحب صحیح بخاری کی احادیث کو بطوردلیل کیوں پیش کرتے ہیں جبکہ اس میں تیسری رکعت کے رفع یدین کا ذکر تک نہیں؟ اسی طرح سجدوں کارفع یدین بھی بے شمار صحیح احادیث میں ذکر ہواہے، لہٰذا اگربعض احادیث میں سجدوں کے رفع یدین کا ذکرنہیں ملتاتوکیایہاں موصوف کو عام اور خاص کا فرق نظرنہیں آیا؟ یا پھر زئی صاحب یہاں یہ اصول بھول گئے کہ خاص عام پر مقدم ہوتا ہے؟
دوسری بات یہ کہ زبیرعلی زئی صاحب حضرت علیؓ کی جس حدیث کی بنیاد پر عام اور خاص کا فرق بتارہے ہیں وہ حدیث عبدالرحمٰن بن ابی الزناد (مجہول راوی) کی وجہ سے ضعیف ہے جس کے ضعف کو ہم اوپر ائمہ محدثین کی جرحوں سے ثابت کرچکے ہیں لہٰذا حضرت علیؓ کی ترکِ رفع یدین والی بالکل صحیح سند پر عبدالرحمٰن بن ابی الزناد (مجہول راوی) کی سند کو عام اور خاص کے فرق کے ساتھ پیش کرناباطل اور مردود ثابت ہوا۔
اعتراض نمبر۷-۳: ’’زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب نور العینین کےصفحہ نمبر۱۶۵پر اپنا ساتواں اعتراض نقل کرتے ہوئے مزیدلکھتے ہیں: ’’پھر منکرین رفع الیدین قنوت اور عیدین میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں‘‘۔ (نور العینین: ص۱۲۵)
جواب نمبر۷-۳: زبیر علی زئی صاحب کے اس منطقی اعتراض کا جواب یہ ہے کہ احناف نمازمیں جن مواقعوں (یعنی رکوع میں جاتےوقت، رکوع سے اٹھتےوقت، سجدے میں جاتےاور اٹھتےوقت، دونوں سجدوں کے درمیان، دوسری رکعت کے شروع میں، تیسری رکعت کے شروع میں اور سلام پھیرتے وقت) کے رفع یدین کو منسوخ مانتے ہیں ان تمام مواقعوں پر رسول اﷲﷺ سے رفع یدین کرنا بھی ثابت ہےاورنہ کرنا بھی جبکہ اس کے برعکس نمازِ عیدین اور نمازِ وتر میں جن مواقعوں پر احناف رفع یدین کرتے ہیں ان مواقعوں پر رسول اﷲﷺ سے رفع یدین کرنے کی دلیل تو ملتی ہے لیکن نہ کرنے کی دلیل نہیں ملتی۔ اسی لئے ہم (احناف) ان مواقعوں پر رفع یدین کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ نمازِ عیدین میں نہ اذان دی جاتی ہے اور نہ اقامت (تکبیر)کہی جاتی ہےاوراس کے پڑھنے کا طریقہ بھی عام نمازوں سے بالکل مختلف ہے لہٰذا اس کو نمازِ پنجگانہ سے مشابہت دینا  اوراس کے حکم کا اطلاق کرناعقل سے بالاترہے۔
تیسری بات یہ کہ ہم (احناف) نمازِ عیدین اور نمازِوتر میں جن مقامات پر رفع یدین کرنے کے قائل ہیں وہ نمازِ پنجگانہ میں کیئےجانے والے رفع یدین کے مقامات سے بالکل الگ ہیں ۔ لہٰذااگر ہم نمازِ عیدین اور نمازِوتر میں ان مقامات پر رفع یدین کے قائل ہوتے جن مقامات پرمنسوخ سمجھتے ہیں تو اعتراض کی صورت بنتی تھی لیکن جب ہم ان نمازوں میں بھی ان مقامات پر رفع یدین کے قائل نہیں تو پھر اعتراض کس بات کا؟
غیرمقلدین حضرات کے اس اشکال پر ہمارا بھی حق بنتاہے کہ ہم بھی کچھ اشکال پیش کریں۔ غیرمقلدین حضرات جو وترکی تیسری رکعت میں بعدازرکوع رفع یدین کرنےکے بجائے عام دعاکی طرح ہاتھ اٹھاکردعائے قنوت پڑھتے ہیں، کیا اس عمل کے بارے میں زبیرعلی زئی صاحب یا کسی غیرمقلد کے پاس کوئی ایک صحیح صریح مرفوع حدیث ہے؟ اگرہے تو ذراپیش فرمائیں ورنہ اس قسم کے سطحی اعتراضات سے گریز فرمائیں۔
دعاء ِقنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، فتاویٰ علمائے حدیث
دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے چنانچہ اسود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دعائے قنوت میں سینہ تک اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تھے اور ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میں ہمارے ساتھ دعاءِ قنوت پڑھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں بازو ظاہر ہو جاتے اور خلاص سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس کو دیکھا کہ نماز فجر کی دعاء ِقنوت میں اپنے بازو آسمان کی طرف لمبے کرتے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ماہِ رمضان میں دعاءِ قنوت کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے اور ابو قلابہ اور مکحول بھی رمضان شریف کے قنوت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اورابراہیم سے قنوت وتر سے مروی ہے کہ وہ قرأۃ سے فارغ ہوکر تکبیر کہتے اور ہاتھ اٹھاتے پھر دعائے قنوت پڑھتے پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرتے اور روایت ہے وکیع سے وہ روایت کرتا ہے محل سے وہ ابراہیم سے کہ ابراہیم نے محل کو کہا کہ قنوت وتر میں یوں کہا کرو اور وکیع نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے قریب تک اٹھا کربتلایا اور کہا کہ پھر چھوڑ دیوے ہاتھ اپنے عمر بن عبدالعزیز نے نماز صبح میں دعاءِ قنوت کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور سفیان سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو دوست رکھتے تھے کہ وتر کی تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھ کر پھر تکبیر کہے اوردونوں ہاتھ اٹھاوے پھر دعائے قنوت پڑھے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ قنوت میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھاوے کہا ہاں مجھے یہ پسند آتا ہے۔ ابوداؤد نے کہا کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اسی طرح شیخ احمد بن علی المقریزے کی کتاب مختصر قیام اللیل میں ہے اور ابو مسعود اور ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی ان قاریوں کے بارے میں جو معونہ کے کنوئیں میں مارے گئے قنوت وتر میں دونوں ہاتھوں کااٹھانا مروی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تحقیق میں نے رسول اللہﷺ کو ان لوگوں پر جنہوں نے قاریوں کو قتل کیا تھا ہاتھ اٹھا کر بد دعاء کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسے ہی بیہقی کی کتاب مسمیٰ معرفت میں ہے۔ حررہ عبدالجبار الغزنوی عفی عنہ (فتاویٰ غزنویہ: ص ۵۱) (فتاویٰ علمائے حدیث: جلد ۴،ص ۲۸۳)
آخرمیں میں اس تحریر کا اختتام زبیرعلی زئی صاحب اوران کے فرقے کے لوگوں کو زئی صاحب کی اپنی لکھی ہوئی عبارت کے حوالےسے نصیحت کرتے ہوئےکرتاہوں۔
امیرالمومنین خلیفہ ھارون رشیدرحمہ اﷲ کے نزدیک حدیث رسول اﷲﷺ پرطعن کرنے والا ملحداور زندیق ہے
زبیرعلی زئی صاحب اپنے رسالہ ماہنامہ الحدیث شمارہ نمبر۶صفحہ نمبر۳پرامیرالمومنین خلیفہ ھارون رشیدؒ کا ایک واقع بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’معلوم ہوا کہ امیرالمومنین ھارون رشیدؒکے نزدیک حدیث رسول اﷲﷺ پرطعن کرنے والاملحد اور زندیق ہے، آج کل بعض کلمہ گولوگ کتاب وسنت کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس بات سے غافل ہیں کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جب ہرانسان اپنے رب کے سامنے پیش ہوگا، جس نے نبی کریمﷺکی احادیث رد کی ہوں گی وہ اﷲتعالیٰ کو کیا جواب دے گا؟‘‘۔ (رسالہ ماہنامہ الحدیث: شمارہ نمبر۶،صفحہ نمبر۳)
مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب حدیث رسولﷺ پرطعن کرنے والوں کو ملحد اور زندیق بھی کہہ رہے ہیں اورخودبھی وہی کام کررہے ہیں۔ زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج وہ بھی ترکِ رفع الیدین پرحضرت علی رضی اﷲعنہ کی بالکل صحیح سند و متن کی حدیث کو صرف مسلکی ہمایت اور فرقہ واریت کے سبب رد کررہے ہیں اوراپنی ہی لکھی تحریر کی کھلی مخالفت کررہے ہیں۔ زبیرعلی زئی صاحب اور ان کے متبعین کو یہ سوچنا چاہیئے کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جب ہرانسان اپنے رب کے سامنے پیش ہوگا، جس نے نبی کریمﷺکی صحیح احادیث رد کی ہوں گی وہ اﷲتعالیٰ کو کیا جواب دے گا؟